• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

کیا بہاء ا للّہ واقعاً ” من یظھرہ ا للّہ ‘ ‘ ہیں ؟

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
کیا بہاء ا للّہ واقعاً ” من یظھرہ ا للّہ ‘ ‘۔ ۔ ۔ ۔ ہیں ؟


یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے بارے میں اگر صحیح معلومات حاصل کرنا ہے تو دو پہلوں کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے ایک اسکے گھر کے اندر کا کردار گھروالوں کی زبانی اور ایک گھر کے باہر تاکہ اندرونی اور بیرونی دونوں کردار کا پتہ چل جائے۔اور جو نکتے دونوں میں مشترک پائے جائیں وہی انسان کا صحیح کردار ہوا کرتے ہیں ورنہ ہر صاف وشفاف کپڑا پہننے والا صاف کردار کا مالک نہیں ہوتا بالکل اسی طرح جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوا کرتی۔ تو آئیے مرزا حسین علی بہاء اللہ بہا ئی حضرات کے خود ساختہ نبی کے حالات انکی ہمشیرہ محترمہ کی زبانی دیکھیں۔

جناب مرزا حسین علی نوری ملقب بہ بہاء اللہ کی ایک ہمشیرہ عمہ خانم فاضلہ عورتوں میں سے تھیں۔بہاء کے فرزند ارجمند عباس آفندی ملقب بہ عبد البہاء نے اپنی عمہّ محترمہ ممدوحہ کو ایک خط لکھا۔جو ”لوح عمہّ“کے نام سے مشہور ہے۔ اسمیں انہوں نے انکو اپنی تصرف کیلئے بلایا۔ ممدوحہ نے اس کا جواب دیا۔ جس کا نام ” تنبیہ النائمین“ہے۔حاجی مفتون کے اپنی کتاب ”باب و بہاء رابشناسید“ کے صفحہ۱۱۹۔۔۱۱۳(سات صفحوں کا خط) نقل کیا ہے۔ جسکاخلاصہ مندرجہ ذیل ہے۔فرماتی ہیں”قرةالعین نے جناب مرا کو لقب بہاء دیا میرے بھائی مرزا حسین علی کے دماغ میں شروع تحریک ہی سے ریاست و جہانگیر کا خیال تھا۔ اسلئے انہوں نے ناصر الدین شاہ ایران پر گولی چلوائی۔ تاکہ یہ تخت ایران پر بیٹھ جائیں۔پھر اپنی طبعیت کی مجبوری سے سلیما نیہ میں چلے گئے۔ پھر وہاں تنگ ہوئے تو ازل کو خط لکھا۔ کہ مجھے اپنے گھر کا مچھر مکھی سمجھے۔ ازل نے بلایا پھر انہوں نے بابیوں کو گانٹھا۔ پھر بیرو نجات سے باب کے نوشتجات اپنے پاس منگوائے تاکہ وہ لوگوں کے پاس نہ رہیں۔


جناب بہاء کو پوری عمر مرض فتق ھمر کاب رھا۔ اور ہاتھ کا رعشہ دامنگیر رھا۔ وہ ان امراض کو اپنی ذات سے دور نہ کرسکے تو وہ انسانوں کے امراض مزمنہٴ نفسانیہ کا علاج کیونکر کر سکتے تھے۔ اور سُن عبدالبہاء تمہارے والد اور میرے بھائی دعو ے ” من یظہرہ“ میں راستی سے دور رہے۔ تمہارا باب اول عمر سے نقطہ (باب) کو دوروغ گو جانتا تھا۔ اور اس پر ایمان نہ رکھتا تھا ۔یا یہ کہ ایمان رکھتا تھا لیکن جب اس نے دیکھا کہ خلافت ازل کو دے دی تو اسنے تمرّد اختیار کیا اس کا ادعائے رجعت حسینی غلط تھا ۔ یہ گلابی اور اصفہانی کے گز کھاتا رہا ۔ اسے کہیں کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ اسکی مظلومیت کے قصے دوسروں کو فریب دینے کے لئے بے اصل تھے ۔ ”من یظہرہ “نہیں ننگ اسلام تھا۔۔۔۔“


بہائی حضرات کے پاس مرزا حسین علی ملقب بہ بہاء ا للّہ کے نبی ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جیسا کہ باب نے بیان میں ”من یظہرہ“ (وہ جو ظاہر ہوگا) کی پیشنگوئی دی تھی۔ وہ بہاء ا للّہ ہی ہیں۔ حالانکہ مندرجہ ذیل دلیلوں سے یہ ثابت ہے کہ ”من یظھرہ“کے دعویدار مرزا حسین علی بہاء ا للّہ ہو ہی نہیں سکتے۔


باب نے کتاب بیان میں لکھا ہے جسے بہائی حضرات نے ”کوکب ھند“ ج ۲ صفحہ ۸۲ پر لکھا ہے کہ ” وہ موعود“ ”من یظھرہ“ انکے بعد سال غیاث یا زیادہ سے زیادہ مستغیث میں ظاہر ہو گا ۔“


بہائی حضرات حروف ابجد کے حساب کے ذریعے سال نکالتے ہیں تو سال غیاث یعنی ۵۱۱ اور سال مستغیث یعنی ۲۰۰۱ بقول حکومت ایران کے دفتر کی ثبت شدہ تاریخ قتل باب ۲۸ / شعبان۱۲۶۶ء ہے اسلئے ”من یظھرہ“ کو ۲۷۷۶=۱۵۱۱+۱۲۶۶کم از کم ۲۷۷۶ء یا پھر زیادہ سے زیادہ۳۲۶۷=۲۰۰۱+۱۲۶۶/۳۲۶۷ء میں آنا چاہیے تھا جبکہ بہاء ا للّہ پیدا باب سے دو سال پہلے ہوئے تھے اور دعویٰ ”من یظھرہ“ ۱۲۸۳ء میں ہی کردیا تھا۔


بشارت دینے والا ”باب“ بعد میں آیا جسکی بشارت دی گئی ” بہاء ا للّہ“ سے یہی تو تاریخ بہائیت کا ایک مضحکہ خیز معجزہ ہے۔


باب نے بیان واحد ۶/ باب ۱۱/ میں فرمایا ” نہ چاہےئے کہ استاد بچوں کو مکتب میں مارے تاکہ ایسا نہ ہو کہ اس معلم کل”من یظھرہ“ کو ضرب لگے کیو نکہ استاد اسکو نہیں جانتا“ معلوم یہ ہوا من یظھرہ بیان کے ظہور تک مکتب میں جانے کے قابل نہ ہوا تھا۔ اور جو من یظھرہ کا دعویٰ کرتا ہے۔ اسے مکتب میں جانا ضروری ہے ۔ جبکہ باب سے بہاء اللّہ دو سال بڑے تھے۔ یعنی تقریباً تیس سال کے تھے۔ اور بہائی حضرات کے مطابق وہ نہ کسی مدرسے میں گئے اور نہ ہی کسی استاد سے تعلیم حاصل کی۔ تو پھر وہ کیونکر من یظھرہ کے مصداق ہو سکتے تھے۔


بیان واحد ۶ باب ۱۱ میں یہ بھی ہے کہ ”ہم نے انسانی نطفہ کو پاک کر دیا تاکہ من یظھرہا للّہ ناپاک نطفہ سے نہ ہوا ہو“ لیکن مرزا حسین علی تو باب کے آنے سے دو سال پہلے ہی آچکے تھے۔ اور بقولے باب نجس نطفے سے آنے والا من یظھرہ کا دعویدار نہیں بن سکتا۔ قارئین ملاحظہ فرمائیں بہائیوں کے نزدیک انسانی نطفہ یعنی منی پاک ہے۔(کتاب اقدس بہاء ا للّہ(انگریزی)صفحہ۲۱۲ نوٹ ۱۰۳ اور ۱۰۶۔


بیان واحد میں لکھا ہے کہ ” باب کے بعد دوسرا ظہور تب ظاہر ہوگا جب کہ سب لوگ بیان کی تعلیم پا چکے ہونگے۔“ باب کی زندگی میں تو بیان کا ایک ہی حصہ لکھا گیا اور باقی نو حصے صبح ازل کو لکھنے تھے۔ جو لکھے ہی نہیں گئے۔ تو تعلیم دینا درکنار اور پھر اگلے ظہور کا ظاہر ہونا خود ساختہ تو ہو سکتا ہے۔ مبشرات پر مبنی نہیں۔


باب نے بیان ہی میں من یظھرہ ا للّہ کی ایک شرط یہ بھی بیان کی تھی کہ اس سے پہلے ساری دنیا کو باب کا مذہب اختیار کرلینا چاہےئے۔ بہائی حضرات ساری دنیا تو چھوڑیں کوئی ایک شہر یا ملک بھی ایسا بتا دیں جہاں لوگوں نے بہاء ا للّہ کے ظہور سے پہلے ہی نہیں آج تک باب کا مذہب قبول کر لیا ہو۔ تو پھر من یظھرہ ا للّہ کا دعویدار سراسر کذاب مفتر ہے۔

جناب باب کی نئی شریعت کا وجود ایک ہزار سال کے بعد ضروری خیال کیا گیا اور بہاء ا للّہ نے بھی یہی کہا کہ میرے ایک ہزار سال کے بعد نیا ظہور ہو گا اور نیا دین آئیگا اور فرمایا ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کہ انھوں نے باب کے چند سال بعد ہی نئے دین اور نئی کتاب کی بنیاد ڈال دی۔


باب نے تو ”من یظھرہ اللّہ“ یعنی وہ جسے ا للّہ ظاہر کرے گا نہ کہ کرچکا ہے اور پھر ا للّہ ظاہر کریگا نہ کہ اللہ خود ظاہر ہوگا قارئین نے پچھلے مضمون میں ملاحظہ فرمایا یہ تو خود خدا بن بیٹھے تھے۔


اگر ’من یظھرہ ا للّہ“ کے اعداد حروف ابجد سے نکالے جائیں جس سے بہائی حضرات وقتاً فوقتاً فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں تو وہ اعدادکا مجموعہ بھی ۱۲۸۶ آتا ہے جبکہ نہ مرزا حسین علی کے نام کے اعداد مجموعہ ۱۲۸۶ ہوتا ہے اور نہ ہی انہوں نے ۱۲۸۶ھ میں دعوائے من یظھرہ ا للّہ کیا بلکہ۱۲۸۳ھ میں ہی کردیا تھا۔


پروفیسر براون نے مٹیریلز فور دی اسٹڈی آف بابی ریلجن میں باب کا قتل ہونے سے ایک سال پہلے۱۲۶۵ھ میں صبح ازل مرزا یحٰی نوری کو ایک وصیت نامہ لکھا تھا اسکی فوٹو کاپی اپنی کتاب میں چھاپی ہے۔ جسکی رو سے باب کے وصی تو مرزا یحٰی نوری ہوئے نہ کہ مرزا حسین علی بہاء ا للّہ۔


قارئین نے ملاحظہ فرمایا۔ کہ اندرونے خانہ یعنی بہاء ا للّہ کی بہن خود انکے من یظھرہ ا للّہ نہ ہونے بلکہ انکے اس دعوے کو جھوٹا قرار دیتی ہیں اور شریعت باب کی رو سے بھی من یظھرہ ا للّہ کے دعوے کے مصداق نہیں ٹھہرتے۔ بلکہ جو چیز سمجھ یں آتی ہے وہ یہی کہ یہ روس اور اسرائیل کی سازش کے تحت مسلمانوں کے عقائد کو فاجر کرنے کیلئے ا ٹھائے گئے تھے۔ ورنہ حقیقت کچھ اور نہ تھی۔ اور ہندووٴں کے سامنے کچھ اور کہتے ہیں۔ مسلمانوں کے سامنے کچھ اور عیسائیوں کے سامنے کچھ اور غرضیکہ حاجی مفتون یزدی نے اپنی کتاب کے صفحہ ۱۵۲ پر یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ” دو بہائی مبلغوں حاجی آخوند اور آقا جمال کے درمیان بہاء ا للّہ کی خدائی کے بارے میں نزاع ہوئی حاجی آخوند کہتا تھا کہ بہاء کے سوا کوئی خدا نہیں ۔ اسی کے دامن کو پکڑنا چاہئے۔ اور اسی سے رازو نیاز کرنا چاہئے آقا جمال کہتا تھا کہ بہاء مظھر خدا ہے اور خدائے غیب ہے مرزا حسین علی خدا کا نمائندہ ہے۔ یہ نزاع بہاء ا للّہ کے سامنے پیش ہوئی تو آپ نے فرمایا” دریائے عرفان دریائے بے پایا نے است کہ ہر کسی بر شحے ازاں بہرہ منداست اگر مقصود ازیں مناظرہ و مباحثہ القاء خلاف و نفاق و اختلاف باشد قول ہر دو مرد درست است اگر مقصود و ترویج امر و القاء موافقت باشد ہر دو مطلوب است ” یعنی مطلب یہ نکلا کہ بہاء نہ خدا ہے نہ نمائندہ خدا اور خدابھی خدا بھی ہے نمائندہ دا بھی ہے غرض یہ کہ لوگوں کو پھنساوٴ میں سبھی کچھ ہوں۔ موافقت ہوگی لوگ پھنستے جائیں گے۔“ اس موقعہ پر ایک ایک عقلمند جاہل شخص کا وہ قول یاد آیا جسکے ذریعے وہ اپنا گذر بسر کرتا تھا۔ کہ اگر تم مطمئن نہ کر پاوٴ تو مشکوک کر دو۔ اور یہی بہائی حضرات کر رہے ہیں۔ عوام کے سامنے وحدت اقوام، وحدت جنس، وحدت زبان کی تبلیغ میں جہنم بھر نے کی سازش پنہاں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے آپ کو مصلح کریں علم و یقین کے اصلحوں سے اور دشمن کے سر اٹھاتے ہی انہیں ان اصلحوں سے بغیر آواز کی چوٹ دے کر سر قلم کر دیں بار گاہ عالم و دانہ خدا میں دست بدعا ہیں کہ وہ ہمے تا حیات حق و باطل میں شناخت کی تو فیق دے اور ہمارے انجام خیر پر کرے۔ اور علماء کرام سے گذارش ہے کہ آج جب جسمانی جہاد کی عام طور پر ضرورت نہیں پڑتی تو وہ علمی جہاد پر زور دیں تا کہ تا قیامت یہ دین جسکی بنیاد حقانیت پر ہے اور جسکی میراث علم و دانش ہے زیر نہ ہونے پائے بلکہ زبر ہی رہے۔ کیونکہ تلوار اور بارود کی لگی ہوئی چوٹ کا شاید علاج ہو پائے لیکن قلم سے دی گئی چوٹ قابلہ علاج نہیں ہوا کرتی اور اس کا زخم نہ صرف گہرا ہی ہوتا ہے بلکہ ہر صدی میں ہرا رہتا ہے۔


سوائے حقانیت کے اسکا کوئی مرحم نہیں ہوا کرتا ۔ قلم کی تیزی خلوص و انکساری میں ہوا کرتی ہے۔ اور سب سے بڑی خوبی اس قلم کی تلوار میں یہ ہوا کرتی ہے کہ اسکی ضرب لگنے کے بعد دنیا میں پشیمانی کا موقعہ فراہم کرتی ہے اور دنیا و آخرت دونوں کو سنوار دیتی ہے۔ بر خلاف دھات کی بنی ہوئی تلوار کے جو ایک بار لگ جانے پر نہ صرف یہ کہ پشیمانی کا موقع نہیں دیتی بلکہ دنیا کو تو اجاڑ ہی دیتی ہے۔
 
Top