واجب التسلیم ٹھہریں گے۔دیکھو مقدمہ فتح البیان جس میں خلاصہ کے طور پر یہ بھی مندرج ہے کہ سیوطی جیسے لوگوں کا اخراج کافی ہے توثیق اسناد میں ،اور قادیانی صاحب کےنزدیک توکشفی معیار والوں کو آئمہ صحاح ستہ پر بھی فوقیت ہےبنا ء اعلیہ اگر بخاری کی روایت اور ہمارے مرویات میں بالفرض تخالف بھی ہوتا تو سوال مذکور کے مستحق ہم تھے کہ ہماری مرویات چونکہ کشفی معیار سے تصحیح کی گئی ہیں۔لہذا بخاری کی روایت بحسب مسلمات ومصرحات آپ کے ۔ان کی معارض نہیں ہوسکتی اور برتقدیر فرض التساوی بحکم اذاتعارضا فتساقطا کے دونوں ساقط الاعتبار ٹھہریں گی ،پس سب آیات توفیٰ میں وہی قبض جسمی کا بحکم خصوصی المحل متعین ہوگا۔جب آپ یہ دشوار مرحلہ طے فرما ویں گے۔ودونہ خرط القتاد پھر بھی آپ کو اہل اجماع ہی کے ساتھ شامل ہونا پڑے گا۔
قولہ:۔صفحہ 153کے آخیر سے صفحہ 159تک کا حاصل:۔پیشین گوئی کی حقیقت تفصیلی پر اجماع کا انعقاد کوئی معنی نہیں رکھتا ۔اگرامت ایسی پیشین گوئی کی تفصیلی حقیقت پر اجماع کرے تو یہ اجماع کو رانہ نہیں تو اور کیا ہے ۔
2۔مسیح کے رفع جسمانی پر کس وقت میں تمام مجتہدین نے اجماع کیا۔بلکہ وفات شریف کے دن کل صحابہ کا اجماع کل مرسلوں کی بالخصوص عیسیٰ ابن مریم کی وفات پر معقدہوا۔دیکھو ہمارارسالہ القسطاس المستقیم وغیرہ کو۔
3۔آنحضرتﷺ کو معراج اور عیسیٰ ابن مریم کا رفع اگرجسم کے ساتھ ہوتا تو منکرین کو اس کا دکھایا جانا ضروری تھا،
4۔کوئی حدیث صحیح یا ضعیف دکھائی جاوے جس میں عیسیٰ کا رفع بجسدہ العنصری مذکور ہو۔
5۔بڑا افسوس ہے علماء اتنا بھی نہیں جانتے کہ نزول کا معنی کسی مقام پر ٹھہرنا ہوتا ہے۔
6۔قدرمشترک احادیث نزول کا مصداق بالضرورحضرات اقدس ہیں۔
7۔مطالبہ اس امر کا کہ متمسک بہامرویات کے کل رواۃ کی توثیق وتعدیل علی شرط البخاری کی جاوے۔
8۔ابن عباس کے نزدیک اگرمتوفیک کا معنی ممیتک نہیں توپھر دوسرا کوئی معنی ابن عباس سے نقل کرنا ضروری تھا ،
9۔تمام قران مجید ومحاورات عرب میں توفاہ اللہ کامعنی قبض اللہ وحہ آیا ہے۔
10۔مدت اقامت مسیح کی روایات میں جو تعارض ہے اس کی تطبیق بھی تو ضروری ہے ۔
11۔میں افسوس کرتا ہوں کہ آپ ناحق اس مناظرہ میں شامل ہوکر دقت میں پڑگئے ۔آپ کو جہال میں معتبر بننے کےلیے گدی نشینی ہی کافی تھی،
اقول:۔پشیین گوئی کے قدر مشترک پر،جو نزول مسیح ابن مریم بعینہ لابمثیلہ ہے اجماع ہے ۔نہ ہر ایک خصوصیت متعارضہ بالاخر پر ،چنانچہ آپ کا اقرار نمبر 6میں موجود ہے۔اجماع امت کو کورانہ کہنا آپ ہی کاکام ہے۔
2۔مجتہدین کے اقوال مفصلہ ابتداء رسالہ میں اور ایسا ہی خطبہ صدیقیہ کا بیان بھی پہلے گذر چکے ہیں۔
3۔یہ اصلاح اللہ تعالیٰ کو العیاذباللہ دیجئے ،تاکہ علاوہ لنریہ من آیتنا اور عصمۃ عن الیھود کے اور فائدہ بھی حاصل ہوجا تا ۔نعوذباللہ من ھفوات الجاھلین ،
4۔حدیث چونکہ قول صحابی کو بھی شامل ہے ۔لہذا ابن عباس کا اثر جس کو اوپر باسناد صحیح بحوالہ ابن کثیر ونسائی وغیرہ کے ذکر کیا گیا ہے بلکہ کل احادیث نزول کے بعد بطلان احتمال البروز رفع بجسدہ العنصری کے مثبت ہیں،
5۔علماء کو نزول بعد الرفع الجسمی کا معنی خوب معلوم ہے ۔آپ کی نادانی قابل افسوس ہے ۔
6۔آپ نے اس مقام میں اپنی ساری کتاب کے برخلاف احادیث نزول سے مشترک کے ثبوت کا اقرار کردیا ،گویا کل کاروائی
قولہ:۔صفحہ 153کے آخیر سے صفحہ 159تک کا حاصل:۔پیشین گوئی کی حقیقت تفصیلی پر اجماع کا انعقاد کوئی معنی نہیں رکھتا ۔اگرامت ایسی پیشین گوئی کی تفصیلی حقیقت پر اجماع کرے تو یہ اجماع کو رانہ نہیں تو اور کیا ہے ۔
2۔مسیح کے رفع جسمانی پر کس وقت میں تمام مجتہدین نے اجماع کیا۔بلکہ وفات شریف کے دن کل صحابہ کا اجماع کل مرسلوں کی بالخصوص عیسیٰ ابن مریم کی وفات پر معقدہوا۔دیکھو ہمارارسالہ القسطاس المستقیم وغیرہ کو۔
3۔آنحضرتﷺ کو معراج اور عیسیٰ ابن مریم کا رفع اگرجسم کے ساتھ ہوتا تو منکرین کو اس کا دکھایا جانا ضروری تھا،
4۔کوئی حدیث صحیح یا ضعیف دکھائی جاوے جس میں عیسیٰ کا رفع بجسدہ العنصری مذکور ہو۔
5۔بڑا افسوس ہے علماء اتنا بھی نہیں جانتے کہ نزول کا معنی کسی مقام پر ٹھہرنا ہوتا ہے۔
6۔قدرمشترک احادیث نزول کا مصداق بالضرورحضرات اقدس ہیں۔
7۔مطالبہ اس امر کا کہ متمسک بہامرویات کے کل رواۃ کی توثیق وتعدیل علی شرط البخاری کی جاوے۔
8۔ابن عباس کے نزدیک اگرمتوفیک کا معنی ممیتک نہیں توپھر دوسرا کوئی معنی ابن عباس سے نقل کرنا ضروری تھا ،
9۔تمام قران مجید ومحاورات عرب میں توفاہ اللہ کامعنی قبض اللہ وحہ آیا ہے۔
10۔مدت اقامت مسیح کی روایات میں جو تعارض ہے اس کی تطبیق بھی تو ضروری ہے ۔
11۔میں افسوس کرتا ہوں کہ آپ ناحق اس مناظرہ میں شامل ہوکر دقت میں پڑگئے ۔آپ کو جہال میں معتبر بننے کےلیے گدی نشینی ہی کافی تھی،
اقول:۔پشیین گوئی کے قدر مشترک پر،جو نزول مسیح ابن مریم بعینہ لابمثیلہ ہے اجماع ہے ۔نہ ہر ایک خصوصیت متعارضہ بالاخر پر ،چنانچہ آپ کا اقرار نمبر 6میں موجود ہے۔اجماع امت کو کورانہ کہنا آپ ہی کاکام ہے۔
2۔مجتہدین کے اقوال مفصلہ ابتداء رسالہ میں اور ایسا ہی خطبہ صدیقیہ کا بیان بھی پہلے گذر چکے ہیں۔
3۔یہ اصلاح اللہ تعالیٰ کو العیاذباللہ دیجئے ،تاکہ علاوہ لنریہ من آیتنا اور عصمۃ عن الیھود کے اور فائدہ بھی حاصل ہوجا تا ۔نعوذباللہ من ھفوات الجاھلین ،
4۔حدیث چونکہ قول صحابی کو بھی شامل ہے ۔لہذا ابن عباس کا اثر جس کو اوپر باسناد صحیح بحوالہ ابن کثیر ونسائی وغیرہ کے ذکر کیا گیا ہے بلکہ کل احادیث نزول کے بعد بطلان احتمال البروز رفع بجسدہ العنصری کے مثبت ہیں،
5۔علماء کو نزول بعد الرفع الجسمی کا معنی خوب معلوم ہے ۔آپ کی نادانی قابل افسوس ہے ۔
6۔آپ نے اس مقام میں اپنی ساری کتاب کے برخلاف احادیث نزول سے مشترک کے ثبوت کا اقرار کردیا ،گویا کل کاروائی