فَبِمَا نَقۡضِہِم مِّيثَـٰقَهُمۡ وَكُفۡرِهِم بِـَٔايَـٰتِ ٱللَّهِ وَقَتۡلِهِمُ ٱلۡأَنۢبِيَآءَ بِغَيۡرِ حَقٍّ۬ وَقَوۡلِهِمۡ قُلُوبُنَا غُلۡفُۢ*ۚ بَلۡ طَبَعَ ٱللَّهُ عَلَيۡہَا بِكُفۡرِهِمۡ فَلَا يُؤۡمِنُونَ إِلَّا قَلِيلاً۬ (١٥٥) وَبِكُفۡرِهِمۡ وَقَوۡلِهِمۡ عَلَىٰ مَرۡيَمَ بُہۡتَـٰنًا عَظِيمً۬ا (١٥٦) وَقَوۡلِهِمۡ إِنَّا قَتَلۡنَا ٱلۡمَسِيحَ عِيسَى ٱبۡنَ مَرۡيَمَ رَسُولَ ٱللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمۡ*ۚ وَإِنَّ ٱلَّذِينَ ٱخۡتَلَفُواْ فِيهِ لَفِى شَكٍّ۬ مِّنۡهُ*ۚ مَا لَهُم بِهِۦ مِنۡ عِلۡمٍ إِلَّا ٱتِّبَاعَ ٱلظَّنِّ*ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينَۢا (١٥٧) بَل رَّفَعَهُ ٱللَّهُ إِلَيۡهِ*ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمً۬[/(١٥٨) (سورہ النساء)
پھر ان کی عہد شکنی پر اور الله کی آیتوں سے منکر ہونے پر اور پیغمبروں کا ناحق خون کرنے پر اور اس کہنے پرکہ ہمارے دلوں پر پردے ہیں انہیں سزا ملی پردے نہیں بلکہ الله نے ان کے دلوں پر کفر کے سبب سے مہر کر دی ہے سو ایمان نہیں لاتے مگر تھوڑے (۱۵۵) اور ان کے کفر او رمریم پر بڑا بہتان باندھنے کے سبب سے (۱۵۶) اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو قتل کیا جو الله کا رسول تھا حالانکہ انہوں نے نہ اسے قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا لیکن ان کو اشتباہ ہو گیا اورجن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں ان کے پا س بھی اس معاملہ میں کوئی یقین نہیں ہے محض گمان ہی کی پیروی ہے انہوں نے یقیناً مسیح کو قتل نہیں کیا (۱۵۷) بلکہ اسے الله نے اپنی طرف اٹھا لیا اور الله زبردست حکمت والا ہے(١٥٨)
جیسا کہ اوپر قرآن مجید کی آیت پیش کی اس آیت سے صاف واضح ہے کہ حضرت عیٰسی علیہ اسلام کو نہ تو قتل کیا گیا اور نہ صلیب دی گئی بلکہ زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا مگر کیونکہ مسلسل اعتراضات اس آیت پر وارد کئے جا رہے ہیں چنانچہ ہم کچھ تفصیل کے ساتھ اس آیت کی تشریح پیش کرتے ہیں اور حقیقت کے متلاشیان سے امید رکھتے ہیں کہ وہ اس تشریح کو اگر تعصب سے بالاتر ہو کر ملاحظہ فرمائیں گے تو ضرور حق کا راستہ دکھائی دے گا۔ اللہ تعالٰی اس آیت کی تشریح میں میری مدد فرمائیں۔ آمین
تفصیلی تشریح
ان آیات میں اہلِ یہود پر لعنت کے اسباب کو ذکر فرمایا گیا ہے ان میں ایک سبب یہ ہے “وقولھم علی مریم بھتانا عظیما“ یعنی حضرت مریم سلام اللہ علیھا پر بہتان عظیم لگانا۔ اس کے علاوہ ان پر لعنت کا ایک سبب “وقتلھم الانبیاء بغیر حق“ یعنی انبیاء کرام (ع) کو قتل کرنا بھی ہے۔ اور لعنت کا تیسرا سبب “ وقولھم انا قتلنا المسیح“ یعنی اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح کو قتل کر ڈالا۔ اب اصل بات آیت پر غور کرنا ہے یہاں لفظ ہے “وقولھم“ یعنی ان کا کہنا ہے۔ یعنی محض قول ہی قول ہے اور قتل کا محض زبانی دعویٰ ہے۔ اگر دیگر انبیاء کی طرح حضرت مسیح واقع میں مقتول ہوئے تھے تو جس طرح پہلی آیت میں “وقتلھم الانبیاء“ فرمایا تھا اسی طرح اس آیت میں “وقتلھم و صلبھم المسیح“ فرماتے۔ پہلی آیت میں لعنت کا سبب انبیاء کا قتل ذکر فرمایا ہے اور دوسری آیت میں لعنت کا سبب ان کا ایک قول کہا گیا ہے۔ یعنی ان کا یہ کہنا کہ ہم نے مسیح عیٰسی بن مریم کو قتل کر ڈالا۔ معلوم ہوا کہ جو شخص یہ کہے کہ مسیح بن مریم مقتول اور مصلوب ہوئے وہ شخص بلاشبہ ملعون و مغضوب ہے۔ نیز اس آیت میں اللہ نے حضرت عیٰسی (ع) کے دعویٰ قتل کو بیان کرنے کے بعد “بل رفعھ اللہ“ فرمایا یعنی ہم نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا۔ لیکن دیگر انبیاء کرام کے قتل کو بیان کر کے “بل رفعھم اللہ“ نہیں فرمایا۔ حالانکہ قتل کے بعد ان کی ارواح مقدسہ بھی آسمان پر اٹھا لی گئیں۔
اس مقام پر اللہ تعالٰی نے دو لفظ استعمال فرمائے ہیں۔ ایک “ما قتلوہ“ جس میں قتل کی نفی کی گئی ہے۔ دوسرا “وما صلبوہ“ جس میں صلیب پر چڑھائے جانے کی نفی کی گئی ہے۔ یہ اس لئے کہ اگر فقط “وما قتلوہ“ فرماتے تو یہ احتمال تھا کہ ممکن ہے قتل نہ کئے گئے ہوں لیکن صلیب پر چڑھائے گئے ہوں۔ اور اسی طرح اگر فقط “وما صلبوہ“ فرماتے تو یہ احتمال موجود رہتا کہ ممکن ہے صلیب تو نہ دئیے گئے ہوں لیکن قتل کر دئیے گئے ہوں۔ اس کے علاوہ کبھی کبھار یہود ایسا بھی کرتے تھے کہ پہلے قتل کرتے اور پھر صلیب پر چڑھاتے اس لئے اللہ تعالٰی نے قتل اور صلیب کو علیحدہ علیحدہ ذکر کیا اور پھر ایک ہی مرتبہ انکار پر اکتفا نہیں فرمایا یعنی “وما قتلوہ و صلبوہ“ نہیں فرمایا بلکہ حرف انکار یعنی کلمہ “ما“ کو “قتلوہ“ اور “صلبوہ“ کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا تاکہ ہر ایک کا جداگانہ انکار اور مستقلاً رد ہو جائے اور اچھی طرح واضح ہو جائے کہ ہلاکت کی کوئی صورت ہی پیش نہیں آئی۔ یعنی نہ مقتول ہوئے اور نہ مصلوب ہوئے اور نہ قتل کر کے صلیب پر لٹکائے گئے حالانکہ دشمنوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا مگر سب بیکار گیا۔
اسی آیت میں لفظ “ولکن شبھ لھم“ یعنی ان کے لئے اشتباہ پیدا کر دیا گیا فرمایا۔ اب اس شبہ کی ضمیر کو ذرا حضرت عیٰسی علیہ اسلام کی طرف راجع کرو اور ترجمہ کرو تو کچھ اس طرح ہو گا کہ عیٰسی (ع) کا ایک شبیہ اور ہمشکل ان کے سامنے کر دیا گیا تاکہ عیٰسی سمجھ کر اس کو قتل کریں اور ہمیشہ کے لئے اشتباہ میں پڑ جائیں۔ اسی لئے ترجمہ کرنے والوں نے “ولکن شبھ لھم“ کا ترجمہ “لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے“ کیا یہ ترجمہ اسی اشتباہ کی تفسیر ہے جب اسے حضرت عیٰسی (ع) کی طرف راجع کیا جائے تو۔ یعنی اس صورت سے وہ اشتباہ میں پڑ گئے۔
