• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

حیاتِ عیسی علیہ السلام پر قرآنی دلیل (و قولهم انا قتلنا المسيح عيسى۔۔۔عزيزا حکيما(نسائ:۱۵۷،۱۵۸))

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حیات عیسیٰ علیہ السلام پر قرآنی دلیل نمبر : 3
آیت عربی میں اعراب کے بغیر:
و قولهم انا قتلنا المسيح عيسى ابن مريم رسول الله و ما قتلوه و ما صلبوه و لکن شبه لهم و ان الذين اختلفوا فيه لفي شک منه ما لهم به من علم الا اتباع الظن و ما قتلوه يقينا آیت 157 بل رفعه الله اليه و کان الله عزيزا حکيما آیت 158

آیت عربی میں اعراب کے ساتھ:
’’وَّقَوْلِـہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللہِ۝۰ۚ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰكِنْ شُبِّہَ لَہُمْ۝۰ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْہِ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْہُ۝۰ۭ مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ۝۰ۚ وَمَا قَتَلُوْہُ يَقِيْنًۢا۝۱۵۷ۙ بَلْ رَّفَعَہُ اللہُ اِلَيْہِ۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا۝۱۵۸
(نسائ:۱۵۷،۱۵۸)‘‘

اس آیت مبارکہ میں اﷲتعالیٰ ببانگ دہل اعلان فرمارہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھالئے گئے تھے۔ ترجمہ ہم اس آیت مبارکہ کا اس ہستی کے الفاظ میں پیش کرتے ہیں کہ جس کے انکار پر قادیانی عقیدہ کے مطابق آدمی کافر وفاسق ہو جاتا ہے۔ یعنی مجدد صدی نہم جو امام جلال الدین سیوطی کے اسم گرامی سے دنیائے اسلام میں مشہور ہیں۔
’’اور لعنت کی ہم نے یہود پر اس وجہ سے بھی کہ وہ فخر کے ساتھ کہتے تھے کہ یقینا ہم نے عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا ہے۔ اﷲتعالیٰ ان کے دعویٰ قتل کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں اور نہ قتل کر سکے یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اور نہ پھانسی پر ہی لٹکا سکے ان کو۔ بلکہ بات یوں ہوئی کہ یہود کے لئے حضرت مسیح علیہ السلام کی شبیہ بنادی گئی اور وہی قتل کیاگیا اور سولی دیا گیا اور وہ یہود کا آدمی تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہمراہ۔ یعنی تفصیل اس کی یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صورت وشبیہ یہود کے آدمی پر ڈال دی اور یہود نے اس شبیہ عیسیٰ علیہ السلام کو عین عیسیٰ علیہ السلام سمجھ لیا اور تحقیق جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں اختلاف کیا،۔ وہ ان کے قتل کے متعلق شک میں مبتلا تھے۔ کیونکہ ان میں سے بعض نے جب مقتول کو دیکھا تو کہنے لگے کہ اس کا منہ تو بالکل عیسیٰ علیہ السلام کاہے اور باقی جسم اس کا معلوم نہیں ہوتااور باقی کہنے لگے کہ نہیں بالکل وہی ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے بارہ کوئی یقینی علم نہیں ہے۔ بلکہ صرف اس ظن کی پیروی کرنے لگے۔ جو خود انہوں نے گھڑ لیا اور یقینی بات ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کیا۔ بلکہ اٹھا لیا اﷲتعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اور اﷲتعالیٰ اپنی بادشاہی میں بڑا زبردست اور اپنے کاموں میں بڑا ہی حکمت والا ہے۔‘‘

(تفسیر جلالین ص۹۱، زیر آیت کریمہ)
ناظرین! اس تفسیر کے بعد حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی قادیانی دم نہیں مار سکتا۔ کیونکہ ہم نے ان کے اپنے مسلم امام اور مجدد کے الفاظ کا اردو میں ترجمہ کر دیا ہے۔ اگر انکار کریں تو رسالہ ہذا کے ابتداء میں درج شدہ قادیانی عقائد واصول سامنے رکھ دیں۔ اب ہم کچھ نکات اس آیت کریمہ کی فصاحت وبلاغت اور اس کے الفاظ کی بندش کے متعلق عرض کرتے ہیں۔
