• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قطب الارشاد حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ پر الزام کہ انہوں نے مرزا قادیانی پر کفر کا فتوی نہیں

ساجد خان نقشبندی

رکن ختم نبوت فورم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قارئین کرام بعض اہل بدعت کی طرف سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا قادیانی پر کفر کا فتوی نہیں لگایا اور اس سلسلے میں مولانا رفیق دلاوری صاحب مرحوم کی مندرجہ ذیل عبارت کو اپنی تائید میں پیش کرتے ہیں:
جن حضرات نے فتوائے تکفیر سے اختلاف کیا ان میں حضرت مولانا رشید احمد صاحب چشتی گنگوہی جو ان دنوں علمائے حنفیہ میں نہایت ممتاز حیثیت رکھتے تھے اور اطراف و اکناف ملک کے حنفی شائقین علم حدیث اس فن کی تکمیل کیلئے ان کے چشمہ فیض پر پہنچ کر تشنگی سعادت سے سیراب ہورہے تھے سب سے پیش پیش تھے ۔انہوں نے علمائے لدھیانہ کے فتوائے تکفیر میں ایک مقالہ لکھ کر قادیانی صاحب کو ایک مرد صالح قرار دیا ۔۔الخ
(رئیس قادیان :ص ۳۷۲،عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت)
جواب:قارئین کرام حقیقت یہ ہے کہ تعصب انسان کو سوچنے سمجھے اور تحقیق کی صلاحیت سے محروم کردیتی ہے ۔ قارئین کرام قادیانیت کا مطالعہ کرنے والوں پر یہ بات مخفی نہ ہوگی کہ مرزا قادیانی نے یک دم نہ تو مجدد ہونے کا دعوی کیا نہ مہدویت کا نہ مسیح کا اور نہ نبوت کا بلکہ سب سے پہلے اس نے خود کو لوگوں میں ایک مناظر اور عیسایت و آریت کا رد کرنے والے اسلام کا درد دل رکھنے والے شخص کی صورت میں متعارف کرایا اور اس سلسلے میں ’’براہین احمد یہ ‘‘ لکھنے کا اعلان کیا یہ کتاب مرزا قادیانی کی اولین تصنیف ہے اس کتاب میں نہ تو اس نے مسیح ہونے کا دعوی کیا نہ نبوت کا انکار کیا بلکہ شدو مد کے ساتھ حیات مسیح کا اثبات کیا البتہ کہیں کہیں اپنے الہامات کا تذکرہ بھی کیا ۔علماء لدھیانہ کی تکفیر اور مولانا گنگوہی کا مرزا کی تکفیر سے انکا ر اسی دور کی بات ہے ۔
علماء لدھیانہ نے مرزا قادیانی کی دعاوی اور اس کی کتاب براہین احمد یہ کا تنقیدی نظر سے جائزہ لیا اور اللہ پاک نے ان کو یہ شرف دیا کہ مرزا قادیانی کے خلاف سب سے پہلے کفر کا فتوی انہی علماء لدھیانہ نے دیا چنانچہ یہی مولانا رفیق دلاوری صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’جس روز قادیانی صاحب لدھیانہ میں قدوم فرماہوئے ،مولوی محمد ،مولوی عبد اللہ اور مولوی اسمعیل صاحبان نے کتاب براہین کا نظر غائیہ سے مطالعہ کیا اس میں کلمات کفریہ کی بڑی کثرت و فراوانی پائی اس کے بعد شہر میں اعلان کردیا کہ یہ شخص مجدد نہیں بلکہ زندیق اور خارج از اسلام ہے اور فتوے چھپوا کر گرد و نواح کے شہروں میں روانہ کئے کہ یہ شخص مرتد ہے ۔آئیندہ کوئی شخص اس کی کتاب نہ خریدے (فتاوی قادریہ ،ص۳) (بحوالہ رئیس قادیان ص ۳۷۱)
یہ مولو ی محمد اور مولوی عبد اللہ کون تھے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں:
مولوی عبد اللہ کے بھائی مولوی محمد صاحب نے جو مولانا حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی سابق صدر مرکزی مجلس احرار اسلام لاہور کے جد امجد یعنی داد ا صاحب اور مولوی زکریا صاحب کے والد تھے ‘‘۔
(رئیس قادیان ۳۷۰)
الحمد للہ مرزا قادیانی کی تکفیر کا سب سے پہلا اعزاز علمائے دیوبند کو حاصل ہوا مگر برا ہو تعصب کا کہ اس پہلو کو سامنے نہیں لاتے بہرحال علماء لدھیانہ کی اس تکفیر کے بعد وہ محتاط علماء جو مرزا قادیانی کے عقائد کے بارے میں تردد میں تھے وہ مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس گئے اور انہیں دونوں طرف کی صورتحال بتائی مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے اب تک چونکہ خود مرزا قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا تھا اس لئے دونوں طرف کی صورتحال دیکھنے کے بعد علماء نے فتوی تکفیر میں جس احتیاط اور ذمہ داری کا درس دیا ہے اس پر عمل کرتے ہوئے مرزا قادیانی کی تکفیر سے بوجہ احتیاط انکار کیا اور اس سلسلے میں اپنا محتاط موقف علماء لدھیانہ کو بھیجا جس کے چند اقتباسات مندرجہ ذیل ہیں:
گو کتاب براہین احمدیہ کے بعض اقوال میں کچھ خلجان ہوتا ہے مگر تھوڑی سی تاویل سے اس کی تصحیح ممکن ہے ۔لہٰذ آپ جیسے اہل علم سے بہت تعجب ہے کہ ایسے امر متبادر المعانی کو دیکھ کر تکفیر و ارتداد کا حکم فرمایا اگر تاویل قلیل فرماکر اس کو اسلام سے خارج نہ کرتے تو کیا حرج تھا ؟تکفیر مسلم کوئی ایسا سہل امر نہیں کہ ذرا سی بات پر کسی کو جھٹ کافر کہہ دیا جائے ۔
(رئیس قادیان :ص ۳۷۲،۳۷۳ تفصیل کیلئے سکین دیکھیں)
حضرت گنگوہی کا تفصیلی خط ہم عکس کی صورت میں دے رہے ہیں اسے ملاحظہ فرمائیں گویا مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک علماء لدھیانہ نے براہین کی جن عبارات کو کفریہ قرار دیا اس میں تاویل کی گنجائش تھی اور فقہاء کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر کسی کی بات میں ۹۹ احتمالات کفر کے ہوں ایک احتمال اسلام کا تو اسلام کے احتمال کو ترجیح دیجائے گی ۔اس اصول کو مولوی احمد رضاخان صاحب نے ’’تمہید ایمان ‘‘ میں نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ اس کی مثالیں دے کر اس کی توضیح بھی کی ہے۔تو اگر مولانا گنگوہی نے محتاط علماء کا رویہ اختیار کرتے ہوئے اس دور میں مرزا قادیانی کی تکفیر سے انکا ر کیا تو کیا گناہ کیا ؟۔
غرض مولانا گنگوہی کا تکفیرسے انکار اسی سبب پر تھا کہ انہوں نے اب تک بالاستیعاب مرزا کی کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا تھا اور نہ اس نے دعاوی پر پوری طرح باخبر تھے چنانچہ علماء لدھیانہ مسئلہ کی تصفیہ کے لئے خود دارالعلوم پہنچے اور ایک مجلس مذاکرہ تشکیل پائی جس میں حضرت مولانا یعقوب صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے علماے لدھیانہ کو جواب دیا کہ:
آ پ قریب الوطن ہونے کی وجہ سے اس کے تمام حالات سے بخوبی واقف ہیں اس کی تکفیر سے منع نہیں کرتا ۔اس کے علاوہ آپ نے اس شخص کی کتاب براہین احمدیہ پڑھی ہے اور میں نے اور مولانا رشید احمد صاحب نے اس کتاب کا مطالعہ نہیں کیا ۔
(رئیس قادیان:ص ۳۷۹،۳۸۰)
اس حوالے سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا تکفیر سے انکار کسی غرض کی بناء پر نہیں تھا بلکہ مرزا کے عقائد پوری طرح ان کے سامنے نہیں آئے تھے اور اس موقعہ پر علماء محتاطین کا جو رویہ ہونا چاہئے مولانا گنگوہی نے وہی اختیار کیا ،چنانچہ مولانا رفیق دلاوری صاحب لکھتے ہیں کہ:
مولانا گنگوہی نے خدانخواستہ کسی نفسانی ،غرض کی بناء پر فتوائے تکفیر کی مخالفت نہیں کی تھی بلکہ اصل یہ ہے کہ قادیانی صاحب اس وقت تک اپنے پورے رنگ میں ظاہر نہیں ہوئے تھے۔
(رئیس قادیان:ص ۳۸۰)
