امکان کی بحث
اکثر اوقات مرزائی امکان نبوت کی بحث چھیڑ دیتے ہیں۔ یہاں امکان کی بحث نہیں ہے۔ وقوع کی بحث ہے اگر وہ امکان کی بحث چھیڑیں تو تریاق القلوب کی درج ذیل عبارت پیش کریں۔
’’ مثلاً ایک شخص جو قوم کا چوہڑا یعنی بھنگی ہے اور ایک گائوں کے شریف مسلمانوں کی تیس چالیس سال سے یہ خدمت کرتا ہے کہ دو وقت ان کے گھروں کی گندی نالیوں کو صاف کرنے آتا ہے۔ اور ان کے پاخانوں کی نجاست اٹھاتا ہے اور ایک دو دفعہ چوری میں پکڑا گیا ور چند دفعہ زنا میں بھی گرفتار ہوکر اس کی رسوائی ہوچکی ہے اور چند سال جیل خانہ میں قید بھی رہ چکا ہے اور چند دفعہ ایسے برے کاموں پر گائوں کے نمبرداروں نے اس کو جوتے بھی مارے ہیں اور اس کی ماں اور دادیاں اورنانیاں ہمیشہ سے ایسے ہی نجس کام میں مشغول رہی ہیں اور سب مردار کھاتے ہیں اور گوہ اٹھاتے ہیں۔ اب خدا تعالیٰ کی قدرت پر خیال کرکے ممکن تو ہے کہ وہ اپنے کاموں سے تائب ہوکر مسلمان ہوجائے اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کا ایسا فضل اس پر ہو کہ وہ رسول اور نبی بھی بن جائے اور اسی گائوں کے شریف لوگوں کی طرف دعوت کا پیغام لے کر آوے اور کہے کہ جو شخص تم میں سے میری اطاعت نہیں کرے گا خدا اسے جہنم میں ڈالے گا۔ لیکن باوجود اس امکان کے جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کبھی ایسا نہیں ہوا۔‘‘(تریاق القلوب ص ۱۳۳‘ روحانی خزائن ص ۲۸۰ ج ۱۵)
جب یہ عبارت پڑھیں تو ساری پڑھ دیں کیونکہ عموماً تھوڑی سی عبارت پڑھنے کے بعد قادیانی کہتے ہیں کہ آگے پڑھو اور مجمع پربرا اثر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں پر یہ واقعہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ جب حضرت ابو سفیان ؓ زمانہ جاہلیت میں تجارتی سفر پر روم گئے تھے اور قیصر روم نے انہیں اپنے دربار میں بلاکر سوال پوچھے تھے جن میں سے ایک سوال حضور ﷺ کے خاندان کے بارے میں تھا۔ جس کا انہوں نے جواب دیا تھا کہ وہ ایک بلند مرتبہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔اور قیصر روم کا اس پر تبصرہ یہ تھا کہ انبیاء عالی نسب قوموں سے ہی مبعوث کیے جاتے ہیں۔‘‘(صحیح بخاری ص ۴ ج ۱)
نبی عالی نسب ہوتا ہے۔ یہ ایسا امر ہے جس پر کافروں کو بھی اتفاق تھا۔ مگر غلام احمد قادیانی ایسا بدتر ین کافر تھا کہ وہ اپنے جیسے ہر ذلیل وکمینہ وبدکار کے لئے نبوت کی گنجائش پیدا کررہا ہے۔ دراصل وہ اپنے ذلیل خاندان کے لئے منصب نبوت کی گنجائش نکالنے کے چکر میں ہے۔