• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

جہاد جاری رہے گا (احادیث و واقعات کی روشنی میں)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
جہاد جاری رہے گا (احادیث و واقعات کی روشنی میں)
جہاد اور مجاہدین کے خلاف قلمی محاذ پر بر سرِ پیکار لوگوں کے دو نظریات اور قرآن و سنت کی روشنی میں ان کی تردید ‘ آپ ان پچھلی پوسٹس میں پڑھ چکے ہیں ۔ اب کی پوسٹ میں ہم ان کے تیسرے گمراہ کن نظریے کا جائزہ لیں گے ۔

کفار کی طاقت سے مرعوب اور راہِ الٰہی میں قربانی پیش کرنے سے کنارہ کش لوگ ‘ جب قرآن مجید میں آیات ِ جہاد پڑھتے ہیں اور اُنہیں کلام اللہ کی پوری پوری سورتیں فریضۂ جہاد کے بارے میں نظر آتی ہیں ‘ اسی طرح وہ نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بدر کے میدان میں اور کبھی احد پہاڑ کے دامن میں کھڑے دیکھتے ہیں‘ کبھی پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں مدینہ منورہ کے ارد گرد خندق کھو دتے ، بنو قریظہ کے قتل کا حکم دیتے ، خیبر اور مکہ مکرمہ پر چڑھائی کرتے اور کبھی سینکڑوں میل دور تبوک کی طرف سفر کرتے نظر آتے ہیں تو اُن کی یہ ہمت اور جرأت تو نہیں ہوتی کہ فریضۂ جہاد کا انکار کر دیں یا اس کے شرعی معنی کو بدل کر ہر نیکی کے کام کو جہاد قرار دے ڈالیں تو اس کیلئے وہ ایک نئے گمراہی کے راستے کا انتخاب کرتے ہیں ۔

یہ جہاد کیلئے ایسی خود ساختہ اور من گھڑت شرائط عائد کرتے ہیں ‘ جن کا قرآن و حدیث میں کوئی تذکرہ ہے نہ آج تک کسی مفسر ، محدث یا فقیہ نے اُن کا ذکر کیا ہے ۔ وہ ان مظلوم مسلمانوں کو جو کفار کے ظلم و ستم کا شکار ہوں ‘ بجائے جہاد کی تلقین کرنے کے الٹا اُن کی مسلح جدوجہد کو صرف اس لیے غلط قرار دیتے ہیں کہ یہ کسی منظم حکومت کے ماتحت نہیں ہے ۔ گویا جب تک اُن کی منظم حکومت ( وہ بھی ان نام نہاد دانشوروں کی نظر میں صرف وہ ہی حکومت ہو گی جسے کفار تسلیم کر لیں) قائم نہیں ہوتی ‘ تب تک اُن کا کام صرف مار کھانا اور ظلم سہنا ہی ہے ۔

ان میں سے بعض اقدامی جہاد کی شرائط اٹھا کر دفاعی جہاد پر چسپاں کر دیں گے اور بعض مجاہدین کی تعداد میں کمی کو بہانہ بنا کر جہاد کے غیر شرعی ہونے کے حکم صادر فرما دیں گے ۔ کچھ حضرات استطاعت اور مقابلے کی طاقت نہ ہونے کو بہانہ بنا کر جہاد سے پہلو تہی کریں گے ۔ حالانکہ جہاد کیلئے استطاعت اور تربیت حاصل کرنا ‘ یہ بھی تو خود ایک فرض ہے ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ملیں گے جو باقی تو پورے مدنی دور کے دین پر عمل کریں گے لیکن صرف جہاد کو چھوڑنے کیلئے فوراً الٹی قلابازی لگا کر مکی دور میں پہنچ جائیں گے ۔

اگر ان لوگوں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا الگ الگ جائزہ لیا جائے تو یہ پوری ایک کتاب کا موضوع بن جائے گا ۔ اس لیے ہم اصولی طور پر زمانۂ رسالت سے صرف چند ایسے مستند واقعات پیش کرتے ہیں جن سے خود بخود ان لوگوں کے بے بنیاد خیالات کی تردید ہو جاتی ہے ۔

(۱)… صلح حدیبیہ کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ قریش کا جو آدمی اپنے سر پرست کی اجازت کے بغیر یعنی بھاگ کر محمد ﷺ کے پاس جائے گا ، محمد ﷺ اسے واپس کریں گے ۔ جب رسول کریم ﷺ مدینہ واپس تشریف لے آئے تو ابو بصیرؓ نامی ایک مکّی مسلمان جنہیں مکہ میں اذیتیں دی جاتی تھیں ، وہ چھوٹ کر بھاگ نکلے ۔ قریش نے ان کی واپسی کے لیے دو آدمی بھیجے اور یہ کہلوایا کہ ہمارے اور آپ کے درمیان عہد و پیمان ہے ، اس کی پابندی کیجئے ۔ نبی ﷺ نے ابو بصیر ؓ کو ان دونوں کے حوالے کر دیا ۔ یہ دونوں اسے لا رہے تھے کہ ذوالحلیفہ کے مقام پر ایک چال کے ساتھ ابو بصیر ؓ نے ایک شخص کو قتل کر دیااور دوسرا بھاگ کر مدینے پہنچ گیا۔ نبی ﷺ نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ ’’ یہ خوفزدہ نظر آتا ہے ۔ ‘‘ اس نے کہا ’’بخدا ! میرا ساتھی قتل کر دیا گیا ہے اور مجھے بھی قتل کر دیا جائے گا ۔ اتنے میں ابو بصیرؓ آگئے اور بولے:’’ یا رسول اللہ ﷺ ! اللہ نے آپ کا عہد پورا کر دیا کہ آپ نے مجھے ان کی طرف پلٹا دیا ۔ پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دی ۔ ‘‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ اسے کوئی ساتھ مل جائے تو یہ جنگ کی آگ بھڑکا دے گا‘‘ ۔ یہ سن کر ابو بصیر ؓ سمجھ گئے کہ انہیں پھر کافروں کے حوالے کر دیا جائے گا ۔ اس لیے وہ مدینہ سے نکل کر ساحل سمندر پر آگئے ۔ ادھر ابو جندل بن سہیل ؓ بھی چھوٹ بھاگے اور ابو بصیر سے آملے یہاںتک کہ ان کی ایک جماعت اکٹھی ہو گئی ۔ اس کے بعد ان لوگوں کو ملکِ شام آنے جانے والے کسی بھی قریشی قافلے کا پتہ چلتا تو وہ اس سے چھیڑ چھاڑ کر تے اور قافلے والوں کو مار کر ان کا مال لوٹ لیتے۔ قریش نے تنگ آکر نبی ﷺ کو اللہ اور قرابت کا واسطہ دے کر پیغام بھیجا کہ آپ انہیں اپنے پاس بلا لیں اور اب جو بھی آپ کے پاس جائے گا ، مامون رہے گا ۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے انہیں بلوا لیا اور وہ مدینہ آگئے ۔ ( فتح الباری :۷؍۴۳۹،زاد المعاد :۲؍۱۲۲)

ابو بصیرؓ اور ابو جندل رضی اللہ عنہما کے واقعہ سے ثابت ہوا کہ ظلم کے خلاف بدلہ لینے کے لیے منظم حکومت کی صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک کوئی شرط نہ تھی وگرنہ وہ اس شرط کا ضرور اہتمام کرتے ۔لیکن اگر ایسی کوئی شرط نام نہاد دانشوروں کے بقول تھی تو کیا یہ لوگ (نعوذ باللہ) ان صحابہ رضی اللہ عنہم پر اپنی تعریف کی روشنی میں دہشت گردی کا الزام لگانے کی ہمت کریں گے !

(۲)…نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی حارث بن عمیر ؓ کو سفیر بنا کر بصریٰ کے حکمران کے پاس بھیجا تو قیصرروم کے گورنر شرجیل بن عمرو نے انہیں شہید کر دیا ۔ نبی ﷺ نے اپنے ایک صحابی کا بدلہ لینے کے لیے تین ہزار کا ایک لشکر تیار کیا اور اس پر تین امیر مقرر فرمائے ۔ پہلے امیر تھے زید بن حارثہؓ یہ شہید ہو جائیں تو جعفر بن ابی طالبؓ اور یہ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہؓ ، اسے غزوئہ موتہ کہا جاتا ہے ۔ صحیح بخاری میں حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے دوران معرکہ ہی اس کے بارے میں صحابہ کو بتانا شروع کر دیا فرمایا علَم جہاد زید ؓ نے پکڑا وہ شہید کر دیے گئے پھر جعفر ؓ نے پکڑا وہ شہید ہو گئے پھر ابن رواحہؓ نے پکڑا وہ بھی شہید ہو گئے ۔ آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بھی بہہ رہے تھے ۔پھر اللہ کی تلواروں سے ایک تلوار (خالد بن ولیدؓ ) نے جھنڈا پکڑا تو اللہ نے فتح عطا فرمادی ۔
اب فتح الباری میں ہے کہ ابو قتادہ ؓ کی حدیث ہے :

’’ ثم اخذ اللواء خالد بن ولید ولم یکن من الامراء وھو امیر نفسہ ‘‘

’’ پھر خالد ؓ نے جھنڈا پکڑا اور وہ مقرر نہیں کئے گئے ، وہ خود ہی امیر بن گئے ‘‘ ۔

پھر رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی :

’’ اللھم ھو سیف من سیوفک فانصرہ ‘‘

’’ اے اللہ ! یہ تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہے تو اس کی مدد فرما ‘‘ ۔ ( مسند احمد : ۵؍ ۲۹۹ )

یہی حدیث کتاب الجہاد میں ہے تو وہاں یہ وضاحت ہے :

’’ ثم اخذھا خالد بن الولید من غیر امرۃ ‘‘

’’ پھر جھنڈاخالد بن ولید ؓ نے پکڑ لیا اور انہیں امیر نہیں مقرر کیا گیا ‘‘ ۔

اس حدیث میں بھی غور کریں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بغیر اجازت آگے بڑھے اور جہاد کیا اور اللہ نے فتح عطا فرمائی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا ‘ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس دن نو(۹) تلواریں میرے ہاتھ سے ٹوٹی تھیں ۔سنن ابی دائود میںعوف بن مالک الاشجعی ؓ کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غزوہ میں حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ کو واپسی پر اپنی طرف سے مقرر کردہ امیر ہی قرار دیا ۔

(سنن ابی دائود ، کتاب الجہاد:۲۷۱۹ )

(۳)… ۴؍ ہجری کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عضل اور قارہ (قبائل ) کے کچھ لوگ حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ کچھ لوگوں کو دین سکھانے اور قرآن کی تعلیم دینے کے لیے ہمارے ہمراہ روانہ کیجئے ۔ آپ نے کچھ لوگوں کو سیدنا عاصم بن ثابت ؓ کی امارت میں روانہ کر دیا ۔ جب یہ لوگ رجیع نامی چشمے پر پہنچے تو مذکورہ قبائل کے افراد نے قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنو لحیان کو ان کے پیچھے لگا دیا ۔ بنو لحیان کے تقریباً سو تیرا نداز ان کے نشانات قدم دیکھتے ہوئے ان صحابہ تک جا پہنچے ۔ صحابہ کرام ایک ٹیلے پر پناہ گزیں ہو گئے ۔ بنو لحیان نے انہیں گھیرے میں لے کر کہا کہ تمہارے لیے عہد و پیمان ہے کہ اگر تم ہمارے پاس اتر آئو تو ہم تمہارے کسی آدمی کو قتل نہیں کر یں گے ۔ سیدنا عاصمؓ نے اترنے سے انکار کر دیا اور اپنے رفقاء سمیت ان سے جنگ شروع کر دی ۔ بالآخر سات صحابی شہید ہو گئے ۔ بنو لحیان نے اپنا عہد و پیمان پھر دہرایا تو باقی تین صحابی ان کے پاس اتر آئے لیکن انہوں نے قابو پاتے ہی بد عہدی کی اور انہیں اپنی کمانوں کی تانت سے باندھ لیا ۔ اس پر تیسرے صحابی نے یہ کہتے ہوئے کہ یہ پہلی بد عہدی ہے ، ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا ۔ تو انہوں نے اسے بھی شہید کر ڈالا اور باقی دو صحابہ کو مکہ لے جا کر بیچ دیا ۔‘‘

( صحیح بخاری ۴۰۸۶، ابن ہشام :۲؍۱۶۹)

مذکورہ واقعہ سے ثابت ہوا کہ اگر کہیں تین مسلمان بھی ہوں تو وہ ایک کو اپنا امیر مقرر کر کے ظلم کے خلاف جہاد کا راستہ اختیار کریں گے اور اسلام انہیں اپنے دفاع میں لڑنے کا حق دیتا ہے ۔

(۴)… عہد نبوی میں شہر بن باذان صحابی ؓ یمن کے گورنر مقرر تھے لیکن ان کی وفات پر اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور اپنی قوم کو لے کر صنعاء (دارالحکومت) پر قبضہ جما لیا اور باذان کی بیوی ’’ مرزبانہ‘‘ کو زبردستی اپنے حرم میں شامل کر لیا ۔ اس طرح ایک اسلامی علاقہ کفار کے تسلط میں چلا گیا ۔ چنانچہ فیروز دیلمی قیس بن عبد یغوث ، دادویہ رضی اللہ عنہم اور کچھ دیگر صحابہ نے مرزبانہ کے ساتھ مل کر اسود عنسی کے خلاف کاروائی کا پروگرام تشکیل دیا ۔ حسب پروگروام مر زبانہ نے اس رات اسود عنسی کو بہت زیادہ شراب پلا کر مدہوش کر دیا جبکہ دیگر صحابہ نے اس محل کی دیوار میں نقب لگایا اور اندر جا کر اسود عنسی کو قتل کر دیا ۔ چنانچہ اس طرح اسود عنسی کے غاصبانہ تسلط کا خاتمہ کیا گیا ۔

صحیح روایات کے مطابق نبی کریم ﷺ نے بذریعہ وحی اپنے صحابہ کو اس گوریلا کاروائی سے مطلع کیا اور جب یہ خبر یمن سے مدینہ پہنچی تو ابو بکر ؓ خلیفہ بن چکے تھے ۔

(فتح الباری :۸؍۹۳، دلائل النبوۃ :۵؍۳۳۴تا ۳۳۶)

نبی کریم ﷺ کے دور میں یہ گوریلا کاروائی کی گئی جبکہ یمن میں کوئی ’’منظم حکومت ‘‘ اس وقت موجود نہ تھی بلکہ اسود عنسی جس نے منظم حکومت کا شیرازہ بکھیر ا تھا ، اس کذاب کو ’’غیر علانیہ ‘‘ خفیہ طور پر اور بغیر کسی’’ منظم حکومت ‘‘ کے قتل کر کے اسلامی اقتدار بحال کیا گیا ۔

ان تمام واقعات میں غور کریں تو موجودہ دور میں جب جہاد مسلمانوں کیلئے سانس لینے سے زیادہ ضروری ہو گیا ہے ‘ جہاد کے خلاف جتنے وساوس اور شبہات پیدا کیے جاتے ہیں‘ سب مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور ثابت ہوںگے ۔ یہاں یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی اہلِ حق کے درمیان امورِ مجتہد فیہا میں نصوص کے ثبوت اور ان کی تطبیق کی بابت اختلاف ہو جاتا ہے لیکن اس کا مقصد کسی فریضے کا انکار ‘ اس میں بے جا تاویل یا اُسے معطل کرنا نہیں ہوتا بلکہ شرعی دلائل کی روشنی میں ‘شرعی حدود کے اندر اپنی رائے کا اظہار کرنا مقصد ہوتا ہے ‘ ایسی صورت میں کسی کی تفسیق اور تضلیل درست نہیں ۔

کچھ لوگوں کا جہاد کے ساتھ یہ بھی عجیب رویہ ہے کہ اتنی عظمت والا عمل ‘ جو فرائض اسلام میں سے ہے‘ یہی تمام مفسرین ‘ محدثین اور فقہاء کا متفقہ فیصلہ ہے ‘ اس کی اہمیت کو امت مسلمہ کے دلوں سے کھرچ کھرچ کر نکالنے کے لیے چند ایسی روایات کا سہارا لیتے ہیں ‘ جو یا تو بے بنیاد اور من گھڑت ہوتی ہیں یا اُن کا صحیح مفہوم نظر انداز کر کے خواہ مخواہ انہیں جہاد کے مقابلے میں پیش کر دیا جاتا ہے ۔ حالانکہ آسان سی بات ہے کہ جب جہاد کی فرضیت ‘ ترکِ جہاد پر وعیدیں اور مجاہدین کے فضائل یہ سب کچھ قرآن مجید کی آیات ِ مبارکہ اور صریح و صحیح احادیث مبارکہ سے ثابت ہیں تو پھر دین ِاسلام کے کسی اور عمل کو اس کے مقابلے میں لانے کی کیا ضرورت ہے ۔

دینِ اسلام کے جتنے بھی احکامات ہیں‘ سب پر عمل ضروری ہے ۔ تمام اعمال کے اپنے اپنے فضائل ہیں ۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ تمام کام بھی کیے ہیں اور ساتھ جہاد بھی کیا ہے ۔ پھر آج کے کسی مسلمان کیلئے یہ کیسے جائز ہو گیا کہ وہ کسی ایک کام کا انتخاب کر لے اور باقی کا انکار کر دے یا اُس کی اہمیت اور عظمت کو کم کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہو جائے ۔

رحمت ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرب قیامت تک جہاد جاری رہنے کی پیشین گوئی فرمائی ہے ۔ ایسی کئی روایات ہم اس سلسلۂ مضامین کیلئے عرض کر چکے ہیں ۔ آج دنیا بھر میں جہادی بہاریں امت مسلمہ کیلئے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کی کرن بن کر ان کی عملی تصدیق کر رہی ہیں ۔ اللہ کے نیک بندے ‘ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے وفادار امتی اپنے مقدس لہو سے فریضۂ جہاد کی آبیاری کر رہے ہیں ۔ راہِ حق کے فدائیوں کے جذبات قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی یادیں تازہ کر رہے ہیں ۔ مسلمان خواتین کے خیالات کا رخ بھی بدل رہا ہے اور وہ حضرت ام عمارہؓ ، حضرت خنساء ؓ اور حضرت صفیہؓ کا کردار ادا کر نے کیلئے بے تاب ہیں ۔ مسلمانوں کے معصوم بچے بھی حضرت معاذؓ اور حضرت معوذؓ کے نقشِ قدم پر چلنے کا عہد کر رہے ہیں ۔

ان تمام آسمانی اور زمینی حقائق کے پیش نظر ہمیں یقین ہے کہ منکرینِ جہاد جتنا بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں اور یہود و نصاریٰ کو خوش کرنے کیلئے جس قدر بھی قلم و قرطاس کا دامن داغدار کر لیں ‘ فتنۂ انکار ِجہاد اپنی موت آپ مر جائے گا اور جہاد جاری رہے گا ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
 
مدیر کی آخری تدوین :
Top