• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

احتسابِ قادیانیت جلدنمبر 14 میں سے حیات و نزول عیسیؑ کے قرآنی ثبوت

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانی اصول وعقائد
۱…
’’قرآن شریف کے وہ معانی وہ مطالب سب سے زیادہ قابل قبول ہوں گے۔ جن کی تائید قرآن شریف ہی میں دوسری آیات سے ہوتی ہو۔ یعنی شواہد قرآنی۔‘‘
(برکات الدعا ص۱۸، خزائن ج۶ ص۱۸)

۲…
جہاں کلام اﷲ کے معانی ومطالب میں اختلاف ہوجائے۔ وہاں رسول کریمﷺ کی تفسیر قابل قبول ہوگی۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’ فلا وربک لا یؤمنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدوا فی انفسہم حرجاً مما قضیت ویسلموا تسلیما (نسائ:۶۵) ‘‘
{یعنی اے محمدﷺ مجھے اپنی ذات کی قسم ہے کہ (یہ لوگ) مؤمن نہیں ہوسکتے۔ جب تک کہ وہ اپنے اختلافات اور جھگڑوں میں آپﷺ کو اپنا ثالث نہ بنائیں۔ پھر آپﷺ کے فیصلے کے بعد وہ اپنے دلوں میں کوئی بوجھ یا کدورت محسوس نہ کریں اور آپﷺ کے سامنے سرتسلیم خوشی کے ساتھ خم کر دیں۔}

چنانچہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
’’دوسرا معیار تفسیر رسول کریمﷺ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سب سے زیادہ قرآن کریم کے سمجھنے والے ہمارے پیارے اور بزرگ حضرت رسول اﷲﷺ تھے۔ پس اگر آنحضرتﷺ سے تفسیر ثابت ہو جائے تو مسلمان کا فرض ہے کہ بلاتوقف اور بلادغدغہ قبول کر لے۔ نہیں تو اس میں الحاد اور فلسفیت کی رگ ہے۔‘‘
(برکات الدعا ص۱۸، خزائن ج۶ ص ایضاً)

۳…
اگر قرآن اور حدیث کے سمجھنے میں اختلاف ہو جائے تو پھر صحابہ کرامؓ کی طرف رجوع ہونا چاہئے۔
چنانچہ مرزاقادیانی کا ارشاد ملاحظہ ہو۔
’’تیسرا معیار صحابہ کی تفسیر ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ صحابہؓ آنحضرتﷺ کے نوروں کے حاصل کرنے والے اور علم نبوت کے پہلے وارث تھے اور خداتعالیٰ کا ان پر بڑا فضل تھا اور نصرت الٰہی ان کی قوت مدرکہ کے ساتھ تھی۔ کیونکہ ان کا نہ صرف قال بلکہ حال تھا۔‘‘
(برکات الدعا ص۱۸، خزائن ج۶ ص ایضاً)

۴…
پھر اگر کسی وقت کلام اﷲ، حدیث رسول اﷲﷺ اور صحابہ کرامؓ کے کلام سمجھنے میں اختلاف رونما ہو جائے اور خلقت گمراہ ہونے لگے تو اﷲتعالیٰ ہر صدی میں ایسے علمائے ربانیین پیدا کرتا رہتا ہے۔ جو اختلافی مسائل کو خدا اور اس کے رسولﷺ کے حکم اور منشاء کے مطابق حل کر دیتے ہیں۔ چنانچہ رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے۔ ’’ ان اﷲ یبعث لہذہ الامۃ علیٰ رأس کل مائۃ سنۃ من یجدد لہا دینہا ‘‘
(ابوداؤد ج۲ ص۱۳۲، باب مایذکر فی قدر المائۃ)
’’یعنی اﷲتعالیٰ ہر صدی کے سر پر اس امت کے لئے ایسے علماء مفسرین پیدا کرتا رہے گا۔ جو اس کے دین کی تجدید کرتے رہیں گے۔‘‘ اس کی تائید مرزاقادیانی اس طرح کرتے ہیں:
’’جو لوگ خداتعالیٰ کی طرف سے مجددیت کی قوت پاتے ہیں وہ نرے استخواں فروش نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ واقعی طور پر نائب رسول اﷲﷺ اور روحانی طور پر آنجناب کے خلیفہ ہوتے ہیں۔ خداتعالیٰ انہیں تمام نعمتوں کا وارث بناتا ہے۔ جو نبیوں اور رسولوں کو دی جاتی ہیں۔‘‘
(فتح اسلام ص۹، خزائن ج۳ ص۷)

پھر دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’مجدد کا علوم لدنیہ وآیات سماویہ کے ساتھ آنا ضروری ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۵۴، خزائن ج۳ ص۱۷۹)
تیسری جگہ لکھتے ہیں:
’’یہ یاد رہے کہ مجدد لوگ دین میں کوئی کمی بیشی نہیں کرتے۔ گم شدہ دین کو پھر دلوں میں قائم کرتے ہیں اور یہ کہنا کہ مجددوں پر ایمان لانا کچھ فرض نہیں۔ خدا تعالیٰ کے حکم سے انحراف ہے۔‘‘ وہ فرماتا ہے: ’’ من کفر بعد ذالک فاؤلئک ہم الفاسقون ‘‘
(شہادۃ القرآن ص۴۸، خزائن ج۶ ص۳۴۴)
چوتھی جگہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
’’مجددوں کو فہم قرآن عطا ہوتا ہے۔‘‘
(ایام الصلح ص۵۵، خزائن ج۱۴ ص۲۸۸)
پانچویں جگہ ارشاد ملاحظہ کریں:
’’مجدد مجملات کی تفصیل کرتا اور کتاب اﷲ کے معارف بیان کرتا ہے۔‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۷۵، خزائن ج۷ ص۲۹۰)
چھٹی جگہ لکھا ہے:
’’مجدد خدا کی تجلیات کا مظہر ہوتے ہیں۔‘‘
(سراج الدین عیسائی ص۱۵، خزائن ج۱۲ ص۳۴۱)

اس سارے مضمون کا نتیجہ یہ ہے کہ کلام اﷲ اور حدیث رسول اﷲﷺ کا جو مفہوم مجددین امت بیان کریں وہی قابل قبول ہے۔ اس کی مخالفت کرنے والا فاسق ہوتا ہے۔

۵…
الف۔’’نصوص کو ظاہر پر حمل کرنے پر اجماع ہے۔‘‘
(ازالہ خورد ص۴۰۹، خزائن ج۳ ص۳۱۲،۵۴۹، خزائن ج۳ ص۳۹۰)
ب… حدیث بالقسم میں تاویل اور استثناء ناجائز ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
’’ والقسم یدل علی ان الخبر محمول علیٰ الظاہر لاتاویل فیہ ولا استثناء والا ای فائدۃ فی القسم ‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۱۴، خزائن ج۷ ص۱۹۲ حاشیہ)
’’کسی حدیث میں قسم کا ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس حدیث کے ظاہری معنی ہی قابل قبول ہوں۔ اس میں تاویل کرنا یا استثناء جائز نہیں۔ ورنہ قسم میں فائدہ کیا رہا۔‘‘

۶…
’’جو شخص کسی اجماعی عقیدہ کا انکار کرے تو اس پر خدا۔ اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرا مقصود ہے اور یہی میرا مدعا ہے۔ مجھے اپنی قوم سے اصول اجماعی میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘
(انجام آتھم ص۱۴۴، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)

۷…
حدیث نبوی دربارہ تفسیر بالرائے:
(۱)… ’’ من تکلم فی القرآن برأیہ فاصاب فقد اخطائ ‘‘
(رواہ النسائی اتقان ج۲ ص۳۰۵ فی شروط المفسر وآدابہ)
(۲)… ’’ من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوا مقعدہ من النار ‘‘
(ترمذی ج۲ ص۱۲۳، باب ماجاء فی الذی بتفسیر القرآن برأیہ، اتقان ج۲ ص۳۰۵ فی شروط المفسر وآدابہ)
اس کی تائید میں مرزاقادیانی کا قول پیش کرتا ہوں۔
’’مؤمن کا کام نہیں کہ تفسیر بالرائے کرے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۲۸، خزائن ج۳ ص۲۶۷)

۸…
عسل مصفی مصنفہ مرزا خدا بخش قادیانی، قادیانی مذہب کی مسلمہ کتاب ہے۔ مرزاقادیانی نے اپنی زندگی میں اس کا ایک ایک لفظ سنا تھا اور مصنف کی داد دی تھی۔ قادیانی اور لاہوریوں کے سرکردہ ممبروں نے اس پر زبردست تقریظات لکھی ہوئی ہیں۔ بالخصوص محمد علی لاہوری اور مرزابشیرالدین محمود احمد خلیفہ قادیانی نے۔ اس کے (جلد اوّل ص۱۶۲تا۱۶۵) پر گذشتہ تیرہ صدیوں کے مجددین کی فہرست درج ہے۔ ہم یہاں مشہور مجددین مفسرین ومحدثین کے اسمائے گرامی ذیل میں آئندہ حوالوں کے لئے درج کرتے ہیں۔

  1. امام شافعی مجدد صدی دوم۔
  2. امام احمد بن محمد بن حنبل مجدد صدی دوم۔
  3. ابوجعفر طحاوی مجدد صدی سوم۔
  4. ابوعبدالرحمان نسائی مجدد صدی سوم۔
  5. حافظ ابونعیم مجدد صدی چہارم۔
  6. امام حاکم نیشاپوری مجدد صدی چہارم۔
  7. امام بیہقی مجدد صدی چہارم۔
  8. امام غزالی مجدد صدی پنجم۔
  9. امام فخرالدین رازی صاحب مجدد صدی ششم۔
  10. امام مفسر ابن کثیر مجدد صدی ششم۔
  11. حضرت شہاب الدین سہروردی مجدد صدی ششم۔
  12. امام ابن جوزی مجدد صدی ششم۔
  13. حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی مجدد صدی ششم۔
  14. امام ابن تیمیہ حنبلی مجدد صدی ہفتم۔
  15. حضرت خواجہ معین الدین چشتی مجدد صدی ہفتم۔
  16. حافظ ابن قیم جوزی مجدد صدی ہفتم۔
  17. حافظ ابن حجر عسقلانی مجدد صدی ہشتم۔
  18. امام جلال الدین سیوطی مجدد صدی نہم۔
  19. ملا علی قاری مجدد صدی دہم۔
  20. محمد طاہر گجراتی مجدد صدی دہم۔
  21. عالمگیر اورنگزیب مجدد صدی یازدہم۔
  22. شیخ احمد فاروقی مجدد الف ثانی مجدد صدی یازدہم۔
  23. مرزا مظہر جان جاناں دہلوی مجدد صدی یازدہم۔
  24. حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی مجدد صدی دوازدہم۔
  25. امام شوکانی مجدد صدی دوازدہم۔
  26. سید احمد بریلوی مجدد صدی سیزدہم۔
  27. شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی مجدد صدی سیزدہم۔
  28. مولانا محمد اسماعیل صاحب شہید مجدد صدی سیزدہم۔
  29. شاہ رفیع الدین صاحب محدث دہلوی مجدد صدی سیزدہم۔
  30. شاہ عبدالقادر صاحب مجدد صدی سیزدہم۔
یہاں تک ہم نے تیرہ صدیوں کے مشہور مشہور مجددین کے اسمائے گرامی درج کر دئیے ہیں۔ مرزاقادیانی کا دعویٰ ہے کہ وہ چودھویں صدی کے مجدد بھی ہیں۔ اس کے بالمقابل جمہور علماء اسلام کے نزدیک چودھویں صدی کے مجددین میں سے بزرگان ذیل خاص طور پر مشہور ہیں:

  1. شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب مہاجر مکیؒ۔
  2. حضرت مولانا رحمتہ اﷲ صاحب مہاجرمکیؒ۔
  3. شیخ العرب والعجم المحدث الفقیہ حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ۔
  4. قاسم العلوم حضرت مولانا مولوی محمد قاسم صاحبؒ بانی دارالعلوم دیوبند۔
  5. حضرت مولانا مولوی محمد علی صاحب مونگیریؒ۔
  6. حضرت حکیم الامت مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی مدظلہمؒ۔
جنہوں نے کم وبیش ۱۵۰۰ کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔ جن میں موجودہ صدی کے پیدا کردہ الحاد کی تردید کر کے دین محمدی کو دوبارہ اصلی شکل میں دکھایا ہے۔ آپ کی تفسیر اور ترجمہ قرآن روئے زمین کے مسلمانوں میں مقبول ہوچکے ہیں۔ اپنی کتابوں سے مرزاقادیانی کی طرح کوئی دنیوی نفع نہیں اٹھایا۔ ۱۵۰۰ کتابوں میں کسی جگہ بھی اپنی تعریف میں کچھ نہیں لکھا۔

۹…
انجیل کو بطور دلیل کے پیش کرنا قادیانیوں کے لئے حجت ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
’’ فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون ‘‘
یعنی اگر تمہیں ان بعض امور کا علم نہ ہو جو تم میں پیدا ہوں تو اہل کتاب کی طرف رجوع کرو اور ان کی کتابوں کے واقعات پر نظر ڈالو تااصل حقیقت تم پر منکشف ہو جائے۔
(ازالہ اوہام ص۶۱۶، خزائن ج۳ ص۴۳۳)

دوسری جگہ فرماتے ہیں:
’’زبردستی سے یہ نہیں کہنا چاہئے کہ یہ ساری کتابیں (انجیل اور توریت) محرف ومبدل ہیں۔ بلاشبہ ان مقامات (رفع جسمانی اور پیش گوئیوں) سے تحریف کا کچھ علاقہ نہیں… پھر ہمارے امام المحدثین حضرت اسماعیل صاحب اپنی صحیح بخاری میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ ان کتابوں میں کوئی لفظی تحریف نہیں۔‘‘
(ازالہ خورد ص۲۷۳، خزائن ج۳ ص۲۳۸،۲۳۹)
’’انجیل برنباس نہایت معتبر انجیل ہے۔‘‘
(سرمہ چشم آریہ ص۲۸۷تا۲۹۲ حاشیہ ملخص، خزائن ج۲ ص۲۳۹تا۲۴۱ ملخص)

۱۰…
مرزاقادیانی نے ۱۸۸۰ء یا ۱۳۰۰ھ میں مجدد اور مامور من اﷲ اور ملہم من اﷲ ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ چنانچہ لکھتے ہیں: ’’کتاب براہین احمدیہ جس کو خداتعالیٰ کی طرف سے مؤلف نے ملہم ومامور ہوکر بغرض اصلاح وتجدید دین تالیف کیا ہے … اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدد وقت ہے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۱ ص۱۴،۱۵، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳،۲۴)
(ازالہ اوہام خورد ص۱۸۵،۱۸۶، خزائن ج۳ ص۱۸۹،۱۹۰)

اب ذرا ملہم کی شان بھی ملاحظ کر لیں۔ فرماتے ہیں: ’’جو لوگ خداتعالیٰ سے الہام پاتے ہیں وہ بغیر بلائے نہیں بولتے اور بغیر سمجھائے نہیں سمجھتے اور بغیر فرمائے کوئی دعویٰ نہیں کرتے اور اپنی طرف سے کسی قسم کی دلیری نہیں کر سکتے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۹۸، خزائن ج۳ ص۱۹۷)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حیات عیسیٰ علیہ السلام

میں اپنے دلائل مندرجہ ذیل ۶ابواب میں بیان کروں گا۔
باب:۱… دلائل از انجیل
باب نمبر:۲… دلائل از قرآن شریف
باب:۳… دلائل از حدیث
با ب نمبر:۴… دلائل از اقوال صحابہؓ
باب:۵… دلائل از ائمہ اسلام بالخصوص مجددین امت جن کو قادیانی بھی مجدد اور ائمہ اسلام تسلیم کر چکے ہیں۔
باب نمبر:۶… دلائل از اقوال مرزا غلام احمد قادیانی


حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات جسمانی ورفع جسمانی کا ثبوت از انجیل:

۱… انجیل متی باب:۲۴ ۔ ’’اور جب وہ زیتون کے پہاڑ پر بیٹھا تھا تو اس کے شاگرد الگ اس کے پاس آکر بولے ہمیں بتا کہ یہ سب باتیں کب ہوں گی اور تیرے آنے اور دنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہوگا۔ یسوع نے جواب میں ان سے کہا کہ خبردار! کوئی تمہیں گمراہ نہ کر دے۔ کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے کہ میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے… اس وقت اگر کوئی تم سے کہے کہ دیکھومسیح یہاں ہے یا وہاں ہے تو یقین نہ کرنا۔ کیونکہ جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اٹھ کھڑیں گے اور ایسے بڑے نشان اور عجیب کام دکھائیں گے کہ اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کر لیں۔ دیکھو میں نے پہلے ہی تم سے کہہ دیا ہے… کیونکہ جیسے بجلی پورب سے کوند کر پچھم تک دکھائی دیتی ہے۔ ویسے ہی ابن آدم کا آنا ہوگا… ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گے۔‘‘
(آیت۳تا۳۰، ص۲۵)

۲… (انجیل مرقس باب:۱۳، آیت:۳تا۲۷، ص۴۸) میں مضمون دیکھیں۔

۳… (انجیل لوقا باب:۲۴، آیت:۳۶تا۵۲، ص۸۷) وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ یسوع آپ ان کے بیچ میں آکھڑا ہوا اور ان سے کہا تمہاری سلامتی ہو۔ مگر انہوں نے گھبرا کر اور خوف کھا کر یہ سمجھا کہ کسی روح کو دیکھتے ہیں۔ اس نے (یسوع نے) ان سے کہا کہ تم کیوں گھبراتے ہو اور کس واسطے تمہارے دل میں شک پیدا ہوتے ہیں۔ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں دیکھو کہ میں ہی ہوں۔ مجھے چھو کر دیکھو۔ کیونکہ روح کے گوشت اور ہڈی نہیں ہوتی۔ جیسا کہ مجھ میں دیکھتے ہو اور یہ کہہ کر اس نے انہیں اپنے ہاتھ اور پاؤں دکھائے۔ جب مارے خوشی کے ان کو یقین نہ آیا اور تعجب کرتے تھے تو اس نے ان سے کہا کہ تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے۔ انہوں نے اسے بھنی ہوئی مچھلی کا قتلہ دیا۔ اس نے لے کر ان کے روبرو کھایا… پھر وہ انہیں بیت علیاہ کے سامنے تک باہر لے گیا اور اپنے ہاتھ اٹھا کر انہیں برکت دی۔ جب وہ انہیں برکت دے رہا تھا تو ایسا ہوا کہ ان سے جدا ہوگیا اور آسمان پر اٹھایا گیا۔

۴… (مرقس باب:۱۶، آیت:۱۹، ص۵۳) غرض خداوند یسوع ان سے کلام کرنے کے بعد آسمان پر اٹھایا گیا۔

۵… (رسولوں کے اعمال باب اوّل، آیت:۹تا۱۱، ص۱۱۷) ’’یہ کہہ کر وہ ان کے دیکھتے دیکھتے اوپر اٹھا لیا گیا اور بدلی نے اسے ان کی نظروں سے چھپا لیا اور اس کے جاتے وقت جب وہ آسمان کی طرف غور سے دیکھ رہے تھے تو دیکھو دو مرد سفید پوشاک پہنے ان کے پاس آکھڑے ہوئے اور کہنے لگے۔ اے گلیلی مردو! تم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو۔ یہی یسوع جو تمہارے پاس سے آسمان پر اٹھایا گیا ہے۔ اسی طرح پھر آئے گا۔ جس طرح تم نے اسے آسمان پر جاتے دیکھا ہے۔‘‘

۶… (انجیل برنباس فصل:۲۱۴، آیت:۱تا۴، ص۳۵۷) ’’اور یسوع گھر سے نکل کر باغ کی طرف مڑا۔ تاکہ نماز ادا کرے… اور چونکہ یہودا اس جگہ کو جانتا تھا۔ جس میں یسوع اپنے شاگردوں کے ساتھ تھا۔ لہٰذا وہ کاہنوں کے سردار کے پاس گیا اور کہا اگر تو مجھے وہ دے جس کا تونے مجھ سے وعدہ کیا ہے تو میں آج کی رات یسوع کو تیرے سپرد کر دوں گا۔ جس کو تم لوگ ڈھونڈھ رہے ہو۔ اس لئے کہ وہ گیاراں رفیقوں کے ساتھ اکیلا ہے۔‘‘ (فصل:۲۱۱۵، آیت:۱تا۶، ص ایضاً) ’’اور جب کہ سپاہی یہودا کے ساتھ اس جگہ کے نزدیک پہنچے۔ جس میں یسوع تھا۔ یسوع نے ایک بھاری جماعت کا نزدیک آنا سنا۔ تب اسی لئے وہ ڈر کر گھر میں چلا گیا اور گیارہوں شاگرد سورہے تھے۔ پس جب کہ اﷲ نے اپنے بندے کو خطرے میں دیکھا۔ اپنے سفیروں جبرائیل، میکائیل، رفائیل اور ادریل کو حکم دیا کہ یسوع کو دنیا سے لے لیں۔ تب پاک فرشتے آئے اور یسوع کو دکھن کی طرف دکھائی دینے والی کھڑکی سے لے لیا۔ پس وہ اس کو اٹھا لے گئے اور اسے تیسرے آسمان میں ان فرشتوں کی صحبت میں رکھ دیا جو کہ ابد تک اﷲ کی تسبیح کرتے رہیں گے۔‘‘
(فصل:۲۱۶، آیت:۱تا۱۰، ص۳۵۸) ’’اور یہودا زور کے ساتھ اس کمرہ میں داخل ہوا۔ جس میں سے یسوع اٹھا لیا گیا تھا اور شاگرد سب کے سب سورہے تھے۔ تب عجیب اﷲ نے ایک عجیب کام کیا۔ پس یہودا بولی اور چہرے میں بدل کر یسوع کے مشابہ ہوگیا۔ یہاں تک کہ ہم لوگوں نے اعتقاد کیا۔ وہی یسوع ہے۔ لیکن اس نے ہم کو جگانے کے بعد تلاش کرنا شروع کیا تھا کہ دیکھے کہ معلم (یسوع) کہاں ہے۔ اس لئے ہم نے تعجب کیا اور جواب میں کہا۔ اے سید تو ہی تو ہمارا معلم ہے۔ پس تو اب ہم کو بھول گیا۔ مگر اس نے مسکراتے ہوئے کہا کیا تم احمق ہو کہ یہودا اسخریوطی کو نہیں پہچانتے اور اسی اثناء میں کہ وہ یہ بات کہہ رہا تھا۔ سپاہی داخل ہوئے اور انہوں نے اپنے ہاتھ یہودا پر ڈال دئیے۔ اس لئے کہ وہ ہر ایک وجہ سے یسوع کے مشابہ تھا۔ لیکن ہم لوگوں نے جب یہودا کی بات سنی اور سپاہیوں کا گروہ دیکھا۔ تب ہم دیوانوں کی طرح بھاگ نکلے۔‘‘ (شاگردوں کا یسوع کو اکیلا چھوڑ کر بھاگ جانادیکھو مرقس باب:۱۴، آیت:۵۰)
(فصل:۲۱۷، آیت:۱تا۸۰، ص۳۶۳تا۳۸۵) ’’پس سپاہیوں نے یہودا کو پکڑا اور اس کو اسے مذاق کرتے ہوئے باندھ لیا۔ اس لئے کہ یہودا نے ان سے اپنے یسوع ہونے کا انکار کیا۔ بحالیکہ وہ سچا تھا۔ یہودا نے جواب میں کہا۔ شاید تم دیوانے ہوگئے ہو۔ تم تو ہتھیاروں اور چراغوں کو لے کر یسوع ناصری کو پکڑنے آئے ہو۔ گویا کہ وہ چور ہے تو کیا تم مجھی کو باندھ لو گے۔ جس نے کہ تمہیں راہ دکھائی ہے تاکہ مجھے بادشاہ بناؤ۔‘‘
’’یہودا نے بہت سی دیوانگی کی باتیں کیں۔ یہاں تک کہ ہر ایک آدمی نے تمسخر میں انوکھا پن پیدا کیا۔ یہ خیال کرتے ہوئے کہ وہ (یہودا) درحقیقت یسوع ہی ہے اور یہ کہ وہ موت کے ڈر سے بناوٹی جنون کا اظہار کر رہا ہے… اور میں یہ کیوں کہوں کہ کاہنوں کے سرداروں ہی نے یہ جانا کہ یہودا یسوع ہے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یسوع کی بیچاری ماں کنواری نے معہ اس کے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کے یہی اعتقاد کیا۔ یہاں تک کہ ہر ایک کارنج تصدیق سے بالا تر تھا۔ قسم ہے اﷲ کی جان کی کہ یہ لکھنے والا (میں برنباس حواری) اس سب کو بھول گیا جو کہ یسوع نے اس سے (مجھ سے) کہا تھا۔ ازیں قبیل کہ وہ دنیا سے اٹھا لیا جائے گا اور یہ کہ ایک دوسرا شخص اس کے نام سے عذاب دیا جائے گا اور یہ کہ وہ دنیا کا خاتمہ ہونے کے قریب تک نہ مرے گا۔ اسی لئے یہ لکھنے والا یسوع کی ماں اور یوحنا
کے ساتھ صلیب کے پاس گیا۔ تب کاہنوں کے سردار نے حکم دیا کہ یسوع کو مشکیں بندھا ہوا اس کے روبرو لایا جائے اور اس سے اس کے شاگردوں اور اس کی تعلیم کی نسبت سوال کیا۔ پس یہودا نے اس بارہ میں کچھ جواب بھی نہ دیا۔ گویا کہ وہ دیوانہ ہوگیا۔ اس وقت کاہنوں کے سردار نے اس کو اسرائیل کے جیتے جاگتے خدا کے نام کا حلف دیا کہ وہ اسے سچ کہے۔ یہودا نے جواب دیا۔ میں تم سے کہہ چکا کہ میں وہی یہودا اسخریوطی ہوں۔ جس نے یہ وعدہ کیا تھا کہ یسوع ناصری کو تمہارے ہاتھوں میں سپرد کر دے گا۔ مگر میں نہیں جانتا کہ تم کس تدبیر سے پاگل ہوگئے ہو۔ اس لئے کہ تم ہر ایک وسیلہ سے یہی چاہتے ہو کہ میں ہی یسوع ہو جاؤں۔… کاہنوں کے سردار نے جواب میں کہا (یہودا کو یسوع سمجھتے ہوئے)… کیا اب تم کو یہ خیال سوجھتا ہے کہ اس سزا سے جس کا تو مستحق ہے اور تو اسی لائق ہے۔ پاگل بن کر نجات پاجائے گا۔ قسم ہے اﷲ کی جان کی کہ تو ہرگز اس سے نجات نہ پائے گا… یہودا نے (حاکم سے) جواب میں کہا اے آقا! تو مجھے سچا مان کہ اگر تو میرے قتل کا حکم دے گا تو بہت بڑے ظلم کا مرتکب ہوگا۔ اس لئے کہ تو ایک بے گناہ کو قتل کرے گا۔ کیونکہ میں خود یہودا اسخریوطی ہوں۔ نہ کہ وہ یسوع جو کہ جادوگر ہے۔ پس اس نے اس طرح اپنے جادو سے مجھ کو بدل دیا ہے… مگر اﷲ نے جس نے انجاموں کی تقدیر کی ہے۔ یہودا کو صلیب کے واسطے باقی رکھا تاکہ وہ اس ڈراؤنی موت کی تکلیف کو بھگتے جس کے لئے اس نے دوسرے کو سپرد کیا تھا۔ انہوں نے اس کے ساتھ ہی دو چوروں پر صلیب دیے جانے کا حکم لگایا… یہودا کو ننگا کر کے صلیب پر لٹکایا… اور یہودا نے کچھ نہیں کیا۔ سوا اس چیخ کے کہ اے اﷲ! تو نے مجھ کو کیوں چھوڑ دیا۔ اس لئے کہ مجرم تو بچ گیا اور میں ظلم سے مر رہا ہوں۔ میں سچ کہتا ہوں کہ یہودا کی آواز اور اس کا چہرہ اور اس کی صورت یسوع سے مشابہ ہونے میں اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ یسوع کے سب ہی شاگردوں اور اس پر ایمان لانے والوں نے اس کو یسوع ہی سمجھا۔‘‘ (فصل:۲۳۲، آیت:۱تا۴، ص۳۶۹) ’’یسوع کے چلے جانے کے بعد شاگرد اسرائیل اور دنیا کے مختلف گوشوں میں پراگندہ ہوگئے۔ رہ گیا حق جو شیطان کو پسند نہ آیا۔ اس کو باطل نے دبا لیا۔ جیسا کہ یہ ہمیشہ کا حال ہے۔ پس تحقیق شریروں کے ایک فرقہ نے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ یسوع کے شاگرد ہیں۔ یہ بشارت دی کہ یسوع مرگیا اور وہ جی نہیں اٹھا اور دوسروں نے یہ تعلیم پھیلائی کہ وہ درحقیقت مرگیا۔ پھر جی اٹھا اور اوروں نے منادی کی اور برابر منادی کر رہے ہیں کہ یسوع ہی اﷲ کا بیٹا ہے اور انہیں لوگوں کے شمار میں لوبھن نے بھی دھوکا کھایا۔ اب رہے ہم، تو ہم محض اس کی منادی کرتے ہیں جو کہ میں نے ان لوگوں کے لئے لکھا ہے کہ وہ اﷲ سے ڈرتے ہیں تاکہ اخیر دن میں جو اﷲ کی عدالت کا دن ہوگا چھٹکارا پائیں۔ آمین!‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قرآن شریف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حیات ورفع جسمانی کا ثبوت 1
آیت
اعراب کے بغیر عربی:
’’ فلما احس عيسى منهم الکفر قال من انصاري الى الله قال الحواريون نحن انصار الله امنا بالله و اشهد بانا مسلمون آیت 52 ربنا امنا بما انزلت و اتبعنا الرسول فاکتبنا مع الشهدين آیت 53 و مکروا و مکر الله و الله خير المکرين آیت 54 ‘‘

اعراب کے ساتھ عربی:
فَلَمَّآ اَحَسَّ عِيْسٰى مِنْھُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللہِ۝۰ۭ قَالَ الْحَـوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ۝۰ۚ اٰمَنَّا بِاللہِ۝۰ۚ وَاشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۝۵۲رَبَّنَآ اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰہِدِيْنَ۝۵۳وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللہُ۝۰ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ۝۵۴ۧ
(آل عمران:۵۲تا۵۴)

اس کی تفسیر میں ہم خود کچھ بیان کرنا نہیں چاہتے۔ بلکہ ہم قادیانیوں کے مسلمہ مجددین امت کی تفسیر بیان کرتے ہیں۔ تاکہ ان کو ہماری دلیل کے رد کرنے کی جرأت نہ ہوسکے۔ کیونکہ اپنے تسلیم کئے ہوئے مجددین کی تفسیر کے انکار سے حسب قول مرزاقادیانی انہیں ’’فاسق بننا پڑے گا۔‘‘

(دیکھو اصول مرزا نمبر:۴)

تفسیر نمبر:۱…
امام فخر الدین رازی قادیانیوں کے مجدد صدی ششم اپنی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:
’’ واما مکرہم بعیسیٰ علیہ السلام فہو انہم ہموا القتلہم وامامکر اﷲ بہم ففیہ وجوہ مکر اﷲ تعالیٰ بہم انہ رفع عیسیٰ علیہ السلام الی السماء وذالک ان یہودا ملک الیہود اراد قتل عیسیٰ وکان جبرائیل علیہ السلام لا یفارقہ ساعۃ وھو معنی قولہ تعالیٰ وایدناہ بروح القدس فلما ارادوا ذالک امرہ جبرائیل ان یدخل بیتافیہ روزنۃ فلما دخلوا البیت اخرجہ جبرائیل من تلک الروزنۃ وکان قد القیٰ شبہ علی غیرہ فاخذ وصلب۰ وفی الجملۃ فالمراد من مکر اﷲ تعالیٰ بہم ان رفعہ الیٰ السماء وما مکنہم من ایصال الشر الیہ
(تفسیر کبیر جز۸ ص۶۹،۷۰)‘‘
اور یہود کا مکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے یہ تھا کہ انہوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا اور اﷲ تعالیٰ کا مکر یہود سے۔ سو اس کی کئی صورتیں ہوئیں… ایک صورت یہ کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا اور یہ اس طرح ہوا کہ یہود کے ایک بادشاہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کیا اور جبرائیل علیہ السلام ایک گھڑی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے جدا نہ ہوتا تھا اور یہی مطلب ہے۔ اﷲتعالیٰ کے اس قول کا ’’وایدناہ بروح القدس (بقرہ:۸۷)‘‘ یعنی ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جبرائیل سے مدد دی۔ پس جب یہود نے قتل کا ارادہ کیا تو جبرائیل نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک مکان میں داخل ہو جانے کے لئے فرمایا۔ اس مکان میں کھڑکی تھی۔ پس جب یہود اس مکان میں داخل ہوئے تو جبرائیل علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس کھڑکی سے نکال لیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شباہت ایک اور آدمی کے اوپر ڈال دی۔ پس وہی پکڑا گیا اور پھانسی پر لٹکایا گیا۔ غرضیکہ یہود کے ساتھ اﷲ کے مکر کے معنی یہ ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور یہود کو حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ شرارت کرنے سے روک لیا۔

تفسیر نمبر:۲…
اب ہم امام جلال الدین یسوطیؒ کی تفسیر نقل کرتے ہیں۔ امام موصوف قادیانی عقیدہ کے مطابق نویں صدی ہجری میں مجدد مبعوث ہوکر آئے تھے اور
’’ان کا مرتبہ ایسا بلند تھا کہ جب انہیں ضرورت پڑتی تھی۔ حضرت رسول کریمﷺ کی بالمشافہ زیارت کر کے دریافت کرلیا کرتے تھے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۵۱،۱۵۲، خزائن ج۳ ص۱۷۷)
’’ فلما احس (علم) عیسیٰ منہم الکفرو (ارادوا قتلہ)… ومکروا (ای کفار بنی اسرائیل بعیسیٰ اذا وکلو بہ من یقتلہ غیلۃ) ومکر اﷲ (بہم بان القیٰ شبہ عیسیٰ علیٰ من قصد قتلہ فقتلوہ ورفع عیسیٰ) واﷲ خیر الماکرین (اعلمہم بہ) ‘‘
(تفسیر جلالین ص۵۲)
’’پس جب عیسیٰ علیہ السلام نے یہود کا کفر معلوم کر لیا اور یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کرلیا اور یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مکر کیا۔ جب انہوں نے مقرر کیا ایک آدمی کو، کہ وہ قتل کرے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دھوکا سے، اور اﷲتعالیٰ نے یہود کے ساتھ مکر کیااس طرح کہ ڈال دی شبیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس شخص پر جس نے ارادہ کیا تھا ان کے قتل کا۔ پس یہود نے قتل کیا اس شبیہ کو، اور اٹھا لئے گئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اﷲتعالیٰ تمام تدبیریں کرنے والوں میں سے بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘

تفسیر نمبر:۳…
اب ہم اس بزرگ کی تفسیر بیان کرتے ہیں جن کو قادیانی ولاہوری مجدد صدی دوازدہم مانتے ہیں اور مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ
’’شاہ ولی اﷲ صاحب کامل ولی اور صاحب خوارق وکرامات بزرگ تھے۔ وہ اپنے زمانہ کے مجدد تھے اور عالم ربانی تھے۔‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۷۶، خزائن ج۷ ص۲۹۱)
شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی اپنی کتاب تاویل الاحادیث میں فرماتے ہیں:
’’ کان عیسیٰ علیہ السلام کانہ ملک یمشی علی وجہ الارض فاتہمہ الیہود بالزندقۃ واجمعوا علیٰ قتلہ فمکروا ومکر اﷲ واﷲ خیر الماکرین۰ فجعل لہ ہیئۃ مثالیۃ ورفعہ الیٰ السماء والقیٰ شبہ علیٰ رجل من شیعتہ او عدوہ فقتل علیٰ انہ عیسیٰ علیہ السلام ثم نصر اﷲ شیعتہ علیٰ عدوہم فاصبحوا ظاہرین ‘‘
’’اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو گویا ایک فرشتے تھے کہ زمین پر چلتے تھے۔ پھر یہودیوں نے ان پر زندیق ہونے کی تہمت لگائی اور قتل پر جمع ہوگئے۔ پس انہوں نے تدبیر کی اور خدا نے بھی تدبیر کی اور اﷲبہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ اﷲ نے ان کے واسطے ایک صورت مثالیہ بنادی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور ان کے گروہ میں سے یا ان کے دشمن کے ایک آدمی کو ان کی صورت کا بنادیا۔ پس وہ قتل کیاگیا اور یہودی اسی کو عیسیٰ علیہ السلام سمجھتے تھے۔‘‘
(تاویل الاحادیث ص۶۰)

تفسیر نمبر:۴…
امام وقت شیخ الاسلام حافظ ابن کثیر کی تفسیر (قادیانی اور لاہوری بہ یک زبان) چھٹی صدی کے سر پر تجدید دین کے لئے ان کا مبعوث ہونا مانتے ہیں۔
(عسل مصفیٰ حصہ اوّل ص۱۶۳،۱۶۵)
’’ فلما احاطوا بمنزلۃ وظنوا انہم ظفروا بہ نجاہ اﷲ تعالیٰ من بینہم ورفعہ من روزنۃ ذالک البیت الیٰ السماء والقیٰ شبہ علی رجل ممن کان عندہ فی المنزل فلما دخلوا اولئک اعتقدوہ فی ظلمۃ اللیل عیسیٰ فاخذوہ وصلبوہ ووضعوا علیٰ راسہ الشوک وکان ہذا من مکر اﷲ بہم فانہ نجی نبیہ ورفعہ من بین اظہرہم وترکہم فی ضلالہم یعمہون ‘‘
(ابن کثیر ج۱ ص۳۶۵)
’’جب یہود نے آپ کے مکان کو گھیر لیا اور گمان کیا کہ آپ پر غالب ہو گئے ہیں تو خداتعالیٰ نے ان کے درمیان سے آپ کو نکال لیا اور اس مکان کی کھڑکی سے آسمان پر اٹھا لیا اور آپ کی شباہت اس پر ڈال دی جو اس مکان میں آپ کے پاس تھا۔ سو جب وہ اندر گئے تو اس کو رات کے اندھیرے میں عیسیٰ علیہ السلام خیال کیا۔ پس اسے پکڑا اور سولی دیا اور سر پر کانٹے رکھے اور ان کے ساتھ خدا کا یہی مکر تھا کہ اپنے نبی کو بچا لیا اور اسے ان کے درمیان سے اوپر اٹھا لیا اور ان کو ان کی گمراہی میں حیران چھوڑ دیا۔‘‘
ناظرین! جس قدر مجددین امت محمدیہ میں گزرے ہیں۔ اس آیت کی اسی تفسیر پر فوت ہوئے ہیں۔ انجیل برنباس کا بیان بھی اسی تفسیر کا مؤید ہے۔ پس مجددین کی تفسیر ہی قابل قبول ہے اور ان کا منکر فاسق ہے۔ (عقیدہ نمبر۴) اب ناظرین کی تفریح طبع کے لئے ہم مرزاقادیانی کی پر لطف اور پر مذاق تفسیر درج کرتے ہیں۔

یہود کا مکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ
الف… ’’یہود یوں کے علماء نے ان کے (عیسیٰ علیہ السلام کے) لئے ایک کفر کا فتویٰ تیار کیا اور ملک کے تمام علماء کرام وصوفیائے عظام نے اس فتویٰ پر اتفاق کر لیا اور مہریں لگا دیں۔ مگر پھر بھی بعض عوام الناس میں سے جو تھوڑے ہی آدمی تھے حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ رہ گئے۔ ان میں سے بھی یہودیوں نے ایک کو کچھ رشوت دے کر اپنی طرف پھیر لیا اور دن رات یہ مشورے ہونے لگے کہ توریت کی نصوص صریحہ سے اس شخص کو کافر ٹھہرانا چاہئے۔ تاعوام بھی یک دفعہ بیزار ہو جائیں اور اس کے بعض نشانوں کو دیکھ کر دھوکہ نہ کھائیں۔ چنانچہ یہ بات قرار پائی کہ کسی طرح اس کو صلیب دی جائے۔ پھر کام بن جائے گا۔ کیونکہ توریت میں لکھا ہے جو لکڑی پر لٹکایا جائے وہ لعنتی ہوتا ہے… سو یہودی لوگ اس تدبیر میں لگے رہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۲، خزائن ج۱۷ ص۱۰۵،۱۰۶)
ب… ’’یہودیوں نے نعوذ باﷲ حضرت مسیح کو رفع سے بے نصیب ٹھہرانے کے لئے صلیب کا حیلہ سوچا تھا۔ تا اس سے دلیل پکڑیں کہ عیسیٰ ابن مریم ان صادقوں میں سے نہیں ہے۔ جن کا رفع الیٰ اﷲ ہوتا رہا ہے۔ مگر خدا نے مسیح کو وعدہ دیا کہ میں تجھے صلیب سے بچاؤں گا۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۵، خزائن ج۱۷ ص۴۴)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہود کے مکر سے گھبرانا اور دعا مانگنا
الف… ’’چونکہ مسیح ایک انسان تھا۔ اس نے دیکھا کہ تمام سامان میرے مرنے کے موجود ہوگئے ہیں۔ لہٰذا اس نے برعایت اسباب گمان کیا کہ شاید آج میں مر جاؤں گا۔ سو بباعث ہیبت تجلی جلالی حالت موجودہ کو دیکھ کر ضعف بشریت اس پر غالب ہوگیا تھا۔ تب ہی اس نے دل برداشتہ ہوکر کہا: ’’ ایلی ایلی لما سبقتنی ‘‘ یعنی اے میرے خدا، اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا اور کیوں اس وعدہ کا ایفا نہ کیا جو تو نے پہلے سے کر رکھا تھا کہ تو مرے گا نہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۹۴، خزائن ج۳ ص۳۰۳،۳۰۴)
ب… ’’حضرت مسیح نے جو اپنے بچنے کے لئے تمام رات رو کر دعا مانگی تھی اور یہ بالکل بعید از قیاس ہے کہ ایسا مقبول درگاہ الٰہی میں تمام رات رو رو کر دعا مانگے اور وہ دعا قبول نہ ہو۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۱۴، خزائن ج۱۴ ص۳۵۱)
ج… ’’یہ قاعدہ مسلم الثبوت ہے کہ سچے نبیوں کی سخت اضطرار کی ضرور دعا قبول ہو جاتی ہے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۳ ص۸۳، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۰ حاشیہ)

حضرت مسیح علیہ السلام کی دعا کی قبولیت کا مظاہرہ
یعنی یہود کے مکر بہ عیسیٰ علیہ السلام اور خدا کے مکر بہ یہود کا عجیب وغریب نقشہ
الف… ’’پھر بعد اس کے مسیح ان کے (یہود کے) حوالہ کیاگیا اور اس کو تازیانے لگائے گئے اور جس قدر گالیاں سننا اور فقیہوں اور مولویوں کے اشارہ سے طمانچے کھانا اور ہنسی اور ٹھٹھے سے اڑائے جانا اس کے حق میں مقدر تھا سب نے دیکھا۔ آخر صلیب دینے کے لئے تیار ہوئے۔ یہ جمعہ کا دن تھا اور عصر کا وقت… تب یہودیوں نے جلدی سے مسیح کو دو چوروں کے ساتھ صلیب پر چڑھادیا۔ تاشام سے پہلے ہی لاشیں اتاری جائیں۔ مگر اتفاق سے اسی وقت ایک سخت آندھی آگئی۔ جس سے سخت اندھیرا ہوگیا۔ یہودیوں کو یہ فکر پڑ گئی کہ اب اگر اندھیری میں ہی شام ہوگئی تو ہم اس جرم کے مرتکب ہو جائیں گے۔ جس کا ابھی ذکر کیاگیا ہے۔ سو انہوں نے اسی فکر کی وجہ سے تینوں مصلوبوں کو صلیب پر سے اتار لیا… جب (سپاہی) چوروں کی ہڈیاں توڑ چکے اور مسیح کی نوبت آئی تو ایک سپاہی نے یوں ہی ہاتھ رکھ کر کہہ دیا کہ یہ تو مرچکا ہے۔ کچھ ضرور نہیں کہ اس کی ہڈیاں توڑی جائیں… پس اس طور سے مسیح زندہ بچ گیا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۸۰تا۳۸۲، خزائن ج۳ ص۲۹۵،۲۹۷)
ب… ’’مسیح پر جو یہ مصیبت آئی کہ وہ صلیب پر چڑھایا گیا اور کیلیں اس کے اعضاء میں ٹھوکی گئیں۔ جن سے وہ غشی کی حالت میں ہوگیا۔ یہ مصیبت درحقیقت موت سے کچھ کم نہیں تھی۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۹۲، خزائن ج۳ ص۳۰۲)
ج… ’’مسیح نے تو سولی پر چڑھ کر بھی یہی کہا: ’’ ایلی ایلی لما سبقتنی ‘‘ یعنی اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۳ ص۸۴، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۱ حاشیہ)
د… ’’حضرت مسیح صلیب سے نجات پاکر نصیبین کی طرف آئے اور پھر افغانستان کے ملک میں ہوتے ہوئے کوہ نعمان میں پہنچے… وہ ایک مدت کوہ نعمان میں رہے۔ پھر اس کے بعد پنجاب کی طرف آئے۔ آخر کشمیر میں گئے… آخر سری نگر میں ۱۲۵برس کی عمر میں وفات پائی اور خانیار کے محلہ کے قریب آپ کا مقدس مزار ہے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۸ ص۶۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۴۹)
ہ… ’’توریت میں لکھا ہے کہ جو شخص صلیب دیا جائے۔ اس کا رفع روحانی نہیں ہوتا… اﷲتعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ یہودیوں کے اس اعتراض کو دور کرے اور حضرت مسیح کے رفع روحانی پر گواہی دے۔ سو اسی گواہی کی غرض سے اﷲتعالیٰ نے فرمایا: ’’ یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّ ومطہرک من الذین کفروا ‘‘ یعنی اے عیسیٰ! میں تجھے وفات دوں گا اور وفات کے بعد تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا اور تجھے ان الزاموں سے پاک کروں گا۔ جو تیرے پر ان لوگوں نے لگائے۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۱۶، خزائن ج۱۴ ص۳۵۳)

نتیجہ نمبر:۱…
’’یہود نے خوب سمجھا تھا۔ مگر بوجہ صلیب حضرت مسیح کے ملعون ہونے کے قائل ہوگئے اور نصاریٰ نے بھی لعنت کو مان لیا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۴، خزائن ج۱۷ ص۱۰۹)

سوال از روح مرزا
۱… مرزا! آپ کی ساری تحریر کا مطلب تو یہ ہے کہ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی دے کر لعنتی ثابت کرنا چاہتے تھے اور یہی ان کا مکر تھا۔ اس کے مقابلہ پر خدا نے پھانسی پر جان نہ نکلنے دی اور کسی کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ بچ جانے کا سوائے آپ کے پتہ بھی نہ لگ سکا۔ اس بناء پر تو یہودی اپنی تدبیر میں خوب کامیاب ہوگئے۔ یعنی نہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ملعون ہی ثابت کر دیا بلکہ کروڑہا نصاریٰ سے عیسیٰ علیہ السلام کے ملعون ہونے کے عقیدہ کا اقرار بھی لے لیا۔ پس بتلائیے! کون اپنی تدبیر میں غالب رہا۔ یہودیا خدا احکم الحاکمین؟ آپ کے بیان کے مطابق تو یہود کا مکر ہی غالب رہا۔
سبحان اﷲ! یہ بھی کوئی کمال ہے کہ یہودیوں نے جو کچھ چاہا حضرت مسیح علیہ السلام سے کہہ لیا خدا منع نہ کر سکا۔ اگر کیا تو یہ کہ عزرائیل کو حکم دے دیا کہ دیکھنا اس کی روح مت نکالنا۔ پھر ساتھ ہی دعویٰ کرتا ہے کہ میں تمام تدبیریں کرنے والوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہوں۔
۲… مرزاقادیانی! آپ نے لکھا کہ توریت میں لکھا ہے ’’جو کاٹھ پر لٹکایا جائے وہ لعنتی ہوتا ہے۔‘‘ ایمان سے کہئے! کیا وہاں یہ لکھا ہے کہ ہر مصلوب لعنتی ہوتا ہے۔ کیوں توریت پر افتراء باندھتے ہو؟ بلکہ واجب القتل مصلوب لعنتی ہوتا ہے۔
(دیکھو توریت استثناء باب:۲۱، آیت:۲۳)
۳… پھر آپ کے خیال میں خدا کے ہاں بھی یہی قانون مروج ہے کہ ہر مصلوب اگرچہ وہ بے گناہ ہی کیوں نہ ہو لعنتی ہوتا ہے۔ کیونکہ آپ کے عقیدہ کے مطابق خدا نے اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح صلیب پر نہ نکلنے دی۔ یہ آپ کا محض افتراء ہے۔ کیا بے گناہ مقتول شہید نہیںہوتا۔ کیا جس قدر انبیاء علیہم السلام قتل کئے گئے۔ وہ سب کے سب نعوذ باﷲ ملعون تھے۔ اﷲتعالیٰ یہود کا حال بیان فرماتے ہیں: ’’ ویقتلون الانبیاء بغیر حق (آل عمران:۱۱۲) ویقتلون النبیین (بقرہ:۶۱، آل عمران:۲۱)‘‘
مؤمن کے قتل کرنے والے کے متعلق اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ من قتل مؤمنا متعمدا فجزاہ جہنم خالداً فیہا (النسائ:۹۳) ‘‘ یعنی جو مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کے لئے دائمی جہنم ہے۔ یعنی خود قاتل ملعون ہوجاتا ہے۔
مؤمن مقتول کے متعلق ارشاد ہے:
’’ لا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اﷲ امواتا۰ بل احیاء عند ربہم یرزقون (آل عمران:۱۶۹) ‘‘
{اے مخاطب تو نہ سمجھ مردہ ان لوگوں کو جو خدا کے راستہ میں قتل کئے گئے۔ بلکہ وہ اپنے خدا کے ہاں زندہ ہیں۔ رزق دئیے جاتے ہیں۔}
پس بتلائیے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب دئیے جاتے اور قتل ہو جاتے تو وہ خدا کے ہاں ملعون کس طرح ہو جاتے؟ بلکہ وہ بھی دیگر مقتول انبیاء کی طرح شہید ہوگئے ہوتے۔
نوٹ: ’’صلیب پر مرا ہوا بھی مقتول ہی ہوتا ہے۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۱۳،۱۱۴، خزائن ج۱۴ ص۳۵۰،۳۵۱)

1.png
 
آخری تدوین :

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قرآن شریف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حیات ورفع جسمانی کا ثبوت نمبر 2
۱… آیت : آلعمران : 55
آیت اعراب کے ساتھ:
اِذْ قَالَ اللہُ يٰعِيْسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ وَمُطَہِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۚ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْہِ تَخْتَلِفُوْنَ۝۵۵
آیت اعراب کے بغیر:
اذ قال الله يعيسى اني متوفيک و رافعک الي و مطهرک من الذين کفروا و جاعل الذين اتبعوک فوق الذين کفروا الى يوم القيمة ثم الي مرجعکم فاحکم بينکم فيما کنتم فيه تختلفون آیت 55
۱… ’’ (آل عمران:۵۵)‘‘
ہم اس آیت کریمہ کا ترجمہ اس مفسر اعظم کی زبان سے بیان کرتے ہیں جن کو قادیانی اور لاہوری، صدی ششم کا مجدد اعظم قرار دے چکے ہیں اور دنیائے اسلام میں وہ امام فخرالدین رازی کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ تفسیر کبیر میں بذیل آیت کریمہ فرماتے ہیں اور قریباً سات سو (۷۰۰) سال پیشتر قادیانیوں کے الحاد اور تحریف کا جواب دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’ ووجد ہذا المکر اذ قال اﷲ ہذا القول (انی متوفیک) ومعنیٰ قولہ تعالیٰ انی متوفی ای متمم عمرک فحینئذ اتو فاک فلا اترکہم حتیٰ یقتلوک بل انا رافعک الیٰ سمائی ومقر ملائکتی واصونک ان یتمکنوا من قتلک وہذا تاویل حسن… ان التوفی اخذ الشیٔ وافیا ولما علم اﷲ ان من الناس من یخطر ببالہ ان الذین رفعہ ہو روحہ لا جسدہ ذکر ہذا الکلام لیدل علیٰ انہ علیہ الصلوت والسلام رفع بتمامہ الیٰ السماء بروحہ وبجسدہ… وکان اخرجہ من الارض واصعادہ الیٰ السماء توفیا لہ فان قیل فعلیٰ ہذا الوجہ کان التؤفی عین الرفع الیہ فیصیر قولہ ورافعک الیّٰ تکرارا قلنا قولہ انی متوفیک یدل علیٰ حصول التوفی وھو جنس تحتہ انواع بعضہا بالموت وبعضہا بالاصعاد الیٰ السماء فلما قال بعد ورافعک الیّٰ کان ہذا تعیینا للنوع ولم یکن تکرارا… ومطہرک من الذین کفروا والمعنی مخرجک من بینہم ومفرق بینک وبینہم ‘‘

(تفسیر کبیر جز۸ ص۷۱،۷۲)
امام رازی مجدد صدی ششم فرماتے ہیں: ’’اور یہ مکر الٰہی اس وقت پایا گیا جب کہ کہا خدا نے انی متوفیک اور انی متوفیک کے معنی ہیں (اے عیسیٰ) میں تیری عمر پوری کروں گا اور پھر تجھے وفات دوں گا۔ پس میں ان یہود کو تیرے قتل کے لئے نہیں چھوڑوں گا۔ بلکہ میں تجھے اپنے آسمان اور ملائکہ کے مقر کی طرف اٹھا لوں گا اور تجھ کو ان کے قابو میں آنے سے بچالوں گا اور یہ تفسیر نہایت ہی اچھی ہے… تحقیق توفی کے معنی ہیں کسی چیز کو ہر لحاظ سے اپنے قابو میں کر لینا اور کیونکہ اﷲتعالیٰ کو معلوم تھا کہ بعض آدمی (سرسید علی گڑھی اور مرزاغلام احمد قادیانی وغیرہم) خیال کریں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم نہیں بلکہ روح اٹھائی گئی تھی۔ اس واسطے انی متوفیک کا فقرہ استعمال کیا تاکہ یہ کلام دلالت کرے۔ا س بات پر کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جسم بمعہ روح آسمان کی طرف اٹھا لئے گئے۔ ان کی توفی کے معنی زمین سے نکل کر آسمان کی طرف اٹھایا جانا ہے اور اگر کہا جائے کہ اس صورت میں تو توفی اور رفع میں کوئی فرق نہ ہوا بلکہ دونوں ہم معنی ہوئے اور اگر ہم معنی ہوئے تو پھر رافعک الیّٰ کا فقرہ بلا ضرورت تکرار کلام میں ثابت ہوا۔ (جس سے کلام اﷲ پاک ہے) جواب اس کا ہم یہ دیتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ کے قول انی متوفیک سے صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی کا اعلان کرنا ہے اور توفی ایک عام لفظ ہے جس کے ماتحت بہت قسمیں ہیں۔ ان میں سے ایک توفی موت کے ساتھ ہوتی ہے اور ایک توفی آسمان کی طرف بمعہ جسم اٹھالینا ہے۔ پس جب ’’ انی متوفیک ‘‘ کے بعد اﷲتعالیٰ نے فرمایا ’’ ورافعک الیّٰ ‘‘ تو اس فقرہ سے توفی کی ایک قسم مقرر ومعین ہوگئی (یعنی رفع جسمانی) پس کلام میں تکرار نہ رہا اور ’’ مطہرک من الذین کفروا ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ میں تجھے ان یہود کی صحبت سے جدا کرنے والا ہوں اور تیرے اور ان کے درمیان علیحدگی کرنے والا ہوں۔‘‘ ختم ہوا ترجمہ تفسیر کبیر کا۔

۲… تفسیر از امام جلال الدین سیوطیؒ جن کو قادیانی اور لاہوری دونوں مجدد صدی نہم ماننے کے علاوہ اس مرتبہ کا آدمی سمجھتے ہیں کہ:
’’وہ آنحضرتﷺ سے بالمشافہ مسائل متنازع فیہ پوچھ لیا کرتے تھے۔‘‘

(ازالہ اوہام ص۱۵۱، خزائن ج۳ ص۱۷۷)
’’ اذ قال اﷲ یا عیسیٰ انی متوفیک (قابضک) ورافعک الیّٰ (من الدنیا من غیر موت) ومطہرک (مبعدک) من الذین کفروا وجاعل الذین اتبعوک (صدقوا نبوتک من المسلمین والنصاریٰ) فوق الذین کفروا بک وہم الیہود یعلونہم بالحجۃ والسیف ‘‘
(تفسیر جلالین ص۵۲)
’’جب کہا اﷲتعالیٰ نے اے عیسیٰ علیہ السلام! میں تجھ کو اپنے قبضہ میں کرنے والا ہوں اور دنیا سے بغیر موت کے آسمان کی طرف اٹھانے والا ہوں اور تجھے الگ کرنے والا ہوں کافروں کی صحبت سے اور تیرے تابعداروں کو تیرے مخالفوں پر قیامت تک دلائل اور تلوار سے غالب رکھنے والا ہوں۔‘‘

دیگر مجددین امت نے بھی اس آیت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی ہی کو ثابت کیا ہے۔ ایک مجدد یا محدث بھی ایسا پیش نہیں کیاجاسکتا جس نے اس آیت میں رفع کے معنی رفع روحانی کئے ہوں۔ ہاں بعض بزرگوں نے اس آیت میں توفی کے مجازی معنی یعنی موت دینا اختیار کرنے کی اجازت دی ہے۔ مگر ساتھ ہی تقدیم وتاخیر کی شرط لگا کر پھر بھی رفع جسمانی کے قائل رہنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ لیجئے! اس کے متعلق بھی ہم صرف تین مجددین کے اقوال پیش کرتے ہیں۔ جن کا رد کرنے والا مرزاقادیانی کے فتویٰ کی رو سے فاسق ہو جائے گا۔

۱… امام فخرالدین رازی مجدد صدی ششم کا ارشاد ملاحظ ہو:
’’ وقولہ رافعک الیّٰ یقتضی انہ رفعہ حیا والوا ولا تقتضی الترتیب فلم یبق الا ان یقول فیہا تقدیم وتاخیر والمعنیٰ انی رافعک الیّٰ ومطہرک من الذین کفروا ومتوفیک بعد انزالی ایاک فی الدنیا ومثلہ من التقدیم والتاخیر کثیر فی القرآن ‘‘

(تفسیر کبیر ج۸ ص۷۲)
’’قول الٰہی رافعک الیّٰ تقاضا کرتا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے آپ کو زندہ اٹھا لیا اور واؤ ترتیب کا تقاضا نہیں کرتی۔ پس سوائے اس کے کچھ نہ رہا کہ کہا جائے کہ اس میں تقدیم وتاخیر ہے اور معنی یہ ہیں کہ میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور کفار سے بالکل پاک وصاف رکھنے والا ہوں اور تجھے دنیا میں نازل کرنے کے بعد فوت کرنے والا ہوں اور اس قسم کی تقدیم وتاخیر قرآن شریف میں بکثرت ہے۔‘‘
اس سے ذرا پہلے فرماتے ہیں:
’’ ان الواو فی قولہ متوفیک ورافعک الیّٰ لا تفید الترتیب فالایۃ تدل علیٰ انہ تعالیٰ یفعل بہ ہذہ الافعال فاما کیف یفعل ومتی یفعل فالامر فیہ موقوف علیٰ الدلیل وقد ثبت الدلیل انہ حی وورد الخبر عن النبیﷺ انہ سینزل ویقتل الدجال ثم انہ تعالیٰ یتوفاہ بعد ذالک ‘‘

(تفسیر کبیر ج۸ ص۷۱،۷۲)
’’واؤ عاطفہ جو اس آیت میں ہے وہ مفید ترتیب نہیں۔ یعنی وہ ترتیب کے لئے نہیں۔ پس یہ آیت صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اﷲتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے یہ سب معاملات کرے گا۔ لیکن کس طرح کرے گا اور کب کرے گا۔ پس یہ سب کچھ کسی اور دلیل پر موقوف ہے اور اس کی دلیل ثابت ہوچکی ہے کہ آپ زندہ ہیں اور نبیﷺ سے حدیث وارد ہے کہ آپ ضرور اتریں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔ پھر اﷲتعالیٰ آپ کو اس کے بعد فوت کرے گا۔‘‘

۲… امام سیوطیؒ مجدد صدی نہم فرماتے ہیں:
’’ عن الضحاکؒ عن ابن عباسؓ فی قولہ انی متوفیک ورافعک الیّٰ یعنی رافعک ثم متوفیک فی آخر الزمان ‘‘

(درمنثور ج۲ ص۳۶)
’’حضرت ضحاکؒ تابعی حضرت ابن عباسؓ سے قول الٰہی انی متوفیک ورافعک الیّٰ کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا۔ مراد اس جگہ یہ ہے کہ تجھے اٹھا لوں گا۔ پھر آخری زمانہ میں فوت کروں گا۔‘‘

۳… تفسیر از علامہ محمد طاہر گجراتی مصنف مجمع البحار جن کو قادیانی مجدد صدی دہم تسلیم کرتے ہیں۔
’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ علی التقدیم والتاخیر… ویجییٔ اخر الزمان لتواتر خبر النزول ‘‘ ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘ میں تقدیم وتاخیر ہے۔ یعنی معنی یہ ہیں کہ میں تجھے اوپر اٹھانے والا ہوں اور پھر فوت کرنے والا ہوں… حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخر زمانہ میں دوبارہ آئیں گے۔ کیونکہ احادیث نبوی نزول کے بارہ میں تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں۔
غرضیکہ تمام علماء اسلام سلف وخلف کا یہی مذہب ہے کہ یہ آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کا اعلان کر رہی ہے۔ اگر قادیانی امت ۱۳صدیوں کے علماء مجددین میں سے ایک مجدد بھی ایسا پیش کر سکے۔ جس نے اس آیت میں رفع سے مراد رفع روحانی لیا ہو۔ تو ہم انعام مقررہ کے علاوہ اعلان کرتے ہیں کہ ایک سال تک تردید مرزائیت کا کام چھوڑ دیں گے۔ جب یہ طے ہوگیا کہ تیرہ صدیوں کے مجددین امت (جن کی فہرست قادیانیوں کی مایہ ناز کتاب (عسل مصفیٰ ج۱ ص۱۶۲،۱۶۵) پر لکھی ہے) میں سے ایک بھی اس رفع کے معنی رفع روحانی نہیں کرتا۔ بلکہ تمام کے تمام اس کے معنی رفع جسمانی پر ایمان رکھتے ہیں تو جو آدمی ان کے فیصلہ کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرے گا وہ قادیانی فتویٰ کی رو سے فاسق ہو جائے گا۔

(قادیانی اصول نمبر۴)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
توفی کی پرلطف بحث
میرے معزز ناظرین! توفی کی تفسیر میں نے ایسے مفسرین کی زبان سے بیان کر دی ہے کہ جس آدمی میں ذرا بھی انصاف اور حق پرستی کا مادہ ہو۔ وہ قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ یہ سارے حضرات قادیانی اور لاہوری مرزائیوں کے مسلمہ مجددین گزرے ہیں اور مجدد علوم لدنیہ اور آیات سماویہ کے ساتھ علوم قرآنیہ کی صحیح تعلیم کے لئے مبعوث ہوتے ہیں۔ وہ دین میں نہ کمی کرتے ہیں نہ زیادتی۔
(قادیانی اصول نمبر۴)
مگر تاہم چونکہ قادیانی مناظر ہر جگہ توفی کے متعلق بڑی تحدی اور زور سے چیلنج دیا کرتے ہیں۔ لہٰذا مناسب سمجھتا ہوں کہ بقدر ضرورت میں بھی اس پر روشنی ڈال کر اپنے ناظرین کو حقیقت حال سے مطلع کر دوں۔ پہلے میں مرزاقادیانی کے خیالات کو ان کی کتابوں کے حوالہ سے ’’توفی کی بحث‘‘ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ اس کے بعد خود اپنا ’’مافی الضمیر‘‘ عرض کروں گا۔
سوال نمبر:۱… توفی کے حقیقی معنی کیا ہیں؟
جواب نمبر:۱… از مرزا ’’توفی کے حقیقی معنی وفات دینے اور روح قبض کرنے کے ہیں۔‘‘
جواب نمبر:۲… ’’توفی کے معنی حقیقت میں وفات دینے کے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۰۱، خزائن ج۳ ص۴۲۵)
سوال نمبر:۲… توفی کے مجازی معنی کیا ہیں؟
جواب… ’’(قرآن شریف میں) دونوں مقامات میں نیند پر توفی کے لفظ کا اطلاق کرنا ایک استعارہ ہے جو بہ نصب قرینہ نوم استعمال کیاگیا ہے۔ یعنی صاف لفظوں میں نیند کا ذکر کیاگیا ہے۔ تاہر ایک شخص سمجھ لے کہ اس جگہ توفی سے مراد حقیقی موت نہیں ہے۔ بلکہ مجازی موت مراد ہے جو نیند ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۳۲، خزائن ج۳ ص۲۶۹)
سوال نمبر:۳… قرآن کریم میں یہ لفظ کن معنوں میں استعمال ہوا ہے؟
جواب نمبر:۱… از مرزاقادیانی: ’’قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک جس جس جگہ توفی کا لفظ آیا ہے۔ ان تمام مقامات میں توفی کے معنی موت ہی لئے گئے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۲۴۶، خزائن ج۳ ص۲۲۴ حاشیہ)
جواب نمبر:۲… ’’توفی کے سیدھے اور صاف معنی جو موت ہیں وہی اس جگہ (قرآن کریم میں) چسپاں ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۲۴۶، خزائن ج۳ ص۲۲۴)
جواب نمبر:۳… ’’ابھی ہم ظاہر کر چکے ہیں کہ قرآن کریم اوّل سے آخر تک صرف یہی معنی ہر ایک جگہ مراد لیتا ہے کہ روح کو قبض کر لینا اور جسم سے کچھ تعلق نہ رکھنا بلکہ اس کو بیکار چھوڑ دینا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۴۲، خزائن ج۳ ص۳۹۱)
سوال نمبر:۴… از ابوعبیدہ: ’’مرزاقادیانی! یہ کیسے معلوم ہو کہ کوئی لفظ کس جگہ اپنے حقیقی معنوں میں مستعمل ہوا اور کس جگہ مجازی معنوں میں؟‘‘
جواب… از مرزاقادیانی: ’’اس بات کے دریافت کے لئے کہ متکلم نے ایک لفظ بطور حقیقت مسلمہ استعمال کیا ہے یا بطور مجاز اور استعارہ نادرہ کے بھی کھلی کھلی علامت ہوتی ہے کہ وہ حقیقت مسلمہ کو ایک متبادر اور شائع ومتعارف لفظ سمجھ کر بغیر احتیاج قرائن کے یونہی مختصر بیان کر دیتا ہے۔ مگر مجاز یا استعارہ نادرہ کے وقت ایسا اختصار پسند نہیں کرتا۔ بلکہ اس کا فرض ہوتا ہے کہ کسی ایسی علامت سے جس کو ایک دانشمند سمجھ سکے۔ اپنے اس مدعا کو ظاہر کر جائے کہ یہ لفظ اپنے اصلی معنوں پر مستعمل نہیں ہوا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۳۳، خزائن ج۳ ص۲۶۹)
سوال نمبر:۵… از ابوعبیدہ: ’’مرزاقادیانی! سچ سچ فرمائیے کہ موت یا حیات دینے کا اختیار خدا کے سوا کسی اور ہستی کو بھی ہوسکتا ہے؟‘‘
جواب… از مرزاقادیانی: ’’خداتعالیٰ اپنے اذن اور ارادہ سے کسی شخص کو موت اور حیات ضرر اور نفع کا مالک نہیں بناتا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۱۴، خزائن ج۳ ص۲۶۰ حاشیہ)
سوال نمبر:۶… از ابوعبیدہ: ’’قرآن شریف میں توفی کا لفظ کتنی جگہ آیا ہے۔ ذرا مکمل فقرات کی صورت میں پیش کیجئے؟‘‘
جواب… از مرزاقادیانی:
۱… ’’والذین یتوفون منکم (بقرہ)‘‘
۲… ’’والذین یتوفون منکم (بقرہ)‘‘
۳… ’’حتیٰ یتوفہن الموت (نسائ)‘‘
۴… ’’توفہم الملئکۃ ظالمی انفسہم (نسائ)‘‘
۵… ’’توفتہ رسلنا (انعام)‘‘
۶… ’’رسلنا یتوفونہم (اعراف)‘‘
۷… ’’اذیتوفی الذین کفروا الملئکۃ (انفال)‘‘
۸… ’’فکیف اذا توفتہم الملئکۃ یضربون وجوہہم (محمد)‘‘
۹… ’’الذین تتوفہم الملئکۃ ظالمی انفسہم (نحل)‘‘
۱۰… ’’الذین تتوفہم الملئکۃ طیبین (نحل)‘‘
۱۱… ’’قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم (الم سجدہ)‘‘
۱۲… ’’واما نرینک بعض الذی نعدہم (ونتوفینک) (یونس)‘‘
۱۳… ’’واما نرینک بعض الذی نعدہم (ونتوفینک) (رعد)‘‘
۱۴… ’’واما نرینک بعض الذی نعدہم (ونتوفینک) (مؤمن)‘‘
۱۵… ’’ثم یتوفکم (نحل)‘‘
۱۶… ’’ومنکم من یتوفیٰ (حج)‘‘
۱۷… ’’ومنکم من یتوفیٰ (مؤمن)‘‘
۱۸… ’’وتوفنا مع الابرار (آل عمران)‘‘
۱۹… ’’توفنا مسلمین (اعراف)‘‘
۲۰… ’’توفنی مسلما والحقنی بالصالحین (یوسف)‘‘
۲۱… ’’ھو الذی یتوفکم بالیل ویعلم ماجرحتم بالنہار ثم یبعثکم فیہ لیقضی اجل مسمیٰ (انعام)‘‘
۲۲… ’’اﷲ یتوفی الانفس حین موتہا والتی لم تمت فی منامہا فیمسک التی قضی علیہا الموت ویرسل الاخریٰ الی اجل مسمیٰ (زمر)‘‘