گو کہ اوپر والی تشریح کے بعد آیت میں ان الفاظ “بل رفعھ اللہ الیھ“ کے معنی خود بخود متعین ہو گئے کہ جب نہ انہیں قتل کیا گیا اور نہ مصلوب کیا گیا تو تیسری صورت ان کو جسم سمیت اپنی طرف لے جانے کی رہ جاتی ہے۔ کیونکہ یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ “بل رفعھ اللہ“ کی ضمیر اسی طرف راجع ہے کہ جس طرف قتلوہ اور صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے کہ قتلوہ اور صلبوہ کی ضمیریں حضرت عیٰٰسی (ع) کے جسم اور جسد مبارک کی جانب راجع ہیں۔ روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں۔ اس لئے کہ قتل کرنا اور صلیب پر چڑھانا جسم کا ہی ممکن ہے۔ روح کا قتل اور صلیب قطعاً ناممکن ہے لہٰذا “بل رفعھ“ کی ضمیر اسی جسم کی طرف راجع ہو گی جس جسم کی طرف قتلوہ اور صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں۔ دوسری بات یہ کہ یہود روح کے قتل کے مدعی نہ تھے بلکہ جسم کے قتل کے مدعی تھے (یعنی ان کا کہنا تھا کہ ہم نے عیٰسی (ع) کو قتل کر دیا) اور “بل رفعھ اللہ علیھ“ سے ان کے اس قول کی تردید کی گئی ہے لہٰذا “بل رفعہ“ میں رفع جسم ہی مراد ہو گا اس لئے کہ کلمہ “بل“ کلام عرب میں ما قبل کے ابطال کے لئے آتا ہے۔ لہٰذا “بل“ کے ما قبل اور ما بعد میں منافات اور تضاد کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ “وقالوااتخذ الرحمن ولدا سبحنھ بل عباد مکرمون“ ولدیت اور عبودیت میں منافات ہے دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔ “ام یقولون بہ جنھ بل جاءھم بالحق“ مجنونیت اور اتیان بالحق (اللہ کی جانب سے حق کو لے کر آنا) یہ دونوں متضاد اور متنافی ہیں یک جا جمع نہیں ہو سکتے۔ یہ ناممکن یہ کہ شریعت حقہ کا لانے والا مجنون ہو۔ اسی طرح اس آیت میں یہ ضروری ہے کہ مقتولیت اور مصلوبیت جو “بل“ کا ما قبل ہے وہ مرفوعیت الی اللہ کے منافی ہو جو “بل“ کا ما بعد ہے اور ان دونوں کا وجود اور تحقق میں جمع ہونا ناممکن ہے اور ظاہر ہے کہ مقتولیت اور روحانی رفع بمعنی موت میں کوئی منافات نہیں محض روح کا آسمان کی طرف اٹھایا جانا قتل جسمانی کے ساتھ جمع ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ شہدا کا جسم تو قتل ہو سکتا ہے، اور روح آسمان پر اٹھا لی جاتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ “بل رفعھ اللہ“ میں رفع جسمانی مراد ہو کہ جو قتل اور صلب کے منافی ہے اس لئے کہ رفع روحانی اور رفع عزت اور رفعت شان قتل اور صلب کے منافی نہیں بلکہ جس قدر قتل اور صلب ظلماً ہو گا اسی قدر عزت اور رفعت شان میں اضافہ ہو گا اور درجات زیادہ بلند ہوں گے۔ یہود حضرت عیٰسی (ع) کے جسم کے قتل کے مدعی تھے اور صلب کے مدعی تھے اللہ تعالٰی نے ان کے ابطال کے لئے “بل رفعھ اللہ“ فرمایا۔ یعنی تم غلط کہتے ہو کہ تم نے اس کے جسم کو قتل کیا، یا صلیب پر چڑھایا۔ بلکہ اللہ تعالٰی نے ان کے جسم کو صحیح و سالم آسمان پر اٹھا لیا۔ نیز اگر رفع سے مراد رفع روح بمعنی موت مراد ہو تو قتل اور صلب کی نفی سے کیا فائدہ؟ قتل اور صلب سے غرض موت ہی ہوتی ہے اور “بل“ اضرابیہ کے بعد “رفعھ“ کو بصیغہ ماضی لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ رفع الی السماء با اعتبار ماقبل کے امر ماضی ہے۔ یعنی تمہارے قتل اور اور*صلب سے پہلے ہی ہم نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا۔ جیسا کہ آیت “ بل جاء ھم باالحق“ میں صیغہ ماضی اس لئے لایا گیا کہ یہ بتلا دیا جائے کہ آپ (ص) کا حق کو لے آنا کفار کے مجنون کہنے سے پہلے واقع ہو چکا ہے۔ اسی طرح “بل رفعھ اللہ“ بصیغہ ماضی لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ رفع الی السماء ان کے مزعوم اور خیالی قتل اور صلب سے پہلے ہی واقع ہو چُکا ہے۔
