• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

ختم نبوت(قادیانی شبہات کا رد)

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
پہلی روایت میں قادیانی تحریف کا جواب

روایت
فقال له النبيُّ (ص) : اطْمَئِنَّ يَا عَمُّ! فَإِنَّكَ خَاتَمُ المُهَاجِرِينَ فِي الهِجْرَةِ، كَمَا أَنِّي خَاتَمُ النَّبِيِّينَ فِي النُّبُوَّةِ

قادیانی استدلال

قادیانی روایت پیش کر کے کہتے ہیں دیکھو حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد بھی ہجرت ہوتی رہے گی۔
اور اس روایت میں حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں خاتم المہاجرین کہا گیا ہے مطلب یہ کہ خاتم المہاجرین کا مطلب آخری مہاجر نہیں ہے۔ اسے طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں خاتم النبیین کہا مطلب خاتم النبیین کا مطلب بھی آخری نبی نہیں ہے (معاذاللہ)

جواب نمبر 1

قادیانی یہ روایت پیش کرتے ہیں کنزالعمال سے اور کنزالعمال میں اس روایت کی سند موجود نہیں ہے۔
اس روایت کی سند ابن ابی حاتم (المتوفیٰ 327 ھ) کی کتاب (العلل لابن ابی حاتم) میں ہے۔ وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ إبراهيم بن حمزة ، عن إِسْمَاعِيلَ بْنِ قَيْس، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْل بْنِ سَعْدٍ؛
امام ابن ابی حاتم اس روایت کو لکھنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں

قَالَ أَبِي: هَذَا حديثٌ موضوعٌ، وإسماعيلُ مُنكَرُ الْحَدِيثِ
﴿العلل لابن ابی حاتم رقم الحدیث 2619 جلد 6 صفحہ 404﴾
میرے والد نے کہا یہ موضوع روایت ہے اور اسماعیل منکر الحدیث ہے ۔
1۔م.jpg
شیخ البانی صاحب نے بھی روایت کو ضعیف کہا ہے۔
(سلسلہ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ رقم الحدیث 7030 جلد 14 صفحہ 1131)
2۔1.jpg
اور اس روایت کی سند میں ایک راوی ہے اسماعیل بن قیس الانصاری (1)امام بخاری کہتے ہیں یہ منکر الحدیث ہے(التاریخ الکبیر للبخاری رقم 1173 جلد 1 صفحہ 370، الضعفاء الصغیر للبخاری رقم 19 جلد 1 صفحہ 25)
3۔1.jpg
(2)امام مسلم کہتے ہیں یہ منکر الحدیث ہے(الکنی و الاسماء رقم 3206 جلد 2 صفحہ 788)
4۔1.jpg
(3)امام نسائی کہتے ہیں یہ ضعیف ہے(الضعفاء والمتروکون للنسائی رقم 41 جلد 1 صفحہ 17)
5۔1.jpg
(4) امام رازی کہتے ہیں یہ مجہول ہے(الضعفاء والمتروکون لابن الجوزی رقم 403 جلد 1 صفحہ 118)
6۔1.jpg
تو اس طرح کی روایت پر عقیدہ بنانا کہاں تک درست ہوگا یہ قادیانی بتائیں۔

جواب نمبر 2

اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تب بھی یہ ہمارے عقیدہ کے خلاف نہیں ہے۔بات کچھ اس طرح ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کو فتح کرنے کے لیے صحابہ کرام( رضوان اللہ علیہم اجمعین ) کا لشکر لے کر تشریف لےجا رہے تھے تو راستے میں حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ ہجرت کر کے مکہ شریف سے مدینہ تشریف جا رہے تھے۔راستے میں جب انہوں نے صحابہ کرام ( رضوان اللہ علیہم اجمعین )کو دیکھا تو افسوس کیا کہ مجھے ہجرت کرنے کی فضیلت حاصل نہیں ہوگی تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ علیہ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ
اطْمَئِنَّ يَا عَمُّ! فَإِنَّكَ خَاتَمُ المُهَاجِرِينَ فِي الهِجْرَةِ، كَمَا أَنِّي خَاتَمُ النَّبِيِّينَ فِي النُّبُوَّةِ
اے چچا آپ اطمینان رکھیں کیونکہ آپ مہاجرین کو ختم کرنے والے ہیں جس طرح میں انبیاء کو ختم کرنے والا ہوں۔
اور اس روایت کو اگر صحیح مانا جائے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ مکہ شریف سے ہجرت کرنے والے آخری مہاجر تھے۔کیونکہ ہجرت دارالکفر سے دارالاسلام کی طرف ہوتی ہے۔اور مکہ فتح ہونے کے بعد دارالاسلام ہے اور قیامت تک دارالاسلام ہی رہے گا۔
اور مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت نہیں ہو گئی جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
ل اَ هِجْرَةَ بَعْدَ الفَتْحِ
(صحیح بخاری رقم الحدیث 2783،2825،3899،4311 ، صحیح مسلم رقم الحدیث 1864 ،سنن ترمذی رقم الحدیث 1590،صحیح ابن حبان رقم الحدیث 4592، 4867)
7.jpg
اگر اس روایت کو صحیح مانا جائے تو یہ تو ختم نبوت کی دلیل ہے نہ کہ قادیانی عقیدہ کی۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
دوسری روایت میں قادیانی تحریف کا جواب

روایت

فَإِنِّي آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ مَسْجِدِي آخِرُ الْمَسَاجِدِ

قادیانی استدلال

قادیانی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فَإِنِّي آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ مَسْجِدِي آخِرُ الْمَسَاجِدِ بلا شبہ میں تمام انبیاءؑ میں سے آخری نبی ہوں ۔ اور میری مسجد آخری مسجد ہے۔
اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد بھی بہت سی مساجد بنائی گئی ہیں۔اس لیے آخر الانبیاء سے مراد آخری نبی نہیں ہے۔

جواب

دنیا میں جتنے بھی انبیاء علیہم السلام تشریف لائے ان سب نے اللہ کی عبادت کے لیے مسجد بنائی اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ کی عبادت کے لیے مسجد بنائی۔
تو اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی بنایا نہیں جائے گا۔ جب نبی نہیں بنے گا تو اس کی مسجد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد انبیاء علیہم السلام کی مساجد میں آخری مسجد ہے۔ یہ بات ہم اپنی طرف سے نہیں کہ رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت ہے۔

حدیث
انا خاتم الانبياء و مسجدي خاتم مساجد الانبياء

((1) المخلصیات رقم 2943 جلد 4 صفحہ 25
1.jpeg
2.jpg
(2)مجموع فیه مصنفات ابی جعفر بن البختری رقم 216 جلد 1 صفحہ 228 (3)کشف الاستار عن زوائد البزار رقم 1193 جلد 2 صفحہ 56 (4) مجمع الزوائد ومنبع الفوائد رقم 5855 جلد 4 صفحہ 4 (5)کنزالعمال رقم 34999 جلد 12 صفحہ 270 (6) الجامع الکبیر رقم 8521/4032 جلد 3 صفحہ 195)
یہ حدیث تو ختم نبوت کی دلیل ہے نہ کہ قادیانی عقیدہ کی۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
تیسری روایت میں قادیانی تحریف کا جواب

روایت
حدثنا حسین بن محمد قال حدثنا جریر بن حازم عن عائشة قالت قولوا خاتم النبيين ولا تقولوا لا نبي بعده

قادیانی استدلال

قادیانی کہتے ہیں اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبوت جاری ہے۔اور حدیث لا نبی بعدہ درست نہیں ہے۔
جواب
پہلی بات تو یہ ہے کہ روایت جو قادیانیوں نے پیش کی ہے وہ منقطع ہے۔سند میں جریر بن حازم روایت کر رہے ہیں امی عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالی عنہا) سے اور امی عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کا وصال ہوا تقریباً 58 ہجری میں اور جریر بن حازم پیدا ہوئے تقریباً 90 ہجری میں (تہذیب التہذیب جلد 1 صفحہ 295)
3،1.jpg
تو جریر بن حازم امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے تقریباً 30 سال بعد پیدا ہوئے تھے۔ اس لیے یہ روایت قابل قبول نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مرزا قادیانی صاحب لکھتے ہیں
دوسری کتب حدیث (بخاری اور مسلم کے علاوہ) صرف اس صورت میں قبول کے لائق ہوں گے کہ قرآن اور بخاری اور مسلم کی متفق علیہ احادیث کے مخالف نہ ہوں۔ (روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 60)
1.jpg
قادیانیوں نے جو یہ روایت پیش کی ہے یہ بخاری اور مسلم کے خلاف ہے۔
صحیح بخاری میں لا نبی بعدی کے الفاظ دو احادیث میں آئے ہیں(رقم الحدیث 3455 ، رقم الحدیث 6194)صحیح مسلم میں بھی لا نبی بعدی کے الفاظ دو احادیث میں آئے ہیں(رقم الحدیث 1842 ،رقم الحدیث 2404)اس لیے قادیانیوں کے اصول کے مطابق بھی یہ روایت صحیح نہیں ہے۔امی عائشہ صدیقہ (رضی اللہ علیہا) سے ختم نبوت کے بارے میں روایت موجود ہے۔
لا يبقي بعدي من النبوة شيء إلا المبشرات (کنز العمال رقم الحدیث 41423 ،مسند احمد رقم الحدیث 24977)

