• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ء اور علمائے دیوبند کی خدمات

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ء
اﷲ رب العزت کے فضل و احسان کے بموجب ۱۹۷۰ء میں جمعیت علمائے اسلام پاکستان کی مثالی جدوجہد سے مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ ،شیر اسلام مولانا غلام غوث ہزارویؒ، شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ، مولانا عبدالحکیمؒ، مولانا صدر الشہیدؒ اور دیگر حضرات قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم برسر اقتدار آئے۔ قادیانیوں نے ۱۹۷۰ء میں پیپلز پارٹی کی دامے درمے اور افرادی مدد کی تھی۔ قادیانیوں نے پھر پرپرزے نکالے۔ ۲۹؍مئی ۱۹۷۴ء کو چناب نگر (ربوہ) ریلوے اسٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء پر قاتلانہ حملہ کیا۔ اس کے نتیجہ میں تحریک چلی۔ اسلامیان پاکستان ایک پلیٹ فارم ’’مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان‘‘ پر جمع ہوئے جس کی قیادت دارالعلوم دیوبند کے مرد جلیل، محدث کبیر مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ نے فرمائی اور قومی اسمبلی میں امت مسلمہ کی نمائندگی کا شرف حق تعالیٰ نے دارالعلوم دیوبند کے عظیم سپوت مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ کو بخشا۔ یوں قادیانی قانونی طور پر اپنے منطقی انجام کو پہنچے اور ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ کہاں قادیانی اقتدار کا خواب اور کہاں چوہڑوں، چماروں میں ان کا شمار۔ اس پوری جدوجہد میں دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتگان کی خدمات اﷲ رب العزت کے فضل و کرم کا اظہار ہے۔ غرض دارالعلوم دیوبند کے سرپرست اول حاجی امداد اﷲ مہاجر مکیؒ کی ’’الف‘‘ سے تحفظ ختم نبوت کی جو تحریک شروع ہوئی۔ وہ شیخ الاسلام مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کی ’’یائ‘‘ پر کامیابی سے سرفراز ہوئی۔
قومی اسمبلی میں قادیانیوں کے متعلق جو کارروائی ہوئی وہ سب قومی ’’تاریخی دستاویز‘‘ کے نام سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے شائع کردی ہے۔ قومی اسمبلی میں دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتگان ہمارے اکابر نے مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت باسعادت میں قادیانیوں کو جس طرح چاروں شانے چت کیا۔ یہ دستاویز اس پر ’’شاہد عدل‘‘ ہے۔ قادیانیوں نے اسمبلی میں ایک محضر نامہ پیش کیا تھا۔ جس کا جواب مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا محمد یوسف بنوریؒ کی نگرانی میں مولانا محمد تقی عثمانی اور مولانا سمیع الحق نے لکھا۔ حوالہ جات مولانا محمد حیاتؒ اور مولانا عبدالرحیم اشعرؒ نے فراہم کئے اور قومی اسمبلی میں اسے مفکر اسلام قائد جمعیت مولانا مفتی محمودؒ نے پڑھا۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جنرل محمد ضیاء الحق برسراقتدار آئے۔ ان کے زمانہ میں پھر قادیانیوں نے پر پرزے نکالے۔ ایک بار ووٹنگ لسٹوں کے حلف نامہ میں تبدیلی کی گئی۔ اس زمانہ میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے سیکریٹری جنرل مولانا محمد شریف جالندھریؒ بھاگم بھاگ جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سیکریٹری جنرل مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ کے پاس راولپنڈی پہنچے۔ حضرت مفتی صاحبؒ ملٹری ہسپتال میں پائوں کے زخم کے علاج کے سلسلہ میں زیر علاج تھے۔ اس حالت میں حضرت مفتی صاحبؒ نے جنرل ضیاء الحق کو فون کیا۔ آپ کی للکار سے اقتدار کا نشہ ہرن ہوا اور وہ غلطی درست کردی گئی۔ وہ غلطی نہ تھی۔ بلکہ حقیقت میں قادیانیوں سے متعلق قانون کو نرم کرنے کی پہلی چال تھی۔ جسے دارالعلوم دیوبند کے ایک فرزند کی للکار حق نے ناکام بنادیا۔
۱۹۸۲ء میں جنرل ضیاء الحق کے زمانہ اقتدار میں پرانے قوانین کی چھانٹی کا عمل شروع ہوا (جو قانون کہ اپنا مقصد حاصل کرچکے ہوںان کو نکال دیا جائے) اس موقع پر ابہام پیدا ہوگیا کہ قادیانیوں سے متعلق ترمیم بھی منسوخ ہوگئی ہے۔ اس پر ملک کے وکلاء کی رائے لی گئی۔ اڑھائی سو وکلاء کے دستخطوں سے مجلس تحفظ ختم نبوت نے روزنامہ جنگ میں اشتہار شائع کرایا۔ مولانا قاری سعیدالرحمن مہتمم جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈ صدر راولپنڈی، مولانا سمیع الحق صاحب مہتمم جامعہ حقانیہ، اکوڑہ خٹک جنرل صاحب کو ملے۔ ان کی کابینہ میں محترم جناب راجہ ظفرالحق وفاقی وزیر تھے۔ ان کے مشورہ سے جنرل صاحب نے ایک آرڈی نینس منظور کیا اور قادیانیوں سے متعلق ترمیم کے بارے میں جو ابہام پایا جاتا تھا۔ وہ دور ہوا اور اسلامیان پاکستان نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس آرڈی نینس کو اس وقت بھی آئینی تحفظ حاصل ہے۔
 
Top