• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

رفع و نزول کی حکمتیں بیان کریں۔

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
رفع و نزول جسم عنصری کے امکان عقلیاور رفع و نزول کی حکمتیں بیان کریں۔
سوال… رفع و نزول جسم عنصری کے امکان عقلی کو بیان کرتے ہوئے اس کے نقلی نظائر پیش کریں نیز رفع و نزول کی حکمتیں بیان کریں؟

جواب … مرزا قادیانی اور ان کی جماعت کا دعویٰ ہے کہ: ’’ عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر نہیں اٹھائے گئے۔ بلکہ وفات پاکر مدفون ہوچکے اور دلیل یہ ہے کہ کسی جسم عنصری کا آسمان پر جانا محال ہے۔‘‘

(ازالہ الاوہام ص ۴۷، خزائن ج۳ ص ۱۲۶)
قرآن و سنت سے رفع و نزول نہ صرف ثابت ہے۔ بلکہ اس کے نظائر بھی موجود ہیں۔ مثلاً:
۱ … یہ ہے کہ جس طرح نبی اکرمﷺ کا جسد اطہر کے ساتھ لیلۃالمعراج میں جانا اور پھر وہاں سے واپس آنا حق ہے۔ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کا بجسدہ العنصری آسمان پر اٹھایا جانا اور پھر قیامت کے قریب ان کا آسمان سے نازل ہونا بھی بلاشبہ حق اور ثابت ہے۔
۲… جس طرح آدم علیہ السلام کا آسمان سے زمین کی طرف ہبوط ممکن ہے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ کا آسمان سے زمین کی طرف نزول بھی ممکن ہے۔ ’’ ان مثل عیسیٰ عنداﷲ کمثل آدم ‘‘
۳… جعفرؓ بن ابی طالب کا فرشتوں کے ساتھ آسمانوں میں اڑنا صحیح اور قوی حدیثوں سے ثابت ہے۔ اسی وجہ سے ان کو جعفر طیارؓ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے: ’’ اخرج الطبرانی باسناد حسن عن عبداﷲ بن جعفرؓ قال قال لی رسول اﷲﷺ ھنیئاء لک ابوک یطیر مع الملائکۃ فی السمائ ‘‘

(زرقانی شرح مواہب ج۲ ص ۲۷۵)
ترجمہ: ’’امام طبرانی نے باسناد حسن عبداﷲ بیٹے جعفرؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اﷲﷺ نے مجھ سے ایک بار یہ ارشاد فرمایا کہ اے جعفرؓ کے بیٹے عبداﷲؓ تجھ کو مبارک ہو تیرا باپ فرشتوں کے ساتھ آسمانوں میں اڑتا پھرتا ہے۔ (اور ایک روایت میں یہ ہے کہ جعفرؓ، جبرئیل و میکائیل کے ساتھ اڑتا پھرتا ہے) ان ہاتھوں کے عوض میں جو غزوہ موتہ میں کٹ گئے تھے۔
اﷲتعالیٰ نے ان کو ملائکہ کی طرح دوباز و عطا فرما دیئے ہیں اور اس روایت کی سند نہایت جید اور عمدہ ہے اور حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا اس بارے میں ایک شعر ہے:

وجعفرؓ الذی یضحی و یمسی
یطیر مع الملائکۃ ابن امی
ترجمہ: ’’وہ جعفر ؓ کہ جو صبح و شام فرشتوں کے ساتھ اڑتا ہے وہ میری ہی ماں کا بیٹا ہے۔‘‘
۴… اور علیٰ ہذا عامر بن فہیرہؓ کا غزوہ بیر معونہ میں شہید ہونا، اور پھر ان کے جنازہ کا آسمان پر اٹھایا جانا روایات میں مذکور ہے۔ جیسا کہ حافظ عسقلانی نے اصابہ میں حافظ ابن عبدالبر نے استیعاب میں اور علامہ زرقانی نے (شرح مواہب ج۲ ص ۷۸) میں ذکر کیا ہے۔ جبار بن سلمیؓ جو عامر بن فہیرہؓ کے قاتل تھے۔ وہ اسی واقعہ کو دیکھ کر ضحاک بن سفیان کلابی کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف باسلام ہوئے اور یہ کہا: ’’ دعانی الی الاسلام مارایت من مقتل عامر بن فہیرۃ ورفعہ الی السمائ ‘‘
ترجمہ: ’’عامر بن فہیرہ کا شہید ہونا اور ان کا آسمان پر اٹھایا جانا، میرے اسلام لانے کا باعث بنا۔‘‘
ضحاکؓ نے یہ تمام واقعہ آنحضرتﷺ کی خدمت بابرکت میں لکھ کر بھیجا۔ اس پر آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ فان الملائکۃ وارت جثتہ وانزل فی علیین ‘‘
ترجمہ:’’ فرشتوں نے اس کے جثہ کو چھپالیا اور وہ علیین میں اتارے گئے‘‘۔
ضحاک ابن سفیان کے اس تمام واقعہ کو امام بیہقیؒ اور ابونعیمؒ دونوں نے اپنی اپنی دلائل النبوۃ میں بیان کیا۔

(شرح الصدور فی احوال الموتی والقبور للعلامۃ السیوطی ص:۱۷۴)
اور حافظ عسقلانی نے اصابہ میں جبار بن سلمیؓ کے تذکرہ میں اس واقعہ کی طرف اجمالاً اشارہ فرمایا ہے۔ شیخ جلال الدین سیوطی شرح الصدور میں فرماتے ہیں کہ عامر بن فہیرہؓ کے آسمان پر اٹھائے جانے کے واقعہ کو ابن سعد اور حاکم اور موسیٰ بن عقبہ نے بھی روایت کیا ہے۔ غرض یہ کہ یہ واقعہ متعدد اسانید اور مختلف روایات سے ثابت اور محقق ہے۔
۵… واقعہ رجیع میں جب قریش نے خبیب بن عدیؓ کو سولی پر لٹکایا تو آنحضرتﷺ نے عمروبن امیہ ضمریؓ کو خبیبؓ کی نعش اتارلانے کے لئے روانہ فرمایا۔ عمرو بن امیہؓ وہاں پہنچے اور خبیبؓ کی نعش کو اتارا دفعتاً ایک دھماکہ سنائی دیا۔ پیچھے پھر کردیکھا اتنی دیر میں نعش غائب ہوگئی۔ عمرو بن امیہؓ فرماتے ہیں گویا زمین نے ان کو نگل لیا۔ اب تک اس کا کوئی نشان نہیں ملا۔ اس روایت کو امام ابن حنبلؒ نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔

(زرقانی شرح مواہب ج۲ ص۷۳)
شیخ جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں کہ خبیبؓ کو زمین نے نگلا اسی وجہ سے ان کا لقب بلیع الارض ہوگیا اور ابونعیمؓ فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ عامر بن فہیرہؓ کی طرح خبیبؓ کو بھی فرشتے آسمان پر اٹھالے گئے۔ ابونعیم کہتے ہیں کہ جس طرح حق تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا اسی طرح رسول اﷲa کی امت میں سے عامر بن فہیرہؓ اور خبیب بن عدیؓ اور علاء بن حضرمیؓ کو آسمان پر اٹھایا۔ انتہی!
۶… علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں۔ اولیاء کا الہام و کرامت انبیاء کرام کی وحی اور معجزات کی وراثت ہے:
’’ ومما یقوی قصۃ الرفع الی السماء ما اخرجہ النسائی والبیہقی والطبرانی وغیرھم من حدیث جابر ان طلحۃ اصیبت انا ملہ یوم احد فقال حس فقال رسول اﷲﷺ لو قلت بسم اﷲ لرفعتک الملائکۃ والناس ینظرون الیک حتی تلج بک فی جوالسماء

(شرح الصدور ص:۲۵۸ طبع بیروت ۱۹۹۳ئ)
واخرج ابن ابی الدنیا فی ذکر الموتی عن زید بن اسلم قال کان فی بنی اسرائیل رجل قد اعتزل الناس فی کھف جبل وکان اھل زمانہ اذا قحطوا استغاثوا بہ فدعا اﷲ فسقاھم فمات فاخذوا فی جھازہ فبینا ھم کذلک اذا ھم بسریر یرفرف فی عنان السماء حتی انتھی الیہ فقام رجل فاخذہ فوضعہ علی السریر فارتفع السریر والناس ینظرون الیہ فی الھواء حتی غاب عنہم ‘‘
(شرح الصدور ص ۲۵۷ طبع بیروت ۱۹۹۴ء سن طبع)
ترجمہ: ’’شیخ جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں کہ عامر بن فہیرہ اور خبیبؓ کے واقعہ رفع الی السماء کی وہ واقعہ بھی تائید کرتا ہے۔ جس کو نسائی اور بیہقی اور طبرانی نے جابرؓ سے روایت کیا ہے کہ غزوئہ احد میں حضرت طلحہؓ کی انگلیاں زخمی ہوگئیں۔ تو اس تکلیف کی حالت میں زبان سے ’’حس‘‘ کا لفظ نکلا۔ اس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اگر تو بجائے’’حس‘‘ کے بسم اﷲ کہتا تو لوگ دیکھتے ہوتے اور فرشتے تجھ کو اٹھاکر لے جاتے۔ یہاں تک کہ تجھ کو آسمان کی فضا میں لے کر گھس جاتے… ابن ابی الدنیا نے ذکر الموتی میں زید بن اسلم سے روایت کیا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک عابد تھا کہ جو پہاڑ میں رہتا تھا۔ جب قحط ہوتا تو لوگ اس سے بارش کی دعا کراتے۔ وہ دعا کرتا، اﷲتعالیٰ اس کی دعا کی برکت سے باران رحمت نازل فرماتا۔ اس عابد کا انتقال ہوگیا۔ لوگ اس کی تجہیز و تکفین میں مشغول تھے۔ اچانک ایک تخت آسمان سے اترتا ہوا نظر آیا۔ یہاں تک کہ اس عابد کے قریب آکر رکھا گیا۔ ایک شخص نے کھڑے ہوکر اس عابد کو اس تخت پر رکھ دیا۔ اس کے بعد وہ تخت اوپر اٹھتا گیا۔ لوگ دیکھتے رہے یہاں تک کہ وہ غائب ہوگیا۔‘‘
۷… اور حضرت ہارون علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جنازہ کا آسمان پر اٹھایا جانا اور پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے آسمان سے زمین پر اتر آنا مستدرک حاکم میں مفصل مذکور ہے۔

(مستدرک ص ۴۶۴ ج ۳ طبع بیروت)
مقصد ان واقعات کے نقل کرنے سے یہ ہے کہ منکرین اور ملحدین خوب سمجھ لیں کہ حق جل شانہ نے اپنے محبیّن و مخلصین کی اس خاص طریقہ سے بارہا تائید فرمائی کہ ان کو صحیح و سالم فرشتوں سے آسمانوں پر اٹھوالیا اور دشمن دیکھتے ہی رہ گئے۔ تاکہ اس کی قدرت کاملہ کا ایک نشان اور کرشمہ ظاہر ہو اور اس کے نیک بندوں کی کرامت اور منکرین معجزات و کرامات کی رسوائی و ذلت آشکارا ہو اور اس قسم کے خوارق کا ظہور مؤمنین اور مصدقین کے لئے موجب طمانیت اور مکذبین کے لئے اتمام حجت کا کام دے۔ ان واقعات سے یہ امر بھی بخوبی ثابت ہوگیا کہ کسی جسم عنصری کا آسمان پر اٹھایا جانا نہ قانون قدرت کے خلاف ہے۔ نہ سنت اﷲ کے متصادم ہے۔ بلکہ ایسی حالت میں سنت اﷲ یہی ہے کہ اپنے خاص بندوں کو آسمان پر اٹھالیا جائے تاکہ اس ملیک مقتدر کی قدرت کا کرشمہ ظاہر ہو اور لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ حق تعالیٰ کی اپنی خاص الخاص بندوں کے ساتھ یہی سنت ہے کہ ایسے وقت میں ان کو آسمان پر اٹھالیتا ہے۔ غرض یہ کہ کسی جسم عنصری کا آسمان پر اٹھایا جانا قطعاً محال نہیں۔ بلکہ ممکن اور واقع ہے اور اسی طرح کسی جسم عنصری کا بغیر کھائے اور پیئے زندگی بسر کرنا بھی محال نہیں۔

رفع و نزول کی حکمتیں
۱… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع اور نزول کی حکمت علماء نے یہ بیان کی کہ یہود کا یہ دعویٰ تھا کہ ہم نے حضرت عیسیٰ کو قتل کردیا۔ ’’کما قال و قولھم انا قتلنا المسیح عیسیٰ بن مریم رسول اﷲ‘‘ اور دجال جو اخیر زمانہ میں ظاہر ہوگا۔ وہ بھی قوم یہود سے ہوگا اور یہود اس کے متبع اور پیرو ہوں گے۔ اس لئے حق تعالیٰ نے اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھایا اورقیامت کے قریب آسمان سے نازل ہوں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔ تاکہ خوب واضح ہوجائے کہ جس ذات کی نسبت یہود یہ کہتے تھے کہ ہم نے اس کو قتل کردیا وہ سب غلط ہے۔ ان کو اﷲتعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے زندہ آسمان پر اٹھایا اور اتنے زمانہ تک ان کو زندہ رکھا اور پھر تمہارے قتل اور بربادی کے لئے اتارا تاکہ سب کو معلوم ہوجائے کہ تم جن کے قتل کے مدعی تھے۔ ان کو قتل نہیں کرسکے۔ بلکہ ان کو اﷲتعالیٰ نے تمہارے قتل کے لئے نازل کیا اور یہ حکمت فتح الباری کے باب نزول عیسیٰ علیہ السلام ص۳۵۷ ج۱۰ پر مذکور ہے۔
۲… حضرت عیسیٰ علیہ السلام ملک شام سے آسمان پر اٹھائے گئے تھے اور ملک شام ہی میں نزول ہوگا۔ تاکہ اس ملک کو فتح فرمائیں۔ جیسا کہ نبی اکرمﷺ ہجرت کے چند سال بعد فتح مکہ کے لئے تشریف لائے۔ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام نے شام سے آسمان کی طرف ہجرت فرمائی اور قیامت سے کچھ روز پہلے شام کو فتح کرنے کے لئے آسمان سے نازل ہوں گے اور یہود کا استیصال فرمائیں گے۔
۳… نازل ہونے کے بعد صلیب کا توڑنا بھی اسی طرف مشیر ہوگا کہ یہود اور نصاریٰ کا یہ اعتقاد کہ مسیح بن مریم صلیب پر چڑھائے گئے بالکل غلط ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام تو اﷲتعالیٰ کی حفاظت میں تھے۔ اس لئے نازل ہونے کے بعد صلیب کا نام و نشان بھی نہ چھوڑیں گے۔
۴… اور بعض علماء نے یہ حکمت بیان فرمائی ہے کہ حق تعالیٰ شانہ نے تمام انبیاء سے یہ عہد لیا تھا کہ اگر تم نبی کریمﷺ کا زمانہ پاؤ تو ان پر ضرور ایمان لانا اور ان کی ضرور مدد کرنا۔ ’’ کما قال تعالیٰ لتؤمنن بہ ولتنصرنہ ‘‘ اور انبیاء بنی اسرائیل کا سلسلہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ختم ہوتا تھا۔ اس لئے حق تعالیٰ شانہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا تاکہ جس وقت دجال ظاہر ہو۔ اس وقت آپ آسمان سے نازل ہوں اور رسول اﷲﷺ کی امت کی مدد فرمائیں۔ کیونکہ جس وقت دجال ظاہر ہوگا۔ وہ وقت امت محمدیہ پر سخت مصیبت کا وقت ہوگا اور امت شدید امداد کی محتاج ہوگی۔ اس لئے عیسیٰ علیہ السلام اس وقت نازل ہوں گے۔ تاکہ امت محمدیہﷺ کی نصرت و اعانت کا جو وعدہ تمام انبیاء کرچکے ہیں۔ وہ وعدہ اپنی طرف سے اصالۃً اور باقی انبیاء کی طرف سے وکالتاً ایفاء فرمائیں۔ ’’ فافہم ذلک فانہ لطیف ‘‘
 
Top