أخرجه أحمد (24977) واللفظ له، والدارقطني في ((المؤتلف والمختلف)) (1/177)، والبيهقي في ((شعب الإيمان)) (4750)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
چوتھی روایت میں قادیانی تحریف کا جواب

روایت

ثنا أَبُو أَيُّوبَ الْخَبَائِرِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا رَبَاحُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ مُوسَى بْنَ عِمْرَانَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْشِي ذَاتَ يَوْمٍ فِي طَرِيقٍ، فَنَادَاهُ الْجَبَّارُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: يَا مُوسَى فَالْتَفَتَ يَمِينًا وَشِمَالًا فَلَمْ يَرَ أَحَدًا، ثُمَّ نَادَاهُ الثَّانِيَةَ: يَا مُوسَى بْنَ عِمْرَانَ، فَالْتَفَتَ يَمِينًا، وَشِمَالًا فَلَمْ يَرَ أَحَدًا، فَارْتَعَدَتْ فَرَائِصُهُ، ثُمَّ نُودِيَ الثَّالِثَةَ: يَا مُوسَى بْنَ عِمْرَانَ، إِنِّي أَنَا اللَّهُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا. فَقَالَ: لَبَّيْكَ، وَخَرَّ لِلَّهِ سَاجِدًا. فَقَالَ: ارْفَعْ رَأْسَكَ يَا مُوسَى بْنَ عِمْرَانَ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: يَا مُوسَى، إِنِّي أَحْبَبْتُ أَنْ تَسْكُنَ فِي ظِلِّ عَرْشِي يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلِّي. يَا مُوسَى، فَكُنْ لِلْيَتِيمِ كَالْأَبِ الرَّحِيمِ، وَكُنْ لِلْأَرْمَلَةِ كَالزَّوْجِ الْعَطُوفِ. يَا مُوسَى، ارْحَمْ تُرْحَمْ. يَا مُوسَى، كَمَا تَدِينُ تُدَانُ. يَا مُوسَى، نَبِّئْ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ لَقِيَنِي وَهُوَ جَاحِدٌ لِمُحَمَّدٍ أَدْخَلْتُهُ النَّارَ وَلَوْ كَانَ خَلِيلِي إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى كَلِيمِي. فَقَالَ: إِلَهِي وَمَنْ أَحْمَدُ؟ فَقَالَ: يَا مُوسَى، وَعِزَّتِي وَجَلَالِي، مَا خَلَقْتُ خَلْقًا أَكْرَمَ عَلَيَّ مِنْهُ، كَتَبْتُ اسْمَهُ مَعَ اسْمِي فِي الْعَرْشِ قَبْلَ أَنْ أَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ بِأَلْفَيْ أَلْفِ سَنَةٍ. وَعِزَّتِي وَجَلَالِي، إِنَّ الْجَنَّةَ لَمُحَرَّمَةٌ عَلَى جَمِيعِ خَلْقِي حَتَّى يَدْخُلَهَا مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُهُ. قَالَ مُوسَى: وَمَنْ أُمَّةُ مُحَمَّدٍ؟ قَالَ: أُمَّتُهُ الْحَمَّادُونَ، يَحْمَدُونَ صُعُودًا وَهُبُوطًا وَعَلَى كُلِّ حَالٍ، يَشُدُّونَ أَوْسَاطَهُمْ،، وَيُطَهِّرُونَ أَطْرَافَهُمْ، صَائِمُونَ بِالنَّهَارِ، رُهْبَانٌ بِاللَّيْلِ، أَقْبَلُ مِنْهُمُ الْيَسِيرَ، وَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ بِشَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. قَالَ: إِلَهِي اجْعَلْنِي نَبِيَّ تِلْكَ الْأُمَّةِ. قَالَ: نَبِيُّهَا مِنْهُمْ. قَالَ: اجْعَلْنِي مِنْ أُمَّةِ ذَلِكَ النَّبِيِّ. قَالَ: اسْتَقْدَمْتَ وَاسْتَأْخَرُوا يَا مُوسَى، وَلَكِنْ يَا مُوسَى سَأَجْمَعُ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ فِي دَارِ الْجَلَالِ "

قادیانی استدلال

قادیانی روایت کے آخری الفاظ إِلَهِي اجْعَلْنِي نَبِيَّ تِلْكَ الْأُمَّةِ. قَالَ: نَبِيُّهَا مِنْهُمْ. پیش کر کے کہتے ہیں دیکھئے حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے خواہش کی کہ مجھے امت محمدیہ کا نبی بنا دیا جائے تو جواب ملا اس امت کا نبی اس میں سے ہو گا۔اس سے ثابت ہو امت محمدیہ میں ایک نبی پیدا ہو گا۔
جواب نمبر 1

قادیانی امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب خصائص کبریٰ کا حوالہ دیتے ہیں لیکن اس کتاب میں روایت کی سند موجود نہیں ہے۔اس روایت کی سند امام ابوبکر بن ابی عاصم کی السنةکتاب میں موجود ہے۔(السنة صفحہ 305 ،306)
1.jpg

سند
ثنا أَبُو أَيُّوبَ الْخَبَائِرِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا رَبَاحُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ(السنة صفحہ 305)

ابو ایوب الجبائری

اس سند کا پہلا راوی ابو ایوب الجبائری ہے
(1)ابن الجنید کہتے ہیں کان یکذب (2) امام رازی کہتے ہیں متروک الاحادیث (3) امام نسائی کہتے ہیں لیس بشئ (4) امام ابن عدی کہتے ہیں له احاديث منكرة (5) امام الازدي کہتے ہیں معروف بالكذب
(الضعفاء و المتروكون لابن الجوزي جلد 2 صفحہ 20 رقم 1527)
2.jpg

سعید بن موسی الازدی

اس سند کا دوسرا راوی ہے سعید بن موسی الازدی
امام الذھبی اور ابن حجر العسقلانی کہتے ہیں اتهمه ابن حبان بالوضع امام ابن حجر العسقلانی تو اس روایت کو جو قادیانیوں نے پیش کی ہے اسے موضوع بھی کہتے ہیں۔ (میزان الاعتدال جلد 2 صفحہ 159،لسان المیزان جلد 4 صفحہ 77)
3.jpg 3،2.jpg
کتاب السنة پر علامہ ناصر الدین البانی کی تحقیق بھی ہے وہ اس روایت کے بارے میں کہتے ہیں إسناده ضعيف جدا بل موضوع(السنة صفحہ 306)
1.jpg

جواب نمبر 2

قادیانیوں نے جو روایت پیش کی ہے اگر اسے صحیح بھی مان لیا جائے پھر بھی قادیانیوں کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا۔ روایت سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے امت محمدیہ کے فضائل سن کر خواہش ظاہر کی کہ اللہ مجھے اس فضیلت والی امت کا نبی بنا دے اللہ نے فرمایا کہ اس کا نبی اس میں سے ہوگا یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خواہش کی کہ مجھے اس شان اور فضیلت والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بنا دے روایت کے مطابق اللہ نے فرمایا آپ کا وقت پہلے ہے ان کا وقت بعد میں یعنی آپ ان سے پہلے ہوئے ہیں وہ آپ بعد میں ہوں گے۔اگر قادیانی اب بھی کہتے ہیں کہ یہ روایت صحیح ہے اور رسول اللہ صلی اللہ وسلم کا فرمان ہے تو ذرا جواب دیں کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر ایک نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں داخل ہے۔(روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 300)
4.jpg
اس روایت کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خواہش کی کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ وسلم کا امتی بنا دیا جائے لیکن ان کی بات قبول نہیں کی گئی۔ مرزا صاحب کہتے ہیں ہر نبی جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی شامل ہیں رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے امتی ہیں۔مرزا صاحب کا یہ قول اس روایت کے خلاف ہے اگر یہ روایت آپ کے نزدیک صحیح اور رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی حدیث ہے تو مرزا صاحب کے بارے میں کیا کہیں گے؟
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
پانچویں روایت میں قادیانی تحریف کا جواب

روایت

حدثنا محمد بن احمد بن ہارون قال حدثنا احمد بن الھیثم قال حدثنا اسماعیل بن زیاد الایلی قال حدثنا عمر یونس عن عکرمة بن عمار عن ایاس بن سلمة قال حدثني ابي ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أبوبكر خير الناس الا ان يكون نبي

ابوبکر تمام لوگوں سے افضل ہیں مگر یہ کہ کوئی نبی ہو۔
قادیانی استدلال

قادیانی کہتے ہیں کہ اس روایت سے معلوم ہے کہ نبوت جاری ہے۔
جواب نمبر 1

قادیانیوں نے یہ روایت طبری اور کنزالعمال وغیرہ سے پیش کی ہے۔ لیکن ان کتب میں اس روایت کی سند موجود نہیں ہے۔اس روایت کی سند ابو احمد بن عدی الجرجانی (المتوفی 365ھ) کی کتاب الکامل فی ضعفاء الرجال میں موجود ہے۔
سند
حدثنا (1)محمد بن احمد بن ہارون قال حدثنا (2)احمد بن الھیثم قال حدثنا (3)اسماعیل بن زیاد الایلی قال حدثنا عمر یونس عن عکرمة بن عمار عن ایاس بن سلمة قال حدثني ابي ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أبوبكر خير الناس الا ان يكون نبي(الکامل فی ضعفاء الرجال جلد 6 صفحہ484)

