بہائی تعلیمات ۔ایک فریب
آج بہائی حضرات لوگوں کو ہم خیال و ہم مذہب بنانے کیلئے جو آلہٴ کار استعمال کرتے ہیں وہ بارہ اُصولوں میں سے سات ایسے اُصول ہیں جن کا کم و بیش ایک ہی مقصد ہے۔ یعنی سات اُصول کا مطلب گھوم پھر کر ایک ہی نکلتا ہے بلکہ ایک ہی لفظ نکلتا ہے اور وہ ہے ”اتحاد“چنانچہ قرن بدیع مصنفہ ولی عزیز امر اللہ شوقی آفندی ربّانی کے اردو مترجم پروفیسر سیّد ارتضیٰ حسین عابدی فاضل نو گا نوی نشر موسسد مطبوعات ملی بہائیان ، پاکستان ۱۹۴۴ء نے صفحہ ۱۹ پر لکھا ہے ۔ سطر نمبر ۱۱۔ ۱۰ ”موجودہ دنیا کے بہترین دماغوں کی امیدوں اور خیالات کا خلاصہ اور جوہر و نتیجہ وہی بارہ اصول قرار پائے ہیں۔ جو حضرت عبدالبہاء نے نہایت سادہ الفاظ میں بیان فرمادےئے تھے۔۔۔۔“ قارئین ملاحظہ فرمائیں ان چھوٹی سی دوسطروں میں کتنی دقیق باتوں کی طرف اشارہ ہے۔
”موجودہ دنیا کی بہترین دماغوں۔۔۔۔“ جملہ خود یہ بتا رہا ہے کہ اس تنظیم اور ان اصولوں کے پیچھے دنیا کے بہترین دماغ کام کر رہے ہیں۔ اور وہ اسرائیل ،امریکہ اور روس جیسی انسان دشمن اور خصوصاً اسلام دشمن لوگوں کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے ۔ جس کی ترجمانی عبدالبہاء نے۵/نومبر ۱۹۱۲ ءء کی تقریر میں کھلے الفاظ میں یوں کی ہے Cincinnati, Ohio, America is a noble nation, a standard bearer of peace (Narrated from the book "throughout the world ------ of "The Promised Day is come " by shoghi Effendi page 5 before preface.
ترجمہ: امریکہ ایک باشرف ملک ہے۔ اس دنیا میں امن وامان کا علم بردار ہے۔
یہ بارہ اصول جناب عبدالبہاء نے بنائے ہیں نہ کہ بہاء اللہ نے یعنی بہاء اللہ اور ان سے پہلے مرزا یحیٰ نوری اور مرزا علی محمد باب سب اس مقصد کے تحت نہیں آئے تھے۔ اور چونکہ ان لوگوں نے اتحاد کے خلاف کام کیا اسلئے عبدالبہاء نے اتحاد کا نعرہ بلند کرنا شروع کیا۔ لیکن سب سے بڑا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عبدالبہاء خود نبی تھے۔ ملاحظہ فرماےئے باپ بیٹے کے کلام میں اختلاف جناب عبدالبہاء صاحب بدائع الاثار جلد دوم صفحہ ۵۸۔۵۷ مطبوعہ کریمی پریس ، بمبئی۱۳۴۰ ئھ مطابق ۱۹۲۱ ءء ”حضرت عبدالبہاء پیغمبر مشرق۔۔۔۔۔۔“ ”یعنی عبدالبہاء اہلِ مشرق کے لئے پیغمبر تھے“ جب کہ بہاء اللہ صاحب نے فرمایا تھا کہ آئندہ ایک ہزار سال تک کوئی پیغمبر نہیں آئے گا یا اگر آئے بھی تو وہ جھوٹا ہوگا‘’(کتاب الاقدس: صفحہ/۱۱)
وہ سات اصول ملاحظہ فرمائیے۔ (۱) سیاسی دنیا میں اتحاد۔(۲) دنیاوی معاملات کے متعلق خیالات میں اتحاد۔ (۳) آزادی میں اتحاد (۴) دینی اتحاد (۵) قومی اتحاد (۶) نسلی اتحاد (۷) زبان کااتحاد ۔
دل یہ چاہتا ہے کہ جناب عبدالبہاء صاحب یا شوقی آفندی صاحب ہوتے تو ان سے باز پرس کر کے مندرجہ ذیل سوالات کے جواب حاصل کر لیتا اور ان لوگوں کی غیر موجودگی میں یہ ذمہ داری مترجم عالی مقام جناب پروفیسر ارتضیٰ حسین صاحب عابدی فاضل نوگانوی پر عائد ہوتی ہے اور اگر وہ بھی زندہ نہ ہوں تو پھر یونیورس ہاوٴس آف جسٹس ہی یہ کام انجام دیں کہ وہ ان سوالوں کے جوابات پہلے تو مذہب ِ بہائیت کے ہمنواوٴں کو تعلیم دیں اور پھر ہم لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔
”آزادی میں اتحاد“ کا کیا مطلب ہو تاہے۔ آیا آزادی کے لئے متحد ہونا ہے یا آزادی کے بعد متحد ہونا ہے اگر آزادی کے لئے متحد ہونا ہے تو آزادی ملتی ہی ہے۔ متحد ہونے پر متحد ہونے کے بعد کونسی نئی بات بتائی ان بہترین دماغ والوں نے اور آزادی کے بعد متحد ہونا کیا مطلب رکھتا ہے۔
اُس کے علاوہ ”دینی اتحاد“ سے کیا مطلب ہے ؟ کیا اس سے یہ مطلب ہے کہ تمام لوگ ایک دین کے ماننے والے ہوجائیں تو یہ بہترین دماغ والوں کی کم علمی ہے۔ حدیث شریف میں ایک جگہ یہ آیا ہے کہ حضرت موسیٰ علی نبینا نے ایک بار اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے درخواست کی کہ اے خدا تمام لوگوں کو میرا ماننے والا اور ہم خیال بنادے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا موسیٰ یہ چیز تو میں نے خود اپنے لئے نہیں کی۔ اس حدیث شریف کو مدِّنظر رکھتے ہوئے یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ تمام بنی نوع انسان مل کر دینی اتحاد نہ قائم کر پائیں گے۔ اب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بہائیوں کے خدا بہاء اللہ نے جب یہ دیکھا کہ مسلمانوں کے خدا نے اس نعرے سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے تو اب میں کرنے کی کوشش کروں۔ لیکن صد افسوس کہ کامیابی کے آثار ۱۸۹۲ ء یعنی معموریت عبدالبہاء سے لیکر آج تک ۲۰۰۶ءء ۱۱۴ سال میں ایک فی صد بھی نہیں دیکھائی دیتا بلکہ نفی ایک فی صد ضرور دکھائی دیتا ہے اور وہ بہائیت میں خود پھوٹ پڑنا۔ ایک Third Generation Bahaiاور دوسری Oxthodox Bahai۔
دینی اتحاد کے بعد ” قومی اتحاد“ اور ”نسلی اتحاد“ کا مفہوم سمجھنے سے ہماری عقلیں حیران ہیں۔ خصوصاً ”نسلی اتحاد“ ہاں اسکا مفہوم صرف اُسی وقت سمجھ میں آسکتا ہے جب بدشت کے میدان پر ایک طائرانہ نظر کریں اور بہائیت کی معصوم ترین عورت کی زبان مبارک سے یہ جملے گوشہٴمبارک تک پہنچیں کہ ”باپ کو حق ہے کہ وہ کسی کی بیوی کسی کو دے۔“ اور جب باپوں کا انکشاف نہ ہو پائے گا تب ہی نسل کا پتہ نہ لگ پائے گا ورنہ حلال زادہ ہوگا تو نسل میں انفرادیت ہوگی، اتحاد نہ ہوگا۔
”زبان کا اتحاد“ بہائی حضرات اتنے عظیم عرصے میں کم از کم اُس زبان کی حروف تہجی سے ہی آگاہ کردیں۔جب مسلمان نبی کریم کی بتائی ہوئی احادیث کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے حضرت مہدیپر عقیدہ رکھتے ہیں اور انکے ظہور کا انتظار کرتے ہیں تو مذاق اڑاتے ہو اور بیچارے بہائی ڈیڑھ سو سال سے نیٴ زبان کے حروف تہجی کا انتظار کر رہے ہیں نہ جانے کب وجود میں آتی ہے۔
”سیاست میں اتحاد“ کیا مضحکہ خیز اصول ہے۔ سیاست میں اگر اتحاد ہوجائے تو پھر سیاست کس کا نام ہے اور اگر سیاسی پارٹی کے مخالفین نہ ہوں تو پھر حکومت من مانی کرنے لگتی ہے اور عوام الناس کا خون چوسنے پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ اب معلوم ہوا بہائیت کا مقصد اور سیاست میں اتحاد کا مطلب۔ اور اگر ہر چیز میں اتحاد ہی اتحاد ہوجائے تو پھر شناخت بھی تو مشکل ہوجائے۔
اچھا آئیے ایک نظر مذہب بہائیت پر بھی کریں کہ اُس میں خو د کتنا اتحاد پایا جاتا ہے۔
۱:- مرزا یحیٰ نوری ملقب صبح بہ ازل اور مرزا حسین علیملقب بہ بہاء اللہ میں آپس میں اتحادپروفیسر براوٴن نے اپنی کتاب ”مٹیریلز فور دی اسٹڈی آف بابی اینڈ بہائی ریلیجن“ میں ۵/ربیع لآخر ۱۲۸۵ ئھ کا ترکی زبان کا فرمانِ حکومتِ عثمانی مع فارسی ترجمہ شائع کیا ہے۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ”مرزا حسین علی اور ازل کے ساتھیوں نے باہمی دشمنی کی اور مرزا آقا جان ، شیخ علی سیاہ، مرزا حسین علی وغیرہ فسادی کاموں میں مصروف ہوئے۔ اس لئے حکم ہوا کہ صبح ازل اور اسکے رفیق جزیرہ قبرس کو اور مرزا حسین علی بہاء ، آقان جان اور بہاء کے د یگر مرید عکا کو جلا وطن کئے جائیں۔“ ملاحظہ فرمایا آپ نے یہ سیاسی اتحاد کا دعویٰ کرنے والے د و بھائی آپس میں ایک وطن میں نہیں رہ سکتے اور حکومت کو دو الگ الگ جگہیں بھیجنا پڑتا ہے اور یہ طریقہ کا ر صرف ترکی حکومت نے ہی نہیں اپنایا بلکہ جہاں جہاں یہ لوگ جاتے ہیں یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ زبان سے حکومت کی حمایت کا نغمہ گائیں گے اور عمل سے حکومت کی خلاف ورزی کریں گے۔
۲- بہائیوں نے سیّد محمد اصفہانی، آقا جان کاشانی، مرزا رضا قلی اور مرزا نصراللہ تفرشی کو محمود خان کج کلاہ کے ساتھ ۲۲/جنوری ۱۸۷۶ ءء کو عکا میں قتل کردیا ۔ جس کی باداش میں جناب بہاء ان کے فرزند جناب عبدالبہاء و مرزا محمد علی چھ ماہ جیل کی قید کاٹ کر رہا ہوئے اور باقی بہا ہیوں کو سات سال اور بعض کو پندرہ سال کی سزا ملی۔“ (نگاشتہ حاجی مفتون یزدی ص ۲۳۲) قارئین ملاحظہ فرمائیں یہ تو بالکل ویسا ہی واقعہ ہوگیا جو بنی اسرائیل میں واقع ہوا تھا جس کا ذکر سورہ بقرہ میں اللہ نے کیا ہے کہ ایک بھائی نے دوسرے بھایٴ کو قتل کیا اور گھر جا کر تلوار میان میں صاف کر کے گھر سے باہر نکلا یہ نعرہ لگاتے ہوئے کہ میرے بھائی کو کس نے قتل کیا مجھے اس کا بدلہ لینا ہے ۔۔۔ بالکل اسی طرح بہائی حضرات دنیا میں قتل و غارت گیری پھیلانے کے بعد اب اتحاد کا نعرہ بلند کرنے چلے اس لئے حدیث شریف میں آیا ہے کہ قرآن ہدایت کا چراغ ہے ہر اندھیرے میں اور گمراہی میں۔
۳- ”بہائیوں نے استاد محمد علی سلما نی اور دو اور ازلیوں کو مار کر ان کی لاشوں کو خان عکا کے مکان کی دیوار کے شگاف میں چھپادیا۔ جب بد بو پھیلی تو بہائیوں نے روپئے دے کر جھوٹی گواہی دلوائی کہ یہ اپنے سے مرے ہیں“
نگاشتہ حاجی مفتون یزدی ص ۲۳۲۔
۴- پروفیسر براوٴن نے فارسی مقدمہ نقطہ ألکاف میں تحریر فرمایا ہے کہ ” حروف حي (وہ لوگ جو مرزا علی باب پر سب سے پہلے ایمان لائے تھے)میں سے آقا سیّد علی عرب تبریزی اور ملا رجب علی کربلا میں ان کے بھائی آقا محمد علی اصفہان ابران اور حاجی مرزا احمد کاشانی برادر مرزا جانی بغداد میں (مصنف نقطةالکاف ) اور حاجی مرزامحمد رضا، حاجی ابراہیم، حاجی جعفر، حسین علی، آقا ابوا لقاسم کاشانی اور مرزا بزرگ کرمانشاہی، مختلف مقامات پر بہائیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے کیونکہ وہ تھے توبابی لیکن بہاء اللہ کی بہاء اللّٰہی کے مخالف تھے۔“
۵- مرزا یحیٰ نوری ملقب بہ صبح ازل اور مرزا حسین علی ملقب بہ بہاء اللہ دونوں بھائی ایک دوسرے کو ظلم و جور کا الزام دیتے رہے۔ ازل کا گذارہ۱۱۹۳ ماہوار پر ہوتا تھا۔ بہاء اللہ نے عثمانی حکومت سے شکایت کر کے بند کر وادیا۔ اور مفلسی کی حالت میں مرزا یحییٰ نوری نے ۲۹/ اپریل ۱۹۱۲ ءء کو وفات پائی۔ اور اس کا جنازہ اٹھانے کو کوئی بہائی یا ازلی موجود نہ تھا۔مٹیر یلز براوٴن ص ۲۴
۶- ازل کا بڑا بیٹا غربت کی وجہ سے قبرس میں ریلوے قلی کا کام کر کے روٹی کماتا رہا۔ ایک لڑکا رضوان علی عیسائی ہوگیا اور اس نے اپنا نام کنٹائین ایرانی رکھا۔ مٹیر یلز براوٴن ص ۳۱۴۔
بہاء اللہ کے آخری ایّام
براوٴن نے اپنی کتاب مٹیر یلز کے صفحہ ۲۰۶ میں یوں نقل کیا ہے کہ ” آخر میں عکا کے باہر دور جگہ قصر بہجہ میں اپنی دوسری بیوی اور بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کے پیرو اور بڑے بیٹے عباس آفندی عکا میں رہتے تھے۔۔۔۔۔انکے مزاج میں ایسی افسردگی اور اداسی تھی۔ جس کا نہ بیان ہو سکتا تھا اور نہ وہ لکھی جاسکتی ہے اور نہ اس سے پہلے ان میں کبھی دیکھی گئی۔ اور وہ اپنے بعض رفقاء کو بار بار کہا کرتے تھے کہ مجھے ایک اندھیرے اورتنگ کمرے میں لے جاوٴ تاکہ میں اپنی غلطیوں پر افسوس کروں اور رووٴں۔“
عباس آفندی ملقب بہعبدالبہاء کا ان کے بھائیوںکے ساتھ برتاوٴ اتحاد کی بہترین مثالبہاء اللہ کی دو بیویاں تھیں پہلی بیوی سے سوا ے ٴ عباس آفندی کے کوئی نہ بچا اور باقی تمام اولادیں دوسری بیوی سے تھیں اور بہاء اللہ کے انتقال کے فوراً بعد بھائیوں میں نفرت کی لہر دوڑ گئی۔ مر زا جواد کے مطابق ” عباس آفندی نے بہائیوں میں نفرت و حقارت پیدا کردی اور جو بھی اُس کے بھائی محمد علی (جسے بہاء اللہ نے غصن اکبر کا خطاب دیا تھا) کو برا نہ کہتا وہ اُسے ناقص ومتزلزل بلکہ کافر کہتا“
مٹیریلز براوٴن ص ۸۱۔۸۰