قادیانی جب قرآن و احادیث کے دلائل سے لاجواب ہوجاتے ہیں تو چند بزرگان امت کی عبارات پیش کر کے یہ ظاہر کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ بزرگان امت بھی سیدنا عیسی علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں۔ حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر مرزاقادیانی تک کوئی ایک عالم جو مسلمان ہو، وہ کبھی بھی اس بات کا قائل نہیں گزرا کہ سیدنا عیسی علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں اور قرب قیامت واپس زمین پر تشریف نہیں لائیں گے ۔ بلکہ تمام مسلمان اس بات کے قائل تهے کہ سیدنا عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالٰی نے آسمان پر اٹھا لیا تھا اور اب وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے۔
قادیانی بزرگوں کے اقوال کیوں پیش کرتے ہیں؟ جبکہ بزرگوں کے اقوال قادیانیوں کے نزدیک مستقل حجت نہیں کیونکہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"اقوال سلف درحقیقت کوئی مستقل حجت نہیں"
(روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 389)
مرزاقادیانی کے مطابق رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السلام کا مسئلہ 13 صدیوں تک چھپا رہا اور یہ مسئلہ مرزاقادیانی پر ظاہر ہوا۔ جب خود مرزاقادیانی نے یہ بات تسلیم کی ہے تو پھر قادیانی بزرگان امت پر یہ الزام کیوں لگاتے ہیں کہ وہ سیدنا عیسی علیہ السلام کی وفات کے قائل تھے؟؟
جیسا کہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"یااخوان ھذہ الأمر الذی اخفاہ الله من أعین القرون الاولی ، وجلی تفاصیله فی وقتنا ھذا یخفی مایشاء و یبدئ"
(اے بھائیو یہ معاملہ(یعنی عیسی علیہ السلام کی موت کا راز) وہ ہے جو اللہ نے پہلے زمانوں کی آنکھوں سے چھپائے رکھا ۔ اور اس کی تفاصیل اب ظاہر ہوئی ہیں،وہ جو چاہتا ہے اسے مخفی رکھتا ہے اور جو چاہتا ہے اسے ظاہر کرتا ہے)
(روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 426)
ایک اور جگہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"ولکن ما فھم المسلمون حقیقتہ۔ لان اللہ تعالٰی اراد اخفاءہ۔ فغلب قضاءہ ومکرہ وابتلاءہ علی الافھام فصرف وجوھھم عن الحقیقتہ الروحانیہ الی الخیالات الجسمانیہ فکانو بھا من القانعین و بقی ھذا الخبر مکتوبا مستورا کالحب فی السنبلتہ قرنا بعد قرن حتی جاء زماننا"
( لیکن مسلمان اس کی حقیقت( یعنی عیسی علیہ السلام کی وفات کی حقیقت)کو نہیں سمجھے۔ کیونکہ اللہ تعالٰی نے ارادہ کیا تھا کہ اس کو مخفی رکھے۔ پس اللہ کی قضاء، اس کی تقدیر اور اس کی آزمائش لوگوں کے فہم پر غالب آگیئں۔ اس لئے لوگ اس کی روحانی حقیقت سے ہٹ کر اس کے جسمانی خیالات کی طرف سوچنے لگے۔ اور اسی پر وہ قناعت کر گئے۔ یہ خبر(یعنی عیسی علیہ السلام کی وفات کی خبر) کئی صدیوں تک یونہی چھپی رہی۔ جس طرح کہ دانہ خوشے میں چھپا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارا زمانہ آگیا)
(روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 552،553)
پھر آگے مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"فکشف اللہ الحقیقة علینا لتکون النار بردا و سلاما"
(پس اللہ نے ہم پر حقیقت(یعنی عیسی علیہ السلام کی وفات کی حقیقت) کھولی ۔ تاکہ آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجائے)
(روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 553)
مرزاقادیانی سے پہلے 1300 سال کے مسلمانوں کا عقیدہ یعنی حضور ﷺ کے دور سے لے کر مرزاقادیانی تک کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ سیدنا عیسی علیہ السلام کے جسمانی رفع و نزول کا تھا۔
جیسا کہ خود مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"ایک دفعہ ہم دلی گئے۔ ہم نے وہاں کے لوگوں کوکہا کہ تم نے 1300 برس سے یہ نسخہ استعمال کیا ہے کہ آنخضرت ﷺ کو مدفون اور حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر زندہ بٹھایا۔۔۔۔ اب دوسرا نسخہ ہم بتاتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو فوت شدہ مان لو"
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 579)
اسی بات کی تائید قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ مرزاقادیانی کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود نے بھی کی ہے ۔
مرزا بشیر الدین محمود نے لکھا ہے کہ
"پچھلی صدیوں میں قریبا سب دنیا کے مسلمانوں میں مسیح علیہ السلام کے زندہ ہونے پر ایمان رکھا جاتا تھا ۔ اور بڑے بڑے بزرگ اسی عقیدہ پر فوت ہوئے۔ اور نہیں کہ سکتے کہ وہ مشرک فوت ہوئے۔ گو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مشرکانہ عقیدہ ہے۔ حتی کہ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی ) باوجود مسیح موعود کا خطاب پانے کے دس سال تک یہی خیال کرتے رہے کہ مسیح آسمان پر زندہ ہے"
(انوار العلوم جلد 2 صفحہ 463)
مرزاقادیانی اور اس کے بیٹے کے حوالے آپ نے ملاحظہ فرمالئے کہ مرزاقادیانی کے آنے سے پہلے حضورﷺ کے دور سے لے کر مرزاقادیانی تک تمام مسلمانوں جن میں صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین، تمام مجددین، فقھاء، مفسرین اور اولیاء اللہ شامل ہیں ان کا یہی عقیدہ تھا کہ سیدنا عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالٰی نے آسمان پر اٹھا لیا تھا اور وہ قرب قیامت نازل ہوں گے ۔
قادیانی امام مالک رحمہ اللہ سے منسوب ایک عبارت پیش کرتے ہیں جس میں ذکر ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے یوں فرمایا ۔
"وفی العتبیتہ قال مالک مات عیسی"
(عتبیہ میں ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ عیسی علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں)
(مجمع البحار و شرح اکمال اکمال المعلم )
قادیانی اس عبارت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ بھی سیدنا عیسی علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں۔
قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں ۔
جواب نمبر 1
قادیانی جن کتابوں کا حوالہ پیش کرتے ہیں یعنی مجمع البحار اور اکمال اکمال المعلم میں یہ بات لکھی ہے۔ تو دراصل اکمال اکمال المعلم اور مجمع البحار کے مصنف نے یہ بات ایک اور کتاب "عتبیتہ" سے نقل کی ہے۔ جیسا کہ عبارت میں بھی یہ بات لکھی ہے۔
اور "عتبیتہ " امام مالک رحمہ اللہ کی کتاب نہیں ہے بلکہ اس کتاب کے مصنف کا نام "محمد عتبی قرطبی"ہے۔ جن کی وفات 255 ھجری میں ہوئی۔
اس کے علاوہ امام مالک رحمہ اللہ سے منسوب اس قول کی کوئی سند نہیں بلکہ یہ بھی معلوم نہیں کہ مالک سے مراد امام مالک ہیں یا کوئی اور مالک ہے۔ پس جب کسی قول کی کوئی سند بھی موجود نہ ہو اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ جس کی طرف قول منسوب کیا جارہا ہے۔ اس سے وہی شخص مراد ہے یا کوئی اور مراد ہے تو اس طرح امام مالک رحمہ اللہ پر وفات سیدنا عیسی علیہ السلام کا قائل ہونے کا الزام لگانا سراسر بددیانتی ہے۔
جواب نمبر 2
قادیانی امام أبی رحمہ اللہ کی کتاب "اکمال اکمال المعلم" کا جو حوالہ پیش کرتے ہیں ۔ اس کی پوری عبارت پیش نہیں کرتے بلکہ صرف ایک جملہ نقل کردیتے ہیں۔
آیئے پوری عبارت دیکھتے ہیں تاکہ قادیانیوں کا دجل پوری طرح ظاہر ہوجائے۔
کتاب کے مصنف نے اس جگہ باب باندھا ہے۔
"باب نزول عیسی بن مریم علیہ السلام"
(سیدنا عیسی علیہ السلام کے نازل ہونے کے بارے میں باب)
آگے پوری عبارت یہ ہے ۔
"الاکثر انہ لم یمت بل رفع ، وفی العتبیتہ قال مالک مات عیسی ابن ثلاث و ثلاثین سنتہ (ابن رشد) یعنی بموتہ خروجہ من عالم الأرض الی عالم السماء قال و یحتمل انہ مات حقیقتہ و یحیا فی آخرالزمان اذا لا بد من نزولہ لتواتر الأحاديث بذلک"
(اکثریت کا یہ عقیدہ ہے کہ ان (سیدنا عیسی علیہ السلام ) پر موت نہیں آئی بلکہ ان کو اٹھالیاگیا۔ "عتبیہ" میں ہے کہ مالک نے کہا کہ 33 سال کی عمر میں عیسی علیہ السلام فوت ہوگئے۔ امام ابن رشد نے کہا ہے کہ یہاں موت سے مراد ان (سیدنا عیسی علیہ السلام) کا زمین سے نکل کر آسمان پر جانا ہے۔ یا اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ حقیقت میں فوت ہوگئے ہوں ۔ لیکن آخری زمانہ میں دوبارہ زندہ ہوں گے۔ کیونکہ متواتر احادیث بتاتی ہیں کہ انہوں نے ضرور نازل ہونا ہے)
(اکمال اکمال المعلم جلد 1 صفحہ 265)
یہاں اس عبارت میں امام مالک رحمہ اللہ سے منسوب قول کی وضاحت پوری طرح موجود ہے۔کہ اس قول سے مراد یہ ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السلام زمین سے آسمان پر چلے گئے ۔ اور دوسری بات کہ بالفرض اگر اس قول سے مراد حقیقی موت بھی لیا جائے تو پھر بھی سیدنا عیسی علیہ السلام قرب قیامت زندہ ہوکر زمین پر ضرور تشریف لائیں گے کیونکہ اس بارے میں متواتر احادیث موجود ہیں۔
لیجئے پوری عبارت سے قادیانی دجل کی عمارت پوری طرح زمین بوس ہوگئی ۔
جواب نمبر 3
اسی کتاب "اکمال اکمال المعلم " میں امام مالک رحمہ اللہ کا ایک قول یہ بھی نقل کیا گیا ہے ۔
"وفی العتبیتہ قال مالک بینما الناس قیام یستصفون لاقامتہ الصلوۃ فتغشاھم غمامتہ فإذا عیسی قد نزل"
(عتبیہ میں ہے کہ مالک نے کہا کہ اس دوران لوگ نماز کے لئے صفیں بنارہے ہوں گے کہ یکایک ان پر ایک بدلی چھاجائے گی۔ اور اچانک عیسی علیہ السلام نازل ہوجایئں گے )
اس قول میں امام مالک رحمہ اللہ کا عقیدہ سیدنا عیسی علیہ السلام کے نزول کے بارے میں کتنا واضح ہے۔ اور نزول کے لئے حیات لازم و ملزوم ہے۔ یعنی اگر سیدنا عیسی علیہ السلام زندہ نہیں ہوں گے تو نازل کیسے ہوں گے ۔ پس پتہ چلا کہ امام مالک رحمہ اللہ بھی سیدنا عیسی علیہ السلام کے رفع و نزول کے قائل ہیں۔
جواب نمبر 4
اگر اس قول کی کوئی سند بھی ہوتی اور یہ قول واقعی امام مالک رحمہ اللہ کا ہوتا تو پھر بھی اس سے امام مالک رحمہ اللہ سیدنا عیسی علیہ السلام کی وفات کے قائل ثابت نہیں ہوسکتے تھے کیونکہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"مات کے معنی لغت میں نام (نیند) بھی ہیں"
(روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 445)
ایک اور جگہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"موت کے معنی نیند اور بیہوشی کے بھی ہیں"
(روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 620)
پس اگر یہ قول واقعی امام مالک رحمہ اللہ کا ہوتا تو اس کا یہی مطلب تھا کہ سیدنا عیسی علیہ السلام کو نیند یا بیہوشی کی حالت میں آسمان پر اٹھایا گیا ۔
جواب نمبر 5
پوری دنیا میں امام مالک رحمہ اللہ کے مقلدین کثیر تعداد میں موجود ہیں اور وہ تمام سیدنا عیسی علیہ السلام کے رفع و نزول کے قائل ہیں۔ اگر امام مالک رحمہ اللہ کا عقیدہ وفات سیدنا عیسی علیہ السلام کا تھا تو ان کے مقلدین کا عقیدہ کیوں رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السلام کا ہے؟؟
فقہ مالکی کی مشہور کتاب "البیان و التحصیل" میں ایک حدیث بیان ہوئ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ عیسی بن مریم علیہ السلام ضرور حج یا عمرہ یا دونوں کے لئے تلبیہ پڑھتے ہوئے فج روحاء کے مقام سے گزریں گے ۔ اس پر امام مالک رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ
"قال مالک اراد فی رائ لیجمعنھما"
(امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میرے خیال میں حضور ﷺکی مراد یہ ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السلام حج اور عمرے کو جمع کریں گے)
لیجئے امام مالک رحمہ اللہ تو سیدنا عیسی علیہ السلام کے نزول کے قائل ثابت ہوگئے اور نزول کے لئے زندہ ہونا لازم و ملزوم ہے۔ پس ثابت ہوا کہ امام مالک رحمہ اللہ بھی سیدنا عیسی علیہ السلام کے رفع و نزول کے قائل ہیں۔
قادیانی بزرگوں کے اقوال کیوں پیش کرتے ہیں؟ جبکہ بزرگوں کے اقوال قادیانیوں کے نزدیک مستقل حجت نہیں کیونکہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"اقوال سلف درحقیقت کوئی مستقل حجت نہیں"
(روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 389)
مرزاقادیانی کے مطابق رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السلام کا مسئلہ 13 صدیوں تک چھپا رہا اور یہ مسئلہ مرزاقادیانی پر ظاہر ہوا۔ جب خود مرزاقادیانی نے یہ بات تسلیم کی ہے تو پھر قادیانی بزرگان امت پر یہ الزام کیوں لگاتے ہیں کہ وہ سیدنا عیسی علیہ السلام کی وفات کے قائل تھے؟؟
جیسا کہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"یااخوان ھذہ الأمر الذی اخفاہ الله من أعین القرون الاولی ، وجلی تفاصیله فی وقتنا ھذا یخفی مایشاء و یبدئ"
(اے بھائیو یہ معاملہ(یعنی عیسی علیہ السلام کی موت کا راز) وہ ہے جو اللہ نے پہلے زمانوں کی آنکھوں سے چھپائے رکھا ۔ اور اس کی تفاصیل اب ظاہر ہوئی ہیں،وہ جو چاہتا ہے اسے مخفی رکھتا ہے اور جو چاہتا ہے اسے ظاہر کرتا ہے)
(روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 426)
ایک اور جگہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"ولکن ما فھم المسلمون حقیقتہ۔ لان اللہ تعالٰی اراد اخفاءہ۔ فغلب قضاءہ ومکرہ وابتلاءہ علی الافھام فصرف وجوھھم عن الحقیقتہ الروحانیہ الی الخیالات الجسمانیہ فکانو بھا من القانعین و بقی ھذا الخبر مکتوبا مستورا کالحب فی السنبلتہ قرنا بعد قرن حتی جاء زماننا"
( لیکن مسلمان اس کی حقیقت( یعنی عیسی علیہ السلام کی وفات کی حقیقت)کو نہیں سمجھے۔ کیونکہ اللہ تعالٰی نے ارادہ کیا تھا کہ اس کو مخفی رکھے۔ پس اللہ کی قضاء، اس کی تقدیر اور اس کی آزمائش لوگوں کے فہم پر غالب آگیئں۔ اس لئے لوگ اس کی روحانی حقیقت سے ہٹ کر اس کے جسمانی خیالات کی طرف سوچنے لگے۔ اور اسی پر وہ قناعت کر گئے۔ یہ خبر(یعنی عیسی علیہ السلام کی وفات کی خبر) کئی صدیوں تک یونہی چھپی رہی۔ جس طرح کہ دانہ خوشے میں چھپا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارا زمانہ آگیا)
(روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 552،553)
پھر آگے مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"فکشف اللہ الحقیقة علینا لتکون النار بردا و سلاما"
(پس اللہ نے ہم پر حقیقت(یعنی عیسی علیہ السلام کی وفات کی حقیقت) کھولی ۔ تاکہ آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجائے)
(روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 553)
مرزاقادیانی سے پہلے 1300 سال کے مسلمانوں کا عقیدہ یعنی حضور ﷺ کے دور سے لے کر مرزاقادیانی تک کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ سیدنا عیسی علیہ السلام کے جسمانی رفع و نزول کا تھا۔
جیسا کہ خود مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"ایک دفعہ ہم دلی گئے۔ ہم نے وہاں کے لوگوں کوکہا کہ تم نے 1300 برس سے یہ نسخہ استعمال کیا ہے کہ آنخضرت ﷺ کو مدفون اور حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر زندہ بٹھایا۔۔۔۔ اب دوسرا نسخہ ہم بتاتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو فوت شدہ مان لو"
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 579)
اسی بات کی تائید قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ مرزاقادیانی کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود نے بھی کی ہے ۔
مرزا بشیر الدین محمود نے لکھا ہے کہ
"پچھلی صدیوں میں قریبا سب دنیا کے مسلمانوں میں مسیح علیہ السلام کے زندہ ہونے پر ایمان رکھا جاتا تھا ۔ اور بڑے بڑے بزرگ اسی عقیدہ پر فوت ہوئے۔ اور نہیں کہ سکتے کہ وہ مشرک فوت ہوئے۔ گو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مشرکانہ عقیدہ ہے۔ حتی کہ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی ) باوجود مسیح موعود کا خطاب پانے کے دس سال تک یہی خیال کرتے رہے کہ مسیح آسمان پر زندہ ہے"
(انوار العلوم جلد 2 صفحہ 463)
مرزاقادیانی اور اس کے بیٹے کے حوالے آپ نے ملاحظہ فرمالئے کہ مرزاقادیانی کے آنے سے پہلے حضورﷺ کے دور سے لے کر مرزاقادیانی تک تمام مسلمانوں جن میں صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین، تمام مجددین، فقھاء، مفسرین اور اولیاء اللہ شامل ہیں ان کا یہی عقیدہ تھا کہ سیدنا عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالٰی نے آسمان پر اٹھا لیا تھا اور وہ قرب قیامت نازل ہوں گے ۔
قادیانی امام مالک رحمہ اللہ سے منسوب ایک عبارت پیش کرتے ہیں جس میں ذکر ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے یوں فرمایا ۔
"وفی العتبیتہ قال مالک مات عیسی"
(عتبیہ میں ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ عیسی علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں)
(مجمع البحار و شرح اکمال اکمال المعلم )
قادیانی اس عبارت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ بھی سیدنا عیسی علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں۔
قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں ۔
جواب نمبر 1
قادیانی جن کتابوں کا حوالہ پیش کرتے ہیں یعنی مجمع البحار اور اکمال اکمال المعلم میں یہ بات لکھی ہے۔ تو دراصل اکمال اکمال المعلم اور مجمع البحار کے مصنف نے یہ بات ایک اور کتاب "عتبیتہ" سے نقل کی ہے۔ جیسا کہ عبارت میں بھی یہ بات لکھی ہے۔
اور "عتبیتہ " امام مالک رحمہ اللہ کی کتاب نہیں ہے بلکہ اس کتاب کے مصنف کا نام "محمد عتبی قرطبی"ہے۔ جن کی وفات 255 ھجری میں ہوئی۔
اس کے علاوہ امام مالک رحمہ اللہ سے منسوب اس قول کی کوئی سند نہیں بلکہ یہ بھی معلوم نہیں کہ مالک سے مراد امام مالک ہیں یا کوئی اور مالک ہے۔ پس جب کسی قول کی کوئی سند بھی موجود نہ ہو اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ جس کی طرف قول منسوب کیا جارہا ہے۔ اس سے وہی شخص مراد ہے یا کوئی اور مراد ہے تو اس طرح امام مالک رحمہ اللہ پر وفات سیدنا عیسی علیہ السلام کا قائل ہونے کا الزام لگانا سراسر بددیانتی ہے۔
جواب نمبر 2
قادیانی امام أبی رحمہ اللہ کی کتاب "اکمال اکمال المعلم" کا جو حوالہ پیش کرتے ہیں ۔ اس کی پوری عبارت پیش نہیں کرتے بلکہ صرف ایک جملہ نقل کردیتے ہیں۔
آیئے پوری عبارت دیکھتے ہیں تاکہ قادیانیوں کا دجل پوری طرح ظاہر ہوجائے۔
کتاب کے مصنف نے اس جگہ باب باندھا ہے۔
"باب نزول عیسی بن مریم علیہ السلام"
(سیدنا عیسی علیہ السلام کے نازل ہونے کے بارے میں باب)
آگے پوری عبارت یہ ہے ۔
"الاکثر انہ لم یمت بل رفع ، وفی العتبیتہ قال مالک مات عیسی ابن ثلاث و ثلاثین سنتہ (ابن رشد) یعنی بموتہ خروجہ من عالم الأرض الی عالم السماء قال و یحتمل انہ مات حقیقتہ و یحیا فی آخرالزمان اذا لا بد من نزولہ لتواتر الأحاديث بذلک"
(اکثریت کا یہ عقیدہ ہے کہ ان (سیدنا عیسی علیہ السلام ) پر موت نہیں آئی بلکہ ان کو اٹھالیاگیا۔ "عتبیہ" میں ہے کہ مالک نے کہا کہ 33 سال کی عمر میں عیسی علیہ السلام فوت ہوگئے۔ امام ابن رشد نے کہا ہے کہ یہاں موت سے مراد ان (سیدنا عیسی علیہ السلام) کا زمین سے نکل کر آسمان پر جانا ہے۔ یا اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ حقیقت میں فوت ہوگئے ہوں ۔ لیکن آخری زمانہ میں دوبارہ زندہ ہوں گے۔ کیونکہ متواتر احادیث بتاتی ہیں کہ انہوں نے ضرور نازل ہونا ہے)
(اکمال اکمال المعلم جلد 1 صفحہ 265)
یہاں اس عبارت میں امام مالک رحمہ اللہ سے منسوب قول کی وضاحت پوری طرح موجود ہے۔کہ اس قول سے مراد یہ ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السلام زمین سے آسمان پر چلے گئے ۔ اور دوسری بات کہ بالفرض اگر اس قول سے مراد حقیقی موت بھی لیا جائے تو پھر بھی سیدنا عیسی علیہ السلام قرب قیامت زندہ ہوکر زمین پر ضرور تشریف لائیں گے کیونکہ اس بارے میں متواتر احادیث موجود ہیں۔
لیجئے پوری عبارت سے قادیانی دجل کی عمارت پوری طرح زمین بوس ہوگئی ۔
جواب نمبر 3
اسی کتاب "اکمال اکمال المعلم " میں امام مالک رحمہ اللہ کا ایک قول یہ بھی نقل کیا گیا ہے ۔
"وفی العتبیتہ قال مالک بینما الناس قیام یستصفون لاقامتہ الصلوۃ فتغشاھم غمامتہ فإذا عیسی قد نزل"
(عتبیہ میں ہے کہ مالک نے کہا کہ اس دوران لوگ نماز کے لئے صفیں بنارہے ہوں گے کہ یکایک ان پر ایک بدلی چھاجائے گی۔ اور اچانک عیسی علیہ السلام نازل ہوجایئں گے )
اس قول میں امام مالک رحمہ اللہ کا عقیدہ سیدنا عیسی علیہ السلام کے نزول کے بارے میں کتنا واضح ہے۔ اور نزول کے لئے حیات لازم و ملزوم ہے۔ یعنی اگر سیدنا عیسی علیہ السلام زندہ نہیں ہوں گے تو نازل کیسے ہوں گے ۔ پس پتہ چلا کہ امام مالک رحمہ اللہ بھی سیدنا عیسی علیہ السلام کے رفع و نزول کے قائل ہیں۔
جواب نمبر 4
اگر اس قول کی کوئی سند بھی ہوتی اور یہ قول واقعی امام مالک رحمہ اللہ کا ہوتا تو پھر بھی اس سے امام مالک رحمہ اللہ سیدنا عیسی علیہ السلام کی وفات کے قائل ثابت نہیں ہوسکتے تھے کیونکہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"مات کے معنی لغت میں نام (نیند) بھی ہیں"
(روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 445)
ایک اور جگہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"موت کے معنی نیند اور بیہوشی کے بھی ہیں"
(روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 620)
پس اگر یہ قول واقعی امام مالک رحمہ اللہ کا ہوتا تو اس کا یہی مطلب تھا کہ سیدنا عیسی علیہ السلام کو نیند یا بیہوشی کی حالت میں آسمان پر اٹھایا گیا ۔
جواب نمبر 5
پوری دنیا میں امام مالک رحمہ اللہ کے مقلدین کثیر تعداد میں موجود ہیں اور وہ تمام سیدنا عیسی علیہ السلام کے رفع و نزول کے قائل ہیں۔ اگر امام مالک رحمہ اللہ کا عقیدہ وفات سیدنا عیسی علیہ السلام کا تھا تو ان کے مقلدین کا عقیدہ کیوں رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السلام کا ہے؟؟
فقہ مالکی کی مشہور کتاب "البیان و التحصیل" میں ایک حدیث بیان ہوئ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ عیسی بن مریم علیہ السلام ضرور حج یا عمرہ یا دونوں کے لئے تلبیہ پڑھتے ہوئے فج روحاء کے مقام سے گزریں گے ۔ اس پر امام مالک رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ
"قال مالک اراد فی رائ لیجمعنھما"
(امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میرے خیال میں حضور ﷺکی مراد یہ ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السلام حج اور عمرے کو جمع کریں گے)
لیجئے امام مالک رحمہ اللہ تو سیدنا عیسی علیہ السلام کے نزول کے قائل ثابت ہوگئے اور نزول کے لئے زندہ ہونا لازم و ملزوم ہے۔ پس ثابت ہوا کہ امام مالک رحمہ اللہ بھی سیدنا عیسی علیہ السلام کے رفع و نزول کے قائل ہیں۔