• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر سر سید احمد خاں پارہ نمبر 7 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واذاسمعوا : سورۃ المآئدہ : آیت 110

اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ اذۡکُرۡ نِعۡمَتِیۡ عَلَیۡکَ وَعَلٰی وَالِدَتِکَ ۘ اِذۡ اَیَّدۡتُّکَ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ ۟ تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الۡمَہۡدِ وَکَہۡلًا ۚ وَ اِذۡ عَلَّمۡتُکَ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ وَالتَّوۡرٰىۃَ وَالۡاِنۡجِیۡلَ ۚ وَ اِذۡ تَخۡلُقُ مِنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ بِاِذۡنِیۡ فَتَنۡفُخُ فِیۡہَا فَتَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذۡنِیۡ وَتُبۡرِیٴُالۡاَکۡمَہَ وَالۡاَبۡرَصَ بِاِذۡنِیۡ ۚ وَ اِذۡ تُخۡرِجُ الۡمَوۡتٰی بِاِذۡنِیۡ ۚ وَ اِذۡ کَفَفۡتُ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ عَنۡکَ اِذۡ جِئۡتَہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡہُمۡ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۱۰﴾

تفسیر سرسید :

( اذقال اللہ) اس مقام سے خدا تعالیٰ نے ان واقعات میں سے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر بچپن اور جوانی کے زمانہ میں گزرے تھے چند واقعات کا جن کا بیان سورة آل عمران میں بھی ہوچکا ہے بطور اپنے احسان اور اپنی نعمت کے بیان کرنا شروع کیا ہے بچپن کی حالت کو یا ددلایا ہے پھر نوعمری کے زمانہ کو یاد دلایا ہے پھر نبوت کے زمانہ کو یاد دلایا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ اس طرح کا طرز کلام نہایت دلچسپ اور محبت سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ایک اعلیٰ درجہ کے شخص کو اس کے بچپن کی بھولی بھالی باتیں یاد دلائی جاتی ہیں اور پھر ان کمالوں کا ذکر کیا جاتا ہے جن کو اس نے حاصل کیا ہے۔ ان دونوں زمانوں کی باتیں مل کر نہایت دلچسپ اور پر اثر ہوجاتی ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کی دونوں زمانوں کی باتوں کو یاد دلایا ہے اور یوں فرمایا ہے کہ تو اس بات کو یاد کر جب کہ میں نے روح القدس سے تیری مدد کی ۔ تو اس بات کو یاد کر جب کہ تونے بچپن میں گفتگو کی۔ تو اس بات کو یاد کر جب کہ میں نے تجھ کو کتاب اور حکمت سکھائی۔ تو اس وقت کو یاد کر جب کہ تو مٹی سے جانوروں کی مورتیں بناتا تھا اور ان میں پھونکتا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ وہ اللہ کے حکم سے زندہ ہوجاوینگی۔ تو اس وقت کو یاد کر جب کہ تو اندھوں اور کوڑھیوں کو اچھا کرتا تھا۔ تو اس وقت کو یاد کر جب کہ تو مردے کو زندہ کرتا تھا۔ تو اس وقت کو یاد کر جب کہ میں تجھ کو بنی اسرائیل سے بچایا۔ اس وقت کو یاد کر جب کہ میں نے حواریوں کے دل میں ڈالا کہ مجھ پر اور تجھ پر ایمان لاویں۔ تو اس وقت کو یاد کر جب کہ تجھ سے حواریوں نے آسمان پر سے رزق اترنے کی درخواست کی۔ تو اس وقت کو بھی یاد رکھ جب کہ میں تجھ کو اس شرک کی الزام سے جو تیری امت نے تجھ پر دھرا ہے بری کرونگا ۔ ان باتوں کے سوا سورة آل عمران میں ایک اور بات بھی بیان ہوئی ہے کہ حضرت عیسیٰ نے بنی اسرائیل سے کہا کہ میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی نشانی (یعنی احکام) لے کر آیا ہوں اور یہ بھی کہا کہ میں تم کو بتلا دونگا کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو۔
یہ سب وہ باتیں ہیں جن کو ہم ایک سلسلہ میں جمع کرکے ہر ایک کا اس ترتیب سے جدا جدا بیان کرینگے۔ اول تکلم فی المہد۔ دوم خلق طیر۔ سوم تائید روح القدس۔ چہارم تعلیم کتاب و حکمت۔ پنجم خدا کی نشانی کا لانا ۔ ششم حواریوں کے دل میں ایمان کا ڈالنا ۔ ہفتم اندھوں اور کوڑھیوں کو چنگا کرنا ہشتم موتے کو زندہ کرنا۔ نہم اخبار عن الغیب۔ دہم نزول مائدہ ۔ یازدہم بنی اسرائیل سے بچانا۔ دوازدہم ات حن المشرکین۔
اول۔ تکلم فی المہد
اس امر کی نسبت خدا تعالیٰ نے سورة آل عمران میں فرمایا ہے۔ ویکلم الناس فی المہد دکھلا۔ اور سورة مائدہ میں فرمایا ہے۔ تکلم الناس فی المھد دکھلا اور سورة مریم میں فرمایا ہے۔ فاشارت لیہ قالواکیف تکلم من کان فی المھد صبیاقال انی عبداللہ اتانی الکتاب وجعلنی نبی اء۔
ان آیتوں میں صرف لفظ مہد کا ہے جس پر بحث ہوسکتی ہے مگر مہد سے صرف صغر سنی کا زمانہ مراد ہے نہ وہ زمانہ جس میں کوئی بچہ بمقتضائے قانون قدرت کلام نہیں کرسکتا اس مضمون پر ہم ابھی سورة آل عمران میں بحث کرچکے ہیں۔
دوم۔ خلق طیر
یہ اس حالت کا ذکر ہے جب کہ حضرت عیسیٰ بچے تھے اور بچپن کے زمانہ میں بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے اس کی نسبت خدا نے سورة آل عمران میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے یوں فرمایا ہے کہ انی احلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر نانفخ فیہ فیکون طیرا باذن اللہ۔ اور سورة مائدہ میں یوں فرمایا ہے۔ واذتخلق من الطین کھیئۃ الطیر باذنی فتنفخ فیھا فتکون طیرا باذنی۔
سورة آل عمران میں یہ مضمون حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے متکلم کے صیغوں میں بیان ہوا ہے اور سورة مائدہ میں خدا کی طرف سے مخاطب کے صیفوں میں۔ اگر سورة آل عمران میں اس آیت سے پہلے یہ آیت ہے کہ انی قد جئتکم ربۃ من ربکم ۔ اور اس کی نسبت ہم نے ثابت کیا ہے کہ وہ سوال کے جواب میں ہے اسی سیاق پر یہ آیت ہے اور سوال کے جواب میں واقع ہوئی ہے تقدیر کلام کی یہ ہے کہ کسی شخص نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو مٹی سے جانوروں کی مورتیں بناتے دیکھ کر پوچھا کہ ۔ مانفعل ؟ قال مجیبا لہ بانی اخلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر الخ، تاریخ سے بھی پایا جاتا ہے کہ جانوروں کی مورتیں بنانے کی نسبت لوگوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے سوال بھی کیا تھا جیسا کہ ہم آگے بیان کرینگے۔
اب اس پر بحث یہ ہے کہ کیا درحقیقت یہ کوئی معجزہ تھا اور کیا درحقیقت قرآن مجید سے ان مٹی کے جانوروں کا جاندار ہوجانا اور اڑنے لگنا ثابت ہوتا ہے ؟ تمام مفسرین اور علمائے اسلام کا جواب یہ ہے کہ ہاں۔ مگر ہمارا جواب ہے کہ نہیں۔ بشرطیکہ دل و دماغ کو ان خیالات سے جو قرآن مجید پر غور کرنے اور قرآن مجید کا مطلب سمجھنے سے پہلے عیسائیوں کی صحیح و غلط روایات کی تقلید سے بیٹھا لیے میں خالی کرکے نفس قرآن مجید پر بنظر تحقیق غور کیا جاوے۔
سورة آل عمران میں جو یہ الفاظ ہیں کہ ” انی اخلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیر باذن اللہ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مٹی سے پرندوں کی مورتیں بناتا ہوں پھر ان میں پھوکونگا تاکہ وہ اللہ کے حکم سے پرند ہوجاویں۔ یہ بات حضرت عیسیٰ نے سوال کے جواب میں کہی تھی مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پھونکنے کے بعد درحقیقت وہ پرندوں کی مورتیں جو مٹی سے بناتے تھے جاندار ہوجاتی تھیں اور اڑنے بھی لگتی تھیں۔
” فیکون “ پر جو (ف) سے وہ عاطفہ تو ہو نہیں سکتی کیونکہ اگر وہ عاطفہ ہو تو ” یکون طیرا “ ان کی خبر ہوئی اور اس کا عطف ” اخلق “ پر ہوگا اور ” یکون طیرا “ میں یکون صیغہ متکلم کا نہیں ہے اور نہ اس کلام میں کوئی ضمیر اس طرح پر واقع ہوئی ہے کہ اسم ان کی طرف راجع ہوسکے اس لیے ” یکون طیرا “ نحو کے قاعدہ کے مطابق یا یوں کہو کہ بموجب محاورہ زبان عرب کے کسی طبع ان کی خبر نہیں ہوسکتا اور ” فیکون “ کی (ف) عاملقہ قرار نہیں پاسکتی۔ اب ضرور ہے کہ وہ (ف) تفریع کی ہو اور پھونکنے میں اور ان مورتوں کے پرند ہوجانے میں کو کہ درحقیقت کوئی سبب حقیقی یا مجازی یا ذہنی یا خارجی نہ ہو مگر ممکن ہے کہ متکلم نے ان میں ایسا تعلق سمجھا ہو کہ اس کو متفرع اور متفرع الیہ کی صورت میں یا سبب اور مسبب کی صورت میں بیان کرے جہاں کلام مجازات کی بحث نحو کی کتابوں میں لکھی ہے اس میں صاف بیان کیا ہے کہ کلام مجازات سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ درحقیقت وہ ایک امر کو دوسرے امر کا حقیقی سبب کردیتے ہیں بلکہ متکلم اس طرح پر خیال کرتا ہے اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ پہلا امر دوسرے اور کا حقیقی یا خارجی یا ذہنی سبب ہو۔ مگر صف اس طرح کے بیان سے امر متفرع یا مسبب کا وقوع ثابت نہیں ہوسکتا جب تک کہ کسی اور دلیل سے نہ ثابت ہو کہ وہ امرفی الحقیقت وقوع بھی آیا تھا۔ اور جس قدر الفاظ قرآن مجید کے ہیں ان میں یہ بیان نہیں ہوا ہے کہ پرندوں کی مٹی کی مورتیں درحقیقت جاندار اور پرند ہو بھی جاتی تھیں۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ طفوائیت کے حالات بہت کم لکھے گئے ہیں چاروں انجیلیں جو اس زمانہ میں معتبر گنی جاتی ہیں ان میں زمانہ طفولیت کے کچھ بھی حالات نہیں ہیں یہ بات تو ممکن نہیں ہے کہ ان کے زمانہ طفولیت کے کچھ حالات ہوں ہی نہیں مگر کسی کو ان کے لکھنے پر رغبت ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے انتقال کے بہت زمانہ بعد بعض قدیم عیسائی مورخوں نے ان کے حالات زمانہ طفولیت کے لکھنے پر کوشش کی ہے اور اس وقت ہم کو دو کتابیں انجیل طفولیت کے نام سے دستیاب ہوتی ہیں جن کو حال کے عیسائیوں نے نامعتمد کتابوں میں داخل کیا ہے بہرحال ان کتابوں کی روایتوں کو بھی بہت لوگ تسلیم کرتے تھے اور لوگوں میں مشہور تھیں ان دونوں کتابوں میں خلق طیر کا قصہ ان معمولی مبالغہ آمیز باتوں اور کر امتوں کے ساتھ جو ایسے بزرگوں کی تاریخ لکھنے میں خواہ مخواہ ملا دی جاتی ہیں لکھا ہوا ہے۔ یہ دونوں کتابیں انجیل اول طفولیت اور انجیل دوم ملفولیت کے نام سے مشہور ہیں۔
انجیل اول طفولیت دوسری صدی عیسوی نائکس کے ہاں جو عیسائیوں کا ایک فرقہ ہے مروج اور سلم تھی اور ازمنہ مابعد میں یعنی اس کے اکثر بیانات پر اکثر مشہور عیسائی عالم یوسییس واتھانسیس و ایپی فیفیس وکرائی ساستم وغیرہ اعتقاد رکھتے تھے کہ بیس ڈی کیسٹرڈ ایک انجیل طامسن کا ذکر کرتا ہے کہ ایشیاء وافریقہ کے اکثر گرجاؤں میں پڑھی جاتی تھی اور اسی پر لوگوں کے اعتقاد کا دارومدار تھا۔ فیبریشیس کے نزدیک وہ یہی انجیل ہے۔
انجیل دوم طفولیت اصل یونانی قلمی نسخہ سے ترجمہ کی گئی ہے جو کتب خانہ شاہ فرانس میں دستیاب ہوا تھا۔ یہ طامسن کی طرف منسوب ہے اور ابتداء انجیل مریم کے شامل خیال کی گئی ہے۔
انجیل اول میں یہ قصہ اس طرح پر لکھا ہے۔ اور جب کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عمر سات برس کی تھی وہ ایک روز اپنے ہم عمر رفیقوں کے ساتھ جو کھیل رہے تھے اور مٹی کی مختلف صورتیں یعنی گدھے بیل چڑیاں اور آور مورتیں بنا رہے تھے۔
ہر شخص اپنی کاریگری کی تعریف کرتا تھا اور اوروں پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔
تب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے لڑکوں سے کہا کہ میں ان مورتوں کو جو میں نے بنائی ہیں چلنے کا حکم دونگا۔
اور فی الفور وہ حرکت کرنے لگیں اور جب انھوں نے ان کو واپس آنے کا حکم دیا تو وہ واپس آئیں۔
انہوں نے پرندوں اور چڑیوں کی مورتیں بھی بنائی تھیں اور جب ان کو اڑنے کا حکم دیا تو وہ اڑنے لگیں اور جب انھوں نے ان کو ٹھہر جانے کا حکم دیا تو وہ ٹھہر گئیں اور اگر وہ ان کو کھانا اور پانی دیتے تھے تو کھاتی پیتی تھیں۔
جب آخر کار لڑکے چلے گئے اور ان باتوں کو اپنے والدین سے بیان کیا تو ان کے والدین نے ان سے کہا کہ بچو آئندہ اس کی صحبت سے احتراز کرو کیونکہ وہ جادو گر ہے۔ اس سے بچو اور پرہیز کرو اور اب اس کے ساتھ کبھی نہ کھیلو۔
اور انجیل دوم میں اس طرح پر ہے۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عمر پانچ برس کی تھی اور مینہ برس کر کھل گیا تھا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) عبرانی لڑکوں کے ساتھ ایک ندی کے کنارہ کھیل رہے تھے اور پانی کنارہ کے اوپر بہہ کر چھوٹی چھوٹی جھیلوں میں ٹھہر رہا تھا۔
مگر اسی وقت پانی صاف اور استعمال کے لائق ہوگیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے حکم سے جھیلوں کو صاف کردیا اور انھوں نے ان کا کہنا مانا تب انھوں نے ندی کے کنارہ پر سے کچھ نرم مٹی لی اور اس کی بارہ چڑیاں بنائیں اور ان کے ساتھ اور لڑکے بھی کھیل رہے تھے۔
مگر ایک یہودی نے ان کاموں کو دیکھ کر یعنی ان کا سبت کے دن چڑیوں کی مورتیں بنانا دیکھ کر بلا توقف ان کے باپ یوسف سے جاکر اطلاع کی اور کہا کہ دیکھ تیرا لڑکا ندی کے کنارہ کھیل رہا ہے اور مٹی لے کر اس کی بارہ چڑیاں بنائی ہیں اور سبت کے دن گناہ کررہا ہے۔
تب یوسف اس جگہ جہاں حضرت عیسیٰ تھے آیا اور ان کو دیکھا تب بلا کر کہا کیوں تم ایسی بات کرتے ہو جو سبت کے دن کرنا جائز نہیں ہے۔
تب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھوں کی ہتیلیاں بجا کر چڑیوں کو بلایا اور کہا جاؤ اڑ جاؤ اور جب تک تم زندہ رہو مجھے یاد رکھو پس چڑیاں غل مچاتی ہوئی اڑ گئیں۔
یہودی اس کو دیکھ کر متعجب ہوئے اور چلے گئے اور اپنے ہاں کے بڑے بڑے آدمیوں سے جاکر وہ عجیب و غریب معجزہ بیان کیا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ان کے سامنے ظہور میں آیا تھا۔
مگر جب تاریخانہ تحقیق کی نظر سے اس پر غور کیا جاتا ہے تو اصل بات صرف اس قدر تحقیق ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بچپنے میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنے میں مٹی کے جانور بناتے تھے، اور جیسے کبھی کبھی اب بھی ایسے موقعوں پر بچے کھیلنے میں کہتے ہیں کہ خدا ان میں جان ڈال دے گا وہ بھی کہتے ہوں گے مگر ان دونوں کتابوں کے لکھنے والوں نے اس کو کراماتی طور پر بیان کیا کہ فی الحقیقت ان میں جان پڑجاتی تھی۔ قرآن مجید نے اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی امروقوعی نہ تھا بلکہ صف حضرت مسیح کا خیال زمانہ طفولیت میں بچوں کے ساتھ کھیلنے میں تھا۔ علمائے اسلام ہمیشہ قرآن مجید کے معنی یہودیوں اور عیسائیوں کی روایتوں کے مطابق اخذ کرنے کے مشاق تھے اور بلا تحقیق ان روایتوں کی تقلید کرتے تھے انھوں نے ان الفاظ کی اسی طرح تفسیر کی جس طرح غلط سلط عیسائیوں کی روایتوں میں مشہور تھی اور اس پر خیال نہیں کیا کہ خود قرآن مجید ان روایتوں کی غلطی کی تصحیح کرتا ہے۔
سورة مائدہ میں بھی یہی مضمون خدا تعالیٰ نے مخاطب کے صیفوں سے دوبارہ بیان فرمایا ہے۔ مگر اس مقام پر ایسی عمدگی سے سیاق کلام واقع ہوا ہے کہ باوجود اس کے کہ اس قصہ کو بعض واقعات متحقق الوقوع کے ساتھ بیان کیا ہے اس پر بھی اس خاص قصہ کا وقوع کہ وہ مٹی کی مورتیں پرند ہوجاتی تھیں ثابت نہیں ہوتا۔ اس سورة میں خدا تعالیٰ نے تمام واقعات متحقق الوقوع کو ماضی کے صحیفوں سے بیان فرمایا ہے۔ جیسے کہ، اذا یدتک بروح القدس۔ اذ علمتک الکتاب والحکمۃ۔ اذکففت بنی اسرائیل عنک۔ ذاوحیت الی الحواریین۔ مگر مٹی کی مورتوں کے پرند ہوجانے کے قصہ کو مستقبل کے صیغہ سے بیان فرمایا ہے جیسے کہ اذتخلق۔ فتنفخ۔ فتکون۔ اس سیاق کے بدلنے سے یہ نتیجہ ہے کہ جس مضارع کے صیغہ پر اذکا اثر پہنچے گا وہ تو امر متحقق الوقوع ہوجاویگا اور جس صیغہ تک اس کا اثرنہ پہنچے گا وہ امر غیر متحقق الوقوع رہے گا ۔ اس کلام میں اذکا اثر ” خلق “ اور ” تنفخ “ تک پہنچتا ہے اور ” تکون “ تک نہیں پہنچتا جیسا کہ ہم بیان کرینگے پس ان مٹی کی مورتوں کا جاندار ہوجانا غیر متحقق الوقوع باقی رہتا ہے یعنی قرآن مجید سے ثابت نہیں ہوتا کہ ہر حقیقت وہ مٹی کی مورتیں جاندار اور پرند ہو بھی جاتی تھیں۔
اس آیت میں بھی ” فتکون “ پر کی (ف) عاطفہ نہیں ہوسکتی کیونکہ گروہ عاطفہ ہو تو اس کا عطف ” تخلق “ پر ہوگا اور معطوف حکم معطوف علیہ میں ہوتا ہے اور معطوف لمیہ کی جگہ قائم ہوسکتا ہے اور یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ اگر معطوف علیہ کو حذف کردیا جاوے اور معطوف اس کی جگہ رکھ دیا جاوے تو کوئی خرابی اور نقص کلام میں نہ ہونے پاوے۔ اور اس مقام پر ایسا نہیں ہے کیونکہ اگر معطوف علیہ کو حذب کرکے۔” فیکون طیرا “ اس کی جگہ رکھ دیں تو کلام اس طرح پر ہوجاتا ہے کہ ” اذکرنعمتی علیک اذ تکون طیرا “۔ اور یہ کلام محض مہمل اور غیر مقصود ہے۔ اب ضرور ہے کہ یہ (ف) کے ذریعہ سے ” تنفخ “ متفرق علیہ اور تکون متفرع دونوں مل کر تخلق پر معطوف ہوں گے اور تقدیر کلام یوں ہوگی۔ اذکر نعمتی علیک اذ تنفخ فیھا فتکون طیرا۔ مگر اس صورت میں ” فتکون طیرا “ صرف ” تنفخ “ پر تفریع ہوگی اور ” اذ “ کا اثر جو مضارع پر آنے سے نسحقق زمانہ ماضی کا ہے یا اس امر کو متحقق الوقوع کردینے کا ہے۔ تکون تک نہیں پہنچتا کیونکہ وہ اثر اس وقت پہنچتا جب کہ ” فکون “ کی (ف) عاطفہ ہوتی اور اس کا عطف۔ تخلق پر جائز ہوتا ۔ اس صورت میں تکون کو محف تفریحی حالت اسی طرح باقی رہتی ہے جیسی کہ سورة آل عمران میں تھے اور اس لیے اس تفریع سے اس اور متفرع کا وقوع ثابت نہیں ہوتا۔
اس تمام بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن مجید سے یہ بات تو ثابت ہوئے کہ حضرت عیسیٰ بچپن کی حالت میں مٹی سے جانوروں کی مورتیں بناتے تھے اور پوچھنے والے سے کہتے تھے کہ میرے پھونکنے سے وہ پرند ہوجاوینگے مگر یہ بات کہ درحقیقت وہ پرند ہو بھی جاتی تھیں نہ قرآن مجید سے ثابت ہوتا ہے نہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے پس حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہ کہنا ایسا ہی تھا جیسے کہ بچے اپنے کھیلنے میں بمقتضائے عمر اس قسم کی باتیں کیا کرتے ہیں۔
سوم۔ تائید روح القدس
اس امر کی نسبت خدا تعالیٰ نے سورة بقرہ میں فرمایا ہے ” وایدتاہ یروح القدس ، اور سورة مائدہ میں فرمایا ہے اذ ایک تک بروح القدس۔ یہ آیتیں کچھ زیادہ تفسیر کی محتاج نہیں ہیں اس میں کچھ شک نہیں کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) موئد ب تائید روح القدس ہیں اگر بحث ہوسکتی ہے تو حقیقت روح القدس میں ہوسکتی ہے تمام علمائے اسلام اس کو ایک مخلوق جداگانہ خارج از خلقت انبیاء قرار دے کر اس کو بطور ایلچی کے خداو نبی میں واسطہ قرار دیتے ہیں اور جبرائیل اس کا نام بتاتے ہیں ہم بھی جبرائیل اور روح القدس کو شے واحد یقین کرتے ہیں مگر اس کو خارج از خلقت انبیاء مخلوق جداگانہ تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس بات کے قائل ہیں کہ خود انبیاء (علیہم السلام) کی خلقت یہی جو بلکہ نبوت ہے اور جو ذریعہ مبدء فیاض سے ان امور کے اقتباس کا ہے جو نبوت یعنی رسالت سے علاقہ رکھتے ہیں وہی روح القدس ہے اور وہی جبرئیل۔ اس کی نسبت ہم سورة بقرہ میں بہ تحت آیت ” و ان کنتم فی ریب مما نزل علے عبدنا کے پوری بحث کہہ چکے ہیں۔
چہارم۔ تعلیم کتاب و حکمت
اس امر کی نسبت خدا تعالیٰ نے سورة آل عمران میں فرمایا ہے ” ویعلمہ الکتاب وللملئکۃ والتوراۃ والاخیل ورسولا الی بنی اسرائیل “ اور سورة مائدہ میں فرمایا ہے۔ ” واذعلمتک الکتاب والحکمۃ والتوراۃ ولا نجیل “ یہ دونوں مضمون واحد میں اور ان میں کچھ مشکلات نہیں ہیں کیونکہ بلاشبہ تمام انبیاء کو خدا تعالیٰ احکام و حکمت تلقین کرتا ہے اور کتاب پڑھاتا ہے اور ان کے طرح میں علم کا وہ خزانہ جمع کرتا ہے جس کو وہ تمام لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
پنجم۔ خدا کی نشانی کا لانا
اس امر کی نسبت سورة آل عمران میں خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے یوں فرمایا ہے۔ افی قدجئتکم بایۃ من ربکم۔ ہم اس بات کی تحقیق سورة بقرہ میں لکھ چکے ہیں ، دیکھو جلد اول کہ آیت اور آیات اور آیات بینات سے دخا تعالیٰ کے احکام مراد ہوتے ہیں جو انبیاء کہ وحی کئے جاتے ہیں پس اس مقام پر بھی ہم آیت کے لفظ کے یہی معنی قرار دیتے ہیں اور آیت سے جنس مراد لیتے ہیں نہ فرد۔ صاحب تفسیر کبیر نے بھی اس سے جنس ہی مراد لی ہے اور کہا ہے کہ ۔” المراد بالا یۃ الجنس لا الفرد “
مگر اس مقام کی تفسیر کرنے سے پیشتر ہم کو اس امر کا بیان کرنا چاہیے جو سورة آل عمران کی آیتوں کے ربط کی نسبت ہے۔ یہ آیت اور اس کے بعد کی آیتیں سورة آل عمران میں ان آیتوں کے بعد واقع ہوئی ہیں جس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہونے کی بشارت ہے۔ وہ آیتیں رسولا الی بنی اسرائیل تک برابر مسلسل چلی آتی ہیں مگر اس کے بعد جو یہ آیت ہے۔ انی قد جئتکم بایۃ من ریکم۔ اس کا اور اس کے بعد کی آیتوں کا بشارت کی آیات سے جوڑ نہیں ملتا۔ علمائے مفسرین نے اس آیت کو اور نیز اس کے بعد کی آیتوں کو شامل آیات بشارت کے کیا ہے اور جوڑ ملانے کو لفظ قائلا محذوف مانا ہے یعنی رسولا الی بنی اسرائیل قائلا انی قد جئتکم بایۃ مرقال کے بعد ان مستوحہ آنا کسی قدر اعتراض کے لائق تھا اس لیے زجاج نے اس جگہ اوپر کی آیتوں سے جوڑ لگانے کو ویکلم الناس رسولا مقدر مانا ہے اور یہ معنی قرار دیئے ہیں ویکلم رسولا بانی قد جئتکم۔
مگر ہم کو مفسرین کے ان اقوال سے اختلاف ہے خود سیاق کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس قدر آیتیں بشارت سے متعلق تھیں وہ اس مقام پر ختم ہوگئیں جہاں فرمایا۔ ورسولا الیٰ بنی اسرائیل۔ اور وہ کلام منقطع ہوگیا اور ۔ انی قد جئتکم یایۃ۔ سے دوسرا کلام شروک ہوا اس لیے کہ بشارت کی آیتوں میں تمام صیغے مستقبل کے آنے ہیں جیسے۔ یکلم الناس ویعلم الکتاب۔ اور ان سب آیتوں میں حالات قبل ولادت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بیان ہوئے ہیں۔ اور اس کے بعد صیغے متکلم کے ہیں جیسے کہ ۔ انی قد جئتکم ۔ انی اخلق لکم۔ وابری الا لہ وانبئکم۔ اور ان میں وہ تمام حالات مذکور ہیں جو بعد ولادت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) واقع ہوئے ہیں پس ان پچھلی آیتوں کو آیات بشارت کے ساتھ شامل کردینا بالکل سیاق کلام کے برخلاف ہے۔
صاحب تفسیر ابن عباس نے بھی ان آیتوں کو بشارت کی آیتوں سے منقطع کیا ہے اور تقریر کلام کی یوں کی ہے۔ فلما جاء ھم قال انی قد جئتکم بایۃ۔ مگر اس تقریر میں وہی نقص باقی رہتا ہے کہ قال کے بعد ان مفتوحہ واقع ہوتا ہے۔
مگر ہم تقریر کلام کی اس طرح پر کرتے ہیں کہ ۔ فلما جاء ھم قال مجیبا لھم بانی قد جئتکم بایۃ۔ یعنی جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) لوگوں میں وعظ و نصیحت کرنے لگے، اور خدا کے احکام سنانے لگے تو ان کی قوم نے کہا کہ تم یہ کیوں کرتے ہو اس کے جواب میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا انی قد جئتکم بایۃ من ربکم۔ یہ تقریر ہم نے اس لیے کی ہے کہ یہ مضمون۔ انی قد جئتکم ۔ بایۃ من وبکم۔ اور وہ مضموں جو سورة مریم میں ہے۔ قال انی عبداللہ اتانی الکتاب وجعلنی نبیا۔ بالکل متحد ہے اور یہ پچھلا مضمون جواب میں قوم کے سوال کے واقع ہوا ہے اور یہ قرینہ ہے کہ وہ پہلا مضمون بھی قوم کے جواب میں ہے۔
متیٰ کی انجیل میں لکھا ہے کہ جب حضرت مسیح معبد میں وعظ کررہے تھے تو سردار امام مشائخ ان کے پاس آئے اور پوچھا کہ تو کس حکم سے یہ کام کرتا ہے اور کس نے تجھے یہ حکم دیا ہے۔ حاصل جواب مسیح یہ ہے کہ جس کے حکم سے یحینے غوطہ دینے والا کرتا تھا (متی باب درس - )
اب کسی اور تفسیر کی اس مقام پر ضرورت نہیں رہی کیونکہ جس قدر انبیاء (علیہم السلام) قوم کی طرف مبعوث ہوتے ہیں وہ خدا کی طرف سے ان کے پاس احکام لاتے ہیں اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی بنی اسرائیل کی قوم پر مبعوث ہوئے تھے اور خدا کی طرف سے ان کے لیے احکام لاتے تھے۔
ششم۔ حواریوں کے دل میں ایمان کا ڈالنا
اس کی نسبت خدا تعالیٰ نے سورة مائدہ میں فرمایا ہے۔ واذا وحیث الی لحوارین ان امنوابی ربر سوتی قالوا امنا واشھد باننا مسمون۔ تمام انبیاء پر خدا تعالیٰ کی بڑی رحمت اس کے حواریوں اور اصحابوں کا پیدا کردینا ہے۔ وہ اس کام میں مددگار ہوتے ہیں۔ رنج و تکلیف کی حالت میں ان سے تسلی ہوتی ہے۔ اسی سبب سے خدا نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو حواریوں کا جو بدل و جان ان پر فدا تھے ایمان لانا یاد دلایا اور اپنی رحمت اور احسان کو زیادہ وضاحت سے بیان کرنے کے لیے کہا کہ ہم نے حواریوں کو کہا کہ میرے رسول پر ایمان لے آؤ یعنی میں نے ہدایت کی اور کچھ شبہ نہیں ہے کہ ایمان لانا خدا ہی کی ہدایت پر منحصر ہے۔
ہفتم۔ اندھوں اور کوڑھیوں کو چنگا کرنا
ہشتم۔ موتیٰ کو زندہ کرنا
اس مضمون کو خدا تعالیٰ نے سورة آل عمران میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے اس طرح فرمایا ہے کہ ۔ وابری الا کمہ والا برص واحی الموتی باذن اللہ ۔ اور سورة مائدہ میں یوں فرمایا ہے۔ وتبری الا کہ والابرص باذنی واذتخرج الموتی باذنی۔
علمائے اسلام کی عادت ہے کہ قرآن مجید کے معنی یہودیوں اور عیسائیوں کی روایتوں کے مطابق بیان کرتے ہیں اس لیے انھوں نے ان آیتوں کے یہی معنی بیان کئے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اندھوں کو آنکھوں اور کوڑھیوں کو چنگا کرتے تھے اور مردوں کو چلا دیتے تھے اور صرف تازہ مردوں ہی کو نہیں چلاتے تھے بلکہ ہزاروں برس کے پرانے مردوں کو بھی چلا دیتے تھے چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے سام ابن نوح کو ان کی قبر میں سے بلایا اور وہ زندہ ہو کر قبر میں سے نکل آئے اور اسی قسم کی اور بہت سی بہیودہ روایاتیں لکھی ہیں۔
انجیلوں میں بھی اس قسم کے بہت سے معجزے حضرت مسیح کی نسبت بیان ہوئے ہیں مگر نہایت تعجب ہے کہ خود انجیلوں سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جب ان سے فروسیوں اور صدوقیوں نے آسمانی معجزہ طلب کیا تو انھوں نے معجزے کے ہونے سے انکار کیا دیکھو انجیل متیٰ باب درس ۔ باب درس ۔ انجیل مارک بابدرس ۔ انجیل لوک باب درس ) پھر کیونکر اس قدر معجزے حضرت مسیح کی انجیلوں میں مذکور ہیں اور وہ معجزے بھی اس قسم کے ہیں کہ سن کر تعجب آتا ہے۔ کہیں دیوانے آدمیوں میں سے دیو نکلتے ہیں اور سوروں کے کنہ میں گھس کر ان کو دریا میں ڈبوتے ہیں۔ کہیں گونگے آدمیوں سے گونگادیو نکلتا ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واذاسمعوا : سورۃ المآئدہ : آیت 110
کہیں کپڑا چھوٹے سے بیماراچھے ہوتے ہیں۔ اور کہیں صرف یہ کہہ دینا کہ جا تیری مراد پوری ہوئی سخت سے سخت بیماروں کو، چھا کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
اگر موجودہ انجیلوں پر تاریخانہ تحقیق سے نظر ڈالی جاوے تو اس سے زیادہ سچ اور کچھ نہیں معلوم ہوتا کہ یہودی ہمیشہ جھاڑا پھونکی کی عادت رکھتے تھے بیماروں کے لیے دعائیں پڑھ کر ان کی صحت کے لیے ان پر دم ڈالتے تھے لوگوں کو برکت دیتے تھے لوگ کاہنوں اور اماموں اور مقدس لوگوں کے ہاتھ چومنے پاؤں کو ہاتھ لگانے کپڑے کو چھونے یا بوسہ دینے سے برکت لیتے تھے جیسے کہ اب بھی رومن کیھتلک فرقہ میں رواج ہے انہی کی تقلید سے مسلمانوں میں بھی اس قسم کی بہت سی باتیں رائج ہوگئی ہیں۔ اسی دستور کے موافق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی بیماروں کو دعا دیتے تھے ان پر دم ڈالتے تھے برکت دیتے تھے لوگ ان کے ہاتھوں کو برکت لینے کے لیے چومتے تھے قدموں کو ہاتھ لگاتے کپڑے کو چھوتے تھے یا چومتے تھے پس یہ ایک معمولی بات تھی اس بیان کے ساتھ اس بات کو اضافہ کرنا کہ جو اس طرح کرتا تھا فی الفور چنگا ہوجاتا تھا اندھے آنکھوں والے ہوجاتے تھے اور کوڑھی اچھے ہوتے تھے اسی قسم کی مبالغہ آمیز تحریریں ہیں جیسے کہ ایسے بزرگوں کے حالات لکھنے والے لکھا کرتے ہیں۔ جب کہ ہم یقین کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے معجزہ دکھانے سے انکار کیا تو کہتے ہیں کہ صدق کلمۃ اللہ وروح اللہ اور جب ان مبالغہ آمیز بندشوں کو پڑھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ھذا بھتان عظیم ورح اللہ کلمۃ اللہ بری عن ذلک۔ انجیلوں میں صرف دو جگہ مردوں کے زندہ ہونے کا ذکر ہے۔ حاکم کی بیٹی کے زندہ کرنے کے قصہ میں تو خود حضرت مسیح نے فرمایا تھا کہ وہ مری نہیں (متی بابدرس ) متی کی انجیل جو اور انجیلوں کی نسبت زیادہ معتبر تصور ہوسکتی ہے اس میں سوائے اس واقع کے اور کسی مردہ کے چلانے کا مذکور نہیں ہے۔
اور انجیل لوک میں ایک بیوہ کے بیٹے کے زندہ کرنے کا ذکر ہے جس کا جنازہ لیے جاتے تھے (درس ) مگر اس کا کچھ ثبوت نہیں کہ درحقیقت وہ مرگیا تھا۔ بہت سے واقعے ایسے گزرے ہیں کہ لوگوں نے ایک شخص کو مردہ سمجھ کر اس کی تجہیز و تکفین کی ہے اور بعد کو معلوم ہوا ہے کہ وہ شخص درحقیقت مر نہیں گیا تھا۔ تعجب ہے کہ تمام انجیلوں میں ان واقعوں کے سوا جو نہایت مشتبہ ہیں اور کوئی واقعہ مردوں کے زندہ کرنے کا بیان نہیں ہوا۔
مسلمانوں کے حال پر اس سے بھی زیادہ افسوس ہے کہ وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام انبیائے سابقین سے افضل سمجھتے ہیں۔ انبیائے سابقین کے معجزے تو قرآن میں بتلاتے ہیں مگر افضل الانبیاء کے ایک معجزہ کا ذکر بھی قرآن مجید میں نہیں دکھاتے بلکہ بر خلاف اس کے خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے خدا نے فرمایا ہے کہ انما انا بشر مثلکم یوحی الی اغا الھکم الہ واحد ۔ اور معجزے ہونے سے بالکل انکار کیا ہے اور فرمایا ہے کہ۔ قالوا لولا انزل علیہ ایت من ربہ قل انما الا یات عندللہ وانما انا نذیر مبین۔ اور ایک جگہ فرمایا ۔ لا املک لنفسی نفعا ولاضرا الا ماشاء اللہ ولوکنت اعلم الغیب لا ستکثرت من الخیر وما مسنی السوء ان انا نذیر و بشیر لقوم یومنون۔ اور اسی طرح کی اور بہت سی آیتیں ہیں۔ پس خود ہمارے سردار نے معجزوں کی نفی کی ہے پھر کس طرح ہم معجزوں کو مان سکتے ہیں۔ ہاں اس بات سے انکار نہیں ہوسکتا کہ خدا نے انسان میں ایک ایسی قوت رکھی ہے جو دوسرے انسان میں اور دوسرے انسان کے خیال میں اثر کرتی ہے، اور اس سے ایسے امور ظاہر ہوتے ہیں جو نہایت عجیب و غریب معلوم ہوتے ہیں اور جن میں سے بعض کی علت ہم جانتے ہیں اور بہت سوں کی علت نہیں جانتے بلکہ اس کے عامل بھی اس کی علت نہیں جانتے اسی قوت پر اس زمانہ میں ان علوم کی بنیاد قائم ہوئی ہے جو مزم مزم، اور اسپریچوایلزم کے نام سے مشہور اور سابقین اس کے عامل تھے مگر اس علم سے ناواقف تھے یا اس کو مخفی رکھتے تھے۔ مگر جب کہ وہ ایک قوت سے قوائے انسانی میں سے اور ہر ایک انسان میں بالقوہ موجود ہے جیسے قوت کتابت تو اس کا کسی انسان سے ظاہر ہونا معجزہ میں داخل نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ تو فطرت انسانی میں سے انسان کی ایک فطرت ہے فافہم و تدبر۔
قرآن مجید میں لفظ ۔ ابری۔ اور ۔ تبری۔ کا ہے جس کے معنی اچھا کرنے کے بھی ہیں اور بری کرنے کے بھی ہیں۔ یہودی شریعت میں برص دو قسم کی قرار پائی تھی ایک وہ قسم تھی کہ جو اس مرض میں بیمار ہوتا تھا یہودی اس کو ناپاک سمجھتے تھے (سفرلیویان باب درس ، ,, , , , , , , ,) اور ایک قسم وہ تھی جس کے مریض کو ناپاک نہیں ٹھہراتے تھے (سفر لیویان باب درس ،, , , , ,) اور جو لوگ برص سے ناپاک قرار پاتے تھے ایقا اور وہ لوگ جو اس مرض سے بری کئے جاتے تھے قربانی ہائے معیند ادا کرنے کے بغیر معبد میں عبادت کے لیے داخل نہیں ہوسکتے تھے۔
متی کی انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ایک کوڑھی نے کہا کہ اگر تو چاہے مجھے پاک کرسکتا ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو چھوا اس کا کوڑھ جاتا رہا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو کہا کہ اپنے تئیں امام کو دکھا اور جو نظر موسیٰ نے مقرر کی ہے اسے دے (باب درس - ) پاک کرنے کے لفظ سے صاف پایا جاتا ہے کہ اس کا مقصد یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس کو بتادیں کہ ان دونوں قسموں کو کوڑھ میں سے کون سی قسم کی کوڑھ اس کو ہے۔
اندھے لنگڑے اور چوڑی ناک والے کو یا اس شخص کو جس میں کوئی عضو زاید ہو اور ہاتھ پاؤں ٹوٹے ہوئے کو اور کبڑے اور ٹھنگنے اور آنکھ میں پھلی والے کہ معبد میں جانے اور معمولی طور پر قربانیاں کرنے کی اجازت نہ تھی (سفر لیویاں باب درس لغایت ) یہ سب ناپاک اور گناہ گار سمجھے جاتے تھے اور عبادت کے لائق یا خدا کی بادشاہت میں داخل ہونے کے لائق متصور نہ ہوتے تھے۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ تمام قیدیں توڑ دی تھیں اور تمام لوگوں کو کوڑھی ہوں یا اندھے یا لنگڑے چوڑی ناک کے ہوں یا پتلی ناک کے کبڑے ہوں یا سیدھے ٹھنگنے ہوں یا لمبی پھلی والے ہوں یا جانے والے سب کو خدا کی بادشاہت میں داخل ہونے کی منادی کی تھی کسی کو خدا کی رحمت سے محروم نہیں کیا اور کسی کو عبادت کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ سے نہیں روکا پس یہی ان کا کوڑھیوں اور اندھوں کو اچھا کرنا تھا یا ان کو ناپاکی سے بری کرنا۔ جہاں جہاں انجیلوں میں بیماروں کے اچھا کرنے کا ذکر ہے اس سے یہی مراد ہے اور قرآن مجید میں جو یہ آیتیں ہیں ان کے یہی معنی ہیں۔
انسان کی روحانی موت اس کا کافر ہونا ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خدا کی وحدانیت قائم کرنے اور خدا کے احکام بتانے سے لوگوں کو اس موت سے زندہ کرتے تھے اور کفر کی موت کے پنجے سے نکالتے تھے جس کی نسبت خدا نے فرمایا۔ واذتخرج للوتی باذنی۔
مگر ہم نے جو اس مقام پر موت سے کفر اور حیات سے ایمان مراد لیا ہے اس پر ہم کو کسی قدر بحث کرنی اور یہ ثابت کرنا کہ یہ مراد صحیح ہے ضرور ہے۔
سورة نمل میں خدا تعالیٰ نے کافروں پر موت کا اطلاق کیا ہے جہاں فرمایا ہے کہ ”
انک لا تسمع الموتی ولا تسمع لصم الدعاء اذاولوسدبرین وملانت بھادی العمی عن ضلالتھم ان تسمع الا من یومن بایاتنا فحم مسلمون (سورة نمل)
تو ہرگز سنا نہیں سکتا موتیٰ کو اور نہیں سنا سکتا بہروں کو جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر پھریں اور تو اندھوں کو ان کی گمراہی سے راہ پر لانے والا نہیں ہے تو نہیں سنا سکتا مگر اس کو جو ہماری نشانیوں پر ایمان لایا ہے پھر وہ مسلمان ہیں۔
موتیٰ کے مقابلہ میں ” الا من یومن “ کا لفظ واقع ہوا ہے جو صاف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ موتیٰ کا لفظ کافروں پر اطلاق کیا گیا ہے۔ مفسرین بھی اس مقام پر کافروں ہی سے مراد لیتے ہیں اور موتیٰ اور مم اور اعمی کے معنی کا لموتی۔ کالعم۔ کالعمی بیان کرتے ہیں۔
سورة فاطر میں اس سے بھی صاف طرح پر احیاء ۔ واموات۔ کا لفظ مومن و کافر پر اطلاق ہوا ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے کہ وما یستوی الاحیاء ولا الاموات ان اللہ یسمع من یشاء وما انت یمسمع من فی القبور (سورة فاطر) برابر نہیں ہوتے احیاء یعنی زندے اور اموات یعنی مردے اللہ تعالیٰ سنا دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور تو نہیں سنانے والا ہے ان کو جو قبروں میں ہیں۔
تمام مفسرین اس مقام پر بھی احیاء سے مومن اور اموات سے کافر مراد لیتے ہیں تفسیر کبیر میں لکھا ہے۔ ثم قال وما یستوی الا حیاو لا الا موات مثلا اخرنی حق امومن والکافر کانہ قال تعالیٰ حال المومن والکافر فوق حال الا عمی والبصیر الخ۔ پس آیت کے معنی صاف ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے احسانوں میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اس وقت کو یاددلایا جب کہ وہ خدا کے حکم سے کافروں کو ایمان والا کرتے تھے خصوصاً ایسی حالت میں کہ اگرچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے لیے نبی ہوئے تھے مگر وہ اور لوگوں کو بھی جو بنی اسرائیل نہ تھے ہدایت کرتے تھے اور ایمان میں لاتے تھے۔ اسی حال کی نسبت خدا نے فرمایا ” واذ تجرج الموتی باذنی یعنی واذ تخرج الکافر من کفرہ باذنی۔
نہم۔ اخبار عن الغیب
اس کی نسبت خدا تعالیٰ نے سورة آل عمران میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے فرمایا ہے کہ وانبکم بما تاکلون وتدخرون فی بیوتکم ان فی ذلک لایۃ لکم ان کنتم مومنین۔
علمائے مفسرین نے جو اپنی تفسیر میں عجیب ولا یعنی باتوں کا لکھنا اپنا فخر سمجھتے ہیں اس آیت کی بھی تفسیر عجیب و غریب کی ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بچپن ہی سے مخفی باتوں کی خبر دے دیا کرتے تھے۔ لڑکوں کو جن کے ساتھ کھیلتے تھے بتا دیتے تھے کہ تم نے کیا کھایا ہے اور تمہارے ماں باپ نے فلاں چیز (مثلاً مٹھائی) تم سے چھپا کر رکھ چھوڑی ہے وہ لڑکے گھر میں آکر ماں باپ سے ضد کرتے آخر کو وہ چیز نکلتی تھی اور وہ لے لیتے تھے۔ بعض مفسرین نے یہ کہا کہ جب مائدہ نازل ہوا تو اس میں کے کھانے کو جمع کرنے کا حکم نہ تھا مگر لوگ جن پر مائدہ اترا تھا اس کو جمع کر رکھتے تھے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بتا دیتے تھے کہ تم نے کیا کھایا ہے اور کیا جمع کیا ہے۔
تعجب ہوتا ہے کہ ہمارے علما جو نہایت اعلیٰ درجہ کا علم و فضل رکھتے تھے کیونکر ایسی بیہودہ باتیں لکھ گئے ہیں۔ آیت نہایت صاف ہے اور اس کا مطلب نہایت روشن ہے یہود اور علمائے یہود طرح طرح کے حیلوں اور فریبوں سے ناجائز طور پر تولوں کا مال مارتے تھے لوگوں کا مال کھاتے تھے اپنے گھروں میں مال مار مار کر روپیہ و دولت جمع کرتے تھے جو بالکل حرام و ناواجب تھا خود خدا تعالیٰ نے سورة نساء میں یہودیوں کی نسبت فرمایا ہے کہ ۔ واخذ ھم الربوا وقد نھوعنہ واکلھم اموال الناس بالباطل واعتدنا للکانوین عذابا الیما اور سورة توبہ میں فرمایا ہے کہ یایھا الذین امنوا ان کثیرا من الاحباو والرھبان لیاکلون اموال الناس بالباطل ویصدون عن سبیل اللہ والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھافی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم
پس اسی حرام خوری اور حرام کا مال جمع کرنے کی نسبت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تم کو بتاؤنگا کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو یعنی بتاؤنگا کہ حرام کا مال مارتے ہو اور حرام کی دولت اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو۔ نہ یہ کہ یہ بتاؤنگا کہ تم نے کیا کھایا ہے اور کیا گھر میں رکھا ہے۔
یہ ایسی صاف و صریح آیت ہے جس کی تفسیر خود قرآن مجید کی دوسری آیتوں میں موجود ہے مگر افسوس ہے کہ علمائے اسلام نے اس کو بھی ایک افسانہ اور خیالی معجزہ کرکے بیان کیا ہے مگر جس کو خدا نے بصیرت دی ہے وہ صاف سمجھتا ہے کہ نہایت صاف و صریح یہ آیت ہے اور اس کے معنی وہی ہیں جو ہم نے بیان کئے۔
دہم۔ نزول مائدہ
سورة مائدہ میں ذکر ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ خدا سے دعا کریں کہ آسمان پر سے ان کے لیے کھانا اترے ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے دعا مانگی۔ خدا نے کہا کہ میں تم پر کھانا اتارونگا لیکن اگر اس کے بعد کسی نے کفر کیا تو میں اس کو ایسا عذاب دونگا کہ کسی کو نہ دیا ہوگا۔
ہمارے مفسروں نے ان آیتوں کی تفسیر میں نزول مائدہ کی نسبت بہت سے بےسرو پا قصے
و کہانیاں لکھی ہیں جن میں ایک بھی اعتبار کے لائق نہیں ہے اور نہ قرآن مجید کے لفظوں سے ان قصوں کی تائید ہوتی ہے اور نہ ان کی نسبت کوئی اشارہ پایا جاتا ہے۔
تفسیر کبیر اور تفسیر کشاف اور سای طرح اور تفسیروں میں بھی یہ روایت لکھی ہے کہ جب حواریوں نے سنا کہ اگر مائدہ اترنے کے بعد کوئی کفر کرے گا تو اس کو سخت عذاب ہوگا تو انھوں نے کہا کہ ہم مائدہ کا اترنا نہیں چاہتے پس کوئی مائدہ نہیں اترا کشاف میں لکھا ہے کہ حضرت حسن بصری نے کہا کہ ” واللہ مانزلت “ قرآن مجید میں بھی نہیں بیان کیا گیا ہے کہ بعد اس گفتگو کے مائدہ اترا تھا بلکہ اترنے کا ذکر نہ ہونا جس کے ذکر ہونے کا موقع تھا کافی دلیل اس بات پر یقین کرنے کی ہے کہ نزول مائدہ ہرگز وقوع میں نہیں آیا۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا زمانہ ایک ایسا زمانہ تھا کہ بنی اسرائیل میں یہودیت شدت سے پھیلی ہوئی تھی یہودیوں کی عادت تھی کہ انبیاء سے اس قسم کی خواہشیں کیا کرتے تھے اٹھترویں زبور سے پایا جاتا ہے کہ جب بنی اسرائیل جنگل میں تھے تو یہ لفظ انھوں نے کہے تھے کہ ” آیا می شود کہ خدا اور بیابان سفر را امادہ گرداند “ (زبوردرس ) اس کے بعد خدا نے ان پر من و سلوا نازل کیا تھا اسی طرح حواریین نے بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہا ” ھل یستطیع ربک ان ینزل علینا مائدۃ من السماء “ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مائدہ سے ان کی مراد پکا پکایا کھانے سے نہ تھی بلکہ کھانے کی چیزوں کے موجودہ ہونے سے تھی۔
یہ سوال ایک ایسی طبیعت سے نکلا تھا جو یہودیوں کے خیالات سے بھری ہوئی تھی اس کا جواب بلحاظ ان کی طبیعت کے اس سے زیادہ عمدہ اور کوئی نہیں ہوسکتا تھا کہ خدا کہتا کہ میں تمہارا سوال پورا کرونگا مگر اس کے بعد جو کوئی گناہ کرے گا تو اس کو سخت عذاب دونگا۔ یہودی ان مصیبتوں سے واقف تھے جو بنی اسرائیل کو مصر سے نکلنے اور جنگلوں میں پھرنے کے وقت پڑی تھیں حواریین نے ضرور اس جواب سے خوف کیا ہوگا اور سوال سے باز آئے ہوں گے جیسا کہ مذکورہ بالا روایت سے پایا جاتا ہے مروجہ انجیلوں میں یہ قصہ مذکور نہیں ہے مگر کوئی شک کرنے کی جگہ نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تمام حالات اور واقعات ان انجیلوں میں مذکور نہیں ہیں۔
یازدہم۔ بنی اسرائیل سے بچانا
اس کا بیان خدا تعالیٰ نے سورة مائدہ میں اس طرح پر کیا ہے۔ واذکففت بنی اسرائیل عنک اذا جئتھم بالبینات فقال الذین کفروا منھم ان ھذا الا سحر مبین۔
ہمارے مفسرین جو کففت سے یہ معنی نکالتے ہیں کہ خدا نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہودیوں کے ہاتھ سے بچایا اور ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا خود اسی آیت سے غلط ثابت ہوتے ہیں کیونکہ کافر آسمان پر زندہ چلے جانے کو اسی وقت کھلا ہوا جادو کہتے جب وہ یقین کرتے کہ وہ زندہ آسمان پر چلے گئے حالانکہ وہ لوگ اس بات کا یقین نہیں رکھتے بلکہ ان کو یقین ہے کہ انھوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو صلیب پر قتل کیا اور اس تفسیر پر کاروں کا یہ قول ” ان ھذا الا سحرمبین “ صحیح نہیں ہوسکتا اور اگر کافروں کے اس قول کو تبلیغ احکام سے منسوب کیا جائے اور یوں کہا جائے کہ حضرت مسیح کے پر اثر بیان کی نسبت کافروں نے یہ کہا تھا تو پھر کففت سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان پر اٹھالینے سے مراد لینے کی جیسے کہ مفسرین نے کی ہے کوئی وجہ نہیں ہے۔
آیت کا صرف مطلب یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خدا کے احکام لے کر بنی اسرائیل کو سمجھانے کو گئے تو انھوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو مارنے یا تکلیف دینے کا ارادہ کیا خدا نے اس سے ان کو روکا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) محفوظ رہے جس کو یا ان کے وعظ کو کافروں نے کہا کہ ان ھذا الا سحر مبین۔
متی کی انجیل میں بھی اس واقعہ کا نشان پایا جاتا ہے جب کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) گدھے پر سوار ہو کر بیت المقدس خدا کے احکام سنانے کو گئے اور بہت سے بدعت کے کاموں سے منع کیا اور وہاں کے عالموں کو لاجواب کیا اور متعدد تمثیلیں بیان کیں اور اخیر کو فرمایا کہ میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے چھن جائے گی اور ایک قوم کو جو اس کے میوؤں کو لاوے آجاویگی (بیشک بنی اسماعیل کو) اور جو کوئی اس پتھر پر گرے گا کچل جائے گا اور جس پر یہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا جس سردار اماموں اور فروسیوں نے اس کی تمثیلیں سنیں انھوں نے معلوم کیا کہ وہ انہی کے حق میں کہتا ہے تب انھوں نے چاہا کہ اسے پکڑ لیں پر وے لوگوں سے ڈرے کیونکہ وے اسے نبی جانتے تھے باب ، پس یہی واقعہ ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ اور اس آیت کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زندہ آسمان پر چلے جانے سے کچھ بھی تعلق نہیں ہے۔
دوازدہم۔ برات عن المشرکین
اس مضمون کی آیتیں سورة مائدہ کے اخیر میں آئی ہیں اور نہایت عمدہ اور دلچسپ اور دل پر اثر کرنے والی ہیں ان میں حضرت مسیح کے خدا نہ ہونے اور حضرت مسیح کا اپنے تئیں خدا نہ کہنے کا اور جو ان کو خدا کہتے ہیں ان سے بیزار ہونے کا بیان ہے مگر وہ مطلب نہایت فصاحت و بلاغت سے خود حضرت مسیح کی زبان سے ادا کیا گیا ہے۔ اس کے ہر ہر لفظ سے اندورونی تہذیب اور اخلاقی شایستگی اور خدائے واحد ذوالجلال کا ادب اور اس کی اعلیٰ قدری اور اس کے سامنے اپنا عجزوانکسار پایا جاتا ہے۔ یہ طرز کلام ایسا عمدہ ہے کہ پڑھنے والوں اور سننے والوں کے دلوں پر نہایت درجہ اثر کرتا ہے۔ اور اس کی سچائی لفظوں کے ساتھ دل میں بیٹھتی جاتی ہے۔
اس مقام پر اشارہ ہے کہ عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی ماں حضرت مریم دونوں کو خدا مانتے تھے یہ عقیدہ رومن کتھیلک چرچ کے پیٹرنوں کا تھا انھوں نے درجن میری یعنی حضرت مریم کو خدا کا درجہ دیا تھا اور خدا کی سی تعظیم و ادب کے قابل ٹھہرایا تھا اور حضرت مسیح سے برتر ان کا رتبہ سمجھتے تھے اور دسویں صدی عیسوی میں حضرت مریم کی خاص پرستش شروع ہوگئی تھی اور روز شنبہ حضرت مریم کی پرستش کا دن قرار پایا تھا اسی کی نسبت خدا نے فرمایا ہے کہ ” یاعتیی ابن مریمء انت قلت للناس اتخذ ونی وامی الھین من دون اللہ “
پس اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ کل عیسائیوں کا حضرت مریم کی نسبت یہ عقیدہ ہے بلکہ حضرت مریم کی نسبت صرف انہی عیسائیوں کے عقیدہ کی طرف اشارہ ہے جن کا وہ عقیدہ تھا
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واذاسمعوا : سورۃ الانعام : آیت 1

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوۡرَ ۬ؕ ثُمَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ یَعۡدِلُوۡنَ ﴿۱﴾

تفسیر سرسید :

( الحمد للہ الذی) اس تمام سورة میں مکہ کے لوگ زیادہ تر مخاطب ہیں مشرکین عرب خدا کو جانتے تھے مگر بتوں کو خدا کے برابر کرتے تھے اور خدا کی مانند بتوں کی پرستش کرتے تھے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) توحید ذات باری اور توحید صفات باری اور توحید فی العبادت کہ ہدایت فرماتے تھے جو ان کے اعتقادات اور بتوں کی پرستش کے برخلاف تھی اس کو نہ مانتے تھے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایت پر خدا کی طرف سے ہونے میں شک کرتے تھے اور اپنی جہالت سے ان امور کا ہونا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بطور معجزہ کے چاہتے تھے جو فطرت اللہ کے برخلاف تھی۔ انہی باتوں کا اس سورة کے شروع میں بیان ہوا ہے۔ مشرکین عرب مغرور بھی تھے اور وہ اپنی عظمت اور قوت پر گھمنڈرکھتے تھے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اس لیے خدا نے ان کو بتایا کہ تم سے بھی زیادہ قوی اور باحشمت قومیں جو نہایت سرسبز و شاداب ملکوں میں تھیں وہ بھی اپنے گناہوں کے سبب برباد ہوگئیں۔ پھر خدا نے ان کے شبہوں کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اگر وہ ناممکن چیزیں ہو بھی جاویں جو وہ چاہتے ہیں تب بھی وہ لوگ ایمان نہیں لانے کے اور جو رنج و اذیت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کافروں کی باتوں سے پہنچتی تھی انبیاء سابق کی مثال سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسکین دی ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واذاسمعوا : سورۃ الانعام : آیت 8

وَ قَالُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ مَلَکٌ ؕ وَ لَوۡ اَنۡزَلۡنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الۡاَمۡرُ ثُمَّ لَا یُنۡظَرُوۡنَ ﴿۸﴾

تفسیر سرسید :

(وقالوا لو لا انزل علیہ ایۃ) اس آیت سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کوئی معجزہ نہ تھا یعنی جس کو کفار یا عام لوگ معجزہ سمجھتے ہیں کیونکہ اگر کوئی معجزہ ہوتا تو کفار یہ نہ کہتے کہ کیوں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی معجزہ نہیں اتارا گیا۔
تفسیر کبیر میں ان آیتوں کی شان نزول میں ابن عباس کی روایت سے لکھا ہے۔ کہ حرث بن عامر بن نوفل بن عبدمناف معہ چند قریش کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے ان سب نے کہا کہ اے محمد، اللہ کے پاس سے کوئی معجزہ لاؤ جیسے کہ انبیاء کیا کرتے تھے تو ہم تم پر ایمان لائیں مگر خدا نے معجزہ بھیجنے سے انکار کیا کیونکہ خدا کے علم میں تھا کہ وہ ایمان نہیں لانے کے۔
جن لوگوں نے مذکورہ بالا آیتوں سے یہ استدلال کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کوئی معجزہ نہ تھا ان کو امام فخر الدین رازی نے ملحد قرار دیا ہے اور ان کا جواب اس طرح دیا ہے کہ خود قرآن ہی بہت بڑا معجزہ ہے کہ باوجودیکہ کافروں سے کہا گیا کہ مثل اس کے لاؤ اور وہ نہ لاسکے۔ ممکن ہے کہ یہ کہا جائے کہ اگر قرآن معجزہ تھا تو پھر کافروں نے یہ کیونکر کہا کہ ” کیوں نہیں اتاری گئی پیغمبر پر کوئی نشانی “ تو امام صاحب فرماتے ہیں کہ ہم اس کا کئی طرح پر جواب دینگے،
اول یہ کہ لوگوں سے قرآن کو معجزہ نہ ٹھہرایا ہوگا اور کہا ہوگا کہ یہ تو کتاب کی قسم سے ہے اور کتاب معجزات کی قسم میں سے نہیں ہے جیسے کہ توراۃ وزبور و انجیل اور اسی شبہ کے سبب سے انھوں نے وہ کہا ہوگا۔ دوسرے یہ کہ انھوں نے معجزات قاہرہ طلب کئے ہوں گے جیسے کہ اور انبیاء کے پاس تھے مثلا سمندر کے چیر دینے اور پہاڑ کے سر پر معلق ہوجانے اور مردوں کے زندہ کرنے کے۔ تیسرے یہ کہ انھوں نے ضد سے علاوہ معجزات موجودہ کے اور معجزے طلب کئے ہوں گے جیسے فرشتوں کا اترنا یا آسمان کے ٹکڑے کا ٹوٹ پڑنا۔ چوتھے یہ کہ یا انھوں نے آسمان پر سے پتھروں کا برسنا یا اور عذاب کا اترنا چاہا ہوگا کیونکہ یہ سب باتیں آیت کے لفظ میں شامل ہیں۔
پھر امام صاحب کافروں کے مطلوبہ معجزات نہ نازل کرنے کی وجہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جب خدا اللہ نے قرآن مجید بہت بڑا معجزہ دیا تھا تو اس پر اور معجزہ طلب کرنا ضد اور خدا پر مستحکم کرنا تھا کرنے اور نہ کرنے میں خدا اپنی مرضی کا مختار ہے وہ لوگوں کی خواہشوں کے مطابق نہیں کرتا چاہا ان کا سوال قبول کیا چاہا نہ کیا۔ علاوہ اس کے اگر ان کے ان سوالوں کو پورا کردیتا تو وہ ایک اور معجزہ چاہتے جب وہ بھی پورا ہوجاتا تو اور چاہتے اور اس کی کچھ انتہا نہ ہوتی اس لیے پہلی ہی دفعہ سدباب کردیا۔ سوائے اس کے اگر خدا تعالیٰ ان کے مطلوبہ معجزات کو نازل کرتا اور اگر وہ ایمان نہ لاتے تو سب کو نیست و نابود کر ڈالتا پس خدا نے بمقتضائے رحمت کے ان کو نازل نہیں کیا۔ اور یہ بھی ہے کہ خدا جانتا تھا کہ وہ لوگ ان معجزات کو فائدہ کی غرض سے نہیں طلب کرتے تھے بلکہ ضد سے طلب کرتے تھے اور خدا کو معلوم تھا کہ وہ ایمان نہیں لانے کے۔
مگر شاہ ولی اللہ صاحب نے اپنی کتاب تفہیمات الٰہیہ میں صاف صاف بیان کیا ہے
اما شق القمر فعندنا لیس من المعجزات انما ھو من ایات القیامۃ کما قال اللہ تعالیٰ اقتربت الساعۃ وانشق القمر ولکنہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اخیر عند قبل وجودہ فکاف معجزۃ من ھذا السبیل۔۔۔ ولم یذکر اللہ سبحانہ شیئا من ھذہ المعجزات فی کتابہ ولم یشرالیھا قط بسرید یع وھوان القرآن انما من الا سم فلا یذکوفیہ ماھو من تحتہ (تفہیمات الٰھید)
کہ قرآن مجید میں کسی معجزہ کا ذکر نہیں ہے اور شق قمر کی نسبت لکھا ہے کہ وہ معجزہ نہیں چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک شق قمر معجزات میں سے نہیں ہے ہاں وہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے جیسے کہ خدا نے فرمایا ہے کہ قریب ہوئی ساعت اور پھٹ گیا چاند لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے ہونے سے پہلے اس کی خبر دی ہے اس راہ سے معجزہ ہے۔۔ اس کے بعد شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اللہ سبحانہ نے ان معجزات میں سے کچھ بھی اپنی کتاب (یعنی قرآن) میں ذکر نہیں کیا اور نہ مطلق اس کی طرف اشارہ کیا ہے، اس میں نادر بھید یہ ہے کہ قرآن تو پر تو اسم ذات کا ہے (اور شاہ صاحب نے معجزات کو اشرقات میں داخل کیا ہے جو اسم ذات سے کم درجہ ہے اس لیے انھوں نے فرمایا کہ ) پس جو چیز کہ اس کے ماتحت ہے اس کا ذکر اس میں نہیں ہوسکتا۔
مگر تعجب یہ ہے کہ اگر شاہ صاحب کے نزدیک کسی نبی کے معجزہ کا ذکر قرآن مجید میں نہ ہوتا تو اس وقت ان کی یہ دلیل صحیح ہوسکتی تھی لیکن جب کہ شاہ صاحب اور انبیاء کے معجزات کا ذکر قرآن مجید میں تسلیم کرتے ہیں جیسا کہ تفہیمات کے متعدد مقاموں سے پایا جاتا ہے تو یہ بھید ٹوٹ جاتا ہے اور کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ قرآن مجید میں بلالحاظ اس بھید کے اور پیغمبروں کے معجزوں کا تو ذکر ہو اور بلحاظ اس بھید کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزوں کا ذکر نہ ہو۔
غرضیکہ امام صاحب نے اس بحث کو اسی طریقہ پر کیا ہے جیسے کہ ہمارے ہاں کے قدیم علما کا طریقہ ہے اور شاہ صاحب نے اس کو تصوف کے سانچہ موہوم میں ڈھالنا چاہا ہے مگر اس زمانہ کے لوگوں کو ایسی تقریروں سے تشفی نہیں ہوتی اور جب تک اصل حقیقت صاف صاف نہ بتائی جاوے دل کو طمانیت نہیں رہتی۔
قرآن مجید میں اس آیت میں اور متعدد آیتوں میں جو کچھ لکھا ہے سب سچ ہے اور نہایت صفائی سے اصل حقیقت کو بتادیا ہے۔ بزرگوں کے ساتھ کرامت کا اور انبیاء کے ساتھ معجز کا خیال فطرت کے ایک بڑے بعضے سلسلہ سے مربوط ہے جب تک کہ اس سلسلہ پر ابتدا سے بغور کامل نظر نہ ڈالی جاوے اور قرآن مجید کی آیتوں کے ساتھ اس کو نہ تطبیق دی جاوے اس وقت تک نہ معجزہ کی اور نہ کرامت کی حقیقت ظاہر ہوتی ہے اور نہ اس آیت کی اور نہ قرآن مجید کی اور آیتوں کی جو مثل اس کے ہیں اصلی مراد و حقیقت کھلتی ہے اور نہ ان لوگوں کے دلوں کو جو اصلی حقیقت کی تلاش میں ہیں تسلی ہوتی ہے پس اول ہم فطرت کے اس سلسلہ کو مختصر طور پر بیان کرینگے اور اس کے بعد قرآن مجید کی آیتوں کو اس سے تطبیق دینگے۔ اور اسی کی ضمن میں انسان کے ان خیالات کی غلطی ظاہر کردینگے جو انبیائے (علیہم السلام) میں انسانوں سے بڑھ کر بلکہ نبوت کے سوا کسی اور چیز کا ہونا بطور دلیل ان کی نبوت کے ضروری سمجھتے ہیں۔ ان سب باتوں کے سمجھانے کے لیے اولاً فطرت کی ان باتوں کی طرف توجہ دلانا ضرور ہے جن بےمخلوقات کا سلسلہ نبوت کے سلسلہ تک ملا ہوا ہے۔
تمام مخلوقات میں انسان ہو یا حیوان ۔ شجر ہو یا حجر سب میں خدا نے ایک فطرت رکھی ہے ، اور اس کے اثر بغیر کسی کے بتائے اور بغیر کسی سکھانے والے کے سکھانے اسی فطرت کے مطابق ہوتے رہتے ہیں۔ اس ودیعت فطرت کو بعض علمائے اسلام نے الہامات طبعی کے نام سے موسوم کیا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ نے اس کو وحی سے تعبیر کیا ہے جہاں فرمایا ہے ” راوحی ربک الی النحل ان اتخذی من الجبال بیوتا ومن الشجر ومما یعرشون (النحل آیت) یہ وحی جبرائیل یا خدا کا اور کوئی فرشتہ شہد کی مکھی کے پاس لے کر نہیں گیا تھا بلکہ خود خدا اس کے پاس لے جانے والا یا اس میں ڈالنے والا تھا۔
ای دیکھو کہ اس وحی نے شہد کی مکھی میں کیا کیا ؟ کس طرح اس نے پہاڑوں کی چوٹیوں اور گھنے بلند درختوں کی ٹہنیوں میں اور کس حکمت سے چھتا لگایا۔ اور کس دانائی سے اس میں چھوٹے چھوٹے مسدس خانے بنائے، پھر کس طرح عمدہ سے معدہ شفا بخش پھولوں سے رس چوس کر لائی، اور کس طرح اس سے میٹھا شہد نکالا جس کے مختلف رنگ ہیں، پھر کس طرح ان مسدس خانوں کو اس سے بھرا جس کی نسبت خدا نے فرمایا کہ ” فیہ شفاء للناس “
ایک چھوٹے سے زرد رنگ کے جانور ہے کہ دیکھو کہ اس وحی یا فطرت نے اس میں کیا کر دکھایا ہے۔ کسی حکمت سے وہ اپنا گھونسلا بنتا ہے، دشمنوں سے محفوظ رکھنے کو کس قدر اونچے کانٹوں دار درختوں میں لٹکاتا ہے، اندھیری برسات کی راتوں میں کس طرح پٹ بیجنے کا چراغ اپنے گھونسلے میں جلاتا ہے، بجز اس وحی کے اور کس نے اس کو بتایا ہے کہ وہ فاسفورس دار کیڑا صرف روشنی دیتا ہے اور گھونسلا نہیں جلاتا۔
اس کے سوا اور پرندوں کو دیکھو کس طرح جوڑا جوڑا ہو کر رہرتے ہیں، اپنے انڈوں کو دونوں مل کر کس طرح سیتے ہیں، ایسی معتدل حرارت ان کو پہنچاتے ہیں کہ بڑے سے بڑے حکیم سے بھی نہیں ہوسکتی، پھر بچہ کس طرح انڈے کو کھنک کر نکلتا ہے ، پھر کس طرح وہ دونوں اس کو پالتے ہیں جب بڑا ہوجاتا ہے تو اڑ جاتا ہے اور وہی کرتا ہے جو اس کے ماں باپ کرتے تھے۔
چرندوں کا بھی یہی حال ہے وہ بھی اسی وحی کے مطابق جو ان کو دی گئی ہے کام کرتے ہیں اپنا چارہ ڈھونڈ لیتے ہیں، پانی تلاش کرلیتے ہیں ، وثت بعید فاصلہ سے پانی کی بو سونگھ لیتا ہے، حربہ کے جو اوزار ان کے پاس ہیں موقع پر کام لاتے ہیں دشمن سے اپنی جان بچاتے ہیں، بکری نے گو کبھی بھیڑیا نہ دیکھا ہو مگر پہلی ہی دفع دیکھ کر کانپتی ہے اور جان بچانے کو بھاگتی ہے، یہ سب کرشمے اسی وحی ربانی کے ہیں جو قادر مطلق ہمہ قدرت نے ان کو عطا کی ہے۔
انسان بھی مثل ان کے ایک مخلوق ہے وہ بھی اس وحی کے عطیہ سے محروم نہیں رہا، مگر جس طرح مختلف قسم کے حیوانوں کو بقدر ان کی ضرورت کے اس وحی کا حصہ ملا ہے اسی طرح انسان کو بھی بقدر اس کی ضرورت کے حصہ عطا ہوا ہے۔
انسان جس شکل و شمائل اور ترکیب اعضا پر پیدا ہوا ہے وہ بظاہر اس میں منفرد نہیں ہے بلکہ اس سے کم درجہ کی بھی ایسی مخلوق پائی جاتی ہے جو بظاہر اسی کی سی شکل و شمائل رکھتی ہے۔ اس سے مراد میری اس مخلوق سے ہے جو انسان کے مشابہ ہے مگر انسانی تربیت کا مادہ نہیں رکھتی، لیکن اس مقام پر میری بحث اس شکل و شمائل کے انسان سے ہے جس میں انسانی تربیت کا مادہ بھی ہے۔ کیونکہ خدا کا خطاب بھی ان ہی سے ہے نہ ان سے جو حقیقت میں انسان نہیں ہیں بلکہ انسان سے کم درجہ میں اور بندروں کے سلسلہ میں داخل ہیں۔
آب وہوا اور ملک کی حالت سے جہاں انسان رہتا ہے یا ایسے مقامات سے جہاں گو انسان پایا جاتا ہے مگر درحقیقت عمرانات میں شمار نہیں ہوسکتے انسان کی ضروریات میں بہت کچھ تغیر و تبدل ہوجاتا ہے مگر میں ان عارضی تبدیلات کو بھی اپنی اس بحث میں دخل نہ دونگا بلکہ انسان میں حیث الانسان سے بمقتضائے اس کی جبلت انسانی کی بحث کرونگا۔
اب ہم انسان کا حیوان سے مقابلہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ انسان ب مقابل حیوان کے اس وحی کا کس قدر زیادہ حصہ پانے کا مستحق تھا اور کن کن امور کے لیے ۔
ہم انسان اور حیوان دونوں میں بھوک اور پیاس کی خواہش پاتے ہیں مگر دونوں میں یہ فرق دیکھتے ہیں کہ حیوانوں کی اس خواہش کے پورا کرنے کے تمام سامان خود خدا نے ان کے لیے مہیا کردیا ہے خواہ وہ جنگل میں رہتے ہوں یا پہاڑ میں خواہ وہ گھاس کھاتے ہوں یا دانہ چگتے ہوں، زمین کے کیڑے مکوڑے کھاتے ہوں یا نہایت عمدہ تیار و فربہ جانوروں کا گوشت جہاں وہ ہیں سب کچھ ان کے لیے مہیا ہے۔
انسان کے لیے اس کی ان خواہشوں کے پورا کرنے کے لیے بغیر اس کی محنت و تدبیر کے کوئی چیز بھی مہیا نہیں یا یوں کہو کہ نہایت ہی کم مہیا ہے اس کو خود اپنی غذا پیدا کرنی چاہیے جب کہ وہ پانی کے چشموں سے دور ہے تو خود اس کو پانی بھی پیدا کرنا چاہیے۔
جانوروں کو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا لباس خود ان کے ساتھ ہے جو جاڑے اور گرمی میں تبدیل ہوتا رہتا ہے چھوٹی سی چھوٹی تیتریوں کا ایسا خوبصورت لباس ہے کہ بڑی سے بڑی شہزادی کو بھی نصیب نہیں مگر انسان ننگا پیدا ہوا ہے اس کو خود اپنی تدبیر سے اپنی محنت سے اپنے لیے آپ گرمی و جاڑہ کا لباس پیدا کرنا ہے۔
یہ ضرورتیں انسان کو فرداً فرداً پوری نہیں ہوسکتیں اور اس لیے اس کو اپنے ہم جنسوں کے ساتھ جمع ہو کر رہنے اور ایک دوسرے سے مدد لینے کی ضرورت پڑتی ہے بہت قسم کے جانور بھی ہیں جو ایک جگہ جمع ہو کر رہتے ہیں مگر ان کو آپس کی استعانت کی حاجت نہیں انسان ہی ایک ایسا مخلوق ہے جو اپنے ہم جنسوں کی استعانت کا محتاج ہے۔
اس طرح پر باہم مل کر رہنے کی ضرورت اور بہت سی ضرورتوں کو پیدا کردیتی ہے اس بات کی ضرورت پیش آتی ہے کہ وہ مجمع آپس میں کس طرح پر برتاؤ اور معاشرت کرے۔ کس طرح اپنے گھروں کو آراستہ کریں اور کس طرح ان کا انتظام کریں۔ ان قوائے کو جو خدا نے ان میں پیدا کئے ہیں اور جن سے توالد اور تناسل ہوتا ہے کس طرح پر کام میں لاویں ۔ ان مقاصد کے انجام کے لیے کس طرح سرمایہ پیدا کریں اور جو پیدا کیا ہے اس کو کس طرح بغیر دوسرے کی مزاحمت کے اپنے صرف میں لاویں جس سے دوسرے کو نقصان نہ پہنچے۔ اس مجمع کا مجموع من حیث المجموع کس طرح پر انتظام رہے۔ کسی دوسرے ویسے ہی مجمع کی دستدرازی اور زیادتی سے کس طرح محفوظ رہے۔
یہ ضرورتیں انسان پر ایک اور وحی کی ودیعت ہونے کی ضرورت کو پیش کرتی ہیں جس کو عقل انسانی یا عقلی کلی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے یہ وہی ودیعت ہے جس سے انسان چند واقعات وقوعی یا مقدمات ذہنی سے ایک نتیجہ پیدا کرتا ہے اور جزئیات کی تبع سے کوئی کلیہ قاعدہ بناتا ہے یا قاعدہ کلیہ سے جزئیات کو حاصل کرتا ہے ، ابتدا سے یعنی جب سے کہ انسان نے انسانی جامع پہنا ہے وہ اس ودیعت کو کام میں لاتا رہا ہے اور جب تک کہ وہ ہے کام میں لاتا رہے گا۔ یہی ودیعت ہے جس نے انسان کو نئی نئی ایجادوں اور حقائق اشیا کی تحقیقاتوں اور علم و فنون کے مباحثوں پر قادر کیا ہے، یہی ودیعت ہے جس سے انسان انبساط کی طرف مائل ہوتا ہے وہ غور کرتا ہے کہ کن محسوسی اور ذہنی چیزوں سے وہ خوشی حاصل کرسکتا ہے پھر وہ ان کے جمع کرنے اور ترتیب دینے یا ایجاد کرنے میں کوشش کرتا ہے یہی ودیعت ہے جس سے انسان کا دل ہر ایک واقعہ کی نسبت اس طرف مائل ہوتا ہے کہ یہ کیوں ہوا اور پھر اس سے کیا ہوگا، یہی ودیعت ہے جس کے سبب سے انسان کے دل میں خالق کا، سزا وجزا کا ، معاوکا، خیال پیدا ہوتا ہے۔
وہ اپنے چاروں طرف اپنے سے بہت زیادہ قوی ، مہیب و زبردست مخلوقات کو دیکھتا ہے اور اس کے دل میں ایک اعلیٰ اور قوی زبردست وجود کا خیال پیدا ہوتا ہے۔ اس کے سامنے ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن کا ظاہر میں کوئی کرنے والا معلوم نہیں ہوتا، بیماریوں وباؤں قحطوں میں وہ مبتلا ہوتا ہے اچھا موسم اور عمدہ فصلوں اور صحت و تندرستی کا زمانہ اس پر گزرتا ہے اور اس اختلاف کے اسباب سے بہت کم واقف ہوتا ہے وہ اس کو کسی ایسے وجود غیر معلوم سے منسوب کرتا ہے جس کے اختیار میں ان کا کرنا تسلیم کرتا ہے۔ پھر اس غیر معلوم وجود سے خوف کھاتا ہے اور بھلائی کو اس کی خوشی اور برائی کو اس کی خفگی کا سبب قرار دیتا ہے۔ پھر اس غیر معلوم وجود کی خوشی حاصل کرنے اور اس کی خفگی سے بچنے کی تدبیریں سوچتا ہے۔ وہ فکر کرتا ہے کہ میں کون ہوں اور اخیر میں کیا ہونگا اور آخر کار اعمال کی جزا و سزا کا اور ایک قسم کی معاد کے یقین پر مائل ہوتا ہے۔
یہ تمام خیالات جو بذریعہ وحی کے یا فطرت کے انسان میں پیدا ہوتے ہیں زمانہ کے گزرنے اور آئندہ نسلوں کے آنے اور برابر سنتے رہنے سے دلوں میں ایسے منقش ہوجاتے ہیں کہ بدیہات سے بھی اس کا درجہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ اور جس طرح انسان کی حالت کو ترقی ہوتی جاتی ہے اسی طرح ان باتوں کو بھی جو فطرت نے اس کو سکھائی ہیں ترقی ہوتی رہتی ہے۔ بلکہ ان فطرتی باتوں کا ترقی پانا ہی انسان کی ترقی کہلاتی ہے۔
پس جب اس طرح اس انسانی پتلے پر غور کیا جاوے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام چیزیں جن کو انبیاء (علیہم السلام) اور حکمائے علیہم الرحمۃ نے دنیا میں قائم کیا ہے اور جن کو ہم ۔ علم معاش۔ علم تمدن۔ علم سیاست مدن۔ علم تدبیر منزل۔ علم معاشرت۔ علم المعاملات والا حکام۔ علم الدین یا ادیان۔
علم البروالاثم۔ علم المعاد والآخرت۔ سے تعبیر کرتے ہیں وہی ہیں جن کی خود خدا نے انسان میں وحی ڈالی ہے یا ان کو خود اس کی فطرت میں رکھا ہے۔
یہ حقیقت زیادہ تر وضاحت اور تعجب انگیز طریقہ سے منکشف ہوتی ہے جب کہ تمام دنیا کے انسانوں کو جہاں تک کہ ہم کو ان سے واقفیت ہے باوجود ان کی زبان۔ ان کی قوم۔ ان کے ملک۔ ان کی صورت۔ ان کی رنگت، کے اختلاف کے بہت سی باتوں میں متفق پاتے ہیں گو طریقہ عمل میں کچھ اختلاف ہو مثلاً ۔ معبود کا یقین۔ اس کی پرستش کا خیال ۔ موت کے بعد اعمال کی جزا و سزا۔ دوسرے جہان کا وجود۔ کسی ہادی یا راہ نمائے روحانی کا ہونا۔ دنیاوی معاملات میں۔ تزوج۔ سر گروہ کا مقرر کرنا اور اس کے تابع رہنا۔ افعال میں۔ رحم دلی ہمدردی۔ سچائی کا اچھا سمجھنا۔ زنا۔ چوری۔ قتل۔ جھوٹ کو برا جاننا، یہ اور اس کے مثل اور بہت سے امور ہیں جن میں تمام دنیا کے انسانوں کو متفق پاتے ہیں۔ چند کا ان اتفاقوں میں سے مستثنیٰ ہونا جن کے اسباب بھی جدا ہیں اس کلیہ کے متناقض نہیں ہے۔
یہ خیال کرنا کہ ان سب نے ایک ایسے زمانہ میں جب کہ سب یکجا ہوں گے ان باتوں کو سیکھا ہوگا اور متفق ہوجانے کے بعد بھی وہ ان سب باتوں کو اپنے ساتھ لے گئے ایک ایسا خیال ہے کہ جس کا ثبوت موجود نہیں ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ناممکن ہے اگر ہم تسلیم بھی کرلیں کہ وہ سب کسی زمانہ میں یکجا تھے تو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی افتراق نے ان کی حالت کو (جو ضرور ہے کہ بےانتہا زمانہ کی مفارقت باعث ہوئی ہوگی) ایسا تبدیل کردیا ہے کہ صورت میں رنگت میں طبیعت میں اعضا کی ساخت میں ان کے جوڑ بند میں ان کی زبان میں ایک تبدیل عظیم واقع ہوگئی ہے تو یہ کیونکر تسلیم ہوسکتا ہے کہ وہ خود تو بدل گئے مگر جو سبق انھوں نے سیکھا تھا وہ نسل در نسل نہ بھولے۔ بلکہ برخلاف اس کے وہ اس بات کی دلیل ہوسکتی ہے کہ یہ تو افق اسی وحی یا فطرت کا باعث ہے جو خدا نے انسان کو ودیعت کی ہے۔
مگر خدا نے اس فطرت کو جس کو ہم نے عقل انسانی یا عقل کلی سے تعبیر کیا ہے ایسا نہیں بنایا کہ سب میں برابر ہو یا سب میں ایک سا اس کا ظہور ہو بلکہ انسان کے پتلے میں اس کے اعضا کی بناوٹ اس طور پر بنائی ہے کہ اس فطرت کا ظہور بہ تفاوت اور بانواع مختلف ہوتا ہے پس اس فطرت سے جس شخص کو اعلیٰ درجہ کا حصہ اور جس نوع کا دیا جاتا ہے وہ اوروں کے لیے اس نوع کا ہادی اور پیشوا ہوجاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے ایسے شخص کو مفہمون کے لقب سے ملقب کیا ہے، وہ حجۃ اور البالغہ میں، تحت باب حقیقۃ النبوۃ و خواصہا، ارقام فرماتے ہیں جس کا ماحصل یہ ہے کہ ” مفہمون مختلف استعداد کے اور کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ جس کو اکثر خدا کی طرف سے بذریعہ عبادت کے تہذیب نفس کے علوم کا القا ہوتا ہے وہ کامل کہلاتا ہے۔ جس کہ اکثر عمدہ اخلاق اور تدبیر منزل کے علوم کا القا ہوتا ہے وہ حکیم کہلاتا ہے جس کو سیاست کے امور کا القا ہوتا ہے اور وہ اس کو عمل میں لاسکتا ہے وہ خلیفہ کہلاتا ہے۔ جس کہ ملاء اعلیٰ سے تعلیم ہوتی ہے اور اس سے کرامتیں ظاہر ہوتی ہیں وہ موید بروح القدس کہلاتا ہے۔ اور جس کے دل میں اور زبان میں نورہوتا ہے اور اس کی نصیحت سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس کے حواریوں اور مریدوں پر بھی نور سکینہ نازل ہوتا ہے وہ ہادی اور مزکی کہلاتا ہے۔ اور جو قہاعد ثلۃ کا زیادہ جاننے والا ہوتا ہے وہ امام کہلاتا ہے۔ اور جس کے دل میں کسی قوم پر آنے والی مصیبت کی خبر ڈال دی جاتی ہے جس کی وہ پیشین گوئی کرتا ہے یا قبر و حشر کے حالات کا اس پر انکشاف ہوتا ہے اور وہ اس کا وعظ لوگوں کو سناتا ہے وہ منذر کہلاتا ہے۔ اور جب خدا اپنی حکمت سے مفتہمین میں سے کسی بڑے شخص کو مبعوث کرتا ہے تاکہ لوگوں کو ظلمات سے نور میں لاوے تو وہ نبی کہلاتا ہے ” بہرحال شاہ صاحب نے اس مطلب کو کسی لفظوں سے اور ہم نے کسی لفظوں سے تعبیر کیا ہو نتیجہ واحد ہے کہ انسانوں ہی میں سے جس درجہ اور جس نوع کی فطرت یا وحی خدا نے جس انسان میں ودعیت کی ہے وہ اوروں کے لیے اس نوع کا ہادی یا راہ نما ہوتا ہے۔ جس میں خدا نے اعلیٰ درجہ کی تہذیب نفس انسانی کی فطرت پیدا کی ہے خواہ اس کو انہی لفظوں سے تعبیر کرو خواہ ” وما ینطق عن الھوی ان ھوالا وحی یوحیٰ “ کے لفظوں سے وہ نبی ہوتا ہے گو کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ ہی میں کیوں نہ ہو۔
پس اب ایسی مخلوق کی نسبت جس میں خدا نے اس قدر کاموں اور متعدد درجوں کی فطرت پیدا کی ہو خیال کرو کہ وہ کیا کریگی۔ ضرور ہے کہ وہ اپنی تمدنی فطرت کے مقتضا سے ایک جگہ اکٹھا ہو کر رہیگی۔ اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے ایسی معین آوازیں ظاہر کریگی جو اس کے مافی الضمیر دال ہوں۔ جس طرح اس کو مافی الضمیر کے اظہار کی زیادہ ضرورت پیش آتی جائے گی ان آوازوں کی بھی کثرت اور ان میں تنوع اور اشتقاق پیدا ہوتا جائے گا رفتہ رفتہ وہ اس گروہ کی زبان قرار پائے گی اور علم لغت اور علم اشتقاق اور صرف و نحو اور فصاحت و بلاغت سے مالا مال ہوجاویگی۔
وہ سب اپنی زندگی بسر کرنے کے سامان مہیا کرنے کی فکر کرینگے دریاؤں اور ندیوں اور چشموں کے مقامات کو پانی میسر آنے کے لیے تلاش کرینگے اگر وہ ایسا موقع نہ پاوینگے تو زمین کھود کر پانی نکالینگے۔ ایک غریب بیکس عورت بھی اپنے بچہ کے لیے پانی کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑتی پھرے گی۔ گو کہ چند روز جنگل کی اتفاقیہ پیداوار پر وہ اپنی زندگی بسر کریں مگر غلہ پیدا کرنے پر کوشش کرینگے زمین کو پھاڑے گی اگر کدال میسر نہ ہوگی تو درخت کے سوکھے نوکدار تنہ ہی سے بہراز مشقت زمین چیرینگے اور پیچ ڈالینگے۔ بدن ڈھانکنے کی کوشش کرینگے ۔ درختوں کے پتے ہی لپیٹے گی جانوروں کی کھالوں کے تبند باندھینگے اپنے کھیت میں دوسرے کو نہ آنے دینگے اپنے غلہ کی حفاظت چرند پرند سے انسان سے ہر طرح پر کرینگے۔ رفتہ رفتہ زراعت کے قواعد اور حقوق کی بنیاد اور اس کے قوانین قائم ہوجاوینگے اور جس طرح اس کو ترقی ہوتی جاویگی اسی طرح ان سب باتوں میں جو معاش کے ذریعے ہیں ترقی ہوتی رہے گی۔ یہاں تک کہ انگوری باغ لگادینگے اور اس سے شراب بنا دینگے اور اس کو پی کر بدمست ہوجاوینگے۔
وہ اپنی بودوباش کی فکر کرینگے مکانات بناوینگے کالاکمل تانکر یا سر کنڈے اور بانسی جمع کرکے یا اینٹ اور گارہ بنا کر اور اس طرح مجتمع ہو کر گانوں اور قصبے اور شہر آباد کرینگے رفتہ رفتہ اس میں ترقی کرتے جاوینگے یہاں تک کہ قصر حمرا اور محل بیضا اور کرسٹل پیلس اور شیش محل بنا کر اس میں چین کرینگے۔
وہ اپنے گھروں کی درستی اور آبادی کی تدبیریں سوچینگے فرزندوں کی خواہش مونس غمگسار کی آرزو کو پورا کرینگے تروج کے قواعد اولاد کی پرورش کے طریقے ان کے حقوق ان کے ساتھ سلوک کے طریقے قرار دینگے جو رفتہ رفتہ ایسی ترقی پاوینگے کہ علوم کا درجہ حاصل کرینگے اور علم تدبیر منزل کے نام سے موسوم ہوں گے ۔
وہ اپنی گروہ میں راہ ورسم کے طریقے اور درستی اور محبت اور ہمدردی کے قاعدے ایجاد کرینگے رسم و رواج قائم کرینگے خوشی اور انبساط حاصل کرنے کے سامان مہیا کرینگے اور وہ تمام چیزیں رفتہ رفتہ علم اخلاق و معاشرت کا درجہ حاصل کرینگی۔
وہ اس مجمع کی حفاظت کی اور اس میں انتظام قائم کرنے اور سب کے حقوق محفوظ رہنے کی فکر میں پڑینگے اس کے لیے قوانین تجویز کرینگے اور اس کے نفاذ کے لیے کسی کو اپنا سردار بنادینگے اور رفتہ رفتہ سلیمان کی سی بادشاہت اور عمر کی سی خلافت قائم کرینگے اور وہی قوانین ترقی پاتے پاتے علم سیاست مدن کا رتبہ حاصل کرینگے۔
فطرت کے تفاوت درجات کے موافق انہی میں سے وہ لوگ پیدا ہوں گے جن کو شاہ ولی اللہ صاحب نے کامل، حکیم، خلیفہ، موید بروح القدس، ہادی دمز کی، امام، منذر، نبی، کے لقب سے ملقب کیا ہے اور اس زمانے کے بےاعتقادوں نے، رقارمرہ ان کا نام رکھا ہے، اور انہی کی نسبت خدا نے یہ فرمایا ہے ” ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم “
شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ بعثت انبیاء کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔ یا تو یہ ہوتا ہے کہ ایک دولت (یعنی حکومت یا سلطنت) کے ابتدائے ظہور کا اور اس سے اور دولتوں کے زوال کا وقت آ پہنچتا ہے اس وقت خدا اس دولت کے لوگوں کے دین کو قائم رکھنے کے لیے کسی کو مبعوث کرتا ہے جس طرح کہ ہمارے سردار محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی۔ (نعوذ باللہ دیس اعتقادی ہذا) یا خدا تعالیٰ کسی قوم کا بقا اور تمام انسانوں پر اس کا برگزیدہ کرنا چاہتا ہے اس وقت کسی کو مبعوث کرتا ہے جو ان کی کجی کو سیدھا کرے اور کتاب ان کو سکھاوے جس طرح کہ ہمارے سردار موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت ہوئی۔ یا کسی قوم کے منتظم کرنے کے لیے جس کی دولت و دین کی پائیداری قرار پاچکی ہے کسی مجدد کے مبعوث کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جیسے کہ داؤد و سلیمان اور تمام انبیائے بنی اسرائیل کی بعثت ہوئی جن کو خدا نے ان کے دشمنوں پر فتح دی۔ شاہ صاحب نے جو کچھ فرمایا یہ ان کا استنباط ہے مگر ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے میں یقین کرتا ہوں کہ بعثت انبیاء صرف تہذیب نفس انسانی کے لیے ہوتی ہے نہ اور کسی چیز کے لئے۔
بہرحال یہ تمام واقعات وہ ہیں جو ازروئے قاعدہ فطرت انسان پر گزرتے ہیں اور انسان ہر ایک کام میں کسی نہ کسی کو اپنا ہادی اور پیشوا اور راہ نما قائم کرتا ہے۔ اس وقت ہماری بحث ان لوگوں سے متعلق نہیں ہے عموماً مختلف قسم کے علوم وفنون و معارف و مکاسب میں نادی و پیشوا اور راہ نما قرار پاتے ہیں۔ بلکہ صرف اسی ہادی سے متعلق ہے جو تہذیب نفس انسانی کے لیے پیشوا اور ہادی ہوتا ہے۔
ایسا ہادی جس میں اس قسم کی ہدایت کی کامل فطرت ہوتی ہے وہی نبی ہوتا ہے اور وہی فطرت، ملکہ نبوت، ناموس اکبر، جبرائیل اعظم، کے لقب سے ملقب کی جاتی ہے۔ وہ کسی بات کو سوچتا ہے اور کچھ نہیں جانتا دفعۃً اس کے دل میں بغیر کسی ظاہری اسباب کے ایک القا ہوتا ہے اور قلب کو ایک صدمہ اس کے القا سے محسوس ہوتا ہے جیسے کہ اوپر سے کسی چیز کے گرنے سے صدمہ ہوتا ہے یا اس قسم کا ایک انکشاف اس کے دل پر ہوتا ہے جو سچ مچ وہ جانتا ہے کہ تمام حجاب اٹھ گئے ہیں اور جس کی میں تلاش میں تھا مثل سپیدہ دم صبح میرے سامنے موجود ہے شاید مختلف حالات و معاملات میں اوروں کو بھی ایسا ہوتا ہو مگر جب اس شخص میں دو صفتیں تسلیم کرلی گئی ہیں ایک فطرت کا کامل ہونا اور دوسرے اس فترط کا تہذیب نفس انسانی سے مخصوص ہونا تو لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کا وہ القا یا وحی خواہ جبرائیل لے کر آیا ہو یا خود وہ ملکہ نبوت ہی اس میں اور خدا میں ایلچی بنا ہو سچ اور فطرت اللہ کے مطابق ہے۔ اگر بحث رہ جاتی ہے تو اسی قدر رہ جاتی ہے کہ وہ شخص فی الواقع ایسا ہی ہے کہ نہیں۔
تہذیب نفس سے بلاشبہ بہت امور متفق ہوں گے لیکن ان سب میں ضروری کوئی ایسا امر بھی ہوگا جو اصل اصول تہذیب نفس انسانی کا ہو اور وہ اصول بمقتضائے فطرت انسانی وہ ہے جس کو خود انسانی فطرت نے قائم کیا ہے یعنی وجود اعلیٰ اور قوی زبردست وجود کا۔ اس مقام پر ہم اس بحث کو کہ اسی امر کو ہم نے کیوں اصل اصول تہذیب نفس انسانی قرار دیا ہے چھوڑ دیتے ہیں تاکہ غلط بحث نہ ہوجاوے پھر کسی مقام پر اس سے بحث کرینگے اور اس لیے یہ تسلیم امر مذکورہ کہتے ہیں کہ ضرور اس ہادی کا سب سے اور سب سے مقدم کام اس سب سے اعلیٰ اور سب سے قوی اور سب سے زبردست ہمہ قدرت وجود کی طرف ہدایت کرنا ہوگا اور جب کہ وہ کامل فطرت سے ہدایت ہوگی تو تمام کامل فطرت رکھنے والے ہادیوں کو اس میں اختلاف نہ ہوگا اور وہی فطرت اللہ اور دین اللہ ہوگا۔ اوز اور امور جو اس کے متعلق ہیں طریقے یا رسمیں یا مصالح ہوں گے جن کو اب ہم شرائع کے نام سے موسوم کرتے ہیں پس تمام انبیاء کا جب سے انبیاء ہوئے دین واحد تھا اصل دین میں کچھ تقاوت نہ تھا ۔ خدا فرماتا ہے ” شرع لکم من الذین ساومتی بہ نوحا والذی اوحینا الیک ونا وقینا بہ ابراھیم و موسیٰ و عیسیٰ “ (الشوری آیت ) اور ایک جگہ فرمایا ہے ” لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنھا حبا “ (مائدہ آیت )
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واذاسمعوا : سورۃ الانعام : آیت 8

بلحاظ ان فطرتوں کے جو خدا نے انسان میں پیدا کی ہیں شاہ ولی اللہ صاحب بھی اس بات کے قابل ہوئے ہیں کہ انسان (حجۃ اللہ البالغہ باب اقامۃ الا تفاقات واملاح الرسوم) کا ان کو ترک کرنا محال ہے اور وہ بہت سے امور میں ایک ایسے حکیم کے محتاج ہیں جو تمام ضرورتوں سے واقف ہو اور مصالح تدبیر جانتا ہو خواہ بذریعہ فکر و روایت کے خواہ اس طرح پر کہ خدا تعالیٰ نے اس کی جبلت میں قوت ملکیہ رکھی ہو اور ملاء اعلیٰ سے اس پر علوم نازل ہوتے ہوں۔
پھر وہ لکھتے ہیں کہ انسانوں میں جو رسمیں قائم ہوجاتی ہیں ان میں اکثر بسبب قوم کے سرداروں کی نادانی سے خرابیاں پڑجاتی ہیں اور نفسانی خواہشوں اور شیطانی حرکتوں تک پہنچ جاتی ہیں اور بہت سے لوگ اس کی پیروی کرنے لگتے ہیں اور اس لیے ایک ایسے شخص کی حاجت ہوتی ہے جو غیب (اگر شاہ صاحب بجائے غیب کے فطرت اللہ کا لفظ استعمال فرماتے تو مطلب بالکل صاف ہوجاتا) سے موید ہوا اور مصالح کلیہ کا پابند ہوتا کہ رسومات بد کو مٹا دے اور ایسا شخص موید بروح القدس ہوتا ہے۔
پھر وہ دارقام فرماتے ہیں کہ انبیاء کی بعثت اگرچہ دراصل اور بالتخصیص عبادت کے طریقوں کی تعلیم کرنے کے لیے ہوتی ہے مگر بعد کو اس کے ساتھ رسومات بد کا دور کرنا بھی شامل ہوجاتا ہے۔ یہ بات ذرا تفصیل طلب ہے اگر شاہ صاحب کی مراد ان رسوم بد سے ہے جو عبادت اور تہذیب نفس انسانی سے متعلق ہیں تو سلمنا اور اگر مراد ان رسوم کی اصلاح سے بھی ہے جو محض دنیاوی امور سے متعلق ہیں تو ہم اس کو نہیں قبول کرسکتے کیونکہ نبوت کو محض دنیاوی امور سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ اور قصہ تابیر نخل اور یہ الفاظ کہ ” انتم اعلم بامور دنیاکم “ اور یہ حدیث کہ ” من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھورد “ ایک بہت بڑی دلیل ہماری اس مدعا پر ہے۔
تمام رسومات و عادات اور طریقے جو انسانوں میں بمقتضائے ان کی فطرت کے قائم ہوجاتے ہیں وہ متعدد اقسام پر منقسم ہیں۔
اول۔ جو خدا کی ذات و صفات سے متعلق ہیں یعنی اس قوت اعلیٰ کے وجود سے جس کو انسانوں نے بمقتضائے اپنی فطرت کے تسلیم کیا ہے۔
دوم۔ اس کی عبادت کے طریقوں سے جو لوگوں نے بمتقضائے فطرت انسانی اس کے لیے قرار دیئے ہیں اور یہی امور وہ ہیں جن پر دین کا اطلاق ہوتا ہے۔
سوم۔ وہ امور ہیں جو تہذیب نفس انسانی سے علاقہ رکھتے ہیں اور جن کو نوع انسانی نے بطور بدیہیات کے حسن یا قبیح قرار دے رکھا ہے مثلاً زنا۔ قتل ۔ سرقہ کذب وغیرہ کہ تمام نوع انسان کے نزدیک قبیح ہیں گو کہ کسی فرقہ نے زنا یا قتل و سرقہ و کذب کی حقیقت قرار دینے میں غلطی کی ہو۔ یا جیسے صداقت رحم ہمدردی کہ تمام نوع انسانی کے نزدیک حسن ہیں گو کہ کسی سے اس کی حد صحیح طور پر بیان نہ ہوسکی ہو۔ انہی امورسہ گانہ کی نسبت جو طریقے قرار پاتے ہیں ان کا نام شریعت ہے۔
چہارم۔ وہ امور ہیں جو محض دنیاوی امور سے تعلق رکھتے ہیں وہ نہ دین ہیں اور نہ انبیاء کو من حیث النبوۃ ان سے کچھ تعلق ہے۔ اسی میں وہ تمام مسائل بھی داخل ہیں جو علوم وفنون اور تحقیقات حقائق اشیاء سے علاقہ رکھتے ہیں گو کہ انبیاء نے ان امور کا ذکر اس طرز یا الفاظ میں کیا ہو جس طرح پر اس زمانہ کے لوگوں کا یقین یا ان کی معلومات تھی۔
شاہ ولی اللہ صاحب نے اس بحث کی زیادہ تفصیل کی ہے اور بہت اچھی کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ وہ چیز جو انبیاء اس باب میں قاطبۃً خدا کے پاس سے لاتے ہیں وہ یہ ہے کہ دیکھا جاوے کہ کھانے پینے اور لباس اور مکان بنانے اور زیب و زینت کرنے اور نکاح شادی بیاہ کرنے اور خرید و فروخت کرنے اور گناہ گاروں کے سزا دینے اور تنازعات کے فیصل کرنے میں اس وقت کے لوگوں میں کیا عادتیں اور رسمیں مروج ہیں پھر اگر وہ سب باتیں عقل کلی کے مطابق و مناسب ہیں تو ان کے اول بدل کرنے کے کوئی معنی نہیں ہیں بلکہ ضروری ہے کہ لوگوں کو اسی پر قائم رہنے کے لیے برانگیختہ کیا جاوے اور اس باب میں ان کی تصویب کی جاوے اور اس کی خوبیاں بتلائی جاویں اور اگر وہ مطابق نہ ہوں اور ان کے ردوبدل کی حاجت ہو کیونکہ وہ دوسروں کو ایذا پہنچاتی ہیں یا لذات دنیا میں ڈال دیتی ہیں اور نیکی سے باز رکھتی ہیں اور دین دنیا سے بےفکر کردیتی ہیں اس وقت بھی کوئی ایسی بات نہیں نکالی جاتی جو بالکل ان کے مالوفہ امور کے برخلاف ہو بلکہ جو اگلی مثالیں ان لوگوں کے ہاں ہیں اور جو اچھے لوگ ان لوگوں کے نزدیک گزرے ہیں ان کی طرف ان کو پھیرا جاتا ہے اور جب وہ اس طرف مائل ہوتے ہیں تو ان کو ٹھیک بات بتائی جاتی ہے اور ان کی عقلیں اس کو نامقبول نہیں کرتیں بلکہ ان کے دلوں کو طمانیت ہوجاتی ہے کہ یہی سچ ہے۔ اور یہی سبب ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی شریعتیں مختلف ہیں۔ جو لوگ راسخ فی العلم ہیں جانتے ہیں کہ شرع میں درباب نکاح اور طلاق اور معاملات اور زیب و زینت اور لباس اور انفصال مقدمات اور حدود اور لوٹ کے مال کی تقسیم کے کوئی ایسی بات نہیں آئی ہے جو اس وقت کے لوگ اس کو نہ جانتے ہوں یا اس کے کرنے سے تردد میں پڑجاویں جب اس کے کرنے کا حکم ہو۔ ہاں یہ ہوا ہے کہ جس میں جو خرابی تھی وہ درست کردی گئی اور غلط کو صحیح کردیا۔ ان لوگوں میں سوخوری بہت تھی اس کو منع کردیا۔ وہ پھل آنے سے پہلے صرف پھول آنے پر میوہ بیچ ڈالتے تھے اور پھر اس میں جھگڑا ہوتا تھا اس کو منع کردیا۔ دیت یعنی خون بہا عبدالمطلب کے وقت میں دس اونٹ تھے پھر قوم نے دیکھا کہ قتل سے باز نہیں رہتے تو سو اونٹ دیت کردیئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی کو قائم رکھا پہلے پہل مال غنیمت کی تقسیم ابی طالب کے حکم سے ہوئی اور رئیس قوم کے لیے بھی حصہ قرار پایا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خمس جاری کیا۔ شاہان فارسی یعنی قباد اور اس کے بیٹے نوشیرواں نے خراج عشر لوگوں پر مقرر کیا تھا شرع میں بھی یہی قرار دیا گیا۔ بنی اسرائیل زنا کے جرم میں رجم کرتے تھے چوروں کے ہاتھ کاٹتے تھے (یہودیوں میں ہاتھ کاٹنے کی رسم نہ تھی بلکہ عرب میں تھی) جان کے بدلے جان مارتے تھے قرآن کریم میں یہی حکم نازل ہوا (رجم قرآن میں نہیں ہے) اور اسی طرح کی بہت سی مثالیں ہیں جو تلاش کرنے والے سے مخفی نہیں ہیں۔ بلکہ اگر تو فطین یعنی پوری سمجھ کا ہے اور تمام احکام کے مراتب پر محیط ہے تو تو یہ بھی جانیگا کہ انبیاء (علیہم السلام) عبادات میں بھی اس کے سوا جو قوم کے پاس تھا بعینہ اس کی نظیر کے اور کچھ نہیں لائے لیکن انھوں نے جاہلیت کی تحریفات پر وار کردیا اور جو مبہم تھا اس کے اوقات وارکان کے ساتھ ضبط کردیا اور جو ٹھیک تھا اس کو لوگوں میں پھیلا دیا (انتہیٰ )
یہ مضمون شاہ ولی اللہ صاحب کا قریب قریب ایسے مضمون کے ہے جو اس زمانہ کے لوگوں کے خیال میں ہے اور جن کو ہمارے زمانہ کے علما اور مقدس لوگ کافر و ملحد اور مرتددزندیق کہتے ہیں گو کہ وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ وماجاء بہ پر بھی یقین رکھتے ہوں مگر نہیں معلوم کہ وہ لوگ شاہ ولی اللہ صاحب کو کیا کہتے ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ انبیاء عبادات میں بھی کوئی نئی چیز نہیں لائے بہرحال شاہ صاحب نے جو محض دنیاوی امور کو بھی مذہب یا شریعت میں شامل کرلیا ہے ہم اس کو تسلیم نہیں کرتے۔ دین جیسا کہ اوپر بیان ہوا مرورایام سے تبدیل نہیں ہوسکتا۔ لیکن دنیاوی معاملات وقتہً فوقتہً تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور وہ کسی طرح ابدی خدا کی جانب سے صورت خاص کے محکوم نہیں ہوسکتے۔ اگر یہ کہو کہ جب اصول ان کے محفوظ ہیں
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واذاسمعوا : سورۃ الانعام : آیت 8

تو حوادث جدید کے احکام علمائے اسلام جو کانبیاء بنی اسرائیل ہیں استنباط کرسکے گے۔ تو ہم یہ کہینگے کہ علما و قوہین یہود کے اور تسیس و رہبان عیسائی مذہب کے بھی علم میں کچھ کم درجہ نہیں رکھتے تھے اگر انھوں نے دنیاوی احکام میں غلطی کی تو کیا وجہ ہے کہ یہ غلطی نہ کرینگے اور اگر دنیاوی احکام بھی داخل نبوت ہیں تو کیا وجہ ہوگی کہ ان کی غلطیوں کی وجہ سے تو انبیاء کے مبعوث ہونے کی ضرورت ہو اور ان کی غلطی کے سبب نہ ہو۔ خصوصاً ایسی صورت میں کہ توراۃ مقدس میں جس قدر دنیاوی امور کا تذکرہ ہے اس کا عشر عشیر بھی قرآن مجید میں نہیں ہے۔
یہ مباحث نہایت طویل ہیں اور یہ مقام ان سب کے بیان کی گنجائش نہیں رکھتا مگر اس تمام بحث سے یہ نتیجہ حاصل ہوا کہ انسانوں میں بموجب فطرت انسانی کے کوئی نہ کوئی ان کا ہادی ہوجاتا ہے اگر خدا نے اس کو فطرت کامل اور وحی اکمل عطا فرمائی ہے تو وہ سچا ہادی ہوتا ہے جس کی نسبت خدا نے فرمایا ہے ” لکل قوم ھاد “ پس جو گروہ کسی شخص کو دین و شریعت کا ہادی سمجھتی ہے اس کی بزرگی و تقدس کا اعتقاد بھی اعلیٰ درجہ پر رکھتی ہے جس کا نتیجہ موافق فطرت انسانی کے یہ ہوتا ہے کہ انسانوں سے اس کو برتردرجہ دیا جاتا ہے یہاں تک کہ ابن اللہ یا محیط ذات الہٰ (یعنی اوتار) یقین کیا جاتا ہے اور کم سے کم یہ ہے کہ اس میں ایسے اوصاف اور کرامتیں اور معجزے تسلیم کئے جاتے ہیں جن سے نوح انسان سے اس کو برتری حاصل ہو معمولی واقعات اور حادثات کو جو قانون فطرت کے مطابق واقع ہوتے رہتے ہیں جب اس کی طرف منسوب ہوتے ہیں تو وہ اس کی کرامت اور معجزہ قرار پاتے ہیں مثلاً اگر ایک عام آدمی کسی کو بددعاوے کہ تجھ پر بجلی گرے اور اتفاق سے وہ بجلی سے مارا جاوے تو کسی کا کچھ خیال بھی نہ ہو لیکن اگر وہ بددعا کسی ایسے شخص نے دی ہو جس کے تقدس کا خیال لوگوں کے دلوں میں ہو تو اس کی کرامت یا معجزہ سے منسوب ہوجاتی ہے۔ بہت سی باتیں ہوتی ہیں کہ ان لوگوں سے جن کے تقدس کا خیال ہوتا ہے اسی طرح سرزد ہوتی ہیں جیسے کہ عام انسانوں سے ، مگر مقدس لوگوں سے سرزد ہونے کے سبب ان کی قدرومنزلت زیادہ کی جاتی ہے اور معجزے و کرامات کے درجہ پر پہنچادیا جاتا ہے۔ انسان میں بعضی ایسی قوتیں ہیں جو خاص طریقہ مجاہدہ سے قوی ہوجاتی ہیں اور کسی میں بمقتضائے خلقت قوی ہوتی ہیں اور ان سے ایسے امور ظہور پاتے ہیں جو عام انسانوں سے جنہوں نے ان قوتوں کو قوی نہیں کیا ہے ظہور نہیں پاتے حالانکہ وہ سب باتیں اسی طرح ہوتی ہیں جس طرح کہ اور امور حسب مقتضائے فطرت انسانی واقع ہوتے ہیں مگر وہ بھی ان مقدس شخصوں کے معجزے و کرامات شمار ہوتے ہیں۔ بہت عجیب باتیں افواہ ایسے بزرگوں کی نسبت مشہور ہوجاتی ہیں جن کی درحقیقت کچھ اصل نہیں ہوتی مگر لوگ ان بزرگوں کے تقدس کے خیال سے ایسے موثر ہوتے ہیں کہ اس کی اصلیت کی تحقیق کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور بےتحقیق اس پر یقین کرلیتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ انبیائے سابقین (علیہم السلام) کے تمام واقعات کو لوگوں نے ایسے طور پر بیان کیا ہے جن کا واقع ہونا ایک عجیب طریقہ سے ظاہر ہو اور پھر انھیں کو ان کے معجزے قرار دیئے ہیں اور بعضی ایسی باتیں منسوب کی ہیں جن کا کچھ ثبوت نہیں ۔ انہی غلط خیالات کے سبب لوگوں نے انبیاء (علیہم السلام) سے انکار کیا ہے چنانچہ قوم نوح قوم عاد قوم ثمود نے انبیاء کے انکار کرنے کی یہی وجہ بیان کی ہے کہ ” ان انتم الا بشر مثلنا “ پس انہی غلط خیالات کی وجہ تھی کہ مشرکین عرب بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معجزوں کے طلبگار ہوئے تھے۔ کبھی یہ کہتے تھے کہ اگر یہ پیغمبر ہیں تو کیوں نہیں ان کے پاس فرشتے آتے کیوں نہیں ان کے پاس خزانہ اتارا گیا۔ کبھی کہتے تھے کہ یہ تو عام انسانوں کی طرح کھاتے پیتے ہیں بازاروں میں پڑے پھرتے ہیں یعنی انسانوں سے زیادہ کوئی بات ان میں نہیں ہے۔ کبھی آسمان سے پتھر برسوانے چاہتے تھے ۔ کبھی آسمانوں کا ٹکڑا ٹوٹ کر گرنے کی خواہش کرتے تھے۔
قل انما انا بشر مثلکم یوحیٰ الی انما الھکم الہ واحد (سورة کھف آیت )
وحدانیت ثلاثہ کا ایک رکن جو توحید فی الصفات سے اس کی تکمیل کے لیے اسی قسم کے خیالات کا مٹانا ضروری تھا اس لیے جا بجا قرآن مجید میں معجزات کی نفی آئی ہے خدا تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ ” لوگوں سے کہہ دے کہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ میں انسان ہوں مثل تمہارے۔ مجھ کو وحی دی گئی ہے کہ یہی ٹھیک بات ہے کہ تمہارا خدا خدائے واحد ہے “۔
اور دوسری جگہ یہ حکم دیا کہ :
قل لا املک لنفسی نفعاولا ضرا الا مشاء اللہ ولوکنت اعلم الغیب لا ستکثرت من الخیر وما مسنی السوء ان انا الا نذیر وبشیر لقوم یومنون (سورة اعراف آیت )
” لوگوں سے کہہ دے کہ میں مالک نہیں ہوں اپنے لیے کسی نفع یا ضرر کا بجز اس کے کہ جو چاہے اللہ اور اگر میں غیب کا عالم ہوتا تو میں بھلائیوں کو بکثرت حاصل کرلیتا اور برائی مجھ کو چھوتی بھی نہیں۔ میں تو ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں ڈرانے والے اور خوشخبری دینے والے کے سوا اور کچھ نہیں ہوں۔
وقالو الن مومن لک حتی تفجرلنا من الارض ینبوعا اوتکون لک جنۃ من نخیل وعنب فتفجر الا نھا رخلالھا تفجیر او تسقط السماء کما زعمت علینا کسنا او تانی باللہ وملائکتہ قبیلا اویکون لنا بیتا من زخرف اوترقی فی السماء ولن نومن نرقیک حتی تنزل علینا کتا بانقرنہ قل سبحان ربی ھل کنت الا یشرار سولا۔ (سورة بنی اسرائیل آیت - )
کافروں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معجزے طلب کئے اور صاف صاف کہا کہ ہم ہرگز تجھ پر ایمان لانے کے جب تک کہ تو زمین پھاڑ کر ہمارے لیے چشمے نکالے، یا تیرے پاس کھجور و انگور کا باغ ہو جس کے بیچ میں تو بہتی ہوئی نہریں نکالے زور سے بہتی ہوئی یا تو ہم پر جیسا تو سمجھتا ہے آسمان کے ٹکڑے ڈالے، یا خدا اور فرشتوں کو اپنے ساتھ لاوے، یا تیرے لیے کوئی مزین گھر ہو ، نہ تو آسمان پر چڑھ جاوے، اور ہم تو تیرے منتر پر ہرگز ایمان نہیں لانے کے جب تک کہ ہم پر ایسی کتاب اترے جو ہم پڑھ لیں، مگر باوجود اس قدر اصرار کے جو کافروں نے معجزوں کے طلب میں کیا اور بغیر ایسے معجزوں کے ایمان لانے سے شدید انکار کیا اس پر بھی خدا نے اپنے پیغمبر سے یہی فرمایا کہ ” تو ان سے کہہ دے کہ پاک ہے میرا پروردگار میں تو کچھ نہیں ہوں مگر ایک انسان بھیجا ہوا یعنی رسول “۔
ایک اور جگہ ہے کہ کافروں نے کہا ” کیوں نہیں اتاری گئی اس پر یعنی پیغمبر پر نشانیاں یعنی معجزے اس کے جواب میں خدا نے پیغمبر سے کہا کہ تو یہ کہہ دے کہ بات یہ ہے کہ نشانیاں یعنی معجزے تو خدا کے پاس ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں کہ میں تو علانیہ ڈرانے والا ہوں۔
لولا انزل علیہ ایات من ربہ قل انما الایات عنداللہ وانما انا نذیر مبین۔ (سورة عنکبوت آیت )
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاس جو افضل الانبیائے والرسل ہیں معجزہ نہ ہونے کے بیان سے ضمناً یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انبیائے سابقین (علیہم السلام) کے پاس بھی کوئی معجزہ نہیں تھا اور جن واقعات کو لوگ معجزہ (متعارف معنوں میں) سمجھتے تھے درحقیقت وہ معجزات نہ تھے بلکہ وہ واقعات تھے جو مطابق قانون قدرت کے واقع ہوئے تھے ۔ خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو اس بات کو کھول دیا اور چھپا کے نہیں رکھا اس کا اصلی سبب یہ ہے کہ بڑا جزو اسلام کا جس کے سبب اس کو خطاب ” الیوم اکملت لکم دینکم “ کا ملا اور جس کی وجہ سے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم النبیین ہوئے وہ صرف تکمیل تلقین توحید ذات باری کی ہے جو توحید ثلاثہ میں منحصر ہے یعنی توحید فی الذات۔ توحید فی الصفات ۔ توحید فی العبادت۔ انبیائے (علیہم السلام) میں معجزات کا (علیٰ المعنی المتعارفۃ) یا اولیاء اللہ میں کرامات کا یقین کرنا (گو کہ اعتقاد کیا جاوے کہ خدا ہی نے وہ قدرت یا صفت ان میں دی ہے) توحید فی الصفات کو نامکمل کردیتا ہے۔ کوئی عزت اور کوئی بزرگی اور کوئی تقدس اور کوئی صداقت اسلام کی اور بانئے اسلام کی اس سے زیادہ نہیں ہوسکتی جو اس نے بغیر کسی لاؤ لپیٹ کے اور بغیر کسی دھوکا دینے کے اور بغیر کسی کرشمہ و کرتوت کا دعویٰ کرنے کے صاف صاف لوگوں کو بتادیا کہ معجزے و عجزے تو خدا کے پاس ہیں میں تو مثل تمہارے ایک انسان ہوں خدا نے میرے دل میں جو وحی ڈالی ہے اس کی تین حم کو تلقین کرتا ہوں۔ صلے اللہ علیٰ محمد خاتم النبیین و محبوب رب العالمین۔
ہم نے سورة بقرہ کی تفسیر میں اس بات پر بحث کی ہے کہ معجزہ اگر فی نفسہ کوئی شے ہو تب بھی وہ مثبت نبوت نہیں ہوسکتا اور اب اس مقام پر نفس معجزہ سے بحث کرنا چاہتے ہیں مگر جب تک لفظ معجزہ کی تعریف اور مراد نہ متعین ہوجاوے اس وقت تک اس پر بحث نہیں ہوسکتی۔
علامہ سید شریف نے شرح مواقف میں لکھا ہے کہ ہمارے نزدیک معجزہ وہ چیز ہے جس سے مدعے رسالت کی تصدیق ہوجاوے اور گو وہ امر بطور خرق عادت کے نہ ہو، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مثلاً کسی شخص نے مدعئے رسالت سے کہا کہ اس وقت مینہ برس جاوے تو میں تم کو نبی برحق مانوں گا چنانچہ بادل آیا اور مینہ برسنے لگا۔ سید شریف کے قول کے مطابق یہ مینہ برسنا معجزہ ہوا۔
المعجزۃ عندنا ما یقصد بہ تصدیق مدعی الرسالۃ وان لم یکن خارقاً للعادۃ (شرح مواقف جلد )
مگر اس پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس طرح پر متصل یا متعاقب واقع ہونا وہ قدرتی واقعوں کا سوائے سچے نبی کے اور کسی سے یا مدعی کاذب سے ظہور میں نہیں آسکتا۔
علاوہ اس کے تمام علمائے اسلام نے معجزہ کی تعریف میں اس کا خارق عادت ہونا ضروری سمجھا ہے اور خود سید شریف بھی جب کہ یہ فرماتے ہیں کہ ” گو وہ خارق عادت نہ ہو “ تو وہ بھی معجزات کا خارق عادات ہونا تسلیم کرتے ہیں صرف خارق عادت ہونا لازمی نہیں قرار دیتے۔
عادت سے مراد یہ ہے کہ ایک کام ہمیشہ ایک طرح پر ہوتا رہتا ہو اور اس کے اسباب بھی یکساں طریقہ پر جمع ہوتے رہتے ہوں اور جب وہ اسباب جمع ہوجاویں بلا تفاوت اس امر کا ظہور ہو۔
خرق عادت کے وہ معنی ہوسکتے ہیں۔ اول یہ کہ جو امر ہمیشہ بطور عادت مستمرہ کے یکساں طور پر ہوتا رہتا ہے اور بطور عادت مالوقہ کے ہوگیا ہے اس کے برخلاف کوئی امر وقوع میں نہ آوے۔ مثلاً آسمان پر سے خون کے مشابہ کوئی شے برسے یا پتھر کا ٹکڑا گرے گو کہ ایسا ہونے کے لیے کوئی سبب امور طبعی میں سے ہو۔ دوسرے یہ کہ سپرنیچرل ہو یعنی خارج از قانون قدرت یعنی اللہ تعالیٰ نے جو قاعدہ اور قانون وقوع واقعات اور ظہور حوادث کا مقرر کیا ہے اور عادت اللہ اسی کے مطابق جاری ہے اس کے برخلاف وقوع میں آوے۔
پہلے معنوں پر بطور اصطلاع یا مجاز کے خرق عادت کا اطلاق کیا جانا ممکن ہے مگر حقیقتہً اس پر خرق عادت کا اطلاق نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اس کا وقوع بھی اس کے اسباب کے اجتماع پر منحصر ہے اور عادت میں داخل ہے نہ خرق عادت میں کیونکہ جب اس کے اسباب جمع ہوجاوینگے تو یکساں طریقہ پر اس کا وقوع ہوگا گو کہ کیسا ہی نادرالوقوع ہو۔
مثلاً عادت یہ ہے کہ جب شیشہ ایک بلندی سے جس سے اس کو پورا صدمہ پہنچے ہاتھ سے چھٹ پڑتا ہے تو ٹوٹ جاتا ہے ایک دفعہ ہمارے ہاتھ سے شیشہ چھوٹ پڑا اور نہ ٹوٹا تو ظاہر ہیں خرق عادت ہوئی مگر حقیقت میں خرق عادت نہیں ہے اس لیے کہ اس کے گرنے پر یا تو وہ اسباب جمع نہ تھے جن سے اس کو ٹوٹنے کے لائق صدمہ پہنچتا یا ایسے اسباب موجود تھے جنہوں نے اس کو اس قدر صمہ پہنچنے سے باز رکھا پس اس کا نہ ٹوٹنا درحقیقت موافق عادت کے ہے نہ بطور خرق عادت کے کیونکہ جب اس طرح کے اسباب جمع ہوجاوینگے تو کوئی شیشہ بھی ہاتھ سے چھوٹ کر گرنے سے نہیں ٹوٹنے کا۔
یا مثلاً ایک شخص نے ایک شخص کو آنکھ بھر کے دیکھا اور وہ بےہوش ہوگیا یا اس نے بہرے کے کانوں میں انگلیاں ڈال دیں یا اندھے کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا اور وہ بہرا سننے اور وہ اندھا دیکھنے لگا۔ پس اگر اس کا سبب کوئی ایسی قوت ہے جو انسانوں میں موجود ہے اور اسی قوت کی قوت سے اس نے یہ کام کیا ہے تو اس پر خوق عادت کا اطلاق نہیں ہوسکتا کیونکہ جو انسان اپنی اس قوت کو کام میں لانے کے لائق کرلے گا وہ بھی ویسا ہی کردے گا پس یہ بات حقیقتہً کچھ خرق عادت نہ ہوئی بلکہ عین عادت ہوئی۔
علاوہ اس کے اگر ہم مجاز ایسے واقعات پر خرق عادت کا اطلاق بھی کریں تو وہ معجزہ کی تعریف میں داخل نہیں ہوسکتا کیونکہ معجزے یا کرامات کو انبیاء اولیا کے ساتھ مخصوص ہونا لازم ہوگا مگر جب ان واقعات کا وقوع اجتماع اسباب پر منحصر ٹھہرا تو اس کی تخصیص شخص دون شخص باقی نہیں رہتی۔
واقعات اور حادثات ارضی و سماوی موافق اس قانون قدرت کے جو خدا تعالیٰ نے ان میں رکھا ہے یکے بعد دیگرے واقع ہوتے رہتے ہیں۔ پس کسی امر کے بعد کسی واقعہ یا حادثہ ارضی و سماوی کا ظاہر ہونا کسی طرح معجزہ میں شامل نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا ظہور اسی عادت پر ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ نے قانون قدرت کے بموجب اس میں رکھی ہے۔
بعض عالموں نے کہا ہے کہ جو معجزات اور کرامتیں انبیاء اور اولیا سے ظہور میں آتی ہیں وہ بغیر موجود ہونے اسباب کے ظہور میں نہیں آتیں مگر خدا تعالیٰ بسبب اپنی مہربانی کے جو ان بزرگوں پر رکھتا ہے فی الفور اس کے ظہور کے اسباب مہیا کردیتا ہے کیونکہ وہ اسباب مہیا کرنے پر قادر ہے کہ کما قیل ” اذارادا للہ شیئا ھیئا اسبابہ “ بعضوں کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو کسی چیز کے پیدا کرنے کے لیے اس کے اسباب کے مہیا کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ” ان اللہ علی کل شیء قدیر اذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون “ ہاں یہ سب سچ ہے مگر وہ ان سب چیزوں کو اسی اسی طرح پر کرتا ہے جو اس نے قانون قدرت کا قاعدہ بنایا ہے۔ اور ان الفاظ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اس قانون قدرت کے قاعدہ کے برخلاف کرتا ہے۔
شاہ ولی اللہ صاحب حجۃ اللہ البالغہ میں بہ تحت باب الابداع والخلق والتدبیر اول تو اس بات کے قائل ہوئے ہیں کہ خدا نے جو خاصیت جس چیز میں رکھی ہے اس کو نہیں بدلتا حیث قال ” و جرت عادۃ اللہ تعالیٰ ان لا تنفک الخواص عما جعلت خواص لھا “ مگر اس کے بعد کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بلحاظ تدبیر عالم کے اور شر کے رفع ہونے کے ان قوائے یعنی خامیتوں میں قبض وبسط واحالہ اور الہام سے تصرف کرنا بندوں پر مقتضائے رحمت کا قرار دیا ہے۔ قبض کی مثال انھوں نے یہ دی ہے کہ جب دجال آئے گا تو ایک مسلمان کو قتل کرنا چاہے گا اور باوجود آلہ قتل کے درست ہونے کے قتل نہ ہوسکے گا ! ! بسط کی مثال انھوں نے یہ دی ہے کہ زمین پر پاؤں مارنے سے خدا نے حضرت ایوب کے لیے ایک چشمہ پیدا کردیا جس میں نہانے سے ان کے بدن میں جو بیماری تھی جاتی رہی ! ! !۔ احالہ کی مثال یہ دی ہے کہ خدا نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر آگ کو ٹھنڈی ہوا کردیا ! ! !۔ اور الہام کی مثال میں کشتی کے توڑنے اور لڑکے کے مار ڈالنے اور دیوار بنانے کا قصہ لکھا ہے ! ! !۔
مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے اول تو اس کے لیے اس کے ثبوت پر کوئی دلیل نہیں ہے علاوہ اس کے ان میں سے ایک مثال تو ابھی واقع ہی نہیں ہوئی باقی مثالوں کی نسبت ثبوت باقی ہے کہ وہ اسی طرح واقع ہوئی تھیں جس طرح کہ مثال میں پیش ہوئی ہیں اور اگر بالفرض اسی طرح واقع ہوئی تھیں تو ان میں یہ تحقیق باقی ہے کہ آیا وہ اس استدلال کی مثالیں ہوسکتی ہیں یا آنکہ وہ بلا کسی بسط کے اور بغیر کسی احالہ کے اور بغیر کسی الہام کے صرف مطابق عام قانون قدرت کے واقع ہوئی تھیں۔
پس جب تک کہ خرق عادت کے دوسرے معنی یعنی خلاف قانون قدرت کے نہ لیے جاویں اس وقت تک کسی واقع کا وقوع بطور معجزہ و کرامت کے تسلیم نہیں ہوسکتا۔ مگر ہم اس کے انکار پر مجبور ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہم کو صاف صاف بتلایا ہے کہ جو قانون قدرت اس نے بنادیا ہے اس میں کسی طرح تبدیلی نہیں ہوسکتی نہ خدا اس میں کبھی تبدیلی کرتا ہے اور نہ تبدیل کرے گا۔ خدا کا بنایا ہوا قانون قدرت اس کا عملی وعدہ ہے کہ اسی طرح ہوا کرے گا پھر اگر اس کے برخلاف ہو تو خلف وعدہ اور کذب خدا کی ذات پاک پر لازم آتا ہے جس سے اس کی ذات پاک بری ہے۔
خدا نے فرمایا ہے کہ ” انا کل شیء خلقنا ہ بقدر (سورة قمر آیت ) یعنی ہم نے ہر چیز کو ایک اندازہ پر پیدا کیا ہے۔ اور فرمایا ہے ” وکل شیء عندہ بمقدار (سورة رعد آیت) یعنی ہر چیز خدا کے نزدیک ایک اندازہ پر ہے تفسیر کبیر میں امام فخرالدین رازی نے لکھا ہے کہ ” فمعتاہ بقدر وحدلا یجادزو لا ینقص عنہ “ یعنی اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک اندازہ اور ایک حد پر کہ نہ اس سے بڑھتی ہے نہ کم ہوتی ہے۔ اور فرمایا ہے ” وخلق کل شیء نقدرہ تقدیرا (سورة فرقان آیت) یعنی اللہ نے ہر ایک چیز کو پیدا کیا پھر مقرر کیا اس کا ایک اندازہ ” اور یہی اندازہ قانون قدرت ہے “۔
دوسری جگہ خدا نے فرمایا ہے ” لا تبدیل لخلق اللہ (سورة روم آیت ) یعنی اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کے لیے بدل جانا نہیں ہے۔ اور ایک جگہ فرمایا کہ ” فلن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا ولن تجد لسنۃ اللہ لمخویلا (سورة ملائکہ آیت - ) یعنی تو ہرگز نہیں پانے کا اللہ کی سنت میں ادل بدل ہونا اور نہ پائے گا تو اللہ کی سنت میں الٹ جانا۔ اور اسی طرح فرمایا ہے ” سنت اللہ التی قد خلت من قبل ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا “ (سورة فتح آیت ) (قالالوازی۔ زفلک الکتاب المبین ھو علی اللہ تعالیٰ غیر وھذا ھوالا صوبتفسیر کبیر)
ہونے کے تین سبب ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ وہ شخص جس سے معجزہ ہوا مفہمین میں سے ہے کیونکہ اس کا ایسا ہونا باعث ہوتا ہے بعض حوادث کے انکشاف کا اور سبب ہوتا ہے استجابۃ دعا اور ظہور برکات کا۔ دوم یہ کہ ملاء اعلیٰ اس کے حکم بجا لانے کو موجود ہو اور اس کو الہام اور حالات اور تفرییات ہوتے ہوں جو پہلے نہ ہوتے تھے پس وہ اپنے احباب کی مدد کرتا ہے اور دشمنوں کو مخذول کرتا ہے اور خدا کا حکم ظاہر ہوتا ہے اگرچہ کافر اس کو ناپسند کرتے ہوں۔ تیسرے یہ کہ دنیا میں جو واقعات بوجہ اپنے خارجی اسباب کے ہوتے ہیں اور آسمان و زمین کے بیچ میں جو حوادث ظہور پاتے ہیں خدا تعالیٰ انہی کو کسی وجہ سے اس کا معجزہ قرار دے دیں (انتہیٰ ) ۔
تعریف معجزہ و کرامات میں جب لفظ ” خرق عادت “ کو جس کے معنی بجز خلاف قانون قدرت کے اور نہیں ہوسکتے جیسے کہ ہم نے اوپر تشریح کی ہے محفوظ رکھا جاوے تو یہ تینوں صورتیں جو شاہ صاحب نے بیان فرمائی ہیں داخل معجزہ کرامات نہیں ہوسکتیں۔
پہلی صورت میں شاہ صاحب نے مفہمین سے کسی امر کا ظاہر ہونا معجزہ یا کرامت قرار دیا ہے۔ مفہمین کے معنی انھوں نے یہ لکھے ہیں کہ ان کا بلکہ نہایت اعلیٰ ہو ممکن ہو کہ وہ ایک بہت بڑے نظام مطلوبہ کے قائم کرنے کو سچے دعویٰ سے برانگیختہ ہوں اور ان پر ملاء اعلیٰ سے علوم اور احوال الٰہیہ کی پھوار پڑتی ہو۔ معتدل المزاج ہوں ان کی شکل و صورت درست اور خلق اچھا ہو ان کی رائے میں اضطراب و عدم استقلالی نہ ہو نہ ان میں بےانتہا کی ذکاوت ہو جس سے کلی سے جزئی تک اور مغز سے پوست تک رستہ نہ ہو اور نہ ایسے سخت غبی ہوں کہ جزئی کلی تک اور پوست سے مغز تک نہ پہنچ سکیں سب سے زیادہ سنت کے پابند ہوں نہایت عابد ہوں معاملات میں لوگوں کے ساتھ ٹھیک ہوں عام بھلائی کی تدبیروں کو درست رکھتے ہوں نفع عام میں شوق رکھتے ہوں بلا سبب کسی کو نہ ستاویں ہمیشہ عالم غیب کی جانب متوجہ رہیں اس کا اثر ان کے کلام سے ان کے منہ سے ظاہر ہوتا ہو اور ان کی تمام شان سے معلوم ہوتا ہو کہ موید من الغیب ہیں ان کو ادنیٰ ریاضت قرب و سکینہ کی وہ باتیں کھل جاتی ہیں جو اوروں کو نہیں کھلتیں پس ایسا شخص باعث ہوتابعض حوادث کے انکشاف کا اور سبب ہوتا ہے، اسجابت دعا اور ظہور برکات کا “۔
برکت کے معنی شاہ صاحب نے یہ بتلائے ہیں کہ جس شے پر برکت دی جائے یا تو اس کا نفع زیادہ ہوجائے مثلاً تھوڑی سی فوج دشمن کے خیال میں بہت سی معلوم ہونے لگے اور وہ بھاگ جائے یا تھوڑی غذا میں طبیعت تصرف کرکے ایسا خلط صالح پیدا کرے کہ اس سے دو چند غذا کھانے کی برابر ہو یا خود وہ شے ہی بسبب متقلب ہوجائے مادہ ہوائی کے بشکل اس شے کے زیادہ ہوجاوے۔
اس تمام بیان میں شاہ صاحب مفہمین سے اس امر کے ظہور کو قانون قدرت کے ماتحت کرنا چاہتے ہیں پس جب کہ وہ قانون قدرت کے ماتحت ہے اور متخیلہ تھوڑی فوج کو بہت تصور کرسکتا ہے اور طبیعت قلیل غذا سے کثیر غذا کا فائدہ دے سکتی ہے اور مادہ ہواتی بالفرض کوئی شے بن جاسکتا ہے تو وہ نفس انسانی کے خاصوں میں سے ایک خاصہ ہے شخص دون شخص پر موقوف نہیں ہے اور اس لیے کسی کا معجزہ نہیں ہوسکتا۔
دوسری صورت جو شاہ صاحب نے لکھی ہے وہ الہامات اور حالات اور تفرییات کی قسم سے ہے اور جب کہ یہ نہیں بیان کیا کہ وہ الہامات و احالات و تفرییات بمقتضائے فطرت انسانی نہیں ہیں تو انھوں نے ان سب کو داخل فطرت انسانی سمجھا ہے اور جب وہ فطرت انسانی میں داخل ہیں تو قانون قدرت کے ماتحت ہیں اور اس لیے معجزہ قرار نہیں پاسکتے۔
تیسری صورت تو نہایت ضعیف ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دو امروں کا جن کا وقوع موافق قانون قدرت کے ہوتا ہے ایک دوسرے کے متصل واقع ہونا معجزہ ہے۔ مثلاً ایک شخص مرگیا اور اسی کے قریب سورج گہن لگایا ایک پیغمبر کو لوگوں نے ستایا اور اس کے بعد کوئی واقعہ مثل طوفان یا وبا کے واقع ہوا پس پچھلے واقعہ کا افتران پہلے واقعہ کے ساتھ معجزہ ہے حالانکہ یہ تمام امور وہ ہیں جو قانون قدرت کے موافق واقع ہوتے رہتے ہیں اور ان کا اقتران کسی واقعہ کے ساتھ صرف اتفاقی ہے اور وہ بھی مطابق قانون قدرت کے پس بموجب اس اصول کے جس کی بنا پر ہم نے معجزہ و کرامت سے انکار کیا ہے اس اصول کے مطابق شاہ ولی اللہ صاحب بھی معجزہ و کرامت کے منکر ہیں شاہ صاحب نے اس سے بھی زیادہ وضاحت سے ایک جگہ تفہیمات میں تمام معجزات کو اسباب پر مبنی کیا ہے اور جب وہ اسباب مبنی ہیں تو تابع قانون قدرت ہیں اور جب تابع قانون قدرت ہیں تو معجزہ معین نہیں اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ دراصل شاہ صاحب بھی ہمارے اصول کے موافق منکرین معجزات سے ہیں انھوں نے تفہیمات میں لکھا ہے کہ
ان مولکمن نفس الا متفاوتد منھما مومن الاسباب فیہ العلۃ وینعون فقط و اسبب و المسیب فحسب ومن لمتحقق عندنا انہ لم یداک الاسباب قط ولن یترک ولن جد لسنۃ اللہ تبدیلا انما المعجزات والکرامات امور اسبابیۃ غلب علیہ السبوع فباینت سائر الاسبابیات (تفھیمات)
” بیشک مقامات نفس الامر کے متفاوت ہیں ان میں سے مقام اسباب ہے اور اس مقام میں فقط علت معلول کا سلسلہ ہے اور صرف سبب اور مسبب کا اور ہمارے نزدیک یہ بات محقق ہے کہ اسباب کبھی نہیں چھوٹتے اور نہ چھوٹینگے اور نہ کبھی تو پاویگا اللہ کی سنت میں اول بدل ہونا۔ اس کے سوا اور کوئی بات نہیں ہے کہ معجزے اور کرامتیں امور اسبابیہ ہیں (یعنی سباب پر مبنی ہیں) مکمل ہونا ان پر غالب ہوگیا ہے اس لیے تمام اور اسبابیات سے جدا ہوگئے ہیں۔
غرضیکہ ہم نے معجزہ و کرامت کے مفہوم میں اس امر کو داخل کیا ہے کہ اس کا وقوع خلاف قانون قدرت ہو اور اسی اصول پر معجزہ کرامت سے انکار کیا ہے۔ مشرکین عرب بھی اس قسم کے معجزے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے طلب کرتے تھے جن سے جا بجا قرآن مجید میں انکار ہوا ہے۔ لیکن اگر وقوع خلاف قانون قدرت کو مفہوم معجزہ سے خارج کردیا جاوے اور امورات اتفاقیہ یانادرالوقوع پر جو قانون قدرت کے مطابق واقع ہوتے ہیں معجزہ کا اطلاق کیا جاوے تو ایسی حالت میں صرف اصطلاح قرار دینے کا اختلاف ہوگا اور جو اصطلاح ہم نے قرار دی ہے اس کے مطابق اس پر معجزہ و کرامت کا اطلاق نہ ہوگا۔
تمام فرق اسلامیہ معجزات کو حق بیان کرتے ہیں اور سوائے معتزلیوں اور استاد ابو اسحاق اسفرائی کے جو اہل سنت و جماعت میں سے ہیں تمام فرقے کرامات اولیاء کے بھی قائل ہیں اور شیعہ صرف دوازدہ امام (علیہم السلام) میں حصر کرامت کرتے ہیں معتزلے اس وجہ سے کرامات کے منکر ہیں کہ اگر اولیا سے بھی کرامتیں ہوں تو اس میں اور معجزہ میں کچھ تمیز باقی نہیں رہتی اور پھر معجزہ ثبوت نبوت کی دلیل نہیں ہوسکتا۔ لیکن محققین علما معجزوں کا بیان اس طرح پر کرتے ہیں کہ گویا ان کا قوع قانون قدرت کے مطابق ہوا ہے پس اگر میرا یہ خیال صحیح ہو تو میں کہہ سکتا ہوں کہ تمام علمائے فرق اسلامیہ اس مسئلہ میں میرے ساتھ متفق ہیں اور صرف اصطلاح کا فرق ہے اور جس اصطلاح مقررہ کے مطابق ہم نے معجزات و کرامات کا انکار کیا ہے وہ سب بھی اس کے منکر ہیں اور اگر علمائے متقدمین اس بات کے منفر ہوں کہ معجزہ و کرامت کا وقوع خلاف قانون قدرت ہوتا ہے یا خلاف قانون قدرت بھی ہوسکتا ہے تو بلاشبہ وہ ہم سے اور ہم ان سے بالکل مختلف ہیں۔
حکماء و فلاسفہ نے معجزات یا کرامات کا انکار کسی وجہ سے کیا ہو مگر ہمارا ان کا صرف اس بنا پر نہیں ہے کہ وہ مخالف عقل کے ہیں اور اس لیے ان سے انکار کرنا ضرور ہے بلکہ ہمارا انکار اس بنا پر ہے کہ قرآن مجید سے معجزات و کرامات یعنی ظہور امور کا بطور خرق عادت یعنی خلاف فطرت یا خلاف جبلت یا خلاف خلقت یا خلاف قدرالتی قدر ھا اللہ کے امتناع پایا جاتا ہے جس کو ہم مختصر لفظوں میں یوں تعبیر کرتے ہیں کہ کوئی امر خلاف قانون قدرت واقع نہیں ہوتا اور اس لیے معجزات و کرامات سے جب کہ ان کے معنوں میں غیر مقید ہونا قانون قدرت کا مراد لیا جاوے تو انکار کرتے ہیں اور اگر ان کے مفہوم میں یہ بھی داخل کیا جاوے کہ وہ مطابق قانون قدرت کے واقع ہوتے ہیں تو صرف نزاع لفظی باقی رہ جاتی ہے کیونکہ جو امر کہ واقع ہوا اور جس شخص کے ہاتھ سے واقع ہوا اس کو ہم دونوں تسلیم کرتے ہیں مگر وہ اس کا معجزہ یا کرامت نام رکھتے ہیں ہم اس کا یہ نام نہیں رکھتے۔
اس اختلاف کا نتیجہ تشریح کا مندرجہ ذیل سے بخوبی واضح ہوگا۔ یاک عجیب امر جو عام طور پر نہیں ہوا کرتا کسی پیغمبر یا ولی سے منسوب ہوا یا کسی پیغمبر کے زمانہ میں ہونا بیان ہوا۔ تو اول ہم اس کے فی الحقیقت واقع ہونے کا ثبوت تلاش کرینگے اور غالباً معتقدین معجزہ و کرامت بھی اس میں مختلف نہ ہوں گے ہاں شاید انجام کو اس بات میں اختلاف ہو کہ ان کے نزدیک اس کے وقوع کا کافی ثبوت ہو اور ہمارے نزدیک نہ ہو لیکن بغرض تسلیم اس کے ثبوت کے ہم دونوں اس کے وقوع میں متفق ہوں گے ۔
اس کے بعد ہم غور کرینگے کہ اس کا وقوع آیا کسی قانون قدرت کے مطابق ہوا ہے جو ہم کو اب تک معلوم ہیں اگر اس کا وقوع کسی معلومہ قانون قدرت کے مطابق ہم کو معلوم ہوا تو ہم اس کو اس کی طرف منسوب کرینگے معتقدین معجزہ کرامت امرمذکورہ پر غور و فکر کئے بغیر اس کو معجزہ یا کرامت قرار دینگے۔
اور اگر کوئی قانون قدرت اس کے وقوع یا ظہور کا ہم کو معلوم نہ ہو تو جو کہ ہم کو قرآن مجید نے یقین دلایا ہے کہ تمام امور موافق قانون قدرت کے واقع ہوتے ہیں ہم یہ کہینگے کہ ضرو راس کے لیے بھی کوئی قانون قدرت ہے جو ہم کو معلوم نہیں ہے۔ اور معتقدین معجز دو کرامات بغیر مذکورہ بالا خیال کے اس کو معجزہ یا کرامت قرار دینگے اور اس صورت میں صرف نزاع لفظی یا اصطلاحی یا عقل و بےعقلی باقی رہ جاتی ہے۔
ہماری سمجھ میں کسی شخص میں معجزے یا کرامت کے ہونے کا یقین کرنا ذات باری کی توحید فی الصفات پر ایمان کو ناقص اور نامکمل کردیا ہے اور اس کا ثبوت پیر پرست و گورپرست لوگوں کے حالات سے جو اس وقت بھی موجود ہیں اور صرف معجزہ و کرامت کے خیال نے ان کو پیر پرستی و گور پرستی کی رغبت دلائی ہے اور خدا نے قادر مطلق کے سوا دوسرے کی طرف ان کو رجوع کیا ہے اور سنتیں ماننا اور نذرو نیاز چڑھانا اور ان کے نام کے نشانات بنانا اور جانوروں کی بھینٹ دینا سکھایا ہے بخوبی حاصل ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے سچے ہادی محمد رسول اللہ نے اور ہمارے سچے خدا وحد لا شریک نے صاف صاف معجزات کی نفی کردی تاکہ توحید کامل بندوں کو حاصل ہو اور بندے خدا پر اس طرح یقین لاویں کہ لا الہ الا اللہ ھو واحد فی ذاتہ لاشریک لہ ۔ لا الہ الا اللہ ھو واحد فی صفاتہ لا مثل ولا شبیہ و لا شریک لہ الا الہ الا اللہ ھو المستحق العبادت لا شریک لہ وھذا اکمل الایمان باللہ ولھذا قال اللہ تعالیٰ لحبیبہ محمد رسول اللو الیوم اکملت لکم دینکم واتمت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ۔ والحمد للہ الذی وھب لی ھذالایمان ایمانا کاملا و طمئن قلبی بما الھمنی ربی والصلوۃ علے محمد والہ۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ انبیاء پر ایمان لانا بسبب ظہور معجزات باہرہ کے ہوتا ہے مگر خیال محض غلط ہے انبیاء (علیہم السلام) پر یا کسی ہادئے باطل پر ایمان لانا بھی انسانی فطرت میں داخل اور قانون قدرت کے تابع ہے۔ بعض انسان مازروئے فطرت کے ایسے سلیم الطبع ہوتے ہیں کہ سیدھی اور سچی بات ان کے دل میں بیٹھ جاتی ہے وہ اس پر یقین کرنے کے لیے دلیل کے محتاج نہیں ہوتے باوجودیکہ وہ اس سے مانوس نہیں ہوتے مگر ان کا وجدان صحیح اس کے سچ ہونے پر گواہی دیتا ہے ان کے دل میں ایک کیفیت پیدا ہوتی ہے جو اس بات کے سچ ہونے پر ان کو یقین دلاتی ہے۔ یہی لوگ ہیں جو انبیائے صادقین پر صرف ان کا وعظ و نصیحت سن کر ایمان لاتے ہیں نہ معجزوں اور کر امتوں پر۔ اسی فطرت انسانی کا نام شارع نے ہدایت رکھا ہے مگر جو لوگ معجزوں کے طلبگار ہوتے ہیں وہ کبھی ایمان نہیں لاتے اور نہ معجزوں کے دکھانے سے کوئی ایمان لاسکتا ہے خود خدا نے اپنے رسول سے فرمایا کہ ” اگر تو زمین میں ایک سرنگ ڈھونڈ نکالے یا آسمان میں ایک سیڑھی لگالے تب بھی وہ ایمان نہیں لانے کے “ اور ایک جگہ فرمایا کہ ” اگر ہم کاغذوں پر لکھی ہوئی کتاب بھی بھیج دیں اور اس کو وہ اپنے ہاتھوں سے بھی چھولیں تب بھی وہ ایمان نہیں لانے کے اور کہینگے یہ تو علانیہ جادو ہے “ پس ایمان لانا صرف ہدایت (فطرت) پر منحصر ہے جیسے کہ خدا نے فرمایا ” اللہ یھدی من یشاء الی صراط مستقیم۔
ہادئے باطل پر جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کے دل میں بھی غالباً اسی قسم کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور اس کا سبب کبھی ان کی فطرت ہوتی ہے جو کجی کی طرف مائل ہے سیدھی طرف مائل ہی نہیں ہوتی اور اسی طرف خدا نے اشارہ کیا ہے جہاں فرمایا ہے ” من یشاء اللہ یضللہ ومن یشاء یجعلہ علی صراط مستقیم “ (الانعام) اور اکثر یہ ہوتا ہے کہ دین آبائی کا اور سو سیٹی کا ایسا بوجھ ان کی طبیعتوں پر ہوتا ہے کہ سیدھی بات کے دل میں آنے کی جگہ ہی نہیں رہتی اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ مخلی بالطبع ہو کر اس بات پر غور نہیں کرتے اور اسی کی طرف خدا نے اشارہ کیا ہے جہاں فرمایا ہے کہ ” فمن یرد اللہ ان یھدیہ یشرح “ جس کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت کرے اس کا دل اسلام کے صدرہ للاسلام و من یرد ان یضلہ یجعل صدرہ ضیقا حرجا کانما یصعد فی السماء کذلک یجعل اللہ الرجس علی الذین لا یومنون (الانعام آیت )
لئے (یعنی سیدھی راہ پر چلنے کے لئے) کھول دیتا ہے اور جس کو خدا گمراہ کرنا چاہتا ہے تو اس کے دل کو تنگ اور ایسا دق کردیتا ہے کہ سیدھی بات کے اختیار کرنے کو آسمان پر چڑھنے سے بھی زیادہ مشکل سمجھتا ہے اسی طرح خدا ان پر برائی ڈالتا ہے جو ایمان نہیں لاتے “۔ ان آیتوں میں خدا تعالیٰ نے ہدایت پانے یا گمراہ ہونے کو اپنا فعل قرار دیا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ خدا جو فاعل حقیقی ہے ہمیشہ تمام چیزوں کو جو ظہور میں آتی ہیں اپنی طرف نسبت کرتا ہے اسی طرح ان آیتوں میں بھی انسان کے فطرتی افعال کو اپنی طرف نسبت کیا ہے مگر درحقیقت یہ بیان انسان کی فطرت کا ہے اور بس۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واذاسمعوا : سورۃ الانعام : آیت 61

وَ ہُوَ الۡقَاہِرُ فَوۡقَ عِبَادِہٖ وَ یُرۡسِلُ عَلَیۡکُمۡ حَفَظَۃً ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ تَوَفَّتۡہُ رُسُلُنَا وَ ہُمۡ لَا یُفَرِّطُوۡنَ ﴿۶۱﴾

تفسیر سرسید :

( ویر سل علیکم حفظۃ) اس آیت کی تفسیر میں ہمارے علما نے عجیب باتیں لکھی ہیں۔ اول تو انھوں نے اس آیت کے ان لفظوں سے ” ویرسل علیکم حفظۃ “ اور قرآن مجید کی اور آیتوں کے ان الفاظ سے ” معقبات بین یدیہ ومن خلفہ یحفظونہ من امر اللہ “ اور ان الفاظ سے ” ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید “ اور ان الفاظ سے ” وان علیکم لحافظین کراماً کاتبین “ یہ قرار دیا ہے کہ ہر انسان کے ساتھ انسان سے خارج اس کے نگہبان فرشتے متعلق ہیں جو ملائکہ حفظ کے نام سے موسوم ہیں۔
مگر اسی آیت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ” حتی اذا جاء احد کمللوت توفتہ رسلنا “ تو اس پر یہ بحث پیش آئی کہ یہ فرشتے مار ڈالنے والے وہی حفظہ ہیں جو اخیر کو قتلہ ہوگئے یا ان سے علیحدہ ہیں۔ بعضوں کا یہ قول ہے کہ یہ فتلہ وہی حفظ ہیں اور اکثر قول ہے کہ نہیں قتلہ حفظہ سے علیحدہ ہیں اور اسی قول کو رائج قرار دیا ہے۔
اس کے بعد جو اس آیت میں یہ الفاظ ہیں کہ ” ثم ردوالی اللہ مولا ھم الحق “ یہ قرار دیا ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے تو یہ قتلہ فرشتے بھی مرجاتے ہیں اور خدا کے پاس لے جائے جاتے ہیں اور بعضوں نے کہا کہ فرشتے نہیں لے جائے جاتے بلکہ آدمی جو مرتے ہیں وہ لے جائے جاتے ہیں۔ مگر کسی مفسر نے یہ نہیں لکھا کہ اگر یہ حفظہ وقتلہ فرشتے جو ہر ایک انسان پر متعین ہیں اگر وہ بھی انسان کے ساتھ نہیں مرتے تو پھر کیا کیا کرتے ہیں خدا تعالیٰ ان کو سی اور خدمت پر معین کرتا ملائکہ کی بحث میں ہم نے لکھا ہے کہ قرآن مجید میں ملائکہ کا اطلاق انہی قوئے پر ہوا ہے جو خدا نے انسان میں اور اپنی دیگر مخلوقات میں پیدا کئے ہیں نہ کسی ایسے جسم پر جو خارج از انسان پیدا ہوا ہو پس حفظہ کا موصوف محذوف خواہ ملائکہ کو قرار دو خواہ قوائے کو دونوں صورتوں میں مطلب واحد ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واذاسمعوا : سورۃ الانعام : آیت 73

وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ ؕ وَ یَوۡمَ یَقُوۡلُ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ۬ؕ قَوۡلُہُ الۡحَقُّ ؕ وَ لَہُ الۡمُلۡکُ یَوۡمَ یُنۡفَخُ فِی الصُّوۡرِ ؕ عٰلِمُ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ ؕ وَ ہُوَ الۡحَکِیۡمُ الۡخَبِیۡرُ ﴿۷۳﴾

تفسیر سرسید :

( وھوالذی) اس آیت میں جس بات پر غور کرنی ہے وہ یہ ہے کہ ” کن فیکون “ سے کیا مراد ہوتی ہے۔ امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں اسی آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ خدا کا جو یہ
” لیس المراد بقولہ کن فیکون خطاب وامر لان ذلک الامران کان للمعدوم و شمومحال وان کان الموجود فھوا مر بان بصیر الموجود موجودا وھو محال بل المراد منہ الن تنبیہ علے نفاذ نذرتہ و مشیتہ فی سوین الکائنات و ایجاد الموجودات “ (تفسیر کبیر)
قول ہے کہ کن فیکون نہ تو اس سے مراد کسی کی طرف خطاب کرنا ہے اور نہ حکم دینا ہے اس لیے کہ اگر یہ اومعدوم چیزوں کے لیے ہو تو وہ تو محال ہے اور اگر موجود چیزوں کے لیے ہو تو موجود چیزوں کو کہنا ہوگا کہ موجود ہوجاؤ اور یہ بھی محال ہے بلکہ اس سے مراد جتلانا ہے کہ خدا کی قدرت اور خواہش تمام کائنات کے ہونے اور موجودات کے ایجاد پانے میں نافذ ہے “۔ پس جو لوگ کو یہ سمجھتے ہیں کہ ان لفظوں کے لغوی معنی ہیں مراد ہیں یہ ان کی غلطی ہے اور اس امر کے محقق ہونے میں کہ ۔ خدا جو کرتا ہے اسی قانون قدرت کے مطابق کرتا ہے جو اس نے ان چیزوں کے موجود ہونے کے لیے بنایا ہے۔ کچھ تخلل واقع نہیں ہوتا۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واذاسمعوا : سورۃ الانعام : آیت 74

وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصۡنَامًا اٰلِہَۃً ۚ اِنِّیۡۤ اَرٰىکَ وَ قَوۡمَکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۷۴﴾

تفسیر سرسید :

(ینفخ فی الصور) یہ مضمون قرآن مجید میں بہت جگہ بہ تبدل الفاظ آیا ہے سورة انعام میں ہے یوم ینفخ فی الصور ، سورة کہف میں ہے ونفخ فی الصور فجمعنا ھم جمعا ، سورة طہ میں ہے یوم ینفخ فی الصور ونحشر المجرمین یومئذ زرقہ سورة مومنون میں ہے
ویوم ینفخ فی الصور ففزع من فی السموات ومن فی الارض ، سورة یسین میں ہے ونفخ فی الصور فاذا ھم من الا جداث الی ربھم ینسلون سورة زمر میں ہے ” ونفخ فی الصور فصعق من فی السموات ومن فی الارض ، سورة ق میں ہے ” ونفخ فی الصور ذلک یوم الوعید ( ) سورة الحاقہ میں ہے ناذا نفخ فی الصور نفخۃ واحدہ ( ) سورة نباء میں ہے یوم نفخ فی الصورفتاتون افواجا ( ) سورة مدثر میں ہے فاذا نقرفی النافورفذلک یومئذ یوم عسیر،
اس میں کچھ شبہ نہیں کہ تمام آیتیں قیامت کے حال سے متعلق ہیں اور ان میں اس دن کا ذکر ہے جب کہ تمام دنیا الٹ پلٹ اور درہم برہم ہوجاویگی مگر ابوعبیدہ کا قول ہے کہ صور جمع صورۃ کی ہے اور اس سے مراد مردوں میں روح پھونکنے سے ہے، اگر اس رائے کو تسلیم کیا جائے تو ان آیتوں میں سے اکثر جگہ صور کے لفظ کے متعارف معنوں کے لینے کی ضرورت باقی نہیں رہتی مگر ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ان سب آیتوں میں صور کے لفظ سے وہی آلہ مراد ہے جس کو بھوپنو۔ نرسنگھا۔ منکھ۔ ترئی۔ قرنا۔ ترم۔ بگل کہتے ہیں اور جس میں پھونکنی سے نہایت سخت و شدید آواز نکلتی ہے۔
تاریخ کے نقص سے معلوم ہوتا ہے کہ نہایت قدیم زمانہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے وقت سے بھی پیشتر لڑائی کے لیے لوگوں کے جمع کرنے کو آگ جلانے کا رواج تھا پہاڑوں پر اور اونچے مقامات پر آگ جلاتے تھے اور گویا وہ پیغام تھا کہ سب آکر جمع ہو گویا وہ علامت حشر لشکر کی تھی اب بھی بعض بعض پہاڑی قوموں میں یہ رسم پائی جاتی ہے۔
لڑائی کے میدان میں خولوں کے کسی خاص طرف جمع کرنے یا حملہ کے لیے محشور کرنے کا حکم پہنچانے میں وقت پڑتی ہوگی معلوم ہوتا ہے کہ مصریوں نے اس کام کے لیے مشعلوں کا جلانا اور مشعلوں کی روشنی کے ذریعہ سے لڑائی کے میدان میں خولوں کو حکم پہنچانا ایجاد کیا۔
غالباً دن کو مشعلوں سے بخوبی کام نہ نکلتا ہوگا اس لیے ایک ایسی چیز کی تلاش کی ضرورت پیش آئی جس کی بہت بڑی آواز ہو اور وہ آواز لڑائی کے میدان میں حکم بھیجنے کا ذریعہ ہومصری ہی اس کے موجد ہوئے اور انھوں نے دریائی جانوروں کی ہڈی کے خول سے جس میں مثل گھونگے کے پیچ در پیچ ہوتے تھے اور جس میں پھونکنی سے نہایت سخت و شدید آواز نکلتی تھی یہ کام لینا شروع کیا چنانچہ اب تک ہندو اسی کا استعمال کرتے ہیں جو سنکھ کے نام سے مشہور ہے۔
بنی اسرائیل جب مصر میں تھے تو انھوں نے مصریوں سے اس کو اخذ کیا تھا اور جب وہ جنگل میں آوارہ و پریشان ہوئے اور پہاڑی اور جنگلی ملک میں دریائی جانوروں کے خول میسر نہ تھے انھوں نے صحرائی جانوروں خصوصاً مینڈھے یا دنبہ یا پہاڑی بکرہ کے سینگوں سے جو ٹہڑے اور پیچ وار ہوتے تھے اور جن میں پھونکنے سے ویسی ہی سخت شدید آواز نکلتی تھی یہ کام لینا شروع کیا صور کے معنی قرن یعنی سینگ کے ہیں۔ بعد اس کے جب زمانہ نے ترقی کرنا شروع کیا تو اس کو اور اشیاء مثل چاندی پیتل اور تانبے وغیرہ سے اور نہایت عجیب و پیچدار طور سے بنانے لگے۔
توریت سفر خروج باب دہم میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ تو اپنے لیے چاندی کے دو قرنا بنا جب تو ان دونوں کو بجاوے تو تمام لوگ خیمہ کے دروازہ پر جمع ہوجایا کریں۔ اور جب ایک کو بجاوے تو بنی اسرائیل کے سردار تیرے پاس آجایا کریں۔ اور جب زور سے بجائی جاوے تو جن کے خیمے جانب مشرق ہوں وہ کوچ کرنا شروع کریں اور جب دو دفعہ زور سے بجائی جاوے تو جن کے خیمے جنوب کی جانب ہوں وہ کوچ کرنا شروع کریں۔ اور جب سب کو ایک جگہ ٹھہرانا مقصود ہو تو دھیمی آواز سے بجایا جاوے اگر اپنے ملک میں اپنے دشمن سے جس نے تم پر زیادتی کی ہے لڑنے کو جاؤ تو قرنا کو بہت زور سے بچاؤ اور خوشی کے دنوں میں اور عیدوں کے دن اور ہر مہینہ کے شروع میں قربان گاہوں میں بجایا کرو اور ہاروں کی اولاد اس کو بجایا کرے۔
یرمیاہ اور عہد عتیق کی اور کتابوں سے پایا جاتا ہے کہ شہروں اور ملکوں سے لڑائی کے لیے لوگوں کو جمع کرنے کو قرنا بجائی جاتی تھی چنانچہ یرمیاہ نبی کی کتاب میں لکھا ہے کہ ” علم ر اور زمین برپا دارید کرنا رادرمیان طوائف بنوازید در برابرش اقوام رازبدہ نمائیدہ وبر ضدش ممالک آراراط دستی واشکنار۔ آواز وہید وبرخلافش سرداراں رانصب نمودواسپ ہارامثل الخ برآوریدہ (باب درس )
اور ایک مقام میں لکھا ہے کہ ” وریہوداہ اخبار نمودہ و در اور شلیم مسموع گروانید وبگوئید کہ در زمین قرنارابنوازید بآواز بلند ندا کردہ بگوئید کہ جمع آئندتا آنکہ در شہرہائے مشید درآئیم “ (باب درس )
یہودیوں نے اپنے خیال میں خدا تعالیٰ کے پاس بھی فرشتوں کی فوج کا ہونا اور اس میں درجہ بدرجہ سرداروں کا ہونا تسلیم کیا تھا اور اسی خیال سے فوج میں کام یعنی کے فرشتوں کے پاس بھی صوریا قرنا کا ہونا خیال کیا اور صور پھونکنے والے فرشتے قرار دیئے جن میں سب کا سردار اسرافیل فرشتہ ہے۔
عیسائیوں نے بھی اس خیال میں یہودیوں کی پیروی کی یوحنا حواری اپنے مشاہدات میں لکھتے ہیں کہ انھوں نے تین فرشتوں کو ترئی پھونکنے پر متعین دیکھا (باب درس )
یہودی اور عیسائی دونوں حشر اجساد کے اور سب مردوں کے ایک جگہ جمع ہونے کے قائل تھے اس حشر اور اجتماع کے لیے اسی خیال کے مطابق جس طرح وہ لوگوں کو جمع کیا کرتے تھے انھوں نے صور کا پھونکاجانا تصور کیا اشقیاہ نبی کی کتاب سے یہ خیال کہ قیامت کے شروع میں صور پھونکی جاویگی جا بجاپایا جاتا ہے۔ اور سینٹ پال نے اپنے پہلے خط کے باب پندرھویں میں جو کا زتھیوں کو لکھا ہے اس خیال کو بخوبی ظاہر کیا ہے جہاں لکھا ہے کہ ” ہم سب ایک دم میں ایک پل مارنے میں پچھلی اتری پھونکنے کے وقت مبدل ہوجاوینگے کہ نرئی پھونکی جاویگی اور مردے اٹھے گے اور ہم مبذل ہوجاوینگے۔
ہمارے ہاں کے علما نے حسب عادت اپنے اس امر میں یہودیوں کی پیروی کی ہے اور نفخ صور کے لغوی معنی لیے ہیں اور جب انھوں نے لغوی معنی لیے تو ضرور ہوا کہ صور کو بمشکل معینہ موجود اور اس کے بجانے کے لیے فرشتے قرار دیں۔ بعض بزرگوں نے یہاں تک یہودیوں کی پیروی کی ہے کہ جس طرح توراۃ میں لکھا ہے کہ خدا نے موسیٰ کو چاندی کی دو صوریں بنانے کا حکم دیا تھا انھوں نے بھی صور کو جوڑا قرار دیا ہے کہ ایک بجانے سے ایک طرح کی اور دونوں کو ساتھ بجانے سے دوسری طرف کی آواز نکلے گی اور اس پر حاشیہ یہ چڑھایا کہ صور میں بقدر تعداد ارواحوں کے چھید ہیں جیسے بانسلی میں ہوتے ہیں اور جب مردوں کو زندہ کرنے کے لیے صور پھونکی جاویگی تو ارواحیں صور کے چھیدوں میں سے نکل پڑینگی (دیکھو تفسیر کبیر سورة مدثر آیت )
مگر قرآن مجید میں جس طرح تنزہ ذات باری کا اور اس کے کاموں کا بیان ہے وہ اس قسم کے خیالات کلیۃً مانع ہے نفخ صور صرف استعارہ ہے بعث وحشر کا اور تبدل حالت کا جس طرح لشکر میں صور بجنے سے سب مجتمع ہوجاتے ہیں اور لڑنے کو کھڑے ہوجاتے ہیں اور گروہ در گروہ آموجود ہوتے ہیں اسی طرح بحث و حشر میں ارادۃً اللہ سے جس طرح کہ اس نے قانون قدرت میں مقرر کیا ہوگا وقت موعود پر سب لوگ اٹھینگے اور جمع ہوجاوینگے اس حالت نفخ صور سے استعارہ کیا گیا ہے پس اس آیت سے یا قرآن مجید کی اور آیتوں سے یہ بات کہ فی الواقع کوئی صور بمعنی متعارف موجود ہے یا موجود ہوگی اور فی الواقع وہ مثل صورمتعارفہ کے پھونکنے کے پھونکی جاویگی اور فی الواقع اس کو فرشتے لیے ہوں گے اور وہ اس کو پھونکے گی ثابت نہیں۔
گو کہ تمام اسلام صور کو ایک شے موجود فی الخارج اور اس کے لیے پھونکنے والے فرشتے یقین کرتے ہیں اور عمومات مسلمانوں کا اعتقاد یہی ہے مگر بعض اقوال انہی علما کے ایسے پائے جاتے ہیں جن میں صاف بیان ہے کہ نفخ صورفہ ف استعارہ اور تمثیل ہے۔ تفسیر کبیر میں سورة طہ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ واللہ تعالیٰ یعرف الناس من امورا لاخرۃ بامثال ماشوھد فی الدنیا ومن عادۃ الناس النفخ فی الھوق عند الا سفارونی العساکر (طہ) ان النفخ فی الصور استقارۃ والمراد منہ البعث والحشر (مومنون) یحجوزان یکون تمثیلا لدعاء الموتی فان خروجھم موقبور ھم خروج الحیش عند سماع موت الالۃ (نمل)
اللہ تعالیٰ لوگوں کو آخرت کی باتیں ان چیزوں کی مثالوں سے بتلاتا ہے جو دنیا میں دیکھی جاتی ہیں اور لوگوں کی عادت ہے کہ کوچ کے وقت اور لشکروں میں بھونپو یعنی بوق یعنی صور بجاتے ہیں اور سورة مومنون کی تفسیر میں لکھا ہے کہ نفخ فی الصور استعارہ اور اس سے مراد بعث وحشر ہے۔ سورة نمل کی تفسیر میں لکھا ہے کہ جائز ہے کہ یہ تمثیل ہو مردوں کے بلانے کی، بیشک ان کا اپنی قبروں میں سے نکلنا لشکر کے نکلنے کی مانند ہے جب کہ وہ صور کی آواز سنتے ہی نکل کھڑا ہوتا ہے۔ پس جن عالموں کی یہ رائے ہے وہ بھی مثل ہمارے نہ صور کے لغوی معنی لیتے ہیں اور نہ صور کے وجود فی الخارج کو مانتے ہیں اور نہ اس کے وجود کی اور نہ اس کے پھونکنے والوں کی ضرورت جانتے ہیں۔ حشر اجساد کا مسئلہ قابل بحث ہے ہم اس کی نسبت بھی کسی وقت بحث ارواح کے بعد بحث کرینگے واللہ المستعان۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واذاسمعوا : سورۃ الانعام : آیت 75

وَ کَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لِیَکُوۡنَ مِنَ الۡمُوۡقِنِیۡنَ ﴿۷۵﴾

تفسیر سرسید :

( واذقال ابراھیم لابیہ اذر) اس آیت میں اور اس کے بعد کی آیتوں میں حضرت ابراہیم کی نسبت جو حالات مذکور ہیں ان میں چندامور غور طلب ہیں۔ اول یہ کہ آذر حضرت ابراہیم کے کون تھے قرآن مجید میں آذر کو حضرت ابراہیم کے اب کے لفظ سے تعبیر کیا ہے مگر قرآن مجید میں باپ کا اطلاق باپ اور چچا دونوں پر آیا ہے۔ قرآن میں ہے کہ حضرت یعقوب کی اولاد نے کہا ” نعبدالھک والہ بائک ابراھیم واسمعیل واسحق “ حالانکہ اسماعیل حضرت یعقوب کے چچا تھے ان پر بھی یعقوب کے باپ کا اطلاق ہوا ہے۔ تفسیر کبیر میں بھی بعض اقوال لکھے ہیں کہ اس آیت میں اب کا اطلاق عم پر ہوا ہے ظن غالب ہے کہ حضرت ابراہیم کے باپ کا نام ترح تھا۔ توراۃ سے پایا جاتا ہے کہ ترح کے بھائی تھے مگر توراۃ میں ان کے نام نہیں بیان کئے چنانچہ کتاب پیدائش باب درس - میں لکا ہے کہ ۔۔۔ واحوربست ونہ سال زندگی نمودہ ترح راتولید نمود۔ وناحور بعد از تولید نمودتش ترح یک صدد نوزدہ سال زندگانی نمودہ پسران ودختران را تولید نمود “ ان آیتوں سے تاج کے بھائیوں یعنی حضرت ابراہیم کے چچاؤں کا ہونا پایا جاتا ہے۔
علاوہ اس کے توراۃ کے اسی باب میں لکھا ہے کہ بعد ان تمام واقعات کے جو حضرت ابراہیم پر ان کے وطن ” اور کسدیم “ میں گزرے انھوں نے اپنے وطن کو چھوڑ دیا اور کنعان کی طرف روانہ ہوئے تو ان کے ساتھ ان کے باپ ترح بھی تھے اور انھوں نے بھی اس ملک کو چھوڑ دیا تھا چنانچہ درس میں لکھا ہے کہ ترح پسر خود ابرام و پسر پسر خوہ لوط پسر ہاران و عروس خود ساری زن پسرش ابرام را برداشت وباہم دیگر زاوکلدانیاں بقصد رفتن یزمین کنعن بیروں آمدند “
پس یہ ایک دلیل اس بات کی ہے کہ جس مباحثہ کا قرآن مجید میں ذکر ہے وہ حضرت ابراہیم کے باپ سے نہیں ہوا تھا بلکہ اب کا لفظ عم پر بطور اظہار محبت اور بزرگی چچا کے جن سے مباحثہ پیش آگیا تھا بولا گیا ہے۔
دوسرے یہ کہ حضرت ابراہیم نے یہ مباحثہ کیا تو ان کی عمر کیا تھی۔ اس امر کا تحقیق کرنا ناممکن ہے کیونکہ ان امور کی تحقیقات صرف توراۃ پر منحصر ہے نسخے توراۃ کے اس باب میں نہایت مختلف ہیں عبری توراۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ سنہ دنیوی کے برس بعد حضرت ابراہیم پیدا ہوئے تھے اور یونانی نسخہ توراۃ سے جس کو سپٹوایجنٹ کہتے ہیں ان کی پیدائش برس بعد سنہ دنیوی کے اور سامری نسخہ توراۃ سے برس بعد معلوم ہوتی ہے عیسائی مورخوں نے ولادت حضرت ابراہیم کی برس بعد سنہ دنیوی کے اور ان کا اور کلدانیاں سے نکلتا سنہ دنیوی میں قرار دیا ہے اور اس حساب سے اس وقت ان کی عمر پچھتر برس کی تھی مگر اس حساب پر اعتماد کرنے کی کوئی کافی وجہ نہیں ہے۔
قرآن مجید سے جہاں خدا نے فرمایا ہے ” قالوا سمعنا فترید کر ھم یقال لہ ابراھیم “ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں حضرت ابراہیم جوان تھے اور دوسری جگہ خدا نے فرمایا ہے ” ولقد اتینا ابراھیم رعدہ من قبل وکنا بہ عالمین “ (سورة انبیاء آیت ) اور اسی آیت کے بعد اس مباحثہ کا ذکر ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قبل وقت مباحثہ کے حضرت ابراہیم جوان اور رشید ہوچکے تھے اور ان کا دل الہامات ربانی سے معمور تھا جس کے لیے عموماً چالیس برس کی عمر خیال کی جاتی ہے پس کچھ عجب نہیں ہے کہ یہ واقعہ اسی عمر کے قریب قریب واقع ہوا ہے۔
مگر ہمارے عملائے مفسرین کو ” فلما جن علیہ اللیل “ نے گھبرا دیا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ پہلی دفعہ تھی جو انھوں نے رات دیکھی تھی اور اس لیے بےاصل قصہ اپنی تفسیروں میں لکھا ہے کہ اس زمانہ کے بادشاہ کے خوف سے جس نے ایک خواب دیکھا تھا اور لڑکوں کے قتل کا ارادہ کیا تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ماں نے ان کے حمل کو چھپایا اور جب لڑکا پیدا ہونے کا وقت آیا تو ایک پہاڑ کی کھو میں جاکر جنا اور اس کا منہ پتھروں سے بند کردیا اور حضرت جبرائیل نے حضرت ابراہیم کی پرورش کی جب وہ اسی پہاڑی کی کھو میں بڑے ہوگئے تو اس کھو میں سے پہلی دفعہ رات کو ایک ستارہ دیکھا پھر چاند دیکھا پھر سورج دیکھا۔
مگر یہ خیال اور یہ قصہ دونوں صحیح نہیں ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ناعورا اور ہار ان دوا اور بڑے بھائی تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سب سے چھوٹے تھے انسان کی فطرت میں ہے کہ جب وہ کسی قوم میں پیدا ہوتا ہے تو یا تو اسی قوم کی باتوں پر یقین کرتا ہے اور اسی قوم کے عقائد و اعمال کی پیروی کرنے لگتا ہے یا اس قوم کے افعال و اقوال کو تعجب و حیرت کی نگاہ سے دیکھتا رہتا ہے نہ ان پر یقین کرتا ہے اور نہ ان افعال میں شریک ہوتا ہے اور نہ اس کے ذہن میں آتا ہے کہ اصل بات کیا ہے اور ایک تفکر اور سوچ کی حالت میں ایک زمانہ بسر کرتا ہے اور خدا کی ہدایت جو خدا نے انبیاء اور صلحا کی فطرت میں رکھی ہے اس کی تائید کرتی رہتی ہے اسی طرف خدا نے اشارہ کیا ہے جہاں فرمایا ہے ” کذلک وتری ابراھیم ملکوت السموات والارض “ اسی حالت میں ایک رات ستارہ اور چاند اور اس کے بعد سورج کو دیکھ کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو وہ خیال آیا جو قرآن مجید میں مذکور ہے پس ضروری نہیں ہے کہ وہ رات پہلی ہی رات ہو جو انھوں نے دیکھی تھی۔
تیسرے یہ کہ ” ملکوت السموات والارض “ سے اور اس کے دکھانے سے کیا مراد ہے علمائے مفسرین نے اس کی نسبت بھی بہت سی رطب دیا بس باتیں لکھی ہیں مگر خدا کی قدرت اور اس کی عظمت اور وحدانیت پر یقین کرنے کے لیے موجودات عالم اور اس کی خلقت اور فطرت پر غور کرنے سے زیادہ یقین دلانے والی کوئی چیز نہیں ہے اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد طریقہ پر وجود عالم سے صانع کے وجود پر استدلال کیا ہے پس خدا نے آسمان و زمین کی بادشاہت کی حقیقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دل پر کھولی جس کی ابتدا اتارے و چاند و سورج کو رب خیال کرنا اور اس کی انتہا ” انی وجھت وجھی للذی فطرالسموات والارض “ کہنا ہے اور اسی طرف خدا نے اشارہ کیا ہے جہاں فرمایا ہے ” کذلک نری ابراھیم ملکوت السموات والارض “۔
چوتھے یہ کہ علمائے اسلام کو ایک اور مشکل پیش آئی ہے کہ ان کے اصول مقررہ کے موافق انبیاء کبھی اور کسی حال میں مرتکب شرک و کفر نہیں ہوئے پس کیونکر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تارہ اور چاند اور سورج کو دیکھ کر کہا کہ ” ھذا ربی “ اس شبہ کے رفع کرنے کو انھوں نے متعدد طرح سے صعوبتیں اٹھائی ہیں مگر یہ امر نہایت صاف ہے جس میں کچھ مشکل نہیں ۔
بلاشبہ انبیاء (علیہم السلام) کبھی مرتکب شرک و کفر کے نہیں ہوتے ان کی فطرت ہی اس آلودگی سے پاک ہوتی ہے مگر قدیم زمانہ میں جو بت پرستی تھی اور جس شرک و کفر میں اس زمانہ کے لوگ گرفتار تھے اس کی حقیقت پر اول غور کرنی لازم ہے۔ تمام مشرکین ذات باری کا کسی کو شریک نہیں قرار دیتے تھے بلکہ خدا کے سوا موجودات غیر مرئی اور اجرام سماوی کو مدبرات عالم اور مالک نفع و نقصان سمجھتے تھے اور انہی کے نام سے ہیاکل اور اصنام بنا کر ان کی پرستش کرتے تھے اور ان کو یقین تھا کہ ان کی رضامندی و خوشنودی فائدہ بخش اور ان کی ناراضی مضرت رساں ہے مگر کسی وجود غیر مرئی کو یا کسی کو اجرام سماوی میں سے صرف بدتر عالم خیال کرنا خواہ وہ خیال صحیح ہو یا غلط کفر و شرک نہیں ہوسکتا بلکہ کفر و شرک اس وقت ہوتا ہے جب کہ اس میں قدرت نفع و نقصان پہنچانے کی مانی جاوے یعنی یہ سمجھا جاوے کہ اس میں قدرت ہے کہ جب چاہے نفع پہنچاوے جب چاہے نقصان اور اسی خیال سے اس کی پرستش کی جاوے۔ مثلاً مسلمانوں کا یہ خیال کہ مینہ کے برسانے والے فرشتے بادلوں پر متعین ہیں اور مینہ برساتے پھرتے ہیں یا یہ خیال کہ آفتاب فصول ابرئع کا باعث اور روئیدگی اور پھولوں اور پھلوں کا مدبر ہے نہ کفر ہے نہ شرک ہے لیکن جب آفتاب یا میگھ راجہ کی نسبت یہ اعتقاد کیا جاوے کہ ان کو مینہ برسانے یا نہ برسانے اور میوہ پکانے یا نہ پکانے کا اختیار ہے اور ان کی رضامندی اس کے لیے مفید اور ناراضی مضر رساں ہے اور اس خیال پر ان کی پرستش کی جاوے تو وہ بلاشبہ شرک و کفر ہے۔ ترح کے خاندان میں زیادہ تر اجرام علوی کے اصنام کی پرستش ہوتی تھی اسی وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا خیال ستارے اور چاند اور سورج پر رب یعنی مدبرات میں سے ہونے کا گیا نہ الٰہ ہونے کا اور اس کو بھی خدا کی ہدایت سے جو فطرت انبیاء میں ہے قرار نہ ہوا پس صرف یہ خیال شرک و کفر نہ تھا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان میں سے کسی کی پرستش نہیں کی نہ ان میں جب چاہیں نفع اور جب چاہیں مضرت پہنچانے کی قدرت یقین کی اس لیے کسی طرح ان کا اس معصیت میں مبتلا ہونا لازم نہیں آتا۔
اس بیان کی تشریح بعد کی آیتوں سے بخوبی ہوتی ہے جہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ہے کہ ” میں نہیں ڈرتا اس سے جس کو تم خدا کے ساتھ شریک کرتے ہو “ پھر فرمایا کہ ” کیونکر میں ڈروں اس سے جس کو تم شریک کرتے ہو “ یہ اقوال صاف اس بات پر دال ہیں کہ جن کی نسبت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ربی کہا تھا ان کو مالک اور قادر نفع و نقصان پہنچانے پر نہیں مانا تھا۔
پانچویں یہ کہ اس آیت میں جو الفاظ ” لیکون من الموقنین “ ہیں زیادہ تر غور کے لائق ہیں خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ابراہیم کو ملکوت السموات والارض اس لیے دکھائیں تاکہ یقین کرنے والوں میں ہو۔ ہم ان لوگوں کو بہ تقلید آبائی یا باطاعت کسی کے قول کی خدا پر یقین رکھتے ہیں مومن پاک جانتے ہیں مگر جو لوگ کہ بعد غور و فکر کے اور خدا کی قدرتوں اور صنعتوں پر غور و فکر کرکے خدا پر یقین لاتے ہیں وہ نہایت اعلیٰ درجہ پر ہوتے ہیں جن کا یقین پورا کامل یقین ہوتا ہے اور کسی طرح زائل نہیں ہوسکتا اسی سبب سے خدا نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ملکوت السموات والارض دکھانے کا مقصد یہ بتلایا ہے کہ ” لیکون من الموقنین “۔ ہمارا یہ یقین و تجربہ ہے کہ انسان کو جس قدر علم فطرت ۔ قوانین قدرت۔ علم السماء والا افلاک۔ بڑھتا جاتا ہے اور نیچرل سیز۔ علوم طبیعات حقہ میں جس قدر اس کی واقفیت اور مہارت زیادہ ہوتی جاتی ہے اسی قدر اس کو خدا کے وجود کا یقین اور اس کی قدرت و عظمت اور شان الوہیت اور استحقاق معبودیت کا دل میں زیادہ نقش ہوتا جاتا ہے وللہ درمن قال۔
برگ درختان سبز در نظر ہوشیار
ہر ورقے دفتر یست معرفت گردگار
پس یہی قوانین قدرت لا آف نیچر تھے جو زبان شرع میں ملکوت السموات والارض سے تعبیر کئے گئے ہیں اور جن کو خدا نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دکھایا تھا یا یوں کہو کہ سمجھایا تھا اور جس کی بدولت انھوں نے ” فیکون من الموقنین “ کا خطاب پایا۔
چھٹے یہ کہ یہ مباحثہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا جو قرآن میں مذکور ہے توراۃ میں نہیں ہے توراۃ میں کسی واقعہ کا نہ ہونا اس کے عدم وقوع کی دلیل نہیں ہوسکتا۔
 
Top