• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

آیۃ ختم نبوت کا اصل مفہوم حصہ دوئم

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

ختم نبوت اسلام کے بنیادی عقیدوں میں سے ایک عقیدہ ہے۔ اسلام میں‌کوئی ظلی یا بروزی نبوت کا تصور موجود نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث ختم نبوت کی زبردست دلیل ہیں مثلا فرمایا \"لا نبی بعدی\" میرے بعد کوئی نبی نہیں\"۔

حصہ دوئم

صحابۂ کرام کا اِجماع

قرآن و سنت کے بعد تیسرے درجے میں صحابۂ کرام کے اجماع کی ہے ۔ یہ بات تمام معتبر تاریخی روایات سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا، اور جن لوگوں نے ان کی نبوت تسلیم کی ، اُن سب کے خلاف صحابۂ کرام نے بالاتفاق جنگ کی تھی۔

اس سلسلے میں خصوصیّت کے ساتھ مُسَیلمۂ کذّاب کا معاملہ قابلِ ذکر ہے۔یہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا منکر نہ تھا بلکہ اس کا دعویٰ یہ تھا کہ اُسے شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریکِ نبوت بنایا گیا ہے۔ اُس شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے جو عریضہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو لکھا تھا اس کے الفاظ یہ ہیں:

من مُسَیْلمۃ رسول اللہ الیٰ محمدٍ رسول اللہ سلام علیک فانی اُشرِکتُ فی الامر معک(طَبَری، جلددوم، ص ۳۹۹، طبع مصر)

مُسَیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کی طرف ۔ آپ پر سلام ہو۔ آپ کو معلوم ہوکہ میں آپ کے ساتھ نبوت کے کام میں شریک کیا گیا ہوں۔

علاوہ بریں مؤرخ طَبری نے یہ روایت بھی بیان کی ہے کہ مُسَیلمہ کے ہان جو اذاں دی جاتی تھی اس میں اشھدانّ محمّدًا رسول اللہ کے الفاظ بھی کہے جاتے تھے۔ اس صریح اقرارِرسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے باوجود اسے کافر اور خارج ا ز ملت قرار دیا گیا اور اس سے جنگ کی گئی ۔ تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ بنو حنِیفیہ نیک نیتی کے ساتھ (In good faith)اُس پر ایمان لائے تھے اور انہیںواقعی اس غلط فہمی میں ڈالا گیا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خود شریکِ رسالت کیا تھا۔ نیز قرآن کی آیات کو اُن کے سامنے مُسِیلمہ پر نازل شدہ آیات کی حیثیت سے ایک ایسے شخص نے پیش کیا تھا جو مدینۂ طیّبہ سے قرآن کی تعلیم حاصل کرکے گیا تھا (البِدایۂ و النِّہایہَ لابن کثیر ، جلد ۵، ص۵۱)۔ مگر اس کے باوجود صحابۂ کرام نے ان کو مسلمان تسلیم نہیں کیا اور ان پر فوج کشی کی۔ پھر یہ کہنے کی بھی گنجائش نہیں کہ صحابہ نے ان کے خلاف ارتداد کی بنا پر نہیں بلکہ بغاوت کے جرم میں جنگ کی تھی۔ اسلامی قانون کی رُو سے باغی مسلمانوں کے خلاف اگر جنگ کی نوبت آئے تو ان کے اسیرانِ جنگ غلام نہیں بنائے جاسکتے، بلکہ مسلمان تو درکنار، ذمّی بھی اگر باغی ہوں تو گرفتار ہونے کے بعد ان کو غلام بنانا جائز نہیں ہے۔ لیکن مُسَیلمہ اور اس کے پیرووں پرجب چڑھائی کی گئی ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اعلان فرمایا کہ اُن کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا جائے گا۔ اورجب وہ لوگ اسیر ہوئے تو فی الواقع ان کو غلام بنایا گیا۔چنانچہ انہی میں سے ایک لونڈی علی رضی اللہ عنہ کے حصّے میں آئی جس کے بطن سے تاریخ اسلام کی مشہور شخصیّت محمدبن علی بن ابی طالب ( جنہیں مورخین ان کی والدہ کی نسبت سے محمد بن حنفیہ کا نام دیتے ہیں) نے جنم لیا ( البِدایہ والنہایہ ، جلد۶، ص ۳۱۶، ۳۲۵)۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جس جُرم کی بنا پر ان سے جنگ کی تھی وہ بغاوت کا جرم نہ تھا بلکہ یہ جرم تھا کہ ایک شخص نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا اور دوسرے لوگ اس کی نبوت پر ایمان لائے۔ یہ کارروائی نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ ولم کی وفات کے فوراً بعد ہوئی ہے، ابو بکررضی اللہ عنہ کی قیادت میں ہوئی ہے ، اور صحابہ کی پوری جماعت کے اتفاق سے ہوئی ہے ۔اجماع صحابہ کی اس سے زیادہ صریح مثال شاید ہی کوئی اور ہو۔

علمائے امت کا اجماع



اجماع صحابہ کے بعد چوتھے نمبر پر مسائل دین میں جو چیز کو حجت کی حیثیت حاصل ہے وہ دور صحابہ کے بعد کے علمائے اُمت کا اجماع ہے۔ اس لحاظ سے جب ہم یہ دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پہلی صدی سے لے کر آج تک ہر زمانے کے، اور پوری دنیائے اسلام میں ہر ملک کے علماء اس عقیدے پر متفق ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا ، اور یہ کہ جو بھی آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بعد اس منصب کا دعویٰ کرے ، یا اس کو مانے ، وہ کافر خارج از ملّت اسلام ہے۔ اس سلسلہ کے بھی چند شواہد ملاحظہ ہوں:

۱۔اما م ا بوحنیفہ ؓ(۸۰ھ۔ ۱۵۰ھ) کے زمانے میں ایک شخص نے بنوت کا دعویٰ کیا اور کہا ’’ مجھے موقع دوکہ میں اپنی نبوت کی علامات پیش کروں ۔‘‘ اس پر امامِ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ’’ جو شخص اس سے نبوت کی کوئی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماچکے ہیں کہ’’ لا نبی بعدی‘‘(مناقب الامام الاعظم ابی حنیفہ لا بن احمد المکی، ج ۱۔ص۱۶۱ ۔ مطبوعہ حیدرآباد ۱۳۲۱ھ)

۲۔ علاّمہ ابن جَریر طَبری (۲۲۴ھ۔ ۳۱۰ھ) اپنی مشہور تفسیر قرآن میں آیت وَلٰکِنْ رَّسُوْ لِ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّنَ کامطلب بیان کرتے ہیں : الذی ختم النبوۃ فطبع علیھا فلاتفتح لاحد بعدہٗ الیٰ قیام الساعۃ ۔ جس نے نبوت کو ختم کردیا اور اس پر مُہر لگادی، اب قیامت تک یہ دروازہ کسی کے لئے نہیں کھلے گا ‘‘ (تفسیر ابنِ جریر، جلد ۲۲، صفحہ ۱۲)

۳۔ امام طَحاوِی(۲۳۹ھ۔ ۳۲۱ھ)اپنی کتاب ’’عقیدۂ سلفیہ‘‘ میں سلف صالحین کے عقائد بیان کرتے ہوئے نبو ت کے بارے یہ عقیدہ تحریر فرماتے ہیں:’’ اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے برگزیدہ بندے ،چیدہ نبی اور پسندیدہ رسول ہیں اور وہ خاتم الانبیا ء، امام الاتقیا، سیّد المرسلین اور حبِیب ربّ العالمین ہیں، اور ان کے بعد نبوت کا ہر دعویٰ گمراہی اور خواہشِ نفس کی بندگی ہے۔‘‘ (شرح الطحاویہ فی العقیدۃ السلفیہ،دارلمعارف مصر، صفحات ۱۵،۸۷،۹۶،۱۰۰،۱۰۲)

۴۔ علّامہ ابن حَزُم اندَلُسِی (۳۸۴ھ۔ ۴۵۶ھ) لکھتے ہیں: ’’ یقیناً وحی کا سلسلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد منقطع ہوچکا ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ وحی نہیں ہوتی مگر ایک نبی کی طرف ، اور اللہ عزّوجلّ فرماچکا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نہیں ہیں تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ ، مگر وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں۔‘‘ (المحلّٰی، ج۱ ، ص ۲۶)

5۔محی السُّنَّہ بَغَوی (متوفی۵۱۰ھ)اپنی تفسیر معالم التنزیل میں لکھتے ہیں،’’اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے نبوت کو ختم کیا، پس آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم انبیاء کے خاتم ہیں .........اور ابن عباس کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (اِس آیت میں) یہ فیصلہ فرمادیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکوئی نبی نہ ہوگا۔‘‘ (جلد ۳،ص۱۵۸)

۷۔ علامہ زَمَخْشَری (۴۶۷ھ ۔ ۵۳۸ھ) تفسیر کشّاف میں لکھتے: ’’ ہیںاگر تم کہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی کیسے ہوئے جبکہ عیسیٰ ؑ آخر زمانے میں نازل ہوں گے؟ تو میں کہوں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا آخری نبی ہونا اس معنی میں ہے کہ بعد کوئی شخص نبی نہ بنایا جائے گا، اور عیسیٰ علیہ السلام اُن لوگوں میں سے ہیں جو آپ سے پہلے نبی بنائے جاچکے تھے، اور جب وہ نازل ہوں گے تو شریعت محمدیہ کے پیرو اور آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے قبیلے کی طرف نماز پڑھنے والے کی حیثیت سے نازل ہوں گے گویا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہی کی امت کے ایک فرد ہیں‘‘ ۔ (جلد ۲،ص۲۱۵)

۸۔ قاضی عیاض(متوفی ۵۴۴ھ) لکھتے ہیں:’’ جوشخص خود اپنے حق میں نبوت کا دعویٰ کرے، یا اس بات کو جائز رکھے کہ آدمی نبوت کا اکتساب کرسکتا ہے اور صفائیِ قلب کے ذریعہ سے مرتبۂ نبوت کو پہنچ سکتا ہے، جیسا کہ بعض فلسفی اور غالی صوفی کہتے ہیں ، اور اسی طرح جو شخص نبوت کا دعویٰ تو نہ کرے مگر یہ دعویٰ کرے کہ اس پر وحی آتی ہے ...... ایسے سب لوگ کافر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھٹلانے والے ہیں ۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم خاتم النبیین ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر پہنچائی ہے کہ آپ نبوت کے ختم کرنے والے ہیں اور تمام انسانوں کی طرف آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو بھیجا گیا ہے۔ اور تمام امت کا اس پر اجماع ہے کہ یہ کلام اپنے ظاہر مفہوم پر محمول ہے، اس کے معنی ومفہوم میں کسی تاویل و تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا ان تمام گروہوں کے کافر ہونے میں قطعاً کوئی شک نہیں ، بر بنائے اجماع بھی اور بر بنائے نقل بھی‘‘۔(شفاء، جلد ۲، ص۰ ۲۷۔۲۷۱)

۹۔ علامہ شہر ستانی (متوفی ۵۴۸ھ ) اپنی مشہور کتاب الملل و الِنَّحل میں لکھتے ہیں :’’ اور اسے طرح جو دکہے.......... کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا ہے (بجز عیسٰی علیہ السلام کے )تو اس کے کافر ہونے میں دو آدمیوں کی درمیان بھی اختلاف نہیںہے‘‘ (جلد ۳، ص۲۴۹)

۱۰۔ امام رازی (۵۴۳ھ۔۶۰۶ھ)اپنی تفسیرکبیر میں آیت خاتم النبیین کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ اس سلسلۂ بیان میں و خاتم النبیین اس لیے فرمایاکہ جس نبی کے بعد کوئی دوسرانبی ہووہاگر نویھت اور توضیح احکام کوئی کسر چھوڑ جائے تواس کے بعد آنے والا نبی اُ سے پورا کر سکتاہے ۔ مگر جس کے بعد کوئی آنے والا نبی نہ ہووہ اپنی امت پر زیادہ شفیق ہوتا ہے اور اس کو زیادہ واضح رہنمائی دیتا ہے کیونکہ اس کی مثال اُس باپ کی ہوتی ہے جو جانتا ہے کہاس کے بیٹے کا کوئی ولیو سرپرست اُس کے بعد نہیں ہے(جلد ۶، ص ۵۸۱)

۱۱)۔ علامہ بیضاوی (متوفی ۶۸۵ھ اپنی تفسیر انوار التنزیل مین لکھتے ہیں: ’’ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم انبیا ء میں سب سے آخری نبی ہیں جس نے ان کا سلسلہ ختم کردیا، یا جس سے انبیاء کے سلسلے پر مہر کردی گئی۔اورعیسیٰ علیہ السلام کا آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بعد نازل ہونا اس ختمِنبوت میں قاوح نہیں ہے کیونکہ جب وہ نازل ہوں گے تو آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہی کے دین پر ہوں گے‘‘ (جلد ۴ ۔ ص ۱۶۴)

۱۲)۔ علامہ حافظ الدین النَّسَفی(متوفی ۷۱۰ھ) اپنی تفسیر ’’ مدارک التنزیل ‘‘ لکھتے ہیں۔ ’’ اور آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم خاتم النبیین ہیں........ یعنی نبیوں میں سب سے آخری ۔ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بعد کوئی شخص نبی نہیں نبایا جائے گا۔ رہے عیسیٰ ؑ تو وہ اُن انبیاء میں سے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے پہلے نبی بنائے جاچکے تھے۔اوروہ جب نازل ہوں گے تو شریعتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے والے کی حیثیت سے نازل ہوں گے گویاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے افراد میں سے ہیں‘‘ (ص ۴۷۱)

۱۳)۔ علامہ علاؤالدین بغدادی(متوفی ۷۲۵ھ) اپنی تفسیر ’’ خازن‘‘ میں لکھتے ہیں:’’ وَخَا تَمَ النَّبِیّینَ، یعنی اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر نبوت ختم کردی، ان نہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ کوئی اس میں شریک..... وَکَانَاللہُ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عِلیمْاً،یعنی یہ بات اللہ کے علم میں ہے کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکوئی نبی نہیں۔‘‘ (ص۴۷۱۔۴۷۲)

۱۴)۔ علامہ ابنِ کثیر (متوفی ۷۷۴ھ)اپنی مشہور و معروف تفسیر میں لکھتے ہیں:’’ پس یہ آیت اس باب میں نص صریح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بعد نبی کوئی نہیں تو رسول درجۂ اولیٰ نہیں ہے، کیوں کہ رسالت کا منصب خاص ہے اور نبوت کا منصب عام، ہر رسول نبی ہوتا ہے مگر ہر نبی رسول نہیں ہوتا....حضور صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بعد جو شخص بھی اس مقام کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ، مفتری،دجّال، گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے خواہ وہ کیسے ہی خرق عادت اور شعبدے اور جادو اور طلسم اور کرشمے بنا کر لے آئے.... یہی حیثیت ہر اس شخص کی ہے جو قیامت تک اس منصب کا مدعی ہو‘‘۔ (جلد۳۔ص۴۹۳۔۴۹۴)

۱۵)۔ علامہ جلال الدین سُیُو طی(متوفی۹۱۱) تفسیر جلالین میں لکھتے ہیں:’’ وَکَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا،

یعنی اللہ اس بات کو جانتا ہی محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اور عیسیٰ علیہ السلام جب نازل ہوں گے تو آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی شریعت ہی کے مطاق عمل کریں گے‘‘۔(ص ۷۶۸)

۱۶)۔ علامہ انب نُجیم(متوفی ۹۷۰ھ) اُصُولِ فقہ کی مشہور کتاب الْاَشباہ والنظائر، کتاب السّیر، باب الرِّوَّہ میں لکھتے ہیں:’’ اگر آدمی یہ نہ سمجھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں تو وہ مسلمان نہیں ہے، کیوں کہ یہ اُن باتوں میں سے ہے جن کا جاننا اور ماننا ضروریاتِ دین میں سے ہے۔‘‘ (ص۱۷۹)

۱۷)۔ ملّا علی قاری(متوفی ۱۰۱۶ھ) شرح فقہ اکبر میں لکھتے ہیں:’’ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا بالا جماع کفر ہے‘‘۔(ص ۲۰۲)

۱۸)۔شیخ اسماعیل حقی(متوفی ۱۱۳۷ھ) تفسیر رُوح البیان میں اس آیت کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ عاصم نے لفظ خاتَم ت کے زبر کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی ہیں آلۂ ختم کے جس سے مہر کی جاتی ہے۔ جیسے طابع اس چیز کو کہتے ہیں جس سے ٹھپّا لگا یا جائے۔ مراد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء میں سب سے آخر تھے جن کے ذریعہ سے نبیوں کے سلسلہ پر مُہر لگادی گئی۔ فارسی میں اسے’’ مُہرپیغمبراں ‘‘ کہیں گے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے نبوت کا دروازہ سر بمُہر کردیا گیا اور پیغمبروں کا سلسلہ ختم کردیا گیا ۔ باقی قاریوں نے اسے ت کے زیر کے ساتھ خاتِم پڑھا ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم مُہر کرنے والے تھے۔ فارسی میں اس کو ’’مُہر کنندۂ پیغمبراں‘‘کہیں گے۔ اس طر ح یہ لفظ بھی خاتَم کا ہم معنی ہی ہے..... اب آپ کی اُمت کے علماء آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے صرف ولایت ہی کی میراث پائیں گے، نبوت کی میراث آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ختمیت کے باعث ختم ہوچکی۔ اور عیسیٰ علیہ السلام کا آپ کے بعد نازل ہونا آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے میں قدح نہیں ہے کیونکہ خاتم النیین ہونے کے معنی یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ بنایا جائے گا.... اور عیسیٰ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے پہلے نبی نبائے جاچکے تھے۔ اور جب وہ نازل ہوں گے تو شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے قبلے کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی امت کے ایک فرد کی طرح ہوں گے۔ نہ اُن کی طرف وحی آئے گی اور نہ وہ نئے احکم دیں گے۔ بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہوں گے...... اور اہل سنت والجماعت اس بات کے قائل ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا’’ لا نبی بعدی‘‘ اب جو کوئی کہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہے تو اس کو کافر قرار دیا جائے گا، کیونکہ اس نے نص کا انکارکیا۔ اور اسی طرح اس شخص کی بھی تکفیر کی جائے گے جو اس میں شک کرے، کیونکہ حجت نے حق کو باطل سے ممیز کردیا ہے اور جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے اس کا دعویٰ باطل کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ جلد ۲۲ ص ۱۸۸)

۱۹)۔ قتاویٰ علمگیری، جسے بارھویں صدی ہجری میں اورنگ زیب علمگیر کے حکم سے ہندوستان کے بہت سے علماء نے مرتب کیا تھا، اس میں لکھا ہے:’’ اگر آدمی یہ نہ سمجھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں تو وہ مسلم نہیں ہے۔ اور اگر وہ کہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں یا میں پیغمبر ہوں تو اس کی تکفیرکی جائے گی‘‘(جلد۲، ص۲۶۳)

۲۰)۔ علامہ شَو کافّٰی (متوفّٰی ۱۲۵۵ھ) اپنی تفسیر فتح القدیرمیں لکھتے ہیں :’’ جمہور نے لفظ خاتِم کو ت کے زیر کے ساتھ پڑھا ہے اور نے زبر کے ساتھ۔ پہلی قرأت کے معنی یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انبیاء کو ختم کیا، یعنی سب کے آخر میں آئے ۔ اور دوسری قرأت کے معنی یہ ہیں کہ آپ ان کے لیے مہر کی طرح ہو گئے جس کے ذریعہ سے ان کا سلسلہ سر بمہر ہوگیا اور جس کے شمول سے ان کا گروہ مزین ہوا‘‘(جلد ۴، ص ۲۷۵)

۲۱)۔علامہ آلوسی (متوفّٰی ۱۲۷۰ھ) تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں: ’’ نبی کا لفظ رسول کی بہ نسبت عام ہے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے سے خود بخود لازم آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم خاتم المرسلین بھی ہوں ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے خاتِم انبیاء و رُسُل ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس دُنیا میں وصفِ نبوت سے آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے متصف ہونے کے بعد اب جِنّ و انس میں سے ہر ایک کے لیے نبوت کا وصف منقطع ہوگیا۔‘‘ (جلد ۲۲۔ص۳۲) ۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو شخص وحی نبوت کا مدّعی ہوا ُسے کافر قرار دیا جائے گا۔ اس امر میں مسلمانوں کے دریان کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘ جلد۲۲ ص ۳۸) ۔’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا ایک ایسی بات ہے جسے کتاب ا للہ نے صاف صاف بیان کیا، سنّت نے واضح طور پر اس کی تصریح کی، اور امت نے اس پر اجماع کیا ۔ لہٰذا جو اس کے خلاف کوئی دعویٰ کرے اسے کافر قرار دیا جائے گا۔‘‘ (جلد ۲۲ ص ۳۹)

