• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء اور نزول من السماء پر اجماع امت ۔

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء اور نزول من السماء پر اجماع امت ۔


کیا قرآن میں آپ کے جسم سمیت رفع الی السماء کا ذکر ہے ؟ اور کیا صحیح مرفوع متصل حدیث میں یہ ذکر ہے کہ آپ نے آسمان سے نازل ہونا ہے ؟ کیا رفع و نزول عیسیٰ علیہ السلام امت سلامیہ کا اجماعی عقیدہ ہے ؟ یہ ہیں وہ سوال جو اکثر منکرین رفع ونزول عیسیٰ علیہ السلام اور خاص کر مرزا قادیانی کے پیروکار کرتے ہیں ۔ بلکہ وہ تو اپنے گُرو کی کتابوں سے اس کا یہ چیلنج بار بار پیش کرتے ہیں کہ :۔
" ولن تجد لفظ السماء فی ملفوظات خیر الانبیاء ولا فی کلم الاُولین " اور تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں آسمان کا لفظ ( یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے کے لفظ :ناقل ) ہرگز نہیں پاؤ گے اور نہ ہی یہ لفظ پہلے لوگوں ( یعنی مرزا سے پہلے گزرے اکابرین امت ۔ ناقل ) کی باتوں میں ملے گا " ( خزائن جلد 11 صفحہ 148 )
" کسی حدیث صحیح مرفوع متصل سے ثابت نہیں کہ عیسیٰ آسمان سے نازل ہوگا " ( خزائن جلد 22 صفحہ 47 حاشیہ )
35jczew.jpg


تو آئیے ہم بغیر کسی طویل علمی بحث کے مختصر طور پر قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم اور روح کے ساتھ آسمان کی طرف رفع ثابت کرتے ہیں ۔ نیز ہم صحیح مرفوع متصل احادیث سے آپ کے آسمان سے نازل ہونے کے الفاظ بھی دکھائیں گے ، لیکن سب سے پہلے رفع و نزول عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اجماع امت کے چند حوالے : ۔


علم کلام کے مشہور امام ابو الحسن الاشعری رحمتہ اللہ علیہ ( وفات 324ھ) لکھتے ہیں :۔

" وأجمعت الأمة على أن الله سبحانه رفع عيسى صلى الله عليه وسلم إلى السماء " ( الإبانة عن أصول الديانة صفحہ 35 )
امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا ۔
2r3idmf.jpg


اور یہی بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ ( وفات 728ھ ) نے امام ابو الحسن الاشعری رحمتہ اللہ علیہ کی نقل کی ہے :۔

" وأجمعت الأمة على أن الله سبحانه رفع عيسى صلى الله عليه وسلم إلى السماء " ( بیان تلبیس الجھمیۃ جلد 4 صفحہ 457 )
امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا ۔
2q24906.jpg


امام ابو محمد عبدالحق بن عطیہ اندلسی رحمتہ اللہ علیہ ( وفات 541ھ ) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :۔

" وأجمعت الأمة على ما تضمنه الحديث المتواتر من أن عيسى عليه السلام في السماء حي، وأنه ينزل في آخر الزمان" ( المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز جلد 1 صفحہ 444 )
اور امت کا اس بات پر اجماع ہے جو احادیث متواترہ میں وارد ہوئی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام آسمان میں زندہ ہیں اور آخری زمانہ میں نازل ہونگے ۔
2j4elqx.jpg


شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ ( وفات 852ھ ) رقمطراز ہیں :۔

وَأَمَّا رَفْعُ عِيسَى فَاتَّفَقَ أَصْحَابُ الْأَخْبَارِ وَالتَّفْسِيرِ عَلَى أَنَّهُ رُفِعَ بِبَدَنِهِ حَيًّا، وَإِنَّمَا اخْتَلَفُوا هَلْ مَاتَ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ، أَوْ نَامَ فَرُفِعَ. ( التلخيص الحبير جلد 3 صفحہ 431 )
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کے بارے میں محدثین و مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کو جسم سمیت زندہ اٹھایا گیا ، ہاں اس میں اختلاف ہے کہ کیا رفع سے پہلے ( کچھ دیر کے لئے ، ناقل ) آپ کو موت دی گئی تھی یا آپ کو نیند کی حالت میں اٹھایا گیا ( لیکن جسم سمیت زندہ اٹھائے جانے پر بہرحال اتفاق ہے ۔ ناقل ) ۔
104enu8.jpg


مشہور مفسر علامہ شہاب الدین محمود آلوسی بغدادی رحمتہ اللہ علیہ ( وفات 1270ھ ) آیت خاتم النبیین کی تفسیر میں لکھتے ہیں :۔

" ولا يقدح في ذلك ما أجمعت الأمة عليه واشتهرت فيه الأخبار ولعلها بلغت مبلغ التواتر المعنوي ونطق به الكتاب على قول ووجب الإيمان به وأكفر منكره كالفلاسفة من نزول عيسى عليه السّلام آخر الزمان لأنه كان نبيا قبل تحلي نبينا صلّى الله عليه وسلم بالنبوة في هذه النشأة " ( تفسیر روح المعانی جلد 22 صفحہ 34 )
( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے پر ) اس بات سے اعتراض نہیں وارد ہوسکتا جس پر امت کا اجماع ہے اور جس کے بارے میں بہت سی احادیث وارد ہیں جو متواتر معنوی کے درجہ تک پہنچی ہیں اور ایک قول کے مطابق اللہ کی کتاب نے بھی یہ بیان کیا ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے ، اور اس کے منکر کو کافر کہا گیا جیسا کہ فلاسفہ ( وہ عقیدہ یہ ہے کہ ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آخری زمانہ میں نازل ہونا ہے ( ان کے نازل ہونے سے اعتراض اس لئے نہیں ہوسکتا کہ ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے نبی ہیں ۔

2n8tnvr.jpg



شیخ محمد بن احمد السفارینی رحمتہ اللہ علیہ ( وفات 1188ھ ) اپنی مشہور کتاب عقیدہ سفارنیہ میں لکھتے ہیں :۔


" مِنْهَا أَيْ مِنْ عَلَامَاتِ السَّاعَةِ الْعُظْمَى الْعَلَامَةُ الثَّالِثَةُ أَنْ يَنْزِلَ مِنَ السَّمَاءِ السَّيِّدُ ((الْمَسِيحُ)) عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَنُزُولُهُ ثَابِتٌ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَإِجْمَاعِ الْأُمَّةِ "
قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے تیسری نشانی یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام آسمان سے نازل ہونگے اور آپ کا نزول کتاب و سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے ،

اور پھر اجماع امت کا بیان کرتے ہوئے لکھا :۔

" وَأَمَّا الْإِجْمَاعُ فَقَدْ أَجْمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلَى نُزُولِهِ وَلَمْ يُخَالِفْ فِيهِ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الشَّرِيعَةِ، وَإِنَّمَا أَنْكَرَ ذَلِكَ الْفَلَاسِفَةُ وَالْمَلَاحِدَةُ مِمَّنْ لَا يُعْتَدُّ بِخِلَافِهِ، وَقَدِ انْعَقَدَ إِجْمَاعُ الْأُمَّةِ عَلَى أَنَّهُ يَنْزِلُ " ( لوامع الأنوار البهية المعروف بہ عقیدہ سفارنیہ جلد 2 صفحہ 94،95 )
جہاں تک اجماع کا تعلق ہے تو امت کا آپ کے نزول پر اجماع ہے اور اہل شریعت میں سے کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا سوائے فلسفیوں اور ملحدین کے جن کے اختلاف کی کوئی وقعت نہیں کیونکہ امت کا اس پر اجماع ہے کہ آپ نازل ہوں گے ۔
293g5jk.jpg


یہ تو تھے چند حوالہ جات امت سلامیہ کے چند معروف اور قابل قدر اکابرین کے جن میں تیسری صدی ہجری کے اہل سنت کے امام ابو الحسن الاشعری رحمتہ اللہ علیہ بھی ہیں ، اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ جیسے بھی ہیں جو مرزائی جماعت کے نزدیک بھی اپنے زمانے کے مجدد تھے ۔

مرزا قادیانی کا اقرار


اب آئیے مرزا قادیانی کا اقرار بھی ملاخط فرمائیں جس میں وہ صاف طور پر تسلیم کرتا ہے کہ اس سے پہلے تیرہ صدیوں میں امت کا یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں ، چنانچہ اس نے کہا کہ :۔

" ایک دفعہ ہم دلی میں گئے تھے ہم نے وہاں کے لوگوں سے کہا کہ تم نے تیرہ سو ( 1300) برس سے یہ نسخہ استعما کیا ہے کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مدفون اور حضرت عیسیٰ کو زندہ آسمان پر بٹھایا یہ نسخہ تمہارے لئے مفید ہوا یا مضر اس سوال کا جواب تم خود ہی سوچ لو ، ایک لاکھ کے قریب لوگ اسلام سے مرتد ہوگئے ہیں " ( ملفوظات ۔ جلد 5 صفحہ 579 )
51oxtu.jpg


ہمارا مقصد اس حوالے سے صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ مرزا قادیانی نے صاف اقرار کیا کہ اس سے پہلے تیرہ سو (1300) سالوں میں مسلمانوں کا یہی عقیدہ چلا آرہا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں ، لیکن یہاں اس بات کی طرف اشارہ بھی ضروری ہے کہ مرزا قادیانی نے حسب عادت یہاں بھی انتہائی بے شرمی کے ساتھ جھوٹ بولا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر زندہ ہونے کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے ایک لاکھ مسلمان مرتد ہوگئے ۔ شاید اس کا اشارہ ان لوگوں کی طرف ہو جو مرزائی ہوکر اور مرزا کو مسیح مان کر مرتد ہوگئے ورنہ امت سلامیہ کی تاریخ گواہ ہے اور جیسا کہ مرزا نے بھی کہا کہ تیرہ سو سال پہلے سے مسلمانوں کا یہی عقیدہ چلا آرہا ہے لیکن ان تیرہ صدیوں میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی کہ صرف یہ عقیدہ رکھنے کی وجہ سے لوگ مرتد ہوگئے ہوں ، مرزا قادیانی کی اپنی ایک خود ساختہ منطق ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ مانا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ انہیں خدا مان لیا گیا جس کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔

مرزا قادیانی نے صراحت کے ساتھ ایک اور جگہ لکھا :۔

" سو واضح ہو کہ اس امر سے دنیا میں کسی کو بھی انکار نہیں کہ احادیث میں مسیح موعود کی کھلی کھلی پیشگوئی موجود ہے بلکہ قریباََ تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ احادیث کی رُو سے ضرور ایک شخص آنے والا ہے جس کا نام عیسیٰ بن مریم ہوگا اور یہ پیشگوئی بخاری اور مسلم اور ترمذی وغیرہ کتب حدیث میں اس کثرت سے پائی جاتی ہے جو ایک منصف مزاج کی تسلی کے لئے کافی ہے " ( خزائن جلد 6 صفحہ 298 )
2u7a78g.jpg


پھر اسی کتاب میں تھوڑا آگے جا کر مرزا قادیانی نے یہ الفاظ لکھے :۔

" واضح ہو کہ مسیح موعود کے بارے میں جو احادیث میں پیش گوئی ہے وہ ایسی نہیں ہے کہ جس کو صرف آئمہ حدیث نے چند روایتوں کی بناء پر لکھا ہو بس بلکہ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ پیش گوئی عقیدہ کے طور پر ابتداء سے مسلمانوں کے رگ وریشہ میں داخل چلی آتی ہے گویا جس قدر اس وقت روئے زمین پر مسلمان تھے اس قدر اس پیش گوئی کی صحت پر شہادتیں موجود تھیں کیونکہ عقیدہ کے طور پر وہ اس کو ابتداء سے یاد کرتے چلے آتے تھے " ( خزائن جلد 6 صفحہ 304 )
2aifoec.jpg


مرزا قادیانی صاف لفظوں میں اقرار کر رہا ہے کہ حضرت مسیح بن مریم علیھما السلام کے نزول کے بارے میں احادیث میں جو خبر دی گئی ہے وہ ابتداء سے مسلمانوں کے اندر عقیدہ کے طور پر چلی آرہی ہے اور تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے ، اگرچہ مرزا نے یہاں بھی " مسیح موعود " کا لفظ لکھ کر ڈنڈی ماری ہے کیونکہ احادیث میں کسی " مسیح موعود " کا ذکر نہیں بلکہ مسیح بن مریم علیھما السلام کا نام مذکور ہے اور انہی کے نزول کا عقیدہ ابتداء سے مسلمانوں میں چلا آرہا ہے ۔
( جاری ہے )
 
آخری تدوین :

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم سمیت رفع الی السماء کا ثبوت


اب آئیے مختصر طور پر قرآن کریم کی ایک آیت کا مطالعہ کرتے ہیں جس سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جسم سمیت آسمان پر اٹھا لیا ، پھر ہم اس کے بعد صحیح مرفوع متصل احادیث پیش کریں گے جن کے اندر صریح طور پر یہ الفاظ ہیں کہ وہ آسمان سے نازل ہوں گے ۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بنی اسرائیل (یہود) پر لعنت کے اسباب کا ذکر فرماتے ہوئے ایک وجہ یہ بیان فرمائی :۔

" وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ ۚ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ۔ بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا "
اور ان کے کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کیا جو اللہ کا رسول تھا ، حالانکہ انہوں نے نہ اسے قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا لیکن ان کو اشتباہ ہوگیا اور جن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں انکے پاس اس معاملہ میں کوئی یقین نہیں ہے مخض گمان ہی کی پیروی ہے ۔ انہوں نے یقیناََ قتل نہیں کیا ۔ بلکہ انہیں اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ زبردست حکمت والا ہے ۔ ( سورہ النساء آیات 157 تا 158 )

بغیر کسی تفصیل میں جائے اگر ان آیات کے صرف ظاہری معنی پر ہی غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ یہود کے اس دعوے کی تردید فرما رہے ہیں کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کردیا تھا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے نہ قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا ، اور قتل سے بچانے کا انتظام یہ فرمایا کہ " رفعہ اللہ الیہ " کہ اللہ نے انہیں اٹھا لیا اپنی طرف ، اب سوال ہوتا ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی انسان کو جسم سمیت آسمان اٹھا لیا جائے ؟ تو اس کا جواب بھی دے دیا کہ اللہ عزیز یعنی غالب ہے اس کے ہاں کوئی چیز ناممکن نہیں ، پھر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ اللہ نے عیسیٰ علیہ السلام کا رفع کیوں کیا ؟ تو اس کا جواب بھی دے دیا کہ اللہ حکمت والا ہے ، اس میں بھی اسکی حکمت تھی ۔

ان آیات میں ایک بار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام مع لقب کے ذکر کیا گیا " المسیح عیسیٰ ابن مریم " اس کے بعد واحد غائب کی ضمیروں سے ان کی طرف اشارہ کیا گیا " ماقتلوہ ۔۔۔۔۔ وماصلبوہ ۔۔۔ وماقتلوہ یقینا ۔۔۔ بل رفعہ اللہ " یہ سب " ہ " کی ضمیریں لوٹ رہی ہیں عیسیٰ بن مریم کی طرف جنہیں یہود نے قتل کرنے کی کوشش کی ، اور یہ ظاہر ہے کہ عیسیٰ بن مریم صرف روح نہیں تھے بلکہ روح اور جسم کا مرکب تھے ، یہود نے آپ کے جسم کو ہی قتل کرنے کا دعویٰ کیا تھا ، لہذا آگے تمام ضمیریں بھی اسی جسم اور روح کے مرکب کی طرف لوٹ رہی ہیں ، ان میں " بل رفعہ اللہ " کی ضمیر بھی ہے کہ اللہ نے انہی عیسیٰ ابن مریم کو اپنی طرف اٹھا لیا جنہیں وہ قتل کرنا چاہتے تھے اور اللہ نے " بل رفعہ اللہ " سے ان کے اس دعوے کی تردید کی یعنی اللہ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ یہود جس جسم کو قتل کرنے کے مدعی ہیں اللہ نے اس جسم کو اپنی طرف اٹھا لیا ، اگر یہاں یہ معنی کیا جائے کہ اللہ نے ان کی روح اپنی طرف اٹھا لی تو پھر معنی ٹھیک نہیں بنتا کیونکہ ترجمہ یوں ہوگا : اور انہوں نے یقیناََ انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کی روح کو اپنی طرف اٹھا لیا " مطلب یہ ہوگا کہ یہود تو انہیں قتل نہ کرسکے لیکن اللہ نے خود انہیں مار کر ان کی روح اپنی طرف اٹھا لی ، اس طرح یہود کی تردید کی بجائے تائید ہوگی وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ چلو ہمارا مقصد تو انہیں مارنا تھا اور وہ مقصد پورا ہوگیا اللہ نے خود انہیں موت دے کر ان کی روح اٹھا لی ۔
یہاں یہ بات بھی نہیں کہی جاسکتی کہ اللہ نے اس وقت تو عیسیٰ علیہ السلام کو قتل ہونے سے بچا لیا اور " بل رفعہ اللہ " میں جس رفع کا ذکر ہے یہ اس کے 87 سال بعد ہوا ، کیونکہ یہاں " بل " کے ساتھ پہلے والی بات کی تردید کی گئی ہے ( اسے بل اضرابیہ کہتے ہیں ) اور پھر " بل" کے بعد " رفعہ " ماضی کا صیغہ لایا گیا ہے جو اس طرف اشارہ ہے کہ یہود کے قتل کرنے کے ارادے سے گرفتار کرنے سے پہلے ہی آپ کا رفع ہوچکا تھا ۔


شامی عالم شیخ محمد رمضان بوطی رحمتہ اللہ علیہ کی ایک لاجواب تحریر


یہاں ہم ملک شام کے معروف عالم شیخ محمود رمضان بوطی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب " کبری الیقینیات الکونیہ " سے ایک اقتباس پیش کرتے ہیں جس میں انہوں نے مصری عالم شیخ شلتوت کے انکار رفع و نزول کے موقف اور تاویلات فاسدہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے یہ آیت بڑے سادہ اور آسان فہم انداز میں سمجھائی ہے ، شیخ بوطی رحمتہ اللہ علیہ نے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے ۔ اقتباس تھوڑا طویل ہے لیکن اسے جب تک پورا پڑھا نہ جائے بات سمجھ نہیں آئیگی ، لکھتے ہیں :۔



"فاُما عقل العاقل الذی یفھم الکلام العربی عن طریق قواعد اللغۃ العربیۃ و دلالتھا فھو یفھم من قولہ تعالیٰ " وماقتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ " ان اللہ عزوجل اخفیٰ نیبہ عنھم باُن رفعہ الی سماء ہ فلم یقعوا منہ علی شیء یقتلونہ او یصلبونہ ، یدلک علی ھذا المعنی الفاظ الاُیۃ و دللالتھا اللغویۃ ۔ وضرورۃ التقابل الذی ینبغی اُن یکون بین ما قبل بل وما بعدھا ، فلیس لک اُن تقول واُنت عربی : لستُ جائعاََ اُن مضطجع ، وانما تقول : لست جائعاََ بل اُنا شعبان ، ولیس لک اُن تقول : ما مات خالد بل ھو رجل صالح ، وانما تقول : ما مات خالد بل ھو حی ، ولیس لک اُن تقول : ماقتل الامیر بل ھو ذو درجۃ عالیۃ عند اللہ ، لاُن کونہ ذو درجۃ عالیۃ عنداللہ لاینافی اُن یقتل ، وانما تاتی بل لابطال ما قبلھا بدلیل مما بعدھا ، لا جرم اذا معنی الاّیۃ : ماقتلہ الیھود کما زعموا بل ان اللہ استلبہ من بینھم ورفعہ الی السماء ، ولکن شیخ شلتوت یاُبی ان یکون الا ان یکون المعنی : ماقتلوہ ، بل رفع اللہ درجتہ الیہ ۔ وذلک علی الرغم من اُنف القواعد العربیۃ ودلالتھا وعلی الرغم من اُنف العرب و المفسرین کلھم ، ولک ان تساُل اُمثال الشیخ شلتوت وھم یذھبون فی تفسیر الاّیۃ ھذا المذھب: گما معنی " الیہ " فی الاّیۃ مادام ان الرفع ھو رفع الدرجۃ ؟ ھل المعنی اُن اللہ جعلہ الٰھاََ مثلہ ؟ ۔ اذ لا معنی لک : ان اللہ رفع مقام فلان الیہ ۔ الا اُنہ جعلہ فی مرتبہ؟ ، ثم ما معنی تقیید رفع الدرجۃ بحال قصد الصلب اُو القتل ؟ اُولم یکن مرفوع الدرجۃ قبل ذلک ؟ ، اُسئلۃ لاجواب علیھا ۔ الا استجرار الکلام و التاویل التی لا معنی لھا ، خدمۃ لما استقرّ فی نفوسھم من مرض انکار الخوارق و المعجزات ۔۔۔۔ " ( کبری الیقینیات الکونیہ ، صفحات 330 ، 331 )
وہ عقل مند آدمی جو عربی کلام اور اس کے قواعد و دلالات کی سمجھ بوجھ رکھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے قول " وماقتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ " سے بخوبی سمجھ لیتا ہے کہ اللہ نے ان ( یہود ) سے اپنے نبی کو اس طرح چھپایا کہ آپ کو آسمان پر اٹھا لیا وہ آپ کی گرد کو بھی نہ پاسکے کہ آپ کو قتل کرسکتے یا صلیب پر ڈال سکتے ، یہ معنی و مفہوم اس آیت کریمہ کے الفاظ اور اس کی لغوی دلالت سے اور حرف " بل " کے ماقبل و مابعد میں تقابل کو مدنظر رکھتے ہوئے سمجھ آتا ہے ۔ اگر آپ عربی ہیں تو آپ یوں نہیں کہیں گے کہ " میں بھوکا نہیں ہوں بلکہ میں لیٹا ہوا ہوں " بلکہ یوں کہیں گے " میں بھوکا نہیں ہوں بلکہ میرا پیٹ بھرا ہوا ہے " یا آپ یوں نہیں کہیں گے کہ " خالد کی موت نہیں ہوئی بلکہ وہ نیک آدم ہے " بلکہ یوں کہیں گے " خالد کی موت نہیں ہوئی بلکہ وہ زندہ ہے " یا آپ یوں نہیں کہیں گے کہ " بادشاہ کو قتل نہیں کیا گیا بلکہ وہ اللہ کے ہاں اونچے مرتبہ پر فائز ہے " کیونکہ اللہ کے ہاں بلند درجہ پر فائز ہونا بادشاہ کے قتل کے منافی نہیں جبکہ حرف " بل " اپنے مابعد کے ساتھ اپنے ماقبل کی نفی کرنے اور اسے باطل کرنے کے لئے آتا ہے ۔ تو لازمی طور پر اس آیت کا یہی معنی ہے کہ یہود نے آپ کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کے درمیان میں سے آپ کو آسمان پر اٹھا لیا ، لیکن شیخ شلتوت بضد ہیں کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ : یہود نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کا درجہ اپنی طرف بلند کردیا ۔ ان کا بیان کردہ مفہوم عرب اور عربی زبان کے قواعد اور تمام مفسرین کے مخالف ہے ، شیخ شلتوت جیسوں سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر رفع الیہ سے مراد درجہ کا رفع ہے تو پھر کیا کا یہ مطلب ہے کہ اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرٖح خدا بنا لیا ؟ کیونکہ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ نے فلاں کا مقام و مرتبہ اپنی طرف بلند کرلیا تو سوائے اس کے اور کوئی مطلب نہیں بنتا کہ اللہ نے اس کا مرتبہ اپنے جیسا اور اپنے برابر کر لیا ، پھر یہود کے قتل وصلب کے ارادے کے ساتھ درجات کی بلندی کو مقید کرنے کا کیا مطلب؟ کیا آپ کے درجات اس سے پہلے بلند نہ تھے ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جنکا کوئی جواب نہیں سوائے لایعنی تاویلات کے ۔ ان تاویلات کا سبب ( شیخ شلتوت وغیرہ ) کا خوارق اور معجزات کا منکر ہونا ہے ۔
rkq71c.jpg



نوٹ : شیخ بوطی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک اور بڑی اہم بات بھی لکھی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ الازہر کے بعض علماء نے جو شیخ شلتوت کے مرض الوفات کے ایام میں آپ کے ساتھ رہتے تھے انہیں بتایا تھا کہ شیخ شلتوت نے آپنے آخری ایام میں ان تمام نظریات سے رجوع کر لیا تھا جو وہ امت اسلامیہ سے ہٹ کر رکھتے تھے اور انہوں نے اپنے تمام پرانے اوراق اور کتب کو جلا دیا تھا خاص طور پر وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع و نزول کے بارے میں اپنے موقف سے تائب ہوگئے تھے اور جمہور اہل سنت کے موقف کی طرف رجوع کر لیا تھا ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔ ( کبری الیقینیات الکونیۃ صفحہ 331 حاشیہ )

2lwrjtu.jpg



نتیجہ یہ کہ ان آیات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم اور روح سمیت رفع کا صاف بیان ہے ۔


( جاری ہے )
 
آخری تدوین :

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
رفع الی اللہ کا مطلب آسمان کی طرف رفع کیسے ؟


اب رہی یہ بات کہ اللہ کی طرف اٹھائے جانے کا مطلب آسمان پر اٹھایا جانا کیسے ہوا ؟ تو آئیے اس کا جواب مرزا قادیانی سے لیتے ہیں ، اس نے ایک جگہ " رافعک الی " کا مطلب یوں بیان کیا :۔
" رافعک الی کے یہی معنی ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے تو ان کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی " ( خزائن جلد 3 صفحات 234،235 )
16geu52.jpg


یہاں نہ جانے مرزا نے " روح " کس لفظ کا ترجمہ کیا ہے ؟ لیکن اس نے " الی " کا ترجمہ آسمان کی طرف اٹھایا جانا کیا ، اب ایسا ہی لفظ " الیہ " ہماری پیش کردہ آیت میں بھی ہے تو اس کا مطلب آسمان کی طرف اٹھایا جانا کیوں غلط ہے ؟

اسی کتاب میں اس سے پہلے مرزا نے یہ بھی لکھا کہ :۔
" بلکہ صریح اور بدیہی طور پر سیاق و سباق قرآن شریف سے ثابت ہو رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ فوت ہونے کے بعد ان کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی " ( خزائن جلد 3 صفحہ 233 )
2hs7x1k.jpg


مرزا غلام قادیانی کا اصرار ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم کا رفع نہیں ہوا بلکہ صرف روح کا رفع ہوا ( جس پر اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ، اور پھر روح کا رفع مراد لیا جائے تو اس میں اللہ تعالیٰ کو خصوصی طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ روح تو ہر ایک مرنے والے کی اٹھائی جاتی ہے ) ، لیکن مرزا قادیانی یہ مانتا ہے کہ رفع آسمان کی طرف ہوا اور وہ یہ لکھ رہا ہے کہ یہ بات قرآن شریف سے ثابت ہے ، اب ہمارا جواب یہ ہے کہ جیسے مرزا قادیانی نے " رافعک الی " میں روح کا آسمان کی طرف اٹھایا جانا ثابت کیا ویسے ہی ہم بھی " رفعہ اللہ الیہ " میں جسم کا آسمان کی طرف اٹھایا جانا ثابت کرتے ہیں، جو جواب تم دو گے وہی ہماری طرف سے تم سمجھ لو ، آسمان کی طرف اٹھایا جانا تو مرزا بھی قرآن سے ثابت کر رہا ہے ۔

محترم دوستو ! ہم نے بغیر کسی لمبی چوڑی تاویلات کے قرآن کریم کی آیت سے ثابت کر دیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہی عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی طرف رفع کیا جنہیں یہود قتل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اور اللہ کی طرف رفع کا مطلب خود مرزا قادیانی کی تحریروں سے آسمان کی طرف اٹھایا جانا بھی ثابت کردیا اس طرح قرآن کریم سے ثابت ہوگیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جسم و روح کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھایا گیا ۔

یہاں ایک اور نہایت اہم بات کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری ہے ، ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے یہود و انصاریٰ کے تقریباََ تمام کفریہ اور مشرکانہ عقائد کا صریح الفاظ کے ساتھ رد کیا ہے ، یہود کا یہ کہنا تھا کہ حضرت عزیر علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں اور عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کی ابینت کے قائل تھے ، قرآن نے ان دونوں کی صاف الفاظ میں تردید فرمائی ۔ عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث کا رد بھی قرآن نے صریح الفاظ میں کیا ، عقیدہ کفارہ کی نفی " ماصلبوہ " سے کردی کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام مصلوب ہوئے ہی نہیں تو ان کے کفارہ بننے کا عقیدہ چہ معنی وارد ؟ یہود کا دعویٰ تھا کہ ہم نے مسیح علیہ السلام کو قتل کردیا تو اس کی تردید بھی " وماقتلوہ " کے ساتھ کر دی گئی ، لیکن ایک عیسائی عقیدہ ایسا تھا جس کی تردید قرآن کریم نے نہ صراحتاََ کی اور نہ اشارتاََ ، وہ یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جسم سمیت آسمان پر اٹھایا گیا جسے ہم رفع سے تعبیر کرتے ہیں ، پورا قرآن کریم پڑھ جائیے ، احادیث کا پورا ذخیرہ چھان ماریے آپ کو کہیں نہیں ملے گا کہ عیسائیوں کے عقیدہ رفع مسیح الی السماء کا رد کہیں کیا گیا ہو بلکہ " بل رفعہ اللہ الیہ " کے الفاظ کے ساتھ اس کا اثبات کیا گیا ہے ، اگر عیسائیوں کا یہ عقیدہ بھی غلط ہوتا اور بقول مرزا قادیانی عظیم شرک ہوتا تو پھر کوئی وجہ نہ تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل یا مصلوب ہونے کے یہودی وعیسائی عقیدہ کی نفی کی طرح رفع الی السماء کی بھی نفی کی جاتی بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن نے نفی کے بجائے ایسے الفاظ بولے ہیں جن سے رفع کا اثبات ثابت ہوتا ہے ، علاوہ ازیں اگر اس رفع سے روح یا درجات کا رفع مراد ہوتا تو بھی قرآنی اسلوب کا تقاضا تھا کہ صاف طور پر روح یا درجات کا بھی ذکر کیا جاتا تاکہ رفع کے لفظ سے کسی قسم کا شک نہ پیدا ہوتا اور عیسائی عقیدہ کی تردید ہوجاتی ۔

اب رہ گئی آخری مرزائی تاویل وہ یہ ہے کہ یہاں رفع سے مراد درجات کی بلندی ہے معنی یہ ہے کہ اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درجات بلند کیے تو یہ تاویل یہاں نہیں چل سکتی کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو پہلے ہی سے اونچے درجے پر فائز تھے کیا نبوت کے بعد بھی کوئی درجہ ہوتا ہے ؟ نبوت کے بعد تو پھر خدائی رہ جاتی ہے اس لئے یہاں درجات کی بلندی مراد لینا منصب نبوت کی توہین ہے ، نیز کیا رفع درجات صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہوا دیگر انبیاء کا نہیں ہوا ؟ سورہ النساء کی انہی آیات سے پہلے یہ بھی ذکر ہے کہ یہود نے کچھ انبیاء کو ناحق قتل بھی کیا تھا " وقتلھم الانبیاء بغیر حق " لیکن وہاں رفع کا ذکر نہیں کیا تو کیا ان انبیاء کے درجات بلند نہ کیے گئے تھے ؟ تو پھر خصوصیت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے رفع کا کیوں ذکر کیا گیا ؟

ایک مرزائی مغالعہ


یہاں مرزائی ایک اور سوال کرتے ہیں کہ قرآن کریم ایک اور نبی حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں بھی کہتا ہے " ورفعنا مکاناََ علیاََ " اور ہم نے ان کا رفع ایک بلند جگہ پر کیا ۔ ( سورہ مریم 56،57 ) تو وہاں جسم کا رفع کیوں مراد نہیں لیتے ؟
اس مغالطے کا جواب یہ ہے کہ اہل علم حضرات خوب جانتے ہیں کہ عربی زبان میں ایک لفظ کے کئی معانی آتے ہیں ، کوئی معنی حقیقی ہوتا تو کوئی مجازی ، کوئی اصطلاحی ہوتا تو کوئی لغوی ، قرآن کریم میں بھی ایسے کئی الفاظ موجود ہیں جن کا معنی ایک جگہ ایک ہے تو دوسری جگہ دوسرا ۔ ایک جگہ حقیقی تو دوسری جگہ مجازی ، کہیں اصطلاحی تو کہیں لغوی ۔ اب قرآن کریم میں کسی جگہ کسی خاص لفظ کا معنی حقیقی ہے اور کہاں مجازی یا کہاں اصطلاحی ہے اور کہاں لغوی ، یا کہاں ایک معنی ہے اور کہاں دوسرا یہ ہمیں لغت کی کتابوں میں نہیں ملے گا بلکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ، اقوال صحابہ و تابعین اور ائمہ تفسیر سے نسل در نسل نقل ہوتی ہوئی تفاسیر سے ملے گا یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اکثر جماعت مرزائیہ کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ اگر فلاں آیت میں کسی لفظ کا مسلمان ایک ترجمہ کرتے ہیں تو اسی لفظ کا دوسری جگہ وہی ترجمہ کیوں نہیں کرتے ؟ اگر " رفع " کا مفہوم ایک جگہ جسم سمیت بلند کرنا یا اٹھا لینا لیتے ہیں تو قرآن میں دوسری جگہ اس کا معنی درجات کی بلندی کیوں لیتے ہیں؟ اگر " توفی " کا ترجمہ ایک جگہ حقیقی یعنی کسی چیز کو پورا پورا لینا کرتے ہیں تو دوسرے مقامات پر اس کا مجازی معنی یعنی موت کیوں کرتے ہیں ؟ وغیرہ تو یہی قادیانی مغالطہ یہاں بھی دیا جاتا ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے رفع کا معنی جسم سمیت اٹھانا کرتے ہوتو یہی لفظ حضرت ادریس علیہ السلام کے لئے بھی قرآن میں آیا ہے تو وہاں اس کا معنی جسم سمیت آسمان پر اٹھایا جانا کیوں نہیں کیا جاتا ۔ اگرچہ جیسا بیان ہوا کہ یہ ضروری نہیں کہ ایک لفظ کا مفہوم یا ترجمہ تمام جگہوں پر ایک ہی ہو ، لیکن ہم یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حضرت ادریس علیہ السلام کے جسم سمیت آسمان پر اٹھائے جانے کا ذکر بھی کئی کتب تفاسیر میں موجود ہے ، آئیے دیکھتے ہیں ۔

٭ امام ابن جریر طبری رحمتہ اللہ علیہ جنہیں مرزا غلام قادیانی نے " رئیس المفسرین اور نہایت ثقہ اور ائمہ حدیث میں لکھا ہے " ( خزائن جلد 5 صفحہ 168 ، خزائن جلد 23 صفحہ 261 حاشیہ )
30krgr7.jpg


یہ رئیس المفسرین اپنی تفسیر طبری میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :۔

" (وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا) يعني به إلى مكان ذي علوّ وارتفاع. وقال بعضهم: رُفع إلى السماء السادسة. وقال آخرون: الرابعة. "
بعض نے کہا کہ انہیں چھٹے آسمان پر لے جایا گیا لیکن دوسروں نے کہا انہیں چوتھے آسمان پر لے جایا گیا ۔
اس کے بعد امام طبری رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت کعب رضی اللہ عنہ ، اور حضرت ضحاک رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے سے مختلف روایات نقل کی ہیں ، جن میں صاف طور پر مذکور ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام کو زندہ آسمان پر لے جایا گیا ۔
( تفسير الطبري جلد 18 صفحہ 212 )
2vjvkgy.jpg



