• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر البیان از جاوید احمد غامدی پارہ نمبر 3 یونیکوڈ

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ البقرة : آیت 253


تِلۡکَ الرُّسُلُ فَضَّلۡنَا بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ۘ مِنۡہُمۡ مَّنۡ کَلَّمَ اللّٰہُ وَ رَفَعَ بَعۡضَہُمۡ دَرَجٰتٍ ؕ وَ اٰتَیۡنَا عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ الۡبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدۡنٰہُ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَا اقۡتَتَلَ الَّذِیۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُمُ الۡبَیِّنٰتُ وَ لٰکِنِ اخۡتَلَفُوۡا فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ اٰمَنَ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ کَفَرَ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَا اقۡتَتَلُوۡا ۟ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَفۡعَلُ مَا یُرِیۡدُ ﴿۲۵۳﴾٪
اس سے مراد وہ مخاطبہ الٰہی ہے جس سے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) براہ راست مشرف ہوئے۔ یہ ان کی فضیلت کا خاص پہلو ہے۔ پرانے صحیفوں میں ’ رُوْحُ الْقُدُس ‘ سے جبرائیل امین مراد لیے جاتے ہیں۔ سیدنا مسیح (علیہ السلام) کے لیے روح القدس کی تائید کا ذکر اس لیے کیا جاتا ہے کہ ان سے جو کھلے کھلے معجزے صادر ہوئے، یہود نے اپنی بدبختی کے باعث انھیں بدروحوں کے سردار بعلز بول کی تائید کا نتیجہ قرار دیا۔ یعنی جس نے جس نبی اور رسول کو مانا ، ’ آں چہ خوباں ہمہ دارند وتو تنہاداری ‘ کا مصداق بنا کر مانا۔ چنانچہ دوسرے کسی نبی یا رسول کے لیے کوئی فضیلت ماننا اس کے نزدیک ایمان کے منافی قرار پایا، یہاں تک کہ نوبت اللہ کے نبیوں اور رسولوں کو جھٹلانے تک پہنچ گئی۔ بنی اسرائیل کا معاملہ بھی یہی تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ماننے کے نتیجے میں خدا کی آخری ہدایت کا ماخذ آپ قرار پائیں گے اور یہ ان کے پیغمبروں پر آپ کی فضیلت ماننے کے مترادف ہوگا۔ یعنی اپنے علم اور اپنی حکمت کے مطابق جس چیز کو درست سمجھتا ہے، کرتا ہے۔ تمہاری خواہشوں سے اس کا کوئی ارادہ تبدیل نہیں ہوسکتا۔ سو اس نے یہی درست سمجھا کہ اس معاملے میں بندوں کو آزادی دے کہ اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ وہ کفر و ایمان میں سے جو چاہیں اختیار کرلیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔۔(یہ) اللہ تعالیٰ نے اس سنت اللہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو ہدایت و ضلالت کے باب میں اس نے پسند فرمائی ہے اور جس کا قرآن میں جگہ جگہ مختلف اسلوبوں سے بیان ہوا ہے۔ وہ سنت اللہ یہ ہے کہ اس نے ہدایت و ضلالت کے معاملے میں جبر کا طریقہ نہیں اختیار فرمایا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتا تو اس میں شبہ نہیں کہ کسی کے لیے بھی ایمان کو چھوڑ کر کفر کی راہ اختیار کرنے کی کوئی گنجایش باقی نہ رہتی۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا، بلکہ بندوں کو آزادی دی کہ وہ اپنی سوچ سمجھ اور اپنے اختیار و ارادہ کی آزادی کے ساتھ چاہیں کفر کی راہ اختیار کریں ، چاہیں ایمان کی راہ اختیار کریں۔ اگر وہ ایمان کی راہ اختیار کریں گے تو اس کا صلہ پائیں گے اور اگر کفر کی راہ اختیار کریں گے تو اس کا انجام دیکھیں گے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥٨٣)

 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ البقرة : آیت 255


اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَۚ اَلۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ ۬ۚ لَا تَاۡخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوۡمٌ ؕ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشۡفَعُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ ؕ یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ ۚ وَ لَا یُحِیۡطُوۡنَ بِشَیۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ ۚ وَ لَا یَـُٔوۡدُہٗ حِفۡظُہُمَا ۚ وَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡمُ ﴿۲۵۵﴾
اصل میں لفظ ’ الْقَیُّوْمُ ‘ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی ہیں وہ ہستی جو خود اپنے بل پر قائم اور دوسروں کو قائم رکھنے والی ہو۔ اس سے اور اس سے پہلے ’ حَیّ ‘ کی صفت سے قرآن نے ان تمام معبودوں کی نفی کردی ہے جو نہ زندہ ہیں نہ دوسروں کو زندگی دے سکتے ہیں، اور نہ اپنے بل پر قائم ہیں، نہ دوسروں کو قائم رکھنے والے ہیں، بلکہ خود اپنی زندگی اور بقا کے لیے ایک حی وقیوم کے محتاج ہیں۔ اِس نفی سے نیند کی ابتدا اور انتہا، دونوں کی نفی کی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غفلت کے اثرات سے بالکل آخری درجے میں پاک ہے۔ یعنی جب اس کی خدائی میں کسی کا کوئی حصہ نہیں ہے تو پھر کس کی مجال ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور میں سفارش کی جسارت کرے۔یعنی جب لوگوں کے ماضی اور مستقبل کی ہر چیز سے وہ خود واقف ہے اور کوئی دوسرا اس کے علم کے کسی حصے کو اس کی مرضی کے بغیر اپنی گرفت ادراک میں بھی نہیں لے سکتا تو سفارش کس بنا پر کی جائے گی ؟ کیا کوئی شخص اس لیے سفارش کرے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معلومات میں اضافہ کرسکتا ہے ؟ اصل میں لفظ ’ کُرْسِیّ ‘ آیا ہے۔ عربی زبان میں یہ اقتدار کی تعبیر ہے۔ ہماری اردو میں بھی یہ لفظ اس مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ ان کو سنبھالنے کے لیے اسے کسی سہارے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ اس بنا پر کوئی اس کا شریک وسہیم سمجھا جائے۔ لہٰذا اس کے علم اور اس کی قدرت کو اپنے محدود پیمانوں سے ناپنے کی کوشش نہ کرو۔ اپنی صفات کے بارے میں جو کچھ وہ خود بتائے، صرف اسی کو ماننا کافی ہے۔ اس معاملے میں اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرنی چاہیے۔ دین میں بےروح فلسفیانہ مباحث اور شرک و بدعت کی راہیں اسی سے کھلتی ہیں۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ البقرة : آیت 256


لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۵۶﴾
اصل میں لفظ ’ الطَّاغُوْت ‘ آیا ہے، یعنی وہ جو خدا کے سامنے سرکشی ، تمرد اور استکبار اختیار کرے۔ اس میں اور ’ الشَّیْطٰن ‘ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ قرآن میں یہ دونوں بالکل ہم معنی استعمال ہوئے ہیں۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ البقرة : آیت 257


اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ۬ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَوۡلِیٰٓـُٔہُمُ الطَّاغُوۡتُ ۙ یُخۡرِجُوۡنَہُمۡ مِّنَ النُّوۡرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ؕ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۲۵۷﴾٪
اصل الفاظ ہیں : ’ یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ‘۔ ان میں ’ النُّوْر ‘ واحد اور ’ الظُّلُمٰت ‘ جمع استعمال ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس نور کا یہاں ذکر ہے ، اس سے مراد علم و عقل اور ایمان و اخلاق کا نور ہے۔ اس کے بارے میں بالبداہت واضح ہے کہ اس کا منبع بھی ایک ہی ہے ، یعنی پروردگار عالم اور اس میں انتشار و اختلاف بھی نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف علم و عقل اور ایمان و اخلاق سے محرومی کی ظلمتیں مختلف راستوں سے آتی ہیں اور ان میں انتشار و اختلاف بھی لازماً ہوتا ہے۔ہدایت و ضلالت کا جو قانون اس آیت میں بیان ہوا ہے ، اس کی وضاحت استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس طرح فرمائی ہے :”۔۔ ہدایت و ضلالت کے معاملے میں اصل اہمیت رکھنے والی شے یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کا دامن پکڑتا ہے یا کسی غیر کا ۔ اگر خدا کا دامن پکڑتا ہے تو خدا اپنے بندے کا کارساز و مددگار بن جاتا ہے اور اپنی توفیق بخشی سے درجہ بہ درجہ اسے نفس و شہوات کی تمام تاریکیوں اور کفر ، شرک اور نفاق کی تمام ظلمات سے نکال کر ایمان کامل و توحید خالص کی شاہراہ پر لاکھڑا کرتا ہے۔ اور اگر بندہ اپنے رب سے منہ موڑ کر کسی اور راہ پر جا نکلتا ہے تو پھر وہ شیطان اور اس کی ذریات کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اور وہ اس کی نکیل اپنے ہاتھ میں لے کر عقل و فطرت کی ہر روشنی سے دور کرکے اس کو ضلالت کے کھڈ میں گرا دیتے ہیں۔ مشہور مثل ہے : ” خانہ خالی رادیو می گیرد ‘ ‘، جس گھر میں آدمی نہیں رہتا، وہ شیطان کا مسکن بن جاتا ہے۔ اسی طرح جو دل ایمان سے خالی ہوتا ہے ، وہ شیطان کا اڈا بن جاتا ہے ، اور پھر شیاطین ایسے شخص کو گمراہی کی وادیوں میں سرگشتہ و حیران رکھتے ہیں۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥٩٨)
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ البقرة : آیت 258


اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡ حَآجَّ اِبۡرٰہٖمَ فِیۡ رَبِّہٖۤ اَنۡ اٰتٰىہُ اللّٰہُ الۡمُلۡکَ ۘ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ رَبِّیَ الَّذِیۡ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ۙ قَالَ اَنَا اُحۡیٖ وَ اُمِیۡتُ ؕ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ فَاِنَّ اللّٰہَ یَاۡتِیۡ بِالشَّمۡسِ مِنَ الۡمَشۡرِقِ فَاۡتِ بِہَا مِنَ الۡمَغۡرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیۡ کَفَرَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۲۵۸﴾ۚ
سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ مناظرہ ” تالمود “ میں بھی نقل ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ہم عصر بادشاہ نمرود کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس مناظرے کی وجہ غالباً یہ ہوئی کہ اس زمانے کے بادشاہ اپنے آپ کو اوتار بادشاہ سمجھتے تھے۔ قدیم صحیفوں میں ذکر ہے کہ نمرود کی قوم جن دیوتاؤں کو پوجتی تھی، ان میں سب سے بڑے دیوتا کا درجہ سورج کو حاصل تھا۔ نمرود کو بھی لازماً اسی کا اوتار مانا جاتا رہا ہوگا ۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف سے دعوت توحید کے بعد یہ مناظرہ اسی پس منظر میں ہوا ہے۔ نمرود نے کہا ہوگا کہ سورج دیوتا کے اوتار کی حیثیت سے تمہارا رب تو میں ہوں۔ مجھے چھوڑ کر یہ تم کس رب کو ماننے کی دعوت دے رہے ہو ۔ اصل میں ’ اَنْ اتٰہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ اَنْ ‘ سے پہلے ’ ب ‘ عربی قاعدے کے مطابق حذف ہوگئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جو اقتدار اسے عطا فرمایا تھا، وہی اس کے لیے فتنہ بن گیا اور اس پر خدا کا شکر ادا کرنے کے بجائے اس نے اپنے آپ کو خدا کے اوتار کی حیثیت سے پیش کرنا شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ کی تعریف میں سب سے زیادہ واضح بات یہی ہوسکتی تھی جو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمائی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ آدمی کے دماغ میں خلل نہ ہو تو زندگی اور موت کے سوال پر ادنیٰ تامل بھی اسے خدا کے ماننے پر مجبور کردیتا ہے ۔ یعنی جس کا چاہوں، سر قلم کردیتا ہوں اور جس کو چاہوں ، بخش دیتا ہوں ۔ نمرود کا معارضہ سراسر احمقانہ تھا، لیکن انبیاء (علیہم السلام) چونکہ مناظر نہیں ، بلکہ داعی ہوتے ہیں، اس لیے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کو مزید کٹ حجتی کا موقع دینے کے بجائے اپنے پروردگار کی ایک ایسی صفت بیان کردی جس میں وہ بحث کے لیے کوئی راہ نہیں پاسکتا تھا۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس حجت ابراہیمی کے ایک دوسرے پہلو کی وضاحت میں لکھا ہے : ”۔۔ یہاں بلاغت کا یہ نکتہ ملحوظ رہے کہ حضرت ابراہیم نے خاص طور پر سورج کی تسخیر کا ذکر فرمایا جس کو نمرود کی نظر میں معبود اعظم کی حیثیت حاصل تھی اور وہ اپنے آپ کو اسی معبود اعظم کا مظہر بنائے ہوئے بیٹھا تھا۔ بہترین استدلال اور لطیف ترین طنز کی یہ ایک نہایت خوب صورت مثال ہے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٦٠٠) یہ اس مدعا کا بیان ہے جسے واضح کرنے کے لیے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ واقعہ سنایا گیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں : ”۔۔ اس میں ظالم کا لفظ خاص طور پر قابل غور ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں ظالم سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ کی نعمتوں اور اس کی بخشی ہوئی قوتوں اور صلاحیتوں کو بےجا استعمال کرتے ہیں، جو اللہ کے انعامات کو اس کا فضل قرار دینے کے بجائے ان کو اپنا حق سمجھتے ہیں ، جو نعمتوں پر خداے منعم کے شکر گزار ہونے کے بجائے غرور اور گھمنڈ میں مبتلا ہوتے اور ابلیس کی طرح اکڑتے ہیں، جو خدا کی بندگی اور فرمان برداری کی روش اختیار کرنے کے بجائے خود اپنی خدائی کے تخت بچھاتے اور اپنے کو رب ٹھیراتے ہیں۔ فرمایا کہ جو لوگ اس ظلم میں مبتلا ہوتے ہیں، ان پر ہدایت کی راہ نہیں کھلا کرتی۔ ایسے لوگوں کے سامنے حق کتنے ہی واضح طریقے پر آئے ، وہ اس کو قبول کرنے کے بجائے بحث اور کٹ حجتی کی کوئی نہ کوئی راہ ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ان کو اس کی کوئی راہ ملتی نظر نہیں آتی تو وہ نمرود کی طرح ہ کے بکے اور ششدر ہو کر تو رہ جاتے ہیں ، لیکن حق کو قبول پھر بھی نہیں کرتے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٦٠٠)
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ البقرة : آیت 259


اَوۡ کَالَّذِیۡ مَرَّ عَلٰی قَرۡیَۃٍ وَّ ہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا ۚ قَالَ اَنّٰی یُحۡیٖ ہٰذِہِ اللّٰہُ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ۚ فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ ؕ قَالَ کَمۡ لَبِثۡتَ ؕ قَالَ لَبِثۡتُ یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ ؕ قَالَ بَلۡ لَّبِثۡتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانۡظُرۡ اِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَمۡ یَتَسَنَّہۡ ۚ وَ انۡظُرۡ اِلٰی حِمَارِکَ وَ لِنَجۡعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَ انۡظُرۡ اِلَی الۡعِظَامِ کَیۡفَ نُنۡشِزُہَا ثُمَّ نَکۡسُوۡہَا لَحۡمًا ؕ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ ۙ قَالَ اَعۡلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۲۵۹﴾
پہلی مثال شیاطین کے اندھیروں کی طرف نکال لے جانے کی تھی۔ اب یہ ان لوگوں کی مثال بیان ہو رہی ہے جنھیں ان کا پروردگار اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے. یہ غالباً حزقی ایل نبی کے ان مشاہدات میں سے ہے جو بنی اسرائیل میں دعوت و اصلاح اور ان کے احیا کی جدوجہد کے لیے اٹھنے سے پہلے انھیں کرائے گئے۔ بائیبل میں ان کا اسی نوعیت کا ایک مشاہدہ اس طرح بیان ہوا ہے :” خداوند کا ہاتھ مجھ پر تھا اور اس نے مجھے اپنی روح میں اٹھا لیا اور اس وادی میں جو ہڈیوں سے پر تھی مجھے اتار دیا اور مجھے ان کے آس پاس چوگرد پھرایا ، اور دیکھ وہ وادی کے میدان میں بکثرت اور نہایت سوکھی تھیں ، اور اس نے مجھے فرمایا : اے آدم زاد ، کیا یہ ہڈیاں زندہ ہوسکتی ہیں ؟ میں نے جواب دیا : اے خداوند خدا ، تو ہی جانتا ہے۔ پھر اس نے مجھے فرمایا : تو ان ہڈیوں پر نبوت کر اور ان سے کہہ : اے سوکھی ہڈیو ، خداوند کا کلام سنو : خداوند خدا ان ہڈیوں کو یوں فرماتا ہے کہ میں تمہارے اندر روح ڈالوں گا اور تم زندہ ہوجاؤ گی ، اور تم پر نسیں پھیلاؤں گا اور گوشت چڑھاؤں گا اور تم کو چمڑا پہناؤں گا اور تم میں دم پھونکوں گا اور تم زندہ ہوگی اور جانو گی کہ میں خداوند ہوں ۔ پس میں نے حکم کے مطابق نبوت کی، اور جب میں نبوت کر رہا تھا تو ایک شور ہوا اور دیکھ ، زلزلہ آیا اور ہڈیاں آپس میں مل گئیں ، ہر ایک ہڈی اپنی ہڈی سے۔ اور میں نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ نسیں اور گوشت ان پر چڑھ آئے اور ان پر چمڑے کی پوشش ہوگئی ، پر ان میں دم نہ تھا ۔ تب اس نے مجھے فرمایا کہ نبوت کر۔ تو ہوا سے نبوت کر ، اے آدم زاد ، اور ہوا سے کہہ کہ خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ اے دم ، تو چاروں طرف سے آ اور ان مقتولوں پر پھونک کہ زندہ ہوجائیں ۔ پس میں نے حکم کے مطابق نبوت کی اور ان میں دم آیا اور وہ زندہ ہو کر اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئیں ، ایک نہایت بڑا لشکر۔ “ (حزقی ایل ٣٧: ١۔ ١٠) اصل الفاظ ہیں : ’ وَھِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِھَا ‘۔ یہ گری ہوئی بستی کی تصویر ہے جس میں چھتوں کے زمین بوس ہوجانے کے بعد دیواریں ان پر اوندھی پڑی ہوتی ہیں۔ یہ کس نوعیت کا سوال ہے ؟ استاذ امام اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :”۔۔ اس کا یہ سوال۔۔ انکار کی نوعیت کا نہیں، بلکہ اظہار حیرت کی نوعیت کا ہے۔ انسان بسا اوقات ایک چیز کو مانتا ہے ، اس لیے کہ عقل و فطرت اس کی گواہی دے رہی ہوتی ہے ، لیکن وہ بات بجائے خود ایسی حیران کن ہوتی ہے کہ اس سے متعلق دل میں بار بار یہ سوال ابھرتا رہتا ہے کہ یہ کیسے واقع ہوگی ؟ یہ سوال انکار کے جذبے سے نہیں، بلکہ جستجوے حقیقت کے جوش سے ابھرتا ہے اور خاص طور پر ان مواقع پر زیادہ زور سے ابھرتا ہے جب سامنے کوئی ایسا منظر آجائے جو باطن کو جھنجھوڑ دینے والا ہو۔ یہ حالت ایمان کے منافی نہیں، بلکہ اس ایمان کے مقتضیات میں سے ہے جس کی بنیاد عقل و بصیرت پر ہو ۔ یہ سلوک باطن کی ایک ریاضت ہے جس سے ہر طالب حقیقت کو گزرنا پڑتا ہے ، اور یہ سفر برابر اس وقت تک جاری رہتا ہے، جب تک ’ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ ‘ کے انوار سے قلب و نظر جگمگا نہ جائیں ۔ اس سفر میں ہر منزل اگرچہ خوب سے خوب تر کی طرف اقدام کی نوعیت کی ہوتی ہے ، لیکن عارف کی نظر میں اس کا ہر آج اس کے گزشتہ کل سے اتنا زیادہ روشن ہوتا ہے کہ وہ کل اس کو آج کے مقابل میں شب نظر آتا ہے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٦٠١) اصل میں ’ وَانْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ وَ لِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ اُنْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ ‘ کے بعد ’ کیف نحییہ ‘ یا اس کے ہم معنی الفاظ حذف ہوگئے ہیں۔ اسی طرح ’ وَلِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ ‘ سے پہلے اس کا معطوف علیہ حذف ہے۔ ہم نے ترجمے میں اسے جس طرح کھولا ہے ، اس سے پوری بات یہ سامنے آتی ہے کہ حزقی ایل نبی کو یہ مشاہدہ کرانے سے مقصود جہاں یہ تھا کہ خود انھیں موت کے بعد زندگی کے مسئلے میں شرح صدر حاصل ہو ، وہاں یہ بھی تھا کہ ان کا مشاہدہ بنی اسرائیل کے لیے اللہ تعالیٰ کی نشانی بنے اور اس کے نتیجے میں ان کے اندر حوصلہ پیدا ہو کہ اللہ انھیں بھی دوبارہ ایک زندہ قوم بنا دینے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ چنانچہ صحیفہ حزقی ایل کی جو عبارت اوپر نقل ہوئی ہے ، اس کا خاتمہ ان الفاظ پر ہوا ہے : ” تب اس نے مجھے فرمایا : اے آدم زاد ، یہ ہڈیاں تمام بنی اسرائیل ہیں۔ دیکھ ، یہ کہتے ہیں : ہماری ہڈیاں سوکھ گئیں اور ہماری امید جاتی رہی ، ہم تو بالکل فنا ہوگئے۔ اس لیے تو نبوت کر اور ان سے کہہ : خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ اے میرے لوگو ، دیکھو میں تمہاری قبروں کو کھولوں گا اور تم کو ان سے باہر نکالوں گا اور اسرائیل کے ملک میں لاؤں گا ۔ اور اے میرے لوگو ، جب میں تمہاری قبروں کو کھولوں گا اور تم کو ان سے باہر نکالوں گا، تب تم جانو گے کہ خداوند میں ہوں ۔ اور میں اپنی روح تم میں ڈالوں گا اور تم زندہ ہوجاؤ گے اور میں تم کو تمہارے ملک میں بساؤں گا ، تب تم جانو گے کہ میں خداوند نے فرمایا اور پورا کیا، خداوند فرماتا ہے۔ “ (٣٧: ١١۔ ١٤) یعنی اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ کھانے اور پینے کی چیزیں سو سال پڑی رہیں اور ان میں کوئی تغیر نہ ہو اور اس پر بھی کہ گدھے کی ہڈیاں تک سڑ کر بوسیدہ ہوجائیں اور وہ چشم زدن میں انھیں اٹھا کر دوبارہ زندگی بخش دے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ البقرة : آیت 260


وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ رَبِّ اَرِنِیۡ کَیۡفَ تُحۡیِ الۡمَوۡتٰی ؕ قَالَ اَوَ لَمۡ تُؤۡمِنۡ ؕ قَالَ بَلٰی وَ لٰکِنۡ لِّیَطۡمَئِنَّ قَلۡبِیۡ ؕ قَالَ فَخُذۡ اَرۡبَعَۃً مِّنَ الطَّیۡرِ فَصُرۡہُنَّ اِلَیۡکَ ثُمَّ اجۡعَلۡ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنۡہُنَّ جُزۡءًا ثُمَّ ادۡعُہُنَّ یَاۡتِیۡنَکَ سَعۡیًا ؕ وَ اعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۶۰﴾٪
یہ اس بات کی دوسری مثال ہے کہ اللہ تعالیٰ ماننے والوں کا مددگار ہے اور وہ اپنے ان بندوں کو شرح صدر اور اطمینان قلب سے محروم نہیں رکھتا جو سچے دل سے اس کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر اس کی حکمت کے خلاف نہ ہو تو اپنے خاص بندوں کے باطن کی کوئی خلش دور کرنے کے لیے وہ انھیں اس طرح کے غیر معمولی مشاہدات بھی کرا دیتا ہے . یہ ہدایت غالباً اس لیے ہوئی کہ چار پرندے چاروں سمتوں سے دوڑتے ہوئے آئیں گے تو ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے گویا صور پھونکنے کے بعد تمام مخلوق کے اسی طرح ہر سمت سے اپنے پروردگار کی طرف دوڑنے کی تصویر آجائے گی ۔ اِس ہدایت کا مقصد یہ تھا کہ پرندے زندہ ہو کر آئیں تو سیدنا ابراہیم کو کوئی اشتباہ نہ ہو کہ یہ وہی پرندے ہیں جو انھوں نے ذبح کر کے پہاڑی پر رکھے تھے۔ نیز یہ بات بھی واضح ہوجائے کہ قیامت میں اٹھتے ہی دنیوی زندگی کی تمام یادداشتیں آپ سے آپ زندہ ہوجائیں گی۔ یہاں تک کہ مانوس پرندے اپنے مالکوں کی آوازیں بھی اسی طرح پہچان لیں گے ، جس طرح دنیا میں پہچانتے تھے . چنانچہ وہ جب چاہے گا ، لوگوں کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا اور وہ لازماً ایسا کرے گا، اس لیے کہ یہی اس کی حکمت کا تقاضا بھی ہے۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ البقرة : آیت 261


مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۶۱﴾
فی سبیل اللہ ‘ کا مفہوم : ” فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ “ قرآن کی ایک اصلاح ہے جس کے تحت وہ سارے کام آتے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کیے جائیں۔ حالات کا اعتبار سے کوئی کام زیادہ اہم ہوسکتا ہے، کوئی کم، لیکن جو کام بھی رضائے الٰہی کے لیے اور شریعت کی ہدایت کے تحت کیا جائے وہ فی سبیل اللہ ہے۔ ’ انفاق فی سبیل اللہ ‘ کی تمثیل : یہ اس بڑھوتری کی تمثیل ہے جو راہ خدا میں خرچ کیے ہوئے مال کے اجر وثواب میں ہوگی۔ فرمایا کہ جس طرح ایک دانے سے سات بالیں نکلیں اور ہر بالی میں سو سو دانے ہوں اسی طرح ایک نیکی کا صلہ سات سو گنے تک بندے کو آخرت میں ملے گا۔ اس مضمون کی وضاحت احادیث میں بھی ہوئی ہے۔ حضور ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا ہے کہ نیکیوں کا بدلہ دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک ملے گا۔ یہ فرق ظاہر ہے کہ عمل کی نوعیت، عمل کے زمانے اور عمل کرنے والے کے ظاہری و باطنی حالات پر مبنی ہوگا۔ اگر ایک نیکی مشکل حالات اور تنگ وسائل کے ساتھ کی گئی ہے تو اس کا اجر زیادہ ہوگا اور اگر ایک نیکی آسان حالات اور کشادہ وسائل کے ساتھ کی گئی ہے تو اس کا اجر کم ہوگا۔ پھر نیکی کرنے والے کے احساسات کا بھی اس پر اثر پڑے گا۔ ایک نیکی پوری خوش دلی اور پورے جوش و خروش کے ساتھ کی گئی ہے اور دوسری سرد مہری اور نیم دلی کے ساتھ۔ ظاہر ہے کہ دونوں کے اجر وثواب میں بھی فرق ہوگا۔ آیت میں اجر کی وہ شرح بیان ہوئی ہے جو سب سے اونچی ہے اور فرمایا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہتا ہے بڑھاتا ہے “ یہ اس ضابطے کی طرف اشارہ ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی چاہنا بھی عدل و حکمت کے خلاف نہیں ہوتا اس وجہ سے یہ بڑھوتری انھی کے لیے وہ چاہتا ہے جو اس کے ٹھہرائے ہوئے ضابطے کے مطابق اس کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ‘ کا محل : ” وَاسِعٌ عَلِیْمٌ “ میں ایک تو یہ بات واضح فرمائی کہ اجر کی اس وسعت پر بندہ اپنی تنگ دامانی پر قیاس کر کے حیران ہوسکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ غیر محدود سمائی رکھنے والا ہے، دوسری یہ بات فرمائی کہ خدا کی راہ میں جو چھوٹی یا بڑی، پوشیدہ یا علانیہ نیکی کی جاتی ہے سب اس کے علم میں رہتی ہے۔ اس وجہ سے ہر شخص اپنے اجر کی طرف سے مطمئن رہے۔ جب دینے والے کا خزانہ بھی غیر محدود ہے اور اس کا علم بھی غائب و حاضر سب پر محیط ہے تو تشویش کی گنجائش کہاں باقی رہی !
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ البقرة : آیت 262


اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ثُمَّ لَا یُتۡبِعُوۡنَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا مَنًّا وَّ لَاۤ اَذًی ۙ لَّہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۲۶۲﴾
یعنی کم ظرفوں کی طرح کسی کو کچھ دے کر طعن وتشنیع اور تو ہیں و تحقیر کا نشانہ نہیں بناتے۔ یہ جنت کی تعبیر ہے اور استاذ امام کے الفاظ میں یہاں اس تعبیر میں ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف بھی ہے کہ انفاق کرنے والے اس جنت کے سزاوار اس لیے ٹھیریں گے کہ نہ تو خدا کی راہ میں خرچ کرکے انھوں نے کبھی اس بات کا غم کیا کہ کیوں خرچ کردیا اور نہ کبھی شیطان کے ڈراو وں سے متاثر ہو کر مستقبل کے اندیشوں میں مبتلا ہوئے کہ کل کیا کھائیں گے۔ ان کے اس حوصلے کے صلے میں خدا ان کو سات سو گنے تک اجر بھی دے گا اور وہ بہشت بھی جو ماضی اور مستقبل، دونوں طرف سے انھیں مطمئن کر دے گی ۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ البقرة : آیت 264


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِکُمۡ بِالۡمَنِّ وَ الۡاَذٰی ۙ کَالَّذِیۡ یُنۡفِقُ مَالَہٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِؕ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ صَفۡوَانٍ عَلَیۡہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَکَہٗ صَلۡدًا ؕ لَا یَقۡدِرُوۡنَ عَلٰی شَیۡءٍ مِّمَّا کَسَبُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۲۶۴﴾
یہ اس کسان کی مثال ہے جس نے کسی چٹان پر مٹی دیکھی اور اس کو زرخیز پا کر کھیتی شروع کردی ، لیکن بارش پڑی اور اس کے ایک ہی دونگڑے سے ساری مٹی فصل سمیت وادی میں بہ گئی اور نیچے سے بالکل سپاٹ پتھر نکل آیا ۔ فرمایا ہے کہ خیرات کے بعد احسان جتانے اور دل آزاری کرنے والوں کی خیرات بھی اس طرح برباد ہوجائے گی اور آخرت میں ان کو اس کا کوئی اجر نہ ملے گا ۔ ایمان پر ہونے کے باوجود ان کا یہ عمل اسی طرح ضائع ہوجائے گا، جس طرح دکھانے کے لیے خرچ کرنے والے منکروں کے اعمال ضائع ہوں گے ۔یعنی ان کے اعمال کے ثمرات و نتائج تک نہیں پہنچنے دیتا اور دنیا میں بہت کچھ کرنے کے باوجود انجام کے لحاظ سے وہ بالکل نامراد ہو کر رہ جاتے ہیں۔
 
Top