پھر ان کی عہد شکنی پر اور الله کی آیتوں سے منکر ہونے پر اور پیغمبروں کا ناحق خون کرنے پر اور اس کہنے پرکہ ہمارے دلوں پر پردے ہیں انہیں سزا ملی پردے نہیں بلکہ الله نے ان کے دلوں پر کفر کے سبب سے مہر کر دی ہے سو ایمان نہیں لاتے مگر تھوڑے (۱۵۵) اور ان کے کفر او رمریم پر بڑا بہتان باندھنے کے سبب سے (۱۵۶) اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو قتل کیا جو الله کا رسول تھا حالانکہ انہوں نے نہ اسے قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا لیکن ان کو اشتباہ ہو گیا اورجن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں ان کے پا س بھی اس معاملہ میں کوئی یقین نہیں ہے محض گمان ہی کی پیروی ہے انہوں نے یقیناً مسیح کو قتل نہیں کیا (۱۵۷) بلکہ اسے الله نے اپنی طرف اٹھا لیا اور الله زبردست حکمت والا ہے(١٥٨)
جیسا کہ اوپر قرآن مجید کی آیت پیش کی اس آیت سے صاف واضح ہے کہ حضرت عیٰسی علیہ اسلام کو نہ تو قتل کیا گیا اور نہ صلیب دی گئی بلکہ زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا مگر کیونکہ مسلسل اعتراضات اس آیت پر وارد کئے جا رہے ہیں چنانچہ ہم کچھ تفصیل کے ساتھ اس آیت کی تشریح پیش کرتے ہیں اور حقیقت کے متلاشیان سے امید رکھتے ہیں کہ وہ اس تشریح کو اگر تعصب سے بالاتر ہو کر ملاحظہ فرمائیں گے تو ضرور حق کا راستہ دکھائی دے گا۔ اللہ تعالٰی اس آیت کی تشریح میں میری مدد فرمائیں۔ آمین
تفصیلی تشریح
ان آیات میں اہلِ یہود پر لعنت کے اسباب کو ذکر فرمایا گیا ہے ان میں ایک سبب یہ ہے “وقولھم علی مریم بھتانا عظیما“ یعنی حضرت مریم سلام اللہ علیھا پر بہتان عظیم لگانا۔ اس کے علاوہ ان پر لعنت کا ایک سبب “وقتلھم الانبیاء بغیر حق“ یعنی انبیاء کرام (ع) کو قتل کرنا بھی ہے۔ اور لعنت کا تیسرا سبب “ وقولھم انا قتلنا المسیح“ یعنی اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح کو قتل کر ڈالا۔ اب اصل بات آیت پر غور کرنا ہے یہاں لفظ ہے “وقولھم“ یعنی ان کا کہنا ہے۔ یعنی محض قول ہی قول ہے اور قتل کا محض زبانی دعویٰ ہے۔ اگر دیگر انبیاء کی طرح حضرت مسیح واقع میں مقتول ہوئے تھے تو جس طرح پہلی آیت میں “وقتلھم الانبیاء“ فرمایا تھا اسی طرح اس آیت میں “وقتلھم و صلبھم المسیح“ فرماتے۔ پہلی آیت میں لعنت کا سبب انبیاء کا قتل ذکر فرمایا ہے اور دوسری آیت میں لعنت کا سبب ان کا ایک قول کہا گیا ہے۔ یعنی ان کا یہ کہنا کہ ہم نے مسیح عیٰسی بن مریم کو قتل کر ڈالا۔ معلوم ہوا کہ جو شخص یہ کہے کہ مسیح بن مریم مقتول اور مصلوب ہوئے وہ شخص بلاشبہ ملعون و مغضوب ہے۔ نیز اس آیت میں اللہ نے حضرت عیٰسی (ع) کے دعویٰ قتل کو بیان کرنے کے بعد “بل رفعھ اللہ“ فرمایا یعنی ہم نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا۔ لیکن دیگر انبیاء کرام کے قتل کو بیان کر کے “بل رفعھم اللہ“ نہیں فرمایا۔ حالانکہ قتل کے بعد ان کی ارواح مقدسہ بھی آسمان پر اٹھا لی گئیں۔