٭ حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ ، جو مرزائیوں کے نزدیک اپنے زمانے کے مجدد تھے ( حوالہ دیکھیں مرزائی کتاب " عسل مصفیٰ صفحہ 162 تا 165 ) انہوں نے اپنی تفسیر میں اس آیت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت مجاہد ، حضرت ضحاک رحمتہ اللہ علیہ سے روایات بیان کی ہیں جن میں اللہ نے حضرت ادریس علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا ۔
( تفسیر ابن کثیر ، جلد 5 صفحہ 241 )

٭ امام فخر الدین رازی رحمتہ اللہ علیہ ، یہ بھی قادیانیوں کے مسلمہ چھٹی صدی کے مجدد تھے ( بحوالہ عسل مصفیٰ ) انہوں نے اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ اس میں حضرت ادریس علیہ السلام کے جس رفع کا ذکر ہے اس میں دو قول ہیں:۔
ایک یہ کہ اس رفع منزلت و مرتبہ مراد ہے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آیت " ورفعنا ولک ذکرک " میں بیان ہے ۔
دوسرا قول یہ ہےک ہ " أَنَّ الْمُرَادَ بِهِ الرِّفْعَةُ فِي الْمَكَانِ إِلَى مَوْضِعٍ عَالٍ وَهَذَا أَوْلَى، لِأَنَّ الرِّفْعَةَ الْمَقْرُونَةَ بِالْمَكَانِ تَكُونُ رِفْعَةً فِي الْمَكَانِ لَا فِي الدَّرَجَةِ " دوسرا قول یہ ہے کہ اس رفع سے مراد ایک بلند جگہ پر اٹھایا جانا ہی ہے اور یہ قول زیادہ بہتر ہے کیونکہ جب رفع کا لفظ مکان کے ساتھ آئے تو اس سے مراد کسی جگہ کی بلندی ہی ہوتا ہے نہ کہ درجہ کی بلندی ۔
آگے امام رازی رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی وہی روایات ذکر کی ہیں جن میں حضرت ادریس علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کا ذکر ہے ۔
( تفسیر کبیر ، جلد 21 صفحہ 551 )
نوٹ : امام رازی رحمتہ اللہ علیہ نے صاف لکھ دیا کہ جس جگہ رفع کے ساتھ مکان کا لفظ ہو وہاں رفع درجات مراد ہو ہی نہیں سکتا ۔

٭ امام شمس الدین محمد بن احمد قرطبی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اپنی " تفسیر قرطبی " میں اس آیت کے تحت حضرت ابن عباس و حضرت کعب رضی اللہ عنھم کی وہی روایات ذکر کی جس میں حضرت ادریس علیہ السلام کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانے کا ذکر ہے ۔
یہی بات " تفسیر روح المعانی ، تفسیر درمنثور ، تفسیر معالم التزیل ، الخصاص الکبری للبھقی ، فتح الباری ، عمدۃ القاری ، مرقات شرح مشکاۃ ، " وغیرہ میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے ۔ کہ ان کو زندہ جسم سمیت آسمان پر اٹھایا گیا ( طلب کرنے پر حوالہ جات پیش کیے جاسکتے ہیں ) ۔

ایک مرزائی احمقانہ سوال


مرزائی مربی یہاں لاجواب ہوکر یہ سوال کرتے ہیں کہ پھر یہ بھی مانو کہ حضرت ادریس علیہ السلام بھی آسمان میں زندہ ہیں اور انہوں نے نازل ہونا ہے ۔
تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ ہمارے ذمے صرف یہ ثابت کرنا تھا کہ حضرت ادریس علیہ السلام کو جسم سمیت آسمان پر زندہ اٹھایا گیا اور یہ ثابت کردیا ہے ، ان کے دوبارہ نازل ہونے کا ذکر نہیں کیا گیا ، ہوسکتا ہے کہ اللہ نے بعد میں انہیں زمین پر واپس بیجھ دیا ہو ، جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قرب قیامت دوبارہ نازل ہونے کی احادیث متواترہ میں صراحت ہے ۔
الغرض کہ حضرت ادریس علیہ السلام کے رفع سے مراد کسی نے جسمانی رفع نہیں لیا غلط ہے بلکہ ان کے جسمانی رفع کا ذکر تفاسیر میں صراحت کےساتھ مذکور ہے ، نیز مرزا قادیانی نے بھی اس کا اقرار ان الفاظ میں کیا ہے ، لکھتا ہے کہ :۔
" بائبل اور ہماری احادیث اور اخبار کی کتابوں کی رو سے جن دو نبیوں کا اسی وجود عنصری کے ساتھ آسمان پر جانا تصور کیا گیا ہے وہ دو نبی ہیں ایک یوحنا جس کا نام ایلیا اور ادریس بھی ہے ، دوسرے مسیح ابن مریم جن کو عیسیٰ اور یسوع بھی کہتے ہیں ۔ ان دونوں نبیوں کی نسبت عہد قدیم اور جدید کے بعض نسخے بیان کر رہے ہیں کہ دونوں آسمان کی طرف اٹھائے گئے ، " ( خزائن جلد 3 صفحہ 352 )
1zlexy0.jpg


ہم اس سے قطع نظر کہ قرآن کریم اور مسلمانوں کی احادیث کی کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی وجود عنصری کے ساتھ معراج کی رات آسمان پر جانا بھی ثابت ہے ، جو مرزا نے ذکر نہیں کیا یہاں صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مرزا بھی مانتا ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام کا جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر جانا بائبل اور ہماری کتابوں میں مذکور ہے ۔

رفع کا معنی مرزا بشیر الدین محمود کی قلم سے


دوسرا مرزائی خلیفہ مرزا محمود اپنی ( نام نہاد ) تفسیر کبیر میں لکھتا ہے کہ :۔
" رفع کا لفظ جب اجسام کے لئے استعمال ہو تو کبھی اس کے معنی ان کو ان کی اصل جگہ سے بلند کرنے کےہوتے ہیں اور کبھی درجہ اور فضیلت دینے کے " ( تفسیر کبیر از مرزا محمود ، جلد 3 صفحہ 361 )

2ufawaq.jpg



مرزا قادیانی کی علمی قابلیت کا ایک نمونہ


مرزا قادیانی نے " بل رفعہ اللہ الیہ " میں " رفع " کا ایک من گھڑت معنی بھی لکھا ہے جو نہ کسی لغت میں ہے اور نہ کسی عرب کے دماغ میں اس کا خواب و خیال بھی گذرا ، لکھتا ہے کہ :۔
" جاننا چاہئے کہ اس جگہ رفع سے مراد وہ موت ہے جو عزت کے ساتھ ہو " ( خزائن جلد 3 صفحہ 423 )
zqp86.jpg


کیا مرزا قادیانی کا کوئی پیروکار لفظ " رفع " کا معنی " عزت کی موت " ثابت کرسکتا ہے ؟ ۔
( جاری ہے )
 
آخری تدوین :

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
احادیث میں عیسیٰ علیہ السلام کے لئے آسمان سے نازل ہونے کے الفاظ


اب آئیے مرزا غلام قادیانی کے مشہور زمانہ چیلنج کا جائزہ لیتے ہیں جس میں اس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ :۔
" ولن تجد لفظ السماء فی ملفوظات خیر الانبیاء ولا فی کلم الاُولین " اور تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں آسمان کا لفظ ( یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے کے لفظ :ناقل ) ہرگز نہیں پاؤ گے اور نہ ہی یہ لفظ پہلے لوگوں ( یعنی مرزا سے پہلے گزرے اکابرین امت ۔ ناقل ) کی باتوں میں ملے گا " ( خزائن جلد 11 صفحہ 148 )
" کسی حدیث صحیح مرفوع متصل سے ثابت نہیں کہ عیسیٰ آسمان سے نازل ہوگا " ( خزائن جلد 22 صفحہ 47 حاشیہ )

جہاں تک مرزا کے اس جھوٹ کا تعلق ہے کہ آسمان سے نازل ہونے کا ذکر پہلے لوگوں کے کلام میں نہیں ملتا ، تو اس کا جواب تو خود مرزا نے ہی ایک اور جگہ دے دیا ہے اور اپنا جھوٹا ہونا خود ثابت کردیا ہے ، لکھتا ہے :۔
" مگر مجھ سے پہلے جو علماء اپنی اجتہادی غلطی سے ایسا خیال کرتے رہے کہ ابن مریم آسمان سے آئے گا وہ خدا کے نزدیک معذور ہیں ان کو برا نہیں کہنا چاہیئے ان کی نیتوں میں فساد نہیں تھا بوجہ بشریت بھول گئے کیونکہ ان کو علم نہیں دیا گیا تھا " ( خزائن جلد 18 صفحہ 236 )

ہم یہاں اس پر بحث نہیں کریں گے کہ غلطی کس نے کی ، پوری امت مسلمہ نے یا تیرہ سو سال بعد پیدا ہونے والے مرزا قادیانی نے ؟ یہ حوالہ پیش کرنے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ مرزا قادیانی بقلم خود تسلیم کرتا ہے کہ اس سے پہلے علماء کا یہ خیال تھا کہ ابن مریم آسمان سے نازل ہوں گے ، تو پھر اس نے یہ جھوٹ نہ جانے کیوں لکھا کہ پہلے لوگوں کے کلام میں آسمان سے نازل ہونے کا ذکر نہیں پاؤ گے ۔

اب آئیے مرزا کے دوسرے جھوٹ کی طرف کہ کسی مرفوع متصل صحیح حدیث میں آسمان سے نازل ہونے کا ذکر نہیں احادیث ملاخط فرمائیں۔

حدیث نمبر 1

امام حافظ ابوبکر احمد بن عمروالبزار رحمتہ اللہ علیہ ( وفات 292ھ ) نے اپنی مسن د " البحر الذخار " جو کہ " مسند البزار " کے نام سے معروف ہے اپنی سند کے ساتھ یہ روایت نقل کی ہے :۔

" حَدَّثَنا علي بن المنذر , حَدَّثَنا مُحَمَّد بن فضيل , عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , قال: سمعت من أبي القاسم الصادق المصدوق يقول يخرج الأعور الدجال مسيح الضلالة قبل المشرق في زمن اختلاف من الناس وفرقة فيبلغ ما شاء الله أن يبلغ من الأرض في أربعين يوما الله أعلم ما مقدارها؟ فيلقى المؤمنون شدة شديدة، ثم ينزل عيسى بن مريم صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ من السماء۔۔ الخ "
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کانا دجال یعنی گمراہ مسیح مشرق کی طرف سے نکلے گا اس وقت لوگوں میں افتراق و اختلاف ہوگا تو وہ چالیس دونوں میں جہاں اللہ چاہے گا پہنچے گا ، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کہاں پہنچے گا ، اس وقت مؤمن سخت حالات کا سامنا کریں گے ، پھر مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے ۔ ( مسند البزار ، جلد 17 صفحہ 96 ، حدیث نمبر 9642 )
یہ روایت صحیح مرفوع متصل ہے اور اس میں صاف طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے ۔
اس روایت کے روایوں میں پہلے روای " علي بن المنذر " کے علاوہ باقی تمام روای بخاری و مسلم کے روای ہیں ۔ اور علی بن المنذر سے بھی ترمذی ، نسائی ، اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے اور کسی سے ان پر کسی قسم کی جرح مذکور نہیں ۔
مُحَمَّد بن فضيل سے امام بخاری نے 16 کے قریب روایات لی ہیں بلکہ اپنی صحیح کا اختتام جس روایت پر کیا ہے جس میں " سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ عظیم " کی فضیلت کا بیان ہے وہ بھی انہی محمد بن فضیل کے واسطے سے ہے نیز محمد بن فضیل سے امام مسلم نے 28 کے قریب روایات لی ہیں ۔

عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ سے امام مسلم نے 6 کے قریب روایات لی ہیں ، امام ترمذی و حاکم نے بھی ان سے روایات لی ہیں اور ان روایات کو صحیح کہا ہے ، امام بخاری نے عاصم بن کلیب سے روایت تو ذکر نہیں کی لیکن " باب لبس القسی " میں ان سے استشہاد کیا ہے ، نیز تقریباََ تامام ائمہ جرح و تعدیل نے ان دونوں محمد بن فضیل اور عاصم بن کلیب کی توثیق کی ہے ( ابن جوزی وغیرہ نے عاصم بن کلیب کے بارے میں ابن المدینی کا ایک قول بغیر سند کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ عاصم بن کلیب جب منفرد ہوں تو وہ قابل احتجاج نہیں ، بعض نے اس مٰن یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ اب المدینی نے یہ بات العلل الکبیر میں کہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابن الجوزی کو سہو ہوا ہے مصادر قدیمہ میں کہیں بھی ابن المدینی کی کوئی ایسی بات مذکور نہیں اور نہ ہی علل ابن المدینی میں ایسی کوئی بات ہمیں ملی ، جبکہ دوسری طرف یحییٰ بن معین ، نسائی ، ابوحاتم ، ابوزرعہ ، ابن حبان ، ابن سعد ، عجلی ، مزی ، ابوداود ، ابن شاہین ، ابن حجر جیسے ائمہ رحمتہ اللہ علیھم نے انہیں ثقہ کہا ہے ، امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے بھی کہا ہے کہ ان کی حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں ( بحوالہ تہذیب التہذیب ۔ الحرج والتعدیل وٖغیرہ ) ۔ یہ وضاحت میں نے اس لئے پیش کی کہ مرزائی مربی اس روایت کو ضعیف ثابت کرنے کے لئے ابن المدینی رحمتہ اللہ علیہ کی طرف غلط طور پر منسوب یہ قول پیش کرتے ہیں ، اس روایت کے اگلے روای عاصم بن کلیب کے والد " کلیب بن شھاب " ہیں ، یہ بھی ثقہ ہیں کسی نے ان پر جرح نہیں کی بلکہ امام ابن مندہ رحمتہ اللہ علیہ ، ابو نعیم رحمتہ اللہ علیہ اور ابن عبدالبر رحمتہ اللہ علیہ نے انہیں صحابہ میں شمار کیا ہے ۔ اور اس حدیث کو روایت کرنے والے صحابی حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ تو کسی تعارف کے محتاج نہیں اس طرح مسند البزار کی یہ روایت صرف صحیح نہیں بلکہ صحیح ترین اور مرفوع متصل ہے اور مرزا قادیانی کے کذاب ہونے پر ایسی مہر ہے جسے دنیا کا کوئی مرزائی نہیں توڑ سکتا ۔

حدیث نمبر 2

امام حافظ ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی رحمتہ اللہ علیہ ( وفات 458ھ ) نے اپنی کتاب " الاسماء و الصفات " میں اپنی سند کے ساتھ یہ روایت نقل کی ہے :۔

" أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، أنا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أنا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثنا ابْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ نَافِعٍ، مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ مِنَ السَّمَاءِ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ» "
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا اس وقت ( خوشی کے مارے : ناقل ) کیا حال ہوگا جب مریم کے بیٹے آسمان سے تمہارے اندر اتریں گے اور اس وقت تمہارا امام تمہی میں سے ہوگا ۔ ( الأسماء والصفات للبيهقي ، جلد 2 صفحہ 331 ، حدیث 895 )

ایک مرزائی دھوکہ اور اس کا پوسٹ مارٹم


اس روایت کی سند کے اعتبار سے کوئی قادیانی اعتراض نہیں کرسکتے تو اسے غلط ثابت کرنے کے لئے کچھ اس طرح دجل فریب دیتے ہیں کہ امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے " رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الصَّحِيحِ عَنْ يَحْيَى بْنِ بُكَيْرٍ، وَأَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ يُونُسَ. یہ روایت امام بخاری نے اپنی صحیح میں یحییٰ بن بکیر کے واسطے سے اور امام مسلم نے ایک اور طریق سے یونس سے نقل کی ہے ، امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ کی اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ روایت امام بخاری و مسلم سے نقل کی ہے اور صحیح بخاری و مسلم میں " من السماء " یعنی آسمان سے نازل ہونے کے الفاظ نہیں لہذا معلوم ہوا کہ آسمان کے الفاظ امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ کا وہم ہے یا کسی نے بعد میں کتاب " الأسماء والصفات " میں یہ الفاظ ڈال دیئے ہیں ، بلکہ مرزائی پاکٹ بک والے نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ :۔
بیہقی کا قلمی نسخہ پہلی مرتبہ 1328 ھجری میں چھپا ہے یعنی حضرت مسیح موعود ( نقلی اور جعلی : ناقل ) کے دعوی بلکہ وفات کے بعد اس لئے مولویوں نے اس میں " من السماء " کا لفظ اپنے پاس سے از راہ تحریف اور الحاق زائد کردیا ہے ، چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امام سیوطی نے بیہقی سے اس حدیث کو نقل کیا ہے مگر اس میں من السماء کا لفظ نہیں ، چنانچہ وہ اپنی تفسیر درمنثور میں اس حدیث کو یوں بیان کرتے ہیں " واخرج احمد و البخاری و المسلم والبیھقی فی الاسماء والصفات قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیف انتم اذا نزل فیکم ابن مریم و امامکم منکم " امام مذکور کا باوجود اس محولہ بالا روایت کو دیکھنے کے من السماء چھوڑ دینا بتاتا ہے کہ حدیث کا حصہ نہیں " ( پاکٹ بک صفحہ 228،229 )

