• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سیف چشتیائی صفحہ نمبر168

ام ضیغم شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
ناظم
مہمان
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
قولہ:۔بعد اس کے امروہی صاحب فرماتےہیں۔صفحہ 85۔کہ ہاں اگرآیت کے وہ معنی(جو مختار ہمارے ہیں)لیے جاویں توکوئی خرخشہ باقی نہیں رہتا،اور وہ معنی یہ ہیں کہ تمام اہل کتاب حضرت عیسیٰ کے رفع سےلے کرخواہ آنحضرتﷺکے زمانہ تک یا آخرزمانہ تک بلکہ قیامت تک کے اہل کتاب قتل صلیبی حضرت عیسیٰ سے اپنے متردداور شاک ہونے پر ایمان وایقان رکھتے ہیں،اور یقینا نہیں کہ سکتے کہ ہم نے حضرت عیسیٰ کومقتول بالصلیب کیا بہ سبب ان وجوہ قویہ کےجو سیاق آیت میں مذکورہوئی ہیں۔اور یقین واذعان تمام اہل کتاب کو قبل موت عیسیٰ بن مریم سے ہی ہے۔پس دیکھو یہ معنی کیسے صاف اور صحیح بلاخرخشہ ہیِں۔
اقول:۔یہ معنی کیسے بے ربط اور خلاف محاورہ قرآن مجید وقرن اول کے ہیں۔نعوذباللہ من تحریف الجاھلین،
بیت ؎ ترااژدہاگر بودیارغار۔۔۔۔۔ازاں بہ کہ جاہل بود غمگسار
1۔اول تواس معنی کی بناء واقعہ صلیبی پر ہے۔لہذا سارے وجوہ اس کے فساد کے جو پہلے بیان کیے گئے ہیں اس کی طرف منسوب ہوسکتے ہیں۔
2۔یہود کا مترددومشکک ہونا مسیح کی مقتولیت کے بارہ میں آیت وما قتلوہ یقینا سے معلوم ہوچکا ہے۔اور یہود کی تکذیب وتردید (اناقتلنا المسیح الخ)میں صرف اسی ترددوشک کو دخل ہے۔اور ظاہرہے کہ ہر ایک انسان کو اوصاف انضمامیہ اپنے اپنے نفس کے ساتھ علم حضوری ہواکرتا ہے یعنی جس کو مثلا"زید قائم"کے مضمون میں شک ہے تو اس کے نزدیک قیام زید مشکوک ہوا،اور وصف شک معلوم بعلم حضوری ٹھہرئ ۔اور سب محاورات مروجہ دنیا کے برخلاف ہے کہ جب کسی کا شاک ومتردد ہونا یا ظن کرنا یا وہم کرنا ،بخییل کرنا یا یقین کرنا کسی مضمون میں بیان کیا جاوے ،توبعد اس کے یہ مضمون کہ(وہ شخص اپنے شک یا ظن یا وہم یا تخییل یا یقین کےساتھ رکھتا ہے )مؤکدبانواع تاکید بیان ہو یعنی جب یہود بیان ہو یعنی جب یہود مسیح کے قتل کے بارہ میں شاک اور مترددتھے توپھر ان کو اپنا متردد ہونا بداہۃ معلوم ہے۔پھر اس امر بدیہی الوجود العلم کو اللہ تعالیٰ نے حرف تاکید ان اور نون تاکید اور لام توطیہ اور قسم سے مؤکد کرکے کس کا انکار توڑنے کےلیے ذکر فرمایا ہے۔
3۔حسب قاعدہ امروہی صاحب کہ (نون التاکیدلایوکد الا مطلوبا)لیؤمنن میں ایمان یہود بالشک والترددمطلوب خداوندی ہوگا۔پھر اس امربدیہی الوجود کی طلب اور اہتمام کی حاجت ہی کیاتھی۔
4۔کل اہل کتاب تک کا یقین کرنا بہ تردد مذکور بغیر اس کے نہیں ہوسکتا ۔کہ یہود موجودہ دروقت واقعہ صلیب بالضرور خلف کو اپنے متردد ہونے سے خبر دیتے گئے ہوں ،ھلم جراالی یوم القیامۃ ۔اور باعث بریں ضرورت کوئی امر معلوم نہیں ہوتا۔بلکہ خبر نہ دینا ان کا بدلیل استصحاب حال قرین بہ قیاس معلوم ہوتا ہے۔
5۔بعض نصاریٰ کو مسیح کے قتل صلیبی کے ساتھ یقین ہے بخلاف یہود کے کما قال اللہ تعالی وما قتلوہ یقینا ۔اور اسی پر مبنی ہے کفارہ کا مسئلہ اور مخفی طور پر لاش کا نکالنا قبر سے توپھرکل اہل کتاب کا ایمان بہ تردد مذکور کس طرح متصور ہوسکتا ہے۔
6۔ایمان کا اطلاق محاورۃ قرآنیہ وعرف شرعی میں یقین مخصوص پر آتا ہے ۔یعنی یقین بالتوحیدوالرسالۃ والملئکۃ والقدرخیرہ شرہ من اللہ تعالیٰ والبعث بعد الموت ،نہ یہ کہ ہر ایک یقین کو ایمان کہیں۔کجا کہ ایک غیر متہم یقین یعنی یقین بہ تردد مذکور کا نام بھی ایمان ہو۔رہا یہ اعتراض کہ تردد مذکور بھی چونکہ مفہوم (وما قتلوہ یقینا)کا ہے لہذا درضمن ایمان بہ کتاب اللہ اس کے یقین کو بھی ایمان کہہ سکتے ہیں ،تواس کا جواب یہ ہے کہ یہود کا یقین بہ شک وترددمذکور (چونکہ من حیث جاء بہ القرآن نہیں بلکہ صرف علم حضوری وجدانی ہے۔لہذا اس کو ایمان نہیں کہہ سکتے ۔دیکھو فتوحات وکتب عقائد
 
Top