پھر مرزا کی طرف سے بھی بارہا یہ اعلان کیا جارہا تھا کہ میرے عقائد وہی ہیں جو مسلمانوں کے ہیں اور مجھ پر جو الزامات لگائے جارہے ہیں وہ درست نہیں جامع مسجد دہلی میں مولوی عبد الجبار کے ساتھ مرزا کی جو گفتگو ہوئی اس میں اس نے صاف اقرار کیا کہ میں نبوت کا مدعی نہیں اور ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں (رئیس قادیان :ص ۳۳۸)
مرزا کے اسی منافقانہ رویہ سے بہت سے علماء اس کے متعلق کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے عاجز تھے مگر چونکہ مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت ہندوستان میں ایک مرکزی حیثیت رکھتی تھی اس لئے علماء لدھیانہ نے اپنے فتوے کی تائید مولانا سے حاصل کرنا ضروری سمجھا علماء لدھیانہ کے اصرار پر مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کو حکم بنایا چنانچہ اس کی تفصیل میں مولانا رفیق دلاوری صاحب لکھتے ہیں:
’’بہرحال مولانا گنگوہی نے فرمایا کہ مولانا محمد یعقوب ہم سب میں بڑے ہیں ،جو کچھ یہ فرمائیں گے مجھے بسر و چشم قبول ہوگا مولوی محمد صاحب نے مولانا محمد یعقوب کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ نے قادیانی کے متعلق جو جو رائے کل ظاہر فرمائی تھی کیا آپ اس کو تحریر میں لاسکیں گے ؟انہوں نے کہا کہ ہاں میں لکھ دوں گا کہ قادیانی کے الہام،اولیاء اللہ کے الہامات سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے لیکن بالفعل کاروبار جلسہ کی وجہ سے میں عدیم الفرصت ہوں دو تین روز کے بعد لکھ کر وانہ کردوں گا ۔
علماء لدھیانہ دیوبند سے مراجعت فرماہوئے ۔دو تین دن کے بعد مولانا محمد یعقوب نے ایک فتوی اپنے ہاتھ سے لکھ کر بذریعہ ڈاک لدھیانہ بھیج دیا جس کا مضمون یہ تھا کہ ’’یہ شخص میری دانست میں لامذہب معلوم ہوتا ہے اس شخص نے اہل اللہ کی صحبت میں رہ کر فیض باطنی حاصل نہیں کیا معلوم نہیں اس کو کس روح کی اویسیت ہے مگر اس کے الہامات اولیاء اللہ کے الہامات سے کچھ مناسبت اور علاقہ نہیں رکھتے ‘‘۔
(رئیس قادیان :ص ۳۸۰)
اس فتوے میں مولانا یعقوب صاحب نے صاف طور پر مرزا قادیانی کو لامذہب کہا اور حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ پہلے یہ فیصلہ دے چکے تھے کہ جو مولانا کا فیصلہ ہوگا وہی میرا مگر یہ فتوی بھی ابتدائی دور کا ہے بعد میں جب مرزا قادیانی صاحب پوری طرح اپنے اصل رنگ میں آئے اور مسیحیت و نبوت کا دعوی کیا تو مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے صاف طور پر اس شخص کی تکفیر کا فتوی دیا ۔مولانا رفیق دلاوری صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور تمام دوسرے اکابر امت جو قادیانی کی تکفیر سے پہلو تہی کرتے اور لوگوں کو اس سے منع کرتے تھے ،آئیندہ چل کر اس کو مرتد اور خارج از اسلام قرار دینے لگے‘‘۔
(رئیس قادیان :ص ۳۸۱)
مجھے اہل بدعت کی دیانت پر افسوس ہوتا ہے اور رہ رہ کر یہ خیال آتا ہے کہ آخر یہ لوگ یوم حساب کو کیوں بھول گئے کیوں ان کے دلوں سے یہ بات نکل گئی کہ ایک دن مرنا ہے اور اللہ کو جواب دینا ہے قارئین کرام غور فرمائیں ’’رئیس قادیان‘‘ کا ص نمبر ۳۷۲ کا حوالہ تو بڑے زور و شور سے دیا جارہاہے مگر اسی کتاب کا ص نمبر ۳۸۱ ان کو نظر نہیں آتا جو ان کے اعتراض کی بیخ کنی کررہا ہے کیا اب بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ اہل بدعت کا یہ اعتراض تعصب کی بناء پر نہیں بلکہ غلط فہمی کی بناء پر تھا ؟یہ کیا دجل و فریب ہے کہ کسی مسئلہ کی وضاحت پر ۸ صفحات کے طویل مضمون کو چھوڑ کر اپنی مطلب کی صرف تین سطریں پیش کرکے لوگوں کو دھوکہ دیا جائے الحساب یوم الحساب۔
مرزا قادیانی کے متعلق حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے اس فتوے کا ذکر مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی عقائد کی مستند ترین کتاب ’’المہند علی المفند ‘‘ میں کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
ہم اور ہمارے مشائخ سب کا مدعی نبوت و مسیحیت قادیانی کے بارے میں یہ قول ہے کہ شروع شروع میں جب تک اس کی بدعقیدگی ہمیں ظاہر نہ ہوئی بلکہ یہ خبر پہنچی کہ وہ اسلام کی تائید کرتا ہے اور تمام مذاہب کو بدلائل باطل کرتا ہے تو جیسا کہ مسلمان کو مسلمان کے ساتھ زیبا ہے ہم اس کے ساتھ حسن ظن رکھتے اور اس کے بعض ناشائستہ اقوال کو تاویل کرکے محمل حسن پر حمل کرتے رہے اس کے بعد جب اس نے نبوت و میسحیت کا دعوی کیا اور عیسی مسیح کے آسمان پر اٹھائے جانے کا منکر ہوا اور اس کا خبیث عقیدہ اور زندیق ہونا ہم پر ظاہر ہوا تو ہمارے مشائخ نے اس کے کافر ہونے کا فتوی دیا قادیانی کے کافر ہونے کی بابت ہمارے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کا فتوی تو طبع ہوکر شائع بھی ہوچکا ہے ۔ (المہند علی المفند :ص ۸۵،۸۶ مطبوعہ ادارہ اسلامیات لاہور)
حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے اس فتوی تکفیر کے بعد مرزا قادیانی کی توپوں کا رخ پوری طرح آپ کے خلاف ہوگیا اور وقتا فوقتا آپ کے خلاف اشتہاری بازی کی گئی جس میں گالم گلوچ کرکے خوب دل کی بھڑا س نکالی گئی چنانچہ مرزا قادیانی نے ۲۶ شوال ۱۳۱۰ ھ کو ایک اشتہار ’’مباہلہ‘‘ کیلئے شائع کیا جس میں ان لوگوں کو مباہلے کی دعوت دی گئی تھی جو مرزا قادیانی کو کافر کہتے ہیں ان علماء میں
’’مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کا نام بھی لکھا گیا ۔
(ملاحظہ ہو مجموعہ اشتہارات :ج۱،ص ۴۲۰ تا۴۲۵ مطبوعہ الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ)
اسی طرح مرزا قادیانی نے ایک اشتہار خاص حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کو مخاطب کرنے شائع کیا جس کا عنوان یہ تھا :
’’میاں رشید احمد گنگوہی وغیرہ کی ایمانداری پرکھنے کیلئے جنہوں نے اس عاجز کی نسبت یہ اشتہار شائع کیا کہ یہ شخص کافر اور دجال اور شیطان ہے اور اس پر لعنت اور شب و شتم کرتے رہنا ثواب کی بات ہے اس اشتہار کے وہ سب مکفر مخاطب ہیں جو کافر اور اکفر کہنے سے باز نہیں آتے خواہ لدھیانوی ہیں یا امرتسری یا غزنوی یا بٹالوی یا گنگوہی ۔۔الخ
(مجموعہ اشتہارات:ج۲،ص ۱۱۷ الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ)
غرض ان تمام حوالوں سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوئی کہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ جب تک مرزا کے عقائد پر مطلع نہ تھے انہوں نے تکفیر سے انکار کیا مگر جب مرزا کے عقائد کھل کر ان کے سامنے آئے تو انہوں نے زور و شور سے نہ صرف مرزا صاحب کی تکفیر کی بلکہ اس فتوے کو بصورت اشتہار بھی شائع کروایا کسی کے عقائد پر پوری طرح مطلع نہ ہوکراس کی تکفیر سے انکار یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔
Picture.jpg Picture 001.jpg Picture 002.jpg Picture 003.jpg Picture 004.jpg Picture 005.jpg Picture 006.jpg
 
Top