دوستو ! امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب " الأسماء والصفات " اور کہیں طبع ہوئی کہ نہیں لیکن ہندوستان کے شہر الہ آباد کے مطبع انواراحمدی سے مرزا کی موت سے تقریباََ 13 سال پہلے سنہ 1313 ھجری میں طبع ہوچکی تھی اور اس کے صفحہ 301 پر یہ روایت موجود ہے اور اس میں " من السماء " کے الفاظ بھی ہیں ، اس لئے پاکٹ بک والے کا یہ لکھنا کہ یہ کتاب پہلی بار 1326 ھجری میں طبع ہوئی صریح جھوٹ ہے ، یاد رہے کہ مرزا غلام قادیانی نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی سنہ 1313ھجری کے بعد لکھی جس میں اس نے یہ چیلنج دیا تھا کہ کسی مرفوع متصل حدیث میں عیسیٰ علیہ السلام کے لئے آسمان سے نازل ہونے کا ذکر نہیں جبکہ امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب " الاسماء والصفات " ہندوستان میں اس سے پہلے طبع ہوچکی تھی ( لیکن شاید مرزا کے خدا نے اسے بتانا مناسب نہ سمجھا ) ۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ روایت امام بخاری و مسلم نے بھی روایت کی ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں من السماء کے لفظ نہیں یا امام جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ ( جو امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ کے تقریباَ چار سو سال بعد پیدا ہوئے ) یہ روایت اپنی تفسیر میں بحوالہ مسند احمد وبخاری و مسلم اور امام بیہقی کی کتاب الاسماء والصفات کے حوالے سے ذکر کی ہے اور اس میں بھی من السماء کے لفظ نہیں لہذا یہ دلیل ہے کہ بیہقی کی کتاب میں یہ لفظ بعد میں ڈال دیا گیا ۔ یہ مرزائی مربی کی جہالت کی دلیل ہے کیونکہ کتب حدیث اور دوسری کتابوں میں بے شمار مقامات پر مصنفین کوئی روایت ذکر کرتے ہیں اور حوالہ بہت سی کتابوں کا دیتے ہیں جبکہ ان کتابوں میں اس روایت کے الفاظ میں قدرے اختلاف ہوتا ہے کئی بار مصنف کو کسی ایک محدث کے ساتھ " واللفظ لہ " بھی لکھنا پڑتا ہے تاکہ پتہ چل جائے کہ میں نے جو الفاظ نقل کیے ہیں بعینہ یہی الفاظ فلاں کتاب کے ہیں باقی کتابوں میں الفاظ قدرے مختلف ہیں ( ہاں روایت کا مفہوم ایک ہی ہوتا ہے ) ، خود امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب الاسماء والصفات میں کئی دوسری روایات ایسی موجود ہیں جس میں وہ لکھتے ہیں کہ " رواہ البخاری و مسلم " لیکن بخاری میں اس روایت کے الفاظ قدرے مختلف ہوتے ہیں اور مسلم میں اس سے بھی مختلف ، اسی طرح امام سیوطی نے جب یہ روایت بیان کی اور چار کتابوں کا حوالہ دیا تو انہوں نے صرف انہی الفاظ کے بیان کرنے پر اکتفا کیا جو چاروں کتابوں میں ایک جیسے ہیں ، اس سے یہ ثابت کرنا کہ امام بیہقی نے یہ الفاظ روایت نہیں کیے احمقانہ بات ہے اور نہ ہی امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ امام بیہقی کے شاگرد یا اہم عصر ہیں کہ ان کی بات سے یہ مطلب لیا جائے ، ایسے تو مرزا غلام قادیانی نے صحیح بخاری کے حوالے سے ایسے الفاظ نقل کیے ہیں جو آج تک صحیح بخاری سے مرزا قادیانی کا کوئی پیروکار نہیں دکھا سکا تو کیا صرف مرزا کے کہنے پر یہ دعویٰ کرنا عقل مندی ہوگی کہ صحیح بخاری میں امام مہدی کے بارے میں یہ الفاظ " ھذا خلیفۃ اللہ المھدی " موجود تھے بعد میں مولویوں نے نکال دیے ؟ ( دیکھیں خزائن جلد 6 صفحہ 337 ) ۔

علم اصول حدیث کے مشہور امام ابن الصلاح رحمتہ اللہ علیہ ( وفات 643ھ ) نے یہ بات وضاحت کے ساتھ امام بیہقی کا نام لیکر لکھی ہے ، ملاخط فرمائیں :۔

" وَهَكَذَا مَا أَخْرَجَهُ الْمُؤَلِّفُونَ فِي تَصَانِيفِهِمُ الْمُسْتَقِلَّةِ كَالسُّنَنِ الْكَبِيرِ لِلْبَيْهَقِيِّ، وَشَرْحِ السُّنَّةِ لِأَبِي مُحَمَّدٍ الْبَغَوِيِّ، وَغَيْرِهِمَا مِمَّا قَالُوا فِيهِ: " أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ أَوْ مُسْلِمٌ "، فَلَا يُسْتَفَادُ بِذَلِكَ أَكْثَرُ مِنْ أَنَّ الْبُخَارِيَّ أَوْ مُسْلِمًا أَخْرَجَ أَصْلَ ذَلِكَ الْحَدِيثِ مَعَ احْتِمَالِ أَنْ يَكُونَ بَيْنَهُمَا تَفَاوُتٌ فِي اللَّفْظِ، وَرُبَّمَا كَانَ تَفَاوُتًا فِي بَعْضِ الْمَعْنَى، فَقَدْ وَجَدْتُ فِي ذَلِكَ مَا فِيهِ بَعْضُ التَّفَاوُتِ مِنْ حَيْثُ الْمَعْنَى. "
اسی طرح مؤلفین اپنی مستقل تصانیف میں مثال کے طور پر امام بیہقی سنن کبیر میں اور امام ابو محمد بغوی شرح السنہ میں یا ان کے علاوہ دوسرے حضرات جب یہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخاری یا مسلم نے بھی روایت کی ہے تو اس کا صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ اصل روایت بخاری و مسلم نے بھی روایت کی ہے جبکہ بخاری و مسلم اور اس مصنف کے الفاظ میں بھی تفاوت اور اختلاف ہوسکتا ے اور کبھی معنی میں بھی ( یعنی ضروری نہیں کہ بخاری مسلم کو حوالہ دینے والے مصںف کی روایت کے الفاظ بھی ہو بہو بخاری و مسلم والے ہوں ) ۔ ( علوم الحدیث ، المعروف بمقدمہ ابن الصلاح صفحہ 23 )

آپ نے دیکھا کہ امام ابن الصلاح نے یہ بات بیان کی ہے جب امام بیہقی اپنی مستقل کتاب میں اپنی سند کے ساتھ کوئی روایت بیان کریں اور پھر یہ کہیں کہ یہ روایت بخاری و مسلم نے بھی روایت کی ہے تو ان کی مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ اس سے ملتی جلتی روایت انہوں نے بھی روایت کی ہے یہ ضروری نہین کہ امام بیہقی اور بخاری و مسلم کے الفاظ ہو بہو ایک ہی ہوں ، لہذا امام بیقہی نے جو " من السماء " کے اضافے کے ساتھ روایت کی ہے وہ مستقل روایت ہے وہ انہوں نے بخاری و مسلم سے نقل نہیں کی اور اصول حدیث کا یہ مسلّمہ قاعدہ ہے کہ کسی بھی روایت میں ثقہ روای کی طرف کسی لفظ کی زیادتی قابل قبول ہوتی ہے ۔
الغرض ! امام سیوطی ہوں یا امام بخاری یا امام مسلم رحمتہ اللہ علیھم ان میں سے کسی کے زہن میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا وہ مفہوم نہ تھا جو مرزا قادیانی نے ایجاد کیا ۔ ان سب کے نزدیک اس لفظ کا مفہوم آسمان سے نازل ہونا ہی تھا اور نہ مرزا سے پہلے امت اسلامیہ کے کسی مفسر ، محدث ، یا مجدد نے یہ احمقانہ بات لکھی ہے کہ اس حدیث میں نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس امت میں ایک مثیل مسیح پیدا ہوگا ۔


مرزا قادیانی کا حدیث میں آسمان سے نازل ہونے کے ذکر کا اقرار


یہ بات خود مرزا قادیانی کو بھی تسلیم ہے چنانچہ وہ خود ایک جگہ لکھتا ہے :۔
" مثلاََ صحیح مسلم کی حدیث مین جو یہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح جب آسمان سے نازل ہوں گے تو ان کا لباس زرد رنگ کا ہوگا ۔ اس لفظ کو ظاہر لباس پر حمل کرنا کیسا لغو خیال ہے " ( خزائن جلد 3 صفحہ 142 )

آپ پوری صحیح مسلم پڑھ لیں آپ کو کہیں بھی آسمان سے نازل ہونے کے الفاظ نہیں ملیں گے وہاں صرف " نزول " کے الفاظ ہیں ، لیکن مرزا قادیانی کی تحریر آپ کے سامنے ، کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ مرزا بھی مانتا تھا کہ احادیث میں جہاں بھی حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے نزول کا زکر ہے اس سے مراد آسمان سے نازل ہونا ہی ہے ، اور کیا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مولویوں نے صحیح مسلم سے " آسمان سے نازل " ہونے کے الفاظ نکال دیئے ؟ اب مرزا کی یہ تحریر پڑھیں :۔

