• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر البیان از جاوید احمد غامدی پارہ نمبر 1 یونیکوڈ

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 0


بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

(تفسیر البیان (الغامدی :

سورة کا تعارف
البقرۃ (The Heifer, The Calf )
البقرۃ آل عمران
یہ دونوں سورتیں اپنے مضمون کے لحاظ سے توام ہیں۔ پہلی سورة میں یہود اور دوسری میں یہود کے ساتھ ، بالخصوص نصاریٰ پر اتمام حجت کے بعد بنی اسماعیل میں سے ایک نئی امت امت مسلمہ کی تاسیس کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان میں خطاب اگرچہ ضمناً نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ہوا ہے اور مشرکین عرب سے بھی ، لیکن دونوں سورتوں کے مخاطب اصلاً اہل کتاب اور ان کے بعد مسلمان ہی ہیں۔ ان کے مضمون سے واضح ہے کہ یہ ہجرت کے بعد مدینہ میں اس وقت نازل ہوئی ہیں، جب مسلمانوں کی ایک باقاعدہ ریاست وہاں قائم ہوچکی تھی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل کتاب پر اتمام حجت اور مسلمانوں کا تزکیہ وتطہیر کر رہے تھے۔
پہلی سورہ—- البقرۃ—- کا موضوع اہل کتاب پر اتمام حجت ، ان کی جگہ ایک نئی امت کی تاسیس اور اس کے فرائض کا بیان ہے۔
دوسری سورہ—- آل عمران—- کا موضوع اہل کتاب ، بالخصوص نصاریٰ پر اتمام حجت، ان کی جگہ ایک نئی امت کی تاسیس اور اس کا تزکیہ و تطہیر ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 1


الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

آیت کی تفسیر اور الفاظ کی وضاحت ۔ جاوید احمد غامدی
اِس جملے میں مبتدا عربیت کی رو سے محذوف ہے۔ اسے کھول دیجیے تو پوری بات اس طرح ہوگی : ’ ھذہ الم ‘ (یہ الف لام میم ہے ) ۔ اصطلاح میں انھیں حروف مقطعات کہتے ہیں۔ سورتوں کے شروع میں یہ حروف جس طرح آئے ہیں اور قرآن نے جگہ جگہ ’ ذٰلک ‘ اور ’ تلک ‘ کے ذریعے سے ان کی طرف جس طرح اشارہ کیا ہے، اس سے واضح ہے کہ یہ سورتوں کے نام ہیں۔ ان کے معنی کیا ہیں ؟ اس باب میں سب سے زیادہ قرین قیاس نظریہ برصغیر کے جلیل القدر عالم اور محقق امام حمید الدین فراہی کا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عربی زبان کے حروف تہجی چونکہ اصلاً عرب قدیم میں رائج وہی حروف ہیں جو صرف آواز ہی نہیں بتاتے تھے، بلکہ چینی زبان کے حروف کی طرح معانی اور اشیا پر بھی دلیل ہوتے تھے اور جن معانی یا اشیا پر دلیل ہوتے تھے ، انھی کی صورت پر لکھے بھی جاتے تھے ، اس لیے قرآن کی سورتوں کے شروع میں بھی یہ اپنے انھی قدیم معنی کے لحاظ سے آئے ہیں۔ اس کی نہایت واضح مثال سورة نون ہے۔ حرف ’ ن ‘ کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ یہ اب بھی اپنے قدیم معنی میں بولا جاتا ہے۔ اس کے معنی مچھلی کے ہیں اور جس سورة کو یہ نام دیا گیا ہے ، اس کے بارے میں معلوم ہے کہ اس میں سیدنا یونس (علیہ السلام) کا ذکر ’ صاحب الحوت ‘ یعنی مچھلی والے کے نام سے ہوا ہے۔

 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 2

ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

اصل الفاظ ہیں : ’ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ ‘۔ ان میں ’ ذٰلِکَ ‘ کا اسم اشارہ سورة کے لیے آیا ہے اور ’ الْکِتٰب ‘ کے معنی کتاب الٰہی کے ہیں۔ قرآن میں یہ لفظ جگہ جگہ اس معنی کے لیے استعمال ہوا ہے اور اسی طریقے پر استعمال ہوا ہے ، جس پر کوئی لفظ اپنے مختلف مفاہیم میں سے کسی ایک اعلیٰ اور برتر مفہوم کے لیے خاص ہوجایا کرتا ہے۔
یعنی اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ کتاب الٰہی ہے۔ یہی اس جملے کا سیدھا اور صاف مفہوم ہے اور قرآن کے نظائر سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے ۔
ہدایت راستہ پانے کے لیے بھی ہوتی ہے اور راستے پر چلنے کے لیے بھی۔ الہامی صحائف اصلاً اسی دوسری ہدایت کے لیے نازل ہوئے ہیں۔ قرآن نے بھی یہاں اور بعض دوسرے مقامات پر اپنے آپ کو اسی لحاظ سے ہدایت قرار دیا ہے۔ اس ہدایت سے بہرہ مند ہونے والوں کی جو خصوصیات ان آیتوں میں بیان ہوئی ہیں ، وہ اگر غور کیجیے تو ٹھیک ان خصوصیات کی نقیض ہیں جو یہود میں من حیث القوم پائی جاتی تھیں۔ قرآن نے اسی سورة میں آگے ان کی یہ خصوصیات بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں۔ اس نے بتایا ہے کہ خدا سے ڈرنے کے بجائے وہ اس کے مقابلے میں سرکش ہوئے۔ انھوں نے خدا پر ایمان لانے کے لیے اسے آنکھوں سے دیکھنے کا مطالبہ کیا ۔ وہ نماز سے غافل ہوگئے اور خدا کی راہ میں انفاق کے بجائے لوگوں کو بخل کی ترغیب دینے لگے۔ انھوں نے محض اپنے تعصبات کی بنا پر خدا کے پیغمبروں کا انکار کیا اور آخرت ان کے لیے ایک رسمی عقیدہ بن کر رہ گئی ، ان کے طرزعمل میں اس پر ایمان کی کوئی جھلک کہیں دکھائی نہیں دیتی تھی۔

 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 3


الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۙ﴿۳﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

اصل الفاظ ہیں : ’ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ ‘۔ ان میں ’ ب ‘ ہمارے نزدیک ظرفیت کے لیے ہے، یعنی وہ غیب میں ہوتے ہوئے ایمان لاتے ہیں۔ غیب میں ہوتے ہوئے ایمان لانے کے معنی یہ ہیں کہ وہ محض محسوسات کے غلام اور مادیات کے پرستار نہیں ہیں ، بلکہ ایک عقلی اور روحانی ہستی ہیں ، لہٰذا ہر چیز کو دیکھ کر ماننے کے لیے مصر نہیں ہوتے۔ وہ اپنا سفر عقل کی رہنمائی میں طے کرتے ہیں اور جو باتیں عقل سے ثابت ہوتی ہیں یا ان کی فطرت جن باتوں کی شہادت دیتی ہے ، انھیں وہ تسلیم کرتے ہیں اور ان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی محسوس اور مادی لذتوں کو ہر لحظہ قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
ہم نے جس مدعا کو نماز کا اہتمام کرنے سے ادا کیا ہے ، اس کے لیے اصل میں اقامت صلوٰۃ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ اس کے معنی عربی زبان میں نماز کی حفاظت کرنے اور اس پر قائم رہنے کے ہیں۔ نماز اہل عرب کے لیے کوئی اجنبی چیز نہ تھی۔ دین ابراہیمی کی ایک روایت کی حیثیت سے وہ اس کے اعمال و اذکار سے نہ صرف یہ کہ واقف تھے ، بلکہ ان کے صالحین اس کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اس کی کوئی تفصیلات بیان نہیں کی ہیں۔ نماز کے ساتھ یہاں انفاق کا ذکر بھی ہوا ہے۔ قرآن کی رو سے یہ بنیادی نیکیاں ہیں۔ انجیل متی میں سیدنا مسیح (علیہ السلام) نے بھی ذرا مختلف اسلوب میں یہی بات فرمائی ہے :

” اور ان میں سے ایک عالم شرع نے آزمانے کے لیے اس سے پوچھا : اے استاد ، توراۃ میں کون سا حکم بڑا ہے ؟ اس نے اس سے کہا کہ خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ ۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے۔ اور دوسرا اس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ ۔ اِنھی دو حکموں پر تمام توراۃ اور انبیاء کے صحیفوں کا مدار ہے۔ “ (٢٢: ٣٥۔ ٤٠)
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 4


وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ﴿۴﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یعنی ہر طرح کے تعصبات سے بالاتر ہو کر حق کو سمجھ رہے اور اسی حیثیت سے اسے تسلیم کر رہے ہیں۔
یعنی آخرت کو محض مانتے ہی نہیں ، ہر طرح کے ریب و گمان سے بالکل پاک ہو کر اس پر یقین رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہی سبب ہے کہ حق کو ماننے میں کوئی تعصب اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کوئی غفلت کسی طرح ان کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 5


اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ٭ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۵﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یعنی ٹھیک اس طریقے پر ہیں جو ہمیشہ سے اہل ایمان کا طریقہ رہا ہے۔
فلاح سے مراد وہ کامیابی ہے جو آدمی کو اگرچہ حاصل تو بڑی صبر آزما اور جاں گسل جدوجہد کے بعد ہوتی ہے، لیکن جب حاصل ہوجاتی ہے تو اس طرح نہال کردیتی ہے کہ اس کی توقعات کے سارے پیمانے اسے ناپنے سے قاصر رہ جاتے ہیں
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 6


اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۶﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یہاں سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی اور آپ کے مخالفین کے لیے سرزنش کا مضمون سورة کی اس تمہید میں نمایاں ہوتا ہے۔ گویا آپ کو یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ لوگ اگر آپ کی بات نہیں سن رہے ہیں تو اس میں نہ آپ کا کوئی قصور ہے اور نہ آپ کی تبلیغ و دعوت میں کوئی کسر رہ گئی ہے ، بلکہ یہ سرتا سر ان کے دل کی خرابی ہے جس کی وجہ سے یہ حق کے دشمن بن کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں :

”۔۔ اللہ کے دین کی صداقتوں کو جھٹلاتے جھٹلاتے اب یہ قانون الٰہی کی زد میں آ چکے ہیں جس کے سبب سے ان کے دلوں کے اندر سے اثر پذیری کی، ان کے کانوں کے اندر سے حق نیوشی کی اور ان کی آنکھوں کے اندر سے عبرت نگاہی کی ساری صلاحیتیں سلب ہوچکی ہیں۔ اب آپ ان کی صلاح و فلاح کی طرف سے بالکل مایوس ہوجائیں ۔ اب ان کے لیے اگر کوئی چیز باقی رہ گئی ہے تو وہ اللہ کا عذاب ہے جس سے وہ لازماً دوچار ہوں گے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ١١٦)

اصل میں ’ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں فعل فیصلہ فعل کے معنی میں ہے اور اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن پر قرآن اور پیغمبر کی حقانیت اگرچہ پوری طرح واضح ہوچکی تھی، لیکن محض اپنی ضد، ہٹ دھرمی اور انانیت کے باعث وہ ان کی مخالفت کر رہے تھے اور انھیں کسی طرح مان کردینا نہیں چاہتے تھے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 7


خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ٪﴿۷﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

اصل الفاظ ہیں : ’ وَعَلٰی سَمْعِھِمْ ‘۔ ان میں ’ سمع ‘ مصدر ہے اور اسی بنا پر واحد آیا ہے۔
یعنی اپنے اس قانون کے مطابق جو قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوا ہے اور جس کی رو سے جب کوئی شخص حق کے مقابلے میں سرکشی اختیار کرتا اور جانتے بوجھتے اسے ماننے سے انکار کردیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے مہلت دی جاتی ہے۔ پھر اس مہلت سے وہ اگر فائدہ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو اس کے دل و دماغ پر مہر کردی جاتی ہے اور اس طرح وہ اسی دنیا میں خدا کے عذاب کی زد میں آجاتا ہے۔ اس مہر کے نتیجے میں آدمی کا مذاق طبیعت اس قدر بگڑ جاتا ہے اور اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اس قدر ماؤف ہوجاتی ہے کہ صرف وہی باتیں اسے اچھی لگتی ہیں جن سے اس کے بگڑے ہوئے مذاق کو غذا ملے۔ اس کی ساری دل چسپی صرف بدی کے کاموں سے رہ جاتی ہے۔ نیکی کی بات معقول سے معقول اسلوب میں بھی کہی جائے تو اس سے اس کو وحشت ہوتی ہے۔ وہ کبھی دل کی آمادگی اور اس کے حضور کے ساتھ اسے سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس قانون کی وضاحت کے لیے دیکھیے : سورة نساء (٤) آیت ٥٥ ا، اعراف (٧ ) آیات ١٠٠۔ ١٠٢، نحل (١٦) آیات ١٠٦۔ ١٠٨ اور صف (٦١) آیت ٥۔
اِس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ آدمی کے اندر ایمان و ہدایت کی دعوت اس کے دل و دماغ اور اس کی آنکھوں اور کانوں ہی کے راستے سے داخل ہوتی ہے۔ وہ اگر انفس و آفاق کی نشانیوں پر بصیرت کی نگاہ ڈالے، ان پر غور کرے ، خدا کے کلام اور دعوت حق کے علم برداروں کی باتیں سراپا گوش ہو کر سنے تو اس کو ہدایت ملتی ہے ؛اور انھیں دیکھنے ، سننے اور سمجھنے سے انکار کر دے تو گمراہی اور ضلالت کی بھول بھلیاں اس کا مقدر ٹھیرتی ہیں ، ایمان و ہدایت کی راہ پھر اس کے لیے ہرگز نہیں کھل سکتی۔

 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 8


وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ مَا ہُمۡ بِمُؤۡمِنِیۡنَ ۘ﴿۸﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یعنی انھی منکرین میں۔
اِس سے مراد وہ منافقین یہود اور اوس و خزرج میں سے ان کے ساتھی ہیں جو اسلام کی کھلی مخالفت کے بجائے اس کے اور یہودیت کے درمیان ایک قسم کے سمجھوتے کی خواہش رکھتے تھے۔ ان کی مخالفت مصلحت اندیشی اور مصالحت پسندی کے پردے میں چھپی ہوئی تھی۔ اپنے زعما کے طریقے پر وہ اسلام کے مقابلے میں مجرد انکار اور ضد کی پالیسی کو صحیح نہیں سمجھتے تھے۔ اس کے برعکس ان کا نقطہ نظریہ تھا کہ جس حد تک اپنے آبائی طریقے پر قائم رہتے ہوئے اسلام سے موافقت پیدا کی جاسکتی ہے ، کی جائے۔ چنانچہ وہ اللہ اور آخرت پر اپنا ایمان مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے اور ان سے یہ چاہتے تھے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ اپنے لیے ، بیشک پیغمبر مانیں، لیکن یہود کے لیے آپ کو اپنا پیغمبر ماننے کا مطالبہ وہ ان سے نہ کریں اور اتنے ہی پر اکتفا کرتے ہوئے دین داری اور خدا پرستی کا ایک مقام ان کے لیے بھی تسلیم کرنے پر راضی ہوجائیں۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح کفر و ایمان کی جو کشمکش یثرب میں پیداکر دی گئی ہے ، اس کا خاتمہ ہوجائے گا اور دونوں فریق امن و سلامتی کے ساتھ وہاں رہ سکیں گے۔ اپنے اس طرزعمل کو وہ اسی لحاظ سے اصلاح کی کوشش سے تعبیر کرتے تھے۔
یعنی یہ دونوں باتیں ہم مانتے ہیں ، لہٰذا اس پر مزید کسی ایمان کا تقاضا تم کو ہم سے نہیں کرنا چاہیے۔
اِس لیے کہ وہ اگر خدا اور آخرت پر فی الواقع ایمان رکھتے ہوتے تو حق کے معاملے میں یہ منافقانہ طرز عمل کبھی اختیار نہ کرتے۔

 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 9


یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ وَ مَا یَخۡدَعُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ ؕ﴿۹﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

اصل الفاظ ہیں : ’ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ ‘۔ ’ مخادعۃ ‘ کے معنی کسی کو دھوکا دینے کی کوشش کرنے کے ہیں۔ غور کیجیے تو ’ خدع ‘ کے مقابلے میں یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے تعلق سے نہایت موزوں استعمال ہوا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینے کی کوشش تو کوئی شخص اپنی حماقت کے سبب سے کرسکتا ہے، لیکن اس کو دھوکا دے نہیں سکتا۔
یعنی اس کا نتیجہ چونکہ ابھی ان کے سامنے نہیں آیا ، اس لیے یہ اس حقیقت کا احساس نہیں کر رہے ہیں کہ خدا کو دھوکا دینے کی کوشش میں یہ خود دھوکا کھا رہے ہیں۔


 
Top