(ازالہ اوہام ص۳۳۰،۳۳۳، خزائن ج۳ ص۲۶۸)
سوال نمبر:۷… ازابوعبیدہ: ’’مرزاقادیانی! آپ نے آیات نقل کرنے میں دیانت سے کام نہیں لیا۔ صرف آخری دو آیتیں کما حقہ نقل کی ہیں۔ میں ہر ایک آیت کے متعلق ابھی مفصل عرض کروں گا۔ مگر اتنا تو آپ کے اصول سے سمجھ میں آگیا کہ اگر میں ثابت کر دوں کہ توفی کے حقیقی معنی موت دینا نہیں بلکہ جس طرح آپ توفی کے مجازی معنی نیند دینا مانتے ہیں۔ بعینہ اسی طرح ہم توفی کے مجازی معنی موت دینا بھی مانتے ہیں۔ دلائل ذیل میں ملاحظہ کیجئے اور پھر ایمان سے فرمائیے کہ آپ کے جھوٹا ہونے میں کوئی شک ہے؟‘‘
توفی کے حقیقی معنی کسی چیز کو اپنے تمام لوازمات کے ساتھ قبضہ میں کر لینا ہے۔ وجہ ملاحظہ کریں:

۱… توفی کا لفظ وفا سے نکلا ہوا ہے اور باب تفعل کا صیغہ ہے۔ اسی طرح ایفاء توفیہ اور استیفاء بھی اسی مادہ وفاء سے بالترتیب باب افعال، تفصیل اور استفعال کے صیغے ہیں۔ اب یہ بات تو ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ کسی صیغہ کے حقیقی معنوں میں مادے (اصلی روٹ) کے معنی ضرور موجود رہتے ہیں۔ پس ان سب صیغوں میں وفا کے معنی پائے جانے ضروری ہیں۔ وفاء کے معنی ہیں پورا کرنا۔ معمولی طالب علم بھی جانتے ہیں کہ باب تفعل اور استفعال میں اخذ یعنی لینے کے معنی زائد ہو جاتے ہیں۔ پس توفی اور استیفا کے معنی ہوئے۔ ’’ اخذ الشیی وافیاً ‘‘ یعنی کسی چیز کو پورا پورا لے لینا۔ یعنی تمام جزئیات سمیت قابو کر لینا۔ چنانچہ ہم اپنی تصدیق وتائید میں ماہرین زبان عرب کے اقوال پیش کرتے ہیں۔
الف… ’’ اساس البلاغہ ‘‘ میں لکھا ہے: ’’ استوفاہ وتوفاہ استکملہ ‘‘ یعنی استیفاء اور توفی دونوں کے معنی پورا پورا لے لینا ہے۔
ب… (لسان العرب ج۱۵ ص۳۵۹) میں بھی یہی لکھا ہے۔
ج… تفسیر کبیر میں علامہ فخرالدین رازی مجدد صدی ششم نے بھی دونوں کو ہم معنی قرار دیا ہے۔

۲… مرزاقادیانی! آیت نمبر۴،۵،۷تا۱۱ میں توفی کرنے والے فرشتے قرار دئیے گئے ہیں اور آپ کے جواب نمبر:۵ میں آپ نے فرمایا ہے کہ موت وحیات بغیر خدا کے کوئی دے نہیں سکتا۔ پس ماننا پڑے گا کہ اگر توفی کے حقیقی معنی موت دینے کے ہیں تو پھر فرشتے آپ کے نزدیک خدا ٹھہریں گے اور اگر فرشتے خدا نہیں اور یقینا نہیں تو پھر توفی کے حقیقی معنی موت دینا نہیں ہوسکتے اور یقینا نہیں ہوسکتے؟

۳… آیات نمبر:۱،۲ میں ’’ یتوفون ویتوفون ‘‘ دونوں طرح پڑھنا جائز ہے۔
پہلی صورت میں فعل مجہول ہے اور دوسری صورت میں معروف ہے۔ دوسری صورت میں توفی بمعنی موت کرنے، ناممکن ہیں۔ کیونکہ والذین اس کا فاعل ضمیر ہے۔ مرزا قادیانی! آپ کے معنی قبول کر لیں تو یوں معنی کرنے پڑیں گے۔ ’’وہ لوگ جو اپنے آپ کو موت دیتے ہیں۔‘‘ یہ بالکل بے معنی ہوا۔ اس سے بھی ثابت ہوا کہ توفی کے حقیقی موت دینا نہیں۔

۴… آیت نمبر:۳ میں یتوفی کا فاعل الموت ہے۔ اگر توفی بمعنی موت دینا ہو تو آیت کے معنی یوں کریں گے۔ یہاں تک کہ موت ان کو موت دے دے۔
مرزاقادیانی! کچھ تو انصاف کیجئے! کیا موت ہم کو موت دیا کرتی ہے یا خدا؟ موت تو خدا دیتا ہے۔ پس اس سے بھی ثابت ہوا کہ توفی کے حقیقی معنی موت دینا نہیں۔

۵… قرآن شریف میں توفی کے معنی بطور مجاز جہاں موت دینا کئے گئے ہیں۔ وہاں اسی فعل کا فاعل یا تو خدا ہے یا فرشتے۔ یا موت یا خود آدمی۔ حالانکہ اس کے برعکس اماتت جس کے حقیقی معنی موت دینا ہے۔ اس کا فاعل قرآن کریم یا حدیث نبوی یا اقوال صحابہؓ یا اقوال اہل لسان میں کسی جگہ بھی سوائے خدا کے اور کسی کو قرار نہیں دیا۔ اگر توفی کے حقیقی معنی موت ہیں تو قرآن کریم میں اس کا فاعل بھی سوائے خدا کے اور کوئی نہ ہوتا۔ پس اﷲتعالیٰ کا دونوں فعلوں کے فاعل مقرر کرنے میں اس قدر اہتمام کرنا ثابت کرتا ہے کہ اگر اماتت کے حقیقی معنی موت دینا ہے تو یقینا توفی کے حقیقی معنی موت دینا نہیں ہو سکتے۔ ورنہ وجہ بتائی جائے کہ کیوں سارے قرآن کریم میں احیاء اور اماتت کے استعمال میں نسبت فاعلی خدا نے اپنی طرف کی ہے اور توفی میں سب طرح جائز رکھا ہے؟

۶… آپ نے جس قدر آیات نقل کی ہیں۔ اگر مکمل پڑھی جائیں تو ہر ایک میں قرینہ موت موجود ہے۔ مثلاً:
آیت نمبر:۱… میں آپ نے صرف اتنا نقل کیا ہے۔ ’’ والذین یتوفون منکم ‘‘ اور اس کے آگے ’’ ویذرون ازواجاً وصیۃ لا زواجہم متاعاً الیٰ الحول غیر اخراج ‘‘ ’’تم میں سے جو لوگ اپنی عمر پوری کر لیتے ہیں۔ (یعنی فوت ہو جاتے ہیں) اور چھوڑ جاتے ہیں اپنی عورتیں۔ وہ وصیت کر جایا کریں اپنی بیبیوں کے واسطے۔‘‘
آیت نمبر:۲… میں بھی ’’ویذرون ازواجاً یتربصن بانفسہن اربعۃ اشہر وعشراً‘‘ یہاں بھی بیبیوں کا پیچھے چھوڑ جانا اور ان کی عدت کا حکم صاف صاف قرینہ صارفہ موجود ہے۔ یعنی یتوفون کے معنی ہوں گے اپنی عمر پوری کر لینا۔
اسی طرح آیات نمبر۴ سے۱۱ تک موت کے فرشتوں کا فاعل ہونا قرینہ ہے۔ بعض میں حیات کا ذکر کرنے کے بعد توفی کا استعمال ہوا ہے۔ جو قرینہ کا کام دیتا ہے۔ بعض آیات میں خاتمہ بالخیر کی دعا قرینہ موت موجود ہے۔ آیت نمبر:۲۱ میں باللیل وغیرہ قرینہ نیند کا موجود ہے۔ اس واسطے یہاں توفی کے معنی نیند دینا ہے۔ ورنہ اگر توفی کے حقیقی معنی موت کے ہوں تو مرزاقادیانی کو ماننا پڑے گا کہ تمام دنیا رات کو حقیقی موت مرجاتی ہے۔ صبح پھر دوبارہ زندہ ہوجاتی ہے (اور یہ بات مرزائیوں کے نزدیک بھی صحیح نہیں)
آیت نمبر۲۲ تو توفی کے معنوں کا فیصلہ ہی کر دیتی ہے۔ توفی کا مفعول انفس ہے یعنی روح۔ اگر آپ کے معنی قبول کر لئے جائیں تو ماننا پڑے گا کہ اﷲ روح کو موت دے دیتا ہے۔ حالانکہ یہ امر بالکل غلط ہے۔ ہاں پھر ’’ والتی لم تمت فی منامہا ‘‘ (اور اﷲ ان روحوں کی بھی توفی کرتا ہے جن پر موت وارد نہیں ہوئی) کا اعلان کرکے مرزاقادیانی! آپ کے سارے تانے بانے کو توڑ پھوڑ دیا ہے۔ کیونکہ یہاں توفی کا حکم بھی جاری ہے اور لم تمت (نہیں مریں یعنی زندہ ہیں)کا اعلان بھی ہورہا ہے۔ یعنی توفی کا عمل ہو جانے کے بعد بھی آدمی کا زندہ رہنا ممکن ہی نہیں بلکہ ہر روز کروڑہا انسانوں پر اس کا عمل ہورہا ہے۔ غرضیکہ اس آیت میں ایک ہی لفظ توفی مستعمل ہوا ہے۔ اس کے معنی مجازی طور پر مارنے کے بھی ہیں اور مجازی طور سلانے کے بھی۔

نتیجہ… آپ نے سوال جواب نمبر۴ میں فرمایا تھا کہ اگر کوئی لفظ اپنے حقیقی معنوں میں استعمال ہوتو اس کے ساتھ قرائن نہیں ہوتے اور جن کے ساتھ قرینہ موجود ہو۔ وہ ضرور مجازی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ ان تمام آیات میں موت اور نیند کے معنی کرنے کے لئے زبردست قرائن موجود ہیں۔ اس واسطے ثابت ہوا کہ توفی کے حقیقی معنی صرف اخذ الشیٔ وافیاً یعنی کسی چیز کو پوری طرح اپنے قبضہ میں کر لینا ہے اور اس کے معنی کرتے وقت قرینہ کا ضرور خیال رکھنا ہوگا۔ بغیر قرینہ کے اس کو اپنے حقیقی معنوں سے پھیرنا جائز نہ ہوگا۔

۷… قرآن شریف میں حیوٰۃ اور اس کے مشتقات کے مقابلہ پر صرف موت اور اس کے مشتقات ہی مستعمل ہیں۔ تمام کلام اﷲ میں کہیں بھی حیات کے مقابلہ پر توفی کا استعمال نہیں ہوا۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ آپ بمعہ اپنی جماعت کے قرآن کریم ہزارہا احادیث رسول کریمﷺ اقوال صحابہؓ، اقوال بزرگان دین اور سینکڑوں کتب لسان عرب سے کہیں ایک ہی ایسا مقام دکھا دو۔ جہاں احیاء (زندہ کرنا) اور توفی (پوری پوری گرفت کرنا) بالمقابل استعمال ہوئے ہیں۔ انشاء اﷲ تاقیامت نہ دکھاسکو گے۔

۸… امام ابن تیمیہ کو مرزاقادیانی آپ ساتویں صدی کا مجدد تسلیم کر چکے ہیں اور مجدد کے فیصلہ سے انحراف کرنے والا فاسق ہوتا ہے۔ دیکھئے وہ فرماتے ہیں:
’’ لفظ التوفی فی لغۃ العرب معناہ الاستیفاء والقبض وذالک ثلثۃ انواع احدہا توفی النوم والثانی توفی الموت والثالث توفیٰ الروح والبدن جمیعاً فانہ بذالک خرج عن حال اہل الارض ‘‘
(الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح ج۲ ص۲۸۰)
’’لفظ توفی کے معنی ہیں کسی چیز کو پوراپورا لے لینا اور اس کو اپنے قابو میں کر لینا اور اس کی پھر تین قسمیں ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک نیند کی توفی ہے۔ دوسری موت کی توفی اور تیسری روح اور جسم دونوں کی توفی ہے اور عیسیٰ علیہ السلام اس تیسری توفی کے ساتھ اہل زمین سے جدا ہوگئے۔‘‘
۹… توفی کے یہی معنی امام فخرالدین رازیؒ آپ کے مجدد صدی ششم اور
۱۰… امام جلال الدین سیوطیؒ آپ کے مجدد صدی نہم بھی تسلیم کر رہے ہیں۔
دیکھئے تفسیر کبیر اور تفسیر جلالین وغیرہ۔ تلک عشرۃ کاملۃ!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
توفی عیسیٰ علیہ السلام کی بحث
ناظرین باتمکین! جب یہ امر ثابت ہوچکا کہ توفی کے حقیقی معنی اخذ الشیٔ وافیاً کے ہیں اور یہ کہ مارنا اور سلانا اس کے مجازی معنی ہیں۔ یہ بھی دلائل سے ثابت ہو چکا ہے کہ کلام اﷲ میں جہاں کہیں توفی بمعنی مارنا استعمال ہوا ہے۔ وہاں موت کا قرینہ موجود ہے اور جہاں بمعنی سلانا مستعمل ہوا ہے۔ وہاں نیند کا کوئی نہ کوئی قرینہ موجود ہے۔ پس جب یہ لفظ بغیر قرینہ موت اور نیند پایا جائے گا تو کوئی شخص اس کے معنی موت دینا یا سلانا کرنے کا مجاز نہیں ہوسکتا۔ کلام اﷲ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے توفی دو جگہ آیا ہے۔ ایک تو آیت ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘ میں دوسرا ’’ فلما توفیتنی ‘‘ میں۔
اب میں دلائل سے ثابت کرتا ہوں کہ ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘ کی توفی کے معنی کیا ہیں۔
حضرات! یہ کلام اﷲ کا معجزہ ہے اور علام الغیوب کے علم غیب پر زبردست دلیل ہے کہ اس آیت کے الفاظ کی بندش اور لفظ توفی کا استعمال ہی اس طریقہ سے کیا گیا ہے کہ توفی کے سارے معنی حقیقی یا مجازی چسپاں کر کے دیکھیں سب ٹھیک بیٹھتے ہیں۔ اسی واسطے جس کسی مفسر نے جو معنی اس کو مرغوب لگے وہی لگادئیے۔ مگر یہ تفسیر اجماع امت کا حکم رکھتی ہے کہ اس آیت کی رو سے تمام امت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کے قائل ہے۔
۱… بعض نے فرمایا اس کے معنی سلانا یہاں خوب چسپاں ہوتے ہیں۔ یعنی ’’اے عیسیٰ علیہ السلام میں تجھ کو نیند دینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔‘‘ چونکہ جاگتے ہوئے ہزارہا بلکہ لاکھوں میل کا پرواز اوپر کی طرف کرنا طبعاً توحش کا باعث ہوتا ہے۔ اس واسطے خدا نے نیند کی حالت میں رفع کا وعدہ کیا۔
۲… بعض علماء نے فرمایا کہ اس کے معنی عمر پوری کرنے کے ہیں۔ پس مطلب یہ ہے کہ: ’’اے عیسیٰ علیہ السلام! میں تیری عمر پوری کرنے والا ہوں۔ (یہ یہود تم پر قبضہ کر کے تمہیں قتل نہیں کر سکتے) اور میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔‘‘
اور اس کا مطلب انہیں علماء اسلام نے جن میں سے حبر الامت وترجمان القرآن حضرت ابن عباسؓ بھی ہیں۔ یہی بیان کیا ہے کہ رفع جسمانی کا زمانہ عمر پوری کرنے کے وعدہ کا جز ہے۔ یعنی رفع جسمانی پر نزول جسمانی کے بعد آپ کی عمر پوری کی جائے گی اور پھر موت آئے گی۔
۳… مرزاغلام احمد قادیانی نے مجدد ومحدث وملہم من اﷲ ہونے کے بعد اپنی الہامی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ میں اس کے معنی پورا پورا اجر دینے اور پوری نعمت دینے کے معنی کئے ہیں وہ بھی یہاں خوب چسپاں ہوتے ہیں۔ ’’یعنی اے عیسیٰ علیہ السلام! میں تم پر اپنی نعمت پوری کرنے والا ہوں اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۵۲۰ حاشیہ، خزائن ج۱ ص۶۲۰)
۴… جمہور علماء اسلام نے توفی کے حقیقی معنی ہی یہاں مراد لئے ہیں۔ یعنی اے عیسیٰ علیہ السلام! میں تیرے جسم وروح دونوں پر قبضہ کرنے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔‘‘ اور یہی معنی موزوں ہیں۔ جس کے دلائل ہم ابھی عرض کرتے ہیں۔ مگر یقینا یہ معجزہ کلام اﷲ کا ہے کہ اس آیت کی بندش الفاظ توفی کو اپنے تمام معنوں میں چسپاں کرنے کے بعد بھی حیات عیسیٰ علیہ السلام کا ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں۔ خدائے علام الغیوب نے مرزاقادیانی کی پیدائش سے تیرہ سو سال پہلے ہی ان کے دھوکا کا انتظام کر دیا تھا۔ فالحمد ﷲ رب العالمین!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
توفی عیسیٰ کے معنی ’’مارنا‘‘ کرنے کے خلاف
جسم وروح پر قبضہ کرنے کی تائید میں دلائل اسلامی

ناظرین! انجیل کے بیان اور ومکروا ومکراﷲ کی بحث سے میں قادیانی مسلمات کی رو سے ثابت کر آیا ہوں کہ یہود نے مکروفریب کے ذریعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر قبضہ کر کے انہیں قتل کرنے کا اہتمام کر لیا تھا اور مرزاقادیانی کے اپنے الفاظ سے ثابت کر آیا ہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو موت سامنے نظر آنے لگ گئی اور یہ بھی ثابت کر آیا ہوں اور وہ بھی مرزاقادیانی کی زبانی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس مصیبت سے بچنے کی دعا تمام رات کی۔ وہ قبول بھی ہوگئی۔ قبولیت کی آواز بذریعہ وحی ان الفاظ قرآنی میں آئی۔ ’’ یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ومطہرک من الذین کفروا وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامۃ (آل عمران:۵۵) ‘‘

حسب اصول مرزاقادیانی ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘ میں توفی بمعنی مجازی لینے کے لئے کوئی قرینہ یا علامت ضروری چاہئے تھی۔ مگر کوئی قرینہ موت کا اس کے ساتھ موجود نہیں۔ بلکہ باوجود توفی اپنے حقیقی معنوں میں یعنی روح بمعہ جسم کو قبضہ میں لے لینا یہاں مستعمل ہے۔ پھر یہی مرزاقادیانی جیسے محرفین کلام اﷲ اور مدعیان مجددیت ومسیحیت کا ناطقہ بند کرنے کے اﷲتعالیٰ نے یہاں بہت سے ایسے قرائن بیان فرمادئیے ہیں جو قبض روح معہ الجسم پر ڈنکے کی چوٹ اعلان کر رہے ہیں اور وہ قرائن یہ ہیں۔
قرینہ نمبر:۱… توفی کے بعد جب رفع کا لفظ استعمال ہوگا اور رفع کا صدور بھی توفی کے بعد ہوتو اس وقت توفی کے معنی یقینا غیرموت ہوں گے۔ اگر کوئی قادیانی لغت عرب سے اس کے خلاف کوئی مثال دکھا سکے تو ہم یک صدروپیہ خاص انعام دینے کا اعلان کرتے ہیں۔
قرینہ نمبر:۲… آیت ’’ ومکروا ومکراﷲ واﷲ خیر الماکرین ‘‘ کے بعد ’’ انی متوفیک ‘‘ وارد ہوئی ہے اور یہ اﷲ کے مکر کی گویا تفسیر ہے۔ یہود کے مکر اور اﷲتعالیٰ کے مکر میں تضاد اور مخالفت ضروری ہے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔ یہودیوں نے مکر کیا اور اﷲ نے بھی مکر کیا اور اﷲ سب مکر کرنے والوں سے اچھے ہیں۔ اﷲ کا مکر (تدبیر لطیف) سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم یہودیوں کی تدبیر معلوم کریں۔ سنئے! اور بالفاظ مرزا سنئے!
’’چنانچہ یہ بات قرار پائی کہ کسی طرح اس کو صلیب دی جائے پھر کام بن جائے گا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۲، خزائن ج۱۷ ص۱۰۶)
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ حالت دیکھی تو ان کے ظلم وجور سے بچنے کے لئے دعا مانگی۔ چنانچہ مرزاقادیانی اس کے متعلق لکھتا ہے:
’’حضرت مسیح نے خود اپنے بچنے کے لئے تمام رات دعا مانگی تھی اور یہ بالکل بعید ازقیاس ہے کہ ایسا مقبول درگاہ الٰہی تمام رات رو رو کر دعا مانگے اور وہ دعا قبول نہ ہو۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۱۴، خزائن ج۱۴ ص۳۵۱)
اس دعا عیسوی کے جواب میں اﷲتعالیٰ نے بذریعہ وحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فرمایا: ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ومطہرک من الذین کفروا ‘‘ اگر توفی کے معنی موت دینا یہاں تسلیم کئے جائیں تو مطلب یوں ہوگا۔ اے عیسیٰ علیہ السلام یہودیوں نے جو تمہارے قتل اور صلیب کی سازش کی ہے۔ ان کے مقابلہ پر میں نے یہ تدبیر لطیف کی ہے کہ میں ضرور تمہیں موت دوں گا۔ یہودی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مارنا چاہتے تھے اور خداتعالیٰ ان کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ہاں تم مرو گے اور ضرور مرو گے۔
سبحان اﷲ! یہ یہودیوں کی تجویز اور تدبیر کی تائید ہے یا اس کا رد ہے۔ اگر کہو کہ اس سے مراد طبعی موت دینا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ طبعی موت کی پچر کس طرح قبول کی جاسکتی ہے۔ اگر یہودی قتل کرنے اور صلیب دینے میں کامیاب ہو جاتے تو اس صورت میں موت دینے والے کیا یہودی ہوتے۔ کیا اس حالت کی توفی خدا کی طرف منسوب نہ ہوتی؟ پس اگر ’’ انی متوفیک ‘‘ کے معنی یہ کئے جائیں کہ میں تمہیں موت دینے والا ہوں۔ تو یہ یہودیوں کی تائید اور ان کے مکر کو کامیاب کرنے کا اعلان تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے اس میں کون سی تسلی تھی۔ اس واسطے تو فی عیسیٰ کے معنی روح وجسم پر قبضہ کرنا ہی صحیح ہے۔
قرینہ نمبر:۳… مرزاقادیانی کو بھی خدائے مرزا نے الہام کیا تھا۔ ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘
(براہین احمدیہ ص۵۵۶،۵۱۹، خزائن ج۱ ص۶۲۰،۶۶۴)
وہاں مرزاقادیانی اپنے لئے توفی بمعنی موت سے گھبراتے ہیں۔ وہاں یہ معنی کرتے ہیں۔ ’’ انی متوفیک ‘‘ یعنی میں تجھے پوری نعمت دوں گا یا پورا اجر دوں گا۔ پھر یہی مرزاقادیانی کس قدر دیدہ دلیری سے لکھتا ہے۔
’’ وثبت ان التوفی ھو الاماتۃ والافناء لا الرفع والاستیفائ ‘‘ یعنی ثابت ہویا کہ توفی کے معنی موت دینا اور فنا کرنا ہے نہ کہ رفع اور پورا پورا لینا یادینا۔
(انجام آتھم ص۱۳۱، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
پس جیسا اپنے لئے موت کا وعدہ مرزاقادیانی کو مرغوب نہیں ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے موت دینے کا وعدہ خداوندی کیونکر قبول کر سکتا ہے۔ بالخصوص جبکہ موت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حسب قول مرزا نظر آہی رہی تھی۔ جیسا کہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔
’’مسیح ایک انسان تھا اور اس نے دیکھا کہ تمام سامان میرے مرنے کے موجود ہوگئے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۹۴، خزائن ج۳ ص۳۰۳)
معزز ناظرین! اس حالت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جو دعا کی تھی اس کا ذکر بھی مرزاقادیانی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے۔
’’حضرت مسیح علیہ السلام نے تمام رات اپنے بچنے کے لئے دعا مانگی تھی۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۱۴، خزائن ج۱۴ ص۳۵۱)
’’یہ بالکل بعید ازقیاس ہے کہ ایسا مقبول درگاہ الٰہی تمام رات رورو کر دعا مانگے اور وہ دعا قبول نہ ہو۔‘‘
(حوالہ بالا)
’’یہ قاعدہ مسلم الثبوت ہے کہ سچے نبیوں کی سخت اضطرار کی ضرور دعا قبول ہو جاتی ہے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۳ ص۸۳، مجموعہ اشتاہرات ج۲ ص۱۰)
ان حالات میں بقول مرزاقادیانی، اﷲتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بشارت دیتے ہیں کہ اے عیسیٰ میں واقعی تجھے موت دینے والا ہوں۔ خوب مرزاقادیانی کو تو اﷲ تعالیٰ بغیر کسی خطرہ کی حالت کے وعدہ ’’ انی متوفیک ‘‘ کا دیں اور مرزاقادیانی بقول خود بمطابق لغت عرب اس کے معنی اپنے لئے موت تجویز نہیں کرتے۔ بلکہ لغت کے خلاف اس کے معنی کرتے ہیں۔ ’’میں تمہیں پورا پورا اجر دوں گا۔‘‘ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان ناگفتہ بہ حالات کے درمیان اﷲتعالیٰ بشارت دیتے ہیں۔ ’’ انی متوفیک ‘‘ اور مرزاقادیانی اس کے معنی کرتے ہیں۔ ’’میں تمہیں موت دینے والا ہوں۔‘‘
’’ تلک اذا قسمۃ ضیزی (النجم) ‘‘
{یہ تو بہت ہی بے ڈھنگی تقسیم ہے۔}
قرینہ نمبر:۴… ’’ انی متوفیک ‘‘ کے معنی رسول پاکﷺ سے لے کر آج تک جس قدر علماء مفسرین ومجددین مسلمہ قادیانی گزرے ہیں۔ انہوں نے تو یہ کئے ہیں۔ ’’اے عیسیٰ علیہ السلام میں تجھ کو بمعہ جسم آسمان کی طرف اٹھانے والا ہوں۔‘‘ قادیانی اس کے معنی یوں کرتے ہیں۔ ’’اے عیسیٰ علیہ السلام میں تمہارا رفع روحانی کروں گا۔‘‘ تجھے صلیب پر مرنے نہیں دوں گا۔ بیشک یہودی تمہیں ذلیل کریں گے۔ تمہارے منہ پر تھوکیں گے۔ تمہارے جسم میں کیل ٹھوکیں گے۔ تمہیں مردہ سمجھ کر چھوڑ جائیں گے۔ مگر تمہاری میں روح نہیں نکلنے دوں گا۔ روح تمہاری کسی اور موقع پر طبعی موت سے نکالوں گا۔ کیونکہ اگر اس وقت نکال لوں تو تم لعنتی موت مرو گے۔ (مفصل دیکھیں بحث ’’ومکروا ومکر اﷲ‘‘) سبحان اﷲ! یہ ہیں قادیانی کے نکات قرآنی۔ بھلے مانس کو یہ سمجھ نہیں کہ رفع روحانی کا تو ہر ایک مؤمن کو خدا وعدہ دے چکا ہے۔ بالخصوص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تو پہلے سے پتہ تھا۔
اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں:
۱’’یرفع اﷲ الذین اٰمنوا منکم والذین اوتوا العلم درجات (مجادلہ:۱۱) ‘‘
{اﷲتعالیٰ مؤمنوں اور علم والوں کے درجات کو بلند کرتا ہے۔} یعنی رفع روحانی ہے۔
(دیکھئے رفع کے ساتھ درجات کا لفظ مذکور ہے۔ اس واسطے یہاں اس کے معنی درجات کا بلند کرنا ہے)
۲… حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود بچپن میں کہہ دیا تھا۔
(الف)’’ والسلام علیّٰ یوم ولدت ویوم اموت ویوم ابعث حیاً (مریم:۳۳) ‘‘
{اور سلام ہے اﷲ کا مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا۔}
(ب)’’ وجعلنی مبارکاً اینما کنت (مریم:۳۱) ‘‘
{اور اﷲ نے بنایا مجھ کو برکت والا جہاں کہیں رہوں۔}
(ج)اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں فرمایا تھا۔ ’’ وجیہا فی الدنیا والآخرۃ ومن المقربین (آل عمران:۴۵) ‘‘
{حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا اور آخرت دونوں میں صاحب عزت وجاہت ہیں اور خدا کے مقرب بندوں میں سے ہیں۔}
(د)’’ کلمۃ اﷲ القاہا الیٰ مریم (نسائ:۱۷۱) ‘‘
{وہ اﷲ کے کلمہ تھے جو القاء کیاگیا تھا۔ طرف مریم کے۔}
(ہ)خود مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔ ’’ہر مؤمن کا رفع روحانی خود بخود ہوتا ہے۔ تمام انبیاء کا رفع روحانی ہوا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۲۶۵، خزائن ج۳ ص۲۳۳ ملخصاً)

پس ہمارا سوال یہاں یہ ہے کہ
یہ آیت چونکہ بطور بشارت ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ رفع روحانی کا وعدہ آپ کے لئے کیا بشارت ہوسکتی تھی؟
کیا اس وعدہ سے پہلے ان کو علم نہ تھا۔ کیا انہیں وجیہہ، کلمتہ اﷲ، روح اﷲ، نبی اولوالعزم ہونے کا یقین نہ تھا۔ کیا انہیں اپنی نجات کے متعلق کوئی شک پیدا ہوگیا تھا؟
جس کا دفعیہ یہاں کیاگیا تھا۔ ہرگز نہیں۔ انہیں اپنی نجات، معصومیت، روح اﷲ، کلمتہ اﷲ اور نبی ہونے کا یقین تھا۔ ہاں سارے سامان قتل اور صلیب اور ذلت کے دیکھ کر بتقاضائے بشریت فکر پیدا ہوا تھا۔ جس پر اﷲتعالیٰ نے بطور بشارت ارشاد فرمایا: ’’انی متوفیک‘‘ اے عیسیٰ علیہ السلام میں خود تم پر قبضہ کرنے والا ہوں۔ (پس گھبراؤ نہیں یہودی تم پر قبضہ نہیں کر سکتے) پھر بتقاضائے بشریت خیال آیا کہ خداوند کریم کس طرح قبضہ کریں گے۔ اس کی صورت کیا ہوگی۔ پھر اﷲتعالیٰ نے فرمایا: ’’ ورافعک الیّٰ ‘‘ اور قبضہ کر کے (تم کو اپنی طرف یعنی آسمان کی طرف) اٹھانے والا ہوں۔ پس ثابت ہوا۔ یہاں توفی اور رفع دونوں کے معنی موت دینا اور رفع روحانی نہیں ہوسکتے۔ بلکہ قبض جسمانی اور رفع جسمانی کے بغیر اور معنی سیاق وسباق اور قوانین لغت عرب کے مخالف ہیں۔
قرینہ نمبر:۵… اگر توفی بمعنی طبعی موت اور رفع الیٰ اﷲ سے مراد رفع روحانی ہوتا تو اﷲ ان افعال کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے مخصوص نہ کرتے اور نہ ہی یہود کے مکروفریب کے مقابلہ پر اس فعل کو تدبیر لطیف بیان کر کے سب مکر کرنے والوں پر اپنا غلبہ ظاہر کرتے۔ کیونکہ یہ سلوک تو اﷲتعالیٰ ہر مؤمن مسلمان سے کرتے ہیں۔
قرینہ نمبر:۶… اگر توفی بمعنی موت طبعی دینا ہوتا اور رفع الیٰ اﷲ سے مراد رفع روحانی ہوتا تو دونوں کے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ حسب قول مرزا، طبعی موت دینے کا وعدہ صلیبی موت سے بچانا تھا۔ یعنی لعنتی موت سے بچا کر رفع روحانی کی غرض سے انی متوفیک کہاگیا۔ پھر رفع الیٰ اﷲ کی کیا ضرورت تھی؟ اﷲتعالیٰ اپنے فصیح وبلیغ کلام میں مرزاقادیانی کی طرح اندھا دھند الفاظ کو موقعہ بے موقعہ استعمال نہیں فرمایا کرتے۔
قرینہ نمبر:۷… یہ آیت وفد نجران کی آمد پر نازل ہوئی تھی۔ یعنی عیسائیوں کا ایک گروہ رسول پاکﷺ کے پاس آیا تھا۔ ان کے سوالات کے جوابات میں اﷲتعالیٰ نے یہ آیات آل عمران اتاری تھیں۔ اب ہر ایک آدمی پڑھا لکھا جانتا ہے کہ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کے قائل ہیں۔ اگر فی الواقع حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع جسمانی نہ ہوا ہوتا تو ضرور اﷲتعالیٰ اس کی بھی تردید فرماتے۔ جیسا کہ آپ کی الوہیت کی تردید فرمائی تھی۔ مگر اﷲتعالیٰ نے ’’ رافعک الیّٰ ‘‘ کا فقرہ بول کر ان کی تصدیق فرمائی۔ جس میں وفد نصاریٰ نے اپنی تصدیق سمجھی اور اس پر بحث ہی نہ کی۔ پھر اگر مان لیا جائے کہ کبھی کبھی رفع کے معنی روحانی بھی ہوتے ہیں تو خدا نے کیوں نصاریٰ کے مقابلہ پر ایسے الفاظ استعمال کئے۔ جس سے ان کو بھی دھوکا لگا۔ وہ اپنی تصدیق سمجھ کر خاموش ہوگئے اور صحابہ کرامؓ اور علمائے اسلام مفسرین قرآن اور مجددین امت محمدیہ مسلمہ قادیانی بھی اسی دھوکا میں پڑے رہے۔ کسی نے رفع عیسوی کے معنی بغیر رفع جسمانی نہ لیئے۔ لیجئے! ایسے مواقع کے لئے ہم مرزاقادیانی کا قول نقل کرتے ہیں۔
’’یہ بالکل غیر ممکن اور بعید از قیاس ہے کہ خداتعالیٰ اپنے بلیغ اور فصیح کلام میں ایسے تنازع کی جگہ میں جو اس کے علم میں ایک معرکہ کی جگہ ہے۔ ایسے شاذ اور مجہول الفاظ استعمال کرے۔ جو اس کے تمام کلام میں ہرگز استعمال نہیں ہوئے۔
(تمام کلام اﷲ میں کہیں بھی صرف رفع الیٰ اﷲ کے معنی رفع روحانی نہیں آئے۔ مؤلف!) اگر وہ ایسا کرے تو گویا وہ خلق اﷲ کو آپ ورطہ شبہات میں ڈالنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس نے ہرگز ایسا نہیں کیا ہوگا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۲۹، خزائن ج۳ ص۲۶۷)
اس سے بھی معلوم ہوا کہ چونکہ صرف ’’ رفع الیٰ اﷲ ‘‘ سے مراد تمام قرآن میں کہیں بھی رفع روحانی نہیں لیاگیا۔ اس واسطے عیسیٰ علیہ السلام کی ’’ رفع الیٰ اﷲ ‘‘ سے رفع جسمانی مراد ہوگا۔
قرینہ نمبر:۸… آیت کریمہ ’’ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ‘‘ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وفات پانے سے پہلے اس وقت کے تمام اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے۔ چونکہ دنیا میں ابھی تک اہل کتاب کفار موجود ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ابھی تک فوت نہیں ہوئے۔ اس لئے ’’ رافعک الیّٰ ‘‘ سے پہلے ’’ انی متوفیک ‘‘ کے معنی سوائے قبض جسمانی وروحانی اور نہیں ہوسکتے۔
نوٹ: اس آیت کی مفصل بحث تو آگے آئے گی۔ مگر مناظرین کے کام کی چند باتیں یہاں بھی نقل کرتا ہوں۔
۱… اگر ’’ قبل موتہ ‘‘ میں ’’ ہ ‘‘ کی ضمیر کتابی کی طرف راجع ہوتی تو ’’ لیؤمنن ‘‘ بصیغہ مستقبل مؤکد بہ نون ثقلیہ وارد نہ ہوتا۔ اس کے معنی ’’ایمان لاتے ہیں‘‘ کرنا لغت عرب کے قوانین پر چھری پھیرنے کے مترادف ہے۔ اگر ضمیر کتابی کی طرف پھرتی تو ہر ایک کتابی ایمان لاتا ہوگا۔ اس صورت میں ’’ لیؤمن ‘‘ چاہئے تھا نہ کہ ’’ لیؤمنن ‘‘
۲… اگر ضمیر ’’ موتہ ‘‘ کی کتابی کی طرف پھیری جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے۔ ’’کہ اپنی موت سے پہلے تمام اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے۔ جس قدر یہ معنی بے معنی ہیں اور محالات عقلی ونقلی سے بھرے ہوئے ہیں ان کی تشریح محتاج بیان نہیں واقعات ان معنوں کی تصدیق نہیں کرتے۔ یعنی ہم مشاہدے میں کسی اہل کتاب کو اس حالت میں مرتے ہوئے نہیں دیکھتے۔ اگر حالت نزع میں ایمان لانے کا جواب دیا جائے تو یہ بھی صحیح نہیں اس وقت کے اقرار کو ایمان نہیں کہتے۔ اگر وہ ایمان کہلا سکتا ہے تو ایسا ایمان تو ہر ایک کافر کو میسر ہوتا ہوگا۔ پھر یہود کے ایمان کی تخصیص کیوں کی گئی؟‘‘
۳… موت سے پہلے تو ہر کتابی کا ایمان مشاہدے کے خلاف ہے۔ اگر اس سے مراد عین موت کے وقت کا ایمان لیا جائے تو وہ ’’ قبل ‘‘ کے خلاف ہوگا۔ اس صورت میں ’’ عند موتہ ‘‘ موزوں تھا۔ معلوم ہوتا ہے قادیانیوں کے نزدیک جس طرح کہ خود مرزاغلام احمد قادیانی لغت عرب اور اس کے محاورات بلکہ واحد اور جمع، مذکر اور مؤنث کے فرق سے نابلد محض تھا۔ شاید خدا بھی (نعوذ باﷲ) قبل اور عند کے درمیان فرق نہیں جانتا تھا۔
قرینہ نمبر:۹… آیت کریمہ: ’’ وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘ میں ’’ رفعہ اﷲ الیہ ‘‘ کے معنی تمام امت نے متفقہ طور پر رفع جسمانی کے کئے ہیں۔ چونکہ ’’ رفعہ اﷲ ‘‘ کے معنوں میں تمام امت کا اجماع ہے۔ اس واسطے امت قادیانی کو اجماع امت ماننا پڑے گا۔ یہ میں نہیں کہتا بلکہ بالفاظ مرزاآنجہانی پیش کرتا ہوں۔
’’جو شخص کسی اجماعی عقیدہ کا انکار کرے تو اس پر خدا اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرا مقصود ہے اور یہی میری مراد مجھے اپنی قوم سے اصول اجماعی میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘
(انجام آتھم ص۱۴۴، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
کیا کوئی قادیانی ایسا ہے جو قرآن ،حدیث یا لغت عرب میں سے کسی میں یہ دکھائے کہ ’’ وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘ میں قتل اور رفع جس ترکیب کے ماتحت استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی قتل کی نفی کرکے اس کے بعد رفع کا اعلان کیاگیا ہو تو وہاں رفع کے معنی قبض روح بھی ممکن ہے۔ ہم اعلان کرتے ہیں کہ کوئی قادیانی قیامت تک ایسے موقع پر رفع کا معنی قبض روح نہیں دکھا سکے گا۔
قرینہ نمبر:۱۰… یہ تمام امتوں کا مسلمہ اور متفقہ مسئلہ ہے کہ انبیاء کے لئے ہجرت کرنا مسنون ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے۔
’’ہر ایک نبی کے لئے ہجرت مسنون ہے اور مسیح نے بھی اپنی ہجرت کی طرف انجیل میں اشارہ فرمایا ہے اور کہا کہ نبی بے عزت نہیں مگر اپنے وطن میں۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۱۰۶ حاشیہ)
’’ہجرت انبیاء علیہم السلام میں سنت الٰہی یہی ہے کہ وہ جب تک نکالے نہ جائیں ہرگز نہیں نکلتے اور بالاتفاق مانا گیا ہے کہ نکالنے یا قتل کرنے کا وقت صرف فتنہ صلیب کا وقت تھا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۱۰۸)
اس اصول سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر دوسرے نبیوں کے طریقے پر ہجرت کرنا ضروری تھا یہ بھی معلوم ہوا کہ فتنہ صلیب سے پہلے انہوں نے ہجرت نہیں کی تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ہجرت سے مراد بے عزتی سے نکل کر عزت حاصل کرنا ہے۔
مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ یہ ہجرت صلیب پر چڑھنے، بے عزت ہونے اور وجود میں میخیں ٹھوکے جانے، منہ پر تھوکے جانے اور یہودیوں کی طرف سے طمانچے کھانے اور قبر میں تین دن تک مردوں کی طرح پڑا رہنے کے بعد اس طرح ہوئی کہ ان کے زخموں کا علاج کیاگیا۔ وہ اچھے ہوئے حواریوں کو چھوڑ کر چپکے چپکے بھاگے بھاگے افغانستان کی راہ لی۔ درۂ خیبر میں سے ہوتے ہوئے پنجاب، یوپی، نیپال، جموں کے راستہ کشمیر میں جاکر سانس لیا۔ وہاں ۸۷ سال زندہ رہ کر خاموشی میں مرگئے۔
سبحان اﷲ! قادیانی نے اپنے اس بیان کے ثبوت میں کوئی ثبوت کلام اﷲ سے، حدیث سے، انجیل سے یا تاریخ سے پیش نہیں کیا۔ لہٰذا یہ سارا واقعہ ایجاد مرزا سمجھ کر مردود قرار دیا جائے گا۔ ہم سے سنئے حضرت مسیح علیہ السلام کی ہجرت کا حال۔
وقت ہجرت تو وہی تھا جو قادیانی نے بیان کیا۔ یعنی فتنہ صلیب کا وقت۔ ہجرت مسیح میں اﷲتعالیٰ نے کئی باتوں کا خیال رکھا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام میں ملکوتیت کا غلبہ تھا۔ کلمتہ اﷲ تھے۔ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ یہود ان کی پیدائش کو ناجائز قرار دیتے تھے۔ اس واسطے اﷲتعالیٰ نے ان کی ہجرت کو بھی آسمان کی طرف رفع کو قرار دیا۔ وہاں وہ قرب الٰہی صحبت ملائکہ اور آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور قرب قیامت میں آکر پھر اپنی گمراہ امت اور اپنے منکر یہودیوں کو دائرہ اسلام میں داخل کریں گے۔ یہ ہے ہجرت عیسوی کی حقیقت۔
کوئی قادیانی کبھی یہ نہیں دکھا سکتا کہ نبی بعد ہجرت کے مصائب وآلام برداشت کر کے گمنامی کی زندگی بسر کرنے کے بعد مرگیا ہو۔ بلکہ نبی بعد ہجرت کے ضرور کامیاب اور عزت حاصل کر کے رہتا ہے۔ قادیانی کی مزعومہ بے سروپا ہجرت مسیحی میں کون سی بات لائق ہجرت انبیاء ہے؟ چونکہ حسب قول مرزاقادیانی حضرت مسیح علیہ السلام نے صلیب سے پہلے تو ہجرت نہیں کی تھی اور واقعہ صلیب کے بعد قرآن اور حدیث اور تاریخ سے ان کی ارضی زندگی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ واقعہ صلیب کے زمانہ ہی میں وہ کہیں ہجرت کر گئے تھے اور وہ جگہ قرآن وحدیث اور اجماع امت کی رو سے آسمان ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ’’ انی متوفیک ‘‘ کے معنی ’’میں تجھ کو مارنے والا ہوں‘‘ غلط ہیں۔
قرینہ نمبر:۱۱… یہود نے بہت سے سچے رسولوںکو جھوٹا سمجھ کر قتل کرادیا تھا۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔
سورۂ بقرہ:۶۱ وسورۂ آل عمران:۲۱ میں ’’ ویقتلون النبیین ‘‘ پھر سورۂ آل عمران :۱۱۲ میں دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ’’ ویقتلون الانبیاء بغیر حق ‘‘ یعنی یہود ناحق اﷲتعالیٰ کے نبیوں کو قتل کر دیتے تھے اور یادرہے کہ صلیب دینا بھی قتل ہے۔
جیسا کہ خود مرزاقادیانی (تحفہ گولڑویہ ص۲۰،۲۲، خزائن ج۱۷ ص۱۰۶،۱۰۸) پر تسلیم کرتے ہیں۔ نیز (ایام الصلح ص۱۱۳،۱۱۴، خزائن ج۱۴ ص۳۵۰،۳۵۱) پر صلیبی موت کو قتل ہی تسلیم کیا ہے اور اپنے زعم باطل میں یہودی ان تمام نبیوں کو جھوٹے نبی سمجھ کر قتل کرتے تھے۔ لہٰذا ان سب کو وہ ملعون ہی قرار دیتے تھے۔ ایسا ہی انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو سمجھا۔ (معاذ اﷲ)

اب سوال یہ ہے کیا وجہ ہے کہ
صرف حضرت مسیح علیہ السلام کے حق میں رفع کا لفظ استعمال کیا ہے اور کسی نبی کے حق میں استعمال نہیں فرمایا؟
اگر اس کے معنی قبض روح یا رفع روحانی لئے جائیں تو کیوں دوسرے نبیوں کی خاطر یہ لفظ استعمال نہیں کیاگیا،۔ کیا ان کی طہارت بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی؟
معلوم ہوا کہ ’’ رافعک ‘‘ کے معنی رفع جسمانی کے بغیر اس آیت میں ممکن ہی نہیں۔ پس جب یہ ثابت ہوا تو ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ’’ انی متوفیک ‘‘ کے معنی سوائے قبض جسمانی اور پورا لینے کے ممکن ہی نہیں۔ کیونکہ رفع جسمانی سے پہلے مارنے کی کیا ضرورت تھی؟
بلکہ موت سے بچانے کے لئے رفع جسمانی عمل میں آیا۔
قرینہ نمبر:۱۲… توفی کے معنی قادیانی کے زعم باطل میں سوائے موت دینے کے اور ہوتے ہی نہیں اور مراد اس سے وہ طبعی موت لیتا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم میں جہاں توفی سے مراد موت لی گئی ہے۔ وہاں ہر قسم کی موت ہے نہ کہ طبعی موت، کوئی ایک جگہ بھی تمام کلام اﷲ سے پیش نہیں کی جاسکتی۔ جہاں توفی کے معنی صرف طبعی موت ہی لئے گئے ہوں۔ پھر یہاں کیوں طبعی موت سے مارنا معنی لئے جائیں؟ اگر صرف موت کے معنی لئے جائیں تو اس میں یہود کے دعویٰ کی تائید ہے نہ کہ تردید اور اس میں بجائے حضرت مسیح علیہ السلام کو یہودیوں کی سازشوں کے خلاف تسلی دینے کے یہودیوں کی کامیابی کا یقین دلایا گیا ہے۔ صلیب بھی قتل کی ایک صورت ہے۔ جیسا کہ میں قادیانی کے اپنے الفاظ سے ثابت کر چکا ہوں اور قتل موت کا ایک ذریعہ ہے۔ یعنی مقتول کے لئے بھی ہم کہہ سکتے ہیں۔ ’’ توفاہ اﷲ یا اماتہ اﷲ ‘‘ جیسا کہ کلام اﷲ میں توفی کا لفظ سب قسم کی موتوں کے لئے خود قادیانی تسلیم کرتا ہے۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا قتل کیا جانا ہر ایک کو معلوم ہے۔ یعنی وہ قتل کی موت مرے تھے۔ مگر پھر بھی اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’ سلام علیہ یوم ولد ویوم یموت (مریم:۱۵) ‘‘ {یعنی سلام ہے ان پر جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن وہ فوت ہوئے۔} ثابت ہوا کہ اس آیت میں توفی کے معنی طبعی موت کرنا تمام کلام اﷲ کے خلاف ہے اور صرف مارنا کے معنی لینا اس میں یہود کی کامیابی کا اعلان ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی کوئی تسلی نہیں۔ اس واسطے ثابت ہوا کہ ’’انی متوفیک‘‘ میں توفی کے معنی یقینا جسم وروح دونوں پر قبضہ کر کے یہود نامسعود کے ہاتھوں سے حضرت مسیح علیہ السلام کو محفوظ کر لینے کا اعلان ہے۔
قرینہ نمبر۱۳…: ’’ وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘ اس آیت میں قتل اور رفع کے درمیان تضاد ظاہر کیاگیا ہے۔ قادیانی ’’ رفعہ اﷲ ‘‘ کے معنی کرتے ہیں کہ خدا نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو طبعی موت سے مارلیا۔ صلیبی موت سے بچا کر طبعی موت دینا لعنت کے خلاف ہے۔ ادھر یہ بھی کہتے ہیں کہ: ’’ انی متوفیک ‘‘ میں بھی یہی اعلان ہے کہ اے عیسیٰ علیہ السلام تو لعنتی موت یعنی صلیبی موت پر نہیں مرے گا۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ
پھر یہاں توفی کا لفظ کیوں استعمال نہیں کیاگیا۔ قتل اور رفع روحانی میں تو کوئی ضد اور مخالفت نہیں۔ کیا حضرت یحییٰ علیہ السلام کو یہود نے قتل نہیں کیا تھا؟
اﷲتعالیٰ نے ان کے حق میں ایسا اعلان کہیں نہیں کیا۔ حالانکہ یہود انہیں بھی نعوذ باﷲ ایسا ہی ملعون سمجھتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو۔ علاوہ ازیں بل کا لفظ بتارہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مزعومہ قتل اور رفع کا وقت ایک ہی ہے۔ مثلاً جب یوں کہا جائے کہ زید نے روٹی نہیں کھائی بلکہ دودھ پیا ہے۔ اس فقرہ میں روٹی کھانے کا انکار اوردودھ پینے کا اقرار ایک ہی وقت سے متعلق ہیں۔ یہ نہیں کہ روٹی تو نہیں کھائی تھی ایک سال پہلے اور دودھ پیا تھا کل، بلکہ روٹی نہ کھانے اور دودھ پینے کے فعل ایک ہی وقت سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعینہ اسی طرح نفی قتل یعنی قتل نہ کیاجانا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اور ان کا رفع عمل میں آنا ایک ہی وقت میں وقوع پذیر ہوئے تھے۔ مگر قادیانیوں کے نزدیک آپ کا رفع روحانی واقعہ صلیب کے ۸۷سال بعد کشمیر میں ہوا۔ اس سے بھی ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ پس توفی عیسیٰ علیہ السلام کے معنی موت کرنے ناممکن ہیں۔
قرینہ نمبر:۱۴… یہود کے مکر کا نتیجہ تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو موت کا سامنے نظر آنا۔ اس کے بالمقابل خدا کے مکر کا ظہور حیات جسمانی کی صورت میں ہونا چاہئے۔ اس ظہور مکر کا وعدہ ’’ انی متوفیک ورافعک ‘‘ کے الفاظ سے پورا کیاگیا۔ پس ثابت ہوا کہ یہاں توفی موت کے مقابل پر استعمال کیاگیا ہے۔ لہٰذا اس کے معنی موت دینا مضحکہ خیز ٹھہرتا ہے۔
ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ اگر ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘ میں ہم مرزاقادیانی کی ضد مان کر، واو کو خلاف علوم عربیہ ترتیب وقوعی کے لئے قبول بھی کر لیں تو پھر بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت ثابت نہیں ہوسکتی۔ بلکہ اس صورت میں بھی یقینا ان کی حیات ہی ثابت ہوتی ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حیات عیسیٰ علیہ السلام پر قرآنی دلیل نمبر : 3
آیت عربی میں اعراب کے بغیر:
و قولهم انا قتلنا المسيح عيسى ابن مريم رسول الله و ما قتلوه و ما صلبوه و لکن شبه لهم و ان الذين اختلفوا فيه لفي شک منه ما لهم به من علم الا اتباع الظن و ما قتلوه يقينا آیت 157 بل رفعه الله اليه و کان الله عزيزا حکيما آیت 158

آیت عربی میں اعراب کے ساتھ:
’’وَّقَوْلِـہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللہِ۝۰ۚ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰكِنْ شُبِّہَ لَہُمْ۝۰ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْہِ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْہُ۝۰ۭ مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ۝۰ۚ وَمَا قَتَلُوْہُ يَقِيْنًۢا۝۱۵۷ۙ بَلْ رَّفَعَہُ اللہُ اِلَيْہِ۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا۝۱۵۸
(نسائ:۱۵۷،۱۵۸)‘‘

اس آیت مبارکہ میں اﷲتعالیٰ ببانگ دہل اعلان فرمارہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھالئے گئے تھے۔ ترجمہ ہم اس آیت مبارکہ کا اس ہستی کے الفاظ میں پیش کرتے ہیں کہ جس کے انکار پر قادیانی عقیدہ کے مطابق آدمی کافر وفاسق ہو جاتا ہے۔ یعنی مجدد صدی نہم جو امام جلال الدین سیوطی کے اسم گرامی سے دنیائے اسلام میں مشہور ہیں۔
’’اور لعنت کی ہم نے یہود پر اس وجہ سے بھی کہ وہ فخر کے ساتھ کہتے تھے کہ یقینا ہم نے عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا ہے۔ اﷲتعالیٰ ان کے دعویٰ قتل کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں اور نہ قتل کر سکے یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اور نہ پھانسی پر ہی لٹکا سکے ان کو۔ بلکہ بات یوں ہوئی کہ یہود کے لئے حضرت مسیح علیہ السلام کی شبیہ بنادی گئی اور وہی قتل کیاگیا اور سولی دیا گیا اور وہ یہود کا آدمی تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہمراہ۔ یعنی تفصیل اس کی یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صورت وشبیہ یہود کے آدمی پر ڈال دی اور یہود نے اس شبیہ عیسیٰ علیہ السلام کو عین عیسیٰ علیہ السلام سمجھ لیا اور تحقیق جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں اختلاف کیا،۔ وہ ان کے قتل کے متعلق شک میں مبتلا تھے۔ کیونکہ ان میں سے بعض نے جب مقتول کو دیکھا تو کہنے لگے کہ اس کا منہ تو بالکل عیسیٰ علیہ السلام کاہے اور باقی جسم اس کا معلوم نہیں ہوتااور باقی کہنے لگے کہ نہیں بالکل وہی ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے بارہ کوئی یقینی علم نہیں ہے۔ بلکہ صرف اس ظن کی پیروی کرنے لگے۔ جو خود انہوں نے گھڑ لیا اور یقینی بات ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کیا۔ بلکہ اٹھا لیا اﷲتعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اور اﷲتعالیٰ اپنی بادشاہی میں بڑا زبردست اور اپنے کاموں میں بڑا ہی حکمت والا ہے۔‘‘
(تفسیر جلالین ص۹۱، زیر آیت کریمہ)
ناظرین! اس تفسیر کے بعد حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی قادیانی دم نہیں مار سکتا۔ کیونکہ ہم نے ان کے اپنے مسلم امام اور مجدد کے الفاظ کا اردو میں ترجمہ کر دیا ہے۔ اگر انکار کریں تو رسالہ ہذا کے ابتداء میں درج شدہ قادیانی عقائد واصول سامنے رکھ دیں۔ اب ہم کچھ نکات اس آیت کریمہ کی فصاحت وبلاغت اور اس کے الفاظ کی بندش کے متعلق عرض کرتے ہیں۔
۱… اس آیت میں لعنت یہود کا سبب صرف ان کا دعویٰ قتل قراردیاگیا ہے۔ یعنی یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کوئی ایسا فعل نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے وہ قابل لعنت ٹھہرائے جاتے۔ یعنی اﷲتعالیٰ کے علم کے مطابق یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ صلیب پر چڑھایا اور نہ ان کے ہاتھوں میں میخیں لگائیں۔ نہ ان کے منہ پر تھوکا گیا۔ اگر فی الواقع ایسا ہوا ہوتا تو اﷲتعالیٰ ضرور لعنت کا سبب ان کے فعل کو ٹھہراتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات گرامی تک یہود کو پہنچنے تک نہیں دیا۔
۲… ’’ انا قتلنا ‘‘ یعنی ہم نے یقینا قتل کر دیا۔ ان الفاظ میں اﷲتعالیٰ یہود کا دعویٰ بیان فرماتے ہیں۔ یعنی یہود کا یقین تھا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ضرور قتل کر دیا تھا۔
۳… ’’ قتلنا ‘‘ یعنی ’’قتل کر دیا ہم نے‘‘ ان الفاظ میں قتل کا اعلان ہے اور قتل صلیب موت کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صلیبی موت ہی کے قائل تھے۔
خود مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔
’’یہود نے خوب سمجھا تھا۔ مگر بوجہ صلیب حضرت مسیح کے ملعون ہونے کے قائل ہوگئے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۴، خزائن ج۱۷ ص۱۰۹)
پھر تحریر کرتے ہیں۔
’’نالائق یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو قتل کرنے کے لئے صلیب پر چڑھادیا تھا… یہودی اسے صرف صلیب دینا چاہتے ہیں کسی اور طریق سے قتل کرنا نہیں چاہتے کیونکہ یہودیوں کے مذہب کی رو سے جس شخص کو صلیب کے ذریعہ سے قتل کیا جائے خدا کی لعنت اس پر پڑ جاتی ہے۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۱۱، خزائن ج۱۴ ص۳۴۸،۳۴۹)
پس ثابت ہوا کہ قتل عیسیٰ علیہ السلام کے دعویٰ میں یہود کا مقصد قتل بالصلیب ہی تھا۔ یعنی صلیبی موت کے لئے قتل کا لفظ خود یہود نے استعمال کیا۔
۴…
’’ وما قتلوہ ‘‘ میں اﷲتعالیٰ یہود کے دعویٰ قتل عیسیٰ بالصلیب کی تردید کر رہے ہیں۔ یہود کا دعویٰ تھا۔ جیسا کہ ہم اقوال مرزا سے ثابت کر آئے ہیں کہ ہم (یہود) نے عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب کے ذریعہ قتل کر دیا ہے۔ اﷲتعالیٰ نے اسی فعل کی نفی کا اعلان کردیا۔ یعنی یہود حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب کے ذریعہ بھی قتل کرنے پر قادر نہ ہوسکے۔
۵… ’’ وما صلبوہ ‘‘ اس فقرہ میں اﷲتعالیٰ یہود کے دعویٰ قتل المسیح بالصلیب کی تردید کے بعد سولی پر چڑھا سکنے کی بھی نفی فرماتے ہیں۔ یعنی یہود تو حضرت مسیح علیہ السلام کو سولی پر بھی نہیں چڑھا سکے۔ قربان جاؤں کلام اﷲ کی فصاحت وبلاغت پر اگر ’’ وما قتلوہ ‘‘ کے بعد ’’ وما صلبوہ ‘‘ نہ ہوتا تو مرزاقادیانی بڑی آسانی سے تحریف قرآنی کر سکتا تھا۔ کیونکہ وہ کہہ سکتا تھا۔ جیسا کہ وہ اب کہتا ہے کہ قتل نہ کر سکے۔ مگر سولی پر ضرور لٹکایا گیا تھا اور واقعی اس وقت مرزاقادیانی کو تحریف کے لئے کچھ گنجائش مل سکتی تھی۔ مگر اب تو باری تعالیٰ نے ’’ وما صلبوہ ‘‘ کا فقرہ بڑھا کر مرزاقادیانی کی تحریف کا مکمل سدباب کر دیا ہے۔ لیکن مرزاقادیانی نے پھر ایک اور چال چلی۔ صلب کے معنی قرآن، حدیث اور لسان عرب کے خلاف سولی پر مرنا یا مارنا مشتہر کر دئیے۔ مگر قیامت تک علماء اسلام کا لاجواب چیلنج قائم رہے گا کہ صلب کے معنی صرف سولی پرکھینچنا ہیں۔ موت صلب کے ساتھ ضروری نہیں۔ یعنی صلب کے معنی سولی پر مارنا نہیں۔
دلائل اسلامی ملاحظہ کیجئے۔
الف… اگر صلب کے معنی پھانسی پر مارنا ہوتے تو یہود بجائے ’’ قتلنا ‘‘ کے ’’ صلبنا ‘‘ کہتے۔ کیونکہ یہود حضرت مسیح علیہ السلام کے سولی پر چڑھانے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔
ب… اگر ’’ وما صلبوہ ‘‘ کے معنی ’’یہود حضرت مسیح علیہ السلام کو سولی پر نہ مار سکے‘‘ صحیح ہوتے تو صرف ’’وما قتلوہ‘‘ یا ’’ ماصلبوہ ‘‘ ہی کافی تھا۔ دوبارہ ’’ صلبوہ ‘‘ لانے کی کیا ضرورت تھی۔
ج… کسی مجدد مسلمہ قادیانی نے تیرہ سو ترپن سال تک ’’ ماصلبوہ ‘‘ کے معنی ’’صلیب پر مارنے‘‘ کے نہیں کئے۔
دحضرت شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی قادیانی جماعت کے مسلم مجدد صدی دوازدہم ’’ وما صلبوہ ‘‘ کے معنی کرتے ہیں۔
’’وبردار نکردند اورا‘‘ اور شاہ عبدالقادر صاحب مجدد صدی سیزدہم فرماتے ہیں ’’اور نہ سولی پر چڑھایا اس کو۔‘‘
ھغیاث اللغات وصراح میں ہے۔ صلب، بردار کردن (سولی پر چڑھانا)
و… اگر صلب کے معنی ’’پھانسی پر مارنے‘‘ کے قبول کر لئے جائیں تو قادیانی ہمیں بتلائیں کہ صرف سولی پر چڑھانے کے لئے عربی زبان میں کون سا لفظ ہے۔ سوائے صلب کے اور کوئی لفظ ہے ہی نہیں۔
ز… خود مرزاقادیانی کی زبان اور قلم سے باری تعالیٰ نے ہماری تائید کرادی ہے۔ اقوال مرزا ’’خدا نے مسیح کو وعدہ دیا کہ میں تجھے صلیب سے بچاؤں گا۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۵، خزائن ج۷ ص۴۴)
دیکھئے! یہاں بقول مرزاقادیانی خدا ’’ صلیب ‘‘ سے بچانے کا وعدہ کر رہے ہیں۔ صرف ’’ صلیبی موت ‘‘ سے بچانے کا وعدہ نہیں۔
پھر لکھتے ہیں: ’’انہوں نے اس فکر کی وجہ سے تینوں مصلوبوں کو صلیب پر سے اتارلیا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۸۱، خزائن ج۳ ص۲۹۶)
دیکھئے یہ تینوں مصلوب اتار لئے جانے کے وقت زندہ تھے۔ جیسا کہ مرزاقادیانی اسی صفحہ پر اقرار کرتے ہیں۔ جائے عبرت ہے کہ مرزاقادیانی کے قلم سے اﷲتعالیٰ نے صلب کا اسم مفعول ’’مصلوب‘‘ صرف ’’سولی پر چڑھائے گئے‘‘ کے معنوں میں استعمال کر کے ابوعبیدہ کی آہنی گرفت کا سامان مہیا کر دیا۔ کیونکہ اگر صلب کے معنی سولی پر مارنا صحیح ہوتے تو مصلوب کے معنی سولی پر مارا ہوا ہونا چاہئے۔ لیکن مرزاقادیانی خود مصلوب کو ’’سولی دیا گیا‘‘ مانتے ہوئے اس کا زندہ ہونا بھی تسلیم کرتے ہیں۔
ح… صلیب کی حقیقت بھی ہم بالفاظ مرزاقادیانی عرض کرتے ہیں۔ جس سے معزز ناظرین کو یقین ہو جائے گا کہ صلب یعنی صلیب پر چڑھانے کا نتیجہ لازمی طور پر موت نہیں ہوتا تھا۔ لکھتے ہیں: ’’بالاتفاق مان لیاگیا ہے کہ وہ صلیب اس قسم کی نہیں تھی۔ جیسا کہ آج کل پھانسی ہوتی ہے اور گلے میں رسہ ڈال کر ایک گھنٹہ میں کام تمام کیا جاتا ہے۔ بلکہ اس قسم کا کوئی رسہ گلے میں نہیں ڈالا جاتا تھا۔ صرف بعض اعضاء میں کیلیں ٹھونکتے تھے اور پھر احتیاط کی غرض سے تین تین دن مصلوب بھوکے پیاسے صلیب پر چڑھائے رہتے تھے اور بعد اس کے ہڈیاں توڑی جاتی تھیں اور پھر یقین کیا جاتا تھا کہ اب مصلوب مرگیا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۸۱، خزائن ج۳ ص۲۹۶)
محترم ناظرین! غور کیجئے کہ اگر مصلوب جو صلب کا اسم مفعول ہے کہ معنی ’’سولی پر مرا ہوا یا مارا ہوا‘‘ ٹھیک ہوں تو وہ مرا ہوا آدمی بھی کبھی بھوکا پیاسا ہوسکتا ہے؟ جیسا کہ مرزاقادیانی مصلوب کا بھوکا پیاسا ہونا تسلیم کر رہے ہیں۔ نیز اگر مصلوب کے معنی پھانسی پر مارا ہوا صحیح ہوں تو پھر مرزاقادیانی کے فقرہ ’’مصلوب مرگیا‘‘ کے معنی کیا ہوں گے۔ یہی نہ کہ پھانسی پر مارا ہوا مرگیا۔ جو بالکل واہیات ہے۔ ’’مصلوب مرگیا‘‘ کا فقرہ جبھی بامعنی فقرہ قرار دیاجاسکتا ہے۔ جب کہ مصلوب کے معنی صرف سولی پر لٹکایا گیا۔ یعنی صلب کے معنی صرف سولی پر لٹکانا بغیر موت کے لئے جائیں۔
ط… اگر ’’ وما صلبوہ ‘‘ کے معنی حسب قول مرزاقادیانی ہم قبول کر لیں۔ یعنی یہ کہ ’’یہود حضرت مسیح علیہ السلام کو سولی پر چڑھانے میں کامیاب ہوگئے۔ انہیں تازیانے لگاتے رہے۔ ان کے منہ پر تھوکتے رہے اور ان کے اعضاء میں کیلیں ٹھونکنے میں بدرجہ اتم کامیاب رہے۔ لیکن خدا نے صلیب پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جان نہ نکلنے دی تو یہ سارا مضمون ’’ ومکروا ومکر اﷲ واﷲ خیر الماکرین ‘‘ کے خلاف جاتا ہے۔ کیونکہ قادیانی معنوں کی صورت میں یہود کا مکر خدا کے مکر پر غالب رہتا ہے۔ حالانکہ خدا ’’ خیر الماکرین ‘‘ ہے۔ یعنی بہترین تدبیر کنندہ ہے۔ پس ان نو دلائل سے نتیجہ یہ نکلا کہ صلب کے معنی صرف سولی پر چڑھانا ہی ہیں۔ موت اس کے ساتھ لازم نہیں اور اس آیت میں خداتعالیٰ حضرت مسیح علیہ السلام کے صلب پر چڑھائے جانے ہی کی نفی کر رہے ہیں۔‘‘
’’ انا قتلنا المسیح ‘‘ کے جملہ سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہود قتل مسیح کا دعویٰ بڑے جزم کے ساتھ کرتے تھے۔ محض اس کہنے سے کہ ہم (یہود) نے مسیح علیہ السلام کو قتل کر دیا۔ کوئی وجہ لعنت کی نظر نہیں آتی۔ اگر قتل وصلب فی الواقع کسی شخص پر بھی واقع نہ ہوئے ہوتے تو اﷲتعالیٰ اپنی کلام بلاغت نظام میں ’’ بقولہم ‘‘ کی بجائے ’’ بکذبہم ‘‘ یعنی ان کے جھوٹ بولنے کے سبب ان کے ملعون ہونے کا اعلان کرتے۔ مگر چونکہ قتل وصلب کے افعال ضرور کسی نہ کسی شخص پر واقع ہوئے تھے۔ اس واسطے اﷲتعالیٰ نے یہ جواب نہیں دیا کہ ’’ وما قتلوہ احدا ولا صلبوا ‘‘ یا ’’ وما قتل احد ولا صلب ‘‘ یعنی یہود نے تو نہ کسی کو قتل کیا اور نہ پھانسی دیا یا نہ کوئی قتل کیاگیا نہ پھانسی دیا گیا۔ ’’ وماقتلوہ وما صلبوہ ‘‘ میں ضمیر ’’ ہ ‘‘ کو استعمال کر کے بتادیا کہ قتل کا فعل اور پھانسی چڑھانے کا عمل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وارد نہیں ہوا۔ کسی اور پر وارد ہوا تھا۔ ملحض مضمون بالا۔
۱… یہود پر خداتعالیٰ نے لعنت کی اور اس لعنت کا سبب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل وصلب کے دعویٰ کو بطور فخر کے بیان کرنا قرار دیا۔
۲… اﷲتعالیٰ نے یہود کو قتل اور صلب محض کے دعویٰ میں جھوٹا قرار نہیں دیا۔ بلکہ قتل وصلب مسیح علیہ السلام کے دعویٰ کو جھوٹ قرار دیا۔ مطلب جس کا یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ بھی اس بات کو سچا فرمارہے ہیں کہ کوئی نہ کوئی شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام پر ضرور قتل کیاگیا اور صلیب دیا گیا اور یہ بات تواتر قومی سے ثابت ہے کہ ایک شخص ضرور پھانسی پر لٹکایا گیا اور قتل کیاگیا تھا۔ چنانچہ دنیا کے کروڑہا یہودی اور عیسائی کسی ایک شخص کے قتل وصلیب دیے جانے کا عقیدہ رکھنا۔ اپنے ایمان کا جزو قرار دیتے ہیں۔ اس شخص کو یہودی وعیسائی دونوں نے مسیح علیہ السلام سمجھا۔ اﷲتعالیٰ اس مقتول ومصلوب کے متعلق اعلان فرماتے ہیں کہ وہ مقتول ومصلوب حضرت عیسیٰ ابن مریم نہ تھا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ شخص کون تھا۔ جس کو یہودیوں نے عیسیٰ علیہ السلام سمجھتے ہوئے پھانسی پر لٹکا دیا اور قتل کر دیا اور ان کے اتباع میں کروڑہا عیسائی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل بالصلیب کے قائل ہوگئے۔ اﷲتعالیٰ اس وہم کا ازالہ اپنی عجیب کلام میں عجیب فصیح وبلیغ طریقہ سے بیان فرماتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ’’ ولکن شبہ لہم ‘‘ جس کی پوری ترکیب (علم نحو کے جاننے والے پر مخفی نہیں) اس طرح ہوگی۔ ’’ ولکن قتلوا وصلبوا من شبہ لہم ‘‘ لیکن انہوں نے اس شخص کو قتل کیا اور صلیب پر چڑھایا جو ان کے لئے مسیح علیہ السلام کے مشابہ بنایا گیا تھا۔ مرزاقادیانی بیچارے علوم عربیہ سے محض کورے تھے۔ ہاں جس طرح بعض آدمی گورہ شاہی انگریزی بول لکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح مرزاقادیانی بھی عربی کی ٹانگ توڑ سکتے تھے۔ ہم ان کی عربی کا نام ’’ پنجابی عربی ‘‘ تجویز کرتے ہیں۔
’’ ولا کن شبہ ‘‘ جیسی ترکیبیں قرآن، حدیث اور عربی علم ادب کے ماہرین پر مخفی نہیں۔ ہم یہاں علم نحو کے مسلم امام ابن ہشام کا قول کتاب مغنی سے نقل کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: ’’ انہ لکن غیر عاطفۃ والواو عاطفۃ بجملۃ حذف بعضہا علیٰ جملۃ صرح بجمیعہا قال فالتقدیر فی نحو ما قام زید ولکن عمر ولاکن قام عمر ‘‘ ’’ ولاکن میں لاکن عطف کے لئے نہیں ہے اور واؤ عطف کرنے والی ہے۔ اس جملہ کو جو پوری طرح بیان کردیا گیا ہو۔ مثلاً ’’ ماقام زید ولاکن عمر ‘‘ والی مثال کو پورا پورا اس طرح لکھیں گے۔ ’’ ماقام زید ولاکن قام عمر ‘‘ نہیں کھڑا ہوا زید بلکہ کھڑا ہوا عمر۔‘‘ پر معلوم ہوا کہ ولاکن سے پہلے جس فعل کی نفی مذکور ہے۔ اسی کا اثبات ولاکن کے بعد والے فقرہ میں مطلوب ہے۔ صرف فعل کی نسبت فاعلی یا مفعولی میں تبدیلی ہو جاتی ہے۔ یعنی جس فعل کے واقع کی نفی کی جارہی ہے۔ صرف ایک خاص فاعل یا مفعول کے لحاظ سے کی جارہی ہے۔ ورنہ فی الواقع فعل واقع ضرور ہوا ہے۔ مثلاً مثال ’’ ماقام زید ولاکن عمر ‘‘ میں کھڑے ہونے کا عمل یا فعل واقع تو ضرور ہوا ہے۔ اس کی نفی اگر کی گئی ہے تو صرف زید کے لئے یعنی زید کھڑا نہیں ہوا۔ ’’ ولاکن ‘‘ کے بعد عمر مذکور ہے۔ پس اسی فعل کا وقوع عمر کے لئے ضروری ہو جاتا ہے۔ یعنی کوئی نہ کوئی کھڑا ضرور ہوا تھا۔ بعینہ اسی طرح ’’ وما قتلوہ وما صلبوہ ولاکن شبہ لہم ‘‘ میں ہے۔ یہاں باری تعالیٰ ’’ ولاکن ‘‘ سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل بالصلیب اور صلیب پر چڑھائے جانے کی نفی کا اعلان فرماتے ہیں۔ پھر اس کے بعد ’’ ولاکن ‘‘ کا استعمال فرما کر صاف صاف اعلان فرما رہے ہیں کہ قتل وصلب کے افعال ضرور وقوع پذیر ہوئے تھے۔ لیکن کس پر ہوئے تھے۔ (جواب) اس پر جس پر ڈالی گئی شبیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی۔ یہی تفسیر آئمہ مجددین مسلمہ قادیانی سے مروی ہے۔ اگر قادیانی اس کی تصدیق سے انکار کریں تو مرزاقادیانی کے فتویٰ کی رو سے کافر اور فاسق بننے کے لئے تیار ہو جائیں۔