۱… اس آیت میں لعنت یہود کا سبب صرف ان کا دعویٰ قتل قراردیاگیا ہے۔ یعنی یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کوئی ایسا فعل نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے وہ قابل لعنت ٹھہرائے جاتے۔ یعنی اﷲتعالیٰ کے علم کے مطابق یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ صلیب پر چڑھایا اور نہ ان کے ہاتھوں میں میخیں لگائیں۔ نہ ان کے منہ پر تھوکا گیا۔ اگر فی الواقع ایسا ہوا ہوتا تو اﷲتعالیٰ ضرور لعنت کا سبب ان کے فعل کو ٹھہراتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات گرامی تک یہود کو پہنچنے تک نہیں دیا۔
۲… ’’ انا قتلنا ‘‘ یعنی ہم نے یقینا قتل کر دیا۔ ان الفاظ میں اﷲتعالیٰ یہود کا دعویٰ بیان فرماتے ہیں۔ یعنی یہود کا یقین تھا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ضرور قتل کر دیا تھا۔
۳… ’’ قتلنا ‘‘ یعنی ’’قتل کر دیا ہم نے‘‘ ان الفاظ میں قتل کا اعلان ہے اور قتل صلیب موت کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صلیبی موت ہی کے قائل تھے۔

خود مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔
’’یہود نے خوب سمجھا تھا۔ مگر بوجہ صلیب حضرت مسیح کے ملعون ہونے کے قائل ہوگئے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۴، خزائن ج۱۷ ص۱۰۹)
پھر تحریر کرتے ہیں۔
’’نالائق یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو قتل کرنے کے لئے صلیب پر چڑھادیا تھا… یہودی اسے صرف صلیب دینا چاہتے ہیں کسی اور طریق سے قتل کرنا نہیں چاہتے کیونکہ یہودیوں کے مذہب کی رو سے جس شخص کو صلیب کے ذریعہ سے قتل کیا جائے خدا کی لعنت اس پر پڑ جاتی ہے۔‘‘

(ایام الصلح ص۱۱۱، خزائن ج۱۴ ص۳۴۸،۳۴۹)
پس ثابت ہوا کہ قتل عیسیٰ علیہ السلام کے دعویٰ میں یہود کا مقصد قتل بالصلیب ہی تھا۔ یعنی صلیبی موت کے لئے قتل کا لفظ خود یہود نے استعمال کیا۔
۴…
’’ وما قتلوہ ‘‘ میں اﷲتعالیٰ یہود کے دعویٰ قتل عیسیٰ بالصلیب کی تردید کر رہے ہیں۔ یہود کا دعویٰ تھا۔ جیسا کہ ہم اقوال مرزا سے ثابت کر آئے ہیں کہ ہم (یہود) نے عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب کے ذریعہ قتل کر دیا ہے۔ اﷲتعالیٰ نے اسی فعل کی نفی کا اعلان کردیا۔ یعنی یہود حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب کے ذریعہ بھی قتل کرنے پر قادر نہ ہوسکے۔
۵… ’’ وما صلبوہ ‘‘ اس فقرہ میں اﷲتعالیٰ یہود کے دعویٰ قتل المسیح بالصلیب کی تردید کے بعد سولی پر چڑھا سکنے کی بھی نفی فرماتے ہیں۔ یعنی یہود تو حضرت مسیح علیہ السلام کو سولی پر بھی نہیں چڑھا سکے۔ قربان جاؤں کلام اﷲ کی فصاحت وبلاغت پر اگر ’’ وما قتلوہ ‘‘ کے بعد ’’ وما صلبوہ ‘‘ نہ ہوتا تو مرزاقادیانی بڑی آسانی سے تحریف قرآنی کر سکتا تھا۔ کیونکہ وہ کہہ سکتا تھا۔ جیسا کہ وہ اب کہتا ہے کہ قتل نہ کر سکے۔ مگر سولی پر ضرور لٹکایا گیا تھا اور واقعی اس وقت مرزاقادیانی کو تحریف کے لئے کچھ گنجائش مل سکتی تھی۔ مگر اب تو باری تعالیٰ نے ’’ وما صلبوہ ‘‘ کا فقرہ بڑھا کر مرزاقادیانی کی تحریف کا مکمل سدباب کر دیا ہے۔ لیکن مرزاقادیانی نے پھر ایک اور چال چلی۔ صلب کے معنی قرآن، حدیث اور لسان عرب کے خلاف سولی پر مرنا یا مارنا مشتہر کر دئیے۔ مگر قیامت تک علماء اسلام کا لاجواب چیلنج قائم رہے گا کہ صلب کے معنی صرف سولی پرکھینچنا ہیں۔ موت صلب کے ساتھ ضروری نہیں۔ یعنی صلب کے معنی سولی پر مارنا نہیں۔
