• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزائی آرٹیکل ”الاسراءوالمعراج ‏“ کا جواب

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کےآسمانی معجزات میں سے معراج کا معجزہ بہت زیادہ اہمیت کاحامل اور ہماری مادی دنیا سے بالکل ہی ماوراء اور عقل انسانی کے قیاس و گمان کی سرحدوں سے بہت زیادہ بالاتر ہے. جہاں مرزا قادیانی اور مرزائیت نے انبیاء کرام علیھم السلام کے دیگر معجزات کا انکار کیا کچھ کو صرف مسمریز کہا وہاں معراج کو صرف ایک اعلی درجے کا کشف کہا ہے. اسی کو ثابت کرنے کے لیے قادیانی آفیشل ویب سائٹ(website) پر ایک آرٹیکل بنام ”الاسراءوالمعراج“ موجود ہے جو دجل و فریب کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے. اس آرٹیکل میں کیا علمی دھوکے دیے گئے ہیں ان کو نشاندہی کے لیے ہم یہ تحریر لکھ رہے ہیں. اس کا طریق کار یہ ہو گا کہ ہم معراج شریف کا بیان کر تے جائے گے اور جہاں جہاں اُس آرٹیکل میں دجل کیا گیا ہے اس کو واضح کرتے ہیں. اس سے پہلے ہم مرزائیوں کا معراج کے متعلق کیا عقیدہ ہے بتا دیتے ہیں. مرزا قادیانی لکھتا ہے
” معراج کے لئے رات اس لئے مقرر کی گئی کہ معراج کشف کی قسم تھا. “ (روحانی خزائن . کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 310)
سیر معراج اس جسم کثیف کے ساتھ نہیں تھا بلکہ وہ نہایت اعلیٰ درجہ کا کشف تھا جس کو درحقیقت بیداری کہنا چاہیئے. ایسے کشف کی حالت میں انسان ایک نوری جسم کے ساتھ حسبؔ استعداد نفس ناطقہ اپنے کے آسمانوں کی سیر کر سکتا ہے پس چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نفس ناطقہ کی اعلیٰ درجہ کی استعداد تھی اور انتہائی نقطہ تک پہنچی ہوئی تھی اس لئے وہ اپنی معراجی سیر میں معمورہ عالم کے انتہائی نقطہ تک جوعرش عظیم سے تعبیر کیا جاتا ہے پہنچ گئے سو درحقیقت یہ سیر کشفی تھا جو بیداری سے اشد درجہ پر مشابہ ہے بلکہ ایک قسم کی بیداری ہی ہے. میں اس کانام خواب ہرگز نہیں رکھتا اور نہ کشف کے ادنیٰ درجوں میں سے اس کو سمجھتا ہوں بلکہ یہ کشف کا بزرگ ترین مقام ہے جو درحقیقت بیداری بلکہ اس کثیف بیداری سے یہ حالت زیادہ اصفٰی اور اجلٰی ہوتی ہے اور اس قسم کے کشفوں میں مؤلف خود صاحب تجربہ ہے.“ (روحانی خزائن . کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 126)
مرزا قادیانی نے معراج کو ایک ”اعلیٰ درجہ کا کشف“ کہا ہے اور یہ بھی کہ یہ حالت بیداری میں ہوا مزید یہ کہ یہ ہرگز خواب نہیں تھا. اور کشف کی تعریف مرزا قادیانی یوں کرتے ہیں:
کشف کیا ہے اسی بیداری کے ساتھ کسی عالم اور عالم کا تداخل ہو جاتا ہے اس میں حواس کے معطل ہونے کی ضرورت نہیں دنیا کی بیداری بھی ہوتی ہے اور ایک عالم غیوبت بھی ہوتا ہے یعنی حالت بیداری ہوتی ہے اور اسرارِ غیبی بھی نظر آتے ہیں. (ملفوظات جلد 3 صفحہ 261 پانچ جلدوں والا ایڈیشن)

قصہ معراج
بتاریخ 27 رجب المرجب 12 نبوی کو جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے گھر (بعض روایات کے مطابق بیت اللہ اور بعض کے مطابق حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالی عنھا کے گھر) میں سو رہے تھے تو گھر کی چھت کھلی اور ناگہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام چند فرشتوں کے ساتھ نازل ہوئے اور آپ کو حرم کعبہ میں لے جا کر آپ کے سینہ مبارک کو چاک کیا اور قلب ِانور کو نکال کر آب ِزمزم سے دھویا پھر ایمان و حکمت سے بھرے ہوئے ایک طشت کو آپ کے سینے میں انڈیل کر شکم کا چاک برابر کر دیا.

پہلا شبہ یہ دیا گیا ہے ” اسراء اور معراج دو الگ الگ واقعات تھے. “
قارئین! عام استعمالات میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تمام مبارک سیر و عراج یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصی اور وہاں سے آسمانوں اور لامکان تک تشریف لے جانے کو معراج کہا جاتا ہے. محد ثین و مفسرین کی اصطلاح میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک تشریف لے جانا اسراء کہلاتا ہے اور مسجد اقصیٰ سے آسمانوں کی طرف حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا عروج فرمانا معراج کہلاتا ہے اور بعض اوقات پورے واقعہ کو صرف اسراء کہہ دیا جاتا ہے یا صرف معراج کہہ دیا جاتا ہے. احادیث اور روایات جن میں سفر اسراء اور معراج بیان ہوا ہے ان میں اسراء و معراج دونوں کا ایک رات میں ہونا بھی بیان ہے. تاریخ میں اس قدر اختلاف ضرور ہے آیا کہ یہ اسراء و معراج 27 رجب کو ہی ہوا تھا یا پہلے یا بعد میں۔ مگر اس اختلاف کی بنیاد پر کسی نے ان دونوں واقعات کا الگ الگ راتوں میں ہونا نہیں لکھا . معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تاریخ میں دشواری کا سبب یہ ہے کہ ہجرت سے قبل سن اور تاریخ نہیں تھے، قاضی سلیمان منصور پوری نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی 23 سالہ سیرت مبارکہ کا کلینڈر تیار کیا ہے جس کے مطابق 52 ولادت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم 27 رجب المرجب کو شب معراج ہوئی. 27 رجب المرجب کے بعد طلوع ہونے والا دن بُدھ تھا. اس لحاظ سے بدھ کی شب 27 رجب المرجب 52 ولادت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم شب معراج ہوئی. (رحمت للعالمین جلد2 صفحہ451)

ایک ضروری بات: بعض مفسرین کا قول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو 3 یا اس سے زائد مرتبہ ”معراج“ کرائی گئی، جس میں سے ایک مرتبہ بجسد عنصری (جو کہ ہمارا موضوع ہے) اور باقی روحانی کروائیں گئیں. زہن میں رہے کہ کسی نے بھی معراج بمع جسم کے ہونے میں اختلاف نہیں کیا. اس متعلق عظیم مفسر علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ لکھتے ہیں
وإذا حصل الوقوف على مجموع هذه الأحاديث صحيحها وحسنها وضعيفها، يحصل مضمون ما اتفقت عليه من مسرى رسول الله صلى الله عليه وسلم من مكة إلى بيت المقدس، وأنه مرة واحدة، وإن اختلفت عبارات الرواة في أدائه، أو زاد بعضهم فيه أو نقص منه، فإن الخطأ جائز على من عدا الأنبياء عليهم السلام، ومن جعل من الناس كل رواية خالفت الأخرى مرة على حدة، فأثبت إسراءات متعددة، فقد أبعد وأغرب، وهرب إلى غير مهرب، ولم يتحصل على مطلب. ( تفسیر ابن کثیر جلد 5 صفحہ 42)
” تمام روایات(جن میں صحیح اور ضعیف بھی ہیں) کو جمع کرنے سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ واقعہ معراج صرف ایک ہی مرتبہ پیش آیا . اور راویوں کی عبارت کے بعض حصص کا ایک دوسرے سے مختلف اور تفصیلات میں کم و بیش ہونا وحدت واقعہ پر اثر انداز نہیں ہوتا . جن علماء نے ان روایات کے جزوی اختلاف کی وجہ سے ہر ایک مختلف روایت کو الگ الگ واقعہ بنا دیا اور دعویٰ کر دیا کہ معراج کا واقعہ متعدد بار پیش آیا ہے یہ دعویٰ بالکل بعید از قیاس ہے اور قطعاً غلط راہ روی اختیار کر لی ہے اور وہ حقیقت حال سے بہت دور چلے گئے ہیں . “
دوسرا شبہ یہ دیا گیا ہے ”دونوں واقعات میں سونے کی حالت کا مشترک ہونا بتاتا ہے کہ یہ واقعات جسمانی نہیں بلکہ روحانی تھے “ حالانکہ اس کی اصل یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے مقام اور معراج روانگی سے پہلے کی کیفیت کا تعین کیا ہے اور اس کے بعد پورا واقعہ بیان فرمایا مزید تفصیل آگے آ رہی ہے.
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
پھر آپ براق پر سوار ہو کر بیت المقدس تشریف لائے. براق کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں اس کی نگاہ کی آخری حد ہوتی تھی. بیت المقدس پہنچ کر براق کو آپ نے اس حلقہ میں باندھ دیا جس میں انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی سواریوں کو باندھا کرتے تھے پھر آپ نے تمام انبیاء اور رسولوں علیہم السلام کو جو وہاں حاضر تھے دو رکعت نماز نفل جماعت سے پڑھائی.

یہاں مرزائی آرٹیکل کے مصنف نے سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 60 کے لفظ الرءیا سے قیاس کیا ہے کہ معراج روحانی تھی.
و اذ قلنا لک ان ربک احاط بالناس و ما جعلنا الرءيا التي ارينک الا فتنة للناس و الشجرة الملعونة في القران و نخوفهم فما يزيدهم الا طغيانا کبيرا (بنی اسرائیل60)
اس کا پہلا جواب تو یہ ہے الرؤیا کے عام معنی خواب کے ہیں، جبکہ مرزا قادیانی کہتا ہے معراج ہرگز خواب نہ تھی اس لیے اس آیت سے آپ دلیل نہیں پکڑ سکتے.
دوسری بات یہ کہ اس آیت کو کئی مفسرین نے صلح حدیبیہ یا جنگ بدر کی خواب پر محمول کیا ہے تو اس آیت کا معراج پر محمول کرنا ختمی نہیں ہے کیونکہ ”اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال“ جب احتمال آ جائے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے.
تیسری بات الرؤیا رویت بصری کی معنی میں بھی آتا ہے. لغت کی مشہور کتاب لسان العرب میں ہے
و َقَدْ جَاء الرُّؤیَا فی الیَقظَۃ؛
قال الراعیفکبر للرویا وھش فوادہ……..وبشر نفسا کان نفسا یلومھا
قول أبی الطیب: (مضی اللیل و الفضل الذی لک لا یمضی) ....و رویاک احلی فی العیون من الغمض “
(لسان العرب جلد نمبر 14 صفحہ 297)
ترجمہ: ''بلاشبہ ”رؤیا“ بیداری میں آنکھوں کے مشاہدے کے لئے بھی آتا ہے. راعی کا قول ہے: (”اس نے تکبیر کہی اور اس کا دل مسرت سے بھر گیا اور اس نے اپنے نفس کو پہلے ملامت کر رکھا تھا. اس منظر کو دیکھ کر خوشخبری دی جس کا اس نے عینی مشاہدہ کیا.“) اور أبو الطيب المتنبي کا قول ہے(”رات ختم اور تیرا فضل ختم ہونے والا نہیں اور تیرا دیدار جمال آنکھوں میں نیند سے زیادہ میٹھا ہے“ (دیوان متنبی صفحہ 188)
ان دونوں اشعار میں الرؤیارویت بصری کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور اہل لغت پر واضح ہے کہ ان دونوں شاعروں کو لغت عرب میں سند مانا جاتا ہے. راعی ایک مشہور جاہلی شاعر ہے اور کلام عرب کی سند کے لئے جاہلی شعراء سے زیادہ کوئی سند معتبر نہیں ہے . اور مزید یہ کہ لسان العرب مرزا قادیانی کی پسندیدہ لغت تھی اور وہ اس کی بہت تعریف کیا کرتا تھا. (سیرت المہدی جلد 1 حصہ سوم صفحہ 782 روایت نمبر 897 نیا ایڈیشن)
قَالَه سعيد بن الْمسيب. قَوْله: (رُؤْيا عين) ، قيد بِهِ للإشعار بِأَن الرُّؤْيَا بِمَعْنى الرُّؤْيَة فِي الْيَقَظَة. وَقَالَ الزَّمَخْشَرِيّ: تعلق بِهَذِهِ الْآيَة من قَالَ: كَانَ الْإِسْرَاء فِي الْمَنَام، وَمن قَالَ كَانَ الْإِسْرَاء فِي الْيَقَظَة فسر الرُّؤْيَا بِالرُّؤْيَةِ (عمدۃ القاری جلد 17 صفحہ 40 مکتبۃ العلمیہ بیروت لبنان، عمدۃ القاری جلد 17 صفحہ 30 مکتبہ الشاملۃ)

”سعید بن مسیب کہتے ہیں قول رُؤْيا عين میں الرؤیا بمعنی الرویۃ ہے جو اور(اس سے مراد) جاگتے ہوئے دیکھنا ہے. علامہ ذمخشری کہتے ہیں (بنی اسرائیل 60) اس آیت کا تعلق اُس معراج سے ہے جو نیند میں ہوئی اور جنہوں نے معراجِ بیداری (جو کہ ہمارا موضوع ہے) پر استدلال کیا ہے انہوں نے الرویا کو بمعنی الرویۃ لیا ہے“.
اور علامہ زمحشری رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق مرزا قادیانی لکھتا ہے: ”واضح رہے کہ اس جگہ جو ہم نے زمخشری کو علّامہ اور امام کے نام سے یاد کیا ہے وہ محض باعتبارمتبحر فنّ لُغت کے ہے کیونکہ اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ شخص زبان عرب کی لُغَات اور ان کے استعمال کے محل اور مقام اور ان کے الفاظ فصیح اور غیر فصیح اور لُغت جیّد اور لُغت ردّی اور مترادف الفاظ کے فروق اور خصوصیتیں اور اُن کی ترکیبات اور اُنکے الفاظِ قدیم اور مستحدث اور قواعدِ لطیفہ صرف و نحو و بلاغت سے خوب ماہر اور ان سب باتوں میں امام اور علّامہ ء وقت تھا نہ کہ اور کسی بات میں۔ پس امام زمخشری کی نظرعمیق نہایت قابل تعریف ہے....یاد رہے کہ علّامہ امام زمخشری لسان العرب کا مسلّم عالم ہے اور اس فن میں اسکے آگے تمام مابعد آنے والوں کاسرِ تسلیم خم ہے ۔ اور کتبِ لُغت کے لکھنے والے اس کے قول کو سند میں لاتے ہیں ۔ جیسا کہ صاحب تاج العروس بھی جابجا اس کے قول کی سند پیش کرتا ہے“۔(روحانی خزائن جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 381تا382)
اور اس آیت کی تفسیر ترجمان قرآن حضرت ابن عباس رحمۃ اللہ علیہ
نے یوں کی ہے
”حدثنا الحميدي حدثنا سفيان حدثنا عمرو عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس قال هي رؤيا عين أريها رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة أسري به إلى بيت المقدس قال والشجرة الملعونة في القرآن قال هي شجرة الزقوم“ (صحيح البخاری كتاب مناقب الأنصار باب المعراج روایت نمبر 3888)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس فرمایا کہ اس میں رؤیا سے مراد آنکھ سے دیکھنا ہے . جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کو معراج کی رات میں د کھایا گیا تھا جس میں آپ کو بیت المقدس تک لے جایا گیا تھا اور قرآن مجید میں” الشجرۃ الملعونۃ “سے مراد تھوہڑ کا درخت ہے .

