اسدعلی(سابقہ قادیانی)
رکن ختم نبوت فورم
- اور میں مر گیا ،
- اور میں مر گیا،
میرا بچپن نادانیوں اور بے پرواہیوں میں گزر گیا، جب ہوش سمبھالا تو پتہ چلا کہ پیدایئش ایسے گھرانے میں ہوئی جو کہ دین کے نام سے بھی واقف نا تھے۔
بچپن بڑوں کی طرح عیاشی اور بے پرواہی میں گزر گیا ۔ جیسے جیسے بڑا ہوتا گیا۔ اپنے بڑوں کی طرح دنیا کو چلانے کے اصولوں کو جانتا گیا، لیکن افسوس کہ دین کے متعلق کچھ نہ سمجھ سکا۔ آخر کار زندگی کا ایک ایسا بھی موڑ آیا کہ میں اپنے پاوں پر کھڑا ہو گیا ، میرے گھر کی ایک صورت بن گئی۔میرے ہاں اولاد ہوئی ،۔ جیسے خود دین سے دور تھا، اسی طرح اولاد کو بھی دین سے دور رکھا ، اعلی سے اعلی تعلیم دلوائی کہ بڑے ہو کر کسی اچھی نوکری مل سکے ، مگر اسلام جو کہ ہر انسان کے ہدایت کا راستہ ہے اپنی اولادکو اس سے نہ واقف رکھا۔وہ ایک اچھے افسر تو بن گئے پر ان کو ایک اچھا مسلمان نہ بنا سکا۔ افسوس ہے مجھ پر۔ اسی طرح ایک اچھا اعلی شان بنگلہ بنایا تھا جس کے مین گیٹ پر بڑے الفاظ میں لکھا تھا کہ (ھذا من فضل ربی) ، اس کو دیکھ کر دل میں سے اکثر خیال آتا کہ شیطان میرے بارے میں کیا سوچتا ہوگا۔ کہ دولت اکھٹی کرنے کے سارے طریقے میں نے سکھاے ہیں اور جب اتنا اعلی شان گھر بنا لیا تو اتنے بے وفا نکلے کہ دورازے پر یہ عبارت لکھوا دی، دل میں یہ خیال آیا کہ دنیا کمانا ہی رب کا فضل نہیں اگر ایسا ہے تو فرعون اور قارون پر کیا تھا، ؟ نہیں رب کا فضل اس پر ہی ہے جس کو اللہ دین کی سمجھ دے دے، خیر رات کو زیادہ تر شراب ، کباب اور شباب کی محفلیں ہوتیں ، ہمارے اکثر دوستوں کا مشغلہ ہوتا کہ محلہ کے شریف لوگوں کو گالی گلوچ، اور طنز کا نشانہ بنانا ، اس کے علاوہ اپنی اولاد کو دین سے کیا واقف کرتا بلکہ ان کو جدید فیشن سے آراستہ کیا، گھر میں مختلف ایکڑز کی تصویریں لگی تھی، اولاد میرئ طرح بے حیاتھی، سارے بچوں کو مختلف فلمی ایکڑوں کے ڈائلاگ حفظ تھے، اگر گھر میں کوئی مہمان آتا تو میں بڑے فخر سے اپنی چھوٹی بیٹی کو کہتا کہ بیٹا ذرا انکل اور آنٹی کو ڈانس تو کر کے دکھاو ، وہ بھی بڑے فخر سے ڈانس کر کے داد موصول کرتئ، اسی طرح گھر میں کسی بچے کو دین کی طرف نہ لایا بلکہ ہر رات اپنے ہاتھوں سے فلمیں لا کر ایک عدد روز فلم دیکھتے ، گھر میں دولت کی ریل پیل تھی، پیسے گھر میں آتے لیکن کوئی فکر نا ہوتی کہ پیسہ حلال طریقے سے آرہا ہے ، یا حرام طریقے سے، چغل خوری، جھوٹ، سفارش، رشوت ہمارہ ایک اہم مشغلہ تھا، جو اکثر ہم کرتے،۔ میری پرچی پورے شہر میں مانی جاتی،۔ بڑے بڑے جلسوں میں مجھے بطور برکت شرکت کی دعوت دی جاتی ، اتنی خرابیاں ہونے کے بعد بھی مجھے محلہ میں اکثر حاجی صاحب کے لقب سے پکارا جاتا ، محلہ کی مسجد میں میرا جانا بھی صرف عید کے دن ہوتا ، اگر کسی نیک نمازی آدمی سے سامنا ہو جاتا تو ایسے مصالحہ لگا کر سوال کرتا کہ وہ بچارہ چپ ہو جاتا ، اگر مجھ سے نماز کے بارے میں سوال کرتا تو میرا جواب ہوتا کہ یہ تو فارغ لوگوں کا کام ہے ۔ اگر کوئی داڑھی ہے متعلق سوال کرتا تو میرا جواب ہوتا کہ آخری وقت ہوتا ہے داڑہی رکھنے کا ، ابھی میرے گھٹنے کام کرتے ہیں ، جب کام کرنا چھوڑ دیں گے تب تسبح اور مصلہ ہی تو رہ جاے گا، اسی طرح روزے کے بارے میں پوچھا جاتا تو میرا یہ جواب ہوتا کہ روزے تو وہ رکھیں جن کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں ہے ، اسی طرح حج زکواۃ کے بارے میں تو سننا بھی پسند نہیں کرتا تھا، اور میں کہہ دیتا کہ ہم تو ویسے بھی بخشی بخشائی روحیں ہیں۔ اس طرح کی اور بھی کئی بکواسات کراتا ، مجھے بھول ہی گیا تھا ایک دن مر کر مجھے خدا کے سامنے جواب دہ ہونا ہے ، کہ اس کی نعمتوں کو کہاں صرف کیاہے،۔ یوں ہی میرے دن گزر رہے تھے ۔ زندگی بڑی عیش کے ساتھ وقت کے پانی میں بہہ رہی تھی ، دکھ نام کی کوئئ چیز نہیں تھی، زندگی چلتے چلتے ایک دن رات بیوی کے ساتھ بیڈ پر لیٹے لیٹے اچانک مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرے جسم کے اعصاب کام کرنا چھوڑ گئے، ایک گلاس پانی کے لیے پورے جسم کو قوت کو صرف کرنا پڑا ، اگلے ہی لمحے میں ہسپتال تھا اور ڈاکٹروں کی ایک پوری ٹیم میرے گرد تھی، میرے کانوں میں ایک خفیف سی آواز پڑی کہ حاجی صاحب کو دل کا شدید دورہ پڑہ کہ ہے دعا کیجے گا، یہ بات سن کر میرے دل پر جو بیتی وہ میں ہی جانتا تھا، تب مجھے سمجھ آئی کہ میں کس قسم کی بکواسات کیا کرتا تھا، ہسپتال میں بیڈ پر لیٹے لیٹے جب میری آنکھ کھلی تو میں نے چھت کی طرف دیکھا ، چھت پر میری پوری زندگی کی ایک گھناونی فلم چل رہی تھی، کتنی عجیب فلم تھی ، کہ جو میں گناہ لوگوں سے چھپ کر کیا کرتا تھا کہ لوگ نہ دیکھ لیں وہ یہاں پر بڑی واضح طور سے نظر آ رہی تھی۔میرے چھوٹے سے چھوٹے گناہ کو یہاں پر تفصیل سے دکھایا جا رہا تھا۔ میں زندگی میں گناہ کرتے وقت دروازے بند کر لیتا کہ کوئی دیکھ نہ لے پر میں بھول گیا تھا کہ ایک ذات وہ بھی ہے جو میرے دل کے تمام حالات سے واقف ہے اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے، میں گناہ چاہے سرعام کروں یا چھپ کر وہ میرے ہر کام سے واقف ہے، میں کتنا بد نصیب تھا،۔ کہ گناہ پر گناہ کرتا چلا گیا پر وہ میرا رب کتنا قادر تھا کہ مجھے موقع دیتا گیا کہ میں اب توبہ کر لوں، پر میں ہی غفلت میں رہا۔، آخر کار ہسپتال والوں نے جواب دے دیا اور مجھے گھر لایا گیا، چند دن یوں ہی کوما میں گزر گئے ، پھر ایک دن میرے کانوں میں اٰیک گرجدار آواز پڑی کہ نکل اے روح اس خبیث جسم سے، نکل آج تیرے لیے زرقوم اور کھولتے ہوئے پانی کی بری خبر ہے اور ایک بہت ہی برا ٹھکانہ جسے جہنم کہتے ہیں اس میں تو ہمیشہ رہے گا، یہ آواز سن کر جیسے میں سر پر پہاڑ گرا ہو ، جیسےمیرے کونوں کے پردے پھٹ گئے ہوں۔، اس کا حکم ہونے کی دیر تھی کہ میرے جسم پر جیسے آری چلائی جانے لگئ، میرے ارد گرد مدرسہ کے بچوں کہ ایک جماعت کلمہ شریف کا ورد کر رہی تھی ، بڑی حیرت کی بات تھی جب میں کوئی گانا وغیرہ سنتا تو بے ساختہ ساتھ ساتھ میری زبان پر بھی ساتھ ساتھ جاری ہو جاتا، لیکن اب ہزار کوشش کے باوجود بھی کلمہ شریف کو میں نہیں پڑھ پا رہا تھا، ایک عورت کی خفیف سی آواز آئی کہ آنکھیں تاڑے لگ گئی ہیں، یہ سننا تھا کہ مجھے احساس ہوا کہ میں کس قدر بکواس کیا کرتا تھا، اس کے بعد ملک الموت نے میری روح کو نکالنا شروع کیا، میری چاروں طرف عذاب کے فرشتے آگئے، آگ کے گولے اور گرز لے کر، آگئے ، ملک الموت نے میری روح نکالنی شروع کی تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے جسم کو ڈرل مشن سے سوراخ کیا جا رہا ہو، جیسے زندہ بکرے کی کھال اتاری جا رہی ہو، جیسے زندہ چڑیا کو سیخ پر بھونا جا رہا ہو، جیسے میرا سر ٹرین کی پٹری پر رکھ کر کچل دیا گیا ہو، الغرض مجھے انتہائی تکلیف دہ انداز سے مارا گیا، میری روح نکالتے وقت فرشتے میرے منہ اور پیٹھ پر مارتے،رہے۔ میرے ہر مسام سے روح کو بڑی تکلیف دہ انداز سے نکالا گیا، میرا پورا جسم کانپ رہا تھا،ہر رگ درد کر رہی تھی،پورے جسم میں درد کی ٹھیسں اٹھ گئی تھی، دل بہت ڈرا ہوا تھا، ہر طرف خوفناک شکلوں والے فرشتے تھے، اے دنیا والو ! اگر تم میرئ چیخیں سن لیتے تو تم مجھے چھوڑ کر اپنی اپنی فکر میں لگ جاتے، میری روح نکالتے وقت میں نے بہت منتیں کی فرشتوں کی کہ مجھے چھوڑ دو جتنی چاہے دولت لے لو۔ اتنا سننا تھا کہ ملک الموت نے میرے منہ پر طماچہ مارا ۔ مجھے یوں لگا کہ جیسے میں زمیں کی ساتوں تہہ میں چلا گیا ہوں ، ملک الموت بولے کہ خبیث !سن لے اللہ تعالی دولت نہیں بلکہ عمال دیکھتا ہے، میرے گھر والے میرے ارد گرد تھے پر کوئی بھی میری مدد کوتیار نہ تھا، آخر کارمیرے جسم سے روح نکلنا شروع ہوگئی، پہلے میرے پاوں ٹھنڈے ہوے پھر ٹانگوں کے ساتھ سینہ بھی ٹھنڈا ہوگیا اور میں مر گیا
میرے مرتے ہی گھر میں گہرام مچ گیا، ہر طرف آہ و پکار پڑ گئی ، میرے بچے میری چار پائی کے گرد لپٹے ہوئے تھے اور میرے مردہ ہاتھ پاوں کا بوسہ لے رہے تھے،میری بیوی میرے مرنے کے غم سے بار بار بے ہوش ہو رہی تھی، کوئی پکار رہا تھا کہ لایٹ کا انتظام کرو کوئی کہتا پھر رہا تھا کہ نہلانے والے کو بلاو،میری روح میرے جسم کے پاس کھڑی یہ سب منظر دیکھ رہئ تھی ، محلہ کی مسجد میں میرے بارے میں بڑے بڑے لفظوں میں اعلان ہو رہا تھا، میرے جسم پر ریشمی ڈیزانگ والی چادر ڈالی دی گئی تب ہی میری تربیت کردہ اولاد میں سے ایک لڑکا میری میت کی وڈیو بنانے کے لیے مووی میکر کو لے آیا لوگ بھی اس قدر عجیب تھے کہ پینترے بدل بدل کر سامنے آتے اور اپنی مووی بنواتے ، اس ماحول کو دیکھ کرمجھے سمجھ آیا کہ مجھ پر یہ ریشمی چادر کیوں ڈالی گئی ہے، میری میت کے گرد عورتیں بین کر رہی تھئ کچھ نے اپنے بال نوچنے شروع کر دیا ، بلا آخر معاملہ عصر تک جا پہنچا ، میں کھڑا جو یہ سب منظر دیکھ رہا تھا پکار اٹھا کہ کمبختو! مجھے چھوڑو میں تو اپنے حال کو پہنچ چکا ہوں ، تم لوگ اپنی اپنی فکر کرو، اگر تم کو پتہ چل جائے کہ میرے ساتھ کیا بیتی ہے تو تم اپنی اپنی فکروں میں لگ جاتے، پر افسوس کہ کسی نے میری بات پر دھیان نہ دیا اور اپنی اپنی مصروفیت میں لگے رہے، بلا آخر محلہ کے مولوی صاحب آئے اور میرئ میت کو تختہ پر لٹا دیا اور نہلانے لگے، ادھر مجھے فرشتے دوزخی پانی کے ساتھ نہلا رہے تھے، نہلانے کے بعد مجھے کفن پہنایا گیا ، اور میرے آخری گھر یعنی قبر کی طرف لے جانے کی تیاری کر رہے تھے، پھر ایک آواز گونجی کی جلدی کرو دیر ہو رہی ہے، اس آواز کا سننا تھا کہ میرے گھر میں گہرام مچھ گیا ، بڑی مشکل سے میری میت کو باہر نکالا گیا ، میری میت کے پیچھے لوگوں کا ایک ہجوم تھا ،مجھے دور تک قدموں کی چاپیں سنائی دے رہی تھی،پھر میری میت کو جنازگاہ میں لے جا کر رکھا گیا، کچھ لوگ پہلے ہی سے وہاں پر موجود تھے اور آپس میں سیاسی اور کاروباری گپیں ہانک رہے تھے، مولوی صاحب کے کہنے پرمیرے بڑے لڑکے نے رسمیہ طور پر خفیف سی آواز میں پوچھا کہ میرے باپ کے ذمہ کسئ کا قرض ہے تو وہ مجھے سے جنازہ کے بعد رابطہ کرسکتا ہے، آخر کار میرے جنازے کے لیے امام صاحب نے تکبیر کہی، میرے خیال میں لاکھوں کے مجمع میں صرف چند لوگ ہی ہوں گے جن کو نماز جنازہ آتا ہو گا، باقی سب اس معاملہ میں میرے بھائی نظر آتے تھے، اور کچھ تو سامنےلگی دیوار کو گھور رہے تھے جیسے کچھ پڑھنے کی کوشش کر رہے ہوں، کتنی اتفاق کی بات ہے کہ کہ اکثر جب میں کسی کے جنازہ میں شامل ہوتا تومیں بھی ان کے ساتھ ایسا ہی کرتا تھا ، آج میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا تھا، بالکل قدرت کا اصول ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے، قصہ المختصر مولوی صاحب نے میرے جنازہ پڑھانے کے لیے تکبیر کہی ۔ اور جنازہ پڑھ کر جب فارغ ہوگئے تو ان لوگوں کی جان میں جان آئی ، مجھے جنازگاہ سے قبرستان لے کر جایا گیا، وہاں پر پہلے سے کھودی گئی ایک گور ارض میری منتظر تھی، مجھے میری قبر کے قریب لا کر رکھا گیا ، میں سب کو چیخ چیخ کر کہتا رہا کہ مجھے اس میں دفن نہ کیا جاے، میری قبر سے اس قدر بو آ رہی ہے ۔ دنیا میں میرے پاس اتنی جدید خوشبوئیں تھیں کہ ایک مرتبہ لگا کر کسی گلی سے گزر جاتا تو دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے، لیکن آج یہاں پر تو معاملہ ہی اور تھا، مجھے دفن کرنے کے بعد میرے تمام بیٹے رشتہ دار ، اور دیگر احباب چلے گئے، میں بلبلا کر التجائیں کرتا رہا کہ مجھے چھوڑ کر نا جاو میں یہاں تنہا ہوں اور مجھے ڈر بھی لگ رہا ہے ،لیکن کسی ایک نے میری نہ سنی، سب ایک ایک کرکے واپس چلے گئے، مجھے تنہا چھوڑکر، ابھی میں اس سارے روپزیر ہونے والے واقعہ کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا، کہ اچانک میری قبر کو چیرتے ہوئے دو فرشتے آن پہنچے اور میرےجسم میں روح ڈال کر مجھے اٹھا دیا، میں انکی شکل دیکھ کر انتہائی ڈرا ہوا تھا، ان کی بڑی بڑی غصے سے بھرپور سرخ آنکھیں، انے بڑے بڑے بال، انکی کی بڑہتی ہوئی جسامت مجھ پر دہشت ڈھا رہی تھی،اچانک انھوں نے مجھے لرزا دینے والی آواز میں سوال کیا کہ (من ربک)؟ حیرت ہے کہ میں عربی زبان سے نا واقف تھا پر مجھے انکی زبان سمجھ رہا تھا وہ رب کے بارے میں سوال کررہے تھے، انکے سوال کرنے پر میں جواب کیادیتا الٹا سوچنے لگ پڑا اور میری زبان سے جاری ہوگیا، کہ(ھا ھا لاادری) میں نہیں جانتا، یہ جواب سننا تھا کہ مجھ کو انھوں نے ایک بہت سخت جھٹک دی، میرا ایک ایک بال لرز گیا ، پھر انھوں نے مجھے دوبارہ سوال کیا (ما دینک) کہ تیرا دین کیا ہے، زندگی میں کبھی دین کے بارے میں سننا بھی پسند نہ تھا، اکثر کوئی دیندار آدمی مل جاتا تو ایسے مصالے دار سوال کرتا کہ وہ بچارہ پسائی پر مجبور ہو جاتا، آج دین کے بارے میں سوال کیا جا رہا تھا، تو بجائے جواب دینے کے میں نے پاگلوں کی طرح ہنسنا شروع کر دیا اور جواب نفی میں تھا،(ھاھاھا لا ادری) ۔ یہ سننا تھا کہ انھوں نے مجھے زوردار تھپڑ مارا تو مجھے اپنا جسم کھولتا ہوا محسوس ہوا، اس کے بعد ایک نہائیت حسین و جمیل حسن والے صاحب جن کے چہرہ مبارک پر غضب اور نورانیت کے جلوے نمایاں تھے، ان کا ایک لمحہ دیدار کروانے کے بعد مجھ سے سوال کیا گیا، کہ(ماکنت، تقولوفی حق ھذاالرجل) کہ تم دنیامیں اس مرد کامل کی ذات اقداس کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے، میں یاد کرنے کی کوشش کرتا رہا پر مجھے یاد نہ آیا کہ ان کے بارے میں کیا جواب دوں۔ کیونکہ دنیا میں تو ہمیشہ کلین شیو ہی رہا ہوں لین یہ تو داڑھی والے صاحب تھے، میں تو ہمیشہ ننگے سر گھوما کر تا تھا، یہ تو امامہ والے شخصیت تھے، میں نے زندگی میں مختلف ایکڑوں کے بارے میں سنا تھا پر یہ کون ہیں ، کبھی مولوی صاحب سے سنا ہوتا تو کچھ کہتا، پر افسوس میری زبان پر پھر وہ ہی جواب جاری ہوگیا، کہ (ھاھاھا لا ادری لا ادری) ، کہ میں نہہیں جانتا کہ یہ کون ہیں ، ،،، میرا یہ جواب سننا تھا کہ آسمان سے ایک آواز آئی کہ ہمیں معلوم تھا کہ تو یہ ہی جواب دے گا، اس کے لیے آگ کا بچھونا بچھا دو،اور جہنم کے عذابوں کی وعید سنا دو انھوں نے مجھے سختی کے ساتھ پکڑ کر میرے دائیں طرف والی کھڑکی کھولی تو ایک ہوا کا جھونکا آیا ،جو میری روح میں سرائیت کر گیا میرے جسم کو بہت سرور آیا تمام تکلیفیں ایک لمحہ کے لیے بھول گئیں ، کھڑکی کی دوسرے جانب ایک انتہائی پر کشش اور تمام سہولیات سے آراستہ باغ جنت تھا، لیکن جلدی سے وہ کھڑکی بند کر دی گئی اور کہا گیا کہ اگر تو نے نیک عمل کیا ہوتا تو تیرے لیے یہ جگہ تھی جو سلامتی کا مرکز ہے۔ پھر میرے بائیں طرف والی کھڑکی کھولی گئی تو ایک انتہائی گرم اور روح کو جھلسانے والا ہوا کا جھونکا آیا، وہ ہوا کا جھونکا میری ہر رگ و ہڈی میں اتر گیا مجھے انتہائی اذیت ہوئی، میری نظر اٹھی تو دیکھا کہ اس کھڑکی کے دوسری طرف آگ کے شعلے لپک پلک کر ایک دوسرے کو کھائے جا رہے تھے، ہر طرف چیخ و پکار کا عالم تھا، مجھے یوں لگ رہا تھا کی جیسے میرا دماغ مچل مچل کر میرے منہ سے باہر آ جائے گا،ہر طرف بدبو ، کھولتے پانی کی سنسناہٹ اور دل ہلا دینے والے مناظر تھے، پھر مجھے کہا گیا کہ تو نے برے اعمال کر کے اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لیا ہے اب قیامت تک تجھ کو عذاب کی وعید ہو، پھر مجھ پر ایک اندھا ، اور بہرا فرشتہ مسلط کر دیا گیا، جو کہ مجھے لوہے کے گزروں سے مارتا کہ میں زمیں کی ساتوں تہہ میں چلا گیا ، پھر مجھے واپس لایا جاتا ، پھر دوبارہ مجھے یہ ہی اذیت دی جاتی، اے دنیا والو میں یہاں پر کتنی اذیت میں ہوں اگر تم دیکھ لو تو تم اپنے مردے دفنانا چھوڑ دو،آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ کوئی میری بے پرواہ اولاد تک یہ پیغام پہنچا دے کہ تم تو اپنے باپ کو دفنا کر آگئے ہو پر کبھی آ کر دیکھو! تمھارا باپ کس قدر اذیت کی موت مر رہا ہے، یہاں پر مجھے ہرروز موت جیسے تکلیف دی جاتی ہے، مجھے نہلاتے وقت تو تم نے میرا سب کچھ اتار لیا تھا اب ایک باپ سمجھ کر نا سہی ایک مظلوم سمجھ کر میری قبر پر آجاو اور محسوس کرو کہ جس باپ نے تم کو اتنے ناز و پیار سے پالا ہے اس کا کیا حال ہے، اپنی ماں اور بہن کو سمجھاو کہ میرے مرنے کے بعد چمکیلے بھڑکیلے کپٹرے پہن کر کس کو دکھاتی ہیں ، کیوں کرتے ہو ایسا ، تم دنیا میں ایسا کرتے ہو ، عذاب مجھ کو قبر میں ہوتا ہے، خدارا میرے لرزتےہاتھوں کو دیکھو اور اپنے پر رحم کھاو ، میرے بعد روزانہ گھر میں نئی گاڑی ، نئی کار، لوگ تمہارے منہ پر تو کچھ نہیں کہتے پر تمہارے بعد باتیں کرتے ہیں کہ باپ کے مرنے پر جشن منایا جا رہا ہے،اور میں نے سرفراز علی کو قرض واپس کرنا تھا، تم وہ ہی واپس کر دو تاکہ کچھ تو میرے سر پر سے بوجھ ختم ہوجائے، آخر میں مجھے صرف یہ بات ستائی جا رہی ہے کہ کل قیامت کے دن جب اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گا تو کیا منہ لے کر جاوں گا، جب سارے نبی خصوصا نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و بارک و سلم) ہونگے، تو کس منہ سے سامنا ہوگا، اب تو ایک ہی امید کی کرن نظر آتی ہے کہ اگر میری داستان پڑھ کر کوئی بھولا ہوا مسلمان اپنی اصل راہ پر آ جاے تو مجھے قوی امید ہے کہ خدا میرے گناہ معاف فرما دے گا، اجازت چاہتا ہوں ، خدا سب کا حامی و ناصر ہو اؤر خدا آپکی اور میری شفاعت بحضور نبی اکرم قبول فرمائے،
خدا حافظ،
مدیر کی آخری تدوین
: