مرزا غلام احمد قادیانی روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 125 پر کہتا ہے۔
"ایک اَور بات قابل توجہ یہ ہے کہ ہمارے علماء کی ضد تو اس بات پر ہے کہ ابن مریم کے اُترنے کے بارہ میں جو حدیث ہے اس کو حقیقت پر حمل کرنا چاہیئے لیکن ان کے بعض عقلمندوں سے جب اس حدیث کے معنے پوچھے جائیں کہ ابن مریم اُترے گا اور صلیب کو توڑؔ ے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا تو ابن مریم کے لفظ کو تو حقیقت پر ہی حمل رکھتے ہیں اور صلیب اور خنزیر کے بارہ میں کچھ دبی زبان سے ہماری طرح استعارہ اور مجاز سے کام لینا شروع کر دیتے ہیں۔پس وہ لوگ اپنی اس کارروائی سے خود ملزم ٹھہرتے ہیں کیونکہ اس صورت میں اُن پر یہ حجت وارد ہوتی ہے کہ اِن تین لفظوں میں سے جو ابن مریم کااُترنا اور صلیب کا توڑنا اور خنزیروں کا قتل کرنا ہے دو لفظوں کی نسبت تو تم آپ ہی قائل ہو گئے کہ بطور استعارہ ان سے اور معنے مراد ہیں تو پھر یہ تیسرا کلمہ جو ابن مریم کا اُترنا ہے کیوں اس میں بھی بطور استعارہ کوئی اور شخص مراد نہیں ؟"
مرزا جی اگر آپ ان بعض عقلمندوں کا نام بتا دیتے تو مہربانی ہوتی ۔پتہ تو چلتا کہ یہ کون سے عقلمند ہیں ؟
مرزا جی ہم بھی اور سلف صالحین بھی کسر صلیب و قتل خنزیر کو حقیقت پر ہی محمول کرتے ہیں ہمیں یہاں استعارہ و مجاز استعمال کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ۔
"ایک اَور بات قابل توجہ یہ ہے کہ ہمارے علماء کی ضد تو اس بات پر ہے کہ ابن مریم کے اُترنے کے بارہ میں جو حدیث ہے اس کو حقیقت پر حمل کرنا چاہیئے لیکن ان کے بعض عقلمندوں سے جب اس حدیث کے معنے پوچھے جائیں کہ ابن مریم اُترے گا اور صلیب کو توڑؔ ے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا تو ابن مریم کے لفظ کو تو حقیقت پر ہی حمل رکھتے ہیں اور صلیب اور خنزیر کے بارہ میں کچھ دبی زبان سے ہماری طرح استعارہ اور مجاز سے کام لینا شروع کر دیتے ہیں۔پس وہ لوگ اپنی اس کارروائی سے خود ملزم ٹھہرتے ہیں کیونکہ اس صورت میں اُن پر یہ حجت وارد ہوتی ہے کہ اِن تین لفظوں میں سے جو ابن مریم کااُترنا اور صلیب کا توڑنا اور خنزیروں کا قتل کرنا ہے دو لفظوں کی نسبت تو تم آپ ہی قائل ہو گئے کہ بطور استعارہ ان سے اور معنے مراد ہیں تو پھر یہ تیسرا کلمہ جو ابن مریم کا اُترنا ہے کیوں اس میں بھی بطور استعارہ کوئی اور شخص مراد نہیں ؟"
مرزا جی اگر آپ ان بعض عقلمندوں کا نام بتا دیتے تو مہربانی ہوتی ۔پتہ تو چلتا کہ یہ کون سے عقلمند ہیں ؟
مرزا جی ہم بھی اور سلف صالحین بھی کسر صلیب و قتل خنزیر کو حقیقت پر ہی محمول کرتے ہیں ہمیں یہاں استعارہ و مجاز استعمال کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ۔