5.jpg
محمد بن احمد بن ہارون

اس کی سند میں پہلا راوی
محمد بن احمد بن ہارون ہے۔میزان الاعتدال میں لکھا ہے کہ اس پر حدیث ایجاد کرنے کا الزام ہے۔
(میزان الاعتدال جلد 6 صفحہ 76 اردو ترجمہ ،میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 459 عربی)
6،1.jpg

احمد بن الھیثم

اس سند میں دوسرا راوی ہے
احمد بن الھیثم جو بشر بن عبدالوہاب کے نام سے مشہور ہے۔میزان الاعتدال میں اس کے بارے میں لکھا ہے کہ اس نے مسلسل عید والی روایت ایجاد کی ہے۔(میزان اعتدال جلد 2 صفحہ 65اردو ترجمہ ،میزان الاعتدال جلد 1 صفحہ 320 عربی ،مصباح الاريب في تقريب الرواۃ جلد 1 صفحہ 245 )
7.jpg
امام ذھبی کی کتاب المغنی فی الضعفاء میں لکھا ہے کہ مسلسل عید والے روایت اس نے ایجاد کی ہے۔(المغنی فی الضعفاء جلد 1 صفحہ 106 ،الکشف الحثیث جلد 1 صفحہ 76)

اسماعیل بن زیاد

اس سند کا تیسرا راوی اسماعیل بن زیاد ہے میزان الاعتدال میں لکھا ہے کہ
یہ پتہ نہیں چل سکا کہ یہ کون ہے ( یعنی راوی مجہول ہے)(میزان الاعتدال جلد 1 صفحہ 313,314 )
1،.jpeg
امام ابن ابی حاتم نے اسے مجہول لکھا ہے (الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم جلد 2 صفحہ 170)
تو مختصر یہ کہ روایت شدید ضعیف ہے ۔

جواب نمبر 2

قادیانیوں نے جو روایت پیش کی ہے محدثین نے اس کو لکھنے کے بعد لکھا ہے
هذا الحديث احد ما انكر

یہ روایت ان میں سے ایک ہے جس پر انکار کیا گیا ہے
(کنزالعمال جلد 11 صفحہ 549 رقم 32578،لمداوی العلل الجامع الصغیر و شرحی المناوی جلد 1 صفحہ 96)
یعنی یہ منکر روایت ہے۔
9،.jpg
شیخ البانی نے اس روایت کو موضوع کہا ہے (سلسلہ احادیث ضعیف اور موضوع جلد 4 صفحہ 170)

جواب نمبر 3

اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے پھر بھی قادیانی اس سے اجراء نبوت ثابت نہیں کر سکتے۔ روایت میں الناس سے مراد صرف عام لوگ ہیں نبی مراد نہیں ہیں۔اگر الناس میں انبیاء علیہم السلام کو بھی لیا جائے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے لیے خیرالناس کہنا درست نہیں ہو گا۔آسان الفاظ میں اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ باقی تمام لوگوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ افضل ہیں۔میں نے یہ جو معنی پیش کیے ہے اس پر دلیل کے طور پر اسی کتاب میں سے دو احادیث پیش کرتا ہوں۔
حدیث نمبر 1

انبیاء کے علاوہ سورج طلوع اور غروب نہیں ہوا کسی ایسے شخص پر جو ابوبکر سے بہتر ہو (یعنی حضرت ابوبکر صدیق سب سے افضل ہیں) (کنزالعمال جلد 11 صفحہ 557 رقم 32622 ،کنزالعمال جلد 11 صفحہ 546 رقم 32564)
10.jpg
حدیث نمبر 2
ابو بکر وعمر اولین و آخریں میں بہتر ہیں اور آسمان و زمین والوں میں بہتر ہیں سوائے انبیاء و مرسلین کے (کنزالعمال جلد 11 صفحہ 560 رقم 32645)
10،1.jpg
ان دونوں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قادیانیوں نے جو روایت پیش کی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ علیہ انبیاء و مرسلین کے بعد سب سے افضل ہیں۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
چھٹی روایت میں قادیانی تحریف کا جواب

روایت
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ شَبِيبٍ الْبَاهِلِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مِقْسَمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏صَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ عَاشَ لَعَتَقَتْ أَخْوَالُهُ الْقِبْطُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا اسْتُرِقَّ قِبْطِيٌّ .(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1511)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کا انتقال ہو گیا، تو آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی، اور فرمایا: جنت میں ان کے لیے ایک دایہ ہے، اور اگر وہ زندہ رہتے تو صدیق اور نبی ہوتے، اور ان کے ننہال کے قبطی آزاد ہو جاتے، اور کوئی بھی قبطی غلام نہ بنایا جاتا ۔
قادیانی استدلال

قادیانی کہتے ہیں کہ اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر حضرت ابراہیم فوت نہ ہوتے تو نبی بن جاتے اس لئے امت میں نبوت جاری ہے۔
جواب نمبر 1

قادیانیوں نے یہ جو روایت پیش کی ہے یہ ضعیف ہے۔اس حدیث کی سند میں ایک راوی ہے جس کا نام ابراہیم بن عثمان ہے وہ ضعیف اور متروک الحدیث ہے اس کے بارے میں نسائی نے متروک الحدیث،ابن معین نے لیس بثقۃ،احمد نے ضعیف، قسطلانی نے ضعیف،ابو داؤد نے ضعیف، ترمذی نے منکر الحدیث،دولابی نے متروک الحدیث،ابو حاتم نے ضعیف الحدیث اور متروک الحدیث،امام صالح نے ضعیف اور ابو علی نیشاپوری نے لیس بقوی لکھا ہے ( اور بھی بہت سے محدثین کے اقوال ہیں ) اور اس روایت پر محدثین نے کلام کیا ہے۔
(روح المعانی جلد 11 صفحہ 211{ دار الكتب العلمية بيروت}، ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری جلد 9 صفحہ 113، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد 10 صفحہ 495,496، لمعات التنقیح فی شرح مشکاۃ المصابیح جلد 9 صفحہ 315، مصباح الزجاجة جلد 2 صفحہ 33، المقاصد الحسنة جلد 1 صفحہ 548، المطالب العالیة جلد 5 صفحہ 411، الھدایة فی تخریج احادیث البدایة جلد 4 صفحہ 373، جامع الاحادیث جلد 9 صفحہ 242، الدرر السنیة جلد 10 صفحہ 93 ،تهذيب التهذيب جلد 1 صفحہ 76،77 )
1.jpg
1,1.jpg
1,2.jpg
بعض قادیانی کہتے ہیں کہ اس روایت کی شہاب علی بیضاوی اور موضوعات میں ملا علی قاری نے تصحیح کی ہے۔تو جواب یہ ہے کہ
محدثین کا اصول ہے کہ جرح تعدیل پر مقدم ہوگئی پس بعض محدثین کی تصریح جرح کو دفع نہیں کرسکتی ۔ جیسے فرمایا

وَلَا يَخْفَى أَنَّ الْجَرْحَ مُقَدَّمٌ عَلَى التَّعْدِيلِ كَمَا فِي النُّخْبَةِ، فَلَا يَدْفَعُهُ تَصْحِيحُ بَعْضِ الْمُحَدِّثِينَ ( مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد 2 صفحہ 164)

1.jpeg
لا يخفي أن الجرح مقدم علي التعديل (شرح سنن ابن ماجہ للسیوطی جلد 1 صفحہ 39 ،عون المعبود وحاشیہ ابن القیم جلد 1 صفحہ 74)

اب جو قادیانیوں نے یہ کہا کہ شہاب علی البیضاوی وغیرہ میں روایت کی تصحیح موجود ہے تو اول تو وہ نقاد حدیث سے نہیں ہیں دوم محدثین کے اصول کے مطابق ملا علی قاری وغیرہ کی تصحیح قابل حجت نہیں۔مولا علی قاری جہاں اس کو صحیح قرار دیتے ہیں پہلے خود مانتے ہیں کہ امام نووی، ابن حجر اور ابن عبد البر نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔
بعض کم علم قادیانی کہتے ہیں کہ یہ روایت ابن ماجہ میں آئی ہے اور ابن ماجہ صحاح ستہ میں ہے اس لیے یہ روایت صحیح ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ابن ماجہ تو بعد کے درجے کی کتاب ہے آپ کے مرزا صاحب تو صحیح مسلم کی حدیث کو بھی ضعیف کہتے ہیں
یہ حدیث وہ ہے جو صحیح مسلم میں امام مسلم صاحب نے لکھی ہے جس کو ضعیف سمجھ کر رئیس المحدثین امام محمد بن اسماعیل بخاری نے چھوڑ دیا ہے( روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 209 ،210)
2.jpg
ہم محدثین کے اقوال پیش کر کے ایک ضعیف روایت کو ضعیف کہیں تو آپ ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ صحاح ستہ میں موجود کتاب کی روایت کو ضعیف کیوں کہتے ہو لیکن جب آپ کے مرزا صاحب صحیح مسلم کی صحیح روایت کو محدثین کے اقوال پیش کئے بغیر ضعیف کہتے ہیں تو ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
جواب نمبر 2

قادیانی حضرات نے جو روایت پیش کی ہے اس سے پہلے ایک صحیح روایت موجود ہے جو قادیانیوں کے عقیدہ اجراء نبوت کو غلط ثابت کرتی ہے
حدیث
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى:‏‏‏‏ رَأَيْتَ إِبْرَاهِيمَ ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ مَاتَ وَهُوَ صَغِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ قُضِيَ أَنْ يَكُونَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيٌّ لَعَاشَ ابْنُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ .(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1510، صحیح بخاری حدیث نمبر 6194)

2.jpeg
میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادے ابراہیم کو دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا: ابراہیم بچپن ہی میں انتقال کر گئے، اور اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا نبی ہونا مقدر ہوتا تو آپ کے بیٹے زندہ رہتے، لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
اگر قادیانی دیانت سے کام لیتے تو وہ ایک ضعیف اور متروک الحدیث راوی کی روایت نہ لیتے بلکہ صحیح بخاری کی صحیح روایت لے لیتے۔
جواب نمبر 3

قادیانیوں نے جو یہ روایت پیش کی ہے اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تب بھی یہ جراء نبوت ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ قادیانیوں نے یہ جو روایت پیش کی ہے اس میں "لو" آیا ہے۔اور حرف "لو" اس جگہ استعمال ہوتا ہے جس جگہ یہ معنی ہو کے یہ کام ممکن نہیں ہے یعنی نہیں ہوسکتا لیکن بطور مثال بیان کیا گیا ہوں۔جیسے قرآن شریف میں ارشاد ہے
لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ (سورة انبیاء آیت نمبر 22)

اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا دوسرے خدا ہوتے تو دونوں درہم برہم ہوجاتے ۔ لہذا عرش کا مالک اللہ ان باتوں سے بالکل پاک ہے جو یہ لوگ بنایا کرتے ہیں ۔
اس آیت میں بھی لفظ "لو" استعمال کیا گیا ہے۔آیت میں فرمایا گیا ہے کہ اگر زمین و آسماں میں اللہ کے علاوہ اور کوئی خدا ہوتے تو اس کا نظام درہم برہم ہو جاتا۔جس طرح اس آیت کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ کے علاوہ اور بھی خدا ہو سکتے ہیں اسی طرح روایت کو دیکھ کر یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت جاری ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
درود شریف اور قادیانی دجل کا جواب

قادیانی استدلال

قادیانی کہتے ہیں کہ ہم درود شریف میں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس طرح کی رحمت اور برکت کی دعا مانگتے ہیں جس طرح کی رحمت اور برکت اللہ نے آل ابرہیم علیہ السلام پر کی تھی۔اور آلِ ابراہیم علیہ السلام پر نبوت کی رحمت اور برکت ہوئی اس لیے اس امت میں بھی نبوت جاری ہے۔
جواب نمبر 1

درود شریف میں جس رحمت اور برکت کا ذکر ہے اس سے کثرت اولاد اور بقائے نسل مراد ہے۔جیسا کہ سورۃ ہود آیت 73 سے معلوم ہوتا ہے۔
حضرت سارا علیھا السلام کو اولاد کی بشارت دی گئی انہوں نے تعجب کیا کہ اس عمر میں اولاد ہو گی تو فرمایا گیا
قَالُوۡۤا اَتَعۡجَبِیۡنَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ رَحۡمَتُ اللّٰہِ وَ بَرَکٰتُہٗ عَلَیۡکُمۡ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ ؕ اِنَّہٗ حَمِیۡدٌ مَّجِیۡدٌ

فرشتوں نے کہا : " کیا آپ اللہ کے حکم پر تعجب کر رہی ہیں؟ آپ جیسے مقدس گھرانے پر اللہ کی رحمت اور برکتیں ہی برکتیں ہیں ۔ بیشک وہ ہر تعریف کا مستحق ، بڑی شان والا ہے ۔
آیت سے واضح ہوتا ہے کہ رحمت اور برکت سے مراد رحمت اور برکت والی اولاد ہے نہ کہ نبوت۔
جواب نمبر 2

اگر قادیانیوں کا کیا ہوا معنی مان لیا جائے تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہو گی۔
قادیانیوں کا ترجمہ ہے کہ
یا اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر رحمت بھیج جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر رحمت بھیجی ۔۔۔۔۔۔
اے اللہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل کو برکت دے جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل کو برکت دی ۔۔۔۔
(رحمت اور برکت سے مراد ہے نبوت) (تعلیمی پاکٹ بُک صفحہ 126)
یعنی قادیانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس طرح کی نبوت مانگ رہے ہیں جس طرح کی نبوت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عطا کی گئی تھی۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تو وہ ہے جو قیامت تک رہے گی وہ نبوت جو مکمل ہے۔قادیانی اس اعلیٰ اور مکمل نبوت کے بدلے میں ایسی نبوت حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ خیر رسل ہیں کے کیے مانگ رہے ہیں جو ایک خاص مدت تک ہو۔جس کے احکام ایک خاص مدت تک ہوں بعد میں منسوخ ہو جائیں۔قادیانی اپنے روحانی اباواجداد یعنی یہود کی طرح اعلیٰ چیز کو چھوڑ کر ادنیٰ چیز طلب کر رہے ہیں۔
قَالَ اَتَسۡتَبۡدِلُوۡنَ الَّذِیۡ ہُوَ اَدۡنٰی بِالَّذِیۡ ہُوَ خَیۡرٌ (سورۃ البقرہ آیت 61)

کہا : ’’ جو بہتر تھی کیا تم اس کو ایسی چیزوں سے بدلنا چاہتے ہو جو گھٹیا درجے کی ہیں؟
جواب نمبر 3

اگر قادیانیوں کا کیا ہوا معنی مان بھی لیا جائے اور اس بات کو بھی ایک لمحے کے لیے چھوڑ دیا جائے کہ اس معنی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہوتی ہے پھر بھی قادیانی مرزا قادیانی کو نبی ثابت نہیں کر سکتے۔کیونکہ درود شریف میں ہے "کما صلیت علی اِبراھیم" حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آل میں تو حقیقی نبوت تھی مرزا صاحب کو تو ظلی بروزی نبوت ملی قادیانی عقیدہ کے مطابق۔ اور اس طرح کی ظلی بروزی نبوت تو حضور علیہ السلام سے پہلے موجود ہی نہیں تھی۔ ( کلمہ الفصل صفحہ 112)
2.jpg
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آل میں تو اس صاحب کتاب اور صاحب شریعت نبی بھی موجود تھے۔اگر قادیانی معنی مان لیا جائے تو صاحب کتاب اور صاحب شریعت نبوت بھی جاری ماننی ہو گئی اور یہ قادیانی عقیدے کے بھی خلاف ہے۔
قادیانیوں سے ایک سوال

اگر درود شریف میں نبوت طلب کرنے کی دعا ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہونے کے باوجود اپنے لئے نبوت طلب کرتے رہے؟
صحابہ کرام، تابعین اور آج تک کے مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کے باوجود نبوت کی دعا کرتے رہے ہیں؟
قادیانی عقیدے کے مطابق مرزا قادیانی نبی تھا تو کیا قادیانی اور مرزا قادیانی خود اپنے عقیدے کے مطابق نبی ہونے کے باوجود نبوت کی دعا کرتا رہا ؟
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
دوسری روایت میں قادیانی تحریف کا جواب

روایت

فَإِنِّي آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ مَسْجِدِي آخِرُ الْمَسَاجِدِ

قادیانی استدلال

قادیانی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فَإِنِّي آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ مَسْجِدِي آخِرُ الْمَسَاجِدِ بلا شبہ میں تمام انبیاءؑ میں سے آخری نبی ہوں ۔ اور میری مسجد آخری مسجد ہے۔
اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد بھی بہت سی مساجد بنائی گئی ہیں۔اس لیے آخر الانبیاء سے مراد آخری نبی نہیں ہے۔

جواب

دنیا میں جتنے بھی انبیاء علیہم السلام تشریف لائے ان سب نے اللہ کی عبادت کے لیے مسجد بنائی اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ کی عبادت کے لیے مسجد بنائی۔
تو اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی بنایا نہیں جائے گا۔ جب نبی نہیں بنے گا تو اس کی مسجد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد انبیاء علیہم السلام کی مساجد میں آخری مسجد ہے۔ یہ بات ہم اپنی طرف سے نہیں کہ رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت ہے۔

حدیث
انا خاتم الانبياء و مسجدي خاتم مساجد الانبياء

((1) المخلصیات رقم 2943 جلد 4 صفحہ 25
View attachment 4181
View attachment 4180
1.png
(2)مجموع فیه مصنفات ابی جعفر بن البختری رقم 216 جلد 1 صفحہ 228
2.jpg
(3)کشف الاستار عن زوائد البزار رقم 1193 جلد 2 صفحہ 56
3.jpg
(4) مجمع الزوائد ومنبع الفوائد رقم 5855 جلد 4 صفحہ 4
4.jpg
(5)کنزالعمال رقم 34999 جلد 12 صفحہ 270
5.jpg
(6) الجامع الکبیر رقم 8521/4032 جلد 3 صفحہ 195)
6.jpg
یہ حدیث تو ختم نبوت کی دلیل ہے نہ کہ قادیانی عقیدہ کی۔
 
Top