دلائل اسلامی ملاحظہ کیجئے۔
الف… اگر صلب کے معنی پھانسی پر مارنا ہوتے تو یہود بجائے ’’ قتلنا ‘‘ کے ’’ صلبنا ‘‘ کہتے۔ کیونکہ یہود حضرت مسیح علیہ السلام کے سولی پر چڑھانے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔
ب… اگر ’’ وما صلبوہ ‘‘ کے معنی ’’یہود حضرت مسیح علیہ السلام کو سولی پر نہ مار سکے‘‘ صحیح ہوتے تو صرف ’’وما قتلوہ‘‘ یا ’’ ماصلبوہ ‘‘ ہی کافی تھا۔ دوبارہ ’’ صلبوہ ‘‘ لانے کی کیا ضرورت تھی۔
ج… کسی مجدد مسلمہ قادیانی نے تیرہ سو ترپن سال تک ’’ ماصلبوہ ‘‘ کے معنی ’’صلیب پر مارنے‘‘ کے نہیں کئے۔
دحضرت شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی قادیانی جماعت کے مسلم مجدد صدی دوازدہم ’’ وما صلبوہ ‘‘ کے معنی کرتے ہیں۔
’’وبردار نکردند اورا‘‘ اور شاہ عبدالقادر صاحب مجدد صدی سیزدہم فرماتے ہیں ’’اور نہ سولی پر چڑھایا اس کو۔‘‘
ھغیاث اللغات وصراح میں ہے۔ صلب، بردار کردن (سولی پر چڑھانا)
و… اگر صلب کے معنی ’’پھانسی پر مارنے‘‘ کے قبول کر لئے جائیں تو قادیانی ہمیں بتلائیں کہ صرف سولی پر چڑھانے کے لئے عربی زبان میں کون سا لفظ ہے۔ سوائے صلب کے اور کوئی لفظ ہے ہی نہیں۔
ز… خود مرزاقادیانی کی زبان اور قلم سے باری تعالیٰ نے ہماری تائید کرادی ہے۔ اقوال مرزا ’’خدا نے مسیح کو وعدہ دیا کہ میں تجھے صلیب سے بچاؤں گا۔‘‘

(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۵، خزائن ج۷ ص۴۴)
دیکھئے! یہاں بقول مرزاقادیانی خدا ’’ صلیب ‘‘ سے بچانے کا وعدہ کر رہے ہیں۔ صرف ’’ صلیبی موت ‘‘ سے بچانے کا وعدہ نہیں۔
پھر لکھتے ہیں: ’’انہوں نے اس فکر کی وجہ سے تینوں مصلوبوں کو صلیب پر سے اتارلیا۔‘‘

(ازالہ اوہام ص۳۸۱، خزائن ج۳ ص۲۹۶)
دیکھئے یہ تینوں مصلوب اتار لئے جانے کے وقت زندہ تھے۔ جیسا کہ مرزاقادیانی اسی صفحہ پر اقرار کرتے ہیں۔ جائے عبرت ہے کہ مرزاقادیانی کے قلم سے اﷲتعالیٰ نے صلب کا اسم مفعول ’’مصلوب‘‘ صرف ’’سولی پر چڑھائے گئے‘‘ کے معنوں میں استعمال کر کے ابوعبیدہ کی آہنی گرفت کا سامان مہیا کر دیا۔ کیونکہ اگر صلب کے معنی سولی پر مارنا صحیح ہوتے تو مصلوب کے معنی سولی پر مارا ہوا ہونا چاہئے۔ لیکن مرزاقادیانی خود مصلوب کو ’’سولی دیا گیا‘‘ مانتے ہوئے اس کا زندہ ہونا بھی تسلیم کرتے ہیں۔
ح… صلیب کی حقیقت بھی ہم بالفاظ مرزاقادیانی عرض کرتے ہیں۔ جس سے معزز ناظرین کو یقین ہو جائے گا کہ صلب یعنی صلیب پر چڑھانے کا نتیجہ لازمی طور پر موت نہیں ہوتا تھا۔ لکھتے ہیں: ’’بالاتفاق مان لیاگیا ہے کہ وہ صلیب اس قسم کی نہیں تھی۔ جیسا کہ آج کل پھانسی ہوتی ہے اور گلے میں رسہ ڈال کر ایک گھنٹہ میں کام تمام کیا جاتا ہے۔ بلکہ اس قسم کا کوئی رسہ گلے میں نہیں ڈالا جاتا تھا۔ صرف بعض اعضاء میں کیلیں ٹھونکتے تھے اور پھر احتیاط کی غرض سے تین تین دن مصلوب بھوکے پیاسے صلیب پر چڑھائے رہتے تھے اور بعد اس کے ہڈیاں توڑی جاتی تھیں اور پھر یقین کیا جاتا تھا کہ اب مصلوب مرگیا۔‘‘

(ازالہ اوہام ص۳۸۱، خزائن ج۳ ص۲۹۶)
محترم ناظرین! غور کیجئے کہ اگر مصلوب جو صلب کا اسم مفعول ہے کہ معنی ’’سولی پر مرا ہوا یا مارا ہوا‘‘ ٹھیک ہوں تو وہ مرا ہوا آدمی بھی کبھی بھوکا پیاسا ہوسکتا ہے؟ جیسا کہ مرزاقادیانی مصلوب کا بھوکا پیاسا ہونا تسلیم کر رہے ہیں۔ نیز اگر مصلوب کے معنی پھانسی پر مارا ہوا صحیح ہوں تو پھر مرزاقادیانی کے فقرہ ’’مصلوب مرگیا‘‘ کے معنی کیا ہوں گے۔ یہی نہ کہ پھانسی پر مارا ہوا مرگیا۔ جو بالکل واہیات ہے۔ ’’مصلوب مرگیا‘‘ کا فقرہ جبھی بامعنی فقرہ قرار دیاجاسکتا ہے۔ جب کہ مصلوب کے معنی صرف سولی پر لٹکایا گیا۔ یعنی صلب کے معنی صرف سولی پر لٹکانا بغیر موت کے لئے جائیں۔