یہ ہندوستان سے لے کر مراکش اور اندلس تک ، اور ٹرکی سے لے کر یمن تک ہر مسلمان ملک کے اکابر علماء و فقہا ء اور مجدثین و مفسرین کی تریحات ہیں ۔ ہم نے ان کے ناموں کے ساتھ ان کے سنینِ ولادت و وفات بھی دے دیے ہیں جن سے ہر شخص بیک نظر معلوم کر سکتا ہے کہ پہلی صدی سے تیرھویں صدی تک تاریخِ اسلام کی ہر صدی کے اکابر اُن میں شامل ہیں ۔ اگرچہ ہم چودھویں صدی کے علمائے اسلام کی تصریحات بھی نقل کرسکتے تھے، مگر ہم نے قصدًا انہیں اس لیے چھوڑدیا کہ اُن کی تفسیر کے جواب میں ایک شخص یہ حیلہ کرسکتا ہے کہ ان لوگوں نے اس دور کے مدعی نبوت کی ضد میں ختمِ نبوت کے یہ معنی بیان کیے ہیں۔ اس لیے ہم نے پہلے علماء کی تحریریں نقل کی ہیں جو ظاہر ہے کہ آج کے کسی سے کوئی ضد نہ رکھ سکتے تھے۔ ان تحریروں س یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ پہلی صدی سے آج تک پوری دنیائے اسلام متفقہ طور پر ’’ خاتم النبیین ‘‘ کے معنی ’’ آخری نبی ‘‘ ہی سمجھری رہی ہے، حضور صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بعد نبوت کے دروازے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند تسلیم کرنا ہر زمانے میں تمام مسلماتوں کا متفق علیہ عقیدہ رہا ہے ، اور اس امر میں مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی اختلاف نہیں ئہا کہ جو شخص محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رسول یا نبی ہونے کا دعویٰ کرے اور جو اس کے دعوے کو مانے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔

اب یہ دیکھناہر صاحبِ عقل آدمی کا اپنا کام ہے کہ لفظ خاتم البنیین کا جو مفہوم لغت سے ثابت ہے، جو قرآن کی عبارت کے سیاق و سباق سے ظاہر ہے، جس کی تصریح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمادی ہے، جس پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے، اور جسے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے سے لے کر آج تک تمام دنیا کے مسلمان بلا اختلاف مانتے رہے ہیں، اس کے خلاف کوئی دوسرا مفہوم ،لینے اور کسی نئے مدّعی کے لیے نبوت کا دروازہ کھولنے کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے، اور ایسے لوگوں کو کیسے مسلمان تسلیم کیا جا سکتا ہے جنہوں نے بابِ نبوت کے مفتوح ہونے کا محض خیال ہی ظاہر نہیں کیا ہے بلکہ اس دروازے سے ایک صاحب حریمِ نبوت میں داخل بھی ہو گئے ہیں اور یہ لوگ ان کے نبوت پر ایمان بھی لے آئے ہیں۔
 

aliali

رکن ختم نبوت فورم
عبد و نصلی علی الرسول الکریم ۔
اما بعد:
جیسا کہ تمام مسلمانوں کو معلوم ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عموی بعثت ہی تمام شریعتوں کی خاتم ہوئی اور سلسلہ نبوت انتہاء کو پہنچا،روحانیت اپنی تمام شیون کے ساتھ جلوہ گر ہوئی وہ آگئےجو کائنات کے مظھر اتم ہوئےوہ آئے تو رحمت اظھر بن کے آئےبوجہ رحمت کے نہ کوئی مظھر باقی نہ ظھیر؛اظھر سے بڑھکر کوئی مظھر نہیں واتم کے بعد کوئی تمام نہیں۔ہو بھی تو کیسے جب وقوع کا کوئی امکان نہیں وہ رفعت میں اتنے اعلی کے بعد از خدا کوئی ایسا مقام نہیں،جن پر حق پہلے ظاہر ہو پھر ملک ایسا کوئی اعلی شان نہیں کہاں تک بیان ہو ان کی مدح ثنائی کہ خاتمیت میں شک کا کوئی گمان نہیں۔درود و سلام ہو اس آنے والے پر جس کے بعد کسی آنے والے کا کوئی مقام نہیں
سلامتی ہو ان عاملین ختم نبوت پرجن کے مشن کا کوئی خادم ناکام نہیں۔۔۔۔جاری ہے
 

بنت اسلام

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
بہت ہی عمدہ اور معلوماتی تحریر ہے -
Aliali کا تبصرہ بهی انتہا کی خوبصورتی سمیٹے ہوئے ہے.
 
Top