• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(جناب مولانا سید محمد علی رضوی کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب مولانا سید محمد علی رضوی کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
مولانا سید محمد علی رضوی: نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم! آج ہمارے ہاں اس ایوان میں تین مہینے سے جس مسئلہ پر گفتگو ہورہی ہے، ویسے تو یہ مسئلہ ایسا نہیںہے کہ جس میں کسی کو کوئی اختلاف ہو، البتہ معلومات کی کمی ضرور تھی، علم کی کمی ضرور تھی۔ بہت سے لوگ تھے جنہیں یہ پتہ نہیں کہ مرزائیت کیا چیز ہے، قادیانیت کیا چیز ہے، ان کے عزائم کیا ہیں، ان کے ارادے کیا ہیں، یہ چاہتے کیا ہیں۔ یہ مذہبی فرقہ ہے یا کوئی سیاسی فرقہ ہے۔ اب ہر اعتبار سے ہمارے سامنے اس جماعت کو واضح کر دیا گیا کہ ان کے عزائم کیا ہیں۔ یہ کوئی مذہبی فرقہ نہیں ہے، یہ تو اسلام دشمنوں کا آلہ کار فرقہ ہے۔
2952دراصل اٹھارویںصدی جہاں سے مسلمانوں کا انحطاط شروع ہوتا ہے، اس وقت ہندوستان میں بھی انگریز آئے اور ایشیاء میں دوسرے مقامات پر بھی انگریز کا تسلط ہوا۔ اس وقت یہ تین شخص ہیں۔ ایک تو مہدی سوڈانی، دوسرے شیخ سیناسی اور تیسرے فضل حق خیر آبادی اور مولوی عنایت احمد کا کاروی، مفتی صدرالدین صاحب! ان حضرات نے جہاد کا فتویٰ دیا۔ انگریزوں کے خلاف، اور جگہ جگہ مقابلے میں ہوئے۔ چنانچہ فضل خیر آبادیؒ اور مولانا عنایت احمد کاکاروی کو، ان کے ساتھ بھی پانچ سو علماء کے قریب تھے، جنہیں تمام کو دریائے شور کی سزا دی گئی، کالے پانی بھیجا گیا اور ان حضرات کا انتقال بھی وہیں ہوا۔
اس جہاد کے فتوے کے اثر کو ختم کرنے کے لئے مرزا غلام احمد قادیانی کو آلہ کار بنایا گیا۔ اس نے شروع میں تو مسلمانوں کے دلوں میں جگہ کرنے کا ایک طریقہ اختیار کیا۔ وہ مناظر بن گیا اسلام کا۔ عیسائیوں سے مناظرہ کرتا ہے، کہیں آریوں سے مناظرہ کرتا ہے۔ جب اس نے مسلمانوں میں اپنی جگہ اور اپنا مقام حاصل کر لیا، اس کے بعد اس نے دعویٰ نبوت کیا۔ ہمیں اب یہ چیز تو پوری طرح واضح ہوگئی ہے۔ لیکن علمائے کرام شروع ہی سے اس کے خلاف تھے۔ علماء حق نے شروع ہی سے اس کو غیرمسلم قرار دیا تھا۔ لیکن چونکہ مسلمانوں کے پاس یا علماء کے پاس نہ تو اختیار تھا نہ اقتدار نہ کسی طاقت کی سرپرستی تھی۔ اس کے ساتھ تو جناب! پوری حکومت تھی قادیان میں۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے بعد بھی اور اس کے زمانے میں بھی، جو بھی اس کے خلاف ہوتا تھا وہیں اس کو قتل بھی کیاگیا۔ چنانچہ ایک مشہور واقعہ ہے محمد حسین کو قتل کیاگیا۔ سلطان احمد ملتانی۱؎ کو قتل کیاگیا، عبدالرحمن مصری کے ساتھ انہوں نے جو کچھ کیا اس کا مکان جلایا گیا، اس کو قادیان سے باہر نکلوایا۔ لیکن چونکہ حکومت کی سرپرستی، انگریزوں کی سرپرستی تھی، برطانیہ کی حمایت حاصل تھی، اس لئے مقدمے بھی چلے تو کچھ نہیں ہوا۔ قادیان میں تو کسی کو ان کے خلاف 2953آواز اٹھانے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ ذرا بھی اگر کوئی شخص بولتا تھا تو اس کے ساتھ وہ زیادتیاں کی جاتی تھیں کہ کتابیں بھری پڑی ہیں اس کی زیادتیوں کی۔
اس کے بعد پاکستان بن گیا۔ پاکستان میں آپ دیکھتے ہیں انہوں نے ربوہ (اب چناب نگر) میں زمین حاصل کر کے پاکستان کے قلب میں اپنی ایک متوازی حکومت قائم کی اور وہاں بھی وہ اپنے مقدمات، چاہے وہ دیوانی کے ہوں، فوجداری کے ہوں، خود ہی طے کرتے تھے اور یہاں ہم کہتے تھے کہ یہ مرزائی کسی وقت اس ملک کو ختم کرانے والے ہوں گے۔ ہم نے دیکھا کہ اس مرزائی نے جس کو آپ نے وزیرخارجہ بنایا، اس نے ہمارے ملک کی دوستی، ہماری دوستی ہر ایک سے کرائی، لیکن ایک ملک ایسا تھا جس سے نہ کروائی۔ لیکن کیا وہ کافر تھا؟ کیا وہ بے دین تھا؟ کیا اختلاف تھا؟ کیونکہ شروع سے بنیاد ہی ایسی رکھی گئی تھی اس لئے افغانستان سے جس سے ہمارے عقائد میں اتحاد، ہمارے معاشرے میں بھی اتحاد، ہمارے دین میں بھی اتحاد تھا۔ وہاں اس نے دوستی نہ ہونے دی۔ کیونکہ یہ وزیرخارجہ قادیانی تھا۔ افغانستان میں جو بھی قادیانی گیا ہے وہاں مارا گیا ہے۔ قتل کیاگیا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۱؎ یہ سلطان احمد ملتانی نہ تھے بلکہ فخرالدین ملتانی تھے۔ قادیانی جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ اختلاف رائے کی بنیاد پر مرزامحمود نے ان کو قادیان میں قتل کرادیا۔ مرتب!
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ان کے عزائم اب آپ کے سامنے آچکے ہیں۔ ان کے پاس فوجی قوت بھی ہے۔ کہیں الفرقان فورس ہے، کہیں احمدی فورس ہے۔ آخر کوئی ایسی مذہبی جماعت ہمارے ہاں پاکستان میں نہیں جس کے پاس فورسز ہوں، جس کے پاس طاقت ہو جس کے پاس لڑنے والے رضاکار ہوں۔ یہ ایسی جماعت ہے جس کے پاس لڑنے والے، جنگ کرنے والے رضاکار بھی موجود ہیں۔ یہ جماعت مذہبی نہیں ہے۔ مگر یہ جماعت تو چاہتی ہے کہ جب بھی موقع ملے اس پورے ملک پر قبضہ کیا جائے اور پھر ان کے عزائم کتابوں سے واضح ہو گئے کہ وہ غیراحمدی کو دیکھنا نہیں چاہتے، غیراحمدی کو زندہ دیکھنا نہیں چاہتے۔ وہ انہیں قطعاً اس ملک میں ایک لمحہ کے لئے نہیں دیکھنا چاہتے۔ مگر بیوقوفی ان سے ہوگئی ربوہ اسٹیشن پر۔ اﷲتعالیٰ کو منظور یہ تھا ابھی ہی فرقے کو ختم کر دیا جائے جو 2954اس کے محبوب محمد رسول اﷲ ﷺ کی نبوت کے ڈاکو ہوں۔ یہ ایک مسلمہ بات ہے، تیرہ سو برسوں سے یہ چیز ہے، مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ حضور ﷺ کے بعد اور کوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری جو ہے وہ نبوت کی حیثیت سے نہیں ہے۔ وہ آکر ہم سے یہ نہیں کہیں گے کہ میں نبی ہوں، مجھ پر ایمان لاؤ۔ وہ وقت تھا جو ان کا گیا۔ وہ آئے، انہوں نے اعلان کیا میں نبی ہوں۔ ایمان لائے لوگ۔ اب وہ آئیں گے تو صرف مبشرات کی صورت میں آئیں گے، بشارت کو پورا کرنے کے لئے آئیں گے۔ اسی بشارت کو مٹانے کے لئے مرزاغلام احمد نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کشمیر میں بنائی۔ چونکہ انگریزوں کی سرپرستی تھی اس لئے انہیں کوئی روکنے والا نہیں تھا۔
لہٰذا میں عرض کروں گا کہ ان کی ہر چیز پر پابندی لگنی چاہئے۔ ان کو تبلیغ کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہئے اور اس جماعت کو مذہبی جماعت نہیں بلکہ سیاسی جماعت قرار دیا جائے تاکہ اس کے حساب وکتاب پر بھی پوری طرح سے نظر رکھ سکیں اور محدود طریقے سے وہ رہیں۔ ان کے حقوق جو ذمیوں کے اسلام میں ہیں ان سے انکار نہیں۔ ہم ان کے جان ومال کی حفاظت کریں گے اس وقت جب کہ وہ قانون کے دائرے میں آجائیں۔ قانون کے دائرے میں آنے سے پہلے ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔ اگر اقلیت ان کو قرار دے دیا گیا جس طرح سے عوام کا مطالبہ ہے اور اگراس میں ذرا بھی کسی قسم کی ہچر مچر کی گئی، ذرا بھی کوئی کمزوری یا لچک رکھی گئی تو اس وقت جو عوام میں جوش پھیلا ہوا ہے اس جوش کو فرو کرنے کی، اس جوش وخروش کو دور کرنے کی کسی میں طاقت نہیں ہے۔
لہٰذا میں پھر عرض کرتا ہوں کہ اس جماعت کو غیرمسلم قرار دیتے ہوئے ان کے لئے ان کو تبلیغ کی آزادی، آمدورفت کی آزادی، ہر چیز پر پوری پوری نظر کی جائے اور اس کے بعد مسلمان قطعاً مطمئن ہوں گے۔
2955محترمہ قائمقام چیئرمین: راؤ ہاشم خان! صرف دس منٹ۔
 
Top