• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سوال: 1ختم نبوت کا معنی، مطلب اور اہمیت

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ختم نبوت کا معنی، مطلب اور اہمیت
ختم نبوت
سوال۱ … ختم نبوت کا معنی اور مطلب اور اس کی اہمیت، اور آپﷺ کی ذات اطہر کے ساتھ اس منصب کی خصوصیات کو واضح طور پر بیان کریں؟۔
جواب…

ختم نبوت کا معنی اور مطلب
اﷲ رب العزت نے سلسلۂ نبوت کی ابتداء سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمائی اور اس کی انتہا محمد عربیﷺ کی ذات اقدس پر فرمائی۔ آنحضرتﷺ پر نبوت ختم ہوگئی۔ آپﷺ آخرالانبیاء ہیں۔ آپﷺ کے بعد کسی کو نبی نہ بنایا جائے گا۔ اس عقیدہ کو شریعت کی اصطلاح میں عقیدئہ ختم نبوت کہا جاتا ہے۔
عقیدئہ ختم نبوت کی اہمیت
ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے۔ جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کئے گئے ہیں۔ اور عہد نبوت سے لے کر اس وقت تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ آنحضرتﷺ بلا کسی تاویل اور تخصیص کے خاتم النبیین ہیں۔

  • قرآن مجید کی ایک سو آیات کریمہ
  • رحمت عالمﷺ کی احادیث متواترہ (دو سو دس احادیث مبارکہ) سے یہ مسئلہ ثابت ہے۔
  • آنحضرتﷺ کی امت کا سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر منعقد ہوا۔
چنانچہ امام العصر حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری ؒ اپنی آخری کتاب ’’خاتم النبیین‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ

’’ و اوّل اجماعے کہ دریں امت منعقد شدہ اجماع بر قتل مسیلمہ کذاب بودہ کہ بسبب دعوئ نبوت بود، شنائع دگروے صحابہؓ رابعد قتل وے معلوم شدہ، چنانکہ ابن خلدون آوردہ سپس اجماع بلا فصل قرناً بعد قرنٍ برکفر و ارتداد و قتل مدعی نبوت ماندہ و ہیچ تفصیلے از بحث نبوت تشریعیہ و غیر تشریعیہ نبودہ۔ ‘‘
ترجمہ: ’’اور سب سے پہلا اجماع جو اس امت میں منعقد ہوا۔ وہ مسیلمہ کذاب کے قتل پر اجماع تھا۔ جس کا سبب صرف اس کا دعویٰ نبوت تھا۔ اس کی دیگر گھنائونی حرکات کا علم صحابہ کرامؓ کو اس کے قتل کے بعد ہوا تھا۔ جیسا کہ ابن خلدونؒ نے نقل کیا ہے۔ اس کے بعد قرناً بعد قرنٍ مدعی نبوت کے کفر و ارتداد اور قتل پر ہمیشہ اجماع بلافصل رہا ہے، اور نبوت تشریعیہ یا غیر تشریعیہ کی کوئی تفصیل کبھی زیر بحث نہیں آئی۔‘‘
(خاتم النبیین ص۶۷، ترجمہ ص۱۹۷)
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ نے اپنی تصنیف ’’مسک الختام فی ختم نبوۃ سیدالانامﷺ‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ:
’’امت محمدیہﷺ میں سب سے پہلا اجماع جو ہوا۔ وہ اسی مسئلہ پر ہوا کہ مدعی نبوت کو قتل کیا جائے۔‘‘

(احتساب قادیانیت ج۲ ص۱۰)
آنحضرتﷺ کے زمانہ حیات میں اسلام کے تحفظ و دفاع کے لئے جتنی جنگیں لڑی گئیں۔ ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرامؓ کی کل تعداد ۲۵۹ ہے۔ (رحمتہ للعالمین ج ۲ ص۲۱۳ قاضی سلمان منصور پوریؒ) اور عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ و دفاع کے لئے اسلام کی تاریخ میں پہلی جنگ جو سیدنا صدیق اکبرؓ کے عہد خلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی۔ اس ایک جنگ میں شہید ہونے والے صحابہؓ اور تابعینؒ کی تعداد بارہ سو ہے
(جن میں سے سات سو قرآن مجید کے حافظ اور عالم تھے)

(ختم نبوت کامل ص ۳۰۴ حصہ سوم از مفتی محمد شفیعؒو مرقاۃ المفاتیح ج ۵ ص ۲۴)
رحمت عالمﷺ کی زندگی کی کل کمائی اور گراں قدر اثاثہ حضرات صحابہ کرامؓ ہیں۔ جن کی بڑی تعداد اس عقیدہ کے تحفظ کے لئے جام شہادت نوش کرگئی۔ اس سے ختم نبوت کے عقیدہ کی عظمت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ انہی حضرات صحابہ کرامؓ میں سے ایک صحابی حضرت حبیب بن زید انصاری خزرجیؓ کی شہادت کا واقعہ ملاحظہ ہو:
’’حبیب بن زید … الانصاری الخزرجی … ھوالذی ارسلہ رسول اﷲﷺ الی مسیلمۃ الکذاب الحنفی صاحب الیمامہ فکان مسیلمۃ اذا قال لہ اتشھد ان محمد ا رسول اﷲ قال نعم واذا قال اتشھد انی رسول اﷲ قال انا اصم لا اسمع ففعل ذلک مرارا فقطعہ مسیلمۃ عضوا عضوا فمات شہیدا‘‘
(اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ ج۱ص۴۲۱ طبع بیروت)
ترجمہ: ’’حضرت حبیب بن زید انصاریؓ کو آنحضرتﷺ نے یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے مسیلمہ کذاب کی طرف بھیجا۔ مسیلمہ کذاب نے حضرت حبیبؓ سے کہا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد اﷲ کے رسول ہیں؟ حضرت حبیبؓ نے فرمایا ہاں۔ مسیلمہ نے کہا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسیلمہ) بھی اﷲ کا رسول ہوں؟ حضرت حبیبؓ نے جواب میں فرمایا کہ میں بہرا ہوں۔ تیری یہ بات نہیں سن سکتا۔ مسیلمہ بار بار سوال کرتا رہا۔ وہ یہی جواب دیتے رہے اور مسیلمہ ان کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا۔ حتیٰ کہ حبیبؓ بن زید کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو شہید کردیا گیا۔‘‘
اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ مسئلہ ختم نبوت کی عظمت و اہمیت سے کس طرح والہانہ تعلق رکھتے تھے۔ اب حضرات تابعینؒ میں سے ایک تابعیؒ کا واقعہ بھی ملاحظہ ہو:
’’حضرت ابو مسلم خولانی ؒ جن کا نام عبداﷲ بن ثوبؒ ہے اور یہ امت محمدیہ (علیٰ صاحبہا السلام) کے وہ جلیل القدر بزرگ ہیں۔ جن کے لئے اﷲ تعالیٰ نے آگ کو اسی طرح بے اثر فرمادیا۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آتش نمرود کو گلزار بنادیا تھا۔ یہ یمن میں پیدا ہوئے تھے اور سرکار دوعالمﷺ کے عہد مبارک ہی میں اسلام لاچکے تھے۔ لیکن سرکاردو عالمﷺ کی خدمت میں حاضری کا موقع نہیں ملا تھا۔ آنحضرتﷺ کی حیات طیبہ کے آخری دور میں یمن میں نبوت کا جھوٹا دعویدار اسود عنسی پیدا ہوا۔ جو لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے کے لئے مجبور کیا کرتا تھا۔ اسی دوران اس نے حضرت ابو مسلم خولانی ؒکو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلایا اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ حضرت ابو مسلمؒ نے انکار کیا۔ پھر اس نے پوچھا کہ کیا تم محمدﷺ کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو؟ حضرت ابو مسلمؒ نے فرمایا ہاں۔ اس پر اسود عنسی نے ایک خوفناک آگ دہکائی اور حضرت ابومسلمؒ کو اس آگ میں ڈال دیا۔ لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان کے لئے آگ کو بے اثر فرمادیا، اور وہ اس سے صحیح سلامت نکل آئے۔ یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسود عنسی اور اس کے رفقاء پر ہیبت سی طاری ہوگئی اور اسود کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو جلاوطن کردو۔ ورنہ خطرہ ہے کہ ان کی وجہ سے تمہارے پیروئوں کے ایمان میں تزلزل آجائے۔ چنانچہ انہیں یمن سے جلاوطن کردیا گیا۔ یمن سے نکل کر ایک ہی جائے پناہ تھی۔ یعنی مدینہ منورہ۔ چنانچہ یہ سرکاردوعالمﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے چلے۔ لیکن جب مدینہ منورہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آفتاب رسالتﷺ روپوش ہوچکا ہے۔ آنحضرتﷺ وصال فرماچکے تھے، اور حضرت صدیق اکبرؓ خلیفہ بن چکے تھے۔
انہوں نے اپنی اونٹنی مسجد نبویﷺ کے دروازے کے پاس بٹھائی اور اندر آکر ایک ستون کے پیچھے نماز پڑھنی شروع کردی۔ وہاں حضرت عمرؓ موجود تھے ۔ انہوں نے ایک اجنبی مسافر کو نماز پڑھتے دیکھا تو ان کے پاس آئے اور جب وہ نماز سے فارغ ہوگئے تو ان سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟ یمن سے! حضرت ابومسلمؒ نے جواب دیا۔ حضرت عمرؓ نے فوراً پوچھا کہ اﷲ کے دشمن (اسود عنسی) نے ہمارے ایک دوست کو آگ میں ڈال دیا تھا، اور آگ نے ان پر کوئی اثر نہیں کیا تھا۔ بعد میں ان صاحب کے ساتھ اسود نے کیا معاملہ کیا؟ حضرت ابو مسلمؒ نے فرمایاکہ ان کا نام عبداﷲ بن ثوب ہے۔ اتنی دیر میں حضرت عمرؓ کی فراست اپنا کام کرچکی تھی۔ انہوں نے فوراً فرمایاکہ میں آپ کو قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ ہی وہ صاحب ہیں؟ حضرت ابو مسلم خولانی ؒ نے جواب دیاکہ ’’جی ہاں!‘‘ حضرت عمرؓ نے یہ سن کر فرطِ مسرت و محبت سے ان کی پیشانی کو بوسہ دیا، اور انہیں لے کر حضرت صدیق اکبرؓ کی خدمت میں پہنچے۔ انہیں صدیق اکبرؓ کے اور اپنے درمیان بٹھایا اور فرمایاکہ اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے موت سے پہلے امت محمدیہﷺ کے اس شخص کی زیارت کرادی جس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام جیسا معاملہ فرمایا تھا۔‘‘

(حلیۃ الاولیاء ص ۱۲۹، ج۲، تہذیب ج ۶ ص ۴۵۸، تاریخ ابن عساکر ص۳۱۵، ج۷، جہاں دیدہ ص ۲۹۳ و ترجمان السنۃ ص ۳۴۱ ج ۴)

منصب ختم نبوت کا اعزاز
قرآن مجید میں ذات باری تعالیٰ کے متعلق ’’ رب العالمین ‘‘ آنحضرتﷺ کی ذات اقدس کے لئے ’’رحمۃ للعالمین‘‘ قرآن مجید کے لئے ’’ ذکر للعالمین ‘‘ اور بیت اﷲ شریف کے لئے ’ ’ھدی للعالمین ‘‘ فرمایا گیا ہے۔ اس سے جہاں آنحضرتﷺ کی نبوت ورسالت کی آفاقیت و عالمگیریت ثابت ہوتی ہے۔ وہاں آپﷺ کے وصف ختم نبوت کا اختصاص بھی آپﷺ کی ذات اقدس کے لئے ثابت ہوتا ہے۔ اس لئے کہ پہلے تمام انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے علاقہ، مخصوص قوم اور مخصوص وقت کے لئے تشریف لائے۔ جب آپﷺ تشریف لائے تو حق تعالیٰ نے کل کائنات کو آپ کی نبوت و رسالت کے لئے ایک اکائی (ون یونٹ) بنادیا۔
جس طرح کل کائنات کے لئے اﷲ تعالیٰ ’’رب ‘‘ ہیں۔ اسی طرح کل کائنات کے لئے آنحضرتﷺ ’’نبی‘‘ ہیں۔ یہ صرف اور صرف آپﷺ کا اعزاز و اختصاص ہے۔ آنحضرتﷺ نے اپنے لئے جن چھ خصوصیات کا ذکر فرمایا ان میں سے ایک یہ بھی ہے:
’’ ارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبیون ‘‘
ترجمہ: ’’میں تمام مخلوق کے لئے نبی بناکر بھیجا گیا اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔‘‘

(مشکوٰۃ ص ۵۱۲ باب فضائل سید المرسلین‘ مسلم ج ۱ ص ۱۹۹ کتاب المساجد)
آنحضرتﷺ آخری نبی ہیں۔ آپﷺ کی امت آخری امت ہے۔ آپﷺ کا قبلہ آخری قبلہ (بیت اﷲ شریف) ہے۔ آپﷺ پر نازل شدہ کتاب آخری آسمانی کتاب ہے۔ یہ سب آپﷺ کی ذات کے ساتھ منصب ختم نبوت کے اختصاص کے تقاضے ہیں جو اﷲ تعالیٰ نے پورے کردیئے۔ چنانچہ قرآن مجید کو ذکر للعالمین اور بیت اﷲ شریف کو ھدی للعالمین کا اعزاز بھی آپﷺ کی ختم نبوت کے صدقے میں ملا۔ آپﷺ کی امت آخری امت قرار پائی۔ جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: ’’ انا آخر الانبیاء وانتم آخرالامم
(ابن ماجہ ص ۲۹۷)
حضرت علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی شہرئہ آفاق کتاب ’’خصائص الکبریٰ‘‘ میں آنحضرتﷺ کا خاتم النبیین ہونا۔ آپﷺ ہی کی خصوصیت قرار دیا ہے۔
(دیکھئے ج۲ ص۱۹۳،۱۹۷،۲۸۴)
اسی طرح امام العصر علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں:
’’وخاتم بودن آنحضرت (ﷺ) از میان انبیاء از بعض خصائص و کمالات مخصوصہ کمال ذاتی خود است‘‘
(خاتم النبیین فارسی ص ۶۰)
ترجمہ: ’’اور انبیاء میں آنحضرتﷺ کا خاتم ہونا۔ آپﷺ کے مخصوص فضائل وکمالات میں سے خود آپﷺ کا اپنا ذاتی کمال ہے۔‘‘
(خاتم النبیین اردو ص۱۸۷)
 
Top