• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر البیان از جاوید احمد غامدی پارہ نمبر 2 یونیکوڈ

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 142


سَیَقُوۡلُ السُّفَہَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىہُمۡ عَنۡ قِبۡلَتِہِمُ الَّتِیۡ کَانُوۡا عَلَیۡہَا ؕ قُلۡ لِّلّٰہِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ ؕ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۱۴۲﴾
آیت کی تفسیر اور الفاظ کی وضاحت
سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں جو حقائق اوپر بیان کیے گئے ، ان سے واضح تھا کہ اب تحویل قبلہ کا فیصلہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جلد صادر ہونے والا ہے۔ یہ اسی کی تمہید ہے۔ یہود کو یہاں احمق قرار دینے کی وجہ وہی ہے جو اس سے پہلے آیت ١٣٠ میں بیان ہوئی ہے کہ ابراہیم کے دین سے وہی انحراف کرسکتا ہے جو اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا کرلے۔ یہود کا دعویٰ تھا کہ وہ دین ابراہیمی کے پیرو ہیں۔ اپنے اس دعوے کے ساتھ جب وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے بنائے ہوئے گھر کو قبلہ قرار دینے پر اعتراض کریں گے تو اسے حماقت کے سوا اور کیا قرار دیا جائے گا ؟ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان اس سے پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے۔ قرآن نے آگے بتایا ہے کہ یہ ایک عارضی حکم تھا اور بنی اسماعیل کی آزمائش کے لیے دیا گیا تھا تاکہ معلوم ہوجائے کہ ان میں سے کون حقیقت پر نگاہ رکھتا ہے اور کون ظاہری باتوں میں الجھ کر اپنی راہ کھوٹی کرلیتا ہے۔ یہود مغرب کو اپنا قبلہ قرار دیتے تھے اور نصاریٰ مشرق کو ۔ یہ قرآن نے اسی پر تعریض کی ہے کہ سمتوں میں سے کوئی سمت بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ وہ ہر سمت میں ہے اور مشرق و مغرب، سب پر اسی کی حکومت قائم ہے، اس لیے قبلہ کی بحث میں اس چیز کی کوئی اہمیت نہیں ہوسکتی ۔ بیت اللہ ابراہیم اور اسماعیل نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے تعمیر کیا تھا ۔ ذریت ابراہیم کا قبلہ ابتدا سے وہی تھا اور بیت المقدس کی تعمیر بھی اسی کو قبلہ قرار دے کر ہوئی تھی۔ نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ذریعے سے دین ابراہیمی کی تجدید کے بعد یہ اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ قبلے کا فیصلہ بھی کردیا جائے۔ چنانچہ یہی ہوا ہے اور جس طرح دین کو یہود و نصاریٰ کے پیدا کردہ پیچ و خم سے نکال کر اس کی اصل پر قائم کیا گیا ہے ، اسی طرح قبلہ بھی اس کی اصل کی طرف لوٹا دیا گیا ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 143


وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ وَ مَا جَعَلۡنَا الۡقِبۡلَۃَ الَّتِیۡ کُنۡتَ عَلَیۡہَاۤ اِلَّا لِنَعۡلَمَ مَنۡ یَّتَّبِعُ الرَّسُوۡلَ مِمَّنۡ یَّنۡقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیۡہِ ؕ وَ اِنۡ کَانَتۡ لَکَبِیۡرَۃً اِلَّا عَلَی الَّذِیۡنَ ہَدَی اللّٰہُ ؕ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیۡعَ اِیۡمَانَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴۳﴾
اصل میں لفظ ’ وَسَط ‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ ’ ولد ‘ کی طرح مذکر ، مونث ، واحد اور جمع سب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے معنی درمیان کے ہیں اور اس آیت میں یہ نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی قوم بنی اسماعیل کے لیے آیا ہے۔ سورة حج (٢٢) کی آیت ٧٨ میں ’ ھُوَ اجْتَبٰکُمْ ‘ کے الفاظ دلیل ہیں کہ انھیں اللہ تعالیٰ نے دین کی اس شہادت کے لیے اسی طرح منتخب کیا ، جس طرح وہ بنی آدم میں سے بعض جلیل القدر ہستیوں کو نبوت و رسالت کے لیے منتخب کرتا ہے۔ سورة بقرہ کی اس آیت میں قرآن نے اسی بنا پر انھیں درمیان کی ایک جماعت ’ اُمَّۃً وَّسَطًا ‘ قرار دیا ہے ، یعنی وہ جماعت جس کے ایک طرف اللہ و رسول اور دوسری طرف دنیا کی سب اقوام تھیں اور وہ ان پر حق کی شہادت کے لیے مامور کیے گئے۔ شہادت کے معنی گواہی کے ہیں۔ جس طرح گواہی سے فیصلے کے لیے حجت قائم ہوجاتی ہے ، اسی طرح حق جب اس درجے میں واضح کردیا جائے کہ اس سے انحراف کی گنجایش باقی نہ رہے تو اسے شہادت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی فرد یا جماعت کو اپنی دینونت کے ظہور کے لیے منتخب فرماتے اور پھر قیامت سے پہلے ایک قیامت صغریٰ ان کے ذریعے سے اسی دنیا پر برپا کردیتے ہیں۔ اُنھیں بتادیا جاتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ اپنے عہد پر قائم رہیں گے تو اس کی جزا اور انحراف کریں گے تو اس کی سزا انھیں دنیا ہی میں مل جائے گی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کا وجود لوگوں کے لیے ایک آیت الٰہی بن جاتا ہے اور وہ خدا کو گویا ان کے ساتھ زمین پر چلتے پھرتے اور عدالت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ انھیں حکم دیاجاتا ہے کہ جس حق کو وہ بچشم سر دیکھ چکے ہیں، اس کی تبلیغ کریں اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت بےکم وکاست اور پوری قطعیت کے ساتھ لوگوں تک پہنچادیں۔ یہی شہادت ہے۔ یہ جب قائم ہوجاتی ہے تو دنیا اور آخرت، دونوں میں فیصلہ الٰہی کی بنیاد بن جاتی ہے۔ رسولوں کی بعثت سے اللہ تعالیٰ کی جو عدالت زمین پر قائم ہوتی ہے ، اس کا فیصلہ اس طرح کی آزمائشوں کے ذریعے سے لوگوں کی تطہیر کے بعد ہی صادر ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بنی اسماعیل کے لیے مسجدحرام کو چھوڑ کر بیت المقدس کو قبلہ بنانا نہایت سخت امتحان تھا ، لیکن تم نے دیکھا کہ یہ ان لوگوں کے لیے ذرا بھی سخت ثابت نہ ہوا جو اپنی پچھلی روایات کی نہیں، بلکہ خدا کی پرستش کرنے والے تھے ، اور اللہ اور اس کے رسول پر سچا ایمان رکھتے تھے ۔
استاذ امام اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
”۔۔ یہاں ایک نہایت اہم سوال کا جواب ہے جو از خود پیدا ہوتا ہے ، وہ یہ کہ جب قبلہ کی تبدیلی خود قرآن کے اپنے بیان کے مطابق بھی ایک سخت امتحان ہے تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس قسم کے سخت امتحان میں کیوں ڈالنا پسند فرمایا ، جس کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ بہت سے لوگ اس امتحان میں ناکام رہ جانے کے سبب سے اپنے ایمان ہی کھو بیٹھیں ۔ قرآن نے اس شبہ کا ازالہ اس طرح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس طرح کے امتحانوں میں اس لیے نہیں ڈالتا کہ لوگ اپنے ایمان ضائع کر بیٹھیں ، بلکہ یہ امتحان اللہ تعالیٰ کی رافت و رحمت کے مظہر ہیں۔ اِنھی امتحانوں سے بندوں کی صلاحیتیں نشو ونما پاتی ہیں۔ اِنھی کے ذریعے سے ان کی وہ قوتیں اور صلاحیتیں بروے کار آتی ہیں جن کے خزانے قدرت نے ان کے اندر ودیعت کیے ہیں۔ اِنھی کے ذریعے سے ان کے کھرے اور کھوٹے ، ان کے مخلص اور منافق اور ان کے سچے اور جھوٹے میں امتیاز ہوتا ہے۔ یہ امتحان نہ ہو تو اچھے اور برے ، خام اور پختہ ، گہر اور پشینر میں کوئی فرق ہی نہ رہ جائے۔ ہر مدعی کو اس کے دعوے میں سچا ماننا پڑے اور ہر کاذب کی باتوں کی تصدیق کرنی پڑے۔ یہاں تک کہ آخرت میں بھی کسی کو انعام یا کسی کو سزا دینے کے لیے کوئی حجت و دلیل باقی نہ رہ جائے۔ مزید غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس کارخانہ کائنات کا سارا حسن و جمال اور اس کی ساری حکمت و برکت اللہ تعالیٰ کی اسی سنت ابتلا کے اندر مضمر ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو یہ سارا کارخانہ بالکل بےحکمت اور بےمصلحت ، بلکہ کھلنڈرے کا ایک کھیل بن کے رہ جائے۔ “ (تدبر قرآن ١ /٣٦٧) اصل میں ’ لَرَءُ وْفٌ رَّحِیْ مٌ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’ رَءُ وْفٌ‘، ’ رأفۃ ‘ سے ہے جس میں دفع شر غالب ہے اور ’ رَحِیْمٌ‘، ’ رحمۃ ‘ سے، جس میں اثبات خیر کا غلبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں جس امتحان کا ذکر کیا ہے ، اس میں یہ دونوں ہی پہلو ملحوظ تھے ، یعنی بندوں کو آلایشوں سے پاک کرنا اور انھیں فضائل و محاسن سے آراستہ کرنا۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 144


قَدۡ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجۡہِکَ فِی السَّمَآءِ ۚ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبۡلَۃً تَرۡضٰہَا ۪ فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ؕ وَ حَیۡثُ مَا کُنۡتُمۡ فَوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ شَطۡرَہٗ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ لَیَعۡلَمُوۡنَ اَنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۴۴﴾
اصل میں ’ قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان میں عربی زبان کے اسلوب کے مطابق مضارع سے پہلے ایک فعل ناقص محذوف ہے ، یعنی ’ قد کنا نری ‘۔ اردو میں حذف کا یہ اسلوب چونکہ نہیں ہے ، اس لیے ترجمے میں ہم نے اسے کھول دیا ہے۔ اِس مفہوم کے لیے اصل میں ’ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ ‘ کا لفظ آیا ہے۔ عربی زبان میں فعل ، اگر قرینہ موجود ہو تو فیصلہ فعل کے معنی میں بھی آتا ہے۔ یہاں مضارع پر تاکید کے حروف صاف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ درحقیقت اس فیصلے کا اظہار ہے جو اللہ تعالیٰ نے تحویل قبلہ کے بارے میں فرمایا ۔ ہم نے ترجمہ اسی کے لحاظ سے کیا ہے۔ نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جب تک مکہ میں رہے ، آپ کے لیے نماز میں دونوں قبلوں کو جمع کرلینا ممکن تھا، لیکن ہجرت مدینہ کے بعد یہ صورت اس لیے باقی نہیں رہی کہ بیت المقدس مدینے سے شمال میں ہے، اور بیت اللہ بالکل جنوب میں ۔ چنانچہ قبلہ ابراہیمی سے علیحدگی آپ پر شاق گزرنے لگی ۔ پھر جب وحی الٰہی سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ کی بعثت دین ابراہیمی پر ہوئی ہے اور ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی ذریت کا قبلہ ہمیشہ سے بیت الحرام ہی رہا ہے تو آپ کو برابر انتظار رہنے لگا کہ تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوجائے۔ اس شوق میں آپ کی نگاہ بار بار آسمان کی طرف اٹھ جاتی تھی۔ قرآن نے یہ اسی کا ذکر کیا ہے. مسجد حرام سے مراد وہ عبادت گاہ ہے جس کے درمیان میں بیت اللہ واقع ہے۔ اس کی طرف رخ کرنے کے لیے اصل میں ’ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان سے واضح ہے کہ مقصود بیت اللہ کی طرف منہ کرنا ہی ہے ، بالکل ناک کی سیدھ میں بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا مطالبہ ان الفاظ میں نہیں کیا گیا ۔ پھر واحد کے صیغے میں حکم سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے جس اضطراب کا ذکر اوپر ہوا ہے ، اس کے پیش نظر پہلے خاص طور پر آپ ہی کو مخاطب کر کے اس تبدیلی کی بشارت دی گئی ہے ۔ یہ وضاحت اس لیے کی گئی ہے کہ یہودو نصاریٰ بیت المقدس کے اندر تو اسے ہی قبلہ بناتے تھے ، لیکن اس سے باہر نکل کر مشرق یا مغرب کو قبلہ بنا لیتے تھے۔ اس گمراہی سے بچنے کے لیے ہدایت کی گئی کہ مسجد حرام کے اندر یا باہر جہاں کہیں بھی ہو ، تمہارا رخ اسی مسجد کی طرف ہونا چاہیے ۔یعنی مسجد حرام کا قبلہ ہونا ہی حق ہے۔ استاذ امام نے لکھا ہے. ”۔۔ اس بات کا حق ہونا اور خدا کی طرف سے ہونا اہل کتاب پر بالکل واضح تھا ، اس لیے کہ اوپر جو تفصیلات قرآن نے پیش کی ہیں، ان سے مندرجہ ذیل باتیں واضح طور پر سامنے آگئی ہیں : ایک یہ کہ یہود کو یہ بات معلوم تھی کہ بیت اللہ حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل کی تعمیر ہے اور یہی بیت اللہ تمام ذریت ابراہیم کا اصلی قبلہ رہا ہے۔ دوسری یہ کہ آخری نبی ذریت اسماعیل میں پیدا ہوں گے اور ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ایک امت مسلمہ برپا کرے گا ۔تیسری یہ کہ اس ذریت اسماعیل کا مرکز اور قبلہ شروع سے یہی بیت اللہ رہا ہے. اِن تمام باتوں کے اشارات و قرائن توراۃ میں موجود تھے اور آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ظہور اور آپ کے واقعات زندگی سے ہر قدم پر ان اشارات و قرائن کی تصدیق ہو رہی تھی ، لیکن یہود اس حسد اور عناد کے سبب سے جو ان کو بنی اسماعیل اور مسلمانوں سے تھا ، جانتے بوجھتے ان ساری باتوں کو چھپاتے تھے۔ “ (تدبر قرآن ١ /٣٧٠) یہ بانداز تہدید فرمایا ہے کہ حق کو چھپانے کا جو جرم انھوں نے کیا ہے ، اللہ اس سے خوب واقف ہے اور اس کی قرار واقعی سزا اب انھیں مل کر رہے گی.
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 145


وَ لَئِنۡ اَتَیۡتَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ بِکُلِّ اٰیَۃٍ مَّا تَبِعُوۡا قِبۡلَتَکَ ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ بِتَابِعٍ قِبۡلَتَہُمۡ ۚ وَ مَا بَعۡضُہُمۡ بِتَابِعٍ قِبۡلَۃَ بَعۡضٍ ؕ وَ لَئِنِ اتَّبَعۡتَ اَہۡوَآءَہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ ۙ اِنَّکَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۱۴۵﴾ۘ
یہ بھی ایک نوعیت کی تہدید ہے جس میں خطاب بظاہر نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے ہے ، لیکن غور کیجیے تو اس کا رخ درحقیقت یہودو نصاریٰ کی طرف ہے۔ خواہشوں سے مراد یہاں ان کی بدعتیں ہیں جو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے دین میں پیدا کر رکھی تھیں۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 146


اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَعۡرِفُوۡنَہٗ کَمَا یَعۡرِفُوۡنَ اَبۡنَآءَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ فَرِیۡقًا مِّنۡہُمۡ لَیَکۡتُمُوۡنَ الۡحَقَّ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۴۶﴾ؔ
یہ صالحین اہل کتاب کا ذکر ہے۔ چنانچہ قرآن نے اس کے لیے اسلوب بھی ’ الذین اوتوا الکتب ‘ کے بجائے ’ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ ‘ کا اختیار کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک مہجور باپ اپنے یوسف گم گشتہ کو پہچانتا ہے، اسی طرح یہ صالحین اہل کتاب بھی قرآن مجید اور اس کے پیش کردہ حقائق کو اپنے صحیفوں کی روشنی میں جانتے ، پہچانتے اور اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 147


اَلۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُمۡتَرِیۡنَ ﴿۱۴۷﴾٪
اصل الفاظ ہیں : ’ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ ‘۔ ان میں ’ اَلْحَقُّ ‘ ہمارے نزدیک خبر ہے جس کا مبتدا محذوف ہے اور ’ مِنْ رَّبِّکَ ‘ اسی خبر سے متعلق ہے۔ مبتدا کو عربی زبان میں بالعموم اس موقع پر حذف کردیتے ہیں جب پوری توجہ خبر ہی پر مرکوز کر دینی پیش نظر ہو ۔یہاں بھی خطاب اگرچہ حضور ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے ہے ، مگر تنبیہ اور عتاب کا رخ ، صاف واضح ہے کہ انھی یہودو نصاریٰ کی طرف ہے.
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 148


وَ لِکُلٍّ وِّجۡہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیۡہَا فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ ؕ؃ اَیۡنَ مَا تَکُوۡنُوۡا یَاۡتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱۴۸﴾
اصل الفاظ ہیں : ’ وَلِکُلٍّ وِّجْھَۃٌ ھُوَمُوَلِّیْھَا ‘۔ ان میں ’ کُلّ ‘ کا لفظ اگرچہ نکرہ ہے، لیکن یہ جب کسی شخص یا گروہ کا ذکر کرنے کے بعد آئے تو اس سے بالعموم وہی شخص یا گروہ مراد ہوتا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی اس سے مراد یہودو نصاریٰ ہی ہیں جن کے بعض گروہوں کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ یعنی اپنے تعصبات کو آسانی سے نہیں چھوڑتا۔ اس لیے تم خواہ کتنا ہی زور لگاؤ ، یہ اپنی مقرر کردہ سمت کو چھوڑ کر حق کی پیروی کے لیے تیار نہ ہوں گے ۔ مطلب یہ ہے کہ ان ہٹ دھرموں کو ان کے حال پر چھوڑو اور جو قبلہ تمہارے لیے مقرر کیا گیا ہے ، اسے فلاح وسعادت کی جدوجہد میں خدا کا مقرر کردہ نشان سمجھ کر ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرو ۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں. ” قبلہ کے متعلق یہ بات کہ وہ فلاح وسعادت کے حصول کے لیے ایک نشان اور علم کی حیثیت رکھتا ہے ، محض کوئی استعارہ نہیں ، بلکہ ایک حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کرنے کے لیے اس عظیم تاریخ کو حافظے میں از سرِ نو تازہ کرنے کی کوشش کیجیے جو اس گھر کے ایک ایک پتھر پر نقش ہے جس کو قبلہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ گھر وہ گھر ہے جس کی تعمیر ابراہیم خلیل اللہ اور اسماعیل ذبیح اللہ نے اپنے مقدس ہاتھوں سے کی ہے۔ یہ گھر وہ گھر ہے جو اس دنیا کے بت کدے میں خداے واحد کی عبادت کا اولین مرکز ہے۔ اسی گھر کے پہلو میں مروہ پہاڑی ہے جس کے دامن میں چشم فلک نے رضاے الٰہی کے لیے بوڑھے باپ کو محبوب اور اکلوتے فرزند کی گردن پر چھری چلاتے اور اسلام کی حقیقت کا مظاہرہ کرتے دیکھا ہے۔ یہی گھر ہے جس کے ارد گرد کے چٹیل میدانوں کو قدرت نے اس امت مسلمہ کے نشوونما کے لیے منتخب فرمایا جس کے ذریعے سے دنیا کی تمام قوموں کو خدا کی رحمت تقسیم ہونے والی تھی۔ یہی گھر ہے جو حضرت ابراہیم کے وقت سے لے کر برابر تمام قدوسیوں کا قبلہ رہا ہے اور جس میں طواف و اعتکاف اور رکوع و سجود کی سعادت اتنے انسانوں نے حاصل کی ہے کہ جس طرح زمین کے ذروں اور آسمان کے ستاروں کا شمار ناممکن ہے ، اسی طرح ان نفوس قدسیہ کا شمار بھی ناممکن ہے۔ اسی کے قرب میں وہ میدان ہے جس کی ریت کا ایک ایک ذرہ توبہ و استغفار کے سجدوں کا گواہ اور خوف خدا سے رونے والوں کے آنسوؤں کا امین ہے۔ اسی گھر کے ایک کونے میں وہ مقدس پتھر ہے جس کو خدا کے دہنے ہاتھ سے تشبیہ دی گئی ہے اور جس کو ہاتھ لگا کر یا بوسہ دے کر لاکھوں کروڑوں انبیاء و صدیقین اور صلحاوابرار نے اپنے رب سے عہد بندگی و وفاداری استوار کیا ہے۔ اسی کے پاس وہ جمرات ہیں جو اس گھر کے دشمنوں کی ذلت و پامالی کی یادگار ہیں اور جن پر سنگ باری کر کے اہل ایمان اپنے اندر برابر اعداے دین کے خلاف جہاد کی روح تازہ کرتے رہے ہیں۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اسی گھر کے سایے میں خدا کے آخری پیغمبر محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے پرورش پائی جن کے لائے ہوئے نور اور جن کی بخشی ہوئی ضیا نے تمام دنیا میں اجالا کردیا۔ ایک ایسی عظیم روایات کے امین گھر کو قبلہ بنانے کے معنی یقیناًیہی ہیں کہ اس کو ایک نشان قرار دے کر ان روحانی خزانوں کے حصول کے لیے جدوجہد کی جائے جو سیدنا ابراہیم سے لے کر حضور نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تک اس گھر کو ودیعت ہوئے یا دوسرے لفظوں میں اس کو ایک پاور ہاؤس سمجھیے جس سے پوری امت زندگی ، حرارت ، روشنی اور قوت حاصل کرتی ہے۔ جن لوگوں پر قبلہ کی عظمت و اہمیت کا یہ پہلو واضح نہیں ہے ، وہ اکثر اس امر میں حیران ہوتے ہیں کہ اینٹ اور پتھر کے بنے ہوئے ایک مکان کو دین میں اس درجہ اہمیت کیوں دے دی گئی ہے۔ لیکن اوپر کی تفصیل سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ اصل اہمیت اینٹ پتھر کے مکان کی نہیں ، بلکہ ان عظیم روایات کی ہے جو اس گھر سے وابستہ ہیں اور جو اس دنیا کی روحانی و ایمانی زندگی کا واحد ذریعہ ہیں۔ اِن روایات کی وجہ سے ملت کے نظام اجتماعی میں اس گھر کو وہی اہمیت حاصل ہے جو ایک جسم کے نظام میں قلب کو حاصل ہوتی ہے۔ جس طرح قلب کے بغیر جسم کا وجود نہیں ، اسی طرح قبلہ کے بغیر ملت کا کوئی تصور نہیں ۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٣٧٣) یعنی اس فیصلے کے لیے کہ کون حق کی راہ پر چلنے والا تھا اور کس نے ضد اور ہٹ دھرمی کا رویہ اختیار کیا۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 149


وَ مِنۡ حَیۡثُ خَرَجۡتَ فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ؕ وَ اِنَّہٗ لَلۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۴۹﴾
اوپر آیت ١٤٤ میں یہ بات اگرچہ واضح کردی گئی تھی کہ آدمی جہاں کہیں بھی ہو ، اسے قبلہ ہی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنی چاہیے ، لیکن یہودونصاریٰ جس گمراہی میں مبتلا ہوئے ، اس کے پیش نظر ضروری ہوا کہ پوری صراحت کے ساتھ یہ بتادیا جائے کہ حضر کی طرح سفر میں بھی قبلے کا اہتمام لازم ہے تاکہ مسجد حرام سے اس امت کا تعلق کسی حالت میں منقطع نہ ہونے پائے. یہ تنبیہ اس لیے فرمائی ہے کہ عذر سفر کی بنا پر کوئی شخص اس معاملے میں بےپروائی اور سہل انگاری کا رویہ اختیار نہ کرے۔ واحد کے صیغے سے خطاب کا اسلوب اس سلسلہ بیان کی دوسری آیات کی طرح اس آیت کے شروع میں بھی ہے ، لیکن ’ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ‘ کے الفاظ سے یہاں واضح کردیا ہے کہ مخاطب سب مسلمان ہیں۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 150


وَ مِنۡ حَیۡثُ خَرَجۡتَ فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ؕ وَ حَیۡثُ مَا کُنۡتُمۡ فَوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ شَطۡرَہٗ ۙ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَیۡکُمۡ حُجَّۃٌ ٭ۙ اِلَّا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡہُمۡ ٭ فَلَا تَخۡشَوۡہُمۡ وَ اخۡشَوۡنِیۡ ٭ وَ لِاُتِمَّ نِعۡمَتِیۡ عَلَیۡکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۵۰﴾ۙۛ
سفر اور حضر ، دونوں حالتوں سے متعلق یہ احکام اس سے متصل پہلے بیان ہوچکے ہیں۔ یہاں انھیں اکٹھے اور بعینہ انھی الفاظ میں دہرانے سے کیا مقصود ہے ؟ آیت پر تدبر کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اس سے مقصود ان کی وہ تین عظیم حکمتیں بیان کرنا ہے جن کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ یہ حکمتیں ان دونوں ہی حکموں سے متعلق ہیں۔ قرآن نے ان کے بیان سے پہلے تمہید کے طور پر ان حکموں کو دہرا کر ذہنوں کو ان کی طرف ایک مرتبہ پھر متوجہ کردیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس شدومد کے ساتھ سفر اور حضر میں ، اندر باہر ، ہر جگہ اور ہر صورت میں بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا یہ حکم کوئی معمولی حکم نہیں ہے۔ یہ نہایت عظیم حکمتوں اور مصلحتوں پر مبنی حکم ہے۔ اس وجہ سے اس کا پورا اہتمام ہونا چاہیے اور اس کی یہ حکمتیں بھی ہر شخص کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئیں۔ یہ پہلی حکمت بیان ہوئی ہے۔ اصل الفاظ ہیں : ’ لِءَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّۃٌ‘ ۔ ان میں ’ النَّاس ‘ سے مراد اہل کتاب ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ قبلہ کے بارے میں ان کی سہل انگاری اور مشرق و مغرب کے اختلافات پر جو کچھ ہم نے کہا ہے ، وہی کچھ انھیں کہیں تمہارے متعلق کہنے کا موقع نہ مل جائے اور اس سے حجت پکڑ کر یہ اس دعوت کے خلاف کوئی وسوسہ اندازی نہ کریں جو اس وقت برپا ہے۔ یہ دوسری حکمت ہے اور اس میں نعمت سے مراد وہی نعمت ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) سے اس وقت فرمایا تھا جب وہ اپنے بیٹے کی قربانی کے امتحان میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس وقت ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ان کے اس بیٹے کی نسل سے ایک عظیم امت برپا ہوگی جس سے دنیا کی تمام قومیں دین کی برکت پائیں گی ۔ مدعا یہ ہے کہ تحویل قبلہ سے جس اتمام نعمت کی ابتدا ہو رہی ہے ، اس کے پیش نظر تمہیں پوری طرح متنبہ رہنا چاہیے کہ تم سے اس معاملے میں کوئی ایسی غلطی نہ ہو جو تمہارے لیے کسی محرومی کا باعث بن جائے۔ اِس سے مراد وہ راستہ ہے جسے قرآن میں ’ مِلَّۃَ اِبْرٰہٖمَ ‘ سے تعبیر کیا گیا اور جس کے متعلق سورة انعام (٦) کی آیت ١٦١ میں ارشاد ہوا ہے : ’ قُلْ اِنَّنِیْ ھَدٰنِیْ رَبِّیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ، دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا ‘ (کہہ دو : میرے پروردگار نے میری رہنمائی ایک سیدھی راہ کی طرف فرمائی ہے، وہی دین قیم ، یعنی ابراہیم کی ملت جو بالکل یکسو تھا ) ۔ بیت اللہ اسی ملت کی طرف رہنمائی کا نشان ہے۔ لہٰذا فرمایا کہ قبلے کے معاملے میں اس اہتمام کی ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ خدا تک پہنچانے والا یہ سیدھا اور فطری راستہ تمہاری نگاہوں سے کبھی اوجھل نہ ہو۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 151


کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡکُمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡکُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیۡکُمۡ وَ یُعَلِّمُکُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمۡ مَّا لَمۡ تَکُوۡنُوۡا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۵۱﴾ؕۛ
اصل میں لفظ ’ کَمَا ‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ جس طرح تشبیہ کے لیے آتا ہے ، اسی طرح اس موقع پر بھی استعمال ہوتا ہے جس موقع پر ہم ’ چنانچہ ‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ یہاں ، اگر غور کیجیے تو یہ اسی مفہوم میں آیا ہے۔’ آیۃ ‘ عربی زبان میں اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز پر دلیل لائی جائے۔ قرآن کا ہر جملہ کسی نہ کسی حقیقت کے لیے دلیل وبرہان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے لیے ’ آیۃ ‘ کا لفظ اسی رعایت سے اختیار کیا گیا ہے۔ آیتیں سنانے کے لیے اصل میں ’ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ اس زور و اختیار کو ظاہر کرتے ہیں جس کے ساتھ اللہ کا رسول اس کے سفیر کی حیثیت سے لوگوں کو اس کا فرمان پڑھ کر سناتا ہے اور پھر خدا کی عدالت بن کر اس کا فیصلہ ان پر نافذ کرتا ہے۔ تزکیہ کے معنی کسی چیز کو آلایشوں سے پاک کرنے کے بھی ہیں اور نشوونما دینے کے بھی۔ انبیاء (علیہم السلام) انسانوں کو جس قانون و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، اس سے یہ دونوں ہی چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔ آیت میں اس کا ذکر جس طریقے سے ہوا ہے ، اس سے واضح ہے کہ پورے دین کا مقصد درحقیقت یہی ہے۔ چنانچہ تزکیہ کوئی الگ چیز نہیں ، بلکہ قانون و حکمت کا حاصل ہے۔ انسان جب انھیں پوری طرح اختیار کرلیتا ہے تو تزکیہ اس کے لازمی نتیجے کے طور پر اسے حاصل ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے کہیں اور جانے اور کچھ اور کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اصل میں ’ یُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’ الْکِتٰب ‘ قرآن کی زبان میں جس طرح خط اور کتاب کے معنی میں آتا ہے ، اسی طرح قانون کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔ قرآن کے نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اور ’ الْحِکْمَۃ ‘ جب اس طرح عطف ہو کر آتے ہیں تو ’ الْکِتٰب ‘ سے شریعت اور ’ الْحِکْمَۃ ‘ سے دین کی حقیقت اور ایمان و اخلاق کے مباحث مراد ہوتے ہیں۔ یہاں بھی یہی صورت ہے اور اس سے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی یہ خصوصیت واضح ہوتی ہے کہ آپ کی دعوت قانون و حکمت ، دونوں کی جامع ہے۔ اس کے لیے ’ یُعَلِّمُکُم ‘ کا فعل بالکل اسی طرح آیا ہے، جس طرح ’ اَلرَّحْمٰنُ ، عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ‘ میں ہے ، یعنی تمہارے اندر وہ رسول بھیجا ہے جو تمہیں قانون و حکمت کا علم دے گا۔
الرحمن ٥٥: ١۔ ٢۔
 
Top