ط… اگر ’’ وما صلبوہ ‘‘ کے معنی حسب قول مرزاقادیانی ہم قبول کر لیں۔ یعنی یہ کہ ’’یہود حضرت مسیح علیہ السلام کو سولی پر چڑھانے میں کامیاب ہوگئے۔ انہیں تازیانے لگاتے رہے۔ ان کے منہ پر تھوکتے رہے اور ان کے اعضاء میں کیلیں ٹھونکنے میں بدرجہ اتم کامیاب رہے۔ لیکن خدا نے صلیب پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جان نہ نکلنے دی تو یہ سارا مضمون ’’ ومکروا ومکر اﷲ واﷲ خیر الماکرین ‘‘ کے خلاف جاتا ہے۔ کیونکہ قادیانی معنوں کی صورت میں یہود کا مکر خدا کے مکر پر غالب رہتا ہے۔ حالانکہ خدا ’’ خیر الماکرین ‘‘ ہے۔ یعنی بہترین تدبیر کنندہ ہے۔ پس ان نو دلائل سے نتیجہ یہ نکلا کہ صلب کے معنی صرف سولی پر چڑھانا ہی ہیں۔ موت اس کے ساتھ لازم نہیں اور اس آیت میں خداتعالیٰ حضرت مسیح علیہ السلام کے صلب پر چڑھائے جانے ہی کی نفی کر رہے ہیں۔‘‘
’’ انا قتلنا المسیح ‘‘ کے جملہ سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہود قتل مسیح کا دعویٰ بڑے جزم کے ساتھ کرتے تھے۔ محض اس کہنے سے کہ ہم (یہود) نے مسیح علیہ السلام کو قتل کر دیا۔ کوئی وجہ لعنت کی نظر نہیں آتی۔ اگر قتل وصلب فی الواقع کسی شخص پر بھی واقع نہ ہوئے ہوتے تو اﷲتعالیٰ اپنی کلام بلاغت نظام میں ’’ بقولہم ‘‘ کی بجائے ’’ بکذبہم ‘‘ یعنی ان کے جھوٹ بولنے کے سبب ان کے ملعون ہونے کا اعلان کرتے۔ مگر چونکہ قتل وصلب کے افعال ضرور کسی نہ کسی شخص پر واقع ہوئے تھے۔ اس واسطے اﷲتعالیٰ نے یہ جواب نہیں دیا کہ ’’ وما قتلوہ احدا ولا صلبوا ‘‘ یا ’’ وما قتل احد ولا صلب ‘‘ یعنی یہود نے تو نہ کسی کو قتل کیا اور نہ پھانسی دیا یا نہ کوئی قتل کیاگیا نہ پھانسی دیا گیا۔ ’’ وماقتلوہ وما صلبوہ ‘‘ میں ضمیر ’’ ہ ‘‘ کو استعمال کر کے بتادیا کہ قتل کا فعل اور پھانسی چڑھانے کا عمل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وارد نہیں ہوا۔ کسی اور پر وارد ہوا تھا۔ ملحض مضمون بالا۔
۱… یہود پر خداتعالیٰ نے لعنت کی اور اس لعنت کا سبب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل وصلب کے دعویٰ کو بطور فخر کے بیان کرنا قرار دیا۔
۲… اﷲتعالیٰ نے یہود کو قتل اور صلب محض کے دعویٰ میں جھوٹا قرار نہیں دیا۔ بلکہ قتل وصلب مسیح علیہ السلام کے دعویٰ کو جھوٹ قرار دیا۔ مطلب جس کا یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ بھی اس بات کو سچا فرمارہے ہیں کہ کوئی نہ کوئی شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام پر ضرور قتل کیاگیا اور صلیب دیا گیا اور یہ بات تواتر قومی سے ثابت ہے کہ ایک شخص ضرور پھانسی پر لٹکایا گیا اور قتل کیاگیا تھا۔ چنانچہ دنیا کے کروڑہا یہودی اور عیسائی کسی ایک شخص کے قتل وصلیب دیے جانے کا عقیدہ رکھنا۔ اپنے ایمان کا جزو قرار دیتے ہیں۔ اس شخص کو یہودی وعیسائی دونوں نے مسیح علیہ السلام سمجھا۔ اﷲتعالیٰ اس مقتول ومصلوب کے متعلق اعلان فرماتے ہیں کہ وہ مقتول ومصلوب حضرت عیسیٰ ابن مریم نہ تھا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ شخص کون تھا۔ جس کو یہودیوں نے عیسیٰ علیہ السلام سمجھتے ہوئے پھانسی پر لٹکا دیا اور قتل کر دیا اور ان کے اتباع میں کروڑہا عیسائی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل بالصلیب کے قائل ہوگئے۔ اﷲتعالیٰ اس وہم کا ازالہ اپنی عجیب کلام میں عجیب فصیح وبلیغ طریقہ سے بیان فرماتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ’’ ولکن شبہ لہم ‘‘ جس کی پوری ترکیب (علم نحو کے جاننے والے پر مخفی نہیں) اس طرح ہوگی۔ ’’ ولکن قتلوا وصلبوا من شبہ لہم ‘‘ لیکن انہوں نے اس شخص کو قتل کیا اور صلیب پر چڑھایا جو ان کے لئے مسیح علیہ السلام کے مشابہ بنایا گیا تھا۔ مرزاقادیانی بیچارے علوم عربیہ سے محض کورے تھے۔ ہاں جس طرح بعض آدمی گورہ شاہی انگریزی بول لکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح مرزاقادیانی بھی عربی کی ٹانگ توڑ سکتے تھے۔ ہم ان کی عربی کا نام ’’ پنجابی عربی ‘‘ تجویز کرتے ہیں۔
’’ ولا کن شبہ ‘‘ جیسی ترکیبیں قرآن، حدیث اور عربی علم ادب کے ماہرین پر مخفی نہیں۔ ہم یہاں علم نحو کے مسلم امام ابن ہشام کا قول کتاب مغنی سے نقل کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: ’’ انہ لکن غیر عاطفۃ والواو عاطفۃ بجملۃ حذف بعضہا علیٰ جملۃ صرح بجمیعہا قال فالتقدیر فی نحو ما قام زید ولکن عمر ولاکن قام عمر ‘‘ ’’ ولاکن میں لاکن عطف کے لئے نہیں ہے اور واؤ عطف کرنے والی ہے۔ اس جملہ کو جو پوری طرح بیان کردیا گیا ہو۔ مثلاً ’’ ماقام زید ولاکن عمر ‘‘ والی مثال کو پورا پورا اس طرح لکھیں گے۔ ’’ ماقام زید ولاکن قام عمر ‘‘ نہیں کھڑا ہوا زید بلکہ کھڑا ہوا عمر۔‘‘ پر معلوم ہوا کہ ولاکن سے پہلے جس فعل کی نفی مذکور ہے۔ اسی کا اثبات ولاکن کے بعد والے فقرہ میں مطلوب ہے۔ صرف فعل کی نسبت فاعلی یا مفعولی میں تبدیلی ہو جاتی ہے۔ یعنی جس فعل کے واقع کی نفی کی جارہی ہے۔ صرف ایک خاص فاعل یا مفعول کے لحاظ سے کی جارہی ہے۔ ورنہ فی الواقع فعل واقع ضرور ہوا ہے۔ مثلاً مثال ’’ ماقام زید ولاکن عمر ‘‘ میں کھڑے ہونے کا عمل یا فعل واقع تو ضرور ہوا ہے۔ اس کی نفی اگر کی گئی ہے تو صرف زید کے لئے یعنی زید کھڑا نہیں ہوا۔ ’’ ولاکن ‘‘ کے بعد عمر مذکور ہے۔ پس اسی فعل کا وقوع عمر کے لئے ضروری ہو جاتا ہے۔ یعنی کوئی نہ کوئی کھڑا ضرور ہوا تھا۔ بعینہ اسی طرح ’’ وما قتلوہ وما صلبوہ ولاکن شبہ لہم ‘‘ میں ہے۔ یہاں باری تعالیٰ ’’ ولاکن ‘‘ سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل بالصلیب اور صلیب پر چڑھائے جانے کی نفی کا اعلان فرماتے ہیں۔ پھر اس کے بعد ’’ ولاکن ‘‘ کا استعمال فرما کر صاف صاف اعلان فرما رہے ہیں کہ قتل وصلب کے افعال ضرور وقوع پذیر ہوئے تھے۔ لیکن کس پر ہوئے تھے۔ (جواب) اس پر جس پر ڈالی گئی شبیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی۔ یہی تفسیر آئمہ مجددین مسلمہ قادیانی سے مروی ہے۔ اگر قادیانی اس کی تصدیق سے انکار کریں تو مرزاقادیانی کے فتویٰ کی رو سے کافر اور فاسق بننے کے لئے تیار ہو جائیں۔

(دیکھو اصول مرزا نمبر:۴)
آگے ارشاد باری ہے: ’’ وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ ما لہم بہ من علم الا اتباع الظن ‘‘ اور تحقیق وہ لوگ (عیسائی) جنہوں نے اس بارہ میں اختلاف کیا وہ تو بالکل شک میں ہیں۔ ان کو کوئی یقینی علم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں ہے ہی نہیں۔ صرف ظنی ڈھکوسلوں کا اتباع کرتے ہیں۔
نوٹ: ’’ ان الذین اختلفوا فیہ ‘‘ کے ’’ الذین ‘‘ میں یہود شامل نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ان کے متعلق تو پہلے ہی اعلان ہوچکا ہے۔ ’’ وقولہم انا قتلنا المسیح ‘‘ یعنی ہم نے یقینا مسیح علیہ السلام کو قتل کردیا ہے۔ قتل مسیح علیہ السلام کے بارہ میں یہود میں نہ کبھی اختلاف ہوا اور نہ اب ہے۔ ہاں عیسائیوں نے اس بارہ میں بہت اختلاف کیا ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے باب میں ذکر کر آئے ہیں۔ عیسائیوں میں بہت سے فرقے ہیں۔ کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ۔ چنانچہ انجیلوں کے پڑھنے والے پر مخفی نہیں۔ ان کے اختلاف کے متعلق باری تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے۔ ’’ مالہم بہ من علم الا اتباع اظن ‘‘ یعنی ان کو تو واقعات کا علم ہی نہیں وہ تو صرف ظن کی پیروی کر رہے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ عیسائی امت کے افراد موقعہ صلب وقتل کے وقت تو حاضر ہی نہ تھے۔ ان کو یقینی علم کہاں سے ملتا۔ چنانچہ حواریوں کا موقعہ سے بھاگ جانا خود مرزاقادیانی نے بھی تسلیم کیا ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے باب میں ذکر کر آئے ہیں۔
یہاں تک اﷲتعالیٰ نے یہود کے فخریہ دعویٰ قتل وصلب مسیح علیہ السلام کا رد کیا۔ آگے ان کے قتل مسیح علیہ السلام کے پختہ عقیدہ کا رد کرتے ہیں۔ یہود نے کہا۔ ہم نے یقینا قتل کیا مسیح علیہ السلام کو۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’ وما قتلوہ یقیناً ‘‘ یقینا یہود نے قتل نہیں کیا عیسیٰ علیہ السلام کو۔ ایک وہم تو پہلے پیدا ہوا تھا۔ یعنی یہ کہ اگر یہود نے مسیح علیہ السلام کو قتل نہیں کیا اور صلیب پر نہیں چڑھایا تو پھر کس کو چڑھایا۔ اس کا جواب ’’ ولکن شبہ لہم ‘‘ سے دیا۔ ’’یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کی شبیہ جس پر ڈالی گئی تھی اس کو قتل کیا اور سولی چڑھایا۔‘‘ یہاں ایک نیا وہم پیدا ہوتا ہے جو پہلے یہودیوں کو بھی لاحق ہوا اور قادیانی جماعت کو بھی آرام نہیں کرنے دیتا۔ وہ یہ کہ پھر حضرت مسیح علیہ السلام کہاں گئے وہ کیا ہوئے۔ اس کا ازالہ اس طرح بیان فرماتے ہیں۔
’’ بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘
{بلکہ اٹھا لیا اﷲتعالیٰ نے ان کو اپنی طرف یعنی آسمان کی طرف۔}
آگے اس رفع جسمانی کی حکمت بیان فرماتے ہیں۔
’’ وکان اﷲ عزیزاً حکیما ‘‘
{اور اﷲتعالیٰ بہت ہی زبردست اور بے حد حکمتوں والا ہے۔}
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم چند علمی نکات سے ناظرین رسالہ کی تواضع کریں۔
۱… ’’ بل ‘‘ ایک عربی لفظ ہے۔ جس کے استعمال سے باری تعالیٰ نے قیامت تک کے لئے قادیانی ایسے محرفین کلام اﷲ کا ناطقہ بند کر دیا ہے۔ کتب نحو کے جاننے والوں سے پوشیدہ نہیں کہ ’’ بل ‘‘ کے بعد والے مضمون اور مضمون ’’ ماقبل ‘‘ کے درمیان تضاد کا ہونا ضروری ہے۔ مثلاً اگر کوئی یوں کہے کہ ’’زید آدمی نہیں بلکہ قادیانی ہے۔‘‘ تو یہ فقرہ ہر ذی عقل کے نزدیک غلط ہے۔ کیونکہ ’’ بل ‘‘ کے پہلے زید کے آدمی ہونے سے انکار ہے اور اس کے بعد اس کے قادیانی ہونے کا اقرار ہے۔ مگر ان دونوں باتوں میں کوئی مخالفت نہیں۔ کیونکہ آخر قادیانی بھی آدمی تو ضرور ہیں۔ پس صحیح فقرہ تو یوں چاہئے۔ ’’زید مسلمان نہیں بلکہ قادیانی ہے۔‘‘ کیونکہ کہنے والے کا مطلب اور عقیدہ یہ ہے کہ قادیانی کافر ہیں جو مسلمان کی ضد ہیں یا یہ فقرہ صحیح ہے۔ ’’زید آدمی نہیں بلکہ جن ہے۔‘‘ کیونکہ زید کے آدمی ہونے کی نفی کر کے اس کے جن ہونے کا اقرار ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ’’بل‘‘ کے پہلے اور مابعد والے مضمون میں ضد اور مخالفت ضروری ہے۔ قتل اور سولی پر چڑھانے اور زندہ اٹھائے جانے میں تو مخالفت ہے۔ مگر قتل اور روح کے اٹھانے میں کوئی مخالفت نہیں۔ بلکہ بے گناہ مقتول کا رفع روحانی تو تمام مذاہب کا ایک مسلمہ اصول ہے۔
۲… ’’ بل ابطالیہ ‘‘ میں جو یہاں باری تعالیٰ نے استعمال فرمایا ہے۔ ضروری ہے کہ: ’’ بل ‘‘ کے مابعد والے مضمون کا فعل، فعل ماقبل سے پہلے وقوع میں آچکا ہو۔ اس کی مثال یوں سمجھئے۔ مشرک کہتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے فرشتوں کو اپنی اولاد بنالیا ہے۔ نہیں یہ غلط ہے۔ بلکہ فرشتے تو اس کے نیک بندے ہیں۔ دیکھئے! یہاں بلکہ ( جس کو عربی میں ’’بل‘‘کہتے ہیں ) سے پہلے مشرکین کا قول فرشتوں کا اﷲتعالیٰ کی اولاد بتلانا مذکور ہے اور ’’ بل ‘‘ کے بعد فرشتوں کے اﷲتعالیٰ کے نیک بندے ہونے کا اعلان ہے۔ فرشتے خدا کے نیک بندے پہلے سے ہیں۔ مشرکین نے ان کے نیک ہونے کے بعد کہا کہ وہ اﷲ کی اولاد ہیں۔
دوسری مثال: ’’وہ کہتے ہیں زید لاہور گیا تھا۔ نہیں بلکہ وہ تو سیالکوٹ گیا تھا۔‘‘
دیکھئے! زید کا سیالکوٹ جانا پہلے وقوع میں آیا تھا۔ اس کے بعد لوگوں نے کہا تھا کہ وہ لاہور گیا تھا۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کو ’’ بل ‘‘ کے بعد استعمال کیاگیا ہے۔ اس لئے ضروری ہوا کہ آپ کا رفع پہلے کیاگیا تھا اور اس کے بعد یہود نے کہا کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کردیا ہے۔ اگر ’’ رفعہ اﷲ ‘‘ میں رفع سے رفع روحانی مراد لیا جائے جو حسب قول وعقیدہ قادیانی جماعت واقعہ صلیب کے ۸۷برس بعد طبعی موت سے کشمیر میں وقوع پذیر ہوا تھا تو پھر یہ کلام مرزاقادیانی کی کلام کی طرح ’’ پنجابی عربی ‘‘ بن کر رہ جائے گا۔ کیونکہ ’’ بل ‘‘ کا استعمال ہمیں اس بات کے ماننے پر مجبور کر رہا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع ہو چکا تھا۔ اس کے بعد یہود نے اعلان قتل کیا۔ قادیانی مذہب قیامت تک اس ’’ بل ‘‘ کے بل (لپیٹ) سے نہیں نکل سکتا۔ ہاں رفع جسمانی کی صورت میں قانون ٹھیک بیٹھتا ہے۔
۳… ’’ بل ‘‘ سے پہلے جس چیز کے قتل اور سولی کا انکار کیا جارہا ہے۔ اسی کے رفع یعنی اٹھا لینے کا اقرار اور اعلان ہورہا ہے۔ ’’ بل ‘‘ سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ جسم (مجموعہ جسم وروح) کے قتل وسولی سے انکار کیاگیا ہے۔ پس ’’ بل ‘‘ کے بعد رفع بھی جسم وروح کے متعلق ہوا اور اٹھانا صرف روح کا مذکور ہوتو یہ بالکل فضول کلام ہے۔ کیونکہ قتل کیا جانا اور سولی دیا جانا روح کے اٹھائے جانے کے مخالف نہیں۔ بلکہ ان دونوں سے بے گناہ مظلوم کا رفع روحانی یقینی ہو جاتا ہے۔
۴… ’’ بل ‘‘ سے پہلے اور ’’ بل ‘‘ کے بعد والے افعال میں جو مفعولی ضمیریں ہیں وہ ساری ایک ہی شخص کے لئے ہونی چاہئیں۔ پہلی ضمیریں ’’ وما قتلوہ وما صلبوہ ‘‘ میں سارے کی ساری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم وروح دونوں کی طرف پھرتی ہیں۔ اس کے بعد ’’ رفعہ اﷲ ‘‘ میں ’’ ہ ‘‘ کی ضمیر بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم وروح دونوں کے لئے ہے نہ کہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کے لئے۔
۵… یہود کا عقیدہ تھا کہ انہوں نے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو قتل کر دیا تھا۔ اکثر عیسائی ان کے اس عقیدہ سے متفق ہوکر کہنے لگ گئے کہ قتل تو کئے گئے۔ مگر پھر وہ بمعہ جسم آسمان پر اٹھا لئے گئے۔ دونوں قوموں کا یہ عقیدہ حضرت رسول کریمﷺ کے وقت میں اسی طرح موجود تھا۔ اگر رفع جسمانی کا عقیدہ غلط ہوتا اور جیسا کہ قادیانی کہتے ہیں۔ شرک ہوتا تو ضروری تھا کہ خدا اس موقعہ پر رفع کے ساتھ روح کا بھی ذکر کر دیتے۔ کیونکہ صرف رفع کے معنی بغیر قرینہ صارفہ کے جسم کا اوپر اٹھانا ہی ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ رفع کے معنی رفع جسمانی اور رفع روحانی دونوں طرح مستعمل ہیں تو بھی ایسے موقعہ پر خصوصیت کے ساتھ رفع روحانی کا اعلان کرنا چاہئے تھا تاکہ عیسائی عقیدہ رفع جسمانی کا انکار اور رد ہو جاتا ۔ بلکہ یہاں ایسا لفظ استعمال کیا کہ جس کے معنی تیرہ سو سال کے مجددین امت محمدیہﷺ اور صحابہ کرامؓ نے بھی وہی سمجھے جو عیسائی سمجھتے ہیں۔
۶… رفع جسمانی سے دونوں مذاہب باطلہ یہودیت اور عیسائیت کی تردید ہوتی ہے۔ وہ اس طرح کہ جب یہود نے کہا ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا تھا اور پھانسی بھی دید یا تھا اور اس وجہ سے انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے (نعوذ باﷲ) لعنتی ہونے کا اعلان کر دیا تو عیسائیوں نے ان سے ہمنوأ ہو کر آپ کا ملعون ہونا تسلیم کر لیا۔ اس کے بعد کفارہ اور تثلیث کا باطل عقیدہ گھڑ لیا۔ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود کے ہاتھوں قتل اور سولی سے بچانے اور زندہ آسمان پر اٹھا لینے کا اعلان کر کے دونوں مذاہب کا باطل ہونا اظہر من الشمس کر دیا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے وقوع پذیر ہونے کا تو عیسائیوں کا پہلے سے عقیدہ ہے۔ مرزاقادیانی یا ان کی جماعت نے اس کو ثابت کر کے عیسائیت کے عقائد کی ایک گونہ تائید کی ہے۔ نہ کہ تردید۔
۷… رفع کے متعلق ہم ببانگ دہل یہ اعلان کرتے ہیں کہ جب رفع یا اس کے مشتقات میں سے کوئی سالفظ بولا جائے اور اﷲتعالیٰ فاعل ہو اور مفعول جوہر ہو (عرض نہ ہو) اور اس کا صلہ الیٰ مذکور ہو۔ مجرور اس کا ضمیر ہو۔ اسم ظاہر نہ ہو اور وہ ضمیر فاعل کی طرف راجع ہو۔ وہاں سوائے آسمان پر اٹھا لینے کے دوسرے معنی ہوتے ہی نہیں۔ اس کے خلاف اگر کوئی قادیانی قرآن، حدیث یا کلام عربی سے کوئی مثال پیش کر سکے تو منہ مانگا انعام لے۔ لیکن یاد رکھیں قیامت تک ایسا کرنے سے قاصر رہیں گے اور آخر ذلیل ہوں گے۔
۸… قادیانی عقیدہ یہ ہے کہ یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کرنے میں ناکام رہے اور صورت اس کی یہ ہوئی کہ عیسیٰ علیہ السلام کو انہوں نے پکڑ لیا۔ ان کو طمانچے مارے، ذلیل وخوار کیا۔ منہ پر تھوکا، سولی پر چڑھایا۔ ان کے جسم میں کیلیں ٹھونکی گئیں۔ اس درد وکرب سے وہ بیہوش ہوگئے۔ یہود انہیں مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے۔ مگر فی الواقع اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کو ’’کمال قدرت اور حکمت‘‘ سے ان کے جسم سے جدا نہ ہونے دیا۔ یہی اﷲتعالیٰ کا مکریعنی تدبیر لطیف تھی۔ ہمارا یہاں یہ سوال ہے کہ اس سے ذرا پہلے یہود نامسعود کا فعل مذکور ہے۔ ’’ وقتلہم الانبیاء بغیر حق ‘‘ یعنی یہود انبیاء علیہم السلام کو ناحق قتل کرنے کے سبب ملعون قرار دئیے گئے۔ اب ظاہر ہے کہ یہود کے نزدیک وہ تمام انبیاء جھوٹے تھے اور یہود انہیں قتل کر کے ملعون ہی خیال کرتے تھے۔ کیونکہ وہ ہر مجرم واجب القتل کو لعنتی قرار دیتے تھے اور ذریعہ قتل ان کے پہلے صلیب پر لٹکانا اور بعد اس کے اس کی ہڈیاں توڑ توڑ کر مارڈالنا ہوتا تھا۔ جیسا کہ ہم اسی باب میں پہلے بیان کر آئے ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے یہود کے دعویٰ قتل انبیاء کا رد نہیں کیا۔ بلکہ اس قتل کو یہود کی لعنت کا باعث قرار دیا۔ اسی طرح اگر یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ذلیل وخوار کرنے اور صلیب پر چڑھانے میں کامیاب ہو جاتے تو اﷲتعالیٰ ’’ وقولہم ‘‘ کی بجائے ’’ وصلبہم ‘‘ فرماتے۔ اگر یہود قتل مسیح علیہ السلام میں کامیاب ہو جاتے تو ’’ وقولہم ‘‘ کی بجائے ’’ وقتلہم ‘‘ ارشاد ہوتا۔ لیکن ہر صورت میں ملعون یہود ہی ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع روحانی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ رