حدیث " لو عاش ابراہیم " پرقادیانی اعتراض کا جواب
(۱)… ’’
لو عاش ابراہیم
‘‘
’’ و لو عاش (ابراہیم) لکان صدیقاً نبیا ‘‘ اس سے قادیانی استدلال کرتے ہیں کہ اگر حضورﷺ کے بیٹے حضرت ابراہیم زندہ رہتے تو نبی بنتے۔ بوجہ وفات کے حضرت ابراہیم نبی نہیں بن سکے۔ ورنہ نبی بننے کا امکان تو تھا۔
جواب۱… یہ روایت جس کو قادیانی اپنے استدلال میں پیش کرتے ہیں۔ سنن ابن ماجہ باب ماجاء فی الصلوٰۃ علی ابن رسول اﷲﷺ و ذکروفاتہ میں ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:
’’ عن ابن عباسؓ لمامات ابراہیم بن رسول اﷲﷺ صلی رسول اﷲﷺ وقال ان لہ مرضعاً فی الجنۃولوعاش لکان صدیقاً نبیا ولو عاش لعتقت اخوالہ القبط وما استرق قبطی ‘‘
(ابن ماجہ ص ۱۰۸)
ترجمہ: ’’حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب آپﷺ کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تو آپﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور فرمایاکہ اس کے لئے دودھ پلانے والی جنت میں (مقرر کردی گئی) ہے اور اگر ابراہیم زندہ رہتے تو یقینا نبی ہوتے اور اگر وہ زندہ رہتے تو اس کے قبطی ماموں آزاد کردیتا اور کوئی قبطی قیدی نہ ہوتا۔‘‘
۱… اس روایت کی صحت پر شاہ عبدالغنی مجددیؒ نے انجاح الحاجہ علی ابن ماجہ میں کلام کیا ہے:
’’ وقد تکلم بعض الناس فی صحۃ ھذا الحدیث کما ذکر السید جمال الدین المحدث فی روضۃ الاحباب ‘‘
(انجاح ص ۱۰۸)
’’اس حدیث کی صحت میں بعض (محدثین) نے کلام کیا ہے۔ جیسا کہ روضہ احباب میں سید جمال الدین محدث نے ذکر کیا ہے۔‘‘
۲… موضوعات کبیر کے ص ۵۸ پر ہے:
’’ قال النووی فی تھذیبہ ھذا الحدیث باطل وجسارۃ علی الکلام المغیبات ومجازفۃ وھجوم علی عظیم ‘ ‘
ترجمہ: ’’امام نوویؒ نے تہذیب الاسماء واللغات میں فرمایا ہے کہ یہ حدیث باطل ہے۔ غیب کی باتوں پر جسارت ہے۔ بڑی بے تکی بات ہے۔‘‘
۳… مدارج النبوۃ ص ۲۶۷ ج ۲ شیخ عبدالحق دہلویؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحت کو نہیں پہنچتی۔ اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس کی سند میں ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان ہے جو ضعیف ہے۔
۴ … ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان کے بارہ میں محدثین کی آراء یہ ہیں۔ ثقہ نہیں ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبلؒ۔ حضرت امام یحییٰؒ۔ حضرت امام دائودؒ۔
منکر الحدیث ہے: حضرت امام ترمذیؒ
متروک الحدیث ہے: حضرت امام نسائی ؒ
اس کا اعتبار نہیں: حضرت امام جوزجانی ؒ
ضعیف الحدیث ہے: حضرت امام ابوحاتم ؒ
ضعیف ہے۔ اس کی حدیث نہ لکھی جائے۔ اس نے حکم سے منکر حدیثیں روایت کی ہیں۔ (تہذیب التہذیب ص ۹۴‘۹۵ج۱) (یاد رہے کہ زیر بحث روایت بھی ابوشیبہ نے حکم سے روایت کی ہے۔)
ایسا راوی جس کے متعلق آپ اکابر امت کی آر اء ملاحظہ فرماچکے ہیں۔ اس کی ایسی ضعیف روایت کو لے کر قادیانی اپنا باطل عقیدئہ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ عقیدہ کے اثبات کے لئے خبرواحد (اگرچہ صحیح بھی کیوں نہ ہو) معتبر نہیں ہوتی۔ چہ جائیکہ کہ عقائد میں ایک ضعیف روایت کا سہارا لیا جائے۔ یہ تو بالکل ’’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ والی بات ہوگی۔
جواب۲… اور پھر قادیانی دیانت کے دیوالیہ پن کا اندازہ فرمائیں کہ اسی متذکرہ روایت سے قبل حضرت ابن اوفیؓ کی ایک روایت ابن ماجہ نے نقل کی ہے۔ جو صحیح ہے۔ اس لئے کہ امام بخاریؒ نے بھی اپنی صحیح بخاری میں اسے نقل فرمایا ہے۔ جو قادیانی عقیدئہ اجراء نبوت کو بیخ و بن سے اکھیڑ دیتی ہے۔
اے کاش! قادیانی اس ضعیف روایت سے قبل والی صحیح روایت کو پڑھ لیتے جو یہ ہے:
’’ قال قلت لعبداﷲ ابن ابی اوفیؓ رأیت ابراہیم بن رسول اﷲﷺ قال مات وھو صغیر ولو قضی ان یکون بعد محمدﷺ نبی لعاش ابنہ ابراہیم ولکن لا نبی بعدہ۰ ابن ماجہ باب ماجاء فی الصلوۃ علی ابن رسول اﷲ وذکر وفاتہ‘‘ (ص ۱۰۸)
ترجمہ: ’’اسماعیل راوی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداﷲ ابن اوفی ؓ سے پوچھا کہ کیا رسول اﷲﷺ کے بیٹے ابراہیم کو آپ نے دیکھا تھا؟ عبداﷲ ابن اوفیؓ نے فرمایا کہ وہ (ابراہیم) چھوٹی عمر میں انتقال فرماگئے اور اگر حضورﷺ کے بعد کسی کو نبی بننا ہوتا۔ تو آپﷺ کے بیٹے ابراہیم زندہ رہتے۔ لیکن آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔‘‘
یہ وہ روایت ہے جسے اس باب میں ابن ماجہ سب سے پہلے لائے ہیں۔ یہ صحیح ہے۔ اس لئے کہ حضرت امام بخاریؒ نے بھی اپنی صحیح کے باب ’’ من سمی باسماء الانبیائ ‘‘ میں اسے مکمل نقل فرمایا۔
(بخاری ج۲ ص ۹۱۴)
اب آپ ملاحظہ فرمائیں کہ یہ صحیح روایت جسے ابن ماجہ متذکرہ باب میں سب سے پہلے لائے اور جس کو امام بخاریؒ نے بھی اپنی صحیح بخاری میں روایت کیا ہے اور مرزا قادیانی نے اپنی کتاب (شہادت القرآن ص ۴۱،خزائن ص ۳۳۷ ج۶) پر ’’بخاری شریف کو اصح الکتب بعد کتاب اﷲ‘‘ تسلیم کیا ہے۔ اگر مرزائیوں میں دیانت نام کی کوئی چیز ہوتی تو اس صحیح بخاری کی روایت کے مقابلہ میں ایک ضعیف اور منکرالحدیث کی روایت کو نہ لیتے۔ مگر مرزائی اور دیانت یہ دو متضاد چیزیں ہیں۔
لیجئے ایک اور روایت۔ انہیں حضرت عبداﷲ بن اوفیؒ سے (مسند احمد ج ۴ ص ۳۵۳) کی ملاحظہ فرمایئے:
’’ حدثنا ابن ابی خالد قال سمعت ابن ابی اوفیؒ یقول لو کان بعدالنبیﷺ نبی مامات ابنہ ابراہیم ‘‘
’’ابن ابی خالد فرماتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفیؒ سے سنا۔ فرماتے تھے کہ حضرت رحمت دوعالمﷺ کے بعدکوئی نبی ہوتا تو آپﷺ کے بیٹے ابراہیم فوت نہ ہوتے۔‘‘
حضرت انسؓ سے سدیؒ نے دریافت کیا کہ حضرت ابراہیم کی عمر بوقت وفات کیا تھی؟ آپ نے فرمایا: ’’ قد ملاء المہد ولو بقی لکان نبیاً ولکن لم یکن لیبقی لان نبیکم آخر الانبیائ ‘‘ وہ پنگھوڑے کو بھر دیتے تھے (یعنی بچپن میں ان کا انتقال ہوا۔ لیکن وہ اتنے بڑے تھے کہ پنگھوڑا بھرا ہوا نظر آتا تھا) اگر وہ باقی رہتے تو نبی ہوتے۔ لیکن اس لئے باقی نہ رہے کہ تمہارے نبی آخری نبی ہیں۔
(تلخیص التاریخ الکبیر لابن عساکر ص ۴۹۴ ج۱‘ فتح الباری ج۱۰ ص ۴۷۷ باب سمی باسماء الانبیائ)
اب ان صحیح روایات جو بخاری، مسند احمد اور ابن ماجہ میں موجود ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے ایک ضعیف روایت کو جس کا جھوٹا اور مردود ہونا یوں بھی ظاہر ہے کہ یہ قرآن کے نصوص صریحہ اور صدہا احادیث نبویہ کے خلاف ہے۔ اسے صرف وہی لوگ اپنے عقیدے کے لئے پیش کرسکتے ہیں۔ جن کے متعلق حکم خداوندی ہے:
’’ ختم اﷲ علی قلوبھم وعلی سمعھم وعلیٰ ابصارھم غشاوۃ(بقرہ: ۷) ‘‘
جواب۳… اس میں حرف لو قابل توجہ ہے۔ اس لئے کہ جیسے: ’’ لوکان فیھما الھۃ الا اﷲ لفسدتا ‘‘ لو عربی میں محال کے لئے بھی آجاتا ہے۔ اس روایت میں بھی تعلیق بالمحال ہے۔ اس سے اثبات عقیدہ کے لئے استدلال کرنا قادیانی علم کلام کا ہی کارنامہ ہوسکتا ہے۔