" اسی وجہ سے اس کے حق میں نبی معصوم کی پیشگوئی میں یہ الفاظ آئے کہ وہ آسمان سے اترے گا " ( خزائن جلد 5 صفحہ 268 )

" آپ نے فرمایا تھا کہ مسیح آسمان سے جب اترے گا تو دو زرد چادریں اس نے پہنی ہونگی تو اسی طرح مجھے دو بیماریاں ہیں ایک اوپر کے دھڑ کی اور ایک نیچے کی دھڑ کی " ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 33 )

مرزا قادیانی انہی احادیث کی طرف اشارہ کر رہا ہے جن کے اندر حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول کی خبر دی گئی ہے اور صاف لکھ رہا ہے کہ اس پیشگوئی میں یہ الفاظ ہیں کہ وہ آسمان سے اترے گا ( یہ الگ بات ہے کہ آگے مرزا نے آسمان سے اترنے کی یہ تاویل کی ہے کہ علم آسمان سے حاصل کرے گا زمین سے کچھ حاصل نہیں کرےگا اور زرد چادروں سے مراد اپنی بیماریاں لے رہا ہے ) لیکن بہرحال آسمان سے اترنے کو وہ تسلیم کر رہا ہے ، پھر نہ جانے وہ بعد میں یہ کیوں چیلنج دیتا رہا کہ کسی حدیث میں آسمان سے نازل ہونے کے لفظ نہیں ؟ شاید اسی موقع کے لئے کسی نے کہا ہے کہ :۔

دروغ گورا حافظہ نہ باشد ( جھوٹے کی یاداشت نہیں ہوتی )



حدیث نمبر 3

یہ حدیث وہ ہے جو مرزا قادیانی نے خود اپنی ایک کتاب میں نقل کی لیکن جان بوجھ کر اس میں سے " من السماء " کے الفاظ حذف کر دیے ، مرزا قادیانی نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ حضرت مسیح علیہ السلام دجال کو کسی ظاہری ہتھیار سے قتل نہیں کریں گے بلکہ وہ روحانی ہتھیار ہوگا ایک حدیث اپنی دلیل میں پیش کی ہے جو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے حافظ ابن عساکر رحمتہ اللہ علیہ نے " تاریخ مدنیہ دمشق " المعروف بہ تاریخ ابن عساکر ( جلد 47 صفحہ 504 ) میں نقل کی ہے اور امام علی المتقی رحمتہ اللہ علیہ نے " کنزالعمال " میں ابن عساکر کے حوالے سے بیان کی ہے ( حدیث نمبر 39726 ) لیکن مرزا قادیانی نے اس حدیث کے یہ الفاظ نقل کیے :۔

" کما یدل علیہ حدیث روی عن ابن عباس قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ينزل أخي عيسى بن مريم على جبل أفيق أماما هاديا وحكما عادلا بيده حربة يقتل بہ الدجال "
جیسا کہ اس بات پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث دلالت کرتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بھائی مریم کے بیٹے عیسیٰ جبل آفیق پر نازل ہوں گے اور ان کے ہاتھ میں ایک حربہ ( ہتھیار ) ہوگا جس سے وہ دجال کو قتل کریں گے ۔ ( خزائن جلد 6 صفحہ 314 )

دوستو ! اس روایت کے اصل الفاظ کچھ یوں ہیں " ينزل أخي عيسى بن مريم من السماء " میرے بھائی عیسیٰ بن مریم آسمان سے نازل ہوں گے ، لیکن مرزا نے جب یہ حدیث پیش کی تو تحریف کرتے ہوئے اس میں سے " من السماء " کے لفظ اڑا دیے ۔
تاریخ ابن عساکر کی اس روایت کے بارے میں قادیانی مربی کہتے ہیں کہ اس کی کوئی سند نہیں ( جبکہ تاریخ ابن عساکر میں اس کی پوری سند مذکور ہے ) کبھی کہا جاتا ہے یہ روایت ضعیف ہے لیکن ہمارا جواب یہ ہے کہ مرزا قادیانی کا اس روایت کو اپنے حق میں بطور دلیل پیش کرنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے ہاں یہ روایت سو فیصد صحیح تھی کیونکہ اس نے دعویٰ کیا تھا کہ :۔

" خدا نے مجھے مسیح موعود مقرر کر کے بیجھا ہے اور مجھے بتلا دیا ہے کہ فلاں حدیث سچی ہے اور فلاں جھوٹی ہے " ( خزائن جلد 17 صفحہ 454 )

اب ظاہر ہے کہ مرزا نے جان بوجھ کر ایک ضعیف حدیث تو اپنی دلیک میں پیش نہ کی ہوگی ؟ اسے اس کے خدا نے ضرور بتایا ہوگا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت صحیح ہے ۔


مرزا قادیانی کا حق قبول کرنے کا وعدہ جو وفا نہ ہوا


ہم نے صحیح مرفوع متصل احادیث سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے کے الفاظ دکھا کر مرزا قادیانی کا یہ دعویٰ جھوٹا ثابت کردیا کہ کسی حدیث میں آسمان کا لفظ نہیں ، یاد رہے مرزا قادیانی نے ایک اقرار بھی کیا تھا :۔
" وانما نحن مناظرون فی امر نزول المسیح من السماء ، ولا نسلم اُنہ ثابت من الکتاب والسنۃ ، وان کان ثابتاََ فلا ینبغی لنا ولا لاُحد اُن یاُبی ویمتعض من قبولہ ، فانہ لایفر من قبول الحق الا ظالم معتد لا یحب الصداقۃ ، اوضال جاھل لایعرف قدرھا " بے شک ہم حضرت مسیح کے آسمان سے نازل ہونے کے معاملے میں مناظرہ کرتے ہیں اور ہم تسلیم نہیں کرتے کہ وہ کتاب وسنت سے ثابت ہے ، اور اگر ثابت ہوجائے تو پھر نہ ہمارے لئے اور نہ کسی کے لئے اس بات کی گنجائش رہتی ہے کہ وہ حق قبول کرنت سے فرار اختیار کرے ، کیونکہ قبولِ حق سے فرار یا زیادتی کرنے والا ظالم اختیار کرتا ہے جو سچ کو پسند نہیں کرتا ایسا گمرہ جاہل فرار اختیار کرتا ہے جو حق کی قدر نہیں جانتا ۔ ( خزائن جلد 6 صفحہ 206 )

نوٹ : مرزا نے اپنی اس تحریر میں ایک لفظ لکھا ہے " لا یحب الصداقۃ " س کا ترجمہ عبارت کا سیاق و سباق کے لحاظ سے یہ بنتا ہے کہ جو صدق اور سچائی کو پسند نہیں کرتا ۔ یعنی لفظ " صداقۃ " مرزا نے اپنی طرف سے سچائی کے معنی میں استعمال کیا ہے ، اگر ایسا ہی ہے تو یہ مرزا کی بہت بڑی غلطی ہے ، عربی زبان میں سچ یا سچائی کے لئے لفظ " صدق " آتا ہے اور " صداقۃ " کا معنی ہوتا ہے دوستی ، مرزا کی عادت تھی کے وہ پنجابی اور اردو کے الفاظ کی عربی بناتے ہوئے ایسی غلطیاں کیا کرتا تھا ، جونکہ اردو میں صداقت کا لفظ سچائی کے لئے بولا جاتا ہے اس لئے مرزا نے یہی لفظ عربی میں بھی اسی معنی میں استعمال کیا ۔
بہرحال اوپر پیش کی گئی تحریر میں مرزا قادیانی نے اقرار کیا ہے کہ اگر کتاب و سنت سے حضرت مسیح علیہ السلام کا آسمان سے نزول ثابت ہوجائے تو وہ حق قبول کرے گا کیونکہ حق قبول کرنے سے پہلو تہی کرنے والا ظالم گمراہ اور جاہل ہوتا ہے ، ہم نے صحیح مرفوع متصل احادیث شریفہ سے آسمان سے نازل ہونے کے الفاظ ثابت کیے ، اور جیسا کہ گذرا کہ امام بیہقی کی کتاب الاسماء والصفات تو مرزا کی موت سے 13 سال پہلے ہندوستان میں شائع ہوچکی تھی جس میں صحیھ سند کے ساتھ وہ حدیث موجود ہے جس میں آسمان سے نازل ہونے کے الفاظ موجود ہین آج تک اس حدیث شریف کے بارے میں کوئی ثابت نہیں کرسکا کہ یہ صحیح نہیں یا مرفوع نہیں یا متصل نہیں ، مرزا قادیانی تو اس دنیا سے چلا گیا ، اس کے پیروکاروں کو اپنے پیشوا کی حق کو قبول کرنے کی نصیحت پر عمل کرنا چاہئے اور آپنے آپ کو ظالم گمراہ اور جاہل ہونے سے بچانا چاہئے ۔

اب جس کے جی میں آئے پائے وہ روشنی
ہم نے تو دل جلا کر سرِ عام رکھ دیا

وما علینا الا البلاغ المبین

 
Top