امام کرمانی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کے حاشیہ میں لکھتے ہیں وإنما قيل الرؤيا بالعين إشارة إلى أنها في اليقظة أو إلى أنها ليست بمعنى العلم (کرمانی/ الكواكب الدراري في شرح صحيح البخاري جلد 17 صفحہ 185 حاشیہ مکتبہ دار احیاء بیروت، ایضاً مکتبۃ الشاملۃ)
الرؤيا بالعين “ یہ اشارہ کرنے کے لیے کہا گیا ہے کہ یہ ( الرؤيا ) حالت بیداری میں تھا یا یہ بتا نے کے لیے کہ یہاں الرؤيا علم کے معنی میں نہیں ہے.

حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ، عَن عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عِكْرِمَةَ يَقُولُ: كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُولُ: {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ} قَالَ: شيء أُرِيَهُ النَّبِي صلى الله عليه وسلم في الْيَقَظَةِ رَآهُ بِعَيْنِهِ حِينَ ذهب بِهِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ. (مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 450 روایت نمبر 3500 ، مسند احمد جلد 5 صفحہ 464 مکتبہ الشاملہ)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ روایت ہے وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ سے مراد وہ چیزیں ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معراج کی رات بیداری کے عالم میں چشم سر سے دکھائی گئیں.

حَدَّثَنَا أَبُو يَزِيدَ الْقَرَاطِيسِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ: {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ} [الإسراء: 60] قَالَ: هِيَ رُؤْيَا رَآهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ، وَلَيْسَتْ بِرُؤْيَا مَنَامٍ.
(المعجم الكبير للطبراني جلد 11 صفحہ 250 روایت نمبر 11641 مکتبہ ابن تیمیہ ، ایضاً مکتبہ الشاملۃ)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ روایت ہے وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ سے مراد وہ دیکھنا ہے جو اسراء کی رات نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیکھا اور اس سے خواب کا نظارہ مراد نہیں ہے.
ایک اور حیلہ: مرزائی حضرات کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں کہیں بھی الرؤیا بمعنی جاگتی آنکھوں کے دیکھنے کے مستعمل نہیں ملتا اس لئے اس آیت میں الرؤیا کا معنی یہ نہیں کیا جا سکتا۔
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اصول منگھڑت اور باطل ہے اور اس کی کوئی اصل نہیں۔ ثانیاً قرآن مجید میں الرؤیا بمعنی کشف بھی کہیں بھی مستعمل نہیں تو یہ اصول تو مرزائی عقیدہ کے ہی خلاف جا رہا ہے۔ ثالثاً قرآن مجید میں سورۃ البقرہ2:228 و سورۃ النساء 4:128 وغیرہ میں لفظ ” بعل “ بمعنی شوہر کے آیا ہے اور سورۃ الصفت37:125 کے علاوہ کہیں بھی بمعنی اس بت کے جس کو حضرت الیاس علیہ السلام کی قوم پوجتی تھی مستعمل نہیں اور اسی طرح لفظ ” بروج “ قرآن مجید میں جہاں جہاں استعمال ہوا ہے اس کے معانی کواکب کے ہیں، سوائے سورۃ النساء 4:78 میں اس کے معانی اونچے اور مظبوط محل ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ منگھڑت اصول خلاف بلاغت قرآن مجید ہے۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
جب یہاں سے نکلے تو حضرت جبریل علیہ السلام نے شراب اور دودھ کے دو پیالے آپ کے سامنے پیش کیے آپ نے دودھ کا پیالہ اٹھا لیا. یہ دیکھ کر حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا کہ آپ نے فطرت کو پسند فرمایا اگر آپ شراب کا پیالہ اٹھا لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی. پھر حضرت جبریل علیہ السلام آپ کو ساتھ لے کر آسمان پر چڑھے پہلے آسمان میں حضرت آدم علیہ السلام سے، دوسرے آسمان میں حضرت یحیی و حضرت عیسیٰ علیہما السلام سے جو دونوں خالہ زاد بھائی تھے ملاقاتیں ہوئیں اور کچھ گفتگو بھی ہوئی. تیسرے آسمان میں حضرت یوسف علیہ السلام ،چوتھے آسمان میں حضرت ادریس علیہ السلام اورپانچویں آسمان میں حضرت ہارون علیہ السلام اورچھٹے آسمان میں حضرت موسیٰ علیہ السلام ملے اور ساتویں آسمان پر پہنچے تو وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی وہ بیت المعمور سے پیٹھ لگائے بیٹھے تھے جس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں. بوقتِ ملاقات ہر پیغمبر نے ''خوش آمدید! اے پیغمبر صالح ''کہہ کر آپ کا استقبال کیا. پھر آپ کو جنت کی سیر کرائی گئی.اس کے بعد آپ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے. اس درخت پر جب انوار الٰہی کا پر توپڑا تو ایک دم اس کی صورت بدل گئی اور اس میں رنگ برنگ کے انوار کی ایسی تجلی نظر آئی جن کی کیفیتوں کو الفاظ ادا نہیں کر سکتے. یہاں پہنچ کر حضرت جبریل علیہ السلام یہ کہہ کر ٹھہر گئے کہ اب اس سے آگے میں نہیں بڑھ سکتا. پھر حضرت حق جل جلالہٗ نے آپ کو عرش بلکہ عرش کے اوپر جہاں تک اس نے چاہا بلا کر آپ کو بار یاب فرمایا اور خلوت گاہ راز میں نازو نیاز کے وہ پیغام ادا ہوئے جن کی لطافت و نزاکت الفاظ کے بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتی. چنانچہ قرآن مجیدمیں فاوحى الى عبده ما اوحىoما کذب الفؤاد ما راى (النجم10-11)کے رمزو اشارہ میں خداوند قدوس نے اس حقیقت کو بیان فرما دیا ہے.

مرزائی شبہ
اگر معراج جسمانی ہوتا تو پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کو جسمانی آنکھ سے دیکھتے لیکن قرآن و حدیث میں ذکرہے کہ جو کچھ بھی دیکھا گیا ‏دل سے دیکھا گیا۔ مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی (النجم 53:12) ”اور دل نے جھوٹ بیان نہیں کیا جو اس نے دیکھا “ وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِىْۤ اَرَيْنٰکَ اِلَّا فِتْنَةً ‏لِّلنَّاسِ اور وہ خواب جو ہم نے تجھے دکھایا اُسے ہم نے نہیں بنایا مگر لوگوں کے لئے آزمائش۔۔۔“ (بنی اسرائیل 17:61) ” عَنْ اِبْنِ عَبَّاسٍ قَالَ ‏رَاٰہُ بَفُوَٴادِہ مَرَّتَیْنِ “: ابن عبّاس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سے دو بار دیکھا۔“ (مسلم کتاب الایمان)‏
الجواب
سورۃ بنی اسرائیل کی مذکورہ آیت کی تفسیر گزر چکی ہے. سورۃ النجم کی آیت سے مرزائی استدلال انتہائی باطل اور فرسودہ ہے. رب تعالی کے فرمان ما کذب الفؤاد ما راى (11) ”دل نے جھوٹ نہ کہا جو(حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) دیکھا“. کے معنی یہ ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک نے اس چیز کی تکذیب نہیں کی جسے چشم مبارک نے دیکھا. مرزائی مترجم اس آیت کا یوں ترجمہ کرتا ہے. (بحوالہ بتاریخ: 30جنوری 2015)
”The heart of the Prophet lied not in seeing what he saw“
”حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے دل نے اس چیز کو جھٹلایا نہیں جس کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا“
یعنی معراج کی رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چشم اقدس سے جو کچھ دیکھا اس میں حضور علیہ السلام کو کسی قسم کا وہم یا اشتباہ واقع نہیں ہوا اور اس بات کی دلیل یہ آ یت بھی ہے ’’ مازاغ البصرو ماطغی ‘‘لفظ بصر جسمانی نگاہ کے لیے آتا ہے خو اب یا دل کے دیکھنے کو بصر نہیں کہتے۔

قاضی عیاض اندلسی رحمۃ اللہ علیہ اس شبہ کا جواب دیتے ہوئے الشفاء بتعریف حقوق المصطفی میں فرماتے ہے:
قُلْنَا يُقَابِلُهُ قَوْلُهُ تَعَالَى (مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى) فَقَدْ أَضَافَ الْأَمْرَ لِلْبَصَرِ وَقَدْ قَالَ أَهْلُ التَّفْسِيرِ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى (مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رأى) أَيْ لَمْ يُوهِمِ الْقَلْبُ الْعَيْنَ غَيْرَ الْحَقِيقَةِ بَلْ صَدَقَ رُؤْيَتَهَا وَقِيلَ مَا أَنْكَرَ قَلَبُهُ مَا رَأَتْهُ عَيْنُهُ “۔(الشفاء بتعریف حقوق المصطفی جلد1 صفحہ 195 مطبوعہ دارلفکر، مطبوعہ دوبئی صفحہ 245)
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ارشاد باری تعالیٰ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى اس کے معارض ہے کیونکہ اس آیت میں رویت کا اللہ تعالیٰ نے آنکھ کی جانب منسوب کیا ہے اور مفسرین کرام نے مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رأى کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ آنکھ نے جس حقیقت کو دیکھا دل نے اس میں کوئی شک یا وہم محسوس نہ کیا بلکہ اس رؤیت کی تصدیق کی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کے دل نے اس چیز کا انکار نہ کیا جو آپ کی چشمان مبارک نے دیکھا تھا۔

شیخ محدث حق دہلوی رحمة اللہ علیہ اس متعلق لکھتے ہیں:

آمدہ است که مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ دلالت برمنام ندارد زير كه مراد آنست که در وهم نینداخت دل چشم را غیر حقیقت را بلکہ تصدیق کرد برویت اورا و انکار مکرد دل چیز کہ دید چشم بدلیل مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ “۔(مدارج النبوۃ جلد 1 صفحہ191مطبوعہ نولکشور)
ترجمہ: اور وہ جو آیا ہے کہ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ یہ خواب پر دلالت نہیں کرتا اس لئے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دل نے آنکھ کو غیر حقیقت کا وہم نہیں ڈالا بلکہ اس کی رؤیت کی تصدیق کی اور جس چیز کو آنکھ نے دیکھا دل نے اس کا انکار نہ کیا اور اس پر مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ دلیل ہے۔

قارئین! آنکھ نے کیا دیکھا تھا ؟ اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور مفسرین کا اختلاف ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خدا کو دیکھا تھا یا جبرائیل امین کو ان کی حقیقی شکل میں. مرزائی آرٹیکل کے مصنف نے انتہائی بے شرمی، بد دیانتی اور دجل سے اس اختلاف کو پورے واقعہ معراج پر محمول کیا ہے. اس اختلاف پر ہم تھوڑی روشنی ڈلتے ہیں.

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا کی نفی دیدارِ خدا وندی

”حدثني زهير بن حرب حدثنا إسمعيل بن إبراهيم عن داود عن الشعبي عن مسروق قال كنت متكئا عند عائشة فقالت يا أبا عائشة ثلاث من تكلم بواحدة منهن فقد أعظم على الله الفرية قلت ما هن قالت من زعم أن محمدا صلى الله عليه وسلم رأى ربه فقد أعظم على الله الفرية قال وكنت متكئا فجلست فقلت يا أم المؤمنين أنظريني ولا تعجليني ألم يقل الله عز وجل ولقد رآه بالأفق المبين ولقد رآه نزلة أخرى فقالت أنا أول هذه الأمة سأل عن ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال إنما هو جبريل لم أره على صورته التي خلق عليها غير هاتين المرتين رأيته منهبطا من السماء سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الأرض فقالت أو لم تسمع أن الله يقول لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير...الی آخر الحدیث (صحیح مسلم: جلد اول: حدیث نمبر 439)
حضرت مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس تکیہ لگائے بیٹھا تھا انہوں نے فرمایا اے ابوعائشہ (یہ ان کی کنیت ہے) تین باتیں ایسی ہیں کہ اگر کوئی ان کا قائل ہو جائے تو اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا میں نے عرض کیا وہ تین باتیں کونسی ہیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا ایک تو یہ ہے کہ جس نے خیال کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ باندھا مسروق کہتے ہیں کہ میں تکیہ لگائے بیٹھا تھا میں نے یہ سنا تو اٹھ کر بیٹھ گیا میں نے عرض کیا اے ام المومنین مجھے بات کرنے دیں اور جلدی نہ کریں کیا اللہ نے نہیں فرمایا ولقد رآه بالأفق المبين۔ولقد رآه نزلة أخرى حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرمانے لگیں کہ اس امت میں سب سے پہلے میں نے اس متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ انہوں نے فرمایا اس سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں میں نے انہیں ان کی اصل صورت میں نہیں دیکھا سوائے دو مرتبہ کے۔ جس کا ان آیتوں میں ذکر ہے میں نے دیکھا کہ وہ آسمان سے اتر رہے تھے اور ان کے تن وتوش کی بڑائی نے آسمان سے زمین تک کو گھیر رکھا ہے اس کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ...الی آخر الحدیث

حضرت عائشہ سلام اللہ علیھا نے کہا ہے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جبرائیل امین کو دیکھا تھا تو یہاں پر مرزا قادیانی کی ایک انتہائی قابلِ توجہ عبارت پیش ہے جس سے معراج جسمانی ہونے کا ایک واضح ثبوت ملتا ہے۔ مرزا قادیانی لکھتا ہے
‏”اس بات پر تمام مفسرین نے اور نیز صحابہ نے بھی اتفاق کیا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام اپنے حقیقی وجود کے ساتھ صرف دو مرتبہ آنحضرت ‏صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائی دیا ہے اور ایک بچہ بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ اگر وہ اپنے اصلی اور حقیقی وجوؔ د کے ساتھ آنحضرت صلعم کے پاس ‏آتے تو خود یہ غیر ممکن تھا کیونکہ ان کا حقیقی وجود تو مشرق مغرب میں پھیلا ہوا ہے اور ان کے بازو آسمانوں کے کناروں تک پہنچے ہوئے ہیں پھر وہ ‏مکہ یا مدینہ میں کیونکر سما سکتے تھے“ (روحانی خزائن . کمپیوٹرائزڈ: جلد ۵- آئینہ کمالات اسلام: صفحہ 122-123)‏
اگر کوئی عقل کا اندھا یہاں یہ کہے کہ مرزا قادیانی کہ اس عبارت میں روحانی دیکھنے مراد ہے تو اس کا جواب مرزا کی عبارت میں واضح ہے ” ان کا حقیقی وجود تو مشرق مغرب میں پھیلا ہوا ہے اور ان کے بازو آسمانوں کے کناروں تک پہنچے ہوئے ہیں پھر وہ ‏مکہ یا مدینہ میں کیونکر سما سکتے تھے“ نیز یہاں حاشیہ میں لکھا ہوا ہے ” اس بات پر صحابہ کا اتفاق ہے کہ جبرائیل صرف دو مرتبہ اپنی اصلی صورت میں آسمان پر آنحضرت ؐ کو دکھائی دیا ہے اور زمین پر ہمیشہ تمثلی حالت میں دکھائی دیتا رہا ہے“.
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
دیدار خداوندی کے متعلقہ روایات

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ: نُور اَنِّیٌ اَرَاهُ (صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 161 روایت نمبر 178)
”حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی نور ہے میں نے اس کو دیکھا.“

اس حدیث کے اعراب کئی طور پر لکھے گئے ہیں. عموماً اس کو ” نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ “ لکھا جاتا ہے اور اس کا ترجمہ یوں کیا جات ہے ” وہ تو نور ہے میں اس کو کیسے دیکھ سکتا ہوں“ اس کے علاوہ اس کو ” نُورٌ اِنِّی اَرَاهُ “ یعنی ”اللہ تعالیٰ نور ہے اس کی رؤیت کی کیفیت کس طرح بیان کر سکتا ہوں“ اور اس کا صحیح ترجمہ اگر دیکھا جائے تو مذکورہ ترجمہ ہی ہو گا جس کی شاہد صحیح مسلم کی اس اگلی حدیث ہے. اور ویسے بھی وقوع میں اختلاف کرنا امکان کی دلیل ہوتی ہے، اگر رؤیت محال ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا اس کے عدم وقوع پر اتفاق نہ ہوتا.

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا أَبِي ح، وَحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، حَدَّثَنَا عفَّانُ بْنُ مُسْلمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ كِلَاهمَا عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قُلْتَ لِأَبِي ذرٍّ، لَوْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: عَنْ أيِّ شيْءٍ كُنْتَ تَسْأَلُهُ؟ قَالَ: كُنْتُ أَسْأَلُهُ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ أَبُو ذَرٍّ: قَدْ سَأَلْتُ، فَقَالَ: رَأَيْتُ نُورًا (صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 161 روایت نمبر 179)
”عبداللہ بن شفیق رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتا تو آپ سے کچھ پوچھتا. حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تم کس بات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھتے؟ تو عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا میں پوچھتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے خدا کو دیکھا یا نہیں؟ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا ہے کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ایک نور دیکھا ہے.

“حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَأَيْتُ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى " ( مسند أحمد جلد 4 صفحہ 386 روایت نمبر 2634 ، مسند احمد جلد3 صفحہ 184 مکتبہ للشاملۃ)
”حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب تبارک و تعالی کو (آنکھوں سے) دیکھا.“ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الخصائص الكبرى جلد اول صفحہ 267 میں اس روایت کو صحیح کہا ہے.

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأُمَوِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِ اللهِ: {وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى} {فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى} {فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى} قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَدْ رَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (سنن ترمذی جلد5 صفحہ 248 روایت نمبر 3280)
”حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ولقد رآه نزلة أخری عند سدرة المنتهی فأوحی إلی عبده ما أوحی فکان قاب قوسين أو أدنی کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے.“

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ جَمِيعًا عَنْ وَكِيعٍ، - قَالَ الأَشَجُّ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، - حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحُصَيْنِ أَبِي جَهْمَةَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ ‏{‏ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى‏}‏‏{‏ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى‏}‏ قَالَ رَآهُ بِفُؤَادِهِ مَرَّتَيْنِ‏. (صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 158 روایت نمبر 285 و قادیانی آرٹیکل)
”حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ‏ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى‏oوَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى ‏‏ سے مراد یہ ہے کہ اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سے دو مرتبہ دیکھا.“

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ قَالَ: نا جُمْهُورُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ: ثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُجَالِدٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، كَانَ يَقُولُ: إِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَأَى رَبَّهُ مَرَّتَيْنِ: مُرَّةً بِبَصَرِهِ، وَمَرَّةً بِفُؤَادِهِ (المعجم الأوسط جلد نمبر 6 صفحہ 50 روایت نمبر 5761 ، ایضاً مکتبۃ الشاملۃ)
”حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ بے شک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا. ایک مرتبہ چشم سر سے اور ایک مرتبہ اپنے قلب مبارک سے.“ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الخصائص الكبرى جلد اول صفحہ 267 میں اس روایت کو صحیح کہا ہے.

أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِيهُ، أَنْبَأَ هِشَامُ بْنُ عَلِيٍّ السَّدُوسِيُّ، ثنا سَهْلُ بْنُ بَكَّارٍ، ثنا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: وَأَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: ثنا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «أَتَعْجَبُونَ أَنْ يَكُونَ الْخُلَّةُ لِإِبْرَاهِيمَ، وَالْكَلَامُ لِمُوسَى، وَالرُّؤْيَةُ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» . «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الْبُخَارِيِّ. (مستدرک علی الصحیحین جلد 1 صفحہ 123 روایت نمبر 216 مکتبہ دار الحرمین، المستدرك على الصحيحين للحاكم جلد 1 صفحہ 133 روایت نمبر 216 مکتبہ الشاملہ، سنن نسائی کبری جلد 10 صفحہ 286 روایت نمبر 11473)
”حضرت ابن عباس رضی فرماتے ہیں کیا اس بات پر تعجب کرتے ہو کہ ابراہیم علیہ السلام خلیل ہوں، موسی علیہ السلام کلیم ہوں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کو دیکھیں؟ یہ حدیث بخاری کی شرط پر صحیح ہے“

علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ اسی متن کی ایک دوسری روایت جو کے المعجم الاوسط میں ہے کے متعلق لکھتے ہیں
وروى الطَّبَرَانِيّ فِي (الْأَوْسَط) بِإِسْنَاد قوي عَن ابْن عَبَّاس، قَالَ: رأى مُحَمَّد ربه مرَّتَيْنِ، وَمن وَجه آخر، قَالَ: نظر مُحَمَّد إِلَى ربه، جعل الْكَلَام لمُوسَى، والخلة لإِبْرَاهِيم، وَالنَّظَر لمُحَمد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، فَظهر من ذَلِك أَن مُرَاد ابْن عَبَّاس هَهُنَا رُؤْيا الْعين (عمدۃ القاری جلد 17 صفحہ 40 مکتبۃ العلمیہ بیروت لبنان،عمدۃ القاری جلد 17 صفحہ 30 مکتبہ الشاملۃ)
”امام طبرانی نے الاوسط میں قوی اسناد کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو مرتبہ اپنے خدا کو دیکھا ہے اور یہاں یہ دیکھنا چشم سر / آنکھ سے دیکھنا مراد ہے کیونکہ موسی علیہ السلام کے لیے براہ راست خدا سے کلام مقرر کیا گیا اور ابراہیم علیہ السلام کے لیے خلت اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے دیدار مقرر کیا گیا. ظاہری بات ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے کہنے کا مطلب یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی آنکھوں سے خدا کو دیکھا .“

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمْرِو بْنِ نَبْهَانَ بْنِ صَفْوَانَ الثَّقَفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ العَنْبَرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنِ الحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ، قُلْتُ: أَلَيْسَ اللَّهُ يَقُولُ: {لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ} قَالَ: وَيْحَكَ، ذَاكَ إِذَا تَجَلَّى بِنُورِهِ الَّذِي هُوَ نُورُهُ، وَقَدْ رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ مَرَّتَيْنِ. (ترمذی جلد5 صفحہ 248 روایت نمبر 3279)
”حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھ سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے خدا کو دیکھا. تو میں نے کہا کیا اللہ تعالی یہ نہیں فرماتا لا تدرکه الأبصار وهو يدرک الأبصار ؟تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے افسوس ہے تم اس (آیت) کو نہ سمجھ سکے، یہ تو جب ہے کہ اللہ اپنے نور کے ساتھ تجلی فرمائے. یقیناً حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا.“

وروى ابْن خُزَيْمَة بِإِسْنَاد قوي عَن أنس. قَالَ: رأى مُحَمَّد ربه، وَبِه قَالَ سَائِر أَصْحَاب ابْن عَبَّاس وَكَعب الْأَحْبَار وَالزهْرِيّ وَصَاحب معمر وَآخَرُونَ، وَحكى عبد الرَّزَّاق عَن معمر عَن الْحسن أَنه حلف أَن مُحَمَّدًا رأى ربه، وَأخرج ابْن خُزَيْمَة عَن عُرْوَة بن الزبير إِثْبَاتهَا وَكَانَ يشْتَد عَلَيْهِ إِذا ذكر لَهُ إِنْكَار عَائِشَة، رَضِي الله تَعَالَى عَنْهَا“ (عمدۃ القاری جلد 19 صفحہ 285 مکتبہ دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان، عمدة القاري شرح صحيح البخاري جلد 19 صفحہ 198 مكتبة الشاملة)
”ابن حزیمۃ رحمۃ اللہ علیہ نے قوی اسناد کے ساتھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا کہ ”حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے خدا کو دیکھا“ یہی بات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ، الزھری رحمۃ اللہ علیہ اور معمر بن راشد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی روایت ہے. امام عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ، معمر بن راشد رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ قسم کھایا کرتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے خدا کو دیکھا. ابن حزیمۃ رحمۃ اللہ نے حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے بھی دیدار الہٰی ثابت کیا ہے اور کہا ہے کہ جب ان کے سامنے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا قول ذکر کیا گیا تو یہ ان پر ناگراں گزرا.“

فِي كِتَابِ السُّنَّةِ عَنِ الْمَرْوَزِيِّ قُلْتُ لِأَحْمَدَ إِنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ مَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللَّهِ الْفِرْيَةَ فَبِأَيِّ شَيْءٍ يُدْفَعُ قَوْلُهَا قَالَ بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَيْتُ رَبِّي قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهَ وَسَلَّمَ أَكْبَرُ مِنْ قَوْلِهَا“ (فتح الباري فی شرح صحیح بخاری لابن حجر جلد 8 صفحہ 485 ، الرقم 4855، مكتبة الشاملة جلد 8 صفحہ 608-609)
”کتاب السنۃ میں بیان ہے المَروزِي (المتوفى: 294ھ) نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا کے لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کہا کرتی تھیں "جو کوئی بھی کہے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خدا کو دیکھا اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا" اس کا کیسے جواب دیا جائے؟ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بذات خود یہ کہنا کہ رَأَيْتُ رَبِّي ان کے قول کا جواب ہے کیوں کے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قول حضرت عائشہ سلام اللہ علیھا کے قول سے اوپر ہے، بڑا ہے.“

”وَإِذَا صَحَّتِ الرِّوَايَاتُ عن بن عَبَّاسٍ فِي إِثْبَاتِ الرُّؤْيَةِ وَجَبَ الْمَصِيرُ إِلَى إِثْبَاتِهَا فَإِنَّهَا لَيْسَتْ مِمَّا يُدْرَكُ بِالْعَقْلِ وَيُؤْخَذُ بِالظَّنِّ وَإِنَّمَا يُتَلَقَّى بِالسَّمَاعِ وَلَا يَسْتَجِيزُ أَحَدٌ أَنْ يَظُنَّ بِابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ تَكَلَّمَ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ بِالظَّنِّ وَالِاجْتِهَادِ وَقَدْ قَالَ مَعْمَرُ بن راشد حين ذكر اختلاف عائشة وبن عباس ما عائشة عندنا بأعلم من بن عباس ثم ان بن عباس أثبت شيئا نفاه غيره وَالْمُثْبِتُ مُقَدَّمٌ عَلَى النَّافِي“ (شرح النووي على مسلم جلد 3 صفحہ 5 ، ایضاً مکتبہ الشاملہ)
اور جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کی صحیح حدیث سے ثابت ہو گیا (کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خدا کو دیکھا) تو ہم یہ گمان نہیں کر سکتے کہ انہوں نے یہ بات خود سے کہی ہو گی، یقیناً انہوں نے یہ بات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھ کر کہی. معمر بن ارشد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے ان دو مختلف اقوال کے متعلق کہتے ہیں کہ اس بات کا علم حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو نہ تھا جبکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو تھا. تو جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ بات ثابت کر رہے ہیں اور دوسرے اس بات کی نفی تو اصول یہ ہے کہ مثبت (ثبوت) مقدم ہے نفی پر.

علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا نے اپنے موقف کی تائید میں کوئی حدیث مرفوع پیش نہیں کی بلکہ محض اپنے قیاس اور اجتہاد سے کام لیا ہے . اس پر ہو سکتا ہے یہ اعتراض کیا جائے کہ صحیح مسلم جس کی شرح علامہ نووی کر رہے ہیں، اسی کے اگلے صفحے پر حدیث مرفوع موجود ہے جس میں ام المومنین نے فرمایا کہ میں نے اس بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جبرئیل امین تھے تو شارحِ مسلم علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کیسے اس بات کا انکار کیا . اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ حضرت صدیقہ نے” ولقد راہ بالافق المبین “ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا اور حضور نے فرمایا کہ وہ جبرئیل ہیں اور یہ بلاشبہ درست ہے ، کیونکہ یہ آیات سورہ تکویر کی ہے اور وہاں حضرت جبرئیل کا ہی ذکر ہے . ارشاد ربانی ہے ” وانہ لقول رسول کریمo ذی قوۃ عند ذی العرش مکنo مطاع ثم امینo وما صاحبکم بمجنونo ولقد راہ بالافق المبینo (التکویر81:19-23) یہ سارا ذکر جبرئیل امین کا ہے . ہم پہلے بتا آئے ہیں کہ حضو ر کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں ان کی اصلی صورت میں دیکھنے کی خواہش کی، تو آپ آسمان کے افق پر نمودار ہوئے . وہ افق جہاں جبرئیل نمودار ہوئے اسے افقِ مبین کہا گیا ہے، لیکن یہاں جس افق کا ذکر ہو رہا ہے وہ ” ھو بالافق الاعلی “ ہے . آسمان اور زمین کے افق کو افق مبین تو کہہ سکتے ہیں، لیکن افقِ اعلیٰ وہ ہو گا جو تمام آفاق سے بلند تر ہو. اس لیے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہی درست ہے.

وقد تكلم عليه القاضي عياض في الشفاء، والخفاجي في شرحه والقسطلاني في شرح المواهب اللدنية، والنووي، وقال: والحاصل أن الراجح عند أكثر العلماء أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى ربه عز وجل بعيني رأسه ليلة الإسراء وإثبات هذا لا يأخذونه إلا بالسماع من رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا مما لا ينبغي أن يتشكك فيه انتهى.
قال سليمان الجمل: وحاصل المسألة أن الصحيح ثبوت الرؤية وهو ما جرى عليه ابن عباس حبر الأمة، وهو الذي يرجع إليه في المعضلات، وقد راجعه ابن عمر فأخبره بأنه رآه، ولا يقدح في ذلك حديث عائشة لأنها لم تخبر أنها سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: لم أر، وإنما اعتمدت على الاستنباط مما تقدم.
(فتح البيان في مقاصد القرآن جلد 13 صفحہ 250 مکتبہ العصریہ بیروت لبنان ، ایضاً مکتبہ الشاملہ)

”قاضی عیاض نے الشفاء میں اور شیخ شھاب الدین خفاجی نے اسکی شرح میں، امام قسطلانی نے شرح مواہب اللدنیہ اور نووی رحمۃ اللہ علیھم اجمعین میں لکھا: حاصل کلام یہ ہے کہ اکثر علماء کے نزدیک راجح یہی ہے کہ شب معراج رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر کی آنکھوں سے دیدارِ الہٰی کا شرف پایا کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما اور دیگر روایات میں اس کا ثبوت ہے اور انھوں نے اثبات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سن کر ہی کیا ہے اور اس میں کسی قسم کا شک و شبہ مناسب نہیں ہے.“
اس کے بعد صاحب فتح البیان نے حاشیہ الجمل سے شیخ جمل کی عبارت جو انھوں نے خطیب کے حوالے سے لکھی ہے بیان کی ہے انتہائی قابل توجہ ہے.
”حاصل کلام یہ ہے کہ ثبوت دیدار ہی صحیح ہے . امت کے سب سے بڑے عالم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہی مذہب ہے اور مشکلات میں انہی کی طرف رجوع ہوتا ہے. حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی نے ان سے سن کر اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا. حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے یہ رد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ نقل نہیں کیا کہ میں نے رب کو نہیں دیکھا ہے. ہاں انہوں نے خود متعدد نصوص سے استنباط کیا ہے.“

وَأَجْمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلَى أَنَّ هَذِهِ التَّوْبَةَ مَا كَانَتْ عَنْ مَعْصِيَةٍ، فَإِنَّ الْأَنْبِيَاءَ مَعْصُومُونَ. وَأَيْضًا عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ الرُّؤْيَةُ جَائِزَةٌ. (تفسیر قرطبی جلد 9 صفحہ 326، تفسير القرطبي جل 7 صفحہ 279 مکتبہ الشاملہ)
”آئمہ اس بات پر متفق ہیں کہ موسی علیہ السلام گناہ کی وجہ سے توبہ نہیں کہ کیوں کے انبیاء تو معصوم ہوتے ہیں اور اہلسنت و الجماعت کا موقف ہے کہ اللہ کا دیدار ممکن ہے.“ و اللہ اعلم

قارئین! اس ساری وضاحت کا مقصد صرف یہ تھا کہ آپ کو مرزائی دجل کا اندازہ ہو، اس کا خلاصہ یہ کہ ان آیات کی تفسیر میں اگر کسی بات کا اختلاف ہے تو وہ رؤیت خداوندی پر ہے. قارئین! یہ عقیدہ رکھنا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیدار الہی ہوا کوئی قطعی عقیدہ نہیں ہے بلکہ یہ ظنی ہے اور اس کا انکار سے کو کافر نہیں ہو جاتا. اس بحث کا آخر میں امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کے قول سے کرتا ہوں ” ہم اس معاملہ میں کوئی فیصلہ نہ کریں ، بلکہ توقف اور سکوت اختیار کریں ، کیونکہ یہ مسئلہ کوئی عملی مسئلہ نہیں جس کے کسی ایک رخ پر عمل کرنا ناگزیر ہو ، بلکہ یہ مسئلہ عقیدہ کا ہے جس میں جب تک قطعی الثبوت دلائل نہ ہوں کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا اور جب تک کسی امر میں قطعی بات نہ معلوم ہو حکم ثبوت اور توقف کا ہے “ بے شک خدا سب سے بہتر جانتا ہے.

قارئین! یہاں ایک اور اعتراض کیا جاتا ہے کہ حدیث قدسی میں آیا ہے ” قالَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ(صحیح مسلم 7113) ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل نے فرمایا میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے(جنت میں) ایسی ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں کہ جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل پر ان کا خیال گزرا“ تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جنت کیسے دیکھ لی؟
اس کا جواب یہ ہے کے مسلم اور صحیح بخاری کی حدیث میں یہ ذکر موجود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جو مشاہدات کروائے گئے وہ ان نعمتوں میں سے نہ تھے جن کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہے. صحیح مسلم جلد 4 روایت نمبر 2824 اور صحیح بخاری روایت نمبر 4780 میں جیسے بیان ہے ” . . . بَلْهَ مَا أُطْلِعْتُمْ عَلَيْهِ “ کے مذکورہ نعمتیں ان کے علاوہ ہیں جن پر تمہیں مطلع کیا گیا ہے.
نیز مرزا قادیانی لکھتا ہے
” احادیث میں تو اس قدر اس کا بیان ہے کہ جس کا باستیفاء ذکر کرنا موجب تطویل ہو گا بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنا چشم د ید ماجرا بیان فرماتے ہیں کہ ’’مجھے دوزخ دکھلایا گیا تو میں نے اکثر اُس میں عورتیں دیکھیں اور بہشت دکھلایا گیا تو میں نے اکثر اُس میں فقراء دیکھے‘‘ (روحانی خزائن . کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 281)
مزید یہ کہ مرزا قادیانی کے یہ الفاظ ”خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنا چشم د ید ماجرا بیان فرماتے ہیں ...“ اس بات پر شاہد ہیں کے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو معراج مع جسم ہوئی تھی تبھی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جنت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا. مزید یہ کے اس حدیث قدسی میں ” وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ “ کے الفاظ ہیں کہ ”کسی دل میں ان (نعمتوں) کے متعلق خیال تک نہ گزرا“ اور بالفرض معراج کو کشفی بھی مان لیا جاے تو بھی کشف میں بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو دیکھا تو اس متعلق ظاہر ہے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خیال تو گزرا اس لیے مرزائی جماعت کا یہاں سے دلیل پکڑنا محال ہے.
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
بارگاہ الٰہی میں بے شمار عطیات کے علاوہ تین خاص انعامات مرحمت ہوئے جن کی عظمتوں کو اﷲ و رسول کے سوا اور کون جان سکتا ہے.
(۱) سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں. (۲) یہ خوشخبری کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی امت کا ہر وہ شخص جس نے شرک نہ کیا ہو بخش دیاجائے گا. (۳) امت پر پچاس وقت کی نماز. جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان خداوندی عطیات کو لے کر واپس آئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ سے عرض کیاکہ آپ کی امت سے ان پچاس نمازوں کا بار نہ اٹھ سکے گا لہٰذا آپ واپس جائے اور اﷲ تعالیٰ سے تخفیف کی درخواست کیجئے. چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے چند بارآپ بارگاہ الٰہی میں آتے جاتے اور عرض پرداز ہوتے رہے یہاں تک کہ صرف پانچ وقت کی نمازیں رہ گئیں اور اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے فرمایا کہ میرا قول بدل نہیں سکتا. اے محبوب ! آپ کی امت کے لیے یہ پانچ نمازیں بھی پچاس ہوں گی. نمازیں تو پانچ ہوں گی مگر میں آپ کی امت کو ان پانچ نمازوں پر پچاس نمازوں کااجرو ثواب عطا کروں گا. پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عالم ملکوت کی اچھی طرح سیر فرما کر اور آیات الٰہیہ کا معائنہ و مشاہدہ فرما کر آسمان سے زمین پر تشریف لائے اور بیت المقدس میں داخل ہوئے اور براق پر سوار ہو کر مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوئے. راستہ میں آپ نے بیت المقدس سے مکہ تک کی تمام منزلوں اور قریش کے قافلہ کو بھی دیکھا. ان تمام مراحل کے طے ہونے کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مسجد حرام میں پہنچ کر چونکہ ابھی رات کا کافی حصہ باقی تھا سو گئے اور صبح کو بیدار ہوئے اور جب رات کے واقعات کا آپ نے قریش کے سامنے تذکرہ فرمایا تو رؤسائے قریش کو سخت تعجب ہوا یہاں تک کہ بعض کو رباطنوں نے آپ کو جھوٹا کہا اور بعض نے مختلف سوالات کیے چونکہ اکثر رؤسائے قریش نے بار بار بیت المقدس کو دیکھا تھا اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کبھی بھی بیت المقدس نہیں گئے ہیں اس لیے امتحان کے طور پر ان لوگوں نے آپ سے بیت المقدس کے درودیوار اور اس کی محرابوں وغیرہ کے بارے میں سوالوں کی بوچھاڑ شروع کر دی. اس وقت اﷲ تعالیٰ نے فوراً ہی آپ کی نگاہ نبوت کے سامنے بیت المقدس کی پوری عمارت کا نقشہ پیش فرما دیا. چنانچہ کفار قریش آپ سے سوال کرتے جاتے تھے اور آپ عمارت کو دیکھ دیکھ کر ان کے سوالوں کا ٹھیک ٹھیک جواب دیتے جاتے تھے.(بخاری کتاب الصلوٰۃ، کتاب الانبیاء ،کتاب التوحید، باب المعراج وغیرہ مسلم باب المعراج و شفاء جلد۱ ص ۱۸۵ و تفسیر روح المعانی جلد ۱۵ ص ۴تا ص ۱۰ وغیرہ کا خلاصہ)
مرزائی شبہ
” صحیح بخاری میں مذکور مندرجہ ذیل حدیث پوری وضاحت سے یہ ثابت کر رہی ہے کہ یہ سارا نظارہ روحانی تھا. اس ‏حدیث کے شروع میں کہا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجدِ حرام میں سو رہے تھے. آپ کی آنکھیں تو بند تھیں ‏لیکن دل جاگ رہا تھا. پھر اس حدیث کا اختتام ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ پھر حضور جاگ گئے اور آپ مسجدِ حرام میں ہی ‏تھے. چنانچہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ سارا نظارہ دل نے دیکھا جو جاگ رہا تھا جبکہ آنکھیں سورہی تھیں.‏” و ھو نائم فی المسجد الحرام ... یریٰ قلبہ و تنام عینہ ولا ینام قلبہ ... واستیقظ و ‏ھو فی المسجد الحرام “‏اور آپ مسجدِ حرام میں سو رہے تھے ... آپ کا دل دیکھ رہاتھا اور آپ کی آنکھیں سو رہی تھیں لیکن دل نہیں سورہا ‏تھا ... اور آپ بیدار ہوئے تو مسجدِ حرام میں تھے.“ (بخاری کتاب التوحید) “
الجواب
یہ روایت یوں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ مَسْجِدِ الْكَعْبَةِ أَنَّهُ جَاءَهُ ثَلاَثَةُ نَفَرٍ قَبْلَ أَنْ يُوحَى إِلَيْهِ وَهْوَ نَائِمٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، فَقَالَ أَوَّلُهُمْ أَيُّهُمْ هُوَ فَقَالَ أَوْسَطُهُمْ هُوَ خَيْرُهُمْ‏.‏ فَقَالَ آخِرُهُمْ خُذُوا خَيْرَهُمْ‏.‏ فَكَانَتْ تِلْكَ اللَّيْلَةَ، فَلَمْ يَرَهُمْ حَتَّى أَتَوْهُ لَيْلَةً أُخْرَى فِيمَا يَرَى قَلْبُهُ، وَتَنَامُ عَيْنُهُ وَلاَ يَنَامُ قَلْبُهُ وَكَذَلِكَ الأَنْبِيَاءُ تَنَامُ أَعْيُنُهُمْ وَلاَ تَنَامُ قُلُوبُهُمْ، فَلَمْ يُكَلِّمُوهُ حَتَّى احْتَمَلُوهُ فَوَضَعُوهُ عِنْدَ بِئْرِ زَمْزَم...الی آخر الحدیث
”ہم سے عبد العزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا ‘ ان سے شریک بن عبداللہ بن ابی نے بیان کیا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے وہ واقعہ بیان کیا جس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد کعبہ سے معراج کے لیے لے جایا گیا کہ وحی آنے سے پہلے آپ کے پاس فرشتے آئے . آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجدالحرام میں سوئے ہوئے تھے . ان میں سے ایک نے پوچھا کہ وہ کون ہیں ؟ دوسرے نے جواب دیا کہ وہ ان میں سب سے بہتر ہیں تیسرے نے کہا کہ ان میں جو سب سے بہتر ہیں انہیں لے لو . اس رات کو بس اتنا ہی واقعہ پیش آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد انہیں نہیں دیکھا . یہاں تک کہ وہ دوسری رات آئے جب کہ آپ کا دل دیکھ رہا تھا اور آپ کی آنکھیں سو رہی تھیں . لیکن دل نہیں سو رہا تھا . انبیاء کا یہی حال ہوتا ہے . ان کی آنکھیں سوتی ہیں لیکن ان کے دل نہیں سوتے . چنانچہ انہوں نے آپ سے بات نہیں کی . بلکہ آپ کو اٹھا کر زمزم کے کنویں کے پاس لائے . ..“

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد الحرم میں معراج والی رات سے پہلی رات سو رہے تھے تو ان کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اس اگلی رات یعنی معراج والی رات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اٹھایا جاتا ہے اور ان کو زمزم کے کنویں کے پاس لایا جاتا ہے. یہاں سے آگے سفر اسراء اور معراج بیان ہوئے ہیں اور جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی واپسی ہوتی ہے تو حدیث کے الفاظ ہیں ” قَالَ فَاهْبِطْ بِاسْمِ اللَّهِ “ (موسی علیہ السلام) نے کہا کہ پھر اللہ کا نام لے کر اتر جاؤ . اور پھر راوی کے الفاظ ہیں قَالَ وَاسْتَيْقَظَ وَهْوَ فِي مَسْجِدِ الْحَرَامِ‏. پھر جب آپ بیدار ہوئے تو مسجد الحرام میں تھے . اس سے مراد یہ ہے کہ چونکہ معراج رات کے قلیل وقت میں ہوئی تھے تو جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم واپس آئے تو وہ دوبارہ سو گئے. اس بات کا جواب امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں اور امام بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ نے عمدۃ القاری میں دیا ہے.

امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ ” فاستقیظ و ھو فی المسجد الحرام “ کے تحت فرماتے ہیں
قَوْلُهُ فَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَإِنْ حُمِلَ عَلَى ظَاهِرِهِ جَازَ أَنْ يَكُونَ نَامَ بَعْدَ أَنْ هَبَطَ مِنَ السَّمَاءِ فَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَجَازَ أَنْ يُؤَوَّلَ قَوْلُهُ اسْتَيْقَظَ أَيْ أَفَاقَ مِمَّا كَانَ فِيهِ فَإِنَّهُ كَانَ إِذا اوحي إِلَيْهِ يسْتَغْرق فِيهِ فَإِذَا انْتَهَى رَجَعَ إِلَى حَالَتِهِ الْأُولَى فَكَنَّى عَنْهُ بِالِاسْتِيقَاظِ. (فتح الباری فی شرح صحیح بخاری جلد 13 صفحہ 489 )
”راوی کا قول ہے کہ پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیدار ہوئے تو آپ مسجد حرام میں تھے اس قول کا ظاہر پر حمل کرنا جائز ہے اور اس کی تاویل بھی کی جا سکتی ہے. ظاہر پر حمل کریں گئے تو کہیں گے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آسمان سے واپس تشریف لا کر مسجد حرام میں سو گئے پھر جب بیدار ہوئے تو مسجد الحرام میں ہی تھے. اور اگر تاویل کریں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جب معراج کے حال سے افاقہ ہوا تو آپ مسجد حرام میں تھے کیونکہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وحی ہوتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس میں مستغرق ہو جاتے تھے، جب وحی ختم ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حالت استغراق سے افاقہ ہو جاتا تھا. بالکل یہی کیفیت معراج کے وقت ہوئی کہ جب تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معراج میں رہے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وہ استغراق کا حال طاری رہا جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد الحرام میں واپس تشریف لائے تو وہ حالت زائل ہو گئی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہلی حالت کی طرف لوٹ آئے. راوی نےاستیقظکہہ کر اس سے کنایہ کیا ہے.

امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے آگے چل کر اسی بارے میں امام قرطبی کا قول نقل کیا ہے جس کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ بیدار ہونا اس نیند سے ہے جو معراج سے واپس تشریف لا کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمائی تھی. کیونکہ معراج تمام رات نہیں ہوئی وہ تو بہت ہی قلیل ترین وقت میں واقع ہوئی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معراج سے واپس تشریف لا کر مسجد حرام میں سو گئے صبح اٹھے تو مسجد میں ہی جلوہ گر تھے.ملاحظہ ہو

قَوْله: واستيقظ أَي رَسُول الله وَالْحَال أَنه فِي الْمَسْجِد الْحَرَام. قَالَ الْقُرْطُبِيّ: يحْتَمل أَن يكون استيقاظاً من نومَة نامها بعد الْإِسْرَاء، لِأَن إسراءه لم يكن طول ليلته وَإِنَّمَا كَانَ بَعْضهَا، وَيحْتَمل أَن يكون الْمَعْنى: أَفَقْت مِمَّا كنت فِيهِ مِمَّا خامر بَاطِنه من مُشَاهدَة الْمَلأ الْأَعْلَى لقَوْله تَعَالَى: {لَقَدْ رَأَى مِنْءَايَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى} فَلم يرجع إِلَى حَال بشريته إلاَّ وَهُوَ بِالْمَسْجِدِ الْحَرَام، وَأما قَوْله فِي أَوله: بَينا أَنا نَائِم فمراده فِي أول الْقِصَّة وَذَلِكَ أَنه كَانَ قد ابْتَدَأَ نَومه فَأَتَاهُ الْملك فأيقظه. وَفِي قَوْله فِي الرِّوَايَة الْأُخْرَى: بَينا أَنا بَين النَّائِم وَالْيَقظَان. أَتَانِي الْملك، إِشَارَة إِلَى أَنه لم يكن استحكم فِي نَومه. (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد نمبر 15 صفحہ نمبر 260)
احتمال ہے کہ استیقظ بمعنی افاقہ ہو کیونکہ ملاءِ اعلیٰ اور آیات کبرٰی کے مشاہدہ کا حال حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایسا غالب تھا کہ بشریت اور عالم اجسام کی طرف سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بالکل غیر متوجہ ہو گئے تھے. حتی کہ مسجد حرام پہنچنے تک یہی عالم رہا. جب مسجد میں جلوہ گر ہوئے تو حال بشریت کی طرف رجوع فرمایا اور حالت سابقہ سے افاقہ ہوا. اس افاقے کو راوی نے استیقظ سے تعبیر کیا اور کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ملاءِ اعلیٰ اور آیات کبرٰی کے حال سے افاقہ ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد حرام میں تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قول مبارک میں سویا ہوا تھا تو اس سے شب معراج میں جبرئیل علیہ السلام کے آنے سے پہلے خواب استراحت فرمانا ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جبرائیل علیہ السلام کے آنے سے قبل سو رہے تھے جبرئیل علیہ السلام نے آ کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جگایا. اور روایت میں جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قول مبارک آیا ہے کہ ” انا بین النائم و الیقظان اتاتی الملک “ میں سونے جاگنے کے درمیان تھا کہ میرے پاس جبرائیل آئے، اس کا مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو معراج کرانے کے لیے جس وقت جبرئیل علیہ السلام حاضر ہوئے تو اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نیند مبارک ایسی ہلکی اور خفیف تھی کہ جسے سونے جاگنے کی درمیانی حالت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے.
جب جبرئیل علیہ السلام آئے تو انہوں نے اس خفیف نیند سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بیدار کیا اور اس کے بعد بیداری میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معراج پر تشریف لے گئے.
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
معراج کے جسمانی ہونے پر چند دلائل

قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے
سبحن الذي اسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام الى المسجد الاقصا الذي برکنا حوله لنريه من ايتنا انه هو السميع البصير “(بنی اسرائیل 1)
”پاک ہے وہ جو لے گیا بندہ اپنے کو ایک رات مسجد الحرام سے تا مسجد اقصی وہ مسجد کہ برکت دی ہم نے ارد گرد اس کے تاکہ دکھائیں ہم اسے نشانیاں اپنی یقیناً وہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔“

24cz5oy.jpg

(ترجمہ از میر محمد اسحاق قادیانی)

اس آیت کے پہلے لفظ یعنی ” سبحان “میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے کہ معراج جسمانی تھی کیونکہ یہ لفظ تعجب اور کسی عظیم الشان امر کے لئے استعمال ہوتا ہے اگر معراج صرف روحانی بطور خواب کے ہوتی تو اس میں کون سی عجیب بات ہے خواب تو ہر مسلمان بلکہ ہر انسان دیکھ سکتا ہے کہ میں آسمان پر گیا فلاں فلاں کام کئے .

اس آیت کا لفظ ”اسرى“ بھی جسمانی معراج پر دلالت کرتا ہے. اسری رات کے عام حصہ کی سیر کو کہتے ہیں اور روح اور جسم کے مجموعے پر بولا جاتا ہے اور یہ صرف روح کے معانی میں نہیں آتا ہے.
حضرت لوط علیہ السلام کو ارشاد ہوتا ہے ” فأسر بأهلك بقطع من الليل واتبع أدبارهم ولا يلتفت منكم أحد وامضوا حيث تؤمرون(الحجر 15:65) ” پس آپ اپنے گھر والوں کو رات کے کسی حصے میں لے کر نکل جائیں اور خود ان کے پیچھے پیچھے چلیں اور تم میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے اور پس جہاں تمہیں حکم دیا جاتا ہے چلے جاؤ “ (سورۃ ھود 11:81) میں بھی حضرت لوط علیہ السلام کو یہی ارشاد ہوتا ہے.
حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ کا حکم ہوتا ہے ” ولقد أوحينا إلى موسى أن أسر بعبادي فاضرب لهم طريقا في البحر يبسا لا تخاف دركا ولا تخشى(طه 20:77) ” اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جا، پھر ان کے لیے دریا میں لاٹھی مار کر خشک رستہ بنا دو پھر تم کو نہ تو فرعون کے آپکڑنے کا خوف ہو گا اور نہ غرق ہونے کا ڈر“ ” فأسر بعبادي ليلا إنكم متبعون(الدخان 44:23) ” حکم ہوا کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل پڑو، تمہارا پیچھا کیا جائے گا “ ” وأوحينا إلى موسى أن أسر بعبادي إنكم متبعون(الشعراء 26:52) ” اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جاؤ کہ تمہارا پیچھا کیا جانے والا ہے “ ان سب مقامات پر اسری کو روح اور جسد کے مجموعے پر بولا گیا ہے.

اسی طرح آیت میں موجود لفظ ” عبد “ (بندہ) کا اطلاق صرف روح پر نہیں ہوتا بلکہ روح اور جسد کے مجموعہ پر اسے بولا جاتا ہے. قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی یہ لفظ آیا ہے ہر جگہ اس سے مراد روح مع الجسد ہے .

قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے” ما زاغ البصر وما طغى o لقد رأى من آيات ربه الكبرى(النجم 53:17-18)
”اسکی آنکھ نے کجی نہیں کی اور غلطی نہیں کھائی ضرور اپنے رب کے بڑے بڑے نشانات دیکھے“


2d15w5y.jpg

(ترجمہ: حقائق الفرقان از حکیم مولوی نور الدین مرزائی خلیفہ اوّل)

لفظ ” البصر “ کا اطلاق خواب میں یہ کشف میں دیکھنے پر نہیں ہوتا. اس سے واضح ہوا کہ معراج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا وہ آپ کا عینی مشاہدہ تھا اور یہ معراج صرف روحانی نہیں بلکہ جسمانی بھی تھی.

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل النبوۃ میں ایک طویل حدیث حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے. حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا يَا رَسُولَ اللهِ، كَيْفَ أُسْرِيَ بِكَ؟ ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ کو معراج کیسے کرائی گئی؟“ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معراج کا پورا سفر سنایا اور اس کے بعد کہتے ہیں” ثُمَّ أَتَيْتُ أَصْحَابِي قَبْلَ الصُّبْحِ بِمَكَّةَ، فَأَتَانِي أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَيْنَ كُنْتَ اللَّيْلَةَ فَقَدِ الْتَمَسْتُكَ فِي مَكَانِكَ. فَقَالَ: عَلِمْتَ أَنِّي أَتَيْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ اللَّيْلَةَ…ھذا إسناد صحیح “ ” اس کے بعد میں صبح ہونے سے قبل اپنے اصحاب کے پاس مکہ واپس بھی آگیا. چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گذشتہ رات آپ کہاں تھے؟ میں نے آپ کو آپ کی جگہ تلاش کیا تو آپ کو وہاں نہیں پایا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آج رات میں بیت المقدس گیا ہوا تھا...اس حدیث کی سند صحیح ہے “ (دلائل النبوة للبيهقي جلد 2 صفحہ 355-357 مکتبہ دار الکتب علمیہ بیروت ، ایضاً مکتبہ الشاملہ)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں
” قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَمَّا كَانَ لَيْلَةُ أُسْرِيَ بِي ، وَأَصْبَحْتُ بِمَكَّةَ ، فَظِعْتُ بِأَمْرِي ، وَعَرَفْتُ أَنَّ النَّاسَ مُكَذِّبِيَّ " . فَقَعَدَ مُعْتَزِلًا حَزِينًا“ قَالَ : فَمَرَّ عَدُوُّ اللَّهِ أَبُو جَهْلٍ ، فَجَاءَ حَتَّى جَلَسَ إِلَيْهِ ، فَقَالَ لَهُ كَالْمُسْتَهْزِئِ : هَلْ كَانَ مِنْ شَيْءٍ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " نَعَمْ " قَالَ : مَا هُوَ ؟ قَالَ " إِنَّهُ أُسْرِيَ بِي اللَّيْلَةَ " ، قَالَ : إِلَى أَيْنَ ؟ ، قَالَ : " إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ ؟ " ، قَالَ : ثُمَّ أَصْبَحْتَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْنَا ؟ ! ، قَالَ : " نَعَمْ " ، قَالَ : فَلَمْ يُرِ أَنَّهُ يُكَذِّبُهُ ، مَخَافَةَ أَنْ يَجْحَدَهُ الْحَدِيثَ إِذَا دَعَا قَوْمَهُ إِلَيْهِ ، قَالَ : أَرَأَيْتَ إِنْ دَعَوْتُ قَوْمَكَ تُحَدِّثُهُمْ مَا حَدَّثْتَنِي ؟ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " نَعَمْ "
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ شب معراج کا واقعہ ذکر کرتے ہوئے) فرمایا کہ جس رات مجھے معراج ہوئی اور صبح کے وقت میں واپس مکہ مکرمہ بھی پہنچ گیا تو مجھے یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ لوگ میری بات کوتسلیم نہیں کریں گے، اس لئے میں سب سے الگ غمگین ہو کر بیٹھ گیا، اتفاقاوہاں سے دشمن خداابوجہل کا گذر ہوا ، وہ آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا اور استہزائیہ انداز میں پوچھنے لگا کہیے کوئی نئی بات ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ہاں. اس نے پوچھا کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ آج رات مجھے سیر کرائی گئی. ابوجہل نے پوچھا کہاں تک پہنچے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بیت المقدس تک. (ابو جہل نے پوچھا) پھر صبح ہمارے درمیان واپس بھی پہنچ گئے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں. ابوجہل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فوری طور پر تکذیب کرنا مناسب نہ سمجھاتا کہ اگر وہ قریش کو بلا کر لائے تو وہ اپنی بات سے پھر ہی نہ جائیں (نعوذ باللہ!) اور کہنے لگا کہ اگر میں لوگوں کو بلاؤں تو کیا آپ ان کے سامنے بھی یہ بات بیان کر سکیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں !
فَقَالَ : هَيَّا مَعْشَرَ بَنِي كَعْبِ بْنِ لُؤَيٍّ ، حتي قَالَ : فَانْتَفَضَتْ إِلَيْهِ الْمَجَالِسُ ، وَجَاءُوا حَتَّى جَلَسُوا إِلَيْهِمَا ، قَالَ : حَدِّثْ قَوْمَكَ بِمَا حَدَّثْتَنِي ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي أُسْرِيَ بِي اللَّيْلَةَ " ، قَالُوا : إِلَى أَيْنَ ؟ قال : " إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ " ، قَالُوا : ثُمَّ أَصْبَحْتَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْنَا ؟ ! قَالَ : " نَعَمْ " ، قَالَ : فَمِنْ بَيْنِ مُصَفِّقٍ ، وَمِنْ بَيْنِ وَاضِعٍ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ ، مُتَعَجِّبًا لِلْكَذِبِ زَعَمَ ! ! قَالُوا : وَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَنْعَتَ لَنَا الْمَسْجِدَ ؟ وَفِي الْقَوْمِ مَنْ قَدْ سَافَرَ إِلَى ذَلِكَ الْبَلَدِ ، وَرَأَى الْمَسْجِدَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " فَذَهَبْتُ أَنْعَتُ ، فَمَا زِلْتُ أَنْعَتُ حَتَّى الْتَبَسَ عَلَيَّ بَعْضُ النَّعْتِ " ، قَالَ : " فَجِيءَ بِالْمَسْجِدِ وَأَنَا أَنْظُرُ حَتَّى وُضِعَ دُونَ دَارِ عِقَالٍ أَوْ عُقَيْلٍ فَنَعَتُّهُ ، وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ " ، قَالَ " وَكَانَ مَعَ هَذَا نَعْتٌ لَمْ أَحْفَظْهُ " ، قَالَ : " فَقَالَ الْقَوْمُ : أَمَّا النَّعْتُ ، فَوَاللَّهِ لَقَدْ أَصَابَ "
یہ سن کر اس نے آوازلگائی اے گروہ بنوکعب بن لوئی! ابوجہل کی آواز پرلگی ہوئی مجلسیں ختم ہوگئیں اور سب لوگ ان دونوں کے پاس آکر بیٹھ گئے. پھر ابو جہل نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا کہ آپ نے مجھ سے جو بات بیان فرمائی ہے، وہ اپنی قوم کے سامنے بھی بیان کر دیجئے. نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے آج رات سیر کرائی گئی ہے. لوگوں نے پوچھا کہاں تک؟ فرمایا بیت المقدس تک. لوگوں نے کہا کہ پھر آپ صبح کے وقت ہمارے درمیان واپس بھی پہنچ گئے؟! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں . یہ سن کر کوئی تالی بجانے لگا اور کوئی اپنے سر پر ہاتھ رکھنے لگا، کیونکہ ان کے خیال کے مطابق ایک جھوٹی بات پر انہیں تعجب ہو رہا تھا ، پھر وہ کہنے لگا کہ کیا آپ ہمارے سامنے مسجداقصی کی کیفیت بیان کر سکتے ہیں ؟ دراصل اس وقت لوگوں میں ایک ایسا شخص موجود تھا جووہاں کا سفر کر کے مسجداقصی کو دیکھے ہوئے تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے مسجداقصی کی کیفیت بیان کرنا شروع کی اور مسلسل بیان کرتا ہی چلا گیا ، یہاں تک کہ ایک موقع پر مجھے کچھ التباس ہونے لگا تو مسجداقصی کو میری نگاہوں کے سامنے کردیا گیا اور ایسا محسوس ہوا کہ مسجداقصی کو داعقال یا دار عقیل کے پاس لا کر رکھ دیا گیا ہے، چنانچہ میں اسے دیکھتا جاتا اور بیان کرتاجاتا، اس میں کچھ چیزیں ایسی بھی تھیں جو میں پہلے یاد نہیں رکھ سکا تھا ، لوگ یہ سن کر کہنے لگے کہ کیفیت توبخدا! انہوں نے صحیح بیان کی ہے . (مسند أحمد جلد 3 صفحہ251-252 مکتبہ دار الحدیث قاہرہ، مسند احمد جلد 5 صفحہ 28 مکتبہ الشاملہ)

مسند احمد میں ہے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ ثُمَّ جَاءَ مِنْ لَيْلَتِهِ فَحَدَّثَهُمْ بِمَسِيرِهِ وَبِعَلَامَةِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَبِعِيرِهِمْ فَقَالَ نَاسٌ قَالَ حَسَنٌ نَحْنُ نُصَدِّقُ مُحَمَّدًا بِمَا يَقُولُ فَارْتَدُّوا كُفَّارًا ... وَرَأَى الدَّجَّالَ فِي صُورَتِهِ رُؤْيَا عَيْنٍ لَيْسَ رُؤْيَا مَنَامٍ ... الی آخر الحدیث (مسند احمد جلد 3 صفحہ477-478 روایت نمبر 3546 مکتبہ دار الحدیث قاہرہ ، مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 476-477 روایت نمبر 3546، مکتبۃ الشاملہ)
”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج بیت المقدس کی سیر کرائی گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی رات واپس بھی آ گئے اور قریش کو اپنے جانے کے متعلق اور بیت المقدس کی علامات اور ان کے ایک قافلے کے متعلق بتایا، کچھ لوگ یہ کہنے لگے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس بات کی کیسے تصدیق کر سکتے ہیں، یہ کہہ کر وہ دوبارہ کفر کی طرف لوٹ گئے...اسی شب معراج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا نہ کہ خواب میں.“

امام بیہقی رحمۃ اللہ دلائل النبوۃ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے ایک روایت لائے ہیں
أَ خْبَرَنَا أَبُو سَهْلٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْمِهْرَانِيُّ الْمُزَكِّي ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ الْفَقِيهُ بِبَغْدَادَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْهَيْثَمِ الْقَاضِي أَبُو الأَحْوَصِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْمِصِّيصِيُّ . ح وَحَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي مُكْرَمُ بْنُ أَحْمَدَ الْقَاضِي ، قَالَ : حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْهَيْثَمِ الْبَلَدِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الصَّنْعَانِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ رَاشِدٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : " لَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى أَصْبَحَ يَتَحَدَّثُ النَّاسُ بِذَلِكَ ، فَارْتَدَّ نَاسٌ مِمَّنْ كَانُوا آمَنُوا بِهِ وَصَدَّقُوهُ ، وَسَعَوْا بِذَلِكَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، فَقَالُوا : هَلْ لَكَ فِي صَاحِبِكَ ؟ يَزْعُمُ أَنَّهُ أُسْرِيَ بِهِ فِي اللَّيْلِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ ، قَالَ : أَوَ قَالَ ذَلِكَ ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : لَئِنْ كَانَ قَالَ ذَلِكَ لَقَدْ صَدَقَ ، قَالُوا : وَتُصَدِّقُهُ أَنَّهُ ذَهَبَ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ ، وَجَاءَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، إِنِّي لأُصَدِّقُهُ بِمَا هُوَ أَبْعَدُ مِنْ ذَلِكَ : أُصَدِّقُهُ بِخَبَرِ السَّمَاءِ فِي غُدْوَةٍ أَوْ رَوْحَةٍ ، فَلِذَلِكَ سُمِّيَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقَ" ( دلائل النبوۃ للبیہقی جلد 2 صفحہ 360 ، ایضاً مکتبہ الشاملہ)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ جس رات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد الاقصی تک سیر کی اس سے اگلی صبح جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات لوگوں میں ذکر کیا تو بہت سے لوگ مرتد ہو گئے جو اس سے پہلے با ایمان اور (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی) تصدیق کرنے والے تھے. کچھ لوگ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کیا آپ کو اپنے صاحب کے بارے میں کچھ معلوم ہے وہ یہ دعوی کر رہے ہیں کہ وہ راتوں رات بیت المقدس سے ہو کر مکہ واپس آ گئے ہیں. حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کیا واقعی انہوں نے یہ بات کہی ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں بالکل کہی ہے. حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا پھر میں شہادت دیتا ہوں کہ اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے تو سچ ہے! لوگوں نے کہا کیا آپ تصدیق کرتے ہیں کے وہ ایک ہی رات میں شام تک چلے گئے اور واپس مکہ صبح ہونے سے پہلے آ گئے؟ انہوں نے کہا جی ہاں! میں ان کی تصدیق اس سے دور مسافت پر بھی کرتا ہوں کیونکہ میں اس کی تصدیق آسمانوں کی خبر کی صبح و شام کرتا ہوں. راوی کہتے ہیں اسی معاملے کے بعد ان کا لقب صدیق مشہور ہو گیا.
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تفسیر طبری میں امام ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں
وَالصَّوَابُ مِنَ الْقَوْلِ فِي ذَلِكَ عِنْدَنَا أَنْ يُقَالَ: إِنَّ اللَّهَ أَسْرَى بِعَبْدِهِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى، كَمَا أَخْبَرَ اللَّهُ عِبَادَهُ، وَكَمَا تَظَاهَرَتْ بِهِ الْأَخْبَارُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ اللَّهَ حَمَلَهُ عَلَى الْبُرَاقِ حِينَ أَتَاهُ بِهِ، وَصَلَّى هُنَالِكَ بِمَنْ صَلَّى مِنَ الْأَنْبِيَاءِ وَالرُّسُلِ، فَأَرَاهُ مَا أَرَاهُ مِنَ الْآيَاتِ، وَلَا مَعْنَى لِقَوْلِ مَنْ قَالَ: أَسْرَى بِرُوحِهِ دُونَ جَسَدِهِ، لِأَنَّ ذَلِكَ لَوْ كَانَ كَذَلِكَ لَمْ يَكُنْ فِي ذَلِكَ مَا يُوجِبُ أَنْ يَكُونَ ذَلِكَ دَلِيلًا عَلَى نُبُوَّتِهِ، وَلَا حُجَّةَ لَهُ عَلَى رِسَالَتِهِ، وَلَا كَانَ الَّذِينَ أَنْكَرُوا حَقِيقَةَ ذَلِكَ مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ، وَكَانُوا يَدْفَعُونَ بِهِ عَنْ صِدْقِهِ فِيهِ، إِذْ لَمْ يَكُنْ مُنْكَرًا عِنْدَهُمْ، وَلَا عِنْدَ أَحَدٍ مِنْ ذَوِي الْفِطْرَةِ الصَّحِيحَةِ مِنْ بَنِي آدَمَ [ص: 447] أَنْ يَرَى الرَّائِي مِنْهُمْ فِي الْمَنَامِ مَا عَلَى مَسِيرَةِ سَنَةٍ، فَكَيْفَ مَا هُوَ عَلَى مَسِيرَةِ شَهْرٍ أَوْ أَقَلَّ؟ وَبَعْدُ فَإِنَّ اللَّهَ إِنَّمَا أَخْبَرَ فِي كِتَابِهِ أَنَّهُ أَسْرَى بِعَبْدِهِ، وَلَمْ يُخْبِرْنَا أَنَّهُ أَسْرَى بِرُوحِ عَبْدِهِ، وَلَيْسَ جَائِزًا لِأَحَدٍ أَنْ يَتَعَدَّى مَا قَالَ اللَّهُ إِلَى غَيْرِهِ. (تفسير الطبري جلد 5 صفحہ 6-7 ، تفسير الطبري جلد 14 صفحہ 446 مکتبہ شاملہ)
ہمارے نزدیک صحیح بات یہی ہے کہ اللہ نے اپنے بندے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک رات میں لے گیا جیسا کہ اللہ نے اپنے بندوں کو خبر دی ہے. اور جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احادیث مبارکہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بخکم اللہ آپ کو براق پر سوار کروا کر وہاں لے جایا گیا جہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انبیاء اور رسل کے ساتھ نماز پڑھی اور اللہ نے آپ کو اپنی نشانیاں دکھائیں. اور اس آدمی کی بات کا کوئی مطلب نہیں جو کہتا ہے کہ آپ کی صرف روح کو جسم کے بغیر لے جایا گیا. کیونکہ اگر ایسا تھا تو پھر اس میں ایسی کوئی چیز نہیں جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت کی دلیل بن سکے اور نہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کی کوئی حجت ہو گی اور نہ ہی اُس صورت میں مشرکین کے (معراج کے) انکار کی کوئی وجہ بنتی ہے بلکہ کسی بھی صحیح فطرت والے آدمی کے لئے یہ بات انہونی نہیں ہے کہ کوئی آدمی خواب میں ایسی جگہ دیکھ لے جو ایک سال کی مسافت پر ہو، چہ جائے کہ ایسی جگہ جو ایک مہینے یا اس سے کم مسافت پر ہو؟ اور اللہ نے اپنی کتاب میں فرمایا ” أسرى بعبده “ وہ اپنے بندے کو لے گیا، اللہ نے ہرگز یہ نہیں فرمایا ” أسرى بروح عبده “ کے وہ اپنے بندے کی روح کو لے گیا. اور کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اللہ کی بات سے تجاوز کرکے کسی اور بات کی طرف جائے.

امام ابن جریر طبری رحمۃ اللہ کے متعلق مرزا قادیانی لکھتا ہے: وہ نہایت معتبر اور ائمہ حدیث میں سے ہیں.(روحانی خزائن جلد 23 چشمہ معرفت صفحہ 261) اور : ابن جریر طبری رئیس المفسرین ہیں. ( روحانی خزائن جلد 5 آئینہ کمالات اسلام صفحہ 168)

امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں
ذَهَبَ إِلَى أَنَّ الْإِسْرَاءَ وَالْمِعْرَاجَ وَقَعَا فِي لَيْلَةٍ وَاحِدَةٍ فِي الْيَقَظَةِ بِجَسَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرُوحِهِ بَعْدَ الْمَبْعَثِ وَإِلَى هَذَا ذَهَبَ الْجُمْهُورُ مِنْ عُلَمَاءِ الْمُحَدِّثِينَ وَالْفُقَهَاءِ وَالْمُتَكَلِّمِينَ وَتَوَارَدَتْ عَلَيْهِ ظَوَاهِرُ الْأَخْبَارِ الصَّحِيحَةِ (فتح الباري لابن حجر جلد7 صفحہ 338 الحدیث 3886 ،فتح الباري لابن حجر جلد 7 صفحہ 197 مکتبہ الشاملہ)
جمہور علماء، محدثین، فقہا و متکلمین کا یہ مذہب ہے اور متواتر و صحیح روایات اس پر شاہد ہیں کہ اسرا اور معراج ایک ہی رات جاگتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روح و جسم کے ساتھ ہوئی.

علامہ محمد بن احمد مالکی قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر قرطبی میں لکھتے ہیں:
ذَهَبَ مُعْظَمُ السَّلَفِ وَالْمُسْلِمِينَ إِلَى أَنَّهُ كَانَ إِسْرَاءً بِالْجَسَدِ وَفِي الْيَقَظَةِ، وَأَنَّهُ رَكِبَ الْبُرَاقَ بِمَكَّةَ، وَوَصَلَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَصَلَّى فِيهِ ثُمَّ أُسْرِيَ بِجَسَدِهِ. وَعَلَى هَذَا تَدُلُّ الْأَخْبَارُ الَّتِي أَشَرْنَا إِلَيْهَا وَالْآيَةُ. وَلَيْسَ فِي الْإِسْرَاءِ بِجَسَدِهِ وَحَالِ يَقَظَتِهِ اسْتِحَالَةٌ، وَلَا يُعْدَلُ عَنِ الظَّاهِرِ وَالْحَقِيقَةِ إِلَى التَّأْوِيلِ إِلَّا عِنْدَ الِاسْتِحَالَةِ، وَلَوْ كَانَ مَنَامًا لَقَالَ «بِرُوحِ عَبْدِهِ» وَلَمْ يَقُلْ «بِعَبْدِهِ». وَقَوْلُهُ« مَا زاغَ الْبَصَرُ وَما طَغى» (النجم) يَدُلُّ عَلَى ذَلِكَ. وَلَوْ كَانَ مَنَامًا لَمَا كَانَتْ فِيهِ آيَةٌ وَلَا مُعْجِزَةٌ، وَلَمَا قَالَتْ لَهُ أُمُّ هَانِئٍ: ”لَا تحدث الناس فيكذبوك“، والأفضل أَبُو بَكْرٍ بِالتَّصْدِيقِ، وَلَمَا أَمْكَنَ قُرَيْشًا التَّشْنِيعُ وَالتَّكْذِيبُ، وَقَدْ كَذَّبَهُ قُرَيْشٌ فِيمَا أَخْبَرَ بِهِ حَتَّى ارْتَدَّ أَقْوَامٌ كَانُوا آمَنُوا، فَلَوْ كَانَ بِالرُّؤْيَا لَمْ يُسْتَنْكَرْ.... قوله تعالى: « سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا » وَلَا يُقَالُ فِي النَّوْمِ أَسْرَى. وَأَيْضًا فَقَدْ يُقَالُ لِرُؤْيَةِ الْعَيْنِ: رُؤْيَا، عَلَى مَا يَأْتِي بَيَانُهُ فِي هَذِهِ السُّورَةِ. وَفِي نُصُوصِ الْأَخْبَارِ الثَّابِتَةِ دَلَالَةٌ وَاضِحَةٌ عَلَى أَنَّ الْإِسْرَاءَ كَانَ بِالْبَدَنِ، وَإِذَا وَرَدَ الْخَبَرُ بِشَيْءٍ هُوَ مُجَوَّزٌ فِي الْعَقْلِ فِي قُدْرَةِ اللَّهِ تَعَالَى فَلَا طَرِيقَ إِلَى الْإِنْكَارِ، لَا سِيَّمَا فِي زَمَنِ خَرْقِ الْعَوَائِدِ، وَقَدْ كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَارِجُ، فَلَا يَبْعُدُ أَنْ يَكُونَ الْبَعْضُ بِالرُّؤْيَا “۔(تفسیر قرطبی جلد 13 صفحہ 11تا12 مطبوعہ مؤسسة الرسالة۔ تفسیر قرطبی جلد 10 صفحہ 208 تا 209 مطبوعہ دارلکتب المصریہ آن لائن)
”اور عظیم اسلاف اور مسلمانوں نے یہ نظریہ اپنایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معراج جسم کے ساتھ حالت بیداری میں ہوئی ، اور یہ بے شک آپ مکہ مکرمہ سے براق پر سوار ہوئے اور آپ بیت المقدس تک پہنچے ، وہاں پر نماز پڑھی پھر وہاں سے جسم کے ساتھ معراج پر لے جایا گیا ۔ اور معراج کے جسم کے ساتھ اور حالت بیداری میں ہونے میں استحالہ نہیں ہے ، اور ظاہر اور حقیقت سے تاویل کی طرف عدول تب کیا جاتا ہے جب کوئی استحالہ لازم آئے ، اور اگر یہ خواب ہوتی تو اللہ تعالیٰ کہتا : بروح عبدہ (اپنے بندے کی روح کو) اور یہ نہ کہتا بعبدہ ۔ اور قول باری تعالیٰ مَا زاغَ الْبَصَرُ وَما طَغى (النجم) اس پر دلالت کرتا ہے۔ اور اگر یہ خواب ہوئی تو اس میں کوئی نشانی اور معجزہ نہ ہوتا ، اور حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا آپ کو یہ نہ کہتیں: ”آپ لوگوں کے سامنے بیان نہ کریں وہ آپ کو جھٹلا دیں گے“۔ اور نہ اس کے سبب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو فضیلت دی جاتی اور نہ قریش کے لئے تشبیع و تکذیب ممکن ہوتی ، حالانکہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس بارے خبر دی تو قریش نے آپ کو جھٹلا یا حتیٰ کہ کچھ لوگ مرتد ہوگئے جو ایمان لا چکے تھے ۔ پس اگر یہ خواب ہوتی تو کوئی اس کا انکار نہ کرتا....قول خداوندی ہے سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا اور حالت خواب کے سفر کو أسری نہیں کہا جاتا ۔ اور یہ بھی کہ رؤیۃ العین یعنی آنکھ کے ساتھ دیکھنے کو بھی رؤیا کہا جاتا ہے۔ اور اخبار ثابتہ کی نصوص میں اس پر واضح دلالت ہے کہ معراج بدن کے ساتھ ہوتی ، اور جب ایک شے کے بارے میں خبر کے بارے میں خبر بھی وارد ہو ، عقل بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہونے کو جائز قرار دیتی ہو تو پھر اس کے انکار کی کوئی وجہ نہیں ، بالخصوص خلاف عادات امور کے زمانہ میں ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس قول کو محمول کیا جائے گا “۔

شرح عقائد نسفی میں ہے:
والمعراج لرسول الله عليه الصلاة والسلام في اليقظة بشخصه إلى السماء، ثم إلى ما شاء الله تعالى من العلى حقٌ....وقوله: (بشخصه) إشارة إلى الرد على من زعم أنه كان للروح فقط “۔(شرح عقائد نسفی صفحہ 95،96 مطبوعہ مکتبہ الکلیات الازہریہ قاہرہ)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی معراج بیداری میں ان کے جسدِ مقدس کے ساتھ آسمان تک پھر وہاں سے جس بلندی تک جہاں تک اللہ تعالیٰ نے چاہا حق ہے...اور یہ کہنا ” بشخصه “ اس طرف اشارہ ہے اور ان کے زعم کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ معراج صرف روح کو ہوئی۔

امام قسطلانی رحمۃ اللہ مواہب الدنیہ میں لکھتے ہیں:
رأي الجمهور:فالحق: أنه إسراء واحد، بروحه وجسده يقظة، فى القصة كلها. إلى هذا ذهب الجمهور من علماء المحدثين والفقهاء والمتكلمين، وتواردت عليه ظواهر الأخبار الصحيحة، ولا ينبغى العدول عن ذلك، إذ ليس في العقل ما يحيله “۔(مواہب الدنیہ جلد 3 صفحہ 12 مطبوعہ مکتب الاسلامی، مطبوعہ مکتبہ توفیقیہ مصر جلد 2 صفحہ 429)
جمہور کی رائے: حق یہ ہے کہ واقعہ معراج ایک ہی ہے اور آپ کو یہ معراج بیداری کے عالم میں روح اور جسم کے ساتھ ہوا۔ محدثین، فقہا اور متکلمین میں سے جمہور علماء کا یہی موقف ہے اور صحیح روایات کا ظاہر یہی بات ہے اور اس سے پھر نا مناسب نہیں، کیونکہ عقلی طور پر اس سے پھرنے کی کوئی دلیل نہیں۔

قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ لکھتے ہیں:
وَذَهَبَ مُعْظَمُ السَّلَفِ وَالْمُسْلِمِينَ إِلَى أنَّهُ إِسْرَاءٌ بِالْجَسَدِ وَفِي اليَقْظَةِ وَهَذَا هُوَ الْحَقُّ وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ وَأَنَسٍ وَحُذَيْفَةَ وَعُمَرَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَمَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ وَأَبِي حَبَّةَ الْبَدْرِيِّ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَالضَّحَّاكِ وَسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَقَتَادَةَ وَابْنِ الْمُسَيِّبِ وَابْنِ شِهَابٍ وَابْنِ زَيْدٍ وَالْحَسَنِ وَإبْرَاهِيمِ وَمَسْرُوقٍ وَمُجَاهِدٍ وَعِكْرمَةَ وَابْنِ جُرَيْجٍ وَهُوَ دَلِيلُ قَوْلِ عَائِشَةَ وَهُوَ قَوْلُ الطَّبَرِيِّ وَابْنُ حَنَبْلٍ وَجَماعَةٍ عظيمة مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْمُتَأَخِّرِينَ مِنَ الْفُقَهَاءِ وَالْمُحَدِّثِينَ وَالْمُتَكَلِّمِينَ وَالْمُفَسِّرِينَ...وَ قَالَ المؤلف وَالْحَقُّ مِنْ هَذَا وَالصَّحِيحُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ أَنَّهُ إِسْرَاءٌ بِالْجَسَدِ وَالرُّوحِ فِي الْقِصَّةِ كُلِّهَا وَعَلَيْهِ تَدُلٌّ الآيَةُ وَصَحِيحُ الْأَخْبَارِ وَالاعْتِبَارُ وَلَا يُعْدَلُ عَنِ الظَّاهِرِ وَالْحَقِيقَةِ إِلَى التَّأْوِيلِ إِلَّا عِنْدَ الاسْتِحَالَةِ وَلَيْسَ فِي الْإِسْرَاءِ بِجَسَدِهِ وَحَالِ يَقْظَتِهِ اسْتِحَالَةٌ. إِذْ لَوْ كَانَ مَنَامًا لَقَالَ بِرُوحِ عَبْدِهِ وَلَمْ يَقُلْ بِعَبْدِهِ وَقَوْلُهُ تَعَالَى (مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طغى) وَلَوْ كَانَ مَنَامًا لَمَا كَانَتْ فِيهِ آيَةٌ وَلَا مُعْجِزَةٌ وَلَمَا اسْتَبْعَدَهُ الْكُفَّارُ وَلَا كَذَّبُوهُ فِيهِ وَلَا ارتد به ضعفاء من أسلم وافتتنوا به إذ مثل هذا من المنامات لا ينكر بل لم يكن ذلك منهم إلا وقد عَلِمُوا أَنَّ خَبَرَهُ إِنَّمَا كَانَ عَنْ جِسْمِهِ وَحَالِ يَقْظَتِهِ “۔(الشفا بتعريف حقوق المصطفی جلد 1 صفحہ 188،189 مطبوعہ دارالفکر، مطبوعہ دوبئی صفحہ238)
سلف اور مسلمانوں کی بڑی بڑی ہستیاں اس جانب گئی ہیں کہ معراج جسم کیساتھ اور بیداری میں ہوئی اور یہ قول حق ہے اور یہی حضرت ابن عباس، جابر، انس، حذیفہ، عمرہ، ابوہریرہ، مالک بن صعصعہ، ابو حبہ بدری، ابن مسعود، ضحاک، سعید بن جبیر، قتادہ، ابن المسیّب، ابن شہاب، ابنِ زید، حسن بصری، ابراہیم، مسروق، مجاہد، عکرمہ اور ابن جریر رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین جیسے حضرات کا قول ہے۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا قول بھی اسی جانب دلالت کرتا ہے۔ یہی امام ابن جریر طبری، امام احمد بن حنبل اور مسلمانوں کی عظیم جماعت کا قول ہے۔ اور متاخرین میں سے اکثر فقہا، محدثین، متکلمین اور مفسرین کا یہی قول ہے...قاضی عیاض فرماتے ہیں اس سلسلے میں حق اور درست بات انشاء اللہ تعالیٰ یہی ثابت ہو گی کہ معراج کا سارا قصہ جسم اور روح کے ساتھ ہوا اور اس پر آیت اور صحیح و قابل اعتبار احادیث دلالت کرتی ہیں۔ ظاہر معنی اور حقیقت سے پھرا نہیں جاتا جب تک وہ بات محال ہو۔ تو جسم کے ساتھ اور بیداری کی حالت میں معراج ہونا محال کب ہے؟۔ علاوہ بریں اگر یہ خواب کی بات ہوتی تو فرمایا جاتا کہ بِرُوحِ عَبْدِهِ (اپنے بندے کی روح کو)اور بِعَبْدِهِ (اپنے بندے کو)نہ فرمایا جاتا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے تو مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طغىٰ فرمایا ہے۔ اگر یہ خواب کی بات ہوتی تو نہ اس میں کوئی نشانی تھی، نہ معجزہ۔ دریں حالات کفار اس کو بعید جان کر انکار نہ کرتے اور کمزور ایمان والے مسلمان مرتد نہ ہوتے اور فتنے میں پڑتے۔ چونکہ خواب کی ایسی باتوں کا انکار نہیں کیا جاتا لہٰذا وہ بھی انکار نہ کرتے۔ بات یہ ہے کہ وہ جان گئے تھے کہ(واقعات معراج کی)خبر دینا جسمانی اور بیداری کی حالت میں ہے۔

حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ تفسیر ابن کثیر میں راقمطراز ہیں:
وَالْحَقُّ أَنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ أُسْرِيَ بِهِ يَقَظَةً لَا مَنَامًا مِنْ مَكَّةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ رَاكِبًا الْبُرَاقَ. (تفسیر ابن کثیر جلد 5 صفحہ 42 ، تفسیر ابن کثیر جلد 5 صفحہ 40 مکتبہ شاملہ)
حق بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جاگتے میں نہ کہ خواب میں مکہ شریف سے بیت المقدس تک کی اسرا کرائی گئی اس وقت آپ براق پر سوار تھے“۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات میں ہے
محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ محبوب رب العالمین ست وبہترین موجودات اولین وآخرین باوجودآنکہ بدولت معراج بدنی مشرف شد واز عرش وکرسی درگزشت وازامکان وزمان بالارفت “ (مکتوبات ام ربانی حصہ پنجم دفتر اول صفحہ 14 مکتوب نمبر 272)
محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم جو کہ رب العالمین کے محبوب اور تمام موجودات اولین وآخرین سے افضل ہیں ، جسمانی معراج سے مشرف ہوئے اورعرش وکرسی سے آگے گزر گئے اورمکان وزمان سے اوپر چلے گئے.

قارئین! مرزا قادیانی بھی معراج کے جسمانی ہونے پر صحابہ کرام کے اجماع کو تسلیم کرتا ہے ذرا ملاحظ ہو:

آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے رفع جسمی کے بارہ میں یعنی اس بارہ میں کہ وہ جسم کے سمیت شب معراج میں آسمان کی طرف اُٹھائے گئے تھے تقریبًا تمام صحابہ کا یہی اعتقاد تھا جیسا کہ مسیح کے اُٹھائے جانے کی نسبت اس زمانہ کے لوگ اعتقاد رکھتے ہیں یعنی جسم کے ساتھ اُٹھائے جانا اور پھر جسم کے ساتھ اترنا لیکن پھر بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اِس بات کو تسلیم نہیں کرتیں اور کہتی ہیں کہ وہ ایک رویا صالحہ تھی اور کسی نے حضرت عائشہ صدیقہ کا نام نعوذ باللہ مُلحد ہ یا ضالہ نہیں رکھا اور نہ اجماع کے برخلاف بات کرنے سے اُنہیں ٹوٹ کر پڑ گئے. اب اے منصفو! اے حق کے طالبو! اے خدائے تعالیٰ سے ڈرنے والے بندو! اس مقام میں ذرہ ٹھہر جاؤ!!اور آہستگی اور تدبّر سے خوب غور کرو کہ کیا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمان پر جسم کے ساتھ چڑھ جانا اور پھر جسم کے ساتھ اُترنا ایسا عقیدہ نہیں ہے جس پر صدر اوّل کا اجماع تھا؟اوربعض صحابی جو اس اجماع کے مخالف قائل ہوئے کسی نے اُن کی تکفیر نہیں کی. نہ اُن کا نا مؔ مُلحد اور ضال اور مأوّل مخطی رکھا. پھر یہ بھی دیکھنا چاہیئے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جسمانی معراج کا مسئلہ بالکل مسیح کے جسمانی طورپر آسمان پر چڑھنے اورآسمان سے اُترنے کا ہمشکل ہے اورایک ہمشکل مقدمہ کے بارہ میں بعض صحابہ جلیلہ کا ہماری رائے کے مطابق رائے ظاہرکرنا درحقیقت ایک دوسرے پیرایہ میں ہماری رائے کی تائید ہے یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمانی معراج کی نسبت انکارکرنا درحقیقت اور درپردہ مسیح کے جسمانی رفع و معراج سے بھی انکار ہے۔“ (روحانی خزائن جلد 3 اِزالہ اوھام: صفحہ 248)
یہاں مرزا قادیانی نے معراج کو اور رفع مسیح علیہ السلام کو ہمشکل قرار دے دیا یعنی جو معراج جسمانی کا اقرار کرتا ہے وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے جسمانی رفع کا بھی اقرار کرتا ہے۔ مرزا قادیانی نے خود اجماع صحابہ رضوان اللہ اجمعین کا ذکر کیا ہے کہ صحابہ کرام کا اس پر اجماع تھا کہ معراج مع جسم ہوئی تھی۔

صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے اجماع کی اہمیت و حیثیت کیا ہے؟
مرزا قادیانی لکھتا ہے. ”صحابہ کا اجماع وہ چیز ہے جس سے انکار نہیں ہو سکتا .“ (روحانی خزائن جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 376) ”صحابہ کااجماع حجّت ہے جو کبھی ضلالت پر نہیں ہوتا.“ (روحانی خزائن جلد ۱۵- تریَاق القلوُب: صفحہ 461)
قادیانی آرٹیکل میں لکھا ہوا ہے
”حضرت عائشہ صدیقہؓ خدا کی قسم کھا کر بیان فرماتی ہیں کہ معراج میں حضور کا جسم غائب نہیں ہوا تھا.’وَ اللّٰہِ مَا فُقِدَ جَسَدَ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَلٰکِن عُرِجَ بِرُوحِہ (تفسیر کشّاف)اللہ کی قسم (معراج میں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم غائب نہیں ہوا تھا بلکہ آپ کی روح کے ذریعے معراج ہوئی تھی.“

مرزا قادیانی اور اس کی ذریت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا عقیدہ ایک ضعیف روایت پر بتایا ہے جو ہرگز ان کا عقیدہ نہیں.
اس روایت کی سند یوں ہے حَدَّثَنَا ابْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَلَمَةُ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي بَعْضُ آلِ أَبِي بَكْرٍ (تفسیر کشاف و ابن جریر الطبری وغیرہ) یہ روایت اصول ِحدیث کی رو سے ضعیف و مردود ہے. ایک راوی محمد بن حميد بن حيان ہے جو متروک الحدیث ہے. اس میں بعض آل ابی بکر راوی مجہول محض ہے، اس کا کوئی اَتا پتہ معلوم نہیں. ایسے مجہول العین راوی کی روایت ضعیف و مردود ہوتی ہے اور یہ حجت نہیں رکھتیں. امام زرقانی رحمه اللہ لکھتے ہیں:
وحديثها هذا ليس بالثابت عنها انتهى، يعني لما في متنه من العلة القادحة، وفي سنده من انقطاع وراو مجهول. وقال ابن دحية في التنوير: إنه حديث موضوع عليها، وقال في معراجه الصغير: قال إمام الشافعية أبو العباس بن سريج: هذا حديث لا يصح، وإنما وضع ردًا للحديث الصحيح “(شرح زرقانی جلد 8 صفحہ 7 المقصد الخامس مطبوعہ دار الکتب علمیہ بیروت، آن لائن)
یعنی یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت نہیں کیونکہ یہ محلول المتن و سند ہے اور اس کی سند منقطع و ایک راوی مجہول ہے۔ اور ابن وحیہ نے تنویر میں کہا یہ یہ حدیث موضوع ہے اور معراج صغیر میں کہا ہے کہ امام الشافعیہ ابو العباس بن سریج یہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں بلکہ معراج جسمانی کی تردید میں وضع کی گئی ہے ۔

علاوہ ازین مفسرین و محدثین نے اس روایت کا جواب یوں دیا ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا معراج مبارک کی سرعت اور اس کی قلیل ترین وقت میں ہونے کو بیان فرمارہی ہیں کہ حضور علیہ السلام کا آنا جانا اس قدر تیزی اور سرعت کے ساتھ واقع ہوا کہ گویا جسم مبارک گم ہونے ہی نہیں پایا تو یہ معنی دیگر روایات کے مطابق ہو کر صحیح قرار پائیں گے.
شرح عقائد نسفی میں ہے:
والمعنى ما فقد جسده عن الروح، بل كان مع روحه وكان المعراج للروح والجسد جميعاً “۔(شرح عقائد نسفی صفحہ 96 مطبوعہ مکتبہ الکلیات الازہریہ قاہرہ)
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے جسم کو روح سے جدا نہیں پایا بلکہ آپ کا جسم اقدس روح کے ساتھ تھا اور معراج شریف جسم اور روح کے مجموعہ کو ہوا۔
حضرت عائشہ کا صحیح عقیدہ
امام زرقانی رحمه اللہ لکھتے ہیں:
بل الذي يدل عليه صحيح قولها: إنه بجسده الشريف لإنكارها رؤيته لربه رؤية عين، ولو كانت عندها لم تنكره “(شرح زرقانی جلد 8 صفحہ 7 المقصد الخامس مطبوعہ دار الکتب علمیہ بیروت، آن لائن)
یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کا قول صحیح و مذہب یہ ہے کہ معراج جسمانی ہوئی کیونکہ وہ رؤیت بصری کی منکر تھیں اور اگر ان کا مذہب معراج روحانی ہوتا تو رؤیت بصری سے انکار نہ کرتیں۔


ایک اور مرزائی دجل

اُس آرٹیکل میں ایک اور دھوکہ یہ دیا گیا ہے کہ سورۃ بنی اسرائیل کی آیات 90-96 میں بیان کچھ کفار مکہ کے مطالبات اور ان کے جواب کو سفر معراج پر محمول کیا گیا ہے حالانکہ وہ بعد کا واقعہ ہے. اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ ان آیات میں خدا نے نفی قوتِ بشریت کی ہے نہ کہ نفی قوت خداوندی کی. دیکھیں ( ابن کثیر،خازن وغیرہ)
 
Top