(جذباتی ردعمل کی وجہ اب سمجھ آئی)
ہم گزشتہ تین ماہ سے اس موضوع پر بات کر رہے ہیں۔ مجھے اس نقطۂ نظر سے اپنے عدم علم کا اعتراف کرنا ہے کہ میں اس مسئلے کو اتنا گہرائی سے نہیں جانتا جتنا کچھ دوسرے ارکان جانتے ہیں۔ پوری تفصیل سے اس مسئلے کو سننے کے بعد اب ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ ایک مسلمان اس مسئلے سے متعلق اتنا گہرا اور جذباتی ردعمل کیوں ظاہر کرتا ہے۔ ہماری ان نشستوں، مباحث اور غور وفکر کا حاصل یہ ہے کہ ختم نبوت جیسا کہ جمہور مسلمانوں کا بھی عقیدہ ہے۔ تمام مسلمانوں کے ایمان کا بنیادی جز ہے اور خواہ کچھ بھی ہو جائے مسلمان کسی بھی حوالے سے ختم نبوت کے اس بنیادی عقیدے کے معاملے میں لچک کے روادار نہیں ہوسکتے۔ جناب والا! اس لئے میں نے کہا کہ یہ حکومت یا حزب مخالف کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ ہمیں اسے ایک قومی مسئلے کے طور پر لینا چاہیئے۔ قوم اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ اتنے سنگین مسئلے پر تقسیم ہو جائے اور اس لئے قائد حکومت جناب وزیراعظم پاکستان کے ذریعے حکومت اور اس ایوان میں براجمان تمام رفقاء کی یہی کوشش رہی کہ اتفاق رائے تک پہنچا جائے۔ اتنے اہم مسئلے پر قوم تقسیم نہ ہو اور قومی اسمبلی کا ایک متفقہ فیصلہ سامنے آئے۔
یہ میرے لئے ایک اعزاز ہے کہ میں اکثریتی پارٹی اور اپنے دوستوں جنہوں نے مجھے یہ ذمہ داری سونپی ہے، کی جانب سے اس معزز کمیٹی کے سامنے یہ قرارداد پیش کروں کہ ہم اتفاق رائے تک پہنچ چکے ہیں۔ جناب والا! مجوزہ قرارداد جو میں پیش کرنا چاہتا ہوں، ابھی چند ہی منٹوں میں اس معزز ایوان کے ارکان کے سامنے ہوگی۔