(دیکھو اصول مرزا نمبر:۴)
آگے ارشاد باری ہے: ’’ وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ ما لہم بہ من علم الا اتباع الظن ‘‘ اور تحقیق وہ لوگ (عیسائی) جنہوں نے اس بارہ میں اختلاف کیا وہ تو بالکل شک میں ہیں۔ ان کو کوئی یقینی علم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں ہے ہی نہیں۔ صرف ظنی ڈھکوسلوں کا اتباع کرتے ہیں۔
نوٹ: ’’ ان الذین اختلفوا فیہ ‘‘ کے ’’ الذین ‘‘ میں یہود شامل نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ان کے متعلق تو پہلے ہی اعلان ہوچکا ہے۔ ’’ وقولہم انا قتلنا المسیح ‘‘ یعنی ہم نے یقینا مسیح علیہ السلام کو قتل کردیا ہے۔ قتل مسیح علیہ السلام کے بارہ میں یہود میں نہ کبھی اختلاف ہوا اور نہ اب ہے۔ ہاں عیسائیوں نے اس بارہ میں بہت اختلاف کیا ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے باب میں ذکر کر آئے ہیں۔ عیسائیوں میں بہت سے فرقے ہیں۔ کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ۔ چنانچہ انجیلوں کے پڑھنے والے پر مخفی نہیں۔ ان کے اختلاف کے متعلق باری تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے۔ ’’ مالہم بہ من علم الا اتباع اظن ‘‘ یعنی ان کو تو واقعات کا علم ہی نہیں وہ تو صرف ظن کی پیروی کر رہے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ عیسائی امت کے افراد موقعہ صلب وقتل کے وقت تو حاضر ہی نہ تھے۔ ان کو یقینی علم کہاں سے ملتا۔ چنانچہ حواریوں کا موقعہ سے بھاگ جانا خود مرزاقادیانی نے بھی تسلیم کیا ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے باب میں ذکر کر آئے ہیں۔
یہاں تک اﷲتعالیٰ نے یہود کے فخریہ دعویٰ قتل وصلب مسیح علیہ السلام کا رد کیا۔ آگے ان کے قتل مسیح علیہ السلام کے پختہ عقیدہ کا رد کرتے ہیں۔ یہود نے کہا۔ ہم نے یقینا قتل کیا مسیح علیہ السلام کو۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’ وما قتلوہ یقیناً ‘‘ یقینا یہود نے قتل نہیں کیا عیسیٰ علیہ السلام کو۔ ایک وہم تو پہلے پیدا ہوا تھا۔ یعنی یہ کہ اگر یہود نے مسیح علیہ السلام کو قتل نہیں کیا اور صلیب پر نہیں چڑھایا تو پھر کس کو چڑھایا۔ اس کا جواب ’’ ولکن شبہ لہم ‘‘ سے دیا۔ ’’یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کی شبیہ جس پر ڈالی گئی تھی اس کو قتل کیا اور سولی چڑھایا۔‘‘ یہاں ایک نیا وہم پیدا ہوتا ہے جو پہلے یہودیوں کو بھی لاحق ہوا اور قادیانی جماعت کو بھی آرام نہیں کرنے دیتا۔ وہ یہ کہ پھر حضرت مسیح علیہ السلام کہاں گئے وہ کیا ہوئے۔ اس کا ازالہ اس طرح بیان فرماتے ہیں۔
’’ بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘
{بلکہ اٹھا لیا اﷲتعالیٰ نے ان کو اپنی طرف یعنی آسمان کی طرف۔}
آگے اس رفع جسمانی کی حکمت بیان فرماتے ہیں۔
’’ وکان اﷲ عزیزاً حکیما ‘‘
{اور اﷲتعالیٰ بہت ہی زبردست اور بے حد حکمتوں والا ہے۔}
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم چند علمی نکات سے ناظرین رسالہ کی تواضع کریں۔
۱… ’’ بل ‘‘ ایک عربی لفظ ہے۔ جس کے استعمال سے باری تعالیٰ نے قیامت تک کے لئے قادیانی ایسے محرفین کلام اﷲ کا ناطقہ بند کر دیا ہے۔ کتب نحو کے جاننے والوں سے پوشیدہ نہیں کہ ’’ بل ‘‘ کے بعد والے مضمون اور مضمون ’’ ماقبل ‘‘ کے درمیان تضاد کا ہونا ضروری ہے۔ مثلاً اگر کوئی یوں کہے کہ ’’زید آدمی نہیں بلکہ قادیانی ہے۔‘‘ تو یہ فقرہ ہر ذی عقل کے نزدیک غلط ہے۔ کیونکہ ’’ بل ‘‘ کے پہلے زید کے آدمی ہونے سے انکار ہے اور اس کے بعد اس کے قادیانی ہونے کا اقرار ہے۔ مگر ان دونوں باتوں میں کوئی مخالفت نہیں۔ کیونکہ آخر قادیانی بھی آدمی تو ضرور ہیں۔ پس صحیح فقرہ تو یوں چاہئے۔ ’’زید مسلمان نہیں بلکہ قادیانی ہے۔‘‘ کیونکہ کہنے والے کا مطلب اور عقیدہ یہ ہے کہ قادیانی کافر ہیں جو مسلمان کی ضد ہیں یا یہ فقرہ صحیح ہے۔ ’’زید آدمی نہیں بلکہ جن ہے۔‘‘ کیونکہ زید کے آدمی ہونے کی نفی کر کے اس کے جن ہونے کا اقرار ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ’’بل‘‘ کے پہلے اور مابعد والے مضمون میں ضد اور مخالفت ضروری ہے۔ قتل اور سولی پر چڑھانے اور زندہ اٹھائے جانے میں تو مخالفت ہے۔ مگر قتل اور روح کے اٹھانے میں کوئی مخالفت نہیں۔ بلکہ بے گناہ مقتول کا رفع روحانی تو تمام مذاہب کا ایک مسلمہ اصول ہے۔
۲… ’’ بل ابطالیہ ‘‘ میں جو یہاں باری تعالیٰ نے استعمال فرمایا ہے۔ ضروری ہے کہ: ’’ بل ‘‘ کے مابعد والے مضمون کا فعل، فعل ماقبل سے پہلے وقوع میں آچکا ہو۔ اس کی مثال یوں سمجھئے۔ مشرک کہتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے فرشتوں کو اپنی اولاد بنالیا ہے۔ نہیں یہ غلط ہے۔ بلکہ فرشتے تو اس کے نیک بندے ہیں۔ دیکھئے! یہاں بلکہ ( جس کو عربی میں ’’بل‘‘کہتے ہیں ) سے پہلے مشرکین کا قول فرشتوں کا اﷲتعالیٰ کی اولاد بتلانا مذکور ہے اور ’’ بل ‘‘ کے بعد فرشتوں کے اﷲتعالیٰ کے نیک بندے ہونے کا اعلان ہے۔ فرشتے خدا کے نیک بندے پہلے سے ہیں۔ مشرکین نے ان کے نیک ہونے کے بعد کہا کہ وہ اﷲ کی اولاد ہیں۔
دوسری مثال: ’’وہ کہتے ہیں زید لاہور گیا تھا۔ نہیں بلکہ وہ تو سیالکوٹ گیا تھا۔‘‘
دیکھئے! زید کا سیالکوٹ جانا پہلے وقوع میں آیا تھا۔ اس کے بعد لوگوں نے کہا تھا کہ وہ لاہور گیا تھا۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کو ’’ بل ‘‘ کے بعد استعمال کیاگیا ہے۔ اس لئے ضروری ہوا کہ آپ کا رفع پہلے کیاگیا تھا اور اس کے بعد یہود نے کہا کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کردیا ہے۔ اگر ’’ رفعہ اﷲ ‘‘ میں رفع سے رفع روحانی مراد لیا جائے جو حسب قول وعقیدہ قادیانی جماعت واقعہ صلیب کے ۸۷برس بعد طبعی موت سے کشمیر میں وقوع پذیر ہوا تھا تو پھر یہ کلام مرزاقادیانی کی کلام کی طرح ’’ پنجابی عربی ‘‘ بن کر رہ جائے گا۔ کیونکہ ’’ بل ‘‘ کا استعمال ہمیں اس بات کے ماننے پر مجبور کر رہا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع ہو چکا تھا۔ اس کے بعد یہود نے اعلان قتل کیا۔ قادیانی مذہب قیامت تک اس ’’ بل ‘‘ کے بل (لپیٹ) سے نہیں نکل سکتا۔ ہاں رفع جسمانی کی صورت میں قانون ٹھیک بیٹھتا ہے۔
۳… ’’ بل ‘‘ سے پہلے جس چیز کے قتل اور سولی کا انکار کیا جارہا ہے۔ اسی کے رفع یعنی اٹھا لینے کا اقرار اور اعلان ہورہا ہے۔ ’’ بل ‘‘ سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ جسم (مجموعہ جسم وروح) کے قتل وسولی سے انکار کیاگیا ہے۔ پس ’’ بل ‘‘ کے بعد رفع بھی جسم وروح کے متعلق ہوا اور اٹھانا صرف روح کا مذکور ہوتو یہ بالکل فضول کلام ہے۔ کیونکہ قتل کیا جانا اور سولی دیا جانا روح کے اٹھائے جانے کے مخالف نہیں۔ بلکہ ان دونوں سے بے گناہ مظلوم کا رفع روحانی یقینی ہو جاتا ہے۔
۴… ’’ بل ‘‘ سے پہلے اور ’’ بل ‘‘ کے بعد والے افعال میں جو مفعولی ضمیریں ہیں وہ ساری ایک ہی شخص کے لئے ہونی چاہئیں۔ پہلی ضمیریں ’’ وما قتلوہ وما صلبوہ ‘‘ میں سارے کی ساری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم وروح دونوں کی طرف پھرتی ہیں۔ اس کے بعد ’’ رفعہ اﷲ ‘‘ میں ’’ ہ ‘‘ کی ضمیر بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم وروح دونوں کے لئے ہے نہ کہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کے لئے۔
۵… یہود کا عقیدہ تھا کہ انہوں نے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو قتل کر دیا تھا۔ اکثر عیسائی ان کے اس عقیدہ سے متفق ہوکر کہنے لگ گئے کہ قتل تو کئے گئے۔ مگر پھر وہ بمعہ جسم آسمان پر اٹھا لئے گئے۔ دونوں قوموں کا یہ عقیدہ حضرت رسول کریمﷺ کے وقت میں اسی طرح موجود تھا۔ اگر رفع جسمانی کا عقیدہ غلط ہوتا اور جیسا کہ قادیانی کہتے ہیں۔ شرک ہوتا تو ضروری تھا کہ خدا اس موقعہ پر رفع کے ساتھ روح کا بھی ذکر کر دیتے۔ کیونکہ صرف رفع کے معنی بغیر قرینہ صارفہ کے جسم کا اوپر اٹھانا ہی ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ رفع کے معنی رفع جسمانی اور رفع روحانی دونوں طرح مستعمل ہیں تو بھی ایسے موقعہ پر خصوصیت کے ساتھ رفع روحانی کا اعلان کرنا چاہئے تھا تاکہ عیسائی عقیدہ رفع جسمانی کا انکار اور رد ہو جاتا ۔ بلکہ یہاں ایسا لفظ استعمال کیا کہ جس کے معنی تیرہ سو سال کے مجددین امت محمدیہﷺ اور صحابہ کرامؓ نے بھی وہی سمجھے جو عیسائی سمجھتے ہیں۔
۶… رفع جسمانی سے دونوں مذاہب باطلہ یہودیت اور عیسائیت کی تردید ہوتی ہے۔ وہ اس طرح کہ جب یہود نے کہا ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا تھا اور پھانسی بھی دید یا تھا اور اس وجہ سے انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے (نعوذ باﷲ) لعنتی ہونے کا اعلان کر دیا تو عیسائیوں نے ان سے ہمنوأ ہو کر آپ کا ملعون ہونا تسلیم کر لیا۔ اس کے بعد کفارہ اور تثلیث کا باطل عقیدہ گھڑ لیا۔ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود کے ہاتھوں قتل اور سولی سے بچانے اور زندہ آسمان پر اٹھا لینے کا اعلان کر کے دونوں مذاہب کا باطل ہونا اظہر من الشمس کر دیا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے وقوع پذیر ہونے کا تو عیسائیوں کا پہلے سے عقیدہ ہے۔ مرزاقادیانی یا ان کی جماعت نے اس کو ثابت کر کے عیسائیت کے عقائد کی ایک گونہ تائید کی ہے۔ نہ کہ تردید۔
۷… رفع کے متعلق ہم ببانگ دہل یہ اعلان کرتے ہیں کہ جب رفع یا اس کے مشتقات میں سے کوئی سالفظ بولا جائے اور اﷲتعالیٰ فاعل ہو اور مفعول جوہر ہو (عرض نہ ہو) اور اس کا صلہ الیٰ مذکور ہو۔ مجرور اس کا ضمیر ہو۔ اسم ظاہر نہ ہو اور وہ ضمیر فاعل کی طرف راجع ہو۔ وہاں سوائے آسمان پر اٹھا لینے کے دوسرے معنی ہوتے ہی نہیں۔ اس کے خلاف اگر کوئی قادیانی قرآن، حدیث یا کلام عربی سے کوئی مثال پیش کر سکے تو منہ مانگا انعام لے۔ لیکن یاد رکھیں قیامت تک ایسا کرنے سے قاصر رہیں گے اور آخر ذلیل ہوں گے۔
۸… قادیانی عقیدہ یہ ہے کہ یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کرنے میں ناکام رہے اور صورت اس کی یہ ہوئی کہ عیسیٰ علیہ السلام کو انہوں نے پکڑ لیا۔ ان کو طمانچے مارے، ذلیل وخوار کیا۔ منہ پر تھوکا، سولی پر چڑھایا۔ ان کے جسم میں کیلیں ٹھونکی گئیں۔ اس درد وکرب سے وہ بیہوش ہوگئے۔ یہود انہیں مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے۔ مگر فی الواقع اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کو ’’کمال قدرت اور حکمت‘‘ سے ان کے جسم سے جدا نہ ہونے دیا۔ یہی اﷲتعالیٰ کا مکریعنی تدبیر لطیف تھی۔ ہمارا یہاں یہ سوال ہے کہ اس سے ذرا پہلے یہود نامسعود کا فعل مذکور ہے۔ ’’ وقتلہم الانبیاء بغیر حق ‘‘ یعنی یہود انبیاء علیہم السلام کو ناحق قتل کرنے کے سبب ملعون قرار دئیے گئے۔ اب ظاہر ہے کہ یہود کے نزدیک وہ تمام انبیاء جھوٹے تھے اور یہود انہیں قتل کر کے ملعون ہی خیال کرتے تھے۔ کیونکہ وہ ہر مجرم واجب القتل کو لعنتی قرار دیتے تھے اور ذریعہ قتل ان کے پہلے صلیب پر لٹکانا اور بعد اس کے اس کی ہڈیاں توڑ توڑ کر مارڈالنا ہوتا تھا۔ جیسا کہ ہم اسی باب میں پہلے بیان کر آئے ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے یہود کے دعویٰ قتل انبیاء کا رد نہیں کیا۔ بلکہ اس قتل کو یہود کی لعنت کا باعث قرار دیا۔ اسی طرح اگر یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ذلیل وخوار کرنے اور صلیب پر چڑھانے میں کامیاب ہو جاتے تو اﷲتعالیٰ ’’ وقولہم ‘‘ کی بجائے ’’ وصلبہم ‘‘ فرماتے۔ اگر یہود قتل مسیح علیہ السلام میں کامیاب ہو جاتے تو ’’ وقولہم ‘‘ کی بجائے ’’ وقتلہم ‘‘ ارشاد ہوتا۔ لیکن ہر صورت میں ملعون یہود ہی ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع روحانی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ رفع روحانی کے لئے آدمی کے اپنے اعمال ذمہ دار ہیں۔ دنیامیں کوئی مذہب اس بات کا قائل نہیں کہ بے گناہ مصلوب ومقتول لعنتی ہو جاتا ہے۔ ہاں قادیانی مذہب کا اصول ہو تو ممکن ہے۔ کیونکہ اس کی ہر بات اچنبی اور اچھوتی ہے۔
مطلب اس ساری بحث کا یہ ہے کہ جس طرح دیگر انبیاء علیہم السلام کا باوجود مقتول ومصلوب ہو جانے کے خدا کے نزدیک رفع روحانی ہو چکا تھا اور ان کی صفائی کی ضرورت ہی درپیش نہیں ہوئی۔ اس طرح اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی مقتول یا مصلوب ہو جاتے تو اس کی صفائی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ کیونکہ وہ تو مظلوم تھے۔ پس ثابت ہوا کہ یہاں رفع سے مراد رفع روحانی نہیں بلکہ رفع جسمانی ہی ہے۔
۹… قادیانی نبی اور اس کی جماعت نے ’’ بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘ میں رفع سے مراد عزت کی موت قرار دیا ہے۔ ہم چیلنج کرتے ہیں کہ تمام جہاں کے قادیانی قرآن یا حدیث یا کلام عرب سے رفع بمعنی عزت کی موت نہیں دکھا سکتے۔ اگر ایک ہی مثال ایسی دکھادیں تو علاوہ مقررہ انعام کے ہم دس ہزار روپے اور انعام دینے کا اعلان کرتے ہیں۔
اور اگر ایسی ایک بھی مثال پیش نہ کر سکیں اور یقینا قیامت تک بھی پیش نہ کر سکیں گے۔ پس کیوں وہ قیامت سے بے خوف ہوکر محض نفسانی اغراض کے لئے مخلوق خدا کو فریب اور دھوکا کا شکار کر رہے ہیں۔
۱۰… ’’ الی ‘‘ کے متعلق قادیانی اعتراض کیا کرتے ہیں کہ خدا کی طرف رفع سے مراد جسمانی رفع اس واسطے صحیح نہیں کہ خدا کچھ آسمان پر تھوڑا ہی بیٹھا ہوا ہے۔ وہ تو ہر جگہ موجود ہے۔ کیا خدا زمین پر موجود نہیں ہے۔ اس کا جواب ملاحظہ ہو۔

 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
آسمان پر اٹھانا

’’خدا بے شک ہر جگہ موجود ہے۔ لیکن چونکہ اوپر کی طرف میں ایک خاص عظمت ورعب پایا جاتا ہے۔ اس لئے کتب سماوی میں ’’ الیٰ اﷲ ‘‘ (خدا کی طرف) سے ہمیشہ آسمان کی طرف ہی مراد لی گئی ہے۔‘‘
دلائل ذیل ملاحظہ ہوں:
الف… قرآن کریم میں ارشاد باری ہے۔ ’’ أامنتم من فی السمائ ‘‘ کیا تم بے خوف ہوگئے۔ اس سے جو آسمانوں میں ہے۔ دیکھئے یہاں خدا کی طرف سے آسمان مراد لیاگیا ہے۔
ب… ’’ الیٰ ربک ‘‘ قرآن شریف میں وارد ہوا ہے۔ جس کے معنی ’’خدا کی طرف‘‘ ہیں۔ خود مرزاقادیانی نے اس کی تفسیر میں ’’ الیٰ السمائ ‘‘ یعنی آسمان کی طرف لکھا ہے۔
(تحفہ گولڑویہ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۱۰۸)
ج… قول مرزا’’خدا کی طرف وہ اونچی ہے جس کا مقام انتہائی عرش ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۱۰۸)
د
مسیح کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی۔
(ازالہ اوہام ص۲۶۴، خزائن ج۳ ص۲۳۳)
ھ… الہام مرزا: ’’ ینصرک رجال نوحی الیہم من السمائ ‘‘ یعنی ایسے لوگ تیری مدد کریں گے جن پر ہم آسمان سے وحی نازل کریں گے۔
(تبلیغ رسالت ج۲ ص۱۰۸، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۳۲۸)

پس ثابت ہوا کہ رفع الیٰ اﷲ سے مراد رفع الیٰ السماء ہی ہوتی ہے۔
۱۱… ’’ وکان اﷲ عزیزاً حکیما ‘‘ کے الفاظ نے تو اسلامی تفسیر کی صحت پر مہر تصدیق ایسی ثبت کر دی ہے کہ قادیانی قیامت تک اس مہر کو توڑ نہیں سکتے۔
اس کی تفسیر ہم قادیانیوں کے مسلمہ امام اور مجدد صدی ششم امام فخرالدین رازیؒ کے الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
’’ والمراد من العزۃ کمال القدرۃ ومن الحکمۃ کمال العلم فنبہ بہذا علیٰ ان رفع عیسیٰ من الدنیا الیٰ السمٰوات وان کان کالمتعذر علی البشر لکنہ لا تعذر فیہ بالنسبۃ الیٰ قدرتی والیٰ حکمتی ‘‘
(تفسیر کبیر جز۱۱ ص۱۰۳)
’’اور مطلب عزیز کا قدرت میں کامل، مطلب حکیم کا علم میں کامل ہے۔ پس ان الفاظ میں خداتعالیٰ نے بتلادیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دنیا سے آسمان کی طرف اٹھانا۔ اگرچہ انسان کے لئے مشکل سا ہے۔ مگر میری قدرت اور حکمت کے لحاظ سے اس میں کوئی وجہ باعث اشکال نہیں اور کسی قسم کا اس میں تعذر نہیں ہوسکتا۔‘‘
نوٹ: ہماری اس تفسیر سے جو قادیانی انکار کرے اس کو (مرزا قادیانی کا اصول نمبر:۴) پڑھ کر سنا دیں۔ پھر بھی اصرار کرے تو اسے کہیں کہ جواب لکھ کر ہم سے انعام طلب کرے۔

چیلنج
اس آیت کی تفسیر کا ملخص یہ ہے کہ یہ آیت ببانگ دہل اعلان کر رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا نے زندہ اسی جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھا لیا تھا اور یہی تفسیر رسول کریمﷺ، آپﷺ کے صحابہ کرامؓ نے سمجھی اور آئمہ مجددین مسلمہ قادیانی بھی انہیں معنوں پر جمے رہے۔ (کوئی قادیانی اس کے خلاف ثابت نہیں کر سکتا) پھر قادیانی علوم عربیہ سے نابلد محض ہونے کے باوجود کیوں اپنی تفسیر مخترعہ پر ضد کر کے اپنی آخرت خراب کر رہے ہیں۔ انہیں خدا کے قہر سے بے خوف نہیں ہونا چاہئے۔ ’’ ان بطش ربک لشدید ‘‘ کا ورد ہر وقت ان کے لئے ضروری ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حیات عیسیٰ علیہ السلام پر قرآنی دلیل نمبر:۴

عربی اعراب کے بغیر:
’’ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیامۃ یکون علیہم شہیدا (نسائ:۱۵۹) ‘‘
عربی اعراب کے ساتھ:
وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ۝۰ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكُوْنُ عَلَيْہِمْ شَہِيْدًا۝۱۵۹ۚ

یہ آیت بھی ڈنکے کی چوٹ اعلان کر رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں فوت نہیں ہوئے۔ اس آیت کا ترجمہ ہم ایسے بزرگوں کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں کہ اگر کسی قادیانی نے اپنی حماقت کے سبب اس کی صحت پر اعتراض کیا تو بحکم مرزاغلام احمد قادیانی کافر وفاسق ہو جائے گا۔

۴…
پھر اگر کسی وقت کلام اﷲ، حدیث رسول اﷲﷺ اور صحابہ کرامؓ کے کلام سمجھنے میں اختلاف رونما ہو جائے اور خلقت گمراہ ہونے لگے تو اﷲتعالیٰ ہر صدی میں ایسے علمائے ربانیین پیدا کرتا رہتا ہے۔ جو اختلافی مسائل کو خدا اور اس کے رسولﷺ کے حکم اور منشاء کے مطابق حل کر دیتے ہیں۔ چنانچہ رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے۔ ’’ ان اﷲ یبعث لہذہ الامۃ علیٰ رأس کل مائۃ سنۃ من یجدد لہا دینہا ‘‘
(ابوداؤد ج۲ ص۱۳۲، باب مایذکر فی قدر المائۃ)
’’یعنی اﷲتعالیٰ ہر صدی کے سر پر اس امت کے لئے ایسے علماء مفسرین پیدا کرتا رہے گا۔ جو اس کے دین کی تجدید کرتے رہیں گے۔‘‘ اس کی تائید مرزاقادیانی اس طرح کرتے ہیں:
’’جو لوگ خداتعالیٰ کی طرف سے مجددیت کی قوت پاتے ہیں وہ نرے استخواں فروش نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ واقعی طور پر نائب رسول اﷲﷺ اور روحانی طور پر آنجناب کے خلیفہ ہوتے ہیں۔ خداتعالیٰ انہیں تمام نعمتوں کا وارث بناتا ہے۔ جو نبیوں اور رسولوں کو دی جاتی ہیں۔‘‘
(فتح اسلام ص۹، خزائن ج۳ ص۷)

پھر دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’مجدد کا علوم لدنیہ وآیات سماویہ کے ساتھ آنا ضروری ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۵۴، خزائن ج۳ ص۱۷۹)
تیسری جگہ لکھتے ہیں:
’’یہ یاد رہے کہ مجدد لوگ دین میں کوئی کمی بیشی نہیں کرتے۔ گم شدہ دین کو پھر دلوں میں قائم کرتے ہیں اور یہ کہنا کہ مجددوں پر ایمان لانا کچھ فرض نہیں۔ خدا تعالیٰ کے حکم سے انحراف ہے۔‘‘ وہ فرماتا ہے: ’’ من کفر بعد ذالک فاؤلئک ہم الفاسقون ‘‘
(شہادۃ القرآن ص۴۸، خزائن ج۶ ص۳۴۴)
چوتھی جگہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
’’مجددوں کو فہم قرآن عطا ہوتا ہے۔‘‘
(ایام الصلح ص۵۵، خزائن ج۱۴ ص۲۸۸)
پانچویں جگہ ارشاد ملاحظہ کریں:
’’مجدد مجملات کی تفصیل کرتا اور کتاب اﷲ کے معارف بیان کرتا ہے۔‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۷۵، خزائن ج۷ ص۲۹۰)
چھٹی جگہ لکھا ہے:
’’مجدد خدا کی تجلیات کا مظہر ہوتے ہیں۔‘‘
(سراج الدین عیسائی ص۱۵، خزائن ج۱۲ ص۳۴۱)

اس سارے مضمون کا نتیجہ یہ ہے کہ کلام اﷲ اور حدیث رسول اﷲﷺ کا جو مفہوم مجددین امت بیان کریں وہی قابل قبول ہے۔ اس کی مخالفت کرنے والا فاسق ہوتا ہے۔
ترجمہ از شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی مجدد (مسلمہ قادیانی) صدی دوازدہم
(عسل مصفیٰ جلد اوّل ص۱۶۳،۱۶۵)
’’ ونباشد ہیچ کس از اہل کتاب الاّ البتہ ایمان آورد بہ عیسیٰ علیہ السلام پیش از مردن عیسیٰ علیہ السلام وروز قیامت باشد عیسیٰ علیہ السلام گواہ برایشان۔ ‘‘
(فتح الرحمن مصنفہ شاہ صاحب)
ترجمہ: ’’اور اہل کتاب میں سے کوئی نہ ہوگا مگر یہ کہ وہ یقینا ایمان لائے گا حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن ان اہل کتاب پر اس کی گواہی دیں گے۔‘‘
ناظرین باتمکین! یہ وہ ترجمہ ہے جس پر جمہور علماء مفسرین اور مجددین امت مسلمہ قادیانی تیرہ صدی سال سے متفق چلے آرہے ہیں اور سب اس آیت سے حیات عیسیٰ علیہ السلام پر دلیل پکڑتے چلے آئے ہیں۔ اس سے پہلے جو آیت قرآن کریم میں مذکور ہے وہ وہی ہے جو ہم نے دلیل نمبر:۳ میں بیان کی ہے۔ اس کے پڑھنے یا سننے والے پر یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ اس قدر اولوالعزم رسول کا دنیا میں آنا اور ’’ رسولا الیٰ بنی اسرائیل ‘‘ کا لقب لینا کیا بے معنی ہی تھا؟ یعنی جس قوم کی طرف وہ مبعوث ہوکر آئے تھے۔ ان میں سے ایک بھی ان پر ایمان نہ لایا اور خدا نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا۔ اب آسمان پر وہ کیا کریں گے؟ کیا یہود کے ساتھ ان کا تعلق ختم ہوچکا ہے؟ عملی طور پر اس بات کا کیا ثبوت ہے؟ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ بجسد عنصری موجود ہیں اور مکر اﷲ کا پورا پورا مظاہرہ تو اس طرح مکمل نہیں ہوسکتا کہ یہود دنیا میں موجود رہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھانے اور قتل کرنے کا عملی ثبوت دیتے رہیں۔ یہاں تک کہ دھوکا میں آکر عیسائی بھی ان کے ہمنوأ ہو جائیں۔ اﷲتعالیٰ صرف بذریعہ وحی ہی ان کے دعویٰ قتل کی تردید کرتے ہیں۔ غیر جانبدار شخص ضرور اس تردید کے لئے کوئی عملی ثبوت طلب کرے گا۔ وہ کہہ سکتا ہے کہ یہ وحی من جانب اﷲ نہیں ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی بھی اس تفسیر میں میرے ساتھ کلی اتفاق ظاہر کر رہے ہیں۔
’’جس حالت میں شیطانی الہام بھی ہوتے ہیں اور حدیث النفس بھی تو پھر کسی قول کو کیونکر خدا کی طرف منسوب کر سکتے ہیں۔ جب تک کہ اس کے ساتھ خدا کی فعلی شہادت زبردست نہ ہو۔ ایک خدا کا قول ہے اور ایک خدا کا فعل ہے اور جب تک خدا کے قول پر خدا کا فعل شہادت نہ دے ایسا الہام شیطانی کہلائے گا اور شہادت سے مراد ایسے آسمانی نشان ہیں کہ جو انسانوں کی معمولی حالتوں سے بہت بڑھ کر ہیں۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۹،۱۴۰، خزائن ج۲۲ ص۵۷۷،۵۷۸)
اب غور کیجئے کہ یہاں خداوند کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات جسمانی کا اعلان بذریعہ وحی کر دیا۔ مگر مرزاقادیانی اس پر فعلی شہادت کا تقاضا کرتے ہیں۔ ہم اس کے جواب میں فعلی شہادت پیش کرتے ہیں اور شہادت بھی کیسی؟ ایسی کہ خود وہ ساری مخالف قوم (بنی اسرائیل) بجائے انکار کے خود بخود اقرار اور اقبال کرنے لگ جائے۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب تک سارے کے سارے اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی برحق اور زندہ بجسدہ العنصری تسلیم نہ کر لیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر موت نہیں آئے گی اور ان کے اس طرح ایمان لانے پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن گواہی بھی دیں گے۔
علاوہ ازیں دنیاسے کسی نبی کا جو صاحب کتاب اور صاحب امت ہو، ناکام جانا سنت اﷲ کے مخالف ہے۔ چنانچہ مرزا قادیانی بھی ہماری تائید میں لکھتے ہیں۔
’’ ان الانبیاء لا ینقلبون من ہذہ الدنیا الیٰ دار الاٰخرۃ الا بعد تکمیل رسالات ‘‘
یعنی انبیاء اس دنیا سے آخرت کی طرف انتقال نہیں فرماتے۔ مگر اپنے کام کی تکمیل کے بعد۔
(حمامتہ البشریٰ ص۴۹، خزائن ج۷ ص۲۴۳)
چنانچہ لکھتے ہیں:
’’سچے نبیوں اور مامورین کے لئے سب سے پہلی یہی دلیل ہے کہ وہ اپنے کام کی تکمیل کر کے مرتے ہیں۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۵، خزائن ج۱۷ ص۴۳۴)
اب قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچا گئے ہیں تو خواہ وہ آسمان پر زندہ بجسد عنصری ہیں۔ اب ان کے آنے کی ضرورت نہیں اور اگر وہ اپنا مشن اشاعت توحید ورسالت پورا کرنے سے پہلے ہی تشریف لے گئے ہیں تو یہ دوحال سے خالی نہیں۔ اگر مرگئے ہیں اور دوبارہ نہیں آئیں گے تو سنت اﷲ کے مطابق حسب قول مرزا وہ سچے نبی نہ تھے۔ لیکن مرزاقادیانی نے بھی انہیں سچا نبی اور مامور من اﷲ ضرور مانتے ہیں۔ ان کی تبلیغی کامیابی کے متعلق میں صرف مرزاقادیانی کے اقوال ہی نقل کر دینا کافی سمجھتا ہوں۔
۱… ’’یہ کہنا کہ جس طرح موسیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ہاتھ سے نجات دی تھی۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ نے اپنے تابعین کو شیطان کے ہاتھ سے نجات دی۔ یہ ایسا بیہودہ خیال ہے کہ کوئی شخص گو کیسا ہی اغماض کرنے والا ہو اس خیال پر اطلاع پا کر اپنے تئیں ہنسنے سے روک نہیں سکے گا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۲۱، خزائن ج۱۷ ص۳۰۰)
۲… ’’ہدایت اور توحید اور دینی استقامتوں کے کامل طور پر دلوں میں قائم کرنے کے بارہ میں ان کی کارروائیوں کا نمبر ایسا کم درجہ کا رہا کہ قریب قریب ناکام کے رہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۱۱ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۵۸)
۳… ’’حضرت مسیح تو انجیل کو ناقص کی ناقص ہی چھوڑ کر آسمانوں پر جا بیٹھے۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۳۶۱، خزائن ج۱ ص۴۳۱)
پس سنت اﷲ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی فوت نہیں ہوسکتے۔ جب تک کہ وہ اپنے کام میں کامیاب نہ ہولیں۔ سیاق وسباق کلام بھی یہی تقاضا کرتا ہے۔ یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی مختصر سی امت کو فنا کرنا چاہتے تھے۔ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی ان کے ضرر سے بچا لیا۔ ان کی امت کو بھی یہودیوں پر غالب کر دیا۔ مگر مکمل غلبہ اس طرح ہوگا کہ ظاہری غلامی کے بعد جو آج کل یہودیوں پر لعنت دائمی ثابت ہو رہی ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں کہ آخری زمانہ میں ہم عیسیٰ علیہ السلام کو نازل کر کے ان کے منکر یہودیوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا روحانی غلام بھی بنادیں گے۔ ذیل میں ہم چند مجددین واولیاء ملہمین مسلمہ قادیانی کی تفسیر کرتے ہیں۔ اس کے بعد قادیانی اعتراضات کی حقیقت الم نشرح کریں گے۔ امام شعرانی، جو مرزاغلام احمد قادیانی کے نزدیک ’’ایسے محدث اور صوفی تھے جو معرفت کامل اور تفقہ تام کے رنگ سے رنگین تھے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۴۹، خزائن ج۳ ص۱۷۶)
فرماتے ہیں: ’’ الدلیل علیٰ نزولہ قولہ تعالیٰ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ای حین ینزل ویجتمعون علیہ وانکرت المعتزلۃ والفلا سفۃ والیہود والنصاریٰ عروجہ بجسدہ الیٰ السماء وقال تعالیٰ فی عیسیٰ علیہ السلام وانہ لعلم للساعۃ… والضمیر فی انہ راجع الیٰ عیسیٰ… والحق انہ رفع بجسدہ الیٰ السماء والایمان بذالک واجب قال اﷲ تعالیٰ بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘
(الیواقیت والجواہر ج۲ ص۱۴۶)
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے پر دلیل یہ آیت ہے۔ ’’ وان من اہل الکتاب ‘‘ جس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت کے یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے ضرور ان پر ایمان لے آئیں گے۔ معتزلہ، فلسفیوں، یہودیوں اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر بمعہ جسم اٹھائے جانے سے انکار کیا ہے۔ حالانکہ فرمایا اﷲتعالیٰ نے دوبارہ رفع جسمانی حضرت مسیح کے ’’ وانہ لعلم للساعۃ ‘‘ اور ضمیر ’’ انہ ‘‘ کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھرتی ہے… اور سچ یہ ہے کہ وہ بمعہ جسم کے آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور ان کے رفع جسمی پر ایمان لانا واجب ہے۔ کیونکہ فرمایا ان کے متعلق اﷲتعالیٰ نے ’’ بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘ (بلکہ اٹھا لیا اﷲ نے ان کو اپنی طرف)‘‘
حضرات! یہ وہی امام عبدالوہاب شعرانی ہیں۔ جن کی کلام سے مرزائی مناظرین تحریف لفظی اور معنوی کر کے وفات عیسیٰ علیہ السلام پر استدلال کیا کرتے ہیں۔
معزز ناظرین! اب ہم اس شخص کی تفسیر درج کرتے ہیں جو قادیانی جماعت کے مسلمہ مجدد صدی ہفتم تھے اور آپ ساتویں صدی میں کلام اﷲ کے حقیقی مطالب بیان کرنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔ اس بزرگ ہستی کا اسم گرامی احمد بن عبدالحلیم تقی الدین ابن تیمیہؒ تھا۔ خود مرزاقادیانی اس امام ہمام کا ذکر خیر ان الفاظ میں فرماتے ہیں۔
’’فاضل ومحدث ومفسر ابن تیمیہ وابن قیم جو اپنے اپنے وقت کے امام ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں۔‘‘
(کتاب البریہ ص۲۰۳حاشیہ، خزائن ج۱۳ ص۲۲۱ حاشیہ)
امام موصوف اپنی بے مثل کتاب ’’ الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح ‘‘ میں فرماتے ہیں۔
ترجمہ اردو: ’’ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ‘‘ اس آیت کی تفسیر اکثر علماء نے یہی کی ہے کہ مراد ’’ قبل موتہ ‘‘ سے ’’حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات سے پہلے‘‘ ہے اور یہودی کی موت کے معنی بھی کسی نے کئے ہیں اور یہ ضعیف ہے۔ کیونکہ اگر موت سے پہلے ایمان لایا جائے تو نفع دے سکتا ہے۔ اس لئے کہ اﷲتعالیٰ توبہ قبول کرتا ہے۔ جب غرغرہ تک نہ پہنچے اور اگر یہ کہا جائے کہ ایمان سے مراد غرغرہ کے بعد کا ایمان ہے تو اس میں کوئی فائدہ نہیں۔ اس لئے کہ غرغرہ کے بعد ہر ایک امر جس کا وہ منکر ہے۔ اس پر ایمان لاتا ہے۔ پس مسیح علیہ السلام کی کوئی خصوصیت نہیں اور یہاں ایمان سے مراد ایمان نافع ہے۔ اس لئے کہ خداتعالیٰ نے اپنی پاک کلام میں اس ایمان کے متعلق ’’ قبل موتہ ‘‘ فرمایا ہے۔
اس آیت میں ’’ لیؤمنن بہ ‘‘ مقسم علیہ ہے۔ یعنی قسمیہ خبر دی گئی ہے اور یہ مستقبل میں ہی ہوسکتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ یہ ایمان لانا اس خبر (نزول آیت) کے بعد ہوگا اور اگر موت سے مراد یہودی کی موت ہوتی تو پاک اﷲ اپنی پاک کتاب میں یوں فرماتے۔ ’’ وان من اہل الکتاب الا من یؤمن بہ ‘‘ اور ’’ لیؤمنن بہ ‘‘ ہرگز نہ فرماتے اور نیز ’’ وان من اہل الکتاب ‘‘ یہ لفظ عام ہے۔ ہر ایک یہودی ونصرانی کو شامل ہے۔ پس ثابت ہوا کہ تمام اہل کتاب یہود ونصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت ان کی موت سے پہلے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے ائیں گے۔ تمام یہودی ونصاریٰ ایمان لائیں گے کہ مسیح ابن مریم اﷲ کا رسول کذاب نہیں۔ جیسے یہودی کہتے ہیں اور نہ وہ خدا ہیں۔ جیسے کہ نصاریٰ کہتے ہیں۔ اس عموم کا لحاظ زیادہ مناسب ہے۔ اس دعویٰ سے کہ موت سے مراد کتابی کی موت ہے۔ کیونکہ اس سے ہر ایک یہودی ونصرانی کا ایمان لانا ثابت ہوتا ہے اور یہ واقع کے خلاف ہے۔ اس لئے کہ جب خداتعالیٰ نے یہ خبر دی کہ تمام اہل کتاب ایمان لائیں گے تو ثابت ہوا کہ اس عموم سے مراد عموم اور لوگوں کا ہے۔ جو نزول المسیح کے وقت موجود ہوں گے۔ کوئی بھی ایمان لانے سے اختلاف نہیں کرے گا۔ جو اہل کتاب فوت ہوچکے ہوں گے وہ اس عموم میں شامل نہیں ہوسکتے۔ یہ عموم ایسا ہے۔ جیسے یہ کہا جاتا ہے۔ ’’ لا یبقی بلد الا دخلہ الدجال الا مکۃ والمدینۃ ‘‘ پس یہاں مدائن (شہروں) سے مراد وہی مدائن ہوسکتے ہیں جو اس وقت موجود ہوں گے اور اس سے ہر ایک یہودی ونصرانی کے ایمان کا سبب ظاہر ہے وہ یہ کہ ہر ایک کو معلوم ہو جائے گا کہ مسیح علیہ السلام رسول اﷲ ہے۔ جس کو اﷲتعالیٰ کی تائید حاصل ہے۔ نہ وہ کذاب ہیں نہ وہ خدا ہیں۔ پس اﷲ تعالیٰ نے اس ایمان کا ذکر فرمایا ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام کے تشریف لانے کے وقت ہوگا۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع اس آیت میں ذکر فرمایا ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘ اور مسیح علیہ السلام قیامت سے پیشتر زمین پر اتریں گے اور فوت ہوں گے اور اس وقت کی خبر دی کہ سب اہل کتاب مسیح کی موت سے پیشتر ایمان لائیں گے۔‘‘
(الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح ج۲ ص۲۸۱،۲۸۳)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top