• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی کی کاروائی ( اٹھارواں دن)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مسئلہ جہاد اور مرزاصاحب)
تو علماء کے متعلق انہوں نے لکھا ہے کہ یہ وہ دور تھا کہ علماء نہ جہاد کا فتویٰ دیتے تھے اور نہ علماء جہاد کرتے تھے اور یہی روش انہوں نے اختیار کی۔ میں اس میں صرف چند مثالیں دوں گا۔ آپ کو ۱۸۵۷ء میں مسلمانوں پر جو افتاد پڑی اور جس طرح مسلمانوں کی سیاسی قوت پارہ پارہ ہوئی اور اس کے جو یاس اور محرومی کی کیفیت پیدا ہوئی، اس کے باوجود ایسے جاندار لوگ موجود تھے جنہوں نے جہاد کاسلسلہ مسلسل جاری رکھا، فتوے دیتے رہے اور بنگال سے لیکر آسام سے لے کر صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں کی آخری حدوں تک کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں یہ کام نہ ہورہا ہو، اور انہوں نے نہایت ہوشیاری سے اس کام کو کیا۔ اس زمانے میں انگریزوں نے نیل کے کارخانے قائم کئے تھے۔ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ جہاد کا قصہ ہی ختم ہوگیا تھا۔ اس زمانے میں مسلمانوں نے نہایت ہوشیاری سے انگریزوں کو یہ یقین دلایا کہ جہاد جو ہے وہ اسی طرح ہمارا ایک 2889فریضہ ہے جس طرح روزہ، نماز، جمعہ پڑھنا وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا جہاد کے لئے ہمیں سرکاری طور پر چھٹی دی جایا کرے۔ تو نیل کے کارخانوں سے انہیں چھٹی ملتی تھی اور وہ اس وقت سکھوں سے جہاد کر رہے تھے۔ پیش نظر یہ تھا کہ ایک علاقہ قبضے میں آجائے اور اب تمام تحریریں شائع ہو گئی ہیں۔ وہ خطوط اس زمانے کے شائع ہوگئے ہیں۔ جس سے پوری طرح یہ بات ثابت ہے کہ حضرت سید احمد شہید، اور دوسرے علمائ، ان کا پروگرام یہ تھا کہ پہلے اس علاقے کو جو مسلم اکثریت کا علاقہ تھا۔ اس میں مسلم حکومت قائم کر لیں۔ تو پھر انگریزوں سے نمٹیں گے۔ تو انگریز انہیں نیل کے کارخانوں سے چھٹی دیا کرتے تھے۔ گویا جہاد کے قصے کو عوام تک پہنچا دیا تھا نہ کہ یہ کہا جارہا ہے کہ اس زمانے میں جہاد کا نام نہیں لیا جارہا تھا۔ اس میں ہر مکتب خیال کے علماء تھے۔ جس زمانے میں مرزاغلام احمد، بقول اپنے مخبری کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ وہ زمانہ تھا کہ حضرت سید احمد صاحب شہید کے ماننے والے پیروکار منتشر ہوگئے تھے۔ انہوں نے پٹنہ میں پھر اپنا مرکز بنایا تھا۔ مسلسل مقدمات چلتے رہے۔ ایذائیں دی جاتی رہیں۔ یہاں تک کہ آخر میں صادق پور کا پورے کا پورا محلہ جو کہ ان کی حویلی میں تھا۔ اسے گروا کر وہاں ہل چلوائے گئے۔ تاکہ بہت سے زمانوں تک یہاں کسی بستی کا نام ونشان نہ رہے۔ جو لوگ تھے ان کو یا تو پھانسیاں دی گئیں یا کالے پانی بھیج دیا گیا۔ ان کے خاندان اور افراد کے نام برٹش گورنمنٹ کے ریکارڈ میں قیام پاکستان تک لکھے جاتے تھے۔ ان کی اولاد دراولاد کے نام۔ اس طرح وہی زمانہ تھا جب مولانا فضل حق خیر آبادی صاحب، مفتی صدرالدین صاحب، مولانا عنایت احمد صاحب رام پوری، ان تمام کے فتاویٰ شائع شدہ موجود ہیں۔ سرحد میں مولانا عبدالغفور اخوند، انہوں نے جہاد کا اعلان کیا۔ اس کے بعد مولانا عبداﷲ ان کی جگہ آئے۔ ان کا ۱۹۰۲ء میں انتقال ہوا۔ پھر مولانا عبدالکریم ۱۹۱۵ء تک وہ رہے ہیں۔ اس کے بعد مولانا عبدالرحیم، استھتحھانہ اور چمرکند 2890وغیرہ میں ان کے مراکز قائم ہیں اور باربار انگریزوں سے نمبرد آزما ہوتے رہے۔ بنگالی حاجی شریعت اﷲ تیتومیر، یہ نام اب تک وہاں کے بچوں کی زبان پر جاری ہیں۔ ریشمی رومال کا قصہ، ترکوں سے مل کر ہندوستان کو انگریزوں کی لعنت سے پاک کرنے کا قصہ، وہ مولانا عبیداﷲ سندھی صاحب، شیخ الہند محمود الحسن صاحب، سب لوگ اس فہرست میں آتے ہیں۔ یعنی پورا دور ایسا ہے کہ کسی میں جہاد نہ کرنے کی کمی نہیں ہے اور مرزاصاحب یہ کہتے تھے۔ انہوں نے مخبری میں ایک پہچان بنالی تھی کہ جو لوگ یہاں دارالحرب یعنی انگریزوں کے خلاف لڑائی کرنا چاہتے ہیں جہاد کرنا چاہتے ہیں وہ جمعہ اور عیدین کی نماز کو جائز نہیں سمجھتے۔ لیکن پتہ لگاتے تھے کہ کون کون سے علماء ہیں، کون کون سے لوگ ہیں جو جمعہ کو حرب ہونے کی وجہ سے نہیں پڑھتے۔ اس طرح وہ ان کی مخبری کا کام کرتے تھے۔ چونکہ وہاں پر پہلے نہیں آیا، میں اس کا اقتباس پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ یعنی کسی معاشرے میں یہ تصور نہیں کیا جاتا کہ اس معاشرے میں کوئی شریعت انسان اس حالت میں جب کہ قوم غیروں کے پنجہ استعمار میں گرفتار ہو تو کوئی شخص مخبری کرے اور قوم میں اس کا کوئی وقار ہو۔ نہ کہ مجدد، مصلح، پیغمبر، خدا جانے کیا کیا کہا گیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاقادیانی انگریزوں کا بڑا جاسوس)
اب یہ (تبلیغ رسالت ج۵ ص۱۱، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۲۲۷) سے ایک اقتباس سناتا ہوں۔ یہ مرزاغلام احمد کا بیان ہے: ’’چونکہ قرین مصلحت ہے کہ سرکار انگریز کی خیرخواہی کے لئے ایسے نافہم مسلمانوں کے نام بھی نقشہ جات میں درج کئے جائیں جو درپردہ اپنے دلوں میں برٹش انڈیا کو دارالحرب قرار دیتے ہیں… لہٰذا یہ نقشہ اسی غرض کے لئے تجویز کیاگیا۔ تا اس میں ان ناحق شناس لوگوں کے نام محفوظ رہیں۔ جو ایسے باغیانہ سرشت کے آدمی ہیں۔ اگرچہ گورنمنٹ کی خوش قسمتی سے… مسلمانوں میں ایسے لوگ معلوم ہوسکتے ہیں جن کے نہایت مخفی ارادے 2891گورنمنٹ کے برخلاف ہیں۔ اس لئے ہم نے محسن گورنمنٹ کی پولیٹیکل خیرخواہی کی نیت سے اس مبارک تقریب پر چاہا کہ جہاں تک ممکن ہو ان شریر لوگوں کے نام ضبط کئے جائیں۔ (یعنی ان کے نام ریکارڈ کئے جائیں) جو اپنے عقائد سے مفسدانہ حالتوں کو ثابت کرتے ہیں… لیکن ہم گورنمنٹ کو باادب اطلاع کرتے ہیں کہ ایسے نقشے پولیٹیکل راز کی طرح اس وقت تک ہمارے پاس محفوظ رہیں گے۔ جب تک گورنمنٹ ہم سے طلب کر لے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہماری گورنمنٹ، حکیم مزاج کی طرح ان نقشوں کو ملکی راز کی طرح اپنے کسی دفتر میں محفوظ رکھے گی۔‘‘
گویا چیف انفارمر کے فرائض جو صاحب دے رہے تھے یہ انکا کارنامہ تھا اور یہ اس وقت جب مسلمانوں کی بڑی تعداد کالے پانی جارہی تھی یا پھانسیوں کے تختوں پر ڈال رہے تھے۔
انہوں نے یہ بھی لمبی فہرست دی ہے کہ ۱۸۹۳ء سے لے کر قیام پاکستان تک وہ مسلمانوں کے ہر درد ودکھ میں نہ صرف شریک رہے بلکہ پیش پیش رہے۔ ۱۸۹۳ء میں مرزاصاحب کی عمر کافی ہوگئی تھی۔ لیکن اس کے متعلق جو کچھ کام رہا وہاں اس میں ان کی شرکت کی بات یہ ہے کہ جو مصیبتیں اس ملک میں مسلمانوں پر آئیں، یعنی جہاد کے سلسلے میں وہ اپنی جگہ ہیں یہ خود سوال ہی نہیں تھا۔ تاہم ان کا اس میں کام صرف مخبری کرنا تھا۔ یا انگریزوں کو سپاہی مہیا کرنا تھا۔ لیکن اس کے علاوہ جو تعمیری کام ہوا، مثلاً علی گڑھ قائم ہوا۔ دوسرے مدارس قائم ہوئے۔ انجمن حمایت اسلام لاہور قائم ہوئی۔ اس کے متعلق مجھے مجبوراً اقتباس سے گریز کرنا پڑے گا۔ اس میں انہوں نے کہا کہ سرسید نے بڑی جان توڑ کوشش کی اور کہا کہ ایک روپیہ دے دو چندہ۔ انہوں نے کہا کہ نہ، یہ نہیں ہوسکتا۔ مرزابشیرالدین نے لکھا ہے کہ آپ کیوں… یعنی اس میں انہوں نے لکھا، اپنی جماعت کے لوگوں کو کہاکہ آپ دوسروں میں کیوں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ مرزاصاحب کا ہمیشہ یہی 2892معمول رہا ہے کہ وہ لوگ کسی نام سے آئیں، نہ کسی دوسری انجمن کے ممبر بنیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاقادیانی کو صاحب نہ کہیں)
خواجہ جمال محمد کوریجہ: جناب چیئرمین! انصاری صاحب باربار مرزا کو مرزاصاحب کے نام سے پکار رہے ہیں۔ اس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔، ان کو مرزاصاحب کے نام سے نہ پکارا جائے۔
جناب چیئرمین: جب آپ کی باری آئے تو آپ جیسے چاہیں پکاریں۔
خواجہ جمال محمد کوریجہ: جناب! اس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ وہ ولد الحرام ہے اس کو اس نام سے پکارا جائے۔
جناب چیئرمین: کسی کی تقریر میں آپ کوئی رائے نہیں دے سکتے۔ یس، انصاری صاحب!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانیوں کی دروغ گوئی)

مولانا محمد ظفر احمد انصاری: چنانچہ انہوں نے کسی انجمن میں جو تعمیری کام کر رہی تھی یا انگریزوں کے خلاف لڑنے، یا جہاد، یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو مسلمانوں کے اجتماعی مسائل سے متعلقہ ہیں، انہوں نے اس میں دلچسپی نہ لی۔
جس زمانے میں مسلمانوں پر مصیبتیں آئیں ان میں نمایاں مصیبتیں بیسیویں صدی کے شروع میں آئی تھیں۔ جنگ طرابلس شروع ہوئی۔ جنگ بلغان شروع ہوئی۔ اس کے بعد ترکوں کے خلاف انگریزوں نے جنگ شروع کی۔ اس عرصے میں مقامی مسجد کان پور میں ایک واقعہ ہوا جس سے پورے ہندوستان میں اشتعال پیدا ہوا اور بہت سے مسلمان اس میں شہید ہوئے۔ پھر خلافت کی جنگ شروع ہوئی۔ پھر جلیانوالہ باغ کا قصہ شروع ہوا۔ جس میں مسلمان اور ہندو سبھی شریک تھے۔ ترکوں کی سلطنت کو ختم کیاگیا۔ اس پر قادیان میں چراغاں ہوا اور یہ انتہائی جسارت کے ساتھ غلط بیانی کی گئی کہ سارے مسلمان چراغاں کر رہے تھے۔ ہم نے بھی چند دئیے 2893روشن کر دئیے۔ یہ ایک ایسی دروغ بیانی ہے میں اسے کیا کہوں۔ میں اس زمانے میں طالبعلم تھا۔ مگر یہ منظر پوری طرح یاد ہے۔ میں سکول میں پڑھتا تھا۔ یہ میں جانتا ہوں کہ پوری ہڑتال ہوئی۔ جگہ جگہ اتنی گرفتاریاں ہوئیں اس روز، صرف اس بات پر کہ چراغاں کرو، شیرینی تقسیم کرو۔ بہرحال شہر میں ایسے لوگ تھے جو خوشامدی تھے اور ان کی اغراض وابستہ تھیں۔ جگہ جگہ ایسا ہوا بھی ہے۔ لیکن مسلمانوں نے اس روز ہڑتال ہی کی اور اپنے غم وغصہ کا اظہار کیا۔
پھر ۱۹۲۲ء میں ترکوں کو، یونانیوں کے مقابلے میں سمرنہ میں فتح ہوئی تو مسلمانوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ کچھ لوگوں نے انہی کے مریدوں نے کہا کہ ہم بھی چراغاں کریں۔ تو انہوں نے کہا کہ اس موقعہ پر چراغاں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اس کے بعد دو چیزیں ایسی ہیں جن میں انہوں نے شرکت کی۔ ایک شدھی اور سنگھٹن تحریک جو کہ اس شخص نے شروع کی تھی جس نے آزادی کی جنگ میں بڑا نمایاں مقام حاصل کیا ہے اور مسلمان اس کی بڑی عزت کرتے ہیں۔ بعد میں وہ جیل میں گیا اور جیل میں جانے کے بعد حکومت نے اس سے کچھ معاملہ طے کیا اور جیل سے نکلنے کے بعد اس نے شدھی کی تحریک (دیائند) شروع کی۔ اس میں یہ ضرور گئے۔ لیکن وہاں کیا تھا؟ وہ ایک بڑی اچھی شکارگاہ تھی جہاں پر یہ اپنی جماعت کے لئے آدمی لے سکتے تھے۔ اس میں یہ بے شک گئے۔
دوسرا بڑا کارنامہ جو وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے کشمیر کمیٹی میں شرکت کی اور کشمیر کمیٹی میں ان کی شرکت کا جو حال ہے وہ یہ ہے۔ اس میں علامہ اقبال بھی شامل تھے اور بھی بہت سے اکابرین تھے۔ اس کے بارے میں ’’مسئلہ کشمیر‘‘ مصنفہ ممتاز احمد کا ایک اقتباس آپ کی اجازت سے پیش کرتاہوں۔
’’۱۹۳۱ء میں جب ریاست میں تحریک حریت کا آغاز ہوا اور ریاستی مسلمانوں نے سیاسی آزادی کے حصول کے لئے جب باقاعدہ طور پر جدوجہد کا آغاز کیا تھا… یہ الفضل کا Quotation (اقتباس) 2894ہے تو حضرت امام جماعت احمدیہ (عربی) جو پہلے ہی مناسب موقعہ کی انتظار میں تھے، یکایک میدان عمل میں آگئے۔ اس کے بعد کیا ہوا۔ ۲۵؍جولائی کو شملہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ علامہ اقبال بھی اس میں شامل تھے۔ لیکن صدارت مرزابشیرالدین محمود کے سپرد کی گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کشمیر کمیٹی کا منصوبہ بنانے والے بھی دراصل مرزا بشیر محمود صاحب ہی تھے اور جو افراد شملہ میں جمع ہوئے تھے ان میں اکثریت احمدیوں ہی کی تھی۔ کمیٹی کے پیش نظر جسے ابتداء میں بیان کر دیا گیا ہے۔ ریاستی مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق دلانا اور قیدوبند کی صعوبتیں جھیلنے والے مسلمانوں کو قانونی امداد مہیا کرنا تھا۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے تمام کشمیری لیڈروں سے براہ راست روابط قائم کئے گئے۔ قادیانی زعماء کو بڑی تعداد میں ریاست میں بھیجا گیا۔ جہاں انہوں نے لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور مسلمانوں کی مالی امداد کر کے اپنا ممنون احسان بنانے کی کوشش کی گئی اور اس دوران سینکڑوں کی تعداد میں مبلغین بھی بھیجے گئے جو ریاست کے چپے چپے کا دورہ کر کے قادیانی عقائد کی تبلیغ کرنے لگے۔ اس ریاست میں تحریک آزادی کے مظلومین کی امداد کے لئے اکثر رقوم شیخ محمد عبداﷲ کی معرفت دی گئیں۔ چوہدری عباس کے مقابلے میں قادیانیوں کی تمام ہمدردیاں شیخ عبداﷲ کے ساتھ تھیں اور شیخ صاحب کے جماعت سے تعلقات انتہائی قریب ہورہے تھے اور لاہور میں اس افسوس ناک افواہ نے کافی تقویت پکڑ لی کہ شیر کشمیر شیخ عبداﷲ مرزائی ہیں۔ پھر شیخ صاحب نے خود لاہور آکر ایک جلسہ میں اس کی تردید کی، کشمیر کمیٹی اسی طرح کام کرتی رہی۔ لیکن ابھی اس کا دستور نہیں بنا تھا اور اس کے سیاسی مقاصد لوگوں کے سامنے واضح ہونے لگے تو انہوں نے یہ کوشش کی کہ اس کا دستور بن جائے۔ لیکن یہ بات مرزابشیرالدین کو ناگوار تھی۔ کیونکہ وہ اس میں ڈکٹیٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے اور جب دستور بنانے کے لئے اصرار کیاگیا تو مرزابشیرالدین محمود نے بطور احتجاج کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا اور پھر علامہ اقبال کمیٹی کے نئے صدر منتخب ہوگئے۔ 2895لیکن ان کا (مرزابشیرالدین) کا استعفیٰ دینا تھا کہ تمام قادیانی حضرات نے کمیٹی کے کاموں میں دلچسپی لینا بند کر دی اور عملاً کمیٹی کا بائیکاٹ کر دیا۔ حتیٰ کہ قادیانی وکلاء جو ریاست میں مسلمانوں کے مقدمات لڑ رہے تھے وہ مقدمات ادھورے چھوڑ کر واپس آگئے اور جب کمیٹی کے کاموں میں تعطل پیدا ہوا تو علامہ اقبال بھی قادیانیوں کے رویہ سے بددل ہوکر صدارت سے مستعفی ہو گئے اور خود اس پر علامہ اقبال کے جو ریمارکس ہیں وہ چند جملے بیان کر دیتا ہوں:
"Unfortunately there are members in the Committee who recognise no loyalty except to the head of their particular religious sect. This was made clear by a public statement recently made by one of the Ahmadi pleaders who had beeen conducting the Mirpur cases. He plainly admitted that he recognises on Kashmir Committee, and admits that whatever he and his colleagues did was done in obedience to the commands of their religious leader. I confess that I interpreted this statement as a general indication of the Ahmadi's attitude of mind of felt doubts about the Kashmir Committee. I do not mean to stigmatise anybody. A man is free to develop any attitude intellectually and spiritually to suit his mind best. Indeed I have every sympathy for a man who needs a spiritual probe and finds one in the shrine of by- gone saint or any living priest. As far as I am aware, there are no differences of opinion among members of the Kashmir Committee regarding the General Committee's policy to the formation of a party on the ground of differneces in policy. Nobody can object, but according to my view of the situation the differences in the Kashmir Committee are based on considerations which I believe are utterly irrelevant. I do not believe that a smooth working is possible and feel that in the best interests of all concerned the present Kashmir Committee should cease to exist."
(بدقسمتی سے اس کمیٹی میں ایسے ارکان بھی ہیں جو اپنے مخصوص مذہبی فرقے کے قائد سے وفاداری کے سوا کسی اور وفاداری کو نہیں جانتے۔ اس بات کا واضح اعلان ان احمدی وکلاء میں سے ایک وکیل نے حال ہی میں کیا ہے جو میرپور مقدمات کی پیروی کر رہے تھے۔ اس نے صاف صاف اعتراض کیا کہ وہ کسی کشمیر کمیٹی کو نہیں جانتا اور اس نے اور اس کے رفقاء نے جو کچھ کیا ہے وہ اپنے مذہبی امام کے احکامات کی اطاعت میں کیا ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے اس بیان سے احمدیوں کے کشمیر کمیٹی سے متعلق شکوک وشبہات اور ان کے ذہنی رویے کے ایک عمومی مفہوم کو اخذ کیا ہے۔ میں کسی شخص کو بدنام نہیں کرنا چاہتا۔ ہر شخص آزاد ہے کہ اپنی طبع کے مطابق کوئی بھی ذہنی اور روحانی رویہ اپنائے۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے ایسے شخص سے بھرپور ہمدردی ہے جسے روحانی علاج کی ضرورت ہے اور وہ اسے کسی گذشتہ بزرگ کے مزار یا کسی زندہ مذہبی پیشوا سے حاصل کر لیتا ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں کشمیر کمیٹی کے ارکان میں پالیسی میں اختلافات کی بنیاد پر ایک پارٹی کی تشکیل میں عمومی کمیٹی کی پالیسی کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ کوئی شخص اختلاف نہیں کر سکتا۔ لیکن موجودہ صورتحال سے متعلق میرا تجزیہ ہے کہ کشمیر کمیٹی میںاختلافات کا تعلق ایسے عوامل سے ہے جو میرے خیال میں بالکل غیرمتعلق ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہموار طریقے سے کام کرنا ممکن ہے اور تمام متعلقہ لوگوں کے بہترین مفادات میں محسوس کرتا ہوں کہ موجودہ کشمیر کمیٹی کو کالعدم ہوجانا چاہئے)
بہرحال انہوں نے یہ حالت پیدا کر دی کہ اگر کشمیر کمیٹی کو قادیانیت کی تبلیغ کے لئے استعمال نہیں کرنے دیا جاتا تو پھر اس سے علیحدہ ہو جاؤ۔ یہ کشمیر کمیٹی کا حال تھا۔ 2896قیام پاکستان کے سلسلے میں انہوں نے جس احسان کا ذکر کیا ہے اس کے بارے میں یہ صورت ہے کہ علامہ اقبال کے اس مضمون کے بعد جب ان کا بھید لوگوں پر کھلنے لگا اور پنجاب میں کیونکہ یہ زیادہ تھے اس لئے پنجاب مسلم لیگ نے یہ ریزولیوشن پاس کیا کہ کوئی قادیانی مسلم لیگ کا ممبر نہیں ہوسکتا اور یہ ریزولیوشن ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی بار پیش ہوا۔ میں ان کی اس وقت کی ذہنیت کے سلسلے میں چند جملے آپ کو سناتا ہوں۔ یہ ۱۹۱۶ء کا اخبار ’’الفضل‘‘ ہے: ’’ہمیں یاد رہے کہ مسلمانوں کے مصلح دنیا کے ہادی، حضرت مسیح موعود، مہدی آخر الزمان علیہ السلام (یعنی مرزاغلام احمد قادیانی صاحب) کے حضور جب مسلم لیگ کا ذکر آیا تو حضور مرزا نے اس کے متعلق ناپسندیدگی ظاہر فرمائی تھی۔ تو کیا ایسا کام جسے خدا کا برگزیدہ مامور ناپسند فرمائے وہ مسلمانوں کے حق میں سازگار بابرکت ہوسکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ آپ لوگوں کو روکتے رہیں کہ سیاست میں کسی طرح شریک نہ ہوں اور جہاں تک مسلم لیگ کا تعلق ہے۔‘‘
یہ پیغام صلح۱۹۸۰ء کا Quotation (اقتباس) ہے: ’’اب تو مسلم لیگ نے بھی جس کے ممبر آزاد خیال اور روادار سمجھے جاتے ہیں اور ہندوستان کی ذہنی روح تصور کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے ایک حلف نامہ تیار کیا ہے کہ ان کی طرف سے اسمبلی کے لئے جو امیدوار کھڑا ہو گا وہ یہ حلف اٹھائے گا کہ اسمبلی میں جاکر احمدیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ اقلیت منظور کرانے کی کوشش کرے گا۔‘‘
یہ ۱۰؍ستمبر ۱۹۳۶ء کا الفضل ہے۔ اب یہ ۱۹۳۷ء کا ہے: ’’اس کے بعد حضور میاں محمود احمد خلیفہ قادیان ملکی سیاست کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں اور اس سوال پر روشنی ڈالی ہے کہ جماعت احمدیہ کوکانگریس میں شرکت کرنی چاہئے یا مسلم لیگ میں۔‘‘
یہ ۱۹۳۷ء کی بات ہے: ’’حضور نے فرمایا کہ ابھی تک اس بارے میں ہم نے کوئی رائے قائم نہیں کی اور نہ ابھی کوئی دوست رائے قائم کرے۔ بلکہ کانگریس جب علی الاعلان بغیر کسی پیچ کے اور بغیر کسی شک وشبہ کے یہ اعلان نہیں کرتی کہ تبلیغ مذہب اور تبدیلی مذہب پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں 2897ہوگی۔ اس وقت تک ہم کانگریس میں نہیں مل سکتے اور اس طرح مسلم لیگ یہ کہہ چکی ہے کہ کوئی احمدی اس کا ممبر نہیں ہوسکتا۔ پھر کون بے غیرت احمدی ہے جو اس میں شامل ہو، جب تک کہ لیگ صاف طور پر یہ اعلان نہ کر دے کہ احمدی مسلم لیگ کے ممبر ہوسکتے ہیں۔ مسلمانوں کے حلقوں سے امیدوار کھڑے کر سکتے ہیں۔‘‘
اسی طرح بہت سی Quotations ہیں۔ لیکن میں اتنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔ البتہ اس روز انہوں نے ایک فوٹوسٹیٹ کاپی ۱۹۴۴ء کے ریزولیوشن کی پیش کی ہے۔ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ حضرت مولانا عبدالحامد بدیوانی مرحوم مغفور نے ایک قرارداد پیش کی تھی کہ احمدیوں کو، مرزائیوں کو، جنہیں تمام امت نے متفقہ طور پر کافر قرار دیا ہے۔ ان کو مسلم لیگ کا ممبر نہیں بننا چاہئے اور انہیں مسلم لیگ میں داخل نہ ہونے دیا جائے اور قائداعظم نے ان سے کہہ کر واپس کروادی۔ یہ کونسل کا وہ اجلاس ہے جس میں شریک ہونے والے بہت سے لوگ ابھی ہوں گے اور میں اس وقت اس کا اسٹیٹ سیکرٹری تھا۔ محمد علی برکت علی ہال میں جو جلسہ ہوا تھا وہ ریزولیوشن مولانا صاحب میرے پاس لائے تھے اور مجھ سے مشورہ کیا۔ میں نے اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور ریزولیوشن ایجنڈا میں شامل ہوا۔ جب اس کا وقت آیا تو قائداعظم نے یہ کہا کہ کون احمدی ہے۔ پنجاب میں کچھ لوگ ہوں گے وہ تو پہلے ہی پاس کر چکے ہیں تو غیرمتعلق مسئلہ آپ کیوں لاتے ہیں۔ صرف اتنی بات تھی اور یہ ان کا مزاج تھا کہ وہ جدوجہد کے دوران چاہتے تھے کہ کوئی Irrelevant (غیرمتعلق) چیز سامنے نہ آئے۔ صرف اتنی بات انہوں نے کہی اور مولانا نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ یہ فیصلہ تو پہلے ہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ میں بھی یہ فیصلہ موجود ہے اور کون احمدی ہے جو آتا ہے۔ لہٰذا وہ ریزولیوشن اس طرح ڈراپ ہوا ہے جس کو کہا جاتا ہے کہ قائداعظم نے ریزولیوشن کو مسترد کر دیا۔ یہ گویا دروغ گوئی کی انتہاء ہے۔ مسلم لیگ نے اور پوری ملت اسلامیہ نے اسے جسم ملت کے لئے ایک ناسور سمجھا۔ ایک بدگوش سمجھا، سیاسی اور شرعی دونوں حیثیتوں سے، مسلمان ان لوگوں میں سکون محسوس نہیں کرتے تھے۔ البتہ ۱۹۳۶ء میں یہ ہوا کہ جواہر لال نہرو لاہور تشریف 2898لائے۔ ۲۹؍مئی کو تو جیسے ظلی حج ہوتا ہے، ظلی نبی ہوتا ہے اور ظلی قرآن ہے، تو وہاں ایک جیسے یہ کہتے ہیں کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تو وہاں ایک انڈین نیشنل لیگ بنائی گئی قادیان میں، اور جب جواہر لال نہرو تشریف لائے تو قادیان میں ۵۰۰والنٹیئر آئے اوران کے بڑے مانے ہوئے وکیل چوہدری نصراﷲ صاحب کو قائداعظم کا خطاب دیاگیا تو ایک ظلی قائداعظم بھی بن گیا اور انہوں نے سلامی لی۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے بڑے بڑے بینرزلگے۔ پلے کارڈس لگے۔ اس کے بعد لوگوں نے اعتراض کیا وہ جواب پھر میں وقت کی تنگی کی وجہ سے اس اقتباس کو چھوڑتا ہوں۔ مرزابشیرمحمود کا بیان ہے کہ لوگوں کو کیوں اعتراض ہے۔ جواہرلال نہرو نے علامہ اقبال کی مخالفت میں میری حمایت کی تھی۔ جو علامہ اقبال کی قرارداد تھی کہ ان کو غیرمسلم اقلیت قرار دو تو انہوں نے ہماری حمایت کی وہ آئے ہیں تو ایک سیاسی انجمن کی طرف سے ان کا استقبال کیاگیا۔ ان کا خیرمقدم کیاگیا۔ ان کو سپاسنامہ پیش کیا گیا۔ تو اس میں حمایت کی کیا بات ہے۔ اب وہاں سیاسی انجمن بھی بنائی گئی۔ وہ تو یہ مختصراً مسلمانوں کے کاموں میں شرکت کا حال ہے اور ۵؍اپریل کو یعنی جب پاکستان بننے کا زمانہ قریب آنے لگا، ان کے تعلقات دونوں طرف تھے۔ یہ کوشش کر رہے تھے کہ ۱۹۴۶ء میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے لئے پنڈت جواہر لال نہرو نے چوہدری ظفر اﷲ صاحب کا نام Recommend (تجویز) کیا جو ان کی کتاب تحدیث نعمت میں موجود ہے اور یہ ۱۹۴۶ء کا وہ زمانہ تھا جب کانگریس اور مسلم لیگ یا ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان Feelings بہت شدت پر تھیں۔ اس وقت ان کے یہ تعلقات تھے کہ پورے ہندوستان میں جتنے بڑے وکیل تھے وہاں سے جواہر لال نہرو نے ان کے نام Recommend (تجویز) کئے۔ اس وقت یہ کامیاب نہ ہوئے۔
وہاں الیکشن میں یہ الگ بات ہے کہ ۱۵؍اپریل ۱۹۴۷ء کو انہوں نے بیان دیا جو یہاں فائل بھی ہوچکا ہے کہ ہم بہرحال اکھنڈ بھارت بنانا چاہتے ہیں اور ہماری کوششوں اور خواہشوں کے علی الرغم اگر پاکستان بن گیا تو پھر ہماری کوشش یہ جاری رہے گی کہ کسی نہ کسی طرح اکھنڈ 2899بھارت بن جائے۔ یہ بہت مشہور ان کا وہ ہے اور اس کا وہ اقتباس بلکہ فوٹوسٹیٹ یہاں داخل کیا جاچکا ہے۔ ۵؍اپریل کو یہ بات انہوں نے کہی اور ۱۲؍اپریل کو ایک سوال کے جواب میں یہ فرمایا۔ سوال کسی نامہ نگار کا تھا کہ کیا پاکستان عملاً ممکن ہے؟ یہ سوال جواب (ریویو آف ریلیجنز ج۱۸ نمبر۲) میں شائع ہوا۔
سوال تھا کہ کیا پاکستان عملاً ممکن ہے؟
جواب: سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان ممکن ہے۔ لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ملک کے حصے بخرے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آج دنیا کی کامیابی کا راز اتحاد میں مضمر ہے۔ دوسرے ذرائع مواصلات بھی ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمیں ضرورتاً ایک دوسرے کے قریب سے قریب تر ہونا چاہئے اور اتحاد کی کوشش کرنی چاہئے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس موقع پر ہندوستان دو علیحدہ علیحدہ حصوں میں بٹ جائے اور ہندوستان کی بڑی قومیں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں۔ یہ ۱۲؍اپریل کا تھا۔ پھر اسی طرح ۱۳؍جون کا اسی مضمون کا ایک بیان ہے۔ پھر ۱۷؍جون کا ہے۔ اس کے بعد ۱۸؍اگست ۱۹۴۷ء کا ایک بیان ہے۔ یعنی پاکستان بننے کے بعد اور ایک ۲۸؍دسمبر کا ہے تو تقسیم کے موقع پر امام جماعت احمدیہ کو یہ الہام ہوا کہ (عربی)…
’’یعنی تم جہاں کہیں ہو گے اﷲ تمہیں ایک جگہ اکٹھا کر دے گا۔اس الہام میں تبشیر کا پہلو بھی ہے اور انداز کا بھی توقع تو پہلے ایک رنگ میں ہوچکی ہے۔ یعنی ہماری کچھ جماعتیں پاکستان کی طرف چلی گئی ہیں اور کچھ ہندوستان کی طرف۔ ممکن ہے کہ اﷲتعالیٰ ان کو اکٹھا کرنے کی کوئی صورت پیدا کر دے۔‘‘ یہ اکٹھا ہونا دونوں کا، یہ بہرحال مسلسل چل رہا ہے۔ ۱۳؍دسمبر کے ’’حالات کی وجہ سے لوگ گھبرا کر قادیان کی خرید کردہ زمینوں کو ضائع شدہ خیال کرنے لگے ہیں اور اپنی ادا کردہ قیمت کو امانت قرار دے کر اس کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ میں نے اپنے نوٹس میں بتایا تھا کہ ایسا مطالبہ نہ صرف کاروباری اصول کے مطابق غلط اور ناجائز ہے۔ بلکہ دینی لحاظ سے بھی 2900ایمانی کمزوری کی علامت ہے۔ کیونکہ دراصل اس مطالبے میں یہ شبہ مخفی ہے کہ ایسے لوگوں کے نزدیک قادیان کی (واپسی) مشکوک ہے۔ حالانکہ یہ خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ہمیں قادیان انشاء اﷲ! ضرور واپس ملے گا وغیرہ، وغیرہ۔‘‘ اب یہ کیسے ملے گا؟ اس کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو ہم قادیان فتح کر لیں یا خدانخواستہ وہ اکھنڈ بھارت کا ان کا جو منصوبہ ہے وہ مکمل ہو جائے۔ تو قادیان کو فتح کرنے کا جہاںتک سوال ہے پاکستان کی حکومت نے ہی اس کا فیصلہ کرنا ہے اور آج ۲۷سال میں پاکستان حکومت کی طرف سے ہمیشہ یہ اعلان ہوتا رہا ہے کہ ہمیں کسی دوسرے ملک کی سرحدات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ہم کسی کے خلاف جارحیت نہیں کریں گے۔ یہ کس نسخے سے اس کو حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کیاکوئی ایسا چکر دے کر کہ پاکستان اور ہندوستان کی لڑائی کراکر اس کی صورت پیدا کرنا چاہتے ہیں یا بہرحال کیا ہے، میں نہیں جانتا۔
اب اس کے بعد ۲۸؍دسمبر کی بات ہے۔ ’’مومن وہ ہے جو محض سن کر خدا پر ایمان نہیں لاتا۔ بلکہ جس کا ایمان پورے یقین اور وثوق پر مبنی ہے وہ جانتا ہے اور خوب جانتا ہے کہ یہ تقسیم ایک عارضی تقسیم ہے۔ اسے خوب معلوم ہے کہ قادیان ہماری چیز ہے۔ وہ ہمارا ہی ہے کیونکہ خدا نے وہ مجھے دی ہے۔ گو آج ہم قادیان نہیں جاسکتے۔ مگر آج ہم محروم کر دئیے گئے ہیں۔ لیکن ہمارا ایمان اور یقین ہمیں باربار کہتا ہے کہ قادیان ہمارا ہے۔ وہ احمدیت کا مرکز ہے۔ ہمیشہ احمدیت کا مرکز رہے گا۔ وہ انشا اﷲ! حکومت خواہ بڑی ہو یا چھوٹی، بلکہ حکومتوں کا کوئی مجموعہ بھی ہمیں مستقل طور پر قادیان سے محروم نہیں کر سکتی۔ اگر یہ زمین ہمیں قادیان لے کر نہیں دے گی تو ہمارے خدا کے فرشتے آسمان سے اتریں گے اور ہمیں قادیان لے کر دیں گے۔ اس راہ میں جو بھی طاقت حائل ہوگی وہ پارہ پارہ کر دی جائے گی۔ وہ نیست ونابود کر دی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔‘‘ یہ گویا ان کے عزائم ہیں۔
2901اس کے ساتھ ان کے ہاں جانبازوں کا نظام ہے جن سے یہ عہد نامہ لیا جاتا ہے کہ ’’ہم خداتعالیٰ کو حاضر وناظر جان کر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے قادیان کو احمدیہ جماعت کا مرکز فرمایا ہے۔ میں اس حکم کو پورا کرنے کے لئے ہر قسم کی کوشش اور جدوجہد کرتا رہوں گا اور اس مقصد کو کبھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دوں گا اور اپنے نفس کو، اپنے بیوی بچوں کو اور اگر خدا کی مشیّت یہی ہو تو اولاد کی اولاد کو ہمیشہ اس بات کے لئے تیار کرتا رہوں گا کہ وہ قادیان کے حصول پر ہر چھوٹی اور بڑی قربانی کے لئے تیار رہے۔ اے خدا مجھے اس عہد پر قائم رہنے اور اس کو پورا کرنے کی توفیق عطاء فرما۔‘‘
اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ قادیان کا قصہ جو کچھ ہوگا تو جیسا پہلے میں نے عرض کیا اس کا فیصلہ قادیان ہو یا اور ہو، بہرحال ہمارے بس میں ہو تو ہم چاہیں گے کہ سارا پاکستان ہی بن جائے۔ لیکن یہ کہ یہ فیصلہ مرزائیوں کو کرنا ہے یا پاکستان گورنمنٹ کو کرنا ہے۔ پاکستان کی گورنمنٹ کو کرنا ہے۔ اس کا کھلا ہوا اعلان ہے کہ ہمیں کسی کے علاقے میں جارحیت نہیں کرنی ہے۔ اب پاکستان بن جانے کے بعد ان کے جو عزائم ہیں وہ باربار ان تحریروں میں آئے ہیں کہ ہمیں اسے اکھنڈ بھارت بنانا ہے، اکٹھا کرنا ہے۔
اس کے بعد ایک دیرینہ ان کی حسرت یہ رہی کہ افسوس ہمارے پاس کوئی علاقہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں سوائے احمدیوں کے کوئی نہ ہو۔ اب اس کی کوئی ضرورت تھی کہ وہاں احمدی کے علاوہ کوئی نہیں رہے۔ بہرحال وہ حسرت انہوں نے یہاں پوری کر لی۔ پہلے قادیان کو تقریباً ایسے ہی بنایا تھا۔ وہاں تو جو مسلمان رہتے تھے ان کی زندگی اجیرن کر دی تھی انہوں نے، یہاں تک کہ ان دکانداروں سے ایک طرح کا ٹیکس لیا جاتا تھا۔ جیسے یہ جماعتوں میں غیرمسلموں سے جزیہ کے عنوان سے کہتے تھے۔ ان غریب دکانداروں سے ٹیکس لیا جاتا تھا اور ان سے معاہدہ ہوتا تھا کہ جو 2902ہمارے مخالف ہیں ان سے کسی طرح کا تعلق نہیں رکھیں گے اور کسی کو پایا گیا تو اسے ایسی سزادی جاتی کہ پھر وہ ربوہ نہیں جاسکتا تھا۔ قتل وغارت بھی ہوتی تھی، مکانات بھی جلائے جاتے تھے۔ سبھی کچھ ہوتا تھا۔
اب اس کے بعد یہ منصوبہ بنا کہ پہلے بلوچستان پر قبضہ ہونا چاہئے اور وہ اقتباس، چونکہ میرے خیال میں پہلے موجود ہے، دس لاکھ ، بارہ لاکھ کی آبادی ہے۔ اگر ہم پوری کوشش کریں، پورا پاکستان نہ سہی ایک صوبہ تو ہمارا اپنا ہوسکتا ہے۔ وہ آرزو پوری نہیں ہوتی اور مرزاصاحب کے آخری الہاموں میں ایک الہام یہ بھی تھا۔ ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ پوری نہیں ہوئی۔ لیکن ان کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں۔ پاکستان میں حکومت پر قبضہ کرنے کے لئے ان کا وہ سلسلہ برابر جاری ہے۔ ہمارے ملک میں پہلی بار فوجی انقلاب کے ذریعے حکومت کو بدلنے کی کوشش ہوئی۔ اس میں جو لوگ شامل تھے وہ نام کوئی چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ اس کے بعد سے مسلسل یہ کوشش ہوتی رہی، یہاں تک کہ ایک آخری دور میں… یہ بیچ کی چیزیں میں نظرانداز کرتے ہوئے آتا ہوں۔ مشرقی پاکستان کا حصہ گیا۔ حالات اتنے خراب ہوگئے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس کی کوشش کرنے لگیں۔ کسی نے کہا کہ مجیب الرحمن سے کوئی سیاسی مفاہمت ہو جائے تاکہ پاکستان دو ٹکڑوں میں نہ بٹے۔ یہ حالات جب بہت بگڑ گئے پھر بھی یہ کوشش ہوتی رہی۔ یہاں سے مختلف پارٹیوں کے لوگ وہاں گئے، مذاکرات کئے، ظفر اﷲ خان قادیانی کا خط عین اس زمانے میں سرظفر اﷲ نے آٹھ مارچ کو اسلام آباد میں اپنے کسی دوست (ایم۔ایم احمد) کو خط لکھا۔ اس دوست کا نام ظاہر نہیں کیا۔ لیکن یہ کہا کہ وہ ایسے دوست ہیں کہ وہ مغربی پاکستان کے سیاسی لیڈروں سے بہت قریب ہیں اور گویا بہت بااثر ہیں۔ یہ خط انہوں نے اردو میں بھیجا۔ By Process of elimination آدمی اندازہ کر سکتا ہے کہ جو لوگ اس وقت Count کرتے تھے۔ ان میں یہ خط کس کے نام ہوگا۔ زبان بھی اس کی 2903بڑی مذہبی ہے جو ایک خاص طبقے کے اندر زیادہ سمجھی جاتی ہے۔ اس میں لکھتے ہیں، میں وہ خط سنا دیتا ہوں۔ ماحصل اس کا یہ ہے اور وہ یقین دلاتے ہیں کہ ’’مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے ایک رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ بات دل سے بھلادو۔ اب یہ ہے کہ فوج کشی نہ کرو اور صلح صفائی کے ساتھ الگ کر دو۔‘‘
یہ گویا لوگوں کے ذہن پر اپنے سارے عمر بھر کے بین الاقوامی تجربے اور اس کا زور ڈال کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے کسی بہت بااثر دوست کو لکھا ہے اور لوگ اپنی جگہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس زمانے میں یحییٰ صاحب کے قریب ان کے بااثر دوستوں میں کون ہوگا۔ خط یہ ہے کہ: ’’ان آثار وقرائن کی بناء پر جن کا ذکر جرائد میں آتا ہے۔ ’’واﷲ اعلم بالصواب‘‘ خاکسار کے ذہن میں جو افکار چکر لگاتے ہیں وہ گزارش خدمت ہیں۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو باہم جکڑنے والی زنجیر ’’مخلصین لہ الدین‘‘ ہی ہوسکتی تھی۔ ورنہ آب وہوا، زبان، خوراک، رنگ روپ، خدوخال، لباس، حتیٰ کہ عبادت کو چھوڑ کر معاشرے کا خاکہ اور ذہنی افکار سب مختلف ہیں۔ اب اعتماد مفقود اور دین کی نسبت جذبات پر قومیت کا غلبہ ہے۔ ادھر سارے عالم میں حق خود ارادیت کی پرستش۔ مشرق ومغرب میں آبادی کی نسبت سات اور چھ اور رقبے کی نسبت نو اور اکیاون ہے۔ مشرق عملاً علیحدگی پر مصر ہے۔ مغرب کے پاس کوئی قاطع برہان اس کے خلاف نہیں۔ ہو بھی تو مشرق سننے اور غور کرنے پر آمادہ نہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جبر نہ ہی حرف لاحاصل ہے۔ بلکہ خود کشی کے مترادف ہے۔ اگر خون کی خلیج خدانخواستہ حائل ہوگئی تو پاٹی نہ جاسکے گی اور نقصان مایہ کی تلافی کی صورت ہوسکتی ہے۔ نقصان جان تلافی نہیں ہوسکتی اور شماتت ہمسایہ کی تلخی تو بہرصورت لازم ہے۔ پھر جبر سے اگر کچھ دن برا بھلا گزارہ ہو بھی تو باہمی ربط بڑھنے کی کوئی صورت نہیں۔ اس لئے خواستہ یا نخواستہ صراحاً جمیلہ ہی کا طریقہ کام آسکتا ہے۔ اس کے رستے میں بہت سی مشکلات ہیں۔ آج تو شاید 2904باہمی مفاہمت سے نپٹ سکیں۔ چند دن بعد شاید یہ امکان بھی جاتا رہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ موجودہ صورت میں امساک بالمعروف ممکن نہیں اور تصریح بالاحسان کا ہی رستہ کھلا ہے۔ (یہ گویا میاں بیوی میں اگر کوئی نزاع ہو جائے تو قرآن کریم کی رو سے دو راستے ہیں یا تو خوش دلی سے اس نزاع کو ختم کر کے اچھے طریقے پر رہو۔ اگر یہ نہ ہو تو پھر خوش دلی کے ساتھ اچھے انداز میں قطع تعلق کر لو۔ تو یہ کہتے ہیں کہ ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ قطع تعلق کرو) دونوں کو مشکلات کا سامنا ہوگا۔ لیکن اﷲتعالیٰ کی طرف رجوع کریں تو ’’یغنی ہما بفضلہ‘‘ پر قادر ہے۔ اگر اس وقت کدورت نہ بڑھائی جائے تو شاید کل کو اپنے اپنے گھر کا جائزہ لینے کے بعد کوئی طریق سے دوستانہ تعاون برادرانہ امداد پیدا ہوتی ہے۔ موجودہ صورت بہت سے خطرات کا موجب ہے اور جگ ہنسائی اور شماتت کا سامنا ہے۔‘‘
یہ ہے خط جس میں اپنے بااثر دوست کو اس پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی کہ احسان بالمعروف یعنی دونوں بازؤں کا ایک جگہ ایک ملک کی صورت میں رہنا یہ ناممکن ہے اور اس کے لئے کوئی کوشش اب نہیں کرنی چاہئے۔ ایک راستہ گویا علیحدگی کا صراحاً جمیلہ کا دیکھنا چاہئے۔ یہ ہے پاکستان کی وحدت وسالمیت کے تحفظ کے سلسلے میں اس جماعت کا Contribution (کردار) اب اس کے علاوہ جو آگے عزائم اور تیاریاں ہیں میں ان کی بعض ہلکی سی جھلک اقتباسات کے ذریعے آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں تو آج جس کام کے لئے مصروف ہیں اس کے متعلق کشمیر کمیٹی کا ایک فیصلہ پچھلے سال ہوا تھا۔ اس پر تبصرہ ہوا، وہ بہت معنی خیز ہے۔ ایک جملہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ ’’ہاں! اس سے پہلے ۲۶تا۲۸ کے سالانہ جلسہ ۱۹۴۷ء کا اس میں خطبہ جمعہ میں مرزابشیرالدین صاحب کا اعلان یہ ہیں۔ حضورایدہ اﷲتعالیٰ نے فرمایا اصل جلسہ تو وہی سمجھا جائے گا جو قادیان میں مقیم احمدی وہاں منعقد کرتے ہیں۔ لاہور کا جلسہ اس کا ظل ہے۔ یعنی یہ ظلی جلسہ ہے اور اس کی تائید میں سمجھا جائے گا اور اس امر کے 2905خلاف بطور احتجاج منعقد کیا جائے گا کہ اس جماعت کو اس کے مقدس مذہبی مرکز سے محروم کر دیا گیا جو ہمیشہ حکومت وقت کی وفادار اور پرامن رہی ہے۔‘‘ پہلے کشمیر میں اس طرح کا ریزولیوشن پاس ہوا تھا۔ اس پر ان کے موجودہ خلیفہ کا تبصرہ ہوا ہے: ’’پس نو یا بارہ آدمیوں نے اس قسم کی قرارداد پاس کر دی تو خداکی قائم کردہ جماعت پر اس کا کیا اثر ہوسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جو خرابیاں پیدا ہوسکتیں ہیں وہ یہ نہیں کہ جماعت احمدیہ غیرمسلم بن جائے گی۔ جس جماعت کو اﷲتعالیٰ مسلمان کہے اس کو کوئی ناسمجھ انسان غیرمسلم قرار دے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ اس لئے ہمیں اس کی فکر نہیں۔ ہمیں فکر ہے تو اس بات کی کہ اگر یہ خرابی خدانخواستہ انتہاء تک پہنچ گی تو اس قسم کے فتنہ فساد کے نتیجہ میں پاکستان قائم نہیں رہے گا۔‘‘ گویا یہ وارننگ ہے جو انہوں نے اس وقت دی تھی۔ پاکستان قائم نہ رہنے کے لئے کیا انتظامات ہیں وہ تو زیادہ تفصیل سے میں اس وقت نہیں بتا سکتا۔
’’لیکن یہ خدام الاحمدیہ بڑی ذمہ داریوں کا حامل ہے۔ ہماری ایک مجلس ہے، ہماری نوجوان نسل جس نے اس رنگ میں تربیت حاصل کر لی ہے جو بڑھتی ہوئی ذمہ داریاں اور بڑھتے ہوئے بوجھ کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہوں۔ انسانی جسم پر بنیادی طور پر دو قسم کے بوجھ پڑتے ہیں۔ ایک وہ بوجھ جو براہ راست اس کے جسمانی اور ذہنی قواء پر پڑتا ہے۔ ایک وہ بوجھ ہے جو بالواستہ اس کے جسمانی اور ذہنی قواء پر پڑتا ہے۔ اس کے لئے جو تربیت یہ جماعت اپنے پیارے بچوں کو دینا چاہتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی جسمانی قوتوں کو نشوونما اس رنگ میں پہنچائیں کہ دوہری ذمہ داریاں نبھانے کے بوجھ کو برداشت کر سکیں۔ ان میں سے ایک طریق جو ماضی قریب میں جاری کیاگیا وہ سائیکل کا استعمال ہے۔ جب اخبار میں یہ تحریک کی تو مختصراً اشارہ کیا تھا کہ اپنی صحتوں کو برقرار رکھنے کے لئے سائیکل کی طرف متوجہ ہوں۔ اس وقت جو تعداد میرے علم میں آئی ہے وہ ۶۶۲ ہے۔ لیکن اس میں جنہوں نے نام ابھی تک رجسٹر نہیں کرائے توقع ہے کہ کچھ آج 2906پہنچ جائیں گے۔ ان میں سے وہ ہیں جو کراچی سے سائیکل پر تقریباً نوے اور سومیل روزانہ طے کر کے تھرپارکر سندھ وغیرہ سے آسکتے ہیں۔ انہوں نے یہ کہا ہے۔ میں نے بتایا تھا آج دہراتا ہوں۔ مجھے بڑی جلدی ایک لاکھ احمدی سائیکل چاہیں، احمدی سائیکل وہ ہیں جو احمدی چلاتے ہیں اور ایک لاکھ ایسے احمدی چاہتے ہیں جنہیں روزانہ سومیل چلنے کی عادت ہو۔ سو میل روزانہ چلنے ایک دن میں ہمارا احمدی ایک کروڑ میل کا سفر کر رہا ہوگا۔ یہ بڑی حرکت ہے اور حرکت میں برکت ہے۔ ہم نے تجربہ کیا تو ہر شخص نے الاماشاء اﷲ اس کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا۔ ایک لاکھ سائیکل سوار چاہیں کیوں۔ میں آپ لوگوں کے سامنے ایک بڑا منصوبہ پیش کرنے والا ہوں۔ اس کے لئے بھی تیاری کر رہا ہوں۔ آپ کے ذہنوں کو بھی اس کے لئے تیار کر رہا ہوں۔ پس یہ جسمانی قوت کو مضبوط کرنے کے لئے ایک پروگرام ہے۔ ہلاکو خان، جنگیز خان جو دنیا فتح کرنے کے لئے اپنے ملک سے نکلے تھے اور دنیا کو فتح کیا تھا ان کے پاس ایسے گھوڑے تھے جن کو سات آٹھ سو میل تک گھوڑے سے اترنے کی اجازت نہیں تھی۔‘‘ ہلاکو خان، چنگیز خان موٹی سرخیوں سے لکھا ہوا ہے۔ ذہن ادھر مائل کیا جارہا ہے۔ اب وہ اس کے ساتھ دس ہزار گھوڑوں کی فرمائش کہ دس ہزار گھوڑے تیار ہوں اور وہ دس ہزار گھوڑے احمدیوں کے ہوں اور ان سواروں کو نیزہ بازی کی تعلیم دی جارہی ہے۔ اب میں اقتباس پڑھ رہا ہوں۔ ’’اس کے ساتھ خدام الاحمدیہ کسے کہاگیا ہے۔ خادم کی علامت کے طور پر ایک رومال تجویز کیاگیا ہے۔ کیونکہ وقت کم تھا یہ صرف پانچ سو کے قریب تیار ہوسکے۔ کچھ نے خرید بھی لئے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ساری دنیا میں خادم اسلام کے پاس یہ رومال ہونا چاہئے۔ اس رومال میں ایک چھلہ پڑتا ہے… یہودی بڑی ہوشیار قوم ہے۔ وہ دنیا میں ہر محاذ پر اپنی بڑائی پھیلانے کی کوشش کرتی ہے۔ چنانچہ مجھے اس رومال اور چھلے کا خیال آیا تو میں نے سوچا کہ ہمیں اپنے لئے رنگ (Ring) خود تجویز کرنے 2907چاہیں الحمرا کی دیواروں پر مجھے چار فقرے نظر آئے:
۱… لا غالب الا اﷲ۔ ۲… القدرت ﷲ۔
۳… الحکم ﷲ۔ ۴… العزت ﷲ۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانیوں کی دروغ گوئی) بقیہ
ان سے فائدہ اٹھا کر یہ تجویز کی ہے۔ عام اطفال اور خدام یعنی ہر رکن کے لئے القدرت ﷲ کا چھلہ اور جو عہدیدار ہیں ان کے لئے العزت ﷲ کا یہی لجنہ اماء اﷲ کا نشان ہے۔ البتہ ان کے رومال کا رنگ مختلف ہے۔ ویسے جھنڈوں کے لئے عام طور پر سبز رنگ ہوتا ہے۔ صرف جھنڈے کا ذکر ہے۔ اب اس کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ اگر رومال ایک گز سے چھوٹا رہ جائے تو اس کے ذریعے جو دوسرے فوائد ہمارے مدنظر ہیں۔‘‘
وہ رومال کے متعلق بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ بہرحال سکاؤٹس میں بھی چھلہ اور رومال ہوتا ہے۔ لیکن اس میں کوئی بہت بڑے کام کے لئے ہے اور اس کوپڑھنے کے بعد مجھے ڈلہوزی کے زمانے کا چھلہ اور رومال جو ٹھگ استعمال کیا کرتے تھے۔ ان کے پاس رومال ہوتا تھا اور ایک چھلہ ہوتا تھا اور اس کے ذریعے وہ آدمیوں کی گردن پھنسا کر فوری طور پر ختم کر دیتے تھے۔ اب یہ ایک لاکھ سائیکل سوار، دس ہزار گھوڑے اور نیزہ باز، یہ سب کس کی تیاری ہے؟ کیا قادیان واپس لینے کی تیاری ہے یا یہ جس طرح بہت دفعہ انہوں نے کہا، ہمیں اپنی حکومت قائم کرنی ہے۔ اس کی تیاری کرنی ہے۔ بہرحال یہ وہ چیزیں ہیں جن سے ہم صرف نظر نہیں کر سکتے۔ یہ وقت آگیا ہے کہ ہمیں پوری تیاری سے اس مسئلہ کو نمٹانا چاہئے۔ ایک چیز اور عرض کروں گا جس وقت یہ باؤنڈری کمیشن کا واقعہ آیا ہے اور آپ نے دیکھا ۵؍اپریل سے اگست ۱۹۴۷ء بلکہ دسمبر ۱۹۴۷ء کے اقتباسات میں نے آپ کے سامنے پیش کر دئیے ہیں۔ جس میں ہر جگہ یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کے قیام سے یہ اپنا ذہن ہم آہنگ نہیں کر سکے۔ لیکن جب باؤنڈری کمیشن کا وقت آیا ہے تو خود چوہدری ظفر اﷲ صاحب لکھتے ہیں۔ یہ بہت دلچسپ اقتباس ہے۔ اس لئے کہ کہاں تو مرزابشیرمحمود صاحب ایک طرف یہ لکھ 2908رہے ہیں کہ ہمیں اکھنڈ بھارت بنانا ہے اور ہمیں کوشش جاری رکھنی ہے۔ لیکن باؤنڈری کمیشن کا تقرر ہوتے ہی ان کو مسلم لیگ کے کیس سے اتنی دلچسپی ہوئی کہ اتنی مسلم لیگ کے لیڈروں کو بھی نہ تھی۔ مجھے وہ انگریزی کی مثل یاد آتی ہے:
"A woman that loves a child more than its mother does, must be a witch."
(ایسی عورت جو کسی بچے کو اس کی ماں سے زیادہ پیار کرتی ہے۔ یقینا ڈائن ہے)
تو یہ مختصر سا اقتباس ہے۔ ’’تحدیث نعمت‘‘ مصنفہ چوہدری ظفر اﷲ صاحب، ص۵۶۶
’’حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ان دنوں لاہور ہی میں تشریف فرما تھے۔ بدھ کی سہ پہر کو مولانا عبدالرحیم درد صاحب تشریف لائے اور فرمایا کہ حضرت صاحب نے یہ دریافت کرنے کے لئے مجھے بھیجا ہے کہ حضور کسی وقت تشریف لا کر تمہیں تقسیم کے متعلق بعض پہلوؤں کے متعلق معلومات بہم پہنچادیں۔ خاکسار نے (یعنی ظفر اﷲ نے) گزارش کی کہ جس وقت حضور کا ارشاد ہو، خاکسار، حضور کی خدمت میں حاضر ہو جائے گا۔ درد صاحب نے فرمایا حضور کا ارشاد ہے کہ تم نہایت اہم قومی فرض کی سرانجام دہی میں مصروف ہو۔ تمہارا وقت بہت قیمتی ہے۔ تم اپنے کام میں لگے رہو۔ ہم وہیں تشریف لائیں گے۔ موجودہ حالات میں یہ مناسب ہے۔ چنانچہ حضور تشریف لائے اور بٹوارے کے اصولوں کے متعلق بعض نہایت مفید حوالوں کی نقول خاکسار کو عطا کیں، اور فرمایا کہ اصل کتب کے منگوانے کے لئے ہم نے انگلستان فرمائش بھیجی ہوئی ہے۔ اگر وہ کتب بروقت پہنچ گئیں تو وہ بھی تمہیں بھیج دی جائیں گی۔ نیز ارشاد فرمایا کہ ہم نے اپنے خرچ کے دفاع کے ہر ماہر پروفیسر کی خدمات حاصل کی ہیں۔ وہ لاہور پہنچ چکے ہیں اور نقشہ جات وغیرہ تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ تم تحریری بیان تیار کر لینے کے بعد ان کے ساتھ مشورے کے لئے وقت 2909نکال لینا۔ وہ یہاں آکر تمہیں یہ پہلو سمجھا دیں گے۔ چنانچہ متعلقہ کتب انگلستان سے قادیان پہنچیں اور وہاں سے ایک موٹر سائیکل سوار انہیں سائڈ کار میں رکھ کر لاہور لے آیا اور دوران بحث وہ ہمیں میسر آگئیں۔ ان سے ہمیں بہت مدد ملی۔‘‘
جو پروفیسر آئے تھے ان کا نام تھا پروفیسر سپیٹ۔ پروفیسر سپیٹ نے مجھے دفاعی پہلو خوب سمجھادیا۔ وغیرہ وغیرہ! اب دفاعی پہلو کیا سمجھایا؟ میں نے آپ کے توسط سے انہیں خط لکھا تھا کہ پروفیسر سپیٹ کی Observations, Recommendations جو ہوں، ان کی ایک کتاب ہمیں نہ بھیج دیں۔ وہ انہوں نے نہ بھیجیں کہ دفاعی پہلو اسے کیا سمجھایا گیا کہ پاکستان کس طرح بنایا جائے اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ دلچسپی مرزاصاحب کو تھی۔ وہ چیز تو ہمارے پاس نہیں ہے۔ لیکن جو پہلے کے عزائم سامنے آرہے ہیں اور اس کے بعد جو نقشہ بن رہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کیا کچھ ہوگا۔
Mr. Chairman: Sir, how long will you take?
(جناب چیئرمین: جناب آپ ابھی کتنا وقت لیں گے؟)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: آپ جس وقت کہیں گے۔
جناب چیئرمین: میں بالکل نہیں کہوں گا۔ You have already taken One and half hour. (آپ پہلے ہی ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ لے چکے ہیں)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: اچھا جی! (مداخلت)
جناب چیئرمین: میں روک نہیں رہا، میں نے ویسے پوچھا تھا۔
Why do you feel ill when I ask how long you will take? I am sorry.
(آپ کیوں ناراض ہوتے ہیں جب میں پوچھتا ہوں کہ آپ کتنا وقت لیں گے؟ میں معذرت خواہ ہوں)
2910میں نے صرف اس لئے پوچھا تھا کہ میں صرف ایڈجسٹ کر سکوں۔ Members are becoming restive (اراکین بے چین ہورہے ہیں) کچھ لیڈی حضرات جاچکی ہیں اور باقی سارے گھڑیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کوئی مجھے کہہ رہے ہیں کہ روٹی کھانی ہے۔ اس لئے میں نے پوچھا تھا تاکہ میں ایڈجسٹ کر سکوں۔
I am not saying that he is not saying useful word. You think that you believe that these are useful words and I do not believe that these are useful words?
(میں یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ کوئی مفید گفتگو نہیں کر رہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ صرف آپ ہی ان الفاظ کو مفید سمجھتے ہیں اور میں انہیں مفید نہیں سمجھتا؟)
میں غلطی کر بیٹھا ہوں کہ آپ کو کہہ بیٹھا ہوں کہ تیزی سے نہ پڑھیں۔ I am sorry for that. I apologize before the whole House. (میں پورے ایوان کے سامنے معذرت خواہ ہوں) صرف اس واسطے میں نے کہا کہ سائیکلو سٹائل کرواکے دے دیں۔
That will be useful; and give oral arguments, that would be better. How long will you take?
(یہ فائدہ مند ہوگا، اور زبانی دلائل دیں تو وہ بہتر ہے۔ آپ کتنا وقت لیں گے؟)
میں نے صرف ایڈجسٹ کرنا ہے۔ That is all.
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: میرے خیال میں میں نے جو گزارش کی تھی اگر وہ آپ منظور کرتے ہیں…
جناب چیئرمین: وہ میں نے کب انکار کیا ہے؟ اس وقت حنیف خان صاحب نے کہا تھا کہ تحریری طور پر دے دیں۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: میری گزارش یہ ہے کہ میں بھی یہ محسوس کر رہا ہوں کہ ممبر صاحبان کافی تھک گئے ہوں گے۔
Mr. Chairman: From their expressions; that is why I cut it short.
(جناب چیئرمین: ان کے چہروں سے یہ واضح ہے۔ اسی لئے میں مختصر کرنے کو کہہ رہا تھا)
2911مولانا محمد ظفر احمد انصاری: میں اس کو یہاں ختم کرتا ہوں۔ اگر آپ مجھے آدھ گھنٹہ اس روز دے دیں تو میں کوشش کروں گا…
جناب چیئرمین: اگر آپ مناسب سمجھیں تو اٹارنی جنرل صاحب کے بعد جیسے بھی…
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ہاں! اتنا وقت تو کوئی ایسا نہیں ہوگا۔
جناب چیئرمین: اگر ضرورت سمجھیں۔ یہ میں نے اس واسطے کہا کہ ڈیڑھ بج گیا ہے اور آپ نے فرمایا تھا کہ ایک گھنٹہ لیں گے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: میں نے ڈیڑھ گھنٹہ کہا تھا۔
جناب چیئرمین: آدھ گھنٹہ پہلے ہو گیا ہے۔ بریک سے پہلے ساڑھے گیارہ بجے آپ نے سٹارٹ کیا۔ بارہ بجے بریک ہوئی۔ 12:25 پر پھر ہم نے سٹارٹ کیا تھا۔ 1:35 ہوگیا ہے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ٹھیک ہے۔ پھر اس روز کے لئے رکھیں۔ اگر وہ تیار ہوگئے تو آدھ گھنٹہ شروع کا مجھے دے دیں۔ یعنی آنے میں بھی تو کچھ دیر ہوتی ہے۔ میں اس وقت کر لوں گا۔
جناب چیئرمین: بالکل ٹھیک ہے جی۔ Thank you.
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: اگر میں کچھ لکھ سکا، جس کی زیادہ امید نہیں ہے تو پھر وہ بھی کر لوں گا۔ بہت بہت شکریہ۔
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے۔ Thank you very much.
مسٹر جمال کوریجہ! آپ اندازاً کتنا وقت لیں گے؟
خواجہ جمال محمد کوریجہ: دو منٹ، جناب۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب خواجہ جمال محمد کوریجہ کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پرخطاب)

جناب والا! کوئی ڈیڑھ مہینے سے مرزائیت کا مسئلہ زیربحث ہے۔ بحث صرف اس مسئلے پر کی جارہی ہے کہ مرزاغلام احمد نبی ہے یا نہیں۔ افسوس سے مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان دنیا کی 2912عظیم اسلامی مملکت شمار ہوتا تھا۔ دنیا کی نظر میں یہ ایک بہت بڑا اسلامی ملک کہا جاتا تھا۔ لیکن آج تمام ملکوں کے اندر ہم بدنام ہوچکے ہیں۔ ایک مسئلہ جو متنازع مسئلہ نہیں ہے۔ اس مسئلے کو اﷲتبارک وتعالیٰ نے حل فرمادیا ہے۔ اﷲتبارک وتعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ حضور کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا، نہ آسکتا ہے۔ میں نے دین کو ان کے اوپر مکمل کر دیا ہے۔ جواب اس کا دعویٰ کرے گا وہ کافر ہے، وہ مرتد ہے، وہ واجب القتل ہے۔ پھر مرزاغلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ انگریز نے اس کی پرورش کی جس طریقے سے اس کی پرورش ہوتی رہی۔ پھر مسلمان کا دور آیا۔ ستائیس سال گزر گئے ہیں۔ ہماری حکومتوں نے پھر اس کو انگریز کی سرپرستی سے بھی زیادہ سرپرستی دی۔ تو ہم لوگ آج کسی اسلامی ملک کے سامنے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم ایمان رکھتے ہیں۔ ایمان تو ان لوگوں کا تھا جنہوں نے دعویدار کو چند لمحے بھی اس دنیا میں رہنے کی اجازت یا مہلت نہ دی اور ان کے خلاف جہاد کیا اور ان کو فی النار کر دیا۔ اﷲتعالیٰ نے فیصلہ فرمادیا کہ حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ حضور ﷺ نے فرمادیا کہ اگر میرے بعد نبی آتا تو وہ عمرؓ ہوتے۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے اس کو ثابت کر دیا کہ واقعی حضور کا فرمان صحیح ہے، اﷲ کا فرمان صحیح ہے۔ مسیلمہ کذاب نے دعویٰ کیا۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے اس کے خلاف جہاد کر کے اس کو ختم کر دیا۔ اسی طرح کے بیس بائیس اور بھی گزرے ہیں۔ جنہوں نے (نبوت کے) دعوے کئے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی یہی حشر ہوا۔ لیکن یہ واحد ایک مملکت آئی ہے جو ڈیڑھ مہینے سے ایک ولد الحرام فرقے کو یہاں بٹھا کر ان سے یہ دلائل پوچھے جارہے ہیں کہ تم اپنی نبوت کے دلائل پیش کرو کہ تم صحیح ہو یا غلط ہو۔ کون سی گنجائش ہے کہ حضور ﷺ خاتم النّبیین نہیں ہیں؟ کون اس کے اوپر تھوڑی سی گنجائش کرتا ہے کہ حضور ﷺ خاتم النّبیین نہ تھے؟ اگر کوئی آدمی تھوڑا سا خیال بھی کر لیتا ہے۔ تھوڑا سا وہم بھی اس کے اندر آجاتا ہے تو وہ کافر ہے۔ اس کا ایمان نہیں رہتا۔ حضرت امام اعظم رحمتہ اﷲ علیہ سے ایک آدمی نے پوچھا کہ نبوت کا ایک 2913دعویٰ کرتا ہے تو ہم اس کے ساتھ کیسے پیش آئیں گے تو حضور نے کہا اس کے خلاف جہاد کرو۔ اگر تم نے اس سے صرف یہ پوچھ لیا کہ تم معجزہ دکھاؤ تو تم بھی اسی طریقے سے مجرم ہو جاؤ گے۔ جیسے کہ وہ مجرم ہے۔ یعنی معجزہ طلب کرنا بھی شرک ہے اور ہم ڈیڑھ مہینے سے یہ بحث وتمحیص کر رہے ہیں کہ آیا یہ کافر ہیں یا نہیں۔ یہ ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
جناب چیئرمین: معاف کریں، یہ ہم بحث نہیں کر رہے۔
خواجہ جمال محمد کوریجہ: بالکل یہی کر رہے ہیں۔
جناب چیئرمین: نہیں، سوری۔
خواجہ جمال محمد کوریجہ: بالکل یہی بحث ہورہی ہے۔
جناب چیئرمین: نہ، نہ آپ نے ریزولیوشن پڑھے ہیں نہ آپ نے بحث سنی ہے۔
خواجہ جمال محمد کوریجہ: مجھے بتائیں کہ وہ یہاں کس لئے آئے؟ مرزاناصر کیوں آیا؟
جناب چیئرمین: میں آپ سے بحث میں نہیں الجھنا چاہتا۔ یہ تھا کہ ایک ریزولیوشن آیا تھا۔ To Detrmine the status of the Ahmedis. (کہ احمدیوں کی حیثیت کا تعین کیا جائے)
خواجہ جمال محمد کوریجہ: (اپنی بولی میں، اپنی زبان میں)
جناب چیئرمین: کہ یہ واضح کیا جائے گا کہ قادیانیوں کا، احمدیوں کا کیا مقام ہے۔ ایک ریزولیوشن آپ کی طرف سے آیا تھا کہ ان کو غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا جائے۔ باقی دو تین ریزولیوشن اور آئے ہیں اور ان میں کسی ایک نے بھی ایسا کوئی ریزولیوشن پیش نہیں کیا کہ وہ مسلمان ہیں یاکافر ہیں۔ اس واسطے یہ بحث بالکل نہیں رہی وہ ایک Clarification (وضاحت) تھی جس کے واسطے ان کو بلایا گیا تھا۔ جس کے واسطے ان پر جرح کی گئی تھی اور سوال پوچھے گئے تھے اور یہ سوال بھی ممبران نے دئیے تھے کوئی باہر سے نہیں آئے تھے۔
2914خواجہ جمال محمد کوریجہ: تو جناب والا! ان کو اقلیت قرار دینے سے اور کیا ثابت ہورہا ہے؟
جناب چیئرمین: آپ اس طرح ممبرصاحبان کی توہین نہ کریں۔ یہ سب انہوں نے خود سوال مرتب کئے تھے۔
خواجہ جمال محمد کوریجہ: کسی ممبر کی میں توہین نہیں کر رہا۔ میں اپنا ایمان اور میرا جو عقیدہ ہے وہ بیان کر رہا ہوں کہ یہ لوگ…
جناب چیئرمین: نہ، آپ کیوں اسمبلی کی ایسی تیسی کر رہے ہیں؟
خواجہ جمال محمد کوریجہ: میں تو جناب! دو منٹ میں ختم کر دیتا ہوں، آپ نے خواہ مخواہ اتنا ٹائم لے لیا ہے۔
جناب چیئرمین: نہیں، یہ آپ نے غلط کہا ہے۔
خواجہ جمال محمد کوریجہ: میں بحث نہیں کر سکتا ہوں؟
جناب چیئرمین: اسمبلی کے ممبران کا ایمان مضبوط ہے۔
خواجہ جمال محمد کوریجہ: لیکن میرا ایمان مجھے اجازت دیتا ہے کہ میں اس کے اوپر بحث کروں۔ جیسے لوگوں نے بڑے بڑے دلائل دئیے ہیں کہ وہ اس لئے خراب تھا کہ وہ انگریز کا وفادار تھا۔ وہ اس لئے خراب تھا کہ اس نے ساری زندگی انگریزوں کے ساتھ مل کر گزاری، اس نے ان کی وفاداری کی، اس کا وظیفہ خوار تھا۔ اگر ایک آدمی ان تمام عیوب سے پاک ہو اور وہ نبوت کا دعویٰ کرے تو پھر ہمیں اسے تسلیم کر لینا چاہئے؟ یہ کوئی بات نہیں ہے کہ وہ وفادار تھا یا نہیں تھا میں یہ کہتا ہوں کہ اس کا بڑا جرم جو ہے وہ یہ ہے کہ نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ لہٰذا وہ واجب القتل ہے۔ وہ مرتد اور ہمارے مسلم معاشرے کے اندر اس کا رہنا، اس کا رہن سہن جو ہے وہ اسلام کے خلاف ہے۔ میں گورنمنٹ کی خدمت میں استدعا کروں گا کہ مرزاغلام احمد جو 2915ولد الحرام ہے جو ولد الحرام تھا اس کی جماعت جو ہے وہ بھی ولد الحرام ہے۔ مرتد ہے، مشرک ہے جو ان کو پناہ دیتے ہیں وہ بھی کافر اور مرتد ہیں۔ جو ان کے ساتھ لین دین رکھتے ہیں وہ بھی مشرک ہیں۔ لہٰذا ان کو فوراً اس پاک سرزمین سے نکال کر اس ملک کو پاک کیا جائے۔
جناب چیئرمین: شکریہ! مولانا عبدالحق (اکوڑہ خٹک) آپ کتنا ٹائم لیں گے؟
مولانا عبدالحق: جتنا آپ فرمائیں۔
جناب چیئرمین: آپ ویسے دستخطی ہیں، ان کو ٹائم تھوڑا مل رہا ہے۔ جنہوں نے دستخط کئے ہیں اور دو سو صفحے کی کتاب لکھی ہے، انہیں کم ٹائم دیا جارہا ہے۔
مولوی مفتی محمود: اس میں پانچ منٹ میں بھی لوں گا۔ کچھ تجاویز ہیں میری۔
جناب چیئرمین: پھر آپ پرسوں صبح لے لیں۔
مولوی مفتی محمود: جیسے آپ مناسب سمجھیں۔
جناب چیئرمین: جی ہاں! مولانا عبدالحق صاحب! کتنا ٹائم آپ لیں گے؟
مولانا عبدالحق: پانچ دس منٹ۔
جناب چیئرمین: پانچ منٹ میں ختم کر دیں۔
مولانا عبدالحق: اچھا جی۔
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے، شروع کر دیں… وہ تقریر کر کے جارہے ہیں۔ بس یہی ہے کہ اپنا جوش نکالا، تقریر کی اور گئے۔ پانچ منٹ آپ نے لیں، پھر پرسوں کے لئے ملتوی کرتے ہیں۔
چوہدری ممتاز احمد: جناب والا! کوریجہ صاحب اب جارہے ہیں۔
2916جناب چیئرمین: بالکل! اپنا جوش ٹھنڈا کیا، کسی نے کسی کو گالی نکالی، کسی نے کسی کو، اس کے بعد باہر۔
ایک رکن: ڈیڑھ بج گیا ہے۔
جناب چیئرمین: پانچ منٹ انہوں نے لینے ہیں، پھر مفتی صاحب نے لینے ہیں۔ Then we will adjourn the House. Then all the members are satisfied. (پھر ہم اجلاس ملتوی کریں گے اور پھر تم ارکان مطمئن ہوں گے)
مولانا عبدالحق: جناب چیئرمین! پانچ منٹ ہیں۔ اس لئے دو تین باتیں عرض کرتا ہوں۔
جناب چیئرمین: ہاں! بس تجاویز دیں۔ باقی تو سب کچھ آچکا ہے اس تحریر میں۔
مولانا عبدالحق: اصل میں دو مسئلے ہیں۔ ایک مسئلہ تو ہے ختم نبوت کا کہ حضور اقدس ﷺ خاتم النّبیین اور آخری نبی ہیں اور ایک مسئلہ ہے کہ مرزاغلام احمد کو ماننے والے غیرمسلم ہیں یا مسلمان۔ تو اس کے متعلق گزارش ہے کہ گزشتہ سال جیسے کے آئین کو ہم نے پاس کیا اور منظور کیا…
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: شاید مولانا صاحب کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہ مسلمان ہیں یا غیرمسلم۔ یہ مسئلہ ہے ہی نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان کی دستوری اور قانونی حیثیت کو کس طریقے سے واضح کریں۔
جناب چیئرمین: یہی تو میں نے کوریجہ صاحب کو کہا تھا کہ ان کی قانونی حیثیت کیا ہے اور کیا کچھ ہم کر سکتے ہیں، کیا ہمیں سفارش کرنی چاہئے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب مولانا عبدالحق کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پرخطاب)
مولانا عبدالحق: اچھا جی! تو گزارش میری یہ ہے کہ ختم نبوت کا مسئلہ جو ہے یہ مسئلہ تو ہمارے آئین میں طے شدہ ہے کہ مسلمان وہ ہوسکتا ہے جس کا عقیدہ یہ ہو کہ حضرت محمد ﷺ آخری نبی ہیں اور اس کے بعد کوئی بروزی یا ظلی نبی نہیں آسکتا تو اس وقت صورتحال یہ ہے 2917کہ یہ مسئلہ تو آئین کے لحاظ سے طے شدہ ہے۔ اب یہ دوسرا مسئلہ مرزاغلام احمد کے متعلق ہے تو اس کے متعلق یہاں پر کتابوں اور حوالوں سے اور مرزاناصر اور صدرالدین کی تسلیم سے یہ چیز انہوں نے مان لی ہے کہ مرزاغلام احمد نبوت کا دعویٰ کر چکے ہیں اور اس کی جتنی تاویلیں انہوں نے کیں ان تمام تاویلوں کے بعد انہوں نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ مرزاغلام احمد کو ہم نبی جانتے ہیں اور اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ لاہوری پارٹی نے بھی یہی کہا کہ ہم اس کو مجدد یا ملہم یا مکلم کہتے ہیں۔ لیکن اٹارنی جنرل صاحب کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہاں، انہیں نبی بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس لئے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ ’’ینزل نبی اﷲ عیسیٰ بن مریم‘‘ تو ہمارے اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا۔ انہیں۔ (لاہوری پارٹی سے) کہ جب حضور اکرم ﷺ کی حدیث سے تم نبوت کا اطلاق کرنا چاہتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم اس کو نبی مانتے ہو۔ تو دونوں جماعتوں نے اس کو نبی تسلیم کر لیا۔
اب یہ ہے کہ آئین کے مطابق جو رسول کریم ﷺ کو خاتم النّبیین نہیں جانتا وہ آئین کے مطابق مسلمان نہیں ہے۔ وہ غیرمسلم ہے تو اس صورت میں ان کے غیرمسلم ہونے کا (جیسا کہ نفس الامر میں ہے اور شریعت میں ہے اسی طریقے سے) آئین کی بناء پر بھی وہ غیرمسلم ہی ہوئے۔
اب رہی دوسری بات کہ وہ ہم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ تم ہمیں غیرمسلم اقلیت قرار دیتے ہو، تو ہماری جانب سے یہ کہاگیا کہ تم غیراحمدی کو یعنی مسلمانوں کو مسلمان کہتے ہو یا دائرہ اسلام سے خارج؟ تو دونوں جماعتوں نے یہ تسلیم کر لیا، لاہوریوں نے کہا کہ غیراحمدی حقیقی مسلمان نہیں ہے اور ربوہ والوں نے کہا کہ دائرہ اسلام سے غیراحمدی خارج ہیں اور کافر ہیں اور پکے کافر ہیں۔ یہ بات انہوں نے تسلیم کرلی۔ اب یہاں پر جب کہ وہ لوگ ہمیں کافر کہتے ہیں، پکے 2918کافر کہتے ہیں۔ دائرہ اسلام سے خارج کہتے ہیں تو ظاہر بات ہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان حقیقت میں الحمدﷲ امتیاز ہے۔ ہم مسلمان ہیں۔ لیکن اگر ان کی نظر میں ہم غیرمسلم اکثریت ہیں۔ تم چاہے اپنے آپ کو مسلمان کہو یا جو بھی کہو، لیکن انہیں یہ ماننا پڑے گا کہ جمہور مسلمین کے یعنی غیرمرزائی مسلمان جو ہیں ان کے مقابلے میں وہ یقینا الگ فرقہ ہیں۔ اس کو تسلیم کرنا ہوگا یا ہمیں یہ کہہ دو کہ چلو بھئی تم غیرمسلم اکثریت ہو اور اپنے آپ کو یہ مان لو کہ ہم مسلمان اقلیت ہیں، یا یہ کہ ہم مسلمان اکثریت ہیں۔ (الحمدﷲ) تو تم اس کے مقابلے میں غیرمسلم اقلیت ہو۔ جیسا کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں تھے، ہندو اکثریت میں تھے۔ ہمارے نزدیک ہندو کافر تھے، اب بھی کافر، پہلے بھی کافر، تو ہم نے کسی وقت یہ مطالبہ نہیں کیا کہ چونکہ ہم اقلیت میں ہیں۔ اس لئے ہمیں سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے نعوذ باﷲ (کسی مسلمان کے دماغ میں نہیں آیا) ہندوؤں میں شامل ہو جائیں۔ حقیقت میں مرزائی یہ چاہتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کا استحصال کریں۔
جناب چیئرمین: آپ اپنے آپ کو غیراحمدی اکثریت Declare (ڈیکلیر) کروالیں۔ اگر ویسے مسئلہ حل نہیں ہوتا، ایسے ہی ہو جائے۔
مولانا عبدالحق: بات یہ ہے…
جناب چیئرمین: اچھا جی! مولانا مفتی محمود! مولانا! ان چیزوں پر تقریباً بحث ہوچکی ہے۔ میں یہ عرض کروں کہ… (مداخلت)
جناب چیئرمین: ممتاز صاحب! چھوڑیں۔ ان چیزوں پر بحث ہوچکی ہے۔
مولانا عبدالحق: اچھا!
2919جناب چیئرمین: بالکل! ایمان سب کا مضبوط ہے اور تقریباً ہاؤس کی رائے بھی یہی ہے۔
مولانا عبدالحق: ایک تیسری بات میں عرض کرتا ہوں۔
جناب چیئرمین: اب مولانا مفتی محمود صاحب نے تقریر کرنی ہے۔ یہ تجاویز کا وقت ہے۔ اکثر لوگ…
مولانا عبدالحق: بہت بہتر! یعنی مرزائی جو ہیں ان کے ساتھ ہم مسلمانوں کی منافرت یا عداوت اب کھلی ہے۔ اس سے پہلے وہ زمین دوز طریقے پر کس قدر مسلمانوں کی تباہی کر چکے ہیں۔ اب بات یہ ہے کہ چونکہ ہمارے اور ان کے درمیان پوری منافرت ظاہر ہوچکی ہے۔ اب اگر وہ ہماری کلیدی آسامیوں پر فائز رہیں تو میں یہ عرض کرتا ہوں کیا وہ پاکستان اور مسلمانوں کے لئے مفید ثابت ہوسکتے ہیں؟ جب کہ ہم اس وقت یہ فیصلہ کر دیں اور خدا ہمیں یعنی اس مجموعی اسمبلی کو توفیق دے کہ یہ ان کو غیرمسلم اقلیت قرار دے۔ اس کے بعد وہ اگر کلیدی آسامیوں پر فائز رہیں تو یقینا وہ ہمیں اور تباہ کریں گے۔ مسلمانوں کے بچانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس مسئلہ پر کمیٹی فیصلہ دے کہ انہیں کلیدی آسامیوں سے ہٹایا جائے۔ باقی رہی یہ بات کہ اگر ایسے لوگوں کو کلیدی آسامیوں سے ہٹایا جائے تو ملک کا انتظام کس طریقے سے چلے گا۔ میں کہتا ہوں کہ یہ نظام اﷲ چلائے گا۔ اس سے پہلے ہمارے وزیراعظم صاحب نے بڑی بہادری کی کہ تیرہ سو ناپسندیدہ افسروں کو نکال دیا۔ اس وقت بھی تو اﷲ نے نظام چلایا۔ اس لئے میں یہ گزارش کروں گا کہ ان کو کلیدی آسامیوں پر سے ضرور ہٹایا جائے۔ ورنہ صرف غیرمسلم اقلیت قرار دینے سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوگا۔
جناب چیئرمین: شکریہ! مولانا مفتی صاحب! آپ فرمائیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب مولانا مفتی محمود کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پرخطاب)
2920مولوی مفتی محمود: جناب چیئرمین! جہاں تک مرزائیوں کے غیرمسلم ہونے کا تعلق تھا اس پر تفصیل کے ساتھ بحث آچکی ہے۔ اس میں مزید اضافے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اس مسئلہ کوکس طرح حل کیا جائے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے گزارش تو یہ ہے کہ یہاں پر ہمیں اس ہاؤس میں سیاسی جماعتوں کی حیثیت سے نہیں، بلکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے سوچنا ہوگا۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کو کسی سیاسی جماعت کی برتری کے لئے، کریڈٹ حاصل کرنے کے لئے قطعاً استعمال نہ کیا جائے اور اس کو خالص دینی اور مذہبی حدود میں رہ کر حل کیا جائے۔ تاکہ کوئی بھی شخص کل اس کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہ کرے۔ (مداخلت)
جناب چیئرمین: آپ ان کے پاس آکر بیٹھیں، پھر ان کی باتیں سنیں۔ جب یہ تقریر ختم کر لیں گے تو پھر بات کرنا۔
He is an honourable member of the House; he is making the proposals.
(وہ ایوان کے ایک معزز رکن ہیں۔ وہ تجاویز دے رہے ہیں)
ہر روز تو یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
Ch. Mumtaz Ahmad: I am sorry.
(چوہدری ممتاز احمد: میں معذرت خواہ ہوں)
مولوی مفتی محمود: جناب والا! یہاں پر ہمیں اس مسئلہ کو دستوری…
Mr. Chairman: Do you like, to be interrupted when you are speaking? Do you like anybody else to hoot you?
(جناب چیئرمین: کیا آپ پسند کریں گے کہ کوئی آپ کی گفتگو کے دوران قطع کلامی کرے؟ کیا آپ چاہیں گے کہ کوئی آپ پر آوازیں کسے؟)
چوہدری ممتاز احمد: سنتے نہیں۔
جناب چیئرمین: انہوں نے کہا ہے، آپ بھی کر لیں۔
2921When the time arises. When you are speaking in the Committee with good spirit, independent of any political consideratioin, the House Committee will decide this matter in the best interest of the nation. If you are making a political threatre, then go ahead will it. Yes, Molvi Mufti Mehmood.
(جب اس کا وقت آئے گا جب آپ سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر نیک نیتی سے بات کریں گے تو ایوان کی یہ کمیٹی قوم کے بہترین مفاد میں مسئلے کا تصفیہ کرے گی)
مولانا مفتی محمود: اس مسئلہ کو ہم نے دستوری حیثیت سے حل کرنا ہوگا اور دستورمیں ہمیں مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ خواہ دستور میں کسی دفعہ کا اضافہ کیا جائے یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دفعہ ۱۰۶ میں جہاں پر صوبائی اسمبلیوں میں غیرمسلم اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی ہے وہاں پر عیسائیوں کا ذکر ہے، یہودیوں کا ذکر ہے۔ اس میں سکھوں کا، ہندوؤں کا، بدھ مت کا، جین کا بھی ذکر ہے۔ وہاں پر ان تمام جماعتوں کے ساتھ مرزائیوں کا بھی اضافہ کر دیا جائے اور اس کے بعد اس کی تعریف کی جائے۔ تعریف میں بالکل واضح بات ہے کہ مرزائیوں کی بالکل کھلی واضح تعریف ہے کہ جو شخص بھی مذہبی حیثیت سے مرزا غلام احمد کو جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اس کو پیشوا تسلیم کرے، خواہ مجدد کی حیثیت سے، مسیح موعود کی حیثیت سے، مہدی موعود کی حیثیت سے، نبی کی حیثیت سے، تشریعی نبی کی حیثیت سے، یا غیرتشریعی نبی کی حیثیت سے، امتی نبی کی حیثیت سے، ظلی یا بروزی یا مجازی یا لغوی نبی کی حیثیت سے، کسی بھی حیثیت سے اسے مذہبی پیشوا تسلیم کیا جائے۔ وہ لوگ مرزائی کہلوائیں گے۔ تعریف بالکل یہاں پر واضح ہے۔
بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ دستور میں کسی شخص کا نام نہیں لینا چاہئے۔ مثلاً ہم یہ کہیں کہ مرزاغلام احمد کو مذہبی پیشوا ماننے والے مرزائی ہیں۔ ان کا نام نہیں لینا چاہئے تو میں سمجھتا ہوں یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ آخر اسی دستور میں ہم نے جہاں پر صدر اور وزیراعظم کے حلف کے الفاظ دئیے ہیں۔ وہاں جناب نبی کریم ﷺ خاتم النّبیین ﷺ کا اسم گرامی بھی ہے۔ ایک مسلمان کی تشخیص کے لئے وہاں اسکا ذکر کیا ہے۔ اس لئے اگر مرزا جو دعویٰ نبوت کر چکے ہیں، ان کے معتقدین کی تعریف کے سلسلے میں بھی ان کا نام لے لیا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
2922اس کے علاوہ میں سمجھتا ہوں کہ صرف مرزائیوں کی تعریف نہ کی جائے۔ بلکہ عیسائیوں کی تعریف کر دی جائے۔ یہودی کی تعریف کی جائے۔ اس میں ہندو کی تعریف کر دی جائے۔ وہاں مرزائی کی تعریف بھی ہو جائے تو یہ سب کی تعریف کے ضمن میں یہ ایک بات آجائے گی۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی برا محسوس نہیں کرے گا کہ بین الصوبائی سطح پر اس کا ذکر ہو تو معترض نہیں ہوگا۔
اس کے علاوہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں، جیسا کہ بعض چیزیں ہمارے سامنے آئی ہیں کہ دستور میں مسلمان کی تعریف کی جائے، تعریف جامع اور بامعنی ہو جائے گی تو وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح مرزائی مسلمان کی تعریف میں جب شامل نہیں ہوگا تو خود بخود غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا جائے گا۔ بعض یہ سمجھتے ہیں کہ غیرمسلم کی تعریف کی جائے اور غیرمسلم کی تعریف میں اس کی تعریف ایسی نہیں بلکہ اس میں یہ فرقہ بھی آجائے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آج مسلمانوں کا مطالبہ جو ہے اور یہ پورے ملک کامطالبہ ہے۔ وہ مسلمان کی تعریف کامطالبہ نہیں بلکہ ایک شخص اور معیّن گروہ جو اس ملک میں موجود ہے اور جس کے مذہبی عقائد بھی ہمارے سامنے ہیں، ان کے سیاسی عزائم اور مقاصد بھی ہمارے سامنے ہیں، اس فرقے کے متعلق دستور میں فیصلہ کرنے کا لوگوں کا مطالبہ ہے۔ صرف تعریف سے میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں کامطالبہ جو ہے وہ پورا نہیں ہوگا۔ اس کے بعد پھر ہمیں لازماً کورٹ میں جانا ہوگا اور کورٹ سے، فیصلہ کرانا ہوگا۔ اس لئے ہم ہر اس تجویز پر متفق ہوسکتے ہیں کہ جس چیز کے ذریعے سے ہمارے قانون دان حضرات یا جو لوگ دستور کے ماہر ہیں وہ یہ کہہ دیں کہ اب اس صورتحال میں اس ترمیم کے بعد یہ فرقہ جو ملک میں موجود ہے۔ غیرمسلم قرار دے دیا گیا تو ہم مطمئن ہوجائیں گے۔
جناب والا! ہمیں ایک قانون بھی بنانا ہوگا۔ جس میں ہم اس فرقے کے حقوق یا غیرمسلم فرقوں کے حقوق اور آبادی کے تناسب سے اس فرقے کو ملازمتیں وغیرہ دینا، اس کے بارے 2923میں ہمیں ایک قانون بھی بنانا ہوگا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس طریقے سے انتظامیہ کی اصلاح بھی ہوسکے گی۔ اس قانون کے ذریعہ سے۔ اس قانون میں تعریف بھی مکمل آسکتی ہے۔ وہ دستور کا حصہ تو نہیں ہوگی۔ وہ قانون ہوگا۔ قانون میں میں سمجھتا ہوں ان کی تعریف آنا ضروری ہے۔ بہرحال اس مسئلے کو ہم اس طرح حل کریں کہ تمام مسلمان مطمئن ہو جائیں۔ جمہوریت کا تقاضا بھی یہی ہے۔ ہمیں اس وقت اس انداز سے فیصلہ کرنا ہوگا کہ سیاسی گروہ بندی نہ ہو۔ یہی گزارشات تھیں جو میں عرض کرنا چاہتا تھا۔
Mr. Chairman: Thank you very much.Now the special Committee of the Whole House will meet day after tomorrow on 5th at 9: 00 am, not tomorrow. Tomorrow there is no convenient time. The Prime Minister of Sri Lanka has to come tomorrow at about 11: 00 am. If we could meet in the morning; but we cannot. The Attorney- General has also asked me to fix it on 5th. Before that, I think, almost all the members will have expressed their views. If any member is left out, he can speak on the 5th or 6th. So, on 5th, we will meet at 9: 00 am, and Attorney- General will sum up his arguments.
Yes, Ch. Jahangir Ali, what do you want?
(جناب چیئرمین: آپ کا بہت شکریہ! اب مکمل ایوان کی اس خصوصی کمیٹی کا اجلاس پرسوں پانچ تاریخ (۵؍ستمبر) کو صبح نو بجے ہوگا۔ کل نہیں ہوگا۔ کل کوئی مناسب وقت نہیں ہے۔ کل ۱۱بجے کے قریب سری لنکا کے وزیراعظم آرہے ہیں۔ صبح کے وقت ملنا مشکل ہوگا۔ اٹارنی جنرل نے بھی مجھے پانچ تاریخ مقرر کرنے کا کہا ہے۔ میرا خیال اس سے پہلے پہلے کم وبیش تمام ارکان اپنے خیالات کا اظہار کر چکے ہوں گے۔ اگر کوئی رکن رہ جائیں تو وہ پانچ یا چھ تاریخ کو گفتگو کر سکتے ہیں۔ لہٰذا اب ہم پانچ تاریخ کو صبح نو بجے ملیں گے اور اٹارنی جنرل اپنے دلائل مکمل کریں گے۔
جی! چوہدری جہانگیر علی! آپ کیا چاہتے ہیں؟)
چوہدری جہانگیر علی: جناب چیئرمین! میں نے گزارش کرنی تھی کہ جس وقت میں نے اپنی تقریر کو Conclude کیا تھا تو میں نے کہا تھا کہ اس فرقے کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ اس سے میرا مطلب لاہوری فرقہ اور ربوہ والا فرقہ دونوں مراد ہیں۔ کیونکہ لاہوری فرقہ بھی مرزاغلام احمد کو نبی ہی مانتا ہے۔ یہ ان کے بیانات سے ثابت ہوچکا ہے۔
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: سیکرٹری صاحب نیشنل اسمبلی نے ایک لیٹر بھیجا ہے ممبران کے نام۔ اس میں انہوں نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جوائنٹ سیٹنگ پونے چھ بجے شروع ہوگی۔ ممبران سے فرمایا گیا ہے کہ سواپانچ بجے یہاں حاضر ہو جائیں۔
2924جناب چیئرمین: ایک لیٹر آج میں نے لکھوایا ہے۔ وہ آج شام تک آپ کو پہنچ جائے گا۔
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: لیٹر ایشو ہوگیا ہے۔
جناب چیئرمین: میں نے اپنے نام سے ایک خط لکھوایا ہے آج، وہ آج شام تک پہنچ جائے گا۔
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: میں تو یہ عرض کرنا چاہتا تھا کہ لکھا ہے کہ سواپانچ بجے ممبران حاضر ہوں۔
جناب چیئرمین: دوسرا لیٹر ہے۔ جس میں یہ لکھا گیا ہے کہ دس پندرہ منٹ پہلے آپ یہاں آجائیں۔ آپ میری بات تو سن لیں وہ لیٹر Under my own signatures (میرے دستخط سے) ایشو ہوا ہے۔ جس میں ساری کی ساری Instructions (ہدایات) ہیں، وہ آج شام تک پہنچ جائے گا اور باقی تفصیلات طے ہورہی ہیں۔ وہ طے کرنے کے بعد میں ہاؤس میں اناؤنس کردوں گا۔
The Prime Minister of Sri Lanka will address the joint Session at 5:15 pm. the members may come ten minutes earlier.
Thank you very much.
(سری لنکا کے وزیراعظم شام سوا پانچ بجے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔ اراکین ۱۰منٹ پہلے ہی تشریف لے آئیں۔
آپ کا بہت شکریہ)
The Special Committee of the Whole House adjourned to meet at nine of the clock, in the morning, on Thursday, the 5th September, 1974.
(مکمل ایوان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس ۵؍ستمبر ۱۹۷۴ء بروز جمعرات صبح ۹بجے تک کے لئے ملتوی کر دیا گیا)
----------
 
Top