• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

انسان اور اللہ عزوجل کی زات

غلام نبی قادری نوری سنی

رکن ختم نبوت فورم
انسان اور اللہ عزوجل کی زات
قسط نمبر 8
سستی کاہلی اور غیر محفوظ ہونے کا احساس۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
معزز قارئین زی وقار جیسا کہ اپ تمامی احباب جانتے ہیں کہ ہم نے علم نفسیات سے اللہ تک پہنچنے کی اگاہی کے سلسلے میں مضامین کو اقساط کی شکل دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے جس کی گزشتہ اقساط میں ہم نے نفس اور جبلیات نفس پر بات کی ، اب آگے اقساط میں ان شاء اللہ اس موضوع پر بحث ہوگی جو تربیت نفس اور حقائق تصوف پر مبنی ہوں گی ، روحانیات و تصوف کے درمیان فرق سمیت ہر پچیدہ مرحلے اور منازل پر ان شاء اللہ علم نفسیات کی روشنی میں بات کرنے کی کوشش ہوگی ،
انسان کے مزاج میں قدرتی طور پر سستی اور کاہلی نمایاں ہے ، یہ اپنی سستی کو چھپانے کے لیے روٹین کا سہارا لیتا ہے ، انسانوں کی غالب اکثریت کبھی بھی اصل اور صحیح معنوں میں مشکل کام نہیں کرنا چاہتی ، فطرتا انسان چاہتا ہے کہ وہ کسی momentum میں لگا رہے ، فارمولے پر چلتا رہے ، جو کام بہت زیادہ محنت والا ہے اسے کوئی اور کرلے ، نفس کی اس کمزوری کی وجہ سے رہنمائی leadership کا دنیا میں وجود قائم ہے ، اسی کی بدولت لیڈر پیدا ہوتے ہیں خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہوں، دنیاوی یا روحانی ہر شعبے میں سست کاہل اور درمیانے انسانوں کے ہجوم میں کوئی ایک ہوتا ہے جو کامیابی کی چوٹیوں پر پہنچنا چاہتا ہے ، اس ہجوم کا حصہ نہیں بننا چاہتا بلکہ آسمان کا ستارہ بننے کی طلب رکھتا ہے قدرت اس سے تاوان مانگتی ہے قربانی اور بے پناہ ریاضت طلب کرتی ہے جس بھی میدان میں اس کا تعلق ہے اُس میں مصروف ہر انسان سے زیادہ اسے محنت کرنا ہوتی ہے مشقت کرنا ہوتی ہے ، ناکامیوں مسائل اور مصائب کی پُرخار اور طویل ترین راہ گزرسے اسے تن تنہا گزرنا ہوتا ہے
یہ وہ رہ گزر ہے جس پر چلنے سے اس کے اردگرد کے اپنی سستی کاہلی کے زیر اثر خوفزدہ رہتے ہیں ، جس انسان کو جتنا آگے نکلنا ہوتا ہے جتنی اُس کی طلب ہوتی ہے اسی حساب سے قدرت اس کا امتحان لیتی ہے ، جتنی بڑی طلب ہوگی اتنا ہی کٹھن اور اتنا ہی طویل امتحان ہوگا ، ہر ممکن حتی کہ ناممکن طریقے سے بھی آزمایا جاتا ہے آخر کار ایک طویل جانفسانی کے بعد یہ دُر نایاب چمک اٹھتا ہے ، عرفان عطا ہوتا ہے ہر شعیبے ہر میدان اور فن کا اپنا عرفان enligtenment ہے ، اس عرفان سے کم پر راضی ہوجانا ہی سستی کاہلی ہے ،۔
کسی بھی شعبے میدان اور فن کی معرفت مل جانے کے بعد اس سے منسلک دوسرے انسان اس مرد میدان کے آگے سرنگوں ہوجاتے ہیں اور اسی کی پیروی کرنا پسند کرتے ہیں ، سارا کام ایک ہی آدمی کا ہوتا ہے ،۔ اللہ کو بھی اپنے کام کے لیےہجوم کی ضرورت نہیں ہوتی صرف ایک موزوں آدمی کو چن لیتا ہے اسی سے سارا کام لیا جاتا ہے ، زندگی کی بھٹی میں جلتی سخت آگ میں بلا خوف و خطر کود جانے والوں کو ہی بلاآخر کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں ۔۔۔۔
اسی طرح ہم سب محفوظ رہنا چاہتے ہیں ، ہر وقت اپنے بچاو اپنی بقا کے نت نئے آئیڈیاز کھوجتے رہتے ہیں ہمارے نفس کی یہ بہت بڑی خصلت ہے کہ زہن انسان اول دن سے ہی عدم تحفظ کا شکار ہے ۔ہر وقت خائف رہتا ہے ۔،
چوٹ لگنے کا ڈر ، ماں باپ سے بچھڑ جانے کا ڈر ، امتحان میں ناکامی کا، کاروبار میں خسارہ ، صحت کی خرابی مالی مشکلات، اپنی ناکامیوں کا ڈر، بیوی بچوں کے مستقبل کا خوف مال و دولت کے خاتمہ کا ڈر غربت میں زلت کا ڈر سوسائنٹی میں کمزور رہ جانے کی فکر اقتدار میں آنے کی ہوس اور پھر اقتدار کے چھن جانے کے بھیانک خواب جیسی اس کی ان گنت اشکال ہیں
یہ خود پر غیر محفوظ محسوس کرنا نفس کے پور پور میں سمایا ہوا ہے ، انسان خود کو ہر قیمت پر دوسروں سے محفوظ ، بلند اور طاقتور دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہی ایک زریعہ ہے خود کو محفوظ کرنے کا جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ، عدم تحفظ کا احساس زہن کی موت ہے ، یہ زہن کا بگاڑ deterioration ہے ، ایک ایسا زہن ہے جو ہر وقت اپنی زات کو مضبوط باعزت اور کامران رکھنے کے منصوبے بنانے میں مصروف ہے وہ آزاد نہیں ،بلکہ اپنی خواہشوں کا غلام ہے ، یہ ہر وقت کی فکر اس کی عمر گھٹاتی ہے aging precess کو تیز کرتی ہے ، غیر تربیت یافتہ نفس یا کم علم نفس چونکہ عدم تحفظ کی ہر لمحہ بڑھتی طلب کو اپنی عادت سمجھتا ہے اور دوسرے عام لوگوں کو اپنے۔ اردگرد ایسا ہی کرتے ایسے ہی جیتے دیکھتا ہے لہذا وہ اس بات پر اثبات کی مہر لگا لیتا ہے اور کبھی جان ہی نہیں پاتا کہ یہ اس کی خصلت تو تھی مگر بری تھی نتیجتا ایک عام درجے کی بےچارگی والی موت کو چاروناچار فطری انجام کے طور پر قبول کرنے کے علاوہ اسکے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہوتا ، جو نفوس علم کی روشنی سے خود کو پہچانتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ عدم تحفظ کا ہر لمحہ بے چین کرتا احساس ان کے زہن کا اصل دشمن ہے ، اپ اللہ کے ولیوں کو کبھی امارات میں ڈوبا ہوا نہیں پائیں گے استثنیٰ جسے اللہ دے دے کیونکہ وہ بادشاہ حقیقی ہے ہر چیز پر قادر ہے وگرنہ اصول یہ ہے کہ اطمنان دھن دولت میں نہیں ہوگا ۔ اللہ کے قرب میں داخل بندوں سے ملا جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ خلق سے بے نیاز اپنے حال پر مطمئن ہیں اپنے ماضی کو بھول بھال کر سب کچھ اللہ کے سپرد کئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ہے جس حالت میں ہے اس پر خوش ہیں کہ اصول پر اپنے آپ کو اطمینان قلب کی سحر انگیز زندگی جیتے نظر آئیں گے ۔۔۔۔۔
اضطراب سے کوسوں دور بے چینی سے ناآشنا اللہ کی رضا میں راضی رہنے والے ان لوگوں کو اگر اپ سادہ لوح innocent سمجھتے ہیں تو آپ کو خبر ہونی چاہیے کہ یہ لوگ اصل میں سب سے بلند عقلوں والے انتہائی گھاگ شاطر کائیاں اور نہایت تجربہ کار کاروباری ازہان کے مالک اور زبردست حکمت عملی کے حامل ایسے لوگ ہوتے ہیں ۔ جنہوں نے اپنے نفس کو علم کی تربیت دے کر اللہ سے اس دنیا کے بدلے آخرت کا سب بے بڑا اور کامیاب سودا کرلیا ہوتا ہے
یہ سودا عوام الناس کے بس کی بات نہیں ۔ اس کے لیے عظیم ہمت اور انتہائی تیز نظر درکار ہوتی ہے جو جذبات سے نہیں بلکہ علم سے عطا ہوتی ہے ۔یہ رہنما یہ طاقتور ازہان کے مالک نہ صرف آخرت کی کامیابی کے کیے مصروف رہتے ہیں بلکہ اس دنیا میں بھی کامیاب ترین زندگی گزارتے ہیں ،،،،،
یہ اللہ کے مخلص ترین بندے ہوتے ہیں جن پر شیطان کا کوئی بس نہیں چلتا ،جس انسان کی کامیابی کو اللہ عزوجل خود (فوذا عظیما) یعنی بہت بڑی کامیابی کہہ دے اس کے زہن اسکی حکمت عملی اس کی کاروباری سوجھ بوجھ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟؟؟؟؟
ہر لمحہ دنیا نادری مین الجھا ہوا زہن سچ نہیں دیکھ سکتا ۔ علم اور عقل اگر اللہ بڑھا دے تو زاویہ نظر اللہ وسیع کردے تو انسان اپنی زندگی کا اپنے شعور کا اپنے نفس کا غیر جانبدار ہوکر جائزہ لینے کے قابل ہوجاتا ہے
آہستہ آہستہ گھاس سے بھرے میدان میں گھاس کی ایک ایک پتی کو اٹھا کر حقائق کا جائزہ لیتے ہوئے دھیرے دھیرے وہ اس میدان کی اصل حقیقت کو دریافت کرنے لگتا ہے
وَمَنْ یُّسْلِمْ وَجْھَہٗٓ اِلَی اللّٰہِ وَھُوَ مُحْسِن’‘ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ط وَاِلَی اللّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ
اور جس نے نیک ہوکر اپنا منہ اللہ کے سامنے جھکا دیا تو اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا اور آخر کار ہر معاملہ اللہ ہی کے حضور میں پیش ہونا ہے
سورہ لقمان آیت 22
جب انسان کو بلند نطر عطا ہوتی ہے تو وہ جان لیتا ہے کہ یہ خوف صرف ایک فریب ہے خواہ وہ کسی بھی چیز کا ہو دوسروں سے بلند ہونے کی ڈیمانڈ اس کے نفس کا پاگل پن ہے پھراہستہ آہستہ اس کے نفس میں اعتدال کا ظہور ہونے لگا ہے ، یہ بات درست ہے کہ سب کو دولت چاہیے مگر سوال یہ ہے کہ کتنی ؟؟؟؟
کیا اس دولت کے لیے خود کو بے پناہ مشقت کی بھٹی میں جھونک دینا چاہیے یا اعتدال پر رہتے ہوئے مناسب بندوبست پر رک جانا چاہیے ؟ واضح رہے کہ یہاں رہبانیت اور نام نہاد پیری فقیری لائن کی بات نہیں ہورہی اور نہ ہی اللہ یہ چاہتا ہے کہ انسان اپنے بیوی بچوں کو بے سہارا اور مصیبت میں چھوڑ دے
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا
اے لوگو اعتدال اختیار کرو اگر یہ نہ ہوسکے تو اس کے قریب تر رہو
(صحیح مسلم 7117)
نہ تو یہ دور حاضر کے کسی مسلمان میں ہمت ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ پر من و عین کاربند ہوسکے اور نہ ہی آج کے دور میں آسان ہے کہ اس قدر کمال حاصل ہو کہ زندگی آپ ﷺ کی اسوہ حسنہ پر مکمل اور سختی سے کاربند کی جاسکے لیکن کوشش تو کی جاسکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ فالو تو کرنا ہے اپنے کریم آقا ﷺ کو ۔۔۔۔ جتنی ہمت ہے اتنا تو کرو ۔۔۔۔۔۔ جو اختیار میں ہے وہ تو کرو۔۔۔۔۔ جیسے جیسے نفس کو زندگی کے ہر عمل میں اعتدال کی تربیت دی جاتی ہے وہ آزاد ہوتا چلاجاتا ہے ۔۔۔۔ انرجی سے بھرپور ایک مطمئن نفس ہی ایک جواب اور بھرپور صحت مند زہن کا مالک ہوسکتا ہے ۔۔۔
ایسے زہن کو بڑھاپا نہیں ہوتا۔۔۔ اللہ اپنے دوستوں کی عقل کبھی زائع نہیں کرتا ۔۔۔۔ ساری زندگی عزت اور وقار سے اس کے دوست جیتے ہیں ۔۔۔۔ آزمائشوں سے ہر لمحہ برسرہیار مگر باوقار آزاد ازہان کے مالک آزاد لوگ۔۔۔۔۔
ایسے آزاد زہن کی مثال ایک تند و تیز طوفانی رفتار سے چلتے پہاڑی چشمے کے درمیان مضبوطی سے جمے پتھر کی سی ہوتی ہے جو آدھا پانی میں ہے اور آدھا پانی سے باہر ہوتا ہے ۔۔۔۔ پانی جس قدر چاہے شور مچاتا ہوا گرے کتنا ہی سرپٹخے لہریں کتنی ہی چوٹ ماریں ۔۔۔ مگر پتھر کا وہ شاندار ٹکڑا اپنی جگہ سے کبھی نہیں ہلتا ۔۔۔۔ ہر طوفان ہر بھنور میں وہ اسقتامت سے سربلند رہتا ہے ۔۔۔ اپ نے کبھی کسی پہاڑی چشمے کے درمیان میں وہ پتھر دیکھا ہے کیا ؟؟؟؟؟؟؟
اللہ عزوجل ہم سب کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے ،،،، باقی ان شاء اللہ اگلی اقساط میں۔۔۔۔
منجانب فقیر مدینہ غلام نبی قادری نوری

پارٹ 8.jpg
 
Top