• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

توفیٰ کی تشریح از ڈاکٹر اسرار احمد

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ ۚثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ 55؀آل عمران
ترجمہ:
یاد کرو جب اللہ نے کہا کہ اے عیسیٰ ؑ اب میں تمہیں لے جانے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھا لینے والا ہوں اور تمہیں پاک کرنے والا ہوں ان لوگوں سے جنہوں نے (تمہارے ساتھ) کفر کیا ہے اور غالب کرنے والا ہوں ان لوگوں کو جو تمہاری پیروی کریں گے قیامت تک ان لوگوں پر جو تمہارا انکار کر رہے ہیں پھر میری طرف ہی تم سب کا لوٹنا ہو گا اور میں فیصلہ کر دوں گا تمہارے مابین ان باتوں میں جن میں تم اختلاف کر رہے تھے
تشریح:
آیت۵۵ (اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ)
لفظ مُتَوَفِّیْکَ کو قادیانیوں نے اپنے اس غلط عقیدے کے لیے بہت بڑی بنیاد بنایا ہے کہ حضرت مسیح ؑ کی وفات ہو چکی ہے۔ لہٰذا اس لفظ کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ وَفٰی کے معنی ہیں پورا کرنا۔ اردو میں بھی کہا جاتا ہے وعدہ وفا کرو۔ اسی سے باب تفعیل میں وَفّٰی ۔ یُوَفِّیْ ۔ تَوْفِیَۃً کا مطلب ہے کسی کو پورا دینا۔ جیسا کہ آیت ۲۵ میں ہم پڑھ آئے ہیں: ( فَکَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰہُمْ لِیَوْمٍ لاَّ رَیْبَ فِیْہِقف وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ ) تو کیا حال ہو گا جب ہم انہیں اکٹھا کریں گے اس دن جس کے بارے میں کوئی شک نہیں! اور ہر جان کو پورا پورا بدلہ اس کے اعمال کا دے دیا جائے گا اور ان پر کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔ باب تفعّل میں تَوَفّٰی۔ یَتَوَفّٰی کا معنی ہو گا کسی کو پورا پورا لے لینا۔ اور یہ لفظ گویابتمام و کمال منطبق ہوتا ہے حضرت مسیح ؑ پر کہ جن کو اللہ تعالیٰ ان کے جسم اور جان سمیت دنیا سے لے گیا۔ ہم جب کہتے ہیں کہ کوئی شخص وفات پا گیا تو یہ استعارتاً کہتے ہیں۔ اس لیے کہ اس کا جسم تو یہیں رہ گیا صرف جان گئی ہے۔ اور یہی لفظ قرآن میں نیند کے لیے بھی آیا ہے : ( اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَاج ) (الزمر:٤۲) وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کر لیتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا اس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے۔ اس لیے کہ نیند میں بھی انسان سے خود شعوری نکل جاتی ہے‘ اگرچہ وہ زندہ ہوتا ہے۔روح کا تعلق خود شعوری کے ساتھ ہے۔ پھر جب انسان مرتا ہے تو روح اور جان دونوں چلی جاتی ہیں اور صرف جسم رہ جاتا ہے ۔ قرآن حکیم نے ان دونوں حالتوں (نیند اور موت) کے لیے توفّی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اور سب سے زیادہ مکمل تَوَفّی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح ؑ کو ان کے جسم‘ جان اور روح تینوں سمیت‘جوں کا توں‘ زندہ سلامت لے گیا۔ حضرت مسیح ؑ کے رفع سماوی کا یہ عقیدہ مسلمانوں کا ہے‘ اور جہاں تک لفظ تَوَفّی کا تعلق ہے اس میں قطعاً کوئی ایسی پیچیدہ بات نہیں ہے جس سے کوئی شخص آپ ؑ کی موت کی دلیل پکڑ سکے‘ سوائے اس کے کہ ان لوگوں کو بہکانا آسان ہے جنہیں عربی زبان کی گرامر سے واقفیت نہیں ہے اور وہ ایک ہی وفات جانتے ہیں‘ جبکہ ازروئے قرآن تین قسم کی وفات ثابت ہوتی ہے‘ جس کی میں نے وضاحت کی ہے۔ آیت زیر مطالعہ کے متذکرہ بالا ٹکڑے کا ترجمہ پھر کر لیجیے : یاد کرو جب اللہ نے کہا کہ اے عیسٰی ؑ میں تمہیں لے جانے والا ہوں اور تمہیں اپنی طرف اٹھا لینے والا ہوں۔
(وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) (وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ)
یہود جنہوں نے حضرت مسیح ؑ کا انکار کیا تھا اس وقت سے لے کر موجودہ زمانے تک حضرت مسیح ؑ کے پیروکاروں سے مار کھاتے رہے ہیں۔ حضرت مسیح ؑ ۳۰ ء یا ۳۳ء میں آسمان پر اٹھا لیے گئے تھے اور اس کے بعد سے یہود پر عیسائیوں کے ہاتھوں مسلسل عذاب کے کوڑے برستے رہے ہیں۔ حضرت مسیح ؑ کے رفع سماوی کے چالیس برس بعد ۷۰ء میں ٹائٹس رومی کے ہاتھوں ہیکل سلیمانی مسمار ہوا اور یروشلم میں ایک لاکھ بیس ہزار یا ایک لاکھ تینتیس ہزار یہودی ایک دن میں قتل کیے گئے۔ گویا دو ہزار برس ہونے کو ہیں کہ ان کا کعبہ گرا پڑا ہے۔ اس کی صرف ایک دیوار (دیوارِ گریہ) باقی ہے جس پر جا کر یہ رو دھو لیتے ہیں۔
ہیکل سلیمانی اوّلاً بخت نصر نے چھٹی صدی قبل مسیح میں مسمار کیا تھا اور پورے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ اس نے لاکھوں یہودی تہ تیغ کر دیے تھے اور لاکھوں کو قیدی بنا کر اپنے ساتھ بابل لے گیا تھا۔ یہ ان کا اسارت (Captivity) کا دور کہلاتا ہے۔ حضرت عزیر علیہ السلام کے زمانے میں یہ فلسطین واپس آئے تھے اور معبد ثانیتعمیر کیا تھا‘ جو ۷۰ء میں منہدم کر دیا گیا اور انہیں فلسطین سے نکال دیا گیا۔ چنانچہ یہ مختلف ملکوں میں منتشر ہو گئے۔ کوئی روس ‘ کوئی ہندوستان ‘ کوئی مصر اور کوئی یورپ چلا گیا۔ اس طرح یہ پوری دنیا میں پھیل گئے۔ یہ ان کا دورِ انتشار (Diaspora) کہلاتا ہے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں جب عیسائیوں نے ایک معاہدے کے تحت یروشلم مسلمانوں کے حوالے کر دیا تو حضرت عمر ؓ نے اسے کھلا شہر (open city)قرار دے دیا کہ یہاں مسلمان‘ عیسائی اور یہودی سب آ سکتے ہیں۔ اس طرح ان کی یروشلم میں آمد و رفت شروع ہو گئی۔ البتہ عیسائیوں نے اس معاہدے میں یہ شرط لکھوائی تھی کہ یہودیوں کو یہاں آباد ہونے یا جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ چنانچہ حضرت عمر ؓ کے زمانے سے خلافت عثمانیہ کے دور تک اس معاہدے پر عمل درآمد ہوتا رہا اور یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہودیوں نے عثمانی خلفاء کو بڑی سے بڑی رشوتوں کی پیشکش کی‘ لیکن انہیں اس میں کامیابی نہ ہوئی۔ چنانچہ انہوں نے سازشیں کیں اور خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کروا دیا۔ اس لیے کہ انہیں یہ نظر آتا تھا کہ اس خلافت کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ ہم کسی طرح بھی فلسطین میں دوبارہ آباد ہو سکیں۔ انہوں نے ۱۹۱۷ء میں برطانوی وزیر بالفور (Balfor) کے ذریعے بالفور ڈیکلریشنمنظور کرایا‘ جس میں ان کو یہ حق دیا گیا کہ وہ فلسطین میں آ کر جائیداد بھی خرید سکتے ہیں اور آباد بھی ہو سکتے ہیں۔ اس ڈیکلریشن کی منظوری کے ۳۱ برس بعد اسرائیل کی ریاست وجود میں آ گئی ۔ یہ تاریخ ذہن میں رہنی چاہیے۔
اب ایک طرح سے محسوس ہوتا ہے کہ یہودی دنیا بھر میں سیاست اور اقتدار پر چھائے ہوئے ہیں‘ تعداد میں ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم ہونے کے باوجود اس وقت دنیا کی معیشت کا بڑا حصہ ان کے کنٹرول میں ہے۔ لیکن معلوم ہونا چاہیے کہ یہ سب کچھ عیسائیوں کی پشت پناہی کی وجہ سے ہے۔ اگر عیسائی ان کی مدد نہ کریں تو عرب ایک دن میں ان کے ٹکڑے اڑا کر رکھ دیں۔ اِس وقت پوری امریکی حکومت ان کی پشت پر ہے‘ بلکہ White Anglo Saxon Protestantsیعنی امریکہ اور برطانیہ تو گویا ان کے زرخرید ہیں۔ دوسرے عیسائی ممالک بھی ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ بہرحال اب بھی صورت حال یہ ہے کہ اوپر تو عیسائی ہی ہیں اور یہ معنوی طور پر سازشی انداز میں نیچے سے انہیں کنٹرول کر رہے ہیں۔
 
Top