• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر سر سید احمد خاں پارہ نمبر 10 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واعلموا : سورۃ الانفال : آیت 42

اِذۡ اَنۡتُمۡ بِالۡعُدۡوَۃِ الدُّنۡیَا وَ ہُمۡ بِالۡعُدۡوَۃِ الۡقُصۡوٰی وَ الرَّکۡبُ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ ؕ وَ لَوۡ تَوَاعَدۡتُّمۡ لَاخۡتَلَفۡتُمۡ فِی الۡمِیۡعٰدِ ۙ وَ لٰکِنۡ لِّیَقۡضِیَ اللّٰہُ اَمۡرًا کَانَ مَفۡعُوۡلًا ۬ۙ لِّیَہۡلِکَ مَنۡ ہَلَکَ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ وَّ یَحۡیٰی مَنۡ حَیَّ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَسَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿ۙ۴۲﴾

تفسیر سرسید :

( اذا نتم) اس آیت میں نہایت صفانی سے خدا تعالیٰ نے ان مقامات کا بیان کیا ہے جہاں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قریش مکہ کا لشکر موجود تھا اور جس راہ سے ابوسفیان والا قافلہ نکل گیا تھا۔ اس آیت سے ہشامی کی روایت جو ابھی ہم لکھ آئے ہیں بخوبی تصدیق ہوتی ہے کہ ابوسفیان کا قافلہ سمندر کے کنارہ ہو کر نکل گیا تھا۔
مگر یہ الفاظ جو اس آیت میں ہیں کہ ” ولو تواعد تم لا ختلفتم فی المیعاد “ اس کی تفسیر میں میں مفسرین نے غلطی کی ہے اس غلطی کا سبب یہ ہے کہ ابتداہی سے ان کو یہ غلط خیال ہوگیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ قافلہ کے لوٹنے کا تھا۔ اور ہم نے خود قرآن مجید کی آیتوں سے ثابت کردیا ہے کہ یہ خیال محض غلط ہے۔
لوتواعد تم انتم واھل مکۃ علے القتال الخالف بعضکم بعض لقلتکم وکثرتھم ولکن لیقضی اللہ امرا کان مفعولا (تفسیر کبیر جلدصفحہ )
پس اسی غلط خیالی کے سبب وہ یہ سمجھے جیسے کہ تفسیر کبیر میں بھی لکھا ہے کہ قریش مکہ سے اتفاقیہ اور نادانستہ لڑائی ہوگئی اور اگر ان سے لڑائی کا وعدہ کیا جاتا تو وعدہ خلافی کرتے اس لیے کہ مسلمان بہت تھوڑے تھے اور قریش بہت زیادہ۔
لا شک عن عسکر الرسول (علیہ السلام) فی اول الا مرکانوا فی غایۃ الخوف والضعف بسبب الفتح وعدم الاھیہ وترلراھیدین عن الماء وکانت الارض التی ترلوا فیھا ارضا رملیۃ تعریض فیھا رجلھم واما الکف رفکانوا فی غایۃ القوۃ بسبب الکثرۃ فی العدد بسبب حصول الا لات والا دوات لا نھم
مگر یہ رائے بالکل غلط ہے خود قرآن مجید سے ثابت ہے کہ ہم نے اوپر بیان کیا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاص قریش کہ کے مقابلہ کے لیے نکلے تھے بلکہ خدا کا حکم تھا کہ قریش مکہ ہی سے لڑو پس مذکورہ بالا تفسیر کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتی اس آیت میں خدا تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لشکر کا اور قریش مکہ کے لشکر کا مقام بیان کیا ہے اور اس میں کچھ شک نہیں جیسا کہ تمام مفسرین اور مورخین قبول کرتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کالوا قریبین من الماء ولا ان الا من التی تولورضھاکانت صالحۃ لا مشی ولا ق لعیر کشفو لخلف ظہور ھم کانوا یتوقعون مجئی المد سھن العیر الیھم ۔ اللہ نساعۃ ثم ایتہ تعالیٰ قلب القضبۃ وعکس القضیۃ وجعل الغلبۃ للمسلمین والد ما علی الکافرین فصارا ذلک ھن اعظم المعجزات واقوی بینات علی صدق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فیھا اخبر عن ربہ من وعدالنصرو لفتح والنظفر (تفسیر کبیر جلد)
لشکر پانی سے دور اور خاب جگہ پر تھا اور قریش مکہ کا لشکر بہت اچھی مقام پر تھا اور پانی ان کے قبضہ میں تھا۔ ایسے خراب مقام پر دفعۃً لڑائی ہوگئی پس خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر پہلے سے اس مقام پر لڑنے کا وعدہ کیا جاتا تو تم وعدہ خلافی کرتے اور اس مقام کی خرابی دیکھ کر اس مقام پر لڑنا منظور نہ کرتے لیکن اسی جگہ لڑائی ہوگئی اور جو خدا کو کرنا منظور تھا وہ خدا نے کردیا۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واعلموا : سورۃ الانفال : آیت 43

اِذۡ یُرِیۡکَہُمُ اللّٰہُ فِیۡ مَنَامِکَ قَلِیۡلًا ؕ وَ لَوۡ اَرٰىکَہُمۡ کَثِیۡرًا لَّفَشِلۡتُمۡ وَ لَتَنَازَعۡتُمۡ فِی الۡاَمۡرِ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ سَلَّمَ ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۴۳﴾

تفسیر سرسید :

( اذیریکھم اللہ) اس آیت میں مفسرین کو یہ مشکل پیش آئی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے خواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت سے لوگوں کو تھوڑا سا دکھلایا تو پیغمبر کا خواب خلاف واقع اور غلط ہوا حالانکہ پیغمبر کا خواب خلاف واقع اور غلط نہیں ہوتا۔ مگر یہ شبہ آیت کے معنی اور طرز بیان غور نہ کرنے کے سبب سے واقع ہوا ہے حالانکہ آیت میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر کوئی شبہ ہوسکے۔
تمام سیاق قرآن مجید کا اس طرح پر واقع ہے کہ خدا تعالیٰ بندوں کے افعال کو بسبب عنۃ العلل ہونے کے اپنی طرف نسبت کرتا ہے۔ اسی طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خواب دیکھنے کو اپنی طرف نسبت کیا ہے کہ خدا نے ان کو خواب میں دکھلایا تھوڑا۔ اس طرح پر کہنا قرآن مجید کے سیاق کے مطابق ان معنوں میں ہے کہ جب تونے ان کو خواب میں دیکھا تھوڑے سے اور اگر تو ان کو دیکھتا بہت سے تو بیشک بزدلی کرتے اور کام میں جھگڑا کرتے۔
اس آیت کے بعد کی آیت سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خواب کی تصدیق ہوتی ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ جب قریش مکہ سے مقابلہ ہوا تو مسلمانوں کی آنکھوں میں وہ تھوڑے معلوم ہوئے۔ قلیلا کا لفظ دونوں آیتوں میں واقع ہونا ہے۔ اگر پہلی آیت میں ” قلیلا “ کے لفظ سے شوکت اور عظمت اور جرات میں قلیل لیے جاویں تو دوسری آیت میں بھی جب کہ مقابلہ ہوا ” قلیلا “ کے یہی معنی لیے جاوینگے ۔ اور اگر پہلی آیت میں ” قلیلا “ کے لفظ سے قلیل فی کالعدومراد لیجاوے تو دوسری آیت میں بھی قلیل فی العدومراد لیجاویگی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقابلہ کے وقت کل لشکر قریش کے مقابلہ میں نہیں آیا تھا بکلہ ان میں سے تھوڑے سے آدمیوں سے مقابلہ ہوا تھا جس کا سبب خود اس دوسری آیت میں بیان ہوا ہے کیونکہ قریش مکہ نے دیکھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھوڑے سے آدمی ہیں اس لیے انھوں نے بھی تھوڑے سے آدمیوں سے مقابلہ کیا اور جو امر کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب میں دیکھا تھا وہ سچا ہوا۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واعلموا : سورۃ الانفال : آیت 48

وَ اِذۡ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ اَعۡمَالَہُمۡ وَ قَالَ لَا غَالِبَ لَکُمُ الۡیَوۡمَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّیۡ جَارٌ لَّکُمۡ ۚ فَلَمَّا تَرَآءَتِ الۡفِئَتٰنِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیۡہِ وَ قَالَ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّنۡکُمۡ اِنِّیۡۤ اَرٰی مَا لَا تَرَوۡنَ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اللّٰہَ ؕ وَ اللّٰہُ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿٪۴۸﴾

تفسیر سرسید :

( اواذ زین لھم الشیطن اعمالھم) ہمارے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں عجیب و غریب باتیں لکھی ہیں وہ کہتے ہیں کہ شیطان سراقہ بن مالک بن جعشم کی صورت بن کر جو بکربن کنانہ کے سرداروں میں سے تھا معہ اپنے ساتھ کے لوگوں کے قریش مکہ کے پاس آیا اور کہا
وذلک لان کفار قریش لحائجعوا فلامکۃ قالوا ھزم اناس المسراقہ فبلغ ذلک سراقۃ فقال واللہ ماشعر بمسیرحتی بلغنی ھزیمتکم فقد ذلک التبین للقوم ابن فرلک المشخص مکان سراقدیل کان شیطانا۔ (تفسیر کبیر جلد صفحہ)
کہ ہم تمہارے مددگار ہیں اور کہا کہ اب کوئی تم پر غالب نہیں ہونے کا اور اس وقت حرث بن آشام کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے ہوئے کھڑا تھا مگر جب اس نے مسلمانوں کے لشکر میں حضرت جبرائیل کو اور فرشتوں کو دیکھاتو ہاتھ چھڑا کر بھاگا اور کہا کہ جو میں دیکھتا ہوں تم نہیں دیکھتے۔ شیطان کا سراقہ بن مالک کی صورت بن کر آنے کی یہ دلیل لکھی ہے کہ جب کفار قریش مکہ کو پھر کر گئے تو لوگوں نے کہا کہ سراقہ کے آدمی بھاگ گئے۔ جب یہ خبرسراقہ کو پہنچی تو اس نے کہا کہ خدا کی قسم مجھ کو تمہارا جانا معلوم بھی نہیں ہوا ابھی تمہاری شکست کی خبر مجھ کو پہنچی ہے۔ اس وقت لوگوں نے کہا کہ وہ شخص جو سراقہ کی صورت میں آدمی لیے ہوئے را تھا سراقہ نہ تھا بلکہ شیطان تھا۔
فی الشیطان زین بوسوستہ من غبران یحولہ فی صورۃ الانسان وھو قول احسن والاصم۔
نہایت اسوس ہے کہ ہمارے مفسروں نے کیسی لغو اور بیہودہ اور بےس مجھ اور بےٹھکانے باتوں کو قرآن کی تفسیر میں داخل کیا ہے اور ان کو تفسیر کی بنیاد قرار دیا ہے خدا ان پرچم کرے۔ مگر حسن اور اسم دو مفسروں کا قول ہے کہ شیطان کسی آدمی کی صورت نہیں بنا تھا بلکہ ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تھا۔ پہلا قول تو محض لغو ہے اور حسن اور اصم کا قول ایسا ہے جو تسلیم ہونے کے قابل ہے۔ بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ قریش مکہ کی حالت کو ان کی زبان حال سے بیان فرماتا ہے۔
ومعنی الجارھھنا الدافع عن صاحبہ الواع الضرر کمایدفع الجارعن جارہ والعرب تقول اتاجاربک من لان ای حانظ لک من مضرتہ فلا یصرا الیک مکرومنہ (تفسیر کبیر جلدصفحہ )
پہلی آیت میں فرمایا کہ ” زین لھم الشیطن اعمالھم “ یعنی ان کے نفس شریرنے ان کے اعمالوں کو اچھا کر دکھایا اور ان کے شریر نے ان کے اعمالوں کو اچھا کر دکھایا اور ان کے شریر نفس نے کہا کہ میں تمہارا حمایتی ہوں مگر جب دونوں لشکر مقابل ہوئے تو ان کی جرات اور ہمت جو کچھ تھی وہ پست ہوگئی اور آثار فتح و نصرت لشکر اسلام کے ظاہر ہوئے اور ان کا نفس شریر پسپا ہوا جس کو خدا تعالیٰ نے نہایت فصیح طور پر بیان فرمایا ” فلما ترات الفئتن نکفر علی عقبیہ وقال انی بری منکم انی اری مالانزون “ اور جب انسان کی نخوت اور غرور کے برخلاف امر واقع ہوتا ہے تو اس کے نفس امارہ کو قدرتی طور پر خوف لاحق ہوتا ہے خصوصاً مواقع جنگ میں جہاں ہر طرح پر فتح کی امید ہو اور شکست ہوجاوے پس خدا تعالیٰ نے مشرکین کے نفس شریر کی اس حالت کو ان لفظوں سے بیان کیا کہ ” انی اخاف اللہ واللہ شدید العقاب “۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واعلموا : سورۃ الانفال : آیت 56

اَلَّذِیۡنَ عٰہَدۡتَّ مِنۡہُمۡ ثُمَّ یَنۡقُضُوۡنَ عَہۡدَہُمۡ فِیۡ کُلِّ مَرَّۃٍ وَّ ہُمۡ لَا یَتَّقُوۡنَ ﴿۵۶﴾

تفسیر سرسید :

( الذین عاھدت منھم) ظاہر اس آیت میں بنی قریظہ کی طرف اشارہ ہے۔ ان سے عہد تھا کہ وہ مسلمانوں سے نہ لڑینگے نہ ان کے دشمنوں کی مدد اور اعانت کرینگے۔ مگر انھوں نے بدر کی لڑائی میں مسلمانوں کے برخلاف قریش مکہ کو ہتھیار دینے سے مدد کی اور اپنا عہد توڑ دیا۔ مگر پھر معافی چاہی اور کہا کہ ہم سے خطا ہوئی اور پھر دوبارہ عہد کیا۔ مگر خندق کی لڑائی میں پھر مشرکین سے برخلاف مسلمانوں کے مل گئے اور دوسری دفعہ اپنا عہد توڑ دیا۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واعلموا : سورۃ الانفال : آیت 64

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسۡبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿٪۶۴﴾

تفسیر سرسید :

(یا ایھا النبی) اس آیت میں جو مضمون تحریض علے القتال ہے اس کی نسبت سورة توبہ میں ہم ایک مفصل گفتگو کرینگے اس مقام پر صرف خاص اس آیت کی تفسیر پر اکتفا کرتے ہیں۔
مفسرین کہتے ہیں کہ اگرچہ نظم اس آیت کا بطور خبر کے ہے مگر اس سے مراد امر ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اگر تم میں بیس آدمی لڑنے والے ہوں تو ان کو صبر کرنا اور لڑنے میں جدوجہد اور کوشش کرنی چاہیے تاکہ دوسرے لڑنے والے مخالفوں پر غالب آویں اور اس کے بعد کی آیت کو جس میں سو لڑنے والوں کا دو سو پر اور ہزار کا وہ ہزار پر غالب آنے کا ذکر ہے پہلی آیت کا ناسخ قرار دیتے ہیں۔ مگر سیاق کلام اس کے برخلاف ہے ان آیتوں میں مسلمانوں
کو تحریض علیٰ القتال کی گئی ہے اور لڑائی میں نبرو ثابت قدم رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ تعداد بیان کرنے سے کسی مدد خاص کا معین کرنا مقصود نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ اگر تم میں ہیں آدمی لڑائی میں ثابت
قدم ہوں گے نو دو سو آدمیوں پر اور اگر سو ہوں گے تو ہزار پر غالب آوینگے۔ اس کہنے کے مساوی ہے کہ لڑائی میں صبر کرنے والے اور ثابت قدم رہنے والے تھوڑے آدمی بہت سو پر غالب ہوجاتے ہیں۔ مگر مسلمانوں کی حالت ایسی نہیں تھی بلکہ وہ مشرکین کے مقابلہ میں ہر طرح سے کیا بلحاظ ہتھیاروں کے
اور کیا بلحاظ سامان لڑائی کے اور کیا بلحاظ آسائش و خوراک و قوت جسمانی کے نہایت ضعیف تھے۔ اس لیے خدا نے فرمایا کہ اس قدر تفاوت میں تخفیف کی جاوے ۔ تب بھی اگر تم ثابت قدم رہو گے تو دوگنوں پر غالب آؤ گے۔ پس ان آیتوں میں سے کسی آیت میں تعین عدد خاص مراد نہیں بلکہ صرف تحریض علے القتال و ثبات فی القتال مراد ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واعلموا : سورۃ الانفال : آیت 67

مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہٗۤ اَسۡرٰی حَتّٰی یُثۡخِنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ تُرِیۡدُوۡنَ عَرَضَ الدُّنۡیَا ٭ۖ وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ الۡاٰخِرَۃَ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۶۷﴾

تفسیر سرسید :

(ماکان لنبی) بدر کی لڑائی میں پر یش مکہ کے تمام لشکر سے جو ان کے ساتھ آیا تھا لڑائی نہیں ہونی تھی بلکہ ایک گرہو سے جو لڑنے کو نکلا تھا لڑائی ہوئی تھی جیسا کہ اس سورة ” واذ یریکموھم افا لتقیتم فی “ مندرجہ حاشیہ آیت سے ثابت ہوتا ہے۔ اس گروہ کو جو مقابلہ اعینکم قلیلا ویقلکم فی اعینھم لیقضی اللہ امرا کان مفعولا والی ترجع الامور ۔
میں آیا تھا شکست ہوئی تھی اور تمام لشکر قریش مکہ کا ایسا پریشان ہوگیا تھا کہ کسی کو پھر مقابلہ کرنے کی جرات نہیں ہوئی اور مسلمانوں نے ان کا تعاقب بھی نہیں کیا۔ جیسے کہ خدا نے اسی سورت میں فرمایا ” ان تستفتحوا فقد جاء کم الفتح وان تنتھوا فھو خیرلکم “ مگر قریش مکہ کے لشکر میں ستر آدمی بطور قیدی کے گرفتار ہوگئے تھے۔ ان قیدیوں کی نسبت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے مشورہ کیا کہ کیا کیا جاوے۔ حضرت عمر اور سعد ابن معاذ نے رائے دی کہ سب کو قتل کرنا چاہیے۔ حضرت ابوبکر نے کہا کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جاوے چنانچہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا گیا۔ فدیہ لینے پر خدا نے اپنی ناراضی ظاہر کی کیونکہ وہ لوگ بغیر لڑنے کے پکڑے گئے تھے اور اس لیے لڑائی کے قیدی جن سے فدیہ لیا جاسکتا نہیں تھے۔ اس پر خدا کی ناراضی ہوئی اور خدا نے فرمایا ” ما کان لنبی ان یکن لہ اسری حتی یتخن فی الارض “ جن لوگوں کی یہ رائے ہے کہ ان کے قتل نہ کرنے پر خدا کی ناراضی ہونی تھی کسی طرح پر صحیح نہیں ہوسکتی اس لیے کہ خدا تعالیٰ نے جب ان کا قیدئے جنگ ہونا ہی نہیں قراردیا تو ان کے نہ قتل کرنے پر کیونکر ناراضی ہوسکتی تھی۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واعلموا : سورۃ التوبہ : آیت 1

بَرَآءَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَی الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ؕ﴿۱﴾

تفسیر سرسید :

( براۃ) سورة انفال اور سورة توبہ کا ایسا قریب قریب مضمون ہے کہ اگر دونوں سورتوں کو ایک ہی سورة خیال کی جاوے تو کچھ مستبعد نہیں ہے۔ اور جب ہمارا یہ خیال ہے تو اس بات پر بحث کرنی کہ سورة توبہ کے اول بسم اللہ کیوں نہیں ہے غیر ضروری ہے اور نہ جس منشا سے ہم نے تفسیر لکھی ہے اس سے علاقہ رکھتا ہے اس لیے ہم اس بحث کو چھوڑ دیتے ہیں۔
سورة انفال اور سورة توبہ دونوں میں کافروں سے لڑنے اور ان کو قتل کرنے اور مغلوب کرنے کا ذکر ہے۔ اور یہی امر بحث کے قابل ہے جس کی نسبت مخالفین اسلام نے اپنی غلطی اور ناسمجھی سے اسلام کی نسبت مختلف پیرایوں میں اعتراض قائم کئے ہیں۔ اگرچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کافروں کے ساتھ جو کچھ کیا اور جس قدر اور جس طرح انھوں نے خدا کے حکم سے کافروں کو قتل اور غارت کیا۔ اگر اس کا مقابلہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کی لڑائیوں سے کیا جاوے تو معلوم ہوگا کہ وہ لڑائیاں بمقابلہ حضرت موسیٰ کی لڑائیوں کے خدا کی رحمت تھیں۔ پس جو لوگ توراۃ کو اور حضرت موسیٰ کو مانتے ہیں ان کے لیے تو حضرت مسیح کا یہ قول کافی ہے کہ ” تو اس تنکے کو جو تیرے بھائی کی آنکھ میں ہے کیوں دیکھتا ہے اور جو شتیر کہ تیری آنکھ میں ہے اسے دریافت نہیں کرتا “ مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے کہ ہم صرف حجت الزامی پر اکتفا کریں بلکہ ہمارا مقصود ہر امر کو تحقیق کرنا اور اس کی اصلیت کو ظاہر کرنا ہے اس لیے ہم اس امر کو بخوبی تحقیق کرنا چاہتے ہیں۔
اس امر جو اعتراض جامع جمیع اعتراضات ہوسکتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک بانئے مذہب کو جس کا موضوع سچی اور سیدھی راہ کا بتانا اور اس کے نتیجوں کی خوشخبری دینا اور بدراہ کی برائی کو جتلانا اور اس کے بدنتیجوں سے ڈرانا اور اپنی نصیحت اور وعظ سے انسانوں میں نیکی اور نیک دلی رحم اور صلح آپس میں محبت و ہمدردی کا قائم کرنا اور تمام مصیبتوں اور تکلیفوں کو جو اس راہ میں پیش آویں صبر و تحمل سے برداشت کرنا زیبا ہے بیا زبردستی سے اور ہتھیاروں کے زور سے اور قتل خونریزی سے اس کو منوانا لازم ہے۔ بس اب ہم کو اسی امر کا تحقیق کرنا مقصود ہے کہ کیا قرآن مجید میں ہتھیار اٹھانے کا حکم زبردستی سے اسلام منوانے کے لیے تھا ؟۔
ہرگز نہیں۔ بلکہ قرآن مجید سے اور تمام لڑائیوں سے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت میں ہوئیں بخوبی ثابت ہے کہ وہ لڑائیاں صرف امن قائم رکھنے کے لیے ہوئیں تھیں نہ زبردستی سے اور ہتھیاروں کے زور سے اسلام منوانے کے لئے۔
مکہ میں اہل مکہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مبارک کو اور ان مرد اور عورتوں کو جو مسلمان ہوگئے تھے ایذا پہنچانے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اور ان کے پیرو مسلمان مرد عورت نے ان تمام مصیبتوں اور تکلیفوں کو نہایت صبرو تحمل سے برداشت کیا تھا جن کے خیال سے تعجب آتا ہے کہ کیونکر برداشت ہوئی تھیں۔
اغروابہ (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) سنھاء ھم وعبید ھم ویصیحون بہ حتیٰ اجتمع الیہ الناس دالجوؤہ الی حایط۔ ابن ہشام صفحہ
خاص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت منہ در منہ دشنام دہی کرنا اور برا کہنا اور تذلیل کرنا یہ تو ایک عام بات تھی جو روزمرہ ہوتی تھی۔ معززین قریش کمینہ لوگوں کو اور اپنے غلاموں کو اشارہ کرتے تھے اور وہ اس طرح سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا پہنچاتے تھے ایک دفعہ اسی طرح ان کمینہ لوگوں اور قریش کے غلاموں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گھیر لیا اور گالیاں دینی اور سخت و سست الفاظ کہہ کر غل مچانا شروع کیا بہت سے آدمی جمع ہوگئے اور ایسی دھکا پیل ہوئی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک احاطہ میں پناہ لینی پڑی۔
ابولھب کان یطرح العذرۃ والنتن علے باب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تاریخ ابن الاثیر جلدصفحہ
ابولہب ہمیشہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازہ پر نجاست اور نجس و بدبو دار چیزیں ڈلوا دیتا تھا۔
انھا (ام جمیل امراۃ ابی لھب ) کانت فیما بلغنی تحمل الشوک فتطرحہ علی طریق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حیث یمر ابن ہشام صفحہ
ام جمیل ابی لہب کی بیوی اس رستہ پر جہاں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمدورفت تھی کانٹے ڈلوا دیتی تھی۔
امترمنہ (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) سفیہ من سنھاء قریش فتثر علی لمرسہ ترابا ابن ہشام صفحہ
راہ چلنے کی حالت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر مبارک پر لوگ مٹی کوڑا کرکٹ ڈال دیتے تھے۔
وکان عقبۃ قد جلس الی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منہ نبلغ ذلک ابیا فانی غنیۃ فقال لدام یبلغنی انک
قریش نے آپس میں نہایت سخت عہد کیا تھا کہ کوئی شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاس نہ جاوے ان کے پاس نہ بیٹھے ان کی بات نہ سنے ایک دفعہ عقبہ نبا کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاس بیٹھا اور کچھ کلام سنا اس کی خبر ابی کو جالست محمداو سمعت منہ ثم قال وجھی من وجھک حرام ان اکلمک واستغلظ من الیمین ان انت جلست الیہ وسمعت سنام اولم تاتہ فقتفل فی وجھہ ففعل ذلک عدو اللہ عقبۃ بن ابی معیط (ابن ہشام صفحہ )
پہنچی جو اس کا بڑا دوست تھا وہ اس کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاکر بیٹھا تھا اور ان کی باتیں سنیں تھیں تیری صورت مجھ کو دیکھنی اور تجھ سے بات کرنی حرام ہے اور میں اپنی قسم کو زیادہ سخت کرونگا اگر تو اب گیا اور ان کے پاس بیٹھا اور ان کی بات سنی کیا تجھ سے یہ نہ ہوسکا کہ ان کے منہ پر تھوک دیتا چنانچہ اس خدا کے دشمن نے ایسا ہی کیا۔
وثب کل قبیلۃ عفی من فیھا من مستضعفی المسلمین فجعلوا یجونھم وعیذبونھم بالضرب والجوع والعطش و رمضاء مکۃ والنار لیفتنو نھم عن دینھم۔ (تاریخ ابن اثیر جلد صفحہ )
جو لوگ مسلمان ہوگئے تھے ان پر بھی نہایت ظلم ہوتا تھا اور سخت ایذا پہنچائی جاتی تھی جہاں بےکس مسلمانوں کو دیکھتے تھے پکڑ لیتے تھے قید کرتے تھے مارتے تھے بھوکا پیاسا رکھتے تھے جلتی ریت میں ڈال دیتے تھے آگ سے جلا کر ایذا پہنچاتے تھے۔
فصاء بلاللا میۃ بنخلف الجمعی فکان اذ احمیت الشمس وقت الظھیرۃ بلبقیہ فی مالو مضاء علی وجھہ وظھہر ثم یامر بالصخرۃ العظیمۃ فتلقے علی صدرہ و یقول لا تزالی ھکذا حتی نموث اوتکفر بمحمد (تاریخ ابن اثیر جلد صفحہ )
حضرت بلال کو عین دوپہر میں سورج کی تپش کے وقت امیہ بن خلف کبھی منہ کے بل اور کبھی پیٹھ کے بل جلتے ریت پر ڈال دیتا تھا اور چت کرکے ان کی چھاتی پر بھاری پتھر رکھ دیتا تھا اور کہتا تھا کہ میں تیرے ساتھ اسی طرح کئے جاونگا جب تک کہ تو مرجاوے یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر کرے۔
کا نرایخرجون عملو اواباہ وامہ الی الابطح اذا حمیت الرمضاء یعذبونھم بحر الرمضاء فجرھم النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقال صبرا ال یاسرفان موعد کم الجنۃ فمان یاسر محمد العذاب واغلاظت امرتہ سمیۃ القول لا بی جھل فطعنھا فی قبلھا بحریۃ فی یدہ فماتت وھی اول شھید فے الاسلام وشدو العذاب علی عمار بالحرتارۃ و یوضع الصخرا حمر علی صدرہ اخری و
ایک دفعہ انھوں نے عمار بن یاسر کو اور اس کے باپ اور ماں کو جو مسلمان ہوگئے تھے پکڑ لیا اور دھوپ میں جلتے ریت پر ڈال دیا۔ اتفاقاً آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرف سے گزرے اور ان سے کہا کہ اے یاسر کے خاندان کے لوگو صبر کرو تمہاری جگہ جنت میں ہے حضرت یاسر تو اس سختی کی حالت میں مرگئے اور ان کی بیوی سمیہ نے ابوجہل کے ساتھ سخت کلامی کی ابوجہل نے وہ ہتھیار جو اس کے ہاتھ میں تھا حضرت سمیہ مظلمومہ کی شرمگاہ میں مارا کہ وہ مرگئیں اور اس طرح وہ سب سے اول شہید ہوئی ہیں بالتغریق اخری فقالوا لا نترکک حتی تسب محمد اونقولہ فی الات خیرا ففعل فترکوہ رولکن قلبہ مطمئن بالایمان۔ (تاریخ ابن تاثیر صفحہ )
اس کے بعد ابوجہل نے حضرت عمار کو ایذا پہنچانے میں زیادہ سختی کی۔ کبھی دھوپ میں ڈالتا تھا کبھی آگ سے گرم کیا ہوا پتھر ان کے سینہ پر رکھواتا تھا کبھی ان کو پانی میں ڈال کر ڈبواتا تھا۔ آخر کار ان سے کہا کہ ہم تجھ کو کبھی نہیں چھوڑینگے جب تک کہ تو محمد کو دشنام نہ دے اور لات کی تعریف نہ کرے لاچار انھوں نے ایسا ہی کیا تب ان کو چھوڑا ۔ مگر ان کے دل میں ایمان مستحکم تھا۔
اخذہ الکفاراخباب ابنالارث وعذبحوتھذا باشد یدافکانو یعرونہ و یلصقون ظھہرہ بالومضاء ثم بالرضیف وھی الحجاراۃ المحماۃ بالنار ولوداراسہ فلم یجھم الی شیء مما ارادوامنہ (تاریخ ابن اثیر جلد صفحہ )
خباب ابن ارت کو کافروں نے پکڑ لیا اور نہایت سخت ایذا پہنچائی اس کو ننگا کرکے منہ کے بل گرم جلتے ریت پر لٹاتے تھے اور پھر پتھر کی کتلوں کو آگ سے گرم کرکے اس پر لٹاتے تھے اور اس کا سر مروڑ کے الٹا پھیر دیتے تھے مگر وہ خاموش تھا اور جو کچھ وہ کہتے تھے مطلق اس کا جواب نہیں دیتا تھا۔
اخذہ (باوفکیھۃ) امتہ بن خلف وربط فی یجلہ جبلاوامربہ نجر ثم القاہ فی الرمضاء مربہ جعل فقال لزامیہ ایس ھذا ربک فقال اللہ ربی وربک ور ب ھذا فخنقہ خنقا شدید اور معراخوہ ابی بن خلف یقول زدہ عذابا حتی یاتی محمد فیخلصہ بسحرو ولم یزل علی تلک الحال حتی ظنوا انہ فذماث۔ (تاریخ ابن اثیر جلد ثانی صفحہ )
ابوف یکہ کو امیہ بن خلف نے پکڑا اور اس کے پاؤں میں رسی بندھوائی اور کھنچوایا اور جلتی ریت میں ڈال دیا۔ اتفاقاً ایک بدصورت کالا پاؤں والا چھوٹا سا کیڑا اس کے قریب نکلا تو امیہ نے طعنہ سے کہا کہ یہ تیرا خدا ہے اس نے کہا کہ اللہ میرا رب ہے اور تیرا رب اور اس کیڑے کا بھی یہ سن کر امیہ نے نہایت زور سے اس کا گلا گھونٹنا شروع کیا اس وقت اس کا بھائی ابی ابن خلف بھی موجود تھا اور کہتا تھا زور سے تاکہ محمد آجاویں اور اپنے جادو سے اس کو چھڑالیں۔ غرضیکہ اس کا گلا گھونٹتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے خیال کیا کہ وہ مرگیا۔ مگر وہ مرا نہیں تھا۔
کان عمر (قبل اسلامہ) یعدبھا (لبینۃ) حتی تفتن ثم یدعھا ویقول انی لم اد عک الاسامۃ فتقول کذلک یعفل اللہ بک ان لمتلم۔ (تاریخ ابن اثیر جلد صفحہ )
خود حضرت عمر نے اپنے مسلمان ہونے سے پہلے لبینہ ایک مسلمان عورت کو پکڑ لیا اور اس کو ایذا پہنچائی اور مارنا شروع کیا جب تھک جاتے تھے تو چھوڑ دے دیتے تھے اور کہتے تھے میں نے تجھے چھوڑا نہیں ہے میں تھک گیا ہوں اس لیے ٹھہر گیا ہوں۔ اس نے جواب دیا کہ اسی طرح خدا بھی تیرے ساتھ کرے گا اگر تو مسلمان نہ ہوا۔
بلغہ (ای عمر) ان اختہ فاطمہ اتلت مع زوجھا سعید ابن عمہ زید وان خباب بن الارث عندھما یعلمھا القرآن فجاء الیھا منکر ا وضرب اختہ نشجھا فلما رات الدم قالت قداسلمنا۔ (ابن خلدونجلد صفحہ )
حضرت عمر کو خود مسلمان ہونے سے پہلے ہوا کہ فاطمہ ان کی بہن معہ اپنے شوہر کے مسلمان ہوگئی ہے اور خباب بن الارث ان کو قرآن سکھاتا ہے حضرت عمر ان کے پاس آئے اور خوب مارا کہ ان کا سر پھٹ گیا جب خون بہنے لگا تو ان کی بن نے کہا کہ ہاں ہم تو مسلمان ہوگئے ہیں۔
کان ابوجھل یعذبھا (زنیرۃ) حتیٰ اعملیت فقال لھا ان اللات والعزی ضلابک خقالت وما یدری الات والعزی من یعبدھما ولکن ھذا امن من السماء وربی قادرعلی رد بصری۔ (تاریخ ابن اثیر جلد صفحہ )
اسی طرح ابوجہل نے زنیرہ مسلمان عورت کو اس قدر ایذا دی کہ وہ اندھی ہوگئی اور جب اس نے جانا کہ وہ اندھی ہوگئی تو کہا کہ لات اور عزے نے تجھ کو اندھا کیا ہے اس نے کہ کہ لات اور عزیٰ تو خودہی نہیں جانتے کہ ان کو کون پوجتا ہے مگر یہ ایک آسمانی امر ہے اور میرا خدا قادر ہے کہ پھر میری آنکھوں میں روشنی دے دی۔
کانت (ای امراۃ من بنی عبدا لدیار تعذبھا النھیۃ) وتقول واللہ لا قلعت عنک اویبتاعک بعض اصحاب محمد تاریخ ابن الاثیر جلد ثانی صفحہ ، کان الاسود بن عبد یغوث یعذبھا (ای ام عبیث) تاریخ ابن الاثیر جلد ثانی صفحہ ۔ کان ابوجھل یاتی الرجل الشریف ویقول لہ اتترک دینک ودین ابیک وھو خیر منک ویقبح رایہ دفعلہ و لیغہ حلمہ ویضع ثرفہ وان کان تاجرا یقول ستکسد تجارتک ویھلک مالک۔ وان کا ضعیفا اعری بہ حتی یعذبہ تاریخ ابن الاثیر جلد ثانی صفحہ ۔
نہدیہ نے ایک مسلمان ورت بنی عبدالدار کو اور اسود بن عبد یغوث نے ایک مسلمان عورت ام عبیث کو سخت ایذائیں دی تھیں یہ طریقہ ایذا دینے کا برابر جاری تھا۔ ابوجہل جب کسی شریف آدمی کو دیکھتا کہ مسلمان ہوگیا ہے تو اس سے کہتا کہ کیا تو اپنا مذہب اور اپنے باپ کا مذہب جو تجھ سے اچھا تھا چھوڑتا ہے اور اس کی عقل پر نفرین کرتا اس کو حماقت کا کام بتلاتا اور اس کو بےعقل کہتا اور اس کو ذلیل کرتا۔ اور اگر کوئی سوداگر ہوتا تو کہتا کہ تیری تجارت ڈوب جاویگی اور تیرا مال برباد ہوجاویگا۔ اور اگر وہ مسلمان کوئی کمزور قبیلہ کا آدمی ہوتا تو اس کے پیچھے لوگوں کو لگا دیتا کہ اس کو ایذا دو۔
وکانت قریش انما تمی رسول الک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمح) مذمما ثم بسبونامہ ابن ہشام ۔
کفار قریش نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام بجائے محمد کے مدقم بطور ہی جو کے رکھ دیا تھا ۔
وامیہ ابن خلف اذرای رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حمزہ والمزہ۔ الحمزۃ افری یشتم الرجل علانیۃ و یکسر عینبیہ علیہ واللمزۃ الذی یعب الناس ساویوذیھم۔ ابن ہشام صفحہ ۔
فضدا ابن مسعود حتی اتے للقام فی الضحیٰ و قریش فی اندی تھا حتی قام عند المقام ثم توء بسم اللہ الرحمن الرحیم بالا افعا بھا صوتہ الرحمن علم القرآن قال ثم استقبلھا ایقرء ھا قال نتاملوہ فجعلوا یقولون ما قال ابن عبید ام قال ثم قالوا تہ لیتلوا بعض ما جاء بہ محمد فقال ھوالیہ فجعلوا یضربون فی وجھہ وجعل یقر محتی ابلغ منھا ماشاء اللہ ان یبلغ ثم انصرف الی اصحابہ۔ ابن ہشام صفہ ۔
اور امیہ ابن خلف علانیہ منہ در منہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب و شتم بدزبانی و دشنام دہی کرتا رہتا تھا۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن پڑھتے تھے تو لوگ غل مچاتے تھے اور قرآن کے الفاظ کے ساتھ اپنے الفاظ ملا دیتے تھے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واعلموا : سورۃ التوبہ : آیت
تفسیر سرسید :
ایک دفعہ ابن مسعود کعبہ کے پاس گئے اور سورة الرحمن پڑھنی شروع کی اور قریش جو کعبہ کے آس پاس بیٹھے تھے ہجوم کر آئے اور جب جانا کہ وہ قرآن پڑھتے ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے تو ان کے منہ کو پیٹنا شروع کیا کہ ان کا منہ نیلا ہوگیا اور مارنے کے نشان منہ پر پڑگئے مگر جہاں تک ان سے بن پڑا وہ بھی پڑھے گئے۔
پانچ برس تک اسی قسم کی تکلیفیں اور ایذا میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور ان مرد اور عورتوں کو جو مسلمان ہوگئے تھے پہنچتی رہیں اور خود رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور تمام مسلمان مرد اور عورتوں نے نہایت صبر و تحمل سے ان کو برداشت کیا۔ مگر کوئی ایسی صورت جس سے مسلمان امن میں رہیں پیدا نہ ہوئی۔ اس وقت امن حاصل ہونے کے لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اپنا عزیز وطن چھوڑ دیں اور حبشہ کو چلے جاویں جہاں کا بادشاہ نجاشی عیسائی مذہب کا تھا۔
پہلی ہجرت مسلمانوں کی بجانب حبشہ نبوی میں
اس اجازت پر تھوڑے مسلمان مرد اور عورتوں نے رجب نبوی میں حبشہ کو ہجرت کی۔ گیارہ بارہ مرد اور چار پانچ عورتیں اس قافلہ میں تھیں۔ مردوں میں حضرت عثمان ابن عفان اور عورتوں میں حضرت رقیہ بیٹی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیوی حضرت عثمان کی شامل تھیں۔
مشورہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کا
ولمارات قریش عزۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
جب قریش مکہ نے یہ بات دیکھی کہ جو مسلمان حبشہ میں گئے وہ آرام سے رہتے ہیں اور بمن معہ واسلام عمر وعزۃ اصحابہ بالجبۃ ولثرالاسلامی القبائل اجمعوا علی ان یقتلوا النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فبلغ ذلک اباطار فجمع بنی ہاشم و بنی لمطلب فادخلوا رسول اللہ شعبھم ومنعوہ ممن اواھلہ ناجابرہ اذلک حتی کفارھم بعجلواذلک حمیۃ علی عادۃ الجاھلیۃ۔ مواہب لدشہ صفحہ -
میں پھیلتا جاتا تو انھوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کرنے کا ارادہ کیا اور سب لوگ اس بات پر متفق ہوگئے مگر اس زمانہ میں ابوطالب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حضرت علی مرتضیٰ کے والد زندہ تھے اور ان کا رعب بھی عرب کے قبیلوں پر کچھ کم نہ تھا ۔ جب انھوں نے یہ بات سنی تو انھوں نے بنی ہاشم اور بنی مطلب کو جمع کیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے گروہ کی حفاظت میں لے لیا۔
اجتموا وائتم رابینھم ان یکتبوا کمتایا یتعاقدون فیہ علی ننی ہاشم وبنی المطلب علے ان لا ینکحوا الیھم ولا ینکھو ھم و لا یبعوھم شیاء ولا یبتا عوامنھم فلما اجتمعوا لذلک کتیوہ فی صحیفۃ ثم تعاعدوا وتوایقو علی ذلک ثم علقوا الصحیفۃ فی جوف الکعبۃ توکیدا علی انفسھم ۔ فاقامور علی ذلک سنتین وثلاثا حتی اجھدو الا یصل الیھم شی الا سرا مستخیا بہ من زراد صلتھم من قریش وقد کان ابوجھل بن ھشاء فیما یذکرون لقی حکیم بن خرام بن خویلد بن اسد معہ غلام یجمل قمحا یرید بہ عن لاخویحم بنتخویلھدوھی عند رسول اللہ عم و معہ فی الشعیب فتعلق بہ وقال اتذھب ہارون الی بنی ہاشم واللہ لا تبرح انت و طعامک حتی اضحک بمکۃ۔ ابن ھسام
جب کہ قریش اپنے ارادہ پر کامیاب نہ ہوئے اور انھوں نے دیکھا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت کی ہے وہ پھر جمع ہوئے اور باہم مشورہ کرکے ایک عہد نامہ لکھا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب سے شادی اور بیاہ موقوف کیا جائے نہ کوئی ان کی بیٹیاں لے اور نہ کوئی ان کو بیٹیاں دے اور نہ کوئی ان کے ہاتھ کوئی چیز بیچے اور نہ ان سے کچھ خریدے اور اس پر سب نے اتفاق کرکے عہد نامہ لکھا اور اس کو خانہ کعبہ میں لٹکا دیا۔ اس معاہدہ سے بےانتہا تکلیف پہنچی۔ قریش میں سے بعض لوگ بسبب قرابت کے چھپ چھپا کر کچھ پہنچا دیتے تھے لیکن اگر کھل جاتا تھا تو نہایت فضیحت کئے جاتے تھے۔ ایک دفعہ حکیم بن خرام معہ اپنے غلام کے حضرت خدیجہ کے لیے جو اس کی پھپی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیوی تھیں کچھ ستو لوائے جاتا تھا ابوجہل رستہ میں مل گیا اور ان سے الجھ پڑا اور کہا کہ تو بنی ہاشم کے لیے کھانا لے جاتا ہے میں ہرگز تجھ کو اور تیرے کھانے کو نہ چھوڑونگا جب تک کہ تجھ کو مکہ میں فضیحت نہ کرلو۔ یہ مصیبت کی حالت دو تین برس تک برابر جاری رہی۔
دوسری ہجرت مسلمانوں کی بجانب حبشہ نبوی میں
اس قسم کی مصیبتیں مسلمانوں پر برابر جاری تھیں اور کسی طرح کا امن مسلمانوں کو مکہ میں نہیں ہوتا تھا اور جو لوگ حبشہ میں ہجرت کر گئے تھے وہ وہاں امن میں تھے اس لیے اور مسلمانوں کو بھی ہجرت کرجانے کی اجازت ہوئی چنانچہ بہت سے مرد اور عورت ہجرت کر گئے ۔ مجموع دونوں دفعہ کے ہجرت کرنے والوں کی تعداد بیاسی یا تراسی تھی۔
ہجرت مسلمانوں کی طرف مدینہ کے نبوی میں
فکان احدھم فیما ذکر لی یطرع علیہ رحم المثاۃ وھو یصلی وکا احد ھم یطوحما فی برمتہ اذا نصبت لہ حق اتخذ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجرا یتائر بہ منھم اذا اھملی فکان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اذا اطوحوا علیہ ذلک الا ذی کما حمدثنی عمرو بن عبداللہ بن عروہ بن الزبیر یخرج بالرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علی العود فیقل بہ علے بابہ ثم یقول یا بنی عبد منافای جوار ھذ اثم بلقیہ فی الطریق ۔ ابن ہشام صفحہ
حضرت خدیجہ کے انتقال کے بعد ابوطالب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا کا بھی جن کے رعب داب سے کسی قدر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امن تھا انتقال ہوگیا اور قریش کو بہت زیادہ تکلیف اور ایذا پہنچانے کا موقع ہاتھ آیا۔ یہاں تک کہ رسول خدا کے نماز پڑھنے کی حالت میں بکرے کی اوجھڑی ان پر ڈال دیتے تھے لاچار آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چھپ کر نماز پڑھنی اختیار کی تھی اور کھانا پکاتے وقت کھانا پکنے کی ہنڈیا میں اوجھڑی کے ٹکڑے ڈال دیتے تھے۔ رستہ چلنے میں ان کے سر مبارک پر مٹی اور کوڑا پھینکتے تھے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب کو برداشت کرتے تھے اور ان سے فرماتے تھے کہ تم کیا اچھے میرے ہمسایہ ہو ۔ جب یہاں تک حالت پہنچ گئی تو آپ بنی ثقیف کے پاس گئے تاکہ وہ ان کی مدد کریں مگر ان میں سے کوئی آمادہ نہ ہوا اور پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں واپس چلے آئے۔ اسی طرح عرب کے اور قبیلوں نے بھی ایمان لانے سے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کرنے سے انکار کیا۔
اسی درمیان میں مدینہ سے چند لوگ حج کرنے آئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو قرآن سنایا اور مسلمان ہونے کو کہا سات آدمی ان میں سے مسلمان ہوئے جب وہ واپس گئے تو مدینہ کے لوگوں میں اسلام کا چرچا ہوا اور وہاں سے ستر آدمی خفیہ رات کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور اسلام لائے اور جان و مال سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اماد کا معاہدہ کیا اور واپس چلے گئے۔
جب قریش نے یہ خبر سنی تو مسلمانوں کو طرح طرح سے ایذا دینی اور تنگ کرنا شروع کیا اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجبور ہو کر مسلمانوں کو مدینہ میں ہجرت کرنے کی اجازت دی اور بہت سے مسلمان مرد اور عورت جس طرح جس کو موقع ملا مدینہ چلا گیا انہی ہجرت کرنے والوں میں حضرت عمر اور حضرت عثمان کہ حبشہ سے واپس آچکے تھے اور عیاش ابن ربیعہ بھی تھے مگر بااینہمہ کچھ مسلمان مرد اور عورت جن کو قریش کے خوف سے یا اور کسی طرح پر جانے کا موقع نہیں ملا مکہ میں رہ گئے۔
قریش کا دوبارہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کا ارادہ کرنا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مدینہ کو ہجرت فرمانا نبوی میں
جب کہ اس طرح پر مسلمان رفتہ رفتہ مکہ سے ہجرت کر گئے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت میں بجز حضرت علی مرتضیٰ اور حضرت ابوبکر کے کوئی نہیں رہا تھا۔ قریش مکہ کو مسلمانوں کے اس طرح نکل جانے سے تردد پیدا ہوا اور انھوں نے یقین کیا کہ وہ امن پاکر اور متفق ہو کر ان پر حملہ کرینگے۔ اس باب میں انھوں نے پھر مجلس جمع کی اس غرض سے کہ اب کیا کیا جاوے بعضوں نے یہ صلاح دی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو ابھی تک مکہ ہی میں تشریف رکھتے تھے گرفتار کرکے طوق و زنجیر ڈال کر ایک مکان محفوظ میں قید کردیاجاوے۔ بعضوں نے یہ رائے دی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکال دیا جاوے۔ ابوجہل نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کرنے کی رائے دی اور کہا کہ بہتر یہ ہے کہ عرب کے ہر ایک قبیلہ سے ایک ایک جوان آدمی منتخب کیا جاوے اور ہر ایک کو تلوار دی جاوے اور سب مل کر ایک ساتھ تلواریں مار کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کر ڈالیں۔ اور جب تمام قومیں اس قتل میں شریک ہونگی تو قبیلہ بنو عبد مناف کو جس قبیلہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے جھگڑا کرنے کی طاقت نہ ہوگی۔ اس امر پر سب نے اتفاق کیا اور سب اٹھ کھڑے ہوئے تاکہ اس تجویز کو پورا کریں۔ اسی امر کا ذکر قرآن مجید میں ہے جہاں فرمایا ہے ” اذیمکر بک الذین کفرو الیثبتوک اویقتلوک او یخرجوک ۔ الایم۔
اسی دن کی رات کو جب قریش مکہ نے یہ تجویز ٹھہرائی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ سے ہجرت کی حضرت علی مرتضیٰ کو اپنا خلیفہ یا قائم مقام کرکے اپنے بچھونے پر سلا دیا تاکہ کافر جانیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوتے ہیں اور حضرت ابوبکر کو اپنے ساتھ لیا اور مکہ سے نکل کر ثور پہاڑ کے ایک غار میں جا چھپے تین دن تک وہاں چھپے رہے اور پھر موقع پاکر مدینہ منورہ میں تشریف فرما ہوئے۔
صبح کو کفار قریش کو معلوم ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے گئے اور ان کی جگہ حضرت علی مرتضیٰ سوتے ہیں ان کو پکڑ لیا اور پوچھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہاں گئے انھوں نے کہا کہ میں نہیں جانتا ان کو خوب مارا اور قید کردیا مگر تھوڑی دیر کے بعد چھوڑ دیا اور اعلان کیا کہ جو کوئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پکڑ لاوے اس کو سو اونٹ انعام دیا جاویگا۔ حضرت علی مرتضیٰ نے بھی مکہ سے ہجرت کی اور افتاں و خیزاں بڑی مشکل سے دن کو چھپے رہے کر اور راتوں کو چل کر مدینہ میں پہنچے پیدل چلنے سے پاؤں سوج گئے تھے جب مدینہ میں پہنچے تو اس قدر طاقت نہ تھی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاس آویں اس لیے خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے دیکھنے کو ان کے پاس تشریف لے گئے۔
کافروں سے لڑنے کا حکم اور لڑائیوں کے واقعات
وخرجت قریش فی اثار الاولین (اے اللذین ھاجروا ولا الی حبشہ) الی البحر فلم یدرکوھم۔ وقدموا الی الرض الحبشۃ فکانوا بھا۔ ابن خالد جلد صفحہ ۔
ہجرت کرنے پر بھی قریش مکہ مہاجرین کو اور جو لوگ ان کو پناہ دیتے تھے امن سے رہنے نہیں دیتے تھے۔ جن مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی ان کے گرفتار کرنے کو سمندر کے کنارہ تک ان کا تعاقب کیا۔ مگر وہ ان کے ہاتھ نہ آئے اور حبشہ میں پہنچ گئے۔ اس پر بھی انھوں نے بس نہ کیا اور عمرو بن العاص اور عبداللہ ابن ابی امیہ کو بہت سے تحفے ہدیہ دے کر نجاشی کے پاس بھیجا اس غرض سے کہ مسلمان جو وہاں چلے گئے ہیں انھیں قریش کو دیدے مگر نجاشی نے ان کے دینے سے انکار کیا۔
وعلمت قریش صحۃ الخبر (ای خبر بیعۃ الا نصرت لنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) فحسر جوانی طلبھم فادر کو اسعد بن عبدۃ فجاوابہ الی مکہ یضربونہ ویجرونہ بشعرہ۔ ابن خلدون جلد صفحہ
مدینہ کے لوگوں کے ساتھ بھی جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاس آئے تھے اور مسلمان ہوگئے تھے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت کا وعدہ کیا تھا قریش مکہ نے برائی کرنے میں کچھ کمی نہیں کی تھی جب ان کو معلوم ہوا کہ درحقیقت مدینہ والے جو آئے تھے وہ مسلمان ہوگئے ہیں اور انھوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت کا وعدہ کیا ہے تو ان لوگوں کا تعاقب کیا وہ تو ہاتھ نہ آئے مگر سعد ابن عبادہ ان کے ہاتھ لگ گئے ان کو مکہ میں پکڑ لائے اور ان کو مارتے تھے اور ان کے بال پکڑ کر گھسیٹتے پھرتے تھے۔
اسی عداوت کے سبب جو قریش مکہ کو مہاجرین سے ہوگئی تھی ابوجہل ابن ہشام مدینہ وجاء ابوجھل ابن ہشام فخادع عیاش بن ابی ربیعہ
وردہ الی مکۃ فحبوہ۔ ابن خلدون جلد صفحہ ۔
میں آیا اور عیاش ابن ابی ربیعہ کو فریب دیا کہ تیری ماں تیرے لیے روتی ہے اور کھانا پینا چھوڑ دیا ہے تو مکہ کو چل اور دھوکا دے کر مکہ لے آیا اور جب مکہ میں پہنچا تو ان کو قید کردیا۔
فقال بعضھم احبوہ فی الحدید وا اغلقوا علیہ بابا ثم توبصوابہ سا اصحاب الشعراء قبلہ فقال النجدی ماھذا لکم برای لو حبستموہ یخرج امرہ من ولمراء الباب الی اصحابہ فلا وتکوا ان یثبوا علیکم نیز عرہ من ایدیکم فقال اخرنخرجہ وتفیہ من بلدنا ولی بتالی این وقع اذاغاب عنا فقال النجدی الم تروا حسن حدیثہ وحلاوۃ منطقہ لوفعلتم ذلک لحل علی حی من احیا العرب فیغلب علیھم یحلاوۃ منطقہ ثم یسیرھم الیکم حتی یطاء کم ویا خذا امرکم من ایدیکم (تاریخ ابن اثیر جلد صفحہ ) ولا یزالون یقاتلوئکم حتی یردوکم عن دینکم ان استطاعوا۔ (سورة بقر )
ان تمام حالات سے جو عداوت کہ قریش کو مسلمانوں سے ہوگئی تھی اور ہر طح پر ان کے معدوم کرنے اور ایذا پہنچانے کی تدبیریں کرتے تھے بخوبی ظاہر ہوتی ہے۔ قریش مکہ کو مدینہ کے لوگوں سے بھی جو مسلمان ہوگئے تھے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واعلموا : سورۃ التوبہ : آیت
تفسیر سرسید :
اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت کا وعدہ کیا تھا ویسی ہی عداوت تھی جیسی کہ مکہ کے مہاجرین سے تھی۔ سب سے بڑا خوف قریش مکہ کو یہ تھا کہ اگر یہ لوگ زیادہ قوی ہوجاوینگے تو مکہ پر حملہ کرینگے۔ چنانچہ جب دوبارہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کا مشورہ کیا تھا تو اس مشورہ میں جس شخص نے یہ رائے دی تھی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طوق اور زنجیر ڈال کر قید کردیا جائے اس کی رائے اسی دلیل پر مانی نہیں گئی تھی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب جو مکہ سے نکل گئے ہیں جمع ہو کر مکہ پر حملہ کرینگے اور ان کو چھوڑا لیجاوینگے۔ اور جس شخص نے یہ رائے دی تھی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جلاوطن کردیا جاوے اس کی رائے بھی اسی وجہ پر روکی گئی تھی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی فصاحت سے لوگوں کو اپنے گرد جمع کرلینگے اور قریش مکہ کو کچل ڈالینگے یہی سبب تھا کہ قریش مکہ مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ قرآن مجید میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے کہ اہل مکہ تم سے ہمیشہ لڑتے رہینگے یہاں تک کہ وہ تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں اگر وہ ایسا کرسکیں۔
مدینہ والے بھی قریش کے حملہ سے مطمئن نہیں رہے تھے اس لیے کہ مدینہ کے ان لوگوں میں سے جو ایمان نہیں لائے تھے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ میں تشریف لانے کو پسند نہیں کرتے تھے اور مدینہ کے ان لوگوں سے جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت کا وعدہ کیا تھا نہایت ناراض تھے چند معزز لوگ مدینہ کو چھوڑ کر مکہ چلے گئے تھے اور قریش سے جاملے تھے۔
اب دیکھنا چاہیے کہ ایسی حالت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور مہاجرین اور انصارکو اپنی اور مدینہ کی حفاظت اور امن و امان قائم رہنے کے لیے کیا کرنا لازم تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے چار امر لازمی تھے کہ بغیر ان کے کبھی امن اور مطلوبہ حفاظت کسی طرح قائم نہیں رہ سکتی تھی۔
اول : اس بات کی خبر رکھنی کہ قریش مکہ کیا کرتے ہیں اور کس منصوبہ میں ہیں۔
دوم : جو قومیں کہ مدینہ یا مدینہ کے گرد رہتی تھیں ان سے امن کا اور قریش کی مدد نہ کرنے کا معاہدہ کرنا۔ لیکن عہد شکنی کی حالت میں ان سے مقابلہ کرنا اس منصوبہ کے لیے ایسا ہی ضروری تھا جیسا کہ امن کا معاہدہ کرنا کیونکہ اگر عہد شکنی کی مکافات نہ قائم کی جاوے تو کوئی معاہدہ اپنے عہد پر قائم نہیں ہوسکتا۔
سوم : جو مسلمان کہ مکہ میں بمجبوری رہ گئے تھے اور موقع پاکر وہاں سے بھاگ آنا چاہتے تھے ان کے بھاگ آنے پر جس قدر ہوسکے ان کی اعانت کرنا۔ جو قافلہ مکہ سے نکلتا تھا ہمیشہ احتمال ہوتا تھا کہ شاید اس کے ساتھ بہانہ کرکے کوئی مسلمان مدینہ میں بھاگنے کے ارادہ سے نکلا ہو۔
چہارم : جو گروہ قریش کا مکہ سے مدینہ پر حملہ کرنے کو نکلے یا کسی طرح پر احتمال ہو کہ وہ مدینہ پر آنے والا ہے ہتھیاروں سے اس کا مقابلہ کرنا۔ کیونکہ ایسا کرنا اسی امن کے قائم رکھنے کے لیے لازمی و ضروری ہے ان چاروں باتوں میں سے کوئی بات ایسی نہیں ہے جس کی نسبت کہا جاسکے کہ اس سے زبردستی اور ہتھیاروں کے زور سے اسلام کا منوانا مقصود ہے۔
ان کے سوا دو امر اور ہیں جو ہتھیاروں کے اٹھانے کا باعث ہوتے ہیں۔
وما لکم لاتقاتلون فی سبیل اللہ وللستضعفین من الرجال والنساء والولدان الذین یقولون ربنا اخرجنا من ھذہ القریۃ الظالم اھلھا واجعل لنا من لدنک والیاواحعل لنا من لدنک نصیرا (سورة النساء )
ایک یہ کہ : کافر ان مسلمانوں کو جو ان کے قبضہ میں ہوں تکلیف اور ایذا دیتے ہوں ان کی مخلصی کے لیے یا ان کو ان کے ظلم سے نجات دلوانے کے لیے لڑائی کی جاوے جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” کیا ہوا ہے تم کو نہیں لڑتے ہو اللہ کی راہ میں اور کمزوروں کے بچانے کے لیے مردوں اور عورتوں اور بچوں میں سے جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو نکال اس شہر سے کہ ظلم کرنے والے ہیں اس کے لوگ اور کر ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی والی اور کر ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی مددگار “۔ کون شخص ہے جو اس لڑائی کہ انسانی اخلاق اور انسانی نیکی کے برخلاف کرسکتا ہے۔ اور کون شخص ہے جو اس لڑائی کی نسبت یہ اتہام کرسکتا ہے کہ وہ زبردستی اور ہتھیاروں کے زور سے مذہب قبلوانے کے لیے ہے۔ دوسرے یہ کہ : کافر مسلمانوں کو ان کے مذہبی احکامادا کرنے کے لیے مانع ہوں بشرطیکہ وہ ان کی عملداری میں رہتے نہ ہوں کیونکہ اس صورت میں ان کو وہاں سے ہجرت لازم ہے نہ لڑائی کرنی۔
اگرچہ اس لڑائی کی بنیاد ایک مذہبی امر پر ہے لیکن اس کا مقصد اپنی مذہبی آزادی حاصل کرنا ہے نہ کہ دوسروں کو جبرو زبردستی اور ہتھیاروں کے زور سے مذہب کا منوانا۔ اگر ہندو کسی قوم سے اس بات پر لڑیں کہ وہ قوم ان کو ان کے احکام مذہبی ادا کرنے نہیں دیتی تو کیا یہ کہا جاویگا کہ ہندوؤں نے دوسری قوم کو باجبر اور ہتھیاروں کے زور سے ہندو کرنا چاہا ہے۔
ایک اور امر ہے جو انہی قسم کی لڑائیوں کا ضمیمہ ہے یعنی جس ملک یا قوم سے انہی امور کے بسبب مخالفت ہے اور لڑائی انہی امور کے سبب مشتہر ہوچکی ہے اس زمانہ تہذیب میں بھی کون سی مہذب سے مہذب قوم ہے جو اس فعل کو نامہذب و ناجائز قرار دے سکتی ہے۔ اور کون شخص ہے جو اس کو باجبروز بردستی ہتھیاروں کے زور سے مذہب کا قبلوانا قرار دے سکتا ہے۔
تمام لڑائیاں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ہوئیں وہ انہی امور پر مبنی تھیں۔ ایک لڑائی بھی اس غرض سے نہیں ہوئی کہ مخالفوں کو زبردستی اور ہتھیاروں کے زور سے اسلام منوایا جاوے۔
اس دعویٰ کا ثبوت دو طرح پر ہوسکتا ہے۔ اول ان احکام سے جو قرآن مجید میں لڑائیوں کی نسبت وارد ہیں اور جن سے ظاہر ہوگا کہ لڑائی کا حکم صرف امن قائم کرنے کے لیے تھا نہ زبردستی سے اسلام قبلوانے کے لئے۔ دوسرے ان لڑائیوں کے واقعات پر غور کرنے سے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں واقع ہوئیں۔ چنانچہ ہم اب انھیں کے بیان پر متوجہ ہوتے ہیں اس کے بعد ایک امر اور بحث طلب باقی رہے جائے گا کہ ایک پیغمبر کو اس قسم کی لڑائیاں لڑنا بھی زیبا ہے یا خاموشی سے گردن کٹوا کر اور اپنے سر کو ملشت میں رکھو اگر دشمن کے سامنے جانے دینا۔ یا کافروں کے ہاتھوں میں اپنے تئیں ڈلوا کر صلیب پر چڑھنا اور جان دینا۔ چنانچہ ہم اس پر بھی اخیر کو بحث کرینگے۔
آیات قرآنی کا بیان جن میں مذہب کی آزادی کا حکم ہے
قرآن مجید کی کسی آیت میں کسی شخص کو زبردستی سے یا ہتھیاروں کے زور سے مسلمان کرنے یا اسلام قبلوانے کا حکم نہیں ہے بلکہ مسلمان کرنے کے لیے صرف وعظ اور نصیحت کرنے کی ہدایت ہے۔ اور صاف صاف بتلایا ہے کہ اسلام میں جبرو زبردستی نہیں ہوسکتی۔ سورة نحل میں خدا نے فرمایا ” ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجاء لھم بالتیھی احسن “ یعنی (اے پیغمبر) بلا اپنے رب کی راہ پر پکی بات سمجھا کر اور اچھی نصیحت کر کر اور ان سے بحث کر ایسے طریقہ سے کہ وہ بہت اچھا ہے۔
اور سورة نور میں فرمایا ” قل اطیعواللہ واطیعوالرسول فان تولوا فانما علیہ ماحمل وعلیکم ماحملتم وان تطیعوہ تھتدواوماعلی الرسول الا البلاغ “ یعنی کہہ دے (اے پیغمبر) کہ فرمان برداری کرو اللہ کی اور فرمان برداری کرو رسول کی پھر اگر وہ پھر جاویں تو اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ پیغمبر پر وہی ہے جو اس پر بوجھ ڈالا گیا ہے (یعنی ہدایت و نصیحت) اور تم پر وہی ہے جو تم پر بوجھ ڈالا گیا ہے (یعنی بسبب نہ قبول کرنے ہدایت و نصیحت کے) اور اگر اس کی فرمان برداری کرو گے تو ہدایت پاؤ گے اور پیغمبر کے ذمہ اور کچھ نہیں ہے مگر حکم کا صاف صاف پہنچا دینا۔
اور سورة تغابن میں فرمایا ہے ” اطیعوا للہ واطیعوالرسول فان تولیتم فانما علی رسولنا البلاغ المبین “ یعنی فرمان برداری اللہ کی اور فرمان برداری کرو پیغمبر کی پھر اگر تم پھر جاؤ تو اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہمارے پیغمبر کے ذمہ حکموں کو پہنچا دینا ہے صاف صاف۔
سورة ق میں خدا نے فرمایا ” وماانت علیھم یحبارفذکر بالقراٰن من یخاف وعید “ یعنی تو ان پر زور کرنے والا نہیں ہے پھر نصیحت کر قرآن سے اس کو جو ڈرتا ہے عذاب کے وعدہ سے۔
اور سورة غاشیہ میں فرمایا ہے ” فذکر انما انت مذکر لست علیھم بمصیطر “ یعنی پھر تو ان کو نصیحت کر اس کے سوا کچھ نہیں کہ تو نصیحت کرنے والا ہے اور ان پر کڑوڑا نہیں ہے۔
اور سورة یونس میں فرمایا ہے ” ولوشاء ربک لا من من فے الارض جمیعا افانت تکرہ الناس حتیٰ یکونوا مومنین “ یعنی اگر تیرا پروردگار چاہے تو بےشبہ ایمان لے آویں جو زمین پر ہیں اکٹھے پھر کیا تو زبردستی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ مسلمان ہوجاویں۔
اس سے زیادہ وضاحت سے سورة بقر میں اسلام میں زبردستی کے ہونے کی نفی فرمائی ہے جہاں فرمایا ہے ” لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی فمن یکفر بالطاغوت و یومن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقی لا انفصام لھا واللہ سمیع علیم “ یعنی کچھ زبردستی نہیں ہے دین میں بلاشبہ ظاہر ہوگئی ہے ہدایت گمراہی سے پھر جو کوئی منکر ہوا غیر خدا کی پرستش کا اور ایمان لاوے اللہ پر تو بیشک اس نے پکڑ لیا مضبوط ذریعہ جس کے لیے ٹوٹنا نہیں ہے اور اللہ سننے والا ہے جاننے والا۔
مخالفین اسلام یہ حجت پکڑتے ہیں کہ اس قسم کی نصیحتیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اسی وقت تک تھیں جب تک کہ آپ مکہ میں تشریف رکھتی تھے مگر جب مدینہ میں میں چار آنے اور انصار اہل مدینہ مسلمان ہوگئی اور مہاجرین اور انصار ایک جگہ جمع ہوگئے ہو اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت بڑی قوت ہوگئی اس وقت ان نصیحتوں کو بدل دیا اور لڑنے اور قتل کرنے کا اور تلوار کے زور سے اسلام قبولوانے کا حکم دیا مگر یہ حجت محض غلط ہے اول تو اس لیے کہ انھیں سورتوں میں سے جن کی آیتوں کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے سورة نور اور سورة بقرہ ہجرت کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہیں جبکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بخوبی قوت ہوگئی تھی اور انھیں سورتوں میں حکم ہے کہ رسول کا کام صرف حکموں کا پہنچا دینا ہے اور دین میں کچھ زبردستی نہیں ہے۔ پھر یہ کہنا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ میں آنے کے بعد ان نصیحتوں کو بدل دیا تھا صریح جھوٹ ہے۔ دوسرے یہ کہنا کہ خدا کے احکام جو بطور اصل اصول کے نازل ہوئے ہیں وہ جگہ کی تبدیل یا قوت اور ضعف کی تبدیل سے تبدیل نہیں ہوسکتے۔ خدا کا حکم یہ ہے کہ زبردستی سے کسی کو مسلمان نہیں کیا جاسکتا پس جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تھے اس وقت بھی کوئی شخص زبردستی سے مسلمان نہیں ہوسکتا اور جب آپ مدینہ میں تشریف لے آئے اس وقت بھی کوئی زبردستی سے مسلمان نہیں ہوسکتا تھا۔ ہاں جب آپ مدینہ میں تشریف لے آئے اور لڑائی کا حکم ہوا مگر وہ لڑائیاں لوگوں کو جبرو زبردستی سے اور ہتھیاروں کے زور سے مسلمان کرنے کے لیے نہ تھیں بلکہ امن قائم کرنے کے لیے تھیں جس کو ہم آئندہ بالتفصیل بیان کرینگے۔
آزادی مذہب کی صلح اور معاہدہ کی حالت میں
خدا تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو کافروں سے صلح اور معاہدہ کرنے کی اجازت دی جس کا ماحصل یہ ہے کہ کافروں کے مذہب میں کچھ دست درازی نہ کی جائے وہ اپنے مذہب پر رہیں صرف مسلمانوں کو ایذا نہ دیں۔ ان سے لڑیں نہیں اور ان کی دشمنوں کی مدد نہ کریں اور ان معاہدوں پر قائم رہنے کی نہایت تاکید کی اور معاہدہ کرنے والوں سے جو اپنے معاہدہ پر قائم رہے ہوں لڑنے کی ممانعت فرمائی صلح اور معاہدہ کی اجازت ہی صاف دلیل اس بات کی ہے کہ مذہب کی آزادی میں خلل ڈالنا مقصود نہ تھا اور لڑائی سے کسی کو زبردستی اور ہتھیاروں کے زور سے مسلمان کرنا مقصود تھا بلکہ صرف امن کا قائم رکھنا مقصود اصلی تھا۔
سورة نحل میں خدا نے فرمایا ” واوفوابعھد اللہ ذاعا ھدتم ولا تنقضوا الایمان بعد توکیدھا وقد جعلتم اللہ علیکم کفیلا ان اللہ یعلمہ ما تفعلون “ یعنی اور پورا کرو تم عہد اللہ کا (یعنی جو خدا کو درمیان میں دے کہ عہد کیا ہے) جب تم نے عہد کیا اور نہ توڑو اپنی قسموں کو ان کے مضبوط کرنے کے بعد اور بیشک تم نے اللہ کو کیا ہے اپنا ضامن بیشک اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔
خود سورة توبہ میں جس میں نہایت خفگی سے لڑائی کا حکم ہے خدا نے فرمایا ہے ” الا الذین عاھدتم من المشرکین ثملم ینقضو کم شیئا ولم یظاھر واعلیکم احدا فاتموا الیھم عھد ھم الی مدتھم ان اللہ یحب المتقین “ یعنی جن مشرکوں سے تم نے عہد کیا ہے پھر انھوں نے اس کے پورا کرنے میں کچھ کمی نہیں کی اور نہ تمہارے برخلاف کسی کی مدد کی تو پھر تم پورا کرو ان کے ساتھ ان کا عہد ان کی میعاد تک بیشک اللہ دوست رکھتا ہے پرہیزگارروں کو۔
پھر اسی سورة میں فرمایا ” الذین عاھدتم عندالمسجد الحرام فما استقاموالکم فاستقیموا الھما ان اللہ یحب المتقین “ یعنی جن مشرکوں نے مسجد حرام کے پاس تم سے عہد کیا تھا پھر جب تک کہ وہ تمہارے لیے عہد پر قائم رہیں تو تم بھی ان کے لیے عہد پر قائم رہو بیشک اللہ دوست رکھتا ہے پرہیزگاروں کو۔
وما کان لمومن ان یقتل مومنا الا ظا ومن قتل مومنا خطاء فلخریررقبۃ مومنۃ ودیۃ مسلمتا الی اھلہ الا ان یصدقوا فان کان من قوم عدولکم وھو مومن تحریر رقبہ قصومنۃ وان کان من قوم بینکم وبینھم میثاق فدیۃ مسلمۃ الی اھلہ و تحریر رقبۃ مومنۃ فمن لم یجد فصیام شہرین متتا بعین توبۃ من اللہ وکان اللہ علیما حمکیما۔ (سورة نساء )
اس سے زیادہ معاہدہ کی رعایت کفار اور مشرکین کے ساتھ کیا ہوسکتی ہے جتنی کہ قرآن مجید میں کی گئی ہے۔ سورة نساء مدینہ میں ہجرت کے بعد اتری ہے اس میں حکم ہے کہ اگر کسی مسلمان کے ہاتھ سے کوئی مسلمان دھوکا سے مارا جائے تو قاتل کو ایک غلام آزاد کرنا چاہیے اور اگر مقدور نہ ہو تو ساٹھ روزے رکھنے چاہئیں اور اس کے سوا مقتول کی دیت اس کے کنبے کو دی جائے۔ پھر اگر وہ مقتول ایک ایسی قوم میں کا ہے جن سے اور مسلمانوں سے دشمنی ہے اور وہ مقتول مسلمان ہے تو قاتل کو صرف غلام ہی کا آزاد کرنا ہوگا۔ اور اگر مقتول ایسی قوم میں کا ہے کہ اس قوم سے اور مسلمانوں سے معاہدہ ہے تو قاتل کو غلام بھی آزاد کرنا ہوگا اور مقتول کی دیت اس کے کنبہ کو بھی دینی ہوگی۔ اس سے زیادہ معاہدہ کی رعایت جس کا حکم خدا تعالیٰ نے دیا ممکن نہیں کیونکہ جو حق خدا تعالیٰ نے ایسی حالت میں مسلمانوں کے لیے مقرر کیا تھا وہی حق ان کفارا اور مشرکین کے لیے بھی قرار دیا ہے جن سے اور مسلمانوں سے امن کا معاہدہ ہوگیا ہو۔
ولما تخافن من قوم خیانۃ فانبذ الیھم علی سواء ان اللہ لا یحب الخائنین۔ (سورة انفال آیت)
جن لوگوں سے معاہدہ ہوا اگر معلوم ہو کہ وہ دغا بازی کرنا چاہتے ہیں تو معاہدہ توڑنے کی اجازت دی گئی ہے مگر ایسی احتیاط اور انصاف سے اس کے توڑنے کی ہدایت کی گئی ہے کہ ان لوگوں کو کسی طرح نقصان نہ پہنچ سکے یعنی یہ حکم ہے کہ اس طرح پر معاہدہ توڑا جائے کہ دونوں فریق برابری کی حالت پر رہیں اس میں کچھ دغابازی نہ ہونے پاوے کیونکہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
وان احد من المشرکین استجارک فاجرہ حق یسمع کلام اللہ ثم ابلغہ مامنہ ذلک بانھم نور یا یعلمون۔ (سورة توبہ )
عین لڑائی کے زمانہ میں اگر کوئی مشرک کافر پناہ مانگے تو اس کو پناہ دینے کا حکم ہے اور صرف پناہ ہی دینے کا حکم نہیں ہے بلکہ یہ حکم بھی ہے کہ اس کو اس کے امن کی جگہ میں پہنچا دیا جاوے۔ اس سے زیادہ مذہب کی آزادی اور معاہدہ کی احتیاط کیا ہوسکتی ہے۔
اسی بنا پر رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین عرب کے بہت سے قبیلوں سے اور قبائل یہود سے جو مدینہ میں رہتے تھے امن کے معاہدے کئے جو دلیل واضح اس بات کی ہے کہ مقصود یہ تھا کہ ملک میں لوگ امن سے رہیں مسلمانوں کو ایذا نہ دیں اور خدا کے کلام کو سنیں کہا قال ” حتی یسمع کلام اللہ “ پھر جس کا دل چاہے ایمان لاوے جس کا دل نہ چاہے نہ لاوے۔ کما قال اللہ تعالیٰ ” لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی “ وقال فی موضع اخر ” فمن شاء خلیو من ومن شاء فلیکفر “۔
لڑائی کے احکام اور اس حالت میں بھی آزادئے مذہب
سب سے پہلے ہم کو یہ بیان کرنا چاہیے کہ کن لوگوں سے لڑنے کا حکم ہوا ہے اور کس مقصد سے ہم اس سے پہلے بالتصریح بیان کرچکے ہیں کہ جو لوگ اپنے معاہدوں پر قائم ہیں اور مسلمانوں سے نہیں لڑتے اور نہ ان کے دشمنوں کو لڑنے میں مدد دیتے ہیں ان سے لڑنے کا حکم نہیں ہے۔ پس لڑائی کا حکم تین قسم کے لوگوں کے ساتھ ہوا ہے۔
اول : ان لوگوں سے جو مسلمانوں سے لڑائی شروع کریں اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ میں فرمایا ہے
وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین
اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے
یقاتلوکم و لا تعتدوا ان اللہ لا یحب المعتدین (سورة بقرہ ) فان انتھو فلاعدو ان الا علے الظالمین (سورة بقرہ ) فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم واتقواللہ واعلموا ان اللہ مع المتقین (سورة بقرہ )
جو تم سے لڑیں اور زیادتی مت کرو بیشک اللہ دوست نہیں رکھتا زیادتی کرنے والوں کو دوسری جگہ فرمایا کہ ” اگر وہ لڑنا موقوف کردیں تو دست درازی کرنی نہیں چاہیے کیونکہ دست و سازی صرف ظالموں پر کرنی ہے “ ایک اور جگہ فرمایا کہ ” جو کوئی تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پر زیادتی کرو ۔ جتنی کہ اس نے تم پر زیادتی کی ہے اور خدا سے ڈرو اور جان لو اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔
واقتلوھم حیث ثقفضموھم واخر جو ھم من حیث اخرجوکم وانعمتۃ اشد من القتل۔ (سورة بقرہ ) ولا تقاتلو ھم عند المسجد الحرام حتی یقاتلوکم فیہ فان قاتلو کم فاقتلوھم کفرلک جزاء الکافرین (سورة بقرہ ) فان نتھوا فان اللہ غفور رحیم (سورة بقرہ )
قدیم زمانہ سے عرب میں یہ دستور چلا آتا تھا کہ حرم کعبہ میں جدال و قتال نہیں کرتے تھے اس کی نسبت خدا نے فرمایا کہ ” لڑائی کی حالت میں ان کو جہاں پاؤ (حرم کے اندر یا حرم کے باہر) قتل کرو کیونکہ فساد مچانا قتل سے بھی زیادہ ہے “ مگر اس حکم میں بھی احتیاط کی اور فرمایا کہ ” تم مسجد حرام کے پاس ان کو مت مارو جب تک کہ وہ وہاں تم کو نہ ماریں پھر اگر وہ وہاں بھی تم کو ماریں تو تم بھی ان کو ماروہ یہ ہے بدلا کافروں کا “ اس کے بعد فرمایا کہ اگر وہ ” باز رہیں “ یعنی لڑنا موقوف کردیں ” تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان “ یعنی تم بھی ان کو معاف کردو اور لڑنا موقوف کردو۔
وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم ولئن حسبرتم لھو خیر للصابرین (سورة نحل )
سورة نحل میں خدا نے فرمایا کہ اگر تم کافروں کے ایذا پہنچانے کا بدلا لینا چاہتے ہو تو اسی قدر ایذا کا بدلا لو جس قدر کہ انھوں نے تم کو ایذا پہنچائی ہے اور اگر تم صبر کرو تو بیشک وہ بہتر ہے صبر کرنے والوں کو۔
اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا وان اللہ علے نصرھم لقدیر۔ الذین اخرجوا من دیارھم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا اللہ (سورة حج -)
پھر سورة حج میں اس سے بھی زیادہ تصریح فرمائی ہے کہ ان لوگوں کو لڑنے کا حکم دیا گیا ہے جن سے کفار مکہ لڑتے ہیں اس لیے کہ کفار مکہ کے ہاتھ سے مسلمان مظلوم ہوئے ہیں انھوں نے مسلمانوں کو بغیر کسی حق کے ان کے گھروں سے نکال دیا ہے اس لیے کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے۔
الا الذین یعملون الی قوم بینکم وبینھم میثاق او جاؤ کم حصرت صدور ھم ان یقاتلوا قومھم ولو شاء اللہ لسلطھم علیکم فلقا تلوکم فان اعتزلوکم فلم یقاتلو کم والقوا الیکم السلم فما جعل اللہ لکم علیہم سبیلا۔ (سورة نساء )
سورة نساء میں خدا نے فرمایا ہے کہ کافروں سے لڑو اور ان کو قتل کرو جہاں پاؤ ۔ مگر ان لوگوں سے نہ لڑو اور نہ ان کو قتل کرو جو ایسے لوگوں سے جاملیں جن سے اور تم سے امن کا معاہدہ ہے۔ اور ان سے بھی مت لڑو اور ان کو بھی قتل مت کرو جن کا دل لڑنے سے تنگ ہوگیا ہے اور نہ وہ تم سے لڑنا چاہتے ہیں اور نہ اپنی قوم سے لڑنا چاہتے ہیں پھر جب وہ لڑائی سے الگ ہوجاویں یعنی نہ تم سے لڑیں اور نہ تمہارے ساتھ شامل ہو کر اپنی قوم سے لڑنا چاہیں اور تمہارے پاس صلح کا پیغام بھیجیں تو ان سے مت لڑو کیونکہ اللہ نے ان پر تم کو لڑنے کا کوئی قابو نہیں دیا ہے۔
ستجدون اخرین یریدون ان یامنوکم وملمنوا قومھم کلما ردو الی الفتنتۃ ارکوا فیھا فان لم یعتزلوکم ویلقوا الیکم السلم ویکفوا ایدیھم فخذوھم واقتلوھم حیث تقلتھوھم واولئک جعلنا الکم علیھم سلطانا مبینا۔
اس کے بعد اسی سورة میں فرمایا ہے کہ بعض قومیں چاہتی ہیں کہ تم سے بھی امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہیں اور فتنہ و فساد میں نہ پڑیں پھر اگر تمہارے ساتھ لڑنے سے علیحدہ نہ ہوجاویں۔ اور پیغام صلح نہ بھیجیں اور اپنے ہاتھ لڑنے سے نہ روکیں تو ان کو پکڑو اور مارو جہاں پاؤ یہی لوگ ہیں جن پر خدا نے تم کو غلبہ کرنے کا حق دیا ہے۔ پس لڑنا اسی پر موقوف ہے جب کہ کافر لڑائی شروع کریں۔
لا ینھاکم اللہ عن الذینلم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم وتقسطوا الیھم ان اللہ یحب للسقسطین۔ انما ینھاکم اللہ عن الذین قاتلوکم نے الدین و اخرجوکم من دیارکم وظاھرو اعلیٰ اخرجکم ان تولو ھم ومن یتولھم فاولئک لعم الظالمون (سورة المستحنہ -) سورة ممتحنہ میں نہایت صفائی سے اور بطور قاعدہ کلیہ کے بیان فرمایا ہے کہ کافروں سے کس طرح پیش آنا چاہیے۔ اور یہ فرمایا ہے کہ جو لوگ تم سے لڑے نہیں اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ہے ان کے ساتھ سلوک اور احسان کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا بلکہ اللہ سلوک کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے صرف ان سے دوستی رکھنے کو منع کرتا ہے جو تم سے لڑتے ہیں تمہارے دین کے سبب سے اور تم کو تمہارے گھروں سے نکال دیا ہے اور جنہوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نکال دینے پر نکالنے والوں کی مدد کی ہے۔
ان تمام آیتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ لڑائی کا حکم کسی کو زبردستی سے اسلام قبول کروانے کے لیے نہیں ہے بلکہ جو لوگ مسلمانوں کو قتل کرنا اور ان سے لڑنا چاہتے تھے ان سے محفوظ رہنے کے لیے لڑائی کا حکم ہوا ہے اور لڑائی میں یا لڑائی کے موقوف ہوجانے اور امن قائم ہوجانے پر کسی کے مذہب سے کسی قسم کا تعرض مقصود نہیں ہے۔
مخالفین اسلام چند آیتیں اس امر کے ثابت کرنے کو پیش کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں عموماً کافروں کے قتل کرنے کا حکم ہے اور نیز بجبر ہتھیاروں کے زور سے ان کو مسلمان کرنے کی ہدایت ہے۔ مگر ان کا یہ کہنا محض غلط اور صریح ہٹ دھرمی ہے جس کو بالتفصیل ہم بیان کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ سورة بقرہ اور سورة نساء میں آیا ہے کہ ” واقتلوھم حیث ثقفتموھم “ اس میں صاف حکم ہے کہ کافر جہاں ملیں وہاں ان کو قتل کرو۔ مگر یہ صریح ان کی غلطی ہے حرم کعبہ میں قتل و قتال زمانہ جاہلیت سے منع تھا مگر جب قریش مکہ سے لڑائی ٹھنی تو خدا نے حکم دیا کہ ان کو جہاں پاؤ یعنی حرم کعبہ میں یا اس کے باہر ان سے لڑو اور ان کو قتل کرو پس اس آیت سے عموماً کافروں کا قتل کرنا کہاں سے نکلتا ہے خصوصاً ایسی صورت میں کہ قرآن مجید سے انہی سے لڑنے کا حکم ہے جو مسلمانوں سے لڑتے ہوں نہ ان سے کہ جو لڑنا نہیں چاہتے۔
ودوالوتکفرون کما کفروا فتکونون سواء فلا تتخذ وامنھم اولیاء حتی یھاجروا فی سبیل اللہ فان تولوا فخذوھم واقتلوھم حیث وجد تموھم ولا تتخذوا منھم ولیا نصیرا۔ (سورة نساء )
وہ کہتے ہیں کہ سورة نساء میں صاف حکم ہے کہ جب تک کافر مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ میں نہ چلے آویں ان کو جہاں پاؤ قتل کر ڈالو۔ کافروں کا مدینہ میں ہجرت کرکے آنا اور مسلمان ہوجانا برابر ہے۔ پس اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ جب تک کافر مسلمان نہ ہوجاویں ان کو جہاں پاؤ مار ڈالو۔
مگر یہ دلیل محض غلط ہے یہ آیت مکہ کے منافقوں کے حق میں ہے جیسا کہ اس آیت کے اوپر پیان کیا ہے ” فما لکم فے للنافقین الخ “ مکہ کے بہت سے لوگ نفاق سے اپنے تئیں مسلمان کہتے تھے اور مسلمانوں کو تردد تھا کہ ان کے ساتھ لڑائی میں کس طرح کا معاملہ کریں۔ ان کی نسبت خدا نے فرمایا کہ ان کا یہ کہنا کہ ہم مسلمان اور تمہارے طرفدار ہیں ہرگز نہ مانو اگر وہ سچے ہیں تو ہجرت کرکے چلے آویں پھر اگر وہ نہ آئیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ جھوٹے اور منافق تھے تو لڑائی میں ان کو بھی جہاں پاؤ حرم کے اندر یا حرم کے باہر مارو اور قتل کرو پس ہجرت کا حکم کسی ایسے شخص کی نسبت جو مسلمان ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا تھا نہیں دیا گیا ہے۔
فلیقاتل فی سبیل اللہ الذین یشرون الحیوۃ الدنیا یالاخرۃ ومن یقاتل فی سبیل اللہ فیقتل اویغلب فسوف نوتیہ اجرا عظیما۔ (سورة نساء ) فقاتل فی سبیل اللہ لا تکلف الا نفسک وحرمز المومنین عسی اللہ ان کیف باس الذین کفروا واللہ اشد باسا وشد تنکیلا۔ (سورة النساء ) یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم و ماواھم جھنم وبئس المصیر (سورة تحریم) فلا تطع الکافرین وجاھد ھم بہ جھادا کبیرا۔ (سورة فرقان ) قاتلوالذین لا یمومنون باللہ ولا بالیوم الخرد لا یحرمون الحق من الذین اوتوالکتب حتی یطعوا الجزیۃ عن یدوھم صاغرون (سورة توبہ ) وقاتلوا المشرکین کا فۃ کما یقاتلونکم کافۃ (سورة توبہ ) یایھا الذین امنوا قاتلوا الذین یلونکم من الکفار ولجد وافیکم غلظۃ (سورة توبہ )
وہ دلیل لاتے ہیں کہ سورة نساء کی بعض آیتوں میں مطلقاً کافروں سے لڑنے کا حکم ہے مگر تم نہیں سمجھ سکتے کہ ان آیتوں سے ان کا کیا مطلب ثابت ہوتا ہے بلاشبہ ان آیتوں میں اور بہت سی آیتوں میں لڑنے کا حکم ہے مگر لڑا بھی انہی لوگوں سے جاویگا جن سے لڑنے کا حکم ہے اور وہ وہی لوگ ہیں جو مسلمانوں سے بخصومت دین لڑتے ہیں۔ علاوہ اس کے ان آیتوں میں بھی کسی کو بجبر اور ہتھیاروں کے زور سے مسلمان کرنے کا اشارہ تک نہیں ہے۔ اسی قسم کی آیتیں سورة تحریم اور سورة فرقاں اور سورة توبہ میں بھی آئی ہیں جن میں کافروں سے لڑنے اور لڑائی میں ان کے قتل کرنے کا حکم ہے مگر جن لوگوں سے لڑنے کا حکم ہوا انہی سے لڑنے کا حکم ان آیتوں میں ہے نہ عموماً ہر ایک کافر یا عام کافروں سے لڑنے کا۔ پس یہ کہنا کہ ان آیتوں میں لڑنے کا حکم ہے اور اس بات کو چھپا لینا اور نہ بیان کرنا کہ کن لوگوں سے منجملہ کفار کے لڑنے کا حکم ہے صریحاً ہٹ دھرمی ہے۔ قرآن مجید میں کسی کافر سے بحیثیت کفر اس سے لڑنے کا حکم نہیں ہے صرف تین قسم کے کافروں سے لڑنے کا حکم ہے ایک وہ جو مسلمانوں سے لڑتے ہیں۔ دوسرے وہ جنہوں نے عہد شکنی کی ہو اور مسلمانوں سے لڑنے والوں کے ساتھ جا ملے ہوں۔ تیسرے وہ جن کے ہاتھ میں مسلمان عورت و مرد و بچے بطور قیدی کے ہوں اور وہ ان کو ایذا پہنچاتے ہوں ایک قسم کو تو ہم ابھی بیان کررہے ہیں اور باقی قسموں کو بھی عنقریب بیان کرینگے پھر کون شخص یا کوئی قوم مہذب سے مہذب اس قسم کی لڑائی کو ناواجب یا ظلم کرسکتا ہے اور کیونکہ اس قسم کی لڑائیوں کی نسبت کہا جاسکتا ہے کہ وہ بزور شمشیر اسلام قبول کروانے کے لیے کی گئی تھیں۔
وقاتلوھم حتیٰ لا تکون فتنۃ و یکون
ہاں چند آیتیں ہیں جن پر بحث کرنا ہم کو ضرور ہے سورة بقرہ اور سورة انفال میں خدا نے فرمایا ہے کہ کافروں سے لڑو تاکہ فتنہ مٹ جاوے الذین یعہ (سورة بقرایت ) قل للمخلفین من الاعراب ستدعون الی قوم اولی باس شدید تقاتلونھم اویسلمون (سورة فتح ) وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للہ فان انتھوفان اللہ بما یعملون بصیر (سورة انفال ) اور دین بالکل اللہ کے لیے ہوجاوے۔
اور سورة فتح میں فرمایا ہے کہ اے پیغمبر تو ان گنوار عربوں سے جو پیچھے رہ گئے تھے کہہ دے کہ تم ایک سخت لڑنے والی قوم سے لڑنے کو بلائے جاؤ گے پھر تم ان سے لڑو گے یا وہ مسلمان ہوجاوینگے۔ معترض کہہ سکتا ہے کہ ان آیتوں سے اس بات کا اشارہ نکلتا ہے کہ جب تک کافر مسلمان نہ ہوجاویں ان سے لڑے جانا چاہیے۔ اول تو یہ کہنا غلط اس لیے ہے کہ ان لفظوں سے کہ ” ویکون الدین کلہ للہ “ کسی طرح یہ مطلب نہیں نکلتا کہ جب تک کافر مسلمان نہ ہوں ان سے لڑے ہی جاؤ کیونکہ ان لفظوں کے صرف یہ معنی ہیں کہ ” دین خدا کے لیے ہوجاوے “ یعنی کافروں کی مزاحمت احکام مذہبی کے بجا لانے میں جاتی رہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واعلموا : سورۃ التوبہ : آیت 5

فَاِذَا انۡسَلَخَ الۡاَشۡہُرُ الۡحُرُمُ فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ وَ خُذُوۡہُمۡ وَ احۡصُرُوۡہُمۡ وَ اقۡعُدُوۡا لَہُمۡ کُلَّ مَرۡصَدٍ ۚ فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوۡا سَبِیۡلَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵﴾

تفسیر سرسید :

فاقتلو المشرکین حیث وجد تموھم وخذوھم واحصروھم واقعدوالھم کل مرصد فان تابواوا قاموا الصلوٰۃ واتوالزکوۃ فخلوا اسبیلھم ان اللہ غفور رحیم (سورة توبہ )
سورة توبہ میں بھی اللہ نے فرمایا ہے کہ مشرکوں کو مارو جہاں پاؤ اور پکڑو ان کو اور گھیرو ان کو اور ان کی گھات میں بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز پڑھیں اور کوٰۃ دیں تو ان کا رستہ چھوڑ دو بیشک اللہ بخشنے والا ہے مہربان۔
معترضین کو اس مقام پر نہایت موقع ہے اگر وہ کہیں نماز ادا کرنے اور زکوٰۃ دینے کو مشروط کرنا صاف ایسا ہے جیسے کہ اسلام لانے کو شرط کرنا۔ مگر جب اس کی تصریح پر خیال کیا جاوے تو معلوم ہوگا کہ اس شرط کو لڑائی سے کچھ تعلق نہیں ہے بلکہ ان کی آمدورفت کی روک ٹوک موقوف ہونے سے تعلق ہے جب تک کہ وہ کافر تھے بلاشبہ روک ٹوک وخبر گیری کی ضرورت تھی کیونکہ ان سے اندیشہ تھا مگر مسلمان ہونے کے بعد ود اندیشہ نہیں رہا اس لیے فرمایا کہ ” فخلوا سبیلھم “ ان سب باتوں سے قطع نظر کرکے ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ان آیتوں میں ان الفاظ سے مسلمان ہوجانا ہی مقصود ہے تو بھی منجملہ اسباب موقوفی لڑائی کے اسلام بھی ایک سبب ہے مگر اس تسلیم کے بھی بجبرو بزور شمشیر کافروں کا مسلمان کرنا لازم نہیں آتا۔
ہم نے بالتفصیل اوپر بیان کیا ہے کہ کفار سے لڑائی کا حکم صرف مسلمانوں کے لیے امن قائم کرنے کا تھا اور وہ امن صرف تین طرح پر قائم ہوسکتا تھا۔
اول : قبل جنگ یا بعد جنگ آپس میں صلح ہونے اور امن کا معاہدہ ہونے سے جس کے کرنے کا خدا نے حکم دیا ہے جہاں فرمایا ہے ” فان اعتزلوکم فلم یقاتلوکم والقوالیکم السلم فماجعل اللہ لکم علیکم سبیلا “ اور خود رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت سی کافر قوموں سے امن کے معاہدے کئے ہیں جن کا ذکر آویگا۔
دوسرے : فتح پانے اور کافروں کا مغلوب ہو کر جزیہ دینا قبول کرنے سے جس کے بعد وہ اپنے دین و مذہب پر بدستورقائم رہتے ہیں جیسے کہ خدا نے فرمایا ہے ” حتی یعطوا الجزیۃ عن یدوھم صاغرون “
تیسرے : مسلمان ہوجانے سے پس یہ تینوں صورتیں امن قائم ہونے کی ہیں ان تینوں صورتوں میں سے کوئی صورت پیش آوے تو لڑائی قائم نہیں رہتی تھی پس ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ لڑائی سے بزور شمشیر کافروں کو مسلمان کرنا مقصود نہ تھا بلکہ صرف امن کا قائم کرنا مقصود تھا۔
دوم : ان لوگوں سے لڑنے کا حکم ہے جنہوں نے دغا بازی کی ہو اور معاہدوں کو توڑ دیا ہو۔ خدا نے سورة توبہ میں فرمایا ہے کہ وان نکثوا ایمانھم من بعد عھد ھم وطعنوا فی دینکم فقاتلوا ائمۃ الکفر انھم لا ایمان لھم لعلھم ینتھون۔ (سورة توبہ )
اگر عہد کرنے کے بعد اپنی قسم کو توڑ دیں تو جو کفر کے سردار ہیں ان سے لڑو کیونکہ ان کی قسم کچھ نہیں ہے۔
الا تقاتلوا قوما نکثوا ایمانھم وھموا باخراج الرسول وھم بدو کم اول ھرۃ (سورة توبہ )
اور ایک جگہ فرمایا ہے کہ ” کیوں نہیں لڑتے ایسی قوم سے جس نے اپنی قسم توڑ دی اور رسول کو نکالنا چاہا اور ان ہی نے پہل کی “۔
عھدھم فی کل مرۃ وھم لایتقون۔ فاما نثقفنھم فی الجرب نشرد بھم من خلفھم لعلھم یذکرون (سورة انفال - )
اور سورة انفال میں فرمایا ہے کہ ” جن لوگوں کے شامل تم نے عہد کیا ہے پھر انھوں نے ہر دفعہ اپنا عہد توڑ دیا ہے اور پرہیزگاری نہیں کرتے پھر اگر تو ان کو لڑائی میں پاوے تو ان کو ایسا مار کہ ان کے پیچھے جو لوگ ہیں متفرق ہوجاویں۔
پس معاہدہ توڑنے کے بعد ان سے لڑنا امن قائم رکھنے کے لیے ایسا ہی ضروری ہے جیسا کہ معاہدہ کرنا کیونکہ بغیر اس کے نہ امن قائم رہ سکتا ہے اور نہ معاہدہ مگر ایسی حالت میں لڑنا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ اس سے بزور شمشیر ان کو مسلمان کرنا مقصود ہے اور ن ہایسی لڑائی مہذب سے مہذب قوم کے نزدیک بھی ناواجب ہے۔
ومالکم لا تقاتلون فے سبیل اللہ و المستضعفین من الرجال والنساء والولدان الذین یقولون ربنا ارجنا من ھذہ القریۃ الظالم اھلھا واجعرات من لدنک ولیا واجعل النا من لدنک نصیرا (سورة نساء )
سوم : ان لوگوں سے لڑنے کا حکم ہے جنہوں نے مسلمانوں کو اور ان کے بچے اور عورتوں کو عذاب میں اور تکلیف میں ڈال رکھا ہے۔ اس کا ذکر سورة نساء میں ہے جس کو ہم اوپر بیان کرچکے ہیں اور ترتیب قائم رکھنے کے لیے اس آیت کو دوبارہ لکھتے ہیں خدا نے فرمایا کہ ” کیا ہوا ہے تم کو کہ نہیں لڑتے ہو اللہ کی راہ میں اور کمزوروں کے بچانے کے لیے مردوں اور عورتوں اور بچوں میں سے جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو نکال اس شہر سے کہ ظلم کرنے والے ہیں اس کے لوگ اور کر ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی والی اور کر ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی مددگار “ کیا یہ انسانیت اور رحم کی بات نہیں ہے کہ لاچار بےبس مسلمانوں مرد اور عورتوں اور بچوں کو کافرو وں کے ظلم سے بچایا جاوے اور ان کی فریاد رسی کے لیے ہتھیار اٹھایا جاوے کون شخص ہے جو اس لڑائی کو ناواجب کہہ سکتا ہے۔
اب ہم ان واقعات کا ذکر کرتے ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں واقع ہوئے تھے اور غزوہ اور سریہ کے نام سے مشہور ہیں اور یہ بات دکھلاتے ہیں کہ کوئی غزوہ یا سریہ اس مقصد سے نہیں ہوا تھا کہ بجبر وبزور شمشیر لوگوں کو مسلمان کیا جاوے بلکہ ہر ایک غزوہ یا سریہ کا کوئی سبب انہی اسباب میں سے تھا جن کی تفصیل ہم نے ابھی بیان کی ہے۔
ہم نے ان غزو وں اور سریوں اور ان کے مقاموں کا حال ان کتابوں سے جن کا نام اس مقام پر لکھتے ہیں اخذ کیا ہے۔ سیرت ہشامی کامل ابن اثیر جزری۔ مواہب لدنیہ۔ علامہ قسطلانی۔ ابن خلدون مغربی۔ تاریخ اسماعیل ابوالفدا۔ ماصد الا طلاع ۔ سیرت ابن اسحاق مغازی واقدی۔ مشترک یا قوت حموی۔ فتبع البلدان۔ تاریخ یا فعی۔ سیرت المحمدیہ مولوی کرامت علی۔ معجم البلدان۔ زاوالمعاد ابن القیم۔ صحیح بخاری۔ صحیح مسلم۔
ان کتابوں میں ان لڑائیوں کے زمانہ میں اختلاف ہے کوئی واقعہ کسی لڑائی کا کسی سنہ میں اور کوئی کسی سنہ میں بیان کرتا ہے اور ہم کو کچھ چارہ نہیں ہے بجز اس کے کہ ان میں سے ایک سلسلہ اختیار کرلیں۔
ان واقعات کے سنہ بیان کرنے میں محرم سے سال کی تبدیلی نہیں قرار دی گئی ہے بلکہ واقعی زمانہ ہجرت سے برس کا شمار کیا گیا ہے۔
ان واقعات کا ہم نہایت مختصر طور پر بیان کرینگے اور صرف اس قدر واقعات کا ذکر کرینگے جس سے معلوم ہو کہ ان لڑائیوں کا کیا سبب تھا آتا ان سے بزور شمشیر اسلام قبلوانا مقصود تھا یا صرف امن کا قائم رہنا اور دشمنوں کے حملوں کو روکنا۔
ہم نے تمام واقعات کو جن پر مورخین نے سریہ یا غزوہ کا اطلاق کیا ہے بالا ستیعاب اس مقام پر ذکر کیا ہے حالانکہ ان میں ایسے بھی واقعات ہیں جو نہ سر یہ تھے نہ غزوہ مگر ہم نے ان کو بھی اس لیے لکھ دیا تاکہ یہ خیال نہ کیا جاوے کہ ہم نے کسی واقعہ کو چھوڑ دیا ہے۔
سریہ سیف البحر رمضان سنہ ہجری
سیف البحر۔ یعنی ساحل البحر۔ یہ ایک جگہ بحر فارس کے کنارہ پر بنی زبیر کے متعلق جو سامہ بن لوی بن غالب کے قبیلہ سے ہیں۔
اس سریہ میں کل تیس سوار تھے اور حمزہ بنعبدالمطلب بن ہاشھم اس کے سردار تھے اور ان کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نشان بھی عنایت کیا تھا۔ جب یہ لوگ سیف البحر میں پہنچے تو ابوجہل بن ہشام مکہ والوں کے تین سو سوار لیے ہوئے ملا۔ مگر کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ مجدی بن عمرو الجہنمی بیچ میں پڑا اور لڑائی نہ ہونے دی۔
ظاہر ہے کہ تیس سواروں کا بھیجنا کسی سے لڑنے یا حملہ کے لیے نہیں ہوسکتا۔ مگر ایسی قلیل جماعت کا خبررسانی کے لیے اور مکہ کے لوگوں کے ارادہ کی تفتیش کرنے کے لیے جو ایک ضروری امر تھا بھیجنا ممکن ہے چنانچہ وہ نتیجہ حاصل ہوا اور مکہ کے لوگوں کی آمادگی اور حملہ آوری کی نیت کی خبر ملی۔
سریہ رابغ شوال سنہ ہجری ۔
رابغ۔ ایک میدان ہے درمیان ابواء اور جحفہ کے۔
اس سریہ میں ساتھ یا اسی سوار تھے اور عبداللہ بن الحارث اس کے سردار تھے اور ان کو بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نشان عنایت کیا تھا۔ جب یہ لوگ ثنیۃ المرہ میں پہنچے تو وہاں قریش کا لشکر بسرداری عکرمہ بن ابی جہل یا مکرز بن حفض موجود تھا۔ اسی لشکر میں مقداد بن عمرو حلیف بن زہرہ اور عتبہ بن غزوان حلیف بن نوفل جو دل سے مسلمان تھے موجود تھے اور موقع پاکر مسلمانوں کے لشکر میں چلے آئے۔ غالباً اسی سبب سے لڑائی نہیں ہوئی کیونکہ اگر ہوتی تو قبائل بنی زہرہ اور بنی نوفل جو مقداد اور عتبہ کے حلیف تھے قریش سے برگشتہ ہوجاتے۔
یہ سریہ خواہ بقصد دریافت حالات اہل مکہ بھیجا گیا ہو یا باحادہ مقابلہ لشکر قریش کے مگر حملہ آوری کے طور پر بھیجنا کسی طرح قرار نہیں پاسکتا انتہا یہ ہے کہ قریش کے حملہ کے روکنے کے لیے جو امن قائم رہنے کے لیے لازمی تھا بھیجا گیا تھا۔
سریہ خرار ذیقعد سنہ ہجری
خرار جحفہ کے نزدیک ایک مقام ہے جس کا یہ نام ہے۔
اس سریہ میں اسی آدمی مہاجرین میں سے تھے اور سعد ابن ابی وقاص ان کے سردار تھے۔ ان کو کہیں کسی دشمن کا پتا نہیں ملا اور خرار تک جاکر واپس آگئے۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہ لوگ صرف خبر رسانی کی غرض سے روانہ ہوئے تھے۔
غزوہ ودان یا غزوہ ابواء صفر سنہ ہجری
دوان۔ فعلان کے وزن پر ایک بستی مکہ مدینہ کے درمیان فرع کی طرف حجفہ کے پاس تھی ہر شی وہاں سے چھ میل اور ابواء آٹھ میل تھا۔
ابواء۔ فرع کے متعلقات سے ہے اور وہاں حضرت آمنہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی والدہ کی قبر ہے۔
خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سفر میں تشریف لے گئے اور بنی ضمرہ بن بکر بن عبدمناف بن کنانہ سے جن کا سردار مخشی بن عمرو الضمیری تھا اس بات پر معاہدہ کیا کہ وہ نہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کرینگے نہ قریش مکہ کی۔ یہ معاہدہ کرکے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس تشریف لے آئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ والوں کو قریش مکہ کے حملہ کا کس قدر خوف تھا۔
غزوہ یواط ربیع الاول سنہ ہجری
یواط۔ ایک پہاڑ ہے جہینہ کے پہاڑوں میں سے رضوی کے پاس۔
خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفر فرمایا اور رضوی کی طرف سے بواط میں ہو کر واپس تشریف لے آئے۔ یہ صرف ایک سفر تھا خواہ اس سے مقصد لوگوں میں وعظ کرنا ہو یا قریش مکہ کے ازدوں کا پتا لگانا یا دونوں۔
غزوہ سفوان یا بدر اولیٰ ربیع الاول سنہ ہجری
سفوان۔ بدر کے پاس جو ایک میدان ہے سفوان اس کا نام ہے۔
بدر ایک چشمہ کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان وادی صفراء کے اخیر واقع ہے اور وہاں سے سمندر کا کنارہ ایک رات بسے کا رستہ ہے۔
کرزبن جابر الفہری نے مدینہ والوں کے مویشی لوٹ لیے تھے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بذات خاص ان کا تعاقب کیا اور سفوان تک تشریف لے گئے مگر وہ ہاتھ نہ آیا۔
غزوہ ذی العشیرہ جمادی الآخر سنہ ہجری
ذوالعشیرہ۔ ایک جگہ ہے مکہ اور مدینہ کے درمیان ینبع کی طرف اور بعضوں نے کہا ہے کہ وہاں ایک چھوٹا سا قلعہ بھی تھا۔
خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفر کیا اور بنی بدلج اور ان کے حلیف بنی ضمرہ سے امن کا معاہدہ کرکے واپس تشریف لے آئے۔ اس سفر میں ایک رات حضرت علی مرتضیٰ زمین پر سو رہے تھے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جگایا۔ اور حضرت علی مرتضیٰ کو مٹی میں بھرا ہوا دیکھ کر فرمایا ” مالک یا ابوتراب “ اور جب سے حضرت علی مرتضیٰ کا لقب ” ابوتراب “ ہوگیا۔
سریہ نخلہ رجب سنہ ہجری
نخلہ : جس کو نخلہ محمود بھی کہتے ہیں ایک جگہ ہے مکہ کے پاس درمیان مکہ وطائف کے وہاں کھجور اور انگور بہت ہوتے تھے اور وہ پہلی منزل ہے مکہ سے۔
اس سریہ میں مہاجرین میں سے اسی آدمی تھے اور ان کے سردار عبداللہ بن جحش تھے اور مکہ کے قریب بھیجے گئے تھے جہاں جان جانے کا نہایت اندیشہ تھا اور صرف قریش مکہ کے ارادوں کی خبر لینے کو بھیجے گئے تھے۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک پرچہ پر لکھ دیا تھا کہ ” امض حتی تنزل نخلۃ قترصد بھاقویشا و تعلم لنا من اخبارھم “۔
جب یہ لوگ نخلہ میں پہنچے اتفاقاً قریش کا ایک قافلہ مال تجارت لے کر آپہنچا۔ عبداللہ بن جحش نے ان پر حملہ کیا اور واقد بن عبداللہ کے تیر سے اس قافلہ میں سے عمرو بن الحضرمی مارا گیا اور عثمان بن عبداللہ اور حکم بن کیسان قید ہوگئے۔
جب عبداللہ بن جحش لوٹ کا مال اور قیدیوں کو لے کر مدینہ میں آئے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تم کو لڑنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا اور قیدیوں کو سعد ابن ابی وقاص اور عتبہ بن غزدان کے واپس آنے پر جو پیچھے رہ گئے تھے چھوڑ دیا اور عمرو بن الحضرمی کی دیت یعنی خون بہا اپنے پاس سے ادا کیا۔
اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ سریوں کے بھیجنے سے صرف قریش کے ارادوں کا حال دریافت کرنا مقصود تھا نہ لڑنا اور کسی پر حملہ کرنا۔
غزوہ بدر اکبرئے رمضان سنہ ہجری
اس غزوہ کا حال ہم سورة انفال کی تفسیر میں مفصل لکھ چکے ہیں اور اس میں بتایا ہے کہ یہ غزوہ قریش کے قافلہ کے لوٹنے کے لیے جو شام سے آتا تھا نہیں ہوا تھا بلکہ قریش مکہ جو لشکر جمع کرکے حملہ کے ارادہ سے نکلے تھے اس کے دفع کرنے کے لیے ہوا تھا۔ لیکن اگر اس مقام پر اسی بات کو تسلیم کرلیں کہ قافلہ ہی کے لوٹنے کو حملہ ہوا تھا تو بھی کچھ الزام نہیں ہوسکتا۔ جس قدر کہ حالات اوپر لکھے گئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ قریش مکہ مدینہ والوں کے پورے دشمن تھے اور وہ مدینہ پر حملہ کرنے کے موقع کو دیکھ رہے تھے۔ اور حملہ کرکے مدینہ والوں کے مویشی لوٹ چکے تھے پس اگر مدینہ والوں نے اس خیال سے کہ مکہ کے دشمنوں کو زیادہ قوت نہ ہوجاوے ان کے اسباب کو لوٹ لینا چاہا تو کیا الزام ہوسکتا ہے دو قوموں میں دشمنی جب علانیہ ہوجاوے جو بمنزلہ اشتہار جنگ کے ہے اور ہر ایک آمادہ جنگ ہو تو ایسے امور کا مرتکب ہونا کسی طرح خلاف اخلاق یا خلاف قدرتی قانون اقوام کے نہیں ہے۔ مگر ہمارا یہ بیان بطریق تنزل کے ہے کیونکہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ یہ غزوہ قافلہ کو لوٹنے کے لیے نہ تھا۔
سریہ عمرو بن عدی الخظمی رمضان سنہ ہجری
سریہ سالم بن عمرو شوال سنہ ہجری
تعجب ہے کہ علامہ قسطلانی نے ان دونوں واقعوں کو سریہ کر کے لکھا ہے حالانکہ نہ وہ سریہ تھے نہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں میں سے کسی کو کہیں بھیجا تھا۔ عمر بن عدی نے از خود ایک عورت حصماء بنت مروان کو جو جورو یزیدبن الخظمی کی تھی اور اس کے رشتہ دار تھی رات کو مار ڈالا۔ اور سالم بن عمیر نے ایک بڈھے یہودی کو مار ڈالا۔ یہ ایک معمولی واقعات ہیں جو دنیا میں ہوتے رہتے ہیں ان کو اس خیال سے کہ دو کافر مارے گئے سریہ میں داخل کرنا محض غلطی ہے بالفرض اگر پہلے واقعہ کی خبر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہوئی اور اس پر کچھ مواخذہ نہیں کیا جس کے کچھ اسباب ہوں گے تو بھی اس کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔
سریہ بنی قینقاع شوال سنہ ہجری
بنی قینقاع۔ یہودی کا ایک قبیلہ تھا جو مدینہ میں رہتے تھے اور ایک بازار ان کے نام سے موسوم تھا اور سوق بنی قینقاع کہلاتا تھا۔
ان سے بھی امن کا معاہدہ تھا مگر جب بدر کی لڑائی ہوئی تو انھوں نے اظہار (دیکھو تاریخ کامل بن الاثیر جلد ثانی صفحہ مطبوعہ مصر) بغاوت کیا۔ اسی درمیان میں ایک مسلمان عورت سے جو سوق بنی قینقاع میں ایک کام کو گئی تھی نالائق اور پر ہنسی کی اور اس کا کپڑا اٹکا کر اس کا ستر عورت کھول ڈالا اس پر ایک مسلمان غصہ میں آیا اور اس یہودی کو جس نے عورت کو بےستر کیا تھا مار ڈالا۔ یہودیوں نے اس مسلمان کو گھیر کر مار ڈالا اس پر یہودیوں اور مسلمانوں میں نزاع قائم ہوگئی۔
ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب واقعات اس وقت ہوئے ہیں جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کی لڑائی میں مصروف تھے۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس تشریف لائے تو ان یہودیوں نے علانیہ معاہدہ توڑ دیا اور عہد نامہ واپس بھیج دیا۔ (دیکھو تاریخ کامل جلد ثانی صفحہ مطبوعہ مصر)
اس واقعہ پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی قینقاع کے محلہ کا محاصرہ کرلیا۔ کیا عجب ہے کہ اس محاصرہ میں کسی سے کچھ لڑائی بھی ہوئی ہو۔ لیکن ضروری تھا کہ قبل شروع کرنے لڑائی کے بطور قطع حجت ان کو دعوت اسلام کی جاوے چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب کو گھیر کر فرمایا کہ تم اسلام قبول کرو ورنہ تمہارا بھی وہی حال ہوگا جو بدر والوں کا ہوا۔ اس پر انھوں نے سخت کلامی سے جواب دیا۔ مگر عبداللہ ابن ابی ابن سلول درمیان میں پڑا اور یہ ٹھہرا کہ یہودی مدینہ سے چلے جاویں چنانچہ عبادہ بن صمامت ان کی حفاظت کو متعین ہوئے اور وہ لوگ بامن و امان معہ مال و اسباب مدینہ سے چلے گئے ان کے ہتھیار لے گئے اور زمینیں ضبط کرلی گئیں اور وہ لوگ خیبر میں جاکر آباد ہوئے۔ اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے
کہ یہ واقعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے حملہ تھا یا بجبر مسلمان کرنا مقصود تھا یا صرف امن کا قائم رکھنا۔
غزوۃ السویق ذالحجہ سنہ ہجری
یعنی جس حملہ میں قریش کو اپنی خوراک کے لیے ستو اپنے ساتھ لائے تھے۔
ابوسفیان دفعۃً دو سو سوار لے کر رات کو خفیہ مدینہ میں آیا اور سلام بن شکم یہودی قبیلہ بنی نضیر سے ملا اور مسلمانوں کے حالات کی جاسوسی کرکے چلا گیا۔ مکہ پہنچ کر قریش مکہ کی ایک جماعت مدینہ پر بھیجی اور مدینہ کے ایک محلہ پر جس کا نام عریض ہے آپڑی اور اس نواح کے باغوں کو جلا دیا اور ایک مسلمان انصاری کو اور ایک مکہ کے رہنے والے اس کے حلیف کو مار ڈالا۔ (کامل صفحہ ۔ زاد المعاد ملمح خود ابو سفیون کی نسبت درختوں کو جلانا اور انصاری کا قتل کرنا لکھا ہے۔ )
اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ آدمی لے کر ان کا تعاقب کیا اور قرقرۃ الکدر تک تشریف لے گئے مگر کوئی ہاتھ نہیں آیا۔
غزوہ قرقرۃ الکدریا غزوہ بنی سلیم محرم سنہ ہجری
قرقرۃ الکدر۔ ایک چشمہ کا نام ہے جہاں یہود بنی سلیم رہتے تھے مدینہ سے آٹھ منزل ہے۔
بعض اسباب سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرف تشریف لے جانا مناسب سمجھا اور آپ قرقرۃ الکدر تک تشریف لے گئے اور تین دن وہاں مقام فرمایا مگر کسی سے مقابلہ یا لڑائی نہیں ہوئی۔
سریہ محمد بن سلمہ ربیع الاول سنہ ہجری
کعب ابن اشرف ایک یہودی تھا جو کفار قریش کا تھا نگی تھا اور مسلمانوں کو اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا پہنچاتا تھا اور قریش مکہ کو حملہ کرنے کی ترغیب دیتا تھا۔ (واقعہ بدر کے بعد یہ خود مکہ گیا اور قریش کو جنگ پر آمادہ کیا۔ مقتولین بدر کے مرثئے لکھے اور قریش کو نہایت جوش دلایا۔ کامل ) اس کو محمد سلمہ نے چند اپنے ساتھیوں کی مدد سے مار ڈالا۔
واقعہ تو اس قدر ہے اب رہی یہ بات کہ ان لوگوں نے خود مارا یا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے ایک ایسا امر ہے جس کا قابل اطمینان تصفیہ نہیں ہوسکتا۔ مگر ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے مارا۔ اور اس بات کا تصفیہ کہ ایسی حالت میں کہ وہ دشمنوں سے سازش رکھتا تھا اور مدینہ پر حملہ کی ترغیب دیتا تھا اس کا قتل کروا دینا بلحاظ ان اصولوں کے جو انتظام جنگ اور دشمنوں کے جاسوسوں اور تھانگیوں سے علاقہ رکھتے ہیں واجب تھا یا ناواجب ان لوگوں کے تصفیہ پر چھوڑتے ہیں جو اصول جنگ سے واقف ہیں۔
 
Top