• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

حضرت انسؓ بن مالک انصاری

ام ضیغم شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
ناظم
مہمان
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
حضرت انسؓ بن مالک انصاری


رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے ہجرت کے بعد یثرب میں نزولِ اجلال فرمایا تو کھجور کے باغات سے گھرے ہوئے اس قدیم شہر پر بہارِ تازہ آگئی۔ وہ یثرب سے ’’مدینۃالنبیؐ‘‘ بن گیا۔ اس کی گلی گلی انوارِ نبوت سے جگمگانے لگی اور اس کا گوشہ گوشہ شمیمِ رسالت کی عطر بیزیوں سے مہکنے لگا۔ اسی زمانے کا ذکر ہے کہ ایک دن مدینہ منورہ کی ایک باوقار خاتون بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئیں۔ ان کے ساتھ نو دس برس کا ایک خوش رو بچہ بھی تھا جس کی پیشانی نورِ سعادت سے درخشاں تھی۔ خاتون نے بڑے ادب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور پھر اس بچے کا ہاتھ پکڑ کر یوں عرض پیرا ہوئیں:
’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان، یہ میرا لختِ جگر ہے، اس کو آپ کی نذر کرتی ہوں، اسے اپنی غلامی میں لے لیجیے، یہ آپ کی خدمت کیا کرے گا۔‘‘
رحمت ِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاتون کے جذبۂ اخلاص کی تحسین فرمائی، بچے کے سر پر دستِ شفقت رکھا، اس کے لیے دعائے خیر و برکت مانگی اور پھر ان خاتون کی خواہش کے مطابق اس بچے کو اپنے دامنِ رحمت سے وابستہ کرلیا۔
ارضِ مدینہ کے یہ خوش بخت نونہال جن کو نو دس برس کی عمر میں سرورِ کائنات، فخرِ موجودات، سیدالمرسلین، صاحبِ قابَ قوسین صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم بننے کا عظیم شرف حاصل ہوا اور جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال تک دل وجان سے آپؐ کی خدمت کا حق ادا کرتے رہے، سیدنا حضرت انسؓ بن مالک انصاری تھے۔
حضرت انسؓ بن مالک ان صحابہ کبار میں سے ہیں جن کو اساطینِ اُمت تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان کی کنیت ابوحمزہ بھی تھی اور ابو ثمامہ بھی۔ لقب ’’خادمِ رسول اللہؐ‘‘ تھا۔ وہ خزرج کے معزز ترین خاندان ’’بنونجار‘‘ سے تھے۔ نسب نامہ یہ ہے:
انسؓ بن مالک بن نضر بن ضمضم بن زید بن حرام بن جندب بن عامر بن غنم بن عدی بن النجار۔
حضرت انسؓ کی والدہ کا نام اُمِ سلیمؓ تھا۔ ان کا شمار نہایت عظیم المرتبت صحابیات میں ہوتا ہے۔ ہجرتِ نبوی سے دو تین سال قبل جب حضرت انسؓ کی عمر تقریباً سات آٹھ برس کی تھی، مدینہ منورہ میں اسلام کا چرچا پھیلنے لگا۔ اُن کی سعیدالفطرت والدہ بلا تامل سعادت اندوزِ اسلام ہوگئیں۔ ان کے ساتھ ہی حضرت انسؓ کے چچا حضرت انسؓ بن نضر، خالہ حضرت اُمِ حرامؓ اور ماموں حضرت حرامؓ بن ملحان بھی شرفِ اسلام سے بہرہ ور ہوگئے۔ حضرت اُم سلیمؓ نے اپنے کمسن فرزند انسؓ کو بھی اپنے رنگ میں رنگنا چاہا۔ وہ انہیں کلمہ پڑھاتی تھیں اور شعائر اسلامی سکھاتی تھیں۔ بدقسمتی سے حضرت انسؓ کے والد مالک بن نضر نہ صرف اپنے آبائی مذہب پر رہے بلکہ حضرت اُم سلیمؓ کے قبولِ اسلام پر بھی سخت ناراض ہوئے اور انہیں اپنے فرزند انسؓ کو کلمہ پڑھانے سے منع کیا۔ لیکن اسلام کا نشہ ایسا نہیں تھا جو کسی ترغیب و تخویف سے اتر جاتا۔ حضرت اُم سلیمؓ نہایت ثابت قدمی سے اسلام پر قائم رہیں اور ننھے انسؓ کو بھی اسی راستے پر چلاتی رہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میاں بیوی میں سخت کشیدگی پیدا ہوگئی۔ مالک بن نضر ناراض ہوکر مدینہ سے شام چلے گئے اور وہیں فوت ہوگئے (ایک روایت کے مطابق کسی دشمن نے انہیں قتل کرڈالا)۔ یہ بیعت عقبۂ اولیٰ (12ھ) سے پہلے کا واقعہ ہے۔ حضرت اُم سلیمؓ اب بیوہ تھیں اور ان کا لاڈلا بچہ یتیم۔ کچھ مدت بعد ہر طرف سے نکاح کے پیغام آنے لگے لیکن انہوں نے ہر ایک کے جواب میں یہی کہا کہ جب تک انسؓ مجلسوں میں اٹھنے بیٹھنے اور گفتگو کرنے کے قابل نہ ہوجائے میں کسی سے نکاح نہیں کرسکتی۔
حضرت انسؓ کی عمر تقریباً نو برس کی تھی کہ ان کے قبیلہ کے ایک شخص ابوطلحہؓ نے حضرت اُم سلیمؓ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ ابوطلحہؓ اُس وقت مشرک تھے اور لکڑی کے ایک بت کی پرستش کیا کرتے تھے۔ حضرت اُم سلیم نے جواب میں کہلا بھیجا کہ میں خدائے واحد اور اس کے سچے رسولؐ پر ایمان لائی ہوں اور تم ایک خودساختہ لکڑی کے بت کے پجاری ہو جو کسی کو نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ بھلا زندگی کے سفر میں تم میرے ساتھی کیسے بن سکتے ہو؟
ابوطلحہؓ نے حضرت اُم سلیمؓ کی باتوں پر غور کیا تو ان میں وزن محسوس ہوا۔ چند دن بعد حضرت اُم سلیمؓ کے پاس آئے اور ان سے کہا: مجھ پر حق واضح ہوگیا ہے اور میں تمہارا دین قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔
حضرت ابوطلحہؓ کی بات سن کر حضرت اُم سلیمؓ کو بہت خوشی ہوئی اور انہوں نے بے ساختہ کہا:’’پھر مجھے تمہارے ساتھ نکاح کرنے میں کوئی عذر نہیں۔ میرا مہر یہی ہے کہ تم اسلام قبول کرلو۔‘‘
حضرت ابوطلحہؓ بلا تامل سعادت اندوزِ اسلام ہوگئے اور بقول ابنِ سعدؒ و حافظ ابنِ حجرؒ حضرت انسؓ نے اپنی والدہ کا نکاح حضرت ابوطلحہؓ سے پڑھا دیا۔ جلیل القدر صحابی حضرت ثابتؓ بن قیس انصاری کہا کرتے تھے کہ میں نے کسی عورت کا مہر اُم سلیمؓ کے مہر سے افضل نہیں سنا۔ ابوطلحہؓ سے نکاح کے بعد حضرت اُم سلیمؓ حضرت انسؓ کو انہی کے گھر لے گئیں۔ اور حضرت انسؓ وہیں پرورش پانے لگے۔
سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کو اپنے قدومِ میمنت لزوم سے مشرف فرمایا تو آپؐ کا پُرجوش استقبال کرنے والوں میں حضرت انسؓ کے والدین بھی تھے، اور حضرت انسؓ بھی دوسرے لڑکوں کے ساتھ مل کر وفورِ مسرت میں جَائَ رَسُوْل اللّٰہ جَائَ رَسُوْل اللّٰہ (رسول اللہؐ تشریف لائے، رسول اللہؐ تشریف لائے) کے ترانے گا رہے تھے اور سارے شہر میں اچھلتے کودتے ہوئے گشت لگا رہے تھے۔ یہ پُرمسرت دن انہیں عمر بھر یاد رہا۔ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اس دن سے زیادہ مبارک اور پُرمسرت دن کوئی نہیں دیکھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں قدم رنجہ فرمایا۔ اس دن مدینہ منورہ کے در و دیوار طلعتِ اقدس سے جگمگا اٹھے۔
ہجرتِ نبوی کے چند دن بعد اُم سلیمؓ نے اپنے لختِ جگر کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم بنادیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ انہوں نے حضرت انسؓ کو اپنے شوہر حضرت ابوطلحہؓ کے ہمراہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ انہوں نے بارگاہِ رسالتؐ میں حاضر ہوکر عرض کیا: یارسول اللہ آپ کے پاس کوئی خادم نہیں ہے، انس ایک زیرک اور ہوشیار لڑکا ہے، اس کو آپ کی خدمت گاری کے لیے لایا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوطلحہؓ کے جذبۂ اخلاص کو دیکھتے ہوئے حضرت انسؓ کو اپنی خدمت گاری کے لیے قبول فرما لیا۔ یہ دن… حضرت انسؓ کی زندگی کا سب سے بڑا ’’یومِ سعادت‘‘ تھا۔ اس دن ان کی زندگی کے اس دورِ مبارک کا آغاز ہوا جس نے انہیں باوجود نوعمر ہونے کے کبار صحابہؓ کی صف میں شامل کردیا۔ وہ مسلسل دس برس تک سفر و حضر اور خلوت و جلوت میں رحمتِ دوعالم، فخرِ موجودات، سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی دل و جان سے خدمت بجالاتے رہے، اور اس طویل عرصہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سحابِ لطف و کرم ان پر جھوم جھوم کر برستا رہا۔ ع
یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے
حضرت انسؓ نے اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضیٔ مبارک کے مطابق اپنے اوقات کو اس طرح ترتیب دیا کہ فجر سے پہلے (منہ اندھیرے) بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوجاتے تھے، اور دوپہر کو تھوڑی دیر کے لیے اپنے گھر واپس آتے تھے۔ پچھلے پہر دوبارہ کاشانۂ نبویؐ میں حاضر ہوجاتے اور عصر تک وہیں رہتے۔ نمازِ عصر ادا کرکے گھر واپس آتے۔ بعض اوقات رات گئے تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے۔
رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادمِ خاص ہونے کی وجہ سے حضرت انسؓ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت قریب سے دیکھا اور اپنی مستعدی اور فرماں برداری سے آپؐ کو خوش رکھنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ صحیح بخاری میں ان سے روایت ہے کہ میں نے دس برس اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزارے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو کبھی مجھ پر ناراض ہوئے اور نہ کبھی مجھے ڈانٹ ڈپٹ کی، یہاں تک کہ کبھی یہ بھی نہ فرمایا کہ فلاں کام کیوں کیا ہے یا فلاں کام کیوں نہیں کیا۔
بیہقیؒ نے’’شعب الایمان‘‘ میں ان کے یہ الفاظ بھی نقل کیے ہیں کہ اگر کبھی میرے ہاتھ سے کوئی نقصان بھی ہوگیا تو مجھے آپؐ نے اس پر کبھی ملامت نہیں فرمائی۔ اگر گھر والوں میں سے کبھی کسی نے کچھ کہا تو آپؐ نے فرمادیا: رہنے دو کچھ نہ کہو، اگر مقدر میں نقصان نہ ہونا ہوتا تو نہ ہوتا۔
مسندِ احمد بن حنبل میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت انسؓ کاشانۂ نبویؐ کے کاموں سے فارغ ہوکر اپنے گھر روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک جگہ لڑکے کھیل رہے تھے۔ حضرت انسؓ ان کے پاس کھڑے ہوگئے اور تماشا دیکھنے لگے۔ اتنے میں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ادھر تشریف لائے (ایک اور روایت کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کسی کام کے لیے بھیجا تھا لیکن وہ بچوں کے ساتھ کھیل کود میں مشغول ہوگئے۔ جب کافی دیر ہوگئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تلاش میں باہر تشریف لائے۔) لڑکوں نے دور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو حضرت انسؓ سے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) تشریف لا رہے ہیں۔ حضرت انسؓ گھبرا کر بھاگنے کے بجائے مؤدبانہ انداز میں وہیں کھڑے رہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریب تشریف لاکر ان کا ہاتھ پکڑا اور کسی کام کے لیے جانے کا حکم دیا۔ حضرت انسؓ جب تک یہ کام کرکے واپس نہ آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیوار کے سایہ تلے بیٹھ کر ان کا انتظار فرماتے رہے۔ اس خدمت کی بجاآوری میں انہیں کافی دیر ہوگئی تھی۔ گھر پہنچے تو والدہ حضرت اُم سلیمؓ نے تاخیر کا سبب پوچھا۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک کام میں مصروفیت کی وجہ سے دیر ہوگئی۔ حضرت اُم سلیمؓ نے پوچھا: کیا کام تھا۔ حضرت انسؓ نے جواب دیا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بتلانے سے منع فرمایا تھا۔ حضرت اُم سلیمؓ نے فرمایا: بیٹے یہ بات کبھی کسی کو نہ بتانا۔ چنانچہ حضرت انسؓ نے یہ بات تمام عمر اپنے نہاں خانۂ دل میں محفوظ رکھی اور کبھی کسی کو نہ بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کس کام کے لیے بھیجا تھا۔
حضرت انسؓ کو اکثر یہ سعادت نصیب ہوتی تھی کہ نمازِ فجر سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سامان وضو مہیا کرتے تھے۔ اگر حضرت اُم سلیمؓ کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کوئی چیز پیش کرنی ہوتی تو وہ بسا اوقات حضرت انسؓ ہی کے ہاتھ بھیجا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ حضرت ابوطلحہؓ گھر آئے اور حضرت اُم سلیمؓ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاقہ سے ہیں کچھ کھانا آپؐ کی خدمت میں بھیج دو۔ انہوں نے چند روٹیاں حضرت انسؓ کو دیں اور کہا کہ اسی وقت جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلائو۔ جب حضرت انسؓ مسجد نبویؐ میں پہنچے تو وہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد بہت سے صحابہؓ کا مجمع تھا۔ آپؐ نے حضرت انسؓ سے پوچھا: ابوطلحہ نے تمہیں بھیجا ہے؟ انہوں نے عرض کیا ’’ہاں یارسول اللہ‘‘۔ پھر پوچھا ’’کھانے کے لیے؟‘‘ انہوں نے کہا ’’جی ہاں۔‘‘
آپؐ سب صحابہؓ کو لے کر اٹھ کھڑے ہوئے اور حضرت انسؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ حضرت ابوطلحہؓ کو فکر ہوئی کہ اتنے آدمیوں کے لیے کھانا کافی نہ ہوگا۔ حضرت اُم سلیمؓ سے کہا: ان سب اصحاب کے لیے کھانے کا کیسے انتظام ہوگا! انہوں نے اطمینان سے کہا: یہ بات اللہ اور اللہ کا رسولؐ بہتر سمجھتے ہیں۔ پھر جو تھوڑا بہت کھانا موجود تھا انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے سامنے رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی برکت دی کہ سب نے سیر ہوکر کھایا۔
ایک دن حضرت انسؓ معمول کے مطابق نمازِ فجر سے قبل بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: آج میں روزہ رکھنا چاہتا ہوں، کچھ کھلا دو۔ حضرت انسؓ فوراً اٹھے اور کچھ کھجوریں اور پانی لے کر حاضر ہوئے۔ آپؐ نے سحری کھائی اور پھر فجر کی نماز کے لیے تیار ہوئے۔
جہاں حضرت انسؓ کو اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت تھی وہاں آپؐ کو بھی ان سے بہت پیار تھا۔ جس زمانے میں وہ آپؐ کی خدمت میں آئے ان کی کوئی کنیت نہ تھی۔ آپؐ کو معلوم ہوا کہ انسؓ ’’حمزہ‘‘ نام کی ایک سبزی کو بہت پسند کرتے ہیں تو آپؐ نے ان کی کنیت ہی ’’ابوحمزہ‘‘ رکھ دی۔ آپؐ حضرت انسؓ کو پیار سے ’’بیٹا‘‘ یا ’’انس‘‘ کہہ کر بلایا کرتے تھے اور اکثر فرطِ محبت سے ان کے سر پر اپنا دستِ شفقت پھیرا کرتے تھے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ ان کی تعلیم و تربیت پر بھی خاص توجہ فرماتے تھے اور نہایت محبت و شفقت کے ساتھ ان کے کانوں میں نیکی کی باتیں ڈالتے رہتے تھے۔ ترمذی شریف میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے میرے چھوٹے بچے جہاں تک ہوسکے اپنے لیل و نہار اس طرح گزار کہ تیرے دل میں کسی جانب سے کھوٹ کپٹ نہ ہو، یہ بات میری سنت ہے اور جس نے میری سنت کو دوست رکھا اس نے مجھ کو دوست رکھا اور جس نے مجھ کو دوست رکھا وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی حضرت انسؓ سے ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرلیتے تھے۔ ایک مرتبہ مزاح میں ارشاد فرمایا: یاذالاذنین یعنی اے دو کانوں والے۔
علامہ بلاذُری نے ’’انساب الاشراف‘‘ میں لکھا ہے کہ حضرت انسؓ کے والد مالک بن النضر کا شیریں پانی کا کنواں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا پانی پیا کرتے تھے۔ حضرت انسؓ کو اکثر اپنے اس کنویں کا پانی آپؐ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہوتی۔
حضرت انسؓ کے سوتیلے والد ابوطلحہؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت مخلص اور جاں نثار صحابی تھے۔ اسی طرح ان کی والدہ حضرت ام سلیمؓ کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کمال درجے کی عقیدت اور محبت تھی۔ وہ آپؐ کی پردادی سلمیٰ کے بھائی کی پوتی تھیں۔ اسی نسبت سے وہ اور ان کی بہن حضرت اُم حرامؓ آپؐ کی خالہ مشہور ہوگئی تھیں۔ اگرچہ یہ رشتہ دور کا تھا لیکن سرورِ عالمؐ کے نزدیک اس کی بڑی قدر و قیمت تھی اور آپؐ ازراہِ شفقت اُم سلیمؓ اور اُم حرامؓ دونوں کے گھروں کو اپنے قدومِ میمنت لزوم سے مشرف فرمایا کرتے تھے۔ ہجرت کے چند ماہ بعد آپؐ نے ام سلیمؓ ہی کے گھر میں مہاجرین اور انصار کو بلاکر ان کے درمیان عقدِ مواخاۃ قائم فرمایا تھا۔ اہلِ سیرکا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اُم سلیمؓ کے گھر تشریف لے جاتے، کھجوریں یا کھانا جو کچھ موجود ہوتا، تناول فرماتے۔ دوپہر کا وقت ہوتا تو آرام فرماتے۔ نماز کا وقت آجاتا تو وہیں چٹائی پر نماز ادا کرلیتے۔ آپؐ سے اُم سلیمؓ کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ آپؐ جب ان کے گھر میں استراحت فرماتے تو وہ آپؐ کا پسینہ مبارک اور گرے ہوئے موئے مبارک ایک شیشی میں تبرک کے طور پر جمع کرلیتی تھیں۔ مسند ِ ابو دائود میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ میرے سر پر زلفیں تھیں، میری والدہ ماجدہ نے فرمایا کہ میں ان کو (کبھی) نہ تراشوں گی (یا تراشنے دوں گی) کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ازراہِ محبت) ان کو کھینچا کرتے اور ان پر ہاتھ پھیرا کرتے تھے۔ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اُم سلیمؓ کے گھر تشریف لے گئے تو انہوں نے درخواست کی: یارسول اللہؐ میرے بچے انسؓ کے لیے دعا فرمائیں۔ آپؐ دیر تک دعا فرماتے رہے اور آخر میں فرمایا:اللھم الثرمالہ وولدہ وادخلہ الجنۃ
(اے اللہ تو اس کے مال اور اولاد میں کثرت بخش اور اسے جنت میں داخل کر)
اس دعا کا یہ اثر ہوا کہ حضرت انسؓ مال و دولت میں تمام انصار سے بڑھ گئے اور اولاد کی کثرت کی یہ کیفیت تھی کہ وفات کے وقت ان کے بیٹے بیٹیوں اور پوتے پوتیوں کی تعداد سو سے اوپر تھی۔
 
Top