اس مقام پر اللہ تعالٰی نے دو لفظ استعمال فرمائے ہیں۔ ایک “ما قتلوہ“ جس میں قتل کی نفی کی گئی ہے۔ دوسرا “وما صلبوہ“ جس میں صلیب پر چڑھائے جانے کی نفی کی گئی ہے۔ یہ اس لئے کہ اگر فقط “وما قتلوہ“ فرماتے تو یہ احتمال تھا کہ ممکن ہے قتل نہ کئے گئے ہوں لیکن صلیب پر چڑھائے گئے ہوں۔ اور اسی طرح اگر فقط “وما صلبوہ“ فرماتے تو یہ احتمال موجود رہتا کہ ممکن ہے صلیب تو نہ دئیے گئے ہوں لیکن قتل کر دئیے گئے ہوں۔ اس کے علاوہ کبھی کبھار یہود ایسا بھی کرتے تھے کہ پہلے قتل کرتے اور پھر صلیب پر چڑھاتے اس لئے اللہ تعالٰی نے قتل اور صلیب کو علیحدہ علیحدہ ذکر کیا اور پھر ایک ہی مرتبہ انکار پر اکتفا نہیں فرمایا یعنی “وما قتلوہ و صلبوہ“ نہیں فرمایا بلکہ حرف انکار یعنی کلمہ “ما“ کو “قتلوہ“ اور “صلبوہ“ کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا تاکہ ہر ایک کا جداگانہ انکار اور مستقلاً رد ہو جائے اور اچھی طرح واضح ہو جائے کہ ہلاکت کی کوئی صورت ہی پیش نہیں آئی۔ یعنی نہ مقتول ہوئے اور نہ مصلوب ہوئے اور نہ قتل کر کے صلیب پر لٹکائے گئے حالانکہ دشمنوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا مگر سب بیکار گیا۔
اسی آیت میں لفظ “ولکن شبھ لھم“ یعنی ان کے لئے اشتباہ پیدا کر دیا گیا فرمایا۔ اب اس شبہ کی ضمیر کو ذرا حضرت عیٰسی علیہ اسلام کی طرف راجع کرو اور ترجمہ کرو تو کچھ اس طرح ہو گا کہ عیٰسی (ع) کا ایک شبیہ اور ہمشکل ان کے سامنے کر دیا گیا تاکہ عیٰسی سمجھ کر اس کو قتل کریں اور ہمیشہ کے لئے اشتباہ میں پڑ جائیں۔ اسی لئے ترجمہ کرنے والوں نے “ولکن شبھ لھم“ کا ترجمہ “لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے“ کیا یہ ترجمہ اسی اشتباہ کی تفسیر ہے جب اسے حضرت عیٰسی (ع) کی طرف راجع کیا جائے تو۔ یعنی اس صورت سے وہ اشتباہ میں پڑ گئے۔
گو کہ اوپر والی تشریح کے بعد آیت میں ان الفاظ “بل رفعھ اللہ الیھ“ کے معنی خود بخود متعین ہو گئے کہ جب نہ انہیں قتل کیا گیا اور نہ مصلوب کیا گیا تو تیسری صورت ان کو جسم سمیت اپنی طرف لے جانے کی رہ جاتی ہے۔ کیونکہ یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ “بل رفعھ اللہ“ کی ضمیر اسی طرف راجع ہے کہ جس طرف قتلوہ اور صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے کہ قتلوہ اور صلبوہ کی ضمیریں حضرت عیٰٰسی (ع) کے جسم اور جسد مبارک کی جانب راجع ہیں۔ روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں۔ اس لئے کہ قتل کرنا اور صلیب پر چڑھانا جسم کا ہی ممکن ہے۔ روح کا قتل اور صلیب قطعاً ناممکن ہے لہٰذا “بل رفعھ“ کی ضمیر اسی جسم کی طرف راجع ہو گی جس جسم کی طرف قتلوہ اور صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں۔ دوسری بات یہ کہ یہود روح کے قتل کے مدعی نہ تھے بلکہ جسم کے قتل کے مدعی تھے (یعنی ان کا کہنا تھا کہ ہم نے عیٰسی (ع) کو قتل کر دیا) اور “بل رفعھ اللہ علیھ“ سے ان کے اس قول کی تردید کی گئی ہے لہٰذا “بل رفعہ“ میں رفع جسم ہی مراد ہو گا اس لئے کہ کلمہ “بل“ کلام عرب میں ما قبل کے ابطال کے لئے آتا ہے۔ لہٰذا “بل“ کے ما قبل اور ما بعد میں منافات اور تضاد کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ “وقالوااتخذ الرحمن ولدا سبحنھ بل عباد مکرمون“ ولدیت اور عبودیت میں منافات ہے دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔ “ام یقولون بہ جنھ بل جاءھم بالحق“ مجنونیت اور اتیان بالحق (اللہ کی جانب سے حق کو لے کر آنا) یہ دونوں متضاد اور متنافی ہیں یک جا جمع نہیں ہو سکتے۔ یہ ناممکن یہ کہ شریعت حقہ کا لانے والا مجنون ہو۔ اسی طرح اس آیت میں یہ ضروری ہے کہ مقتولیت اور مصلوبیت جو “بل“ کا ما قبل ہے وہ مرفوعیت الی اللہ کے منافی ہو جو “بل“ کا ما بعد ہے اور ان دونوں کا وجود اور تحقق میں جمع ہونا ناممکن ہے اور ظاہر ہے کہ مقتولیت اور روحانی رفع بمعنی موت میں کوئی منافات نہیں محض روح کا آسمان کی طرف اٹھایا جانا قتل جسمانی کے ساتھ جمع ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ شہدا کا جسم تو قتل ہو سکتا ہے، اور روح آسمان پر اٹھا لی جاتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ “بل رفعھ اللہ“ میں رفع جسمانی مراد ہو کہ جو قتل اور صلب کے منافی ہے اس لئے کہ رفع روحانی اور رفع عزت اور رفعت شان قتل اور صلب کے منافی نہیں بلکہ جس قدر قتل اور صلب ظلماً ہو گا اسی قدر عزت اور رفعت شان میں اضافہ ہو گا اور درجات زیادہ بلند ہوں گے۔ یہود حضرت عیٰسی (ع) کے جسم کے قتل کے مدعی تھے اور صلب کے مدعی تھے اللہ تعالٰی نے ان کے ابطال کے لئے “بل رفعھ اللہ“ فرمایا۔ یعنی تم غلط کہتے ہو کہ تم نے اس کے جسم کو قتل کیا، یا صلیب پر چڑھایا۔ بلکہ اللہ تعالٰی نے ان کے جسم کو صحیح و سالم آسمان پر اٹھا لیا۔ نیز اگر رفع سے مراد رفع روح بمعنی موت مراد ہو تو قتل اور صلب کی نفی سے کیا فائدہ؟ قتل اور صلب سے غرض موت ہی ہوتی ہے اور “بل“ اضرابیہ کے بعد “رفعھ“ کو بصیغہ ماضی لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ رفع الی السماء با اعتبار ماقبل کے امر ماضی ہے۔ یعنی تمہارے قتل اور اور*صلب سے پہلے ہی ہم نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا۔ جیسا کہ آیت “ بل جاء ھم باالحق“ میں صیغہ ماضی اس لئے لایا گیا کہ یہ بتلا دیا جائے کہ آپ (ص) کا حق کو لے آنا کفار کے مجنون کہنے سے پہلے واقع ہو چکا ہے۔ اسی طرح “بل رفعھ اللہ“ بصیغہ ماضی لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ رفع الی السماء ان کے مزعوم اور خیالی قتل اور صلب سے پہلے ہی واقع ہو چُکا ہے۔
مدیر کی آخری تدوین
: