• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

بہائیت کا علمی محاسبہ

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
بہائیت کا علمی محاسبہ


بہائی حضرات نبی برحق ہونے کی دوسری سب سے بڑی دلیل یہ دیتے ہیں کہ وہ جو کتاب لاتا ہے وہ پچھلے دین کی ناسخ ہوتی ہے اور اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا نیز وہ کتاب غلطیوں سے پا ک ہوتی ہے اور اس کا علمی معیار اتنا بلند ہوتا ہے کہ نبی کے ساتھ بھیجے جانے کی ضر ورت ہو تی ہے ۔ چنانچہ عبد البہاء فرزند بہاء اللہ اپنے پدر بزرگوار کی شان میں فرماتے ہیں ۔ ” فصاحت وبلاغت“ ۔۔۔۔ در زبان عرب والواح عربی العبارة غیر معقول فصحاء و بلغای عرب بود وکل مقر و معتر فند کہ مثل و مانندی ندارد “ یعنی ان کے بیان میں اور الواح میں عربی کی فصاحت و بلاغت عرب کی فصہاء وبلغاء سے کہیں زیادہ اعلی تھی ۔ اور تمام لوگ اس بات کے معتقد تھے کہ اس کی کوئی مثال نہیں ہے ۔


اس مضمون کا مقصد کچھ اشارے کرنا ہے بہا ء اللہ کے کلا م کے بارے میں تاکہ ہمارے مخلص علماء دین اس کو اور ان جیسی لا تعداد غلطیوں کو وقتاً فوقتاً ہو ا دے سکیں ۔ بہائی حضرات بھی اس بات کے قائل ہو جائیں کہ یہ کتابیں اس خدائے قادر مطلق کی بھیجی ہوئی تو بہر حال نہیں ہوسکتی جس نے قرآن جیسی فصیح وبلیغ کتاب بھیجی تھی ۔ اور پھر قرآن کے اس چیلنج کو بہائی حضرات کے لئے دہرانہ ہے جو چودہ سو سال پہلے کیا گیا تھا اور رہتی دنیا تک باقی رہے گا خداوند عالم کا ارشا دہے ” قل لئن اجتمعت الانس و الجن علی ان یاتو ا بمثل ہذا القرآن لا یاتون بمثلہ ولو کان بعضہم لبعض ظھیرا ً

سورہ بنی اسرائیل آیت ۸۸


ترجمہ :۔ ( اے رسول ) تم فرماوٴ اگر آدمی اور جن سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کے مانند لے آئیں تو اس کا مثل نہ لا سکیں گے اگر چہ ان میں ایک دوسرے کا مددگار ہو ۔ سورہ اسراء آیت ۸۸


ترجمہ ۔۔ اے کاش کہ شوغی آفندی صاحب زندہ ہوتے تو میں ان سے انکی کتاب میں درج ان اقوال کی تشریح تو ضر ور پوچھتا جو مندرجہ ذیل میں مع حوالے بیان کررہا ہوں ۔ اور انکی غیر موجودگی مترجم کتاب میں جناب پروفیسر سید ارتضی حسین عابدی فاضل نوگانوی ( اگر وہ زندہ ہو ں ) یا پوری دنیا میں پھیلے ہوئے اس مذہب کے شیدائیوں سے اس مضمون میں درج کی گئی غلطیوں کو پڑھنے کے بعد ذرا مجھے اپنی کتابوں کے جملو ں کی تشریح کردیں ملاحظہ فرمائیے ان کی جزائیں جس نے مجھے یہ مضمون لکھنے پر مجبور کیا ۔


قرن بدیع ناشر موسسہ مطبوعات ملی بہائیان پاکستان صفحہ ۴۶ پر رقمطراز ہیں۔ سورہ و العصر کی تفسیر کا ذکر کرتے ہوئے ۔۔۔۔” حضرت باب نے اس حرف کی تفسیر میں اس قدر آیات زبردست تیزی اور سرعت سے بیان فرمائیں کہ وہ تعداد میں ایک تہائی قرآن مجید کے برابر ہیں ۔ “ (نعوذبا للہ من ذالک -سطر ۱۸۔ ۶


کہاں گئیں وہ آیات کیو ں نہیں لاتے عوام کے سامنے ۔ ہم کو اس شکار کا بڑی شدت سے انتظار ہے۔ کیونکہ جب غذا کا مزہ منھ لگ جاتا ہے تو پھر شدت بھی بڑھ جاتی ہے ۔


قرن بدیع ناشر موسہ مطبوعات ملی بہائیان پاکستان صفحہ ۵۵ پر نقل کرتے ہیں ۔ کہ باب نے نظام العلماء کے ایک جواب میں فرمایا”۔۔۔۔دو دن اور دو رات میں قرآن کے برابر آیات نازل کرسکتا ہوں۔ آپ پر عربی قواعد نحو ی کے متعلق ایک اعتراض کیا گیا تو اس کے جواب میں اسی طرح کی چند آیات قرآن مجید سے تلاوت فرمائیں“ سطر ۱۲۔۱۰


کہاں ہیں وہ آیات جو قرآن کے برابر نازل کرنے والے تھے۔ اسکے علاوہ کہاں ہیں وہ آیات جنکی انہوں نے غلطیاں بتائیں تھیں۔آیات نہیں ایک آیت میں بھی ایسی غلطی بتادیں جیسی ہم مندرجہ ذیل میں درج کرنے جارہے ہیں تو پوری امت مسلمہ آپکی زندگی بھر غلامی کرے گی۔ یہ سب جمع خرچ یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ کیا کیجئے۔ اور اگر اوپر بتائی گئی تدبیر میں ناکام رہے تو پھر نیچے بیان کئے گئے اعترضات کا جواب لاکر بہائیت کو بچانے کی کوشش کریں۔


سب سے پہلے آیقان ”کی ابتدائی سطروں پرنظر کریں۔ بسم ربنا العلی الاعلی الباب المذکور کو فی بیان۔۔۔یاھل الارض لعل تعلن۔“ ملاحظہ فرمائیے الباب المذکورفی بیان کے ذریعے بہاء اللّہ صاحب کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ” وہ باب جس میں ذکر ہوگا بیان اس امر کا ہے کہ “ جودراصل عربی میں یوں ہونا چاہیے تھا۔” باب یذکر فیہ بیان“ بہائی حضرات صرف یہ بتا دیں کہ الباب المذکور عربی کے کس قواعدکے پیش نظر صحیح ہے۔ آیا یہ صفت و موصوف ہے۔ یا مضاف مضاف الیہ یا جملہ فعلیہ ہے یا جملہ اسمیہ اور صیغہ مضارع یہاں بھول گئے تو آگے چلکر اس کا ازالہ فوراً کر دیا ۔ لعل جو حروف مشبہ با لفعل ہے اسکو فعل مضارع پر نافذ کردیا تصلن بیچارے کو اتنی خبر نہ تھی کہ حروف مشبہ با لفعل سبتداو خبر پر نافذ ہوتے ہیں اور اسی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ غالباً یہی وہ وجہ ہے کہ بہائی حضرات ایقان دوسری تمام زبانوں میں ترجمہ کراکے بانٹتے پھررہے ہیں۔


ایقان صفحہ ۲۲ پر ملاحظہ فرمائیے ۔ ” وعلی ا للّہ اتکل وبہ استعین لعل یجری۔۔۔۔۔یسمعن اطوار و رقات الفردوس۔۔۔۔“‘ بہاء ا للّہ صاحب نے پھر فعل مضارع پر حروف مشبہ بالفعل نافذ کر کے یہ بتا دیا۔کہ پہلے وہ قلم پہسلنے کی وجہ سے نہیں ہوا تھا بلکہ بہائی حضرات جس واحد زبان کی جدوجہد کر رہے ہیں یہ اسکی ادناسی کوشش ہے۔ خیر یہ تو گرامر کی بات تھی آگے چلکر اسی صفحیہر اطوار ورقات الفردوس کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔میں”ورقات“کے لفظ کو عربی لغت مہیں ڈونڈتا رہ گیا۔ہو عربی لفظ تب تو ملے۔ پتہ نہیں ایقان کے مترجم کو یہ لفظ کہاں سے مل گیااسنے اس کا ترجمہ”بلبل“کر دیا۔


ایقان صفحہ ۳۶”علیک من اسرار الحکمتہ لتطلع بما ھوا المقصود و تکون من الذین ھم شرا بو من۔۔۔۔“اس عبرت مہیں ”لتطلع بما “عربی قوائد کے حساب سے سراسر غلط ہے کیونکہ ”اطللع “کا تعد یہ”علی“کے ساتھ ہوتا ہے”ب“کے ساتھ نہیں اور اسکے بعد ”من الذین “ کے ساتھ ”ہم “ لگانابھی سراسر غلط ہے وہ صرف من الذین شرابو ہو نا چاہیئے تھا


جس بیچارے کو اتنا نہ معلوم ہو کہ ” علی “ کی جہ ” ب“ لگادے ۔ اور ہم کا بے موقعہ استعمال کر دے وہ اپنے کلام کو الہی کلام کیونکہ قرار دے سکتا ہے ۔

شاید یہ ہو کہ جب مخالفین کھڑے ہوں مخالفت کے لئے غلام احمد قادیانی کی طرح یہ کہکر چھٹکار ا پایا جائے کہ یہ لوگ میرے دشمن نہیں خدا کے دشمن ہیں ۔

ایقان صفحہ ۷۲ پر فصاحب و بلاغت کا ایک لاجواب نمونہ پیش کیا ہے ” اسلامک فی نہج البیفہاء و الرکن الحمراء ۔۔۔۔۔


پتہ نہیں نہج اور رکن کو کس عربی داں نے مونث قرار دیا کہ ان کا استعمال بیضاء اور حمراء جو مونث ہیں صحیح قرار پایا ۔


شاید یہ باب کے اس جملے کی تفسیر ہو کہ جو کچھ تم کو قرآن میں نہ ملے اسے بیان ڈھونڈواور ” بیان “ اور ”ایقان “ میں ایک ہی حرف تو زیادہ ہے اسی لئے ایقان بیان سے ایک ہاتھ زیادہ ہے ۔ یا پھر یہ فارسی اور عربی میں اتحاد کی ایک غیر معمولی کوشش ہوگی۔


ایقان صفحہ ۸ میں ہے ۔۔۔ کذالک تغن علیک ۔۔ لعل تکونن ۔۔۔ “ تغن نہ کا لفظ جیسا کہ قاموس میں موجود ہے طائر کے لئے استعمال کرنا غلط ہے ۔


اور پھر تکونن جو فعل ہے اس پر حروف مشبہ بالفعل نافذ کرنا یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ کسی نئی شریعت میں دو ہم جنسوں کی شادی جائز قرار دی جائے تو اس سے ایڈس جیسے مہلک مرض تو وجود میں آجائینگے گے لیکن فصاحت و بلاغت کا نغمہ رکھا رہ جائیگا ۔


ایقان صفحہ ۹۸میں فارسی عبارت ہے جو بہائیوں کے خدا کی مادری زبان بھی۔ وہا ں بھی انہوں نے ایک عربی لفظ ڈال دیا ۔۔” احادیث واخبار مدّلہ براین مطلب بسیار است “ لفظ مدلہ جو دلالت کے معنی میں استعمال ہوا ہے بالکل غلط ہے ” دالہ ‘’ ہونا چاہیئے تھا ۔ شاید چونکہ ” م“ سے ہی ” محبت “ بنتا ہے ۔ اسکا اضافہ کر دیا اور ” ا“ چونکہ ڈنڈے کی مانندہو تا اس لئے اسے گرادیا ۔ اور قومی امکان اس بات کا ہے کہ یہ نئی ایجاد ہونے والی زبان کا ایک لفظ ہو ۔


ایقان صفحہ ۱۳ پر ہے ”۔۔۔ لعلکم بمواقع العلم تصلون ۔۔۔ “ یہ تصلون “ متعدی نہیں ہے جس کے معنی ایک شے کو دوسری شی سے ملانے کے ہوں ۔ جیسا کہ ترجمہ سے بھی ظاہر ہے ۔ اس صورت میں اس کا تعدیہ ” ب“ کے ساتھ بالکل غلط ہے بلکہ یہ ” الی مواقع العلم “ ہونا چاہئیے تھا ۔


جس نبی کو نہ حروف مشبہہ بالفعل کا استعمال معلوم ہو اور نہ ہی حرف جر کا او رنہ ہی فعل لازم اور متعدی میں فرق معلو م یہ تو بالکل وہ قول بہاء اللہ یا د آگیا کہ میں خدا بھی ہوں اور مظہر خدا بھی ۔ اور دونوں بھی نہیں ۔ ہنسی اس وقت آتی ہے جب ایسے لوگ نہ صرف نبی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں بلکہ شریعت محمدی کے ناسخ بھی ہیں۔ اور فصاحت و بلاغت کا چیلنج بھی کرتے ہیں۔


کتاب ایقان پر ایک طائرانہ نظر کرنے کے بعد آئیے اب بہاء ا للّہ صاحب کی نازل کردہ وحی اور الواح کے منتخب مجموعہ پر ایک نظر کریں کہ ان میں انہوں نے کیسے کیسے گہر ریزے اور جواہر پارے بکھیر کر رکھدےئے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وحی اور الواح کا سلسلہ شروع کیا جائے قارئین کو یہ بات ذہن نشین کرادوں کہ یہ صرف ایک خاکہ ہے جو آپ کے سامنے پیش کیا جارہا ہے ورنہ ایسی غلطیوں سے کیا کتاب بیان کیا ایقان واقدس اور کیا الواح سب بھری پڑی ہیں۔


سب سے پہلے اس کتاب کا تعارف جس لوح کو قرار دیا گیا ہے اسی کے پہلے جملے پر نظر کریں۔ فرماتے ہیں۔ ” کلام ا للّہ ولوانحصر بکلمہ لاتعادلھا کتب العالمین “ ترجمہ۔ جو انہیں لوگوں کا شائع کردہ ہے ملاحطہ فرمائیے” کلام الٰہی کو ایک ہی کلمہ ہو تمام جہانوں کی کتابیں اس کی برابری نہیں کر سکتیں۔“

اس چھوٹے سے جملے میں جہاں تین غلطیاں عربی قوانین کے حساب سے ہیں وہاں ایک بات اور یاد آگئی اور وہ یہ کہ سنت الٰہی ہے کہ کسی نبی پر جب اپنی وحی نازل کرنا شروع کرتا ہے تو ایک زبان میں نازل کرتا ہے۔ مثلاً حضرت عیسیٰ پر عبرانی زمان میں۔حضرت محمد مصطفٰی صلی اللّہ علیہ وسلم پر عربی زبان میں گو کہ وہ سارے جہانوں کے لئے نبی تھے۔ لیکن بہاء ا للّہ کی کتاب ایقان فارسی میں اقدس عربی میں اور اب آپ آگے ملاحظہ فرمائیے گا۔ یہ الواح عربی اور فارسی دونوں میں اور غالباً اس وجہ سے وہ حروف جر اور اضافہ عربی میں خود تذبذب کے عالم میں رہ جاتے تھے۔ مثلاً بکلمہٴ فارسی میں تو صحیح ہے لیکن عربی میں ”فی کلمة“ ہونا چاہئے تھا۔ تو اسے ”بکلمة“ کردیا اور ایک بار پھر حروف جر کے استعمال سے نا واقفیت کو ثابت کردیا اسکے علاوہ” تعادلھا“ کی ضمیر ھا جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے ” کلام“ کی طرف ہے۔


اور عربی میں کلام مذکر تسنیم کیا گیا ہے نہ کہ مونث اسکے لئے بہاء اللّہ صاحب نے مونث کی ضمیر لگا دی اور وحدانیت جنس کا بہترین ثبوت دیا ہے۔ ویسے کلام میں ” مساوات مرد و زن “ کی نئی تدبیر ظاہر کرنے کی ضرورت اسلئے نہیں تھی کہ فارسی میں تو ویسے ہی مذکر و مونث میں فرق نہیں رکھا جاتا۔

اس چھوٹے سے کلام میں دو نحوی غلطی کے بعد اب تیسری غلطی جسکا تعلق فن بیان سے ہے اس بات کا پورا پورا ثبوت ہے کہ ایک جملے میں جو تعارف کتاب ہے تین تین غلطیوں کا ملنا کلام الٰہی ہی نہیں کلام بشر بھی نہیں ہو سکتا یہ تو کلام سلطنت اسراےئل ہے”کلام“زبان سے بھی ادا کیا جاتا ہے اور لکھکر بھی اور کتاب صرف وہ کلام ہے جو تحریر میں آجائے۔زبان سے کہی ہوئی بات کتاب نہیں کہی جا تی۔ بہاء اللّہ صاحب کہہ رہے ہیں دنیا کی کتابیں کلام الہی کی برابری نہیں کر سکتیں یعنی دنیا والے کوئی کتاب کتاب الٰہی کے برابر لکھکر پیش نہیں کر سکتے۔لیکن تقریر۔گفتگو۔بات چیت۔مباحثہ میں اس سے بہتر پیش کر سکتے ہیں۔


سبحان اللّہ اگر ایسے جملے وحی الہی ہونے لگے جنکی فصاحت وبلاغت پر ناز کیا جائے تو بہاء اللّہ صاحب کو خانم البنین سے پہلے جاھل عرب میں آنا چاھیے تھا۔ نعوذ با للّہنمبر انہیں کا تھا۔لیکن انہوں نے سو چا کہ عرب کی سر زمین بھی خوشگوار نہیں اور لوگ بھی کالے ہوتے ہیں۔اور اسرائیل کو بھی اسوقت کسی ایجنٹ کی ضرورت نہ تھی اسلئے انہوں نے(نعوذ باللّہ) محمد عربی کو آگے کر دیا کہ جاوء میری باری تم لے جاوء کیونکہ بہر حال حسن وخلق کے مالک تھے۔


آئیے مناجات پر بھی ایک سرسری نظر کریں۔فرماتے ہیں”۔۔۔وانقطعتھم عمادونگ لسلطنتک واجلا یک اشھد بان امرک نافذ وحلمک جاری و مشیتک ثابستتہ ومااردت ھو باقی ملاحظہ فرمائیے اس چھوٹے سے جملے میں کتنی قسم کی غلطیاں ملتی ہیں پہلی غلطی انقطعتھم یہ باب انفعال کا صیفہ ہے جو باب لازم ہے انقطاع کا مطلب کاٹنا نہیں بلکہ کٹ جانا ہے”انقطعت“کے معنی ہوئے ”تو کٹ گیا“ بہاء اللّہ نے اسے ”تونے کاٹ دیا“ کے معنی میں استعمال کر دیا یعنی فاعل ومفعول میں فرق ہی نہیں معلوم اسی لئے غیر بیانی تاریخوں میں یہ بھی ملتا ہے کہ بہاء اللّہ صاحب مفعول بننا بھی پسندکرتے تھے۔دوسری غلطی ”لسلطنتک“سلطنت

عربی لفظ نہیں ہے یہ ایران والوں کا تصرف ہے ۔ اور بہاء ا للّہ نے اس کے ذریعے اپنے ماننے والوں کو ارشاد کیا ہے کہ نئی زبان کی ایجاد میں اس خوبصورتی سے الفاظ چھین کر لانا۔


تیسری غلطی ہم اجلال جن معنوں میں استعمال ہوا ہے اس غلطی کو درگذر کرتے ہوئے فصاحت و بلاغت کا تقاضہ تو یہ تھا کہ (” اجلاک“) معطوف اور معطوف الیہ دونوں ایک ہی نوعیت کے ہونے چاہئے تھے۔ یعنی اجلال اور سلطنت دونوں یا تو مصدر ہوتے ہیں یا دونوں مشق یا امع


یہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر قسم کا جملہ ” تعادلھا کتب العامین“ پر بڑا گہرا ضرب دیتا ہےاور پڑھنے والے کیلئے بالکل وہ کیفیت طاری ہو جاتی ہے جس طرح ایک ایرانی کے منہ میں تیز ہری مرچی کھانے کے دوران آجائے۔ تو نہ صرف یہ کہ وہ کھانا چھوڑ دے گا بلکہ آگ بگولہ ہو جائے گا اور اگر کہیں غلطی سے کھانا پکانے والا سامنے آگیا تو پھر ۔۔۔۔۔چوتھی غلطی اشھد کے بعد بان ”ب“ کے اضافے سے جملہ مہمل ہوگیا جدیت و جہالت ثابت ہوگئی کہتے ہیں نقل کے لئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے اور عقل۔۔۔ پانچویں غلطی ” حلمک جاری“ سراسر غلط ہے معمولی صرف میر پڑھنے والا بھی حلمک جار لکھے گا نہ کہ جاری بہرحال ”جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ۔ “


چھٹی غلطی ”مشیتک ثابتتہ“ حضور مثیت الٰہی نافذ ہوتی ہے۔ وہ جو چاہتا ہے پورا ہو کرہی رہتا ہے۔ اسکی مثیت ہر شئے پر غالب ہے ورنہ اگر مثیت موجود ہونے کا ذکر ہے وہ تو اسکی مخلوق کیلئے ہے۔ہاں یہ اسی وقت ممکن ہے جب کوئی مخلوق خالق کا دعویٰ کر بیٹھے۔ بہاء اللّہ کیطرح ان الفاظ میں ”اننی انا للہ لاالہ الا انارب کل سنی وان مادونی خلقی ان یا خلقی ایای فاعبدون “ (تجلیات تجلی ۴ صفحہ۵) ساتویں غلطی وباقی”یہ بالکل ویسی ہی غلطی ہے جیسے جاری تھی۔یہ دراصل”باق“ہونا چاہےئے تھا ملا حظہ فرمایا اپنے اس چھوٹے سے جملے میں شروع سے لیکر آخر تک سات غلطیاں اور پھر وہ دعوا کہ فصاحت وبلاغت بہاء اللّہ بے مثل وبے نظیر است بالکل ویسا ہی ہے جیسے کوئی رات کہے کہ سورج نوک نیزہ پر ہے۔ تو بیچارے اندھے تو قبول کر سکتے ہیں۔ یا پھر وہ جنکے لئے قرآن علی الاعلان کہہ رہا ہے۔ ختم ا للّہ علی قلو بھم وعلی سمعھم و علی ابصارھم لیکن جن کے دل کی آنکھیں محمد عربی صلعم کے لائے ہوئے دین کی ایمان کی روشنی سے منور ہونگی وہ تو بہر حال اسے قبول نہیں کر سکتا مسلمان اس نبی کے ماننے والے ہیں جس کو کافروں اور منافقوں نے اپنے پیسوں کی جھنکار کے علاوہ اور دوسری مال دنیا کے ذریعے حق کی تبلیغ سے باز رکھنے کی کوشش کی لیکن اس نبی نے نہ صرف انکار کیا بلکہ کہا اگر تم میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند لاکر رکھدو تو بھی میں اس سے باز نہ آوٴں گا۔ طرح طرح کی اذیتیں اٹھائیں ۔ سماجی پاپندیوں کا سامنا کیا، کوڑے و کر کٹ سے کپڑے خراب ہونے کی پرواہ نہ کی۔ چھوٹے چھوٹے بچوں سے پتھر کھائے ۔ لیکن کبھی ہاتھوں کو بلند کر کے بد دعا نہ کیا۔ اور ایسی صورت میں بھی اوپر بیان کی گئی جیسی غلطی نہ کی اور آج انہیں کے صدقے میں ہم مسلمان جنت کے وارث بنے بیٹھے ہیں۔ اور ہماری ضمیر کی یہ آواز ہمیں اس ادنیٰ سے کوشش پر گامزن کررہی ہے کہ ہم دشمنان نبی کریم کا جس طرف سے جس طریقے سے حملہ ہوا اس کا منہ توڑ جواب دیں علمائے کرام مدرسوں میں پڑھی ہوئی عربی کا کیا اس سے اچھا بھی کوئی استعمال ہے کہ ہم نبی کریم کے دشمنوں کی اس للکار پر جو وہ چلا چلا کر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ا للّہ اور باب نے شریعت محمدی کو منسوخ کردیا۔ اور قرآن جیسی کتاب وہ ۴۸ گھنٹوں میں لکھدیں ہم انکی کتابوں پر حملہ کریں اور انہیں منہ توڑ جواب دیں۔ یاد رکھیے قبریں ہر ایک کی الگ الگ بنتی ہیں۔ اور جتنی صلاحیت خدا وند قدوس نے جس جس کو عنایت کی ہیں اسکا سوال و جواب وہ ضرور لے گا۔
 
Top