• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

حضرت سیدنا عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ، خلیفہ دوم

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مکمل نام:
عمر بن خطاب
(عمر ابن الخطاب)
عہد:
23 اگست 634ء تا 7 نومبر 644ء
پیدائش:
586ء تا 590ء کے درمیان
مقام پیدائش:
مکہ المعظمہ، عرب
شہادت:
7 نومبر 644ء، 1 محرم الحرام
مقام شہادت:
مصلی رسول، مسجد نبوی، مدینہ ، عرب
مقام تدفین:
مسجد نبوی، مدینہ ، عرب
پیشرو:
سیدنا حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ
جانشین:
سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ
والد:
خطاب بن نفیل
والدہ:
حنتمہ بنت ھشام بن المغیرہ
بھائی:
زید بن خطاب
بہن:
فاطمہ بنت خطاب
شریک حیات:
زینب بنت مظعون
ام کلثوم بنت علی
قریبہ بنت ابی امیہ
ام حکیم بنت حارث
ام کلثوم
عاتکہ بنت زید
بن عمر بن نفیل
لہیا
فقیہا
بیٹے:
عبداللہ
۔ عبد الرحمٰن
۔ عبیداللہ بن عمر
۔ زید بن عمر
۔ عاصم
۔ عیاض بن عمر
۔ الزبیر بن بکر (ابو شہاما)
بیٹیاں:
۔ حفصہ
۔ فاطمہ
۔ زینب
آل:
فاروقی
القاب:
الفاروق (سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے والا)
امیر المؤمنین ( مومنوں کے امیر)
(محمد، ابن سعد (830-840 BCE). طبقات الکبریٰ. باب 3 صفحہ 281)
غزوات:
حضرت عمر (ر) مندرجہ ذیل غزوات و واقعات میں شریک رہے۔
  • غزوۂ بدر
  • غزوہ احد
  • غزوہ خندق
  • بیعت الرضوان اورصلح حدیبیہ
  • غزوہ خیبر
  • فتح مکہ
  • غزوہ حنین
  • غزوہ تبوک
  • حجۃ الوداع
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عمر بن خطاب (عربی: ابو حفص عمر بن خطاب عدوی قریشی) ملقب بہ فاروق (پیدائش: 586ء تا 590ء کے درمیان مکہ میں- وفات: 7 نومبر 644ء مدینہ میں) ابو بکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔[2] عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علماء و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابو بکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔[3] عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔

عمر بن خطاب ہجری تقویم کے بانی ہیں، ان کے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے اور اس کا رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزاراورتیس(2251030) مربع میل پر پھیل گیا۔ عمر بن خطاب ہی کے دور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگین آ گیا۔[4]عمر بن خطاب نے جس مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل شہنشاہیت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر لیا، نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے۔[5]
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
نام و‌نسب

عمر بن خطاببن نفیل بن عبدالعزّٰی بن ریاح بن عبداللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوّیٰ بن فہربن مالک۔
آپ کا لقب فاروق، کنیت ابو حفص، لقب و‌کنیت دونوں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عطا کردہ ہیں۔آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔[6]
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ابتدائی زندگی

آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ مکہ میں پید ا ہوۓ اور ان چند لوگوں میں سے تھے جو لکھ پڑھ سکتے تھے۔ علم انساب، سپہ گری، پہلوانی اور مقرری میں آپ طاق تھے۔
عمراور ان کے باپ اور ان کے دادا تینوں انساب کے بہت بڑےماہر تھے [7]“
”آپعکاظ کے دنگل میں کشتی لڑا کرتےتھے۔ [8]“
جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سخت مخالفت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعا سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسلام قبول کر لیا۔ اس لیے آپ کو مراد رسول بھی کہا جاتا ہے۔[9]
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ہجرت

ہجرت کے موقعے پر کفار مکہ کے شر سے بچنے کے لیے سب نے خاموشی سے ہجرت کی مگر آپ کی غیرت ایمانی نے چھپ کر ہجرت کرنا گوارہ نہیں کیا.آپ نے تلوار ہاتھ میں لی کعبہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا " تم میں سے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی بیوی بیوہ ہوجائے اس کے بچے يتيم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دیکھ لے" مگر کسی کافر کی ہمت نہ پڑی کہ آپ کا راستہ روک سکتا۔ مواخات مدینہ میں قبیلہ بنو سالم کےسردار عتبان بن مالک کوآپ کا بھائی قراردیا گیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
واقعات

وہ ایک حاکم تھے۔ وہ ایک مرتبہ وہ مسجد میں منبر رسول پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہا کہ اے عمر ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ زیادہ ہے جبکہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا۔تو عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبداللہ موجود ہے، عبداللہ بن عمر کھڑے ہوگئے۔ عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ بیٹا بتاؤ کہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔ اور ان کے پاس جو پہننے کے لباس تھا وہ بہت خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لئے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔

ابن سعد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن حضرت امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کے دروازے پر بیٹھے ہوۓ تھے کہ ایک کنیز گزری ۔ بعض کہنے لگے یہ باندی حضرت کی ہے۔ آ پ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ امیر المؤمنین کو کیا حق ہے وہ خدا کے مال میں سے باندی رکھے۔ میرے لئے صرف دو جوڑے کپڑے ایک گرمی کا اور دوسرا جاڑے کا اور اوسط درجے کا کھانا بیت المال سے لینا جائز ہے۔ باقی میری وہی حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے۔ جب آپ کسی بزرگ کو عامل بنا کر بھیجتے تھے تو یہ شرائط سنا دیتے تھے :

  1. گھوڑے پر کبھی مت سوار ہونا۔
  2. عمدہ کھانا نہ کھانا۔
  3. باریک کپڑا نہ پہننا۔
  4. حاجت مندوں کی داد رسی کرنا۔
اگر اس کے خلاف ہوتا تو سزائیں دیتے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عادات

حضرت عمر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی دیگر صحابہ کی طرح مشورہ کرتے چنانچہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ آئے تو فرمایا میں اس کے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ سے ملوں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
شہادت

ایک غلام ابو لولو فیروز نے آپ کو فجر کی نماز میں مسجد نبوی میں خنجر سے حملہ کیا اور تین جگہ وار کیے۔ آپ ان زخموں سے جانبر نہ ہوسکے اور دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کے بعد اتفاق رائے سے حضرت عثمان کو امیر المومنین منتخب کیا گیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
فضائل

”اے عمر! شیطان تم کو دیکھتے ہی راستہ کاٹ جاتاہے۔[10]“
”جبرائیل و میکائیل میرے دو آسمانی وزیر ہیں جب کہ ابوبکر و عمر میرے دو زمینی وزیر ہیں۔“
”میری امت میں اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے سخت عمر ہیں۔[11]“
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عمر بن خطاب اور اقوالِ عالَم

”میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطابہوتے۔ از محمدصلی اللہ علیہ وسلم“
”اگر دنیا کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں اور عمر کا علم دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو عمر کا پلڑا بھاری ہوگا۔ از عبداللہ بن مسعود[12]“
”عمر کی زبان پر سکینہ بولتا ہے۔ وہ قوی و امین ہیں۔ از سیدنا علی“
”ابوبکر و عمر تاریخِ اسلام کی دوشاہکار شخصیتیں ہیں۔ ایچ جی ویلز“
 
Top