• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سیف چشتیائی صفحہ نمبر193

ام ضیغم شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
ناظم
مہمان
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اقول:۔1۔قول بالقدیم والتاخیر کا معنیٰ یہ نہیں کہ اصل عبارت بجائے نظم قرآنی کے یوں ہونی چاہیے تھی جیسا کہ آپ نے سمجھا ہے۔بھلا قرآن کریم کا یہ شان ہے قال اللہ تعالیٰ قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوابمثل ھذا القران لا یاتون بمثلہ ولا بعضھم لبعض ظھیرا۔(بنی اسرائیل ۔آیت 55)اس میں یوں نہ چاہیے یوں چاہیے ،کیسے متصور ہوسکتا ہے۔بلکہ اس کا یہ معنی ہے کہ ترتیب ذکری مطابق ترتیب وقوعی کے نہیں ،یعنی مقدم فی الذکرمثلا مؤخر فی الوقع ہے ۔لیکن اختیار کرنا اس طرز کا ضرور کوئی وجہ رکھتا ہے۔جس کے بغیر وجوہ اعجاز وفوائد علم بلاغت متحقق نہیں ہوسکتے،پس نظربدیں وجوہ فوائد نظم کو ایسا ہی ہونا چاہیے ،گوکہ مقدم ذکری مثلا وجود اور تحقق میں مؤخری ہو،ایھا الناظرون امروہی صاحب نے کہاں کی کہاں لگا دی۔
2۔انی رافعک الی ثم متوفیک یاومتوفیک کیا اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ آسمان پرمرے؟بتائیے کس مادہ یا ہیئت کا مدلول ہے۔
3۔پیشین گوئی بوجہ امتدادواستمرار فوقیت تابروز قیامت متحقق نہیں ہوچکی اور نہ شمس الہدایت کی عبارت کا یہ مفاد ہے ،دیکھو صفحہ مذکورہ سطر23،اور آنحضرتﷺیا خلفاء راشدین کے وقت میں یہود کا مغلوب ہونا کیا اس پر فوقیت تابعین الی یوم القیامۃ کا اطلاق کیا جاسکتا ہے؟ہرگز نہیں ،اور ترتیب فی التحقق والوجود برعایت مدلول احادیث متواترہ فی النزول اس طرح پر معلوم ہوتی ہے۔انی رافعک الی ومطھرک من الذین کفرواالی ٰ یوم القیامۃ ۔کیونکہ جعل مستمرالےٰ یوم القیامۃ کا تحقق قیامت کے متصل متصور ہوسکتا ہے ایھا الناظرین کی جگہ ایھاالناظرون چاہیے ،دیکھو ہدایت النحو کا فیہ
4۔الحمد للہ کہ آپ تقدیم وتاخیر کومان گئے ،ہاں صاحب دوسرے لوگ بھی تقدیم وتاخیر کو اسی معنی سے لیتے ہیں ۔ ؎
ہر چہ دانا کند کند ناداں
لیک بعد از ہزار رسوائی
اور آیت وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ﴿قصص۔٥١﴾کا یہ معنی نہیں کہ ترتیب ذکری اور وقوعی کا تطابق ضروری ہے۔ورنہ حسب بلاغت آپ کے کلام الہی کاذب ہوا جاتا ہے۔لوجود شواہد التقدیم والتاخیر اور حدیث شریف ابدءبما بدءاللہ کا یہ مطلب نہیں کہ آیت ان الصفاوالمروۃ کی ترتیب ذکری،قطع نظر بیان حدیث سے۔اس کے مثبت ہے وجوب تقدیم صفا،یا مسنونیت یا استحباب کےلیے جب کہ مثبت انکی حدیث ہے۔چنانچہ عینی شرح صحیح بخاری میں ہے۔لانہ یقولہ ﷺ ابدوابما بداللہ بہ فکیف یستدل بخبر الواحد علی اثبات الفرضیۃ انتہی موضع الحاجۃ ۔گویا آنحضرت ﷺ کا ابدبالصفا کی جگہ ابدء بنا بدء اللہ بہ فرمانا محسنات بلاغت سے ہوا۔نفس ترتیب نظم بغیر احکام میں بیان سنت قولی یا فعلی کے،یا بیان تاریخی کے واقعات میں ،اگرموجب ہو تقدیم فی الوقوع کےلیے ،تو چاہیے کہ بحسب آیت اقیموالصلوۃ واٰتوالزکوۃ کے ادائے زکوۃ کی تقدیم ادائے صلوۃ پر ناجائز ہو۔جس کا کوئی بھی قائل نہیں ۔ایسا ہی واذا قتلتم نفسا الخ میں ترتیب ذکری مطابق ترتیب وقوعی کے نہیں ،ہاں اس طرز بیان کو اختیار کرنا وجوہ بلاغت کےلیے ہے۔اس سے ثابت ہوا کہ تقدیم صفاء مروہ پر مفاد ہے ،حدیث ابدء یاابدءوبما ابدء وابدءبمابدءاللہ ،مانحن فیہ یعنی توفی مسیح کا چونکہ بیان احادیث نزول کی رو سے متاخر الوقوع ہونا ثابت ہوتا ہے ۔لہذا فنی متوفیک ورافعک کو برتقدیر ارادہ معنی موت کے از قبیل تقدیم وتاخیر ماننا پڑا ،گویا جناب کی نظیر پیش کردہ ہمارے مدعی کی مؤید ٹھہری،
 
Top