تحریک ختم نبوت ۱۹۸۴ء
جناب بھٹو کے زمانہ میں پاس شدہ آئینی ترمیم پر قانون سازی نہ ہوسکی۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانہ میں قادیانی خواہش تھی کہ کسی طرح یہ ترمیم منسوخ ہوجائے۔ اس کے لئے وہ اندرون خانہ سازشوں میں مصروف تھے۔ قادیانی سازشوں اور اشتعال انگیز کارروائیوں سے مسلمانوں کے رد عمل نے تحریک ختم نبوت ۱۹۸۴ء کی شکل اختیار کی۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ اور مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ اﷲ کو پیارے ہوچکے تھے۔ اب اس نئی آزمائش میں دارالعلوم دیوبند کے زعماء خواجہ خواجگان حضرت مولانا خان محمد صاحبؒ، قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن، مولانا مفتی احمد الرحمنؒ، مولانا محمد اجمل خانؒ، مولانا عبیداﷲ انورؒ، پیر طریقت مولانا عبدالکریم بیرشریفؒ، مولانا محمد مراد ہالیجویؒ، مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ، مولانا محمد شریف جالندھریؒ، مولانا میاں سراج احمد دینپوری، مولانا سید محمد شاہ امروٹیؒ، مولانا عبدالواحدؒ، مولانا منیر الدینؒ کوئٹہ، ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، مولانا حبیب اﷲ مختارشہیدؒ، مولانا محمد لقمان علی پوریؒ، مولانا عزیزالرحمن جالندھری، مولانا ضیاء القاسمیؒ، مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ، مولانا سید امیر حسین گیلانیؒ، ایسے ہزاروں علمائے حق نے تحریک کی قیادت کی اور اس کے نتیجہ میں قادیانیوں کے متعلق پھر قانون سازی کے اس خلاء کو پر کرنے کے لئے امتناع قادیانیت آرڈی نینس منظور ہوا۔
یہ آرڈی نینس اس وقت قانون کا حصہ ہے۔ اس سے یہ فوائد حاصل ہوئے:
۱… قادیانی اپنی جماعت کے چیف گرو یا لاٹ پادری کو امیر المومنین نہیں کہہ سکتے۔
۲… قادیانی اپنی جماعت کے سربراہ کو خلیفۃ االمؤمنین یا خلیفۃ المسلمین نہیں کہہ سکتے۔
۳… مرزا غلام احمد قادیانی کے کسی مرید کو معاذاﷲ ’’صحابی‘‘ نہیں کہہ سکتے۔
۴… مرزا قادیانی کے کسی مرید کے لئے ’’رضی اﷲ عنہ‘‘ نہیں لکھ سکتے۔
۵… مرزا غلام احمد قادیانی کی بیوی کے لئے ’’ام المؤمنین‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کرسکتے۔
۶… قادیانی اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہہ سکتے۔
۷… قادیانی اذان نہیں دے سکتے۔
۸… قادیانی اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔
۹… قادیانی اپنے مذہب کو اسلام نہیں کہہ سکتے۔
۱۰… قادیانی اپنے مذہب کی تبلیغ نہیں کرسکتے۔
۱۱… قادیانی اپنے مذہب کی دعوت نہیں دے سکتے۔
۱۲… قادیانی مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح نہیں کرسکتے۔
۱۳… قادیانی کسی بھی طرح اپنے آپ کو مسلمان شمار نہیں کرسکتے۔
۱۴ … غرض کہ کوئی بھی شعائر اسلام استعمال نہیں کرسکتے۔
بحمدہٖ تعالیٰ اس قانون کے منظور ہونے سے قادیانی جماعت کا سالانہ جلسہ جسے وہ ظلّی حج قرار دیتے تھے۔ پاکستان میں اس پر پابندی لگی۔ قادیانی جماعت کے چیف گرو، لاٹ پادری مرزا طاہر کو ملک چھوڑ کر لندن جانا پڑا۔ اس تمام تر کامیابی و کامرانی کے لئے ’’ابنائے دارالعلوم دیوبند‘‘ نے جو خدمات سرانجام دیں ان کو کوئی منصف مزاج نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اس قانون کے نافذ ہوتے ہی قادیانیوں کے لئے ’’نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘ والا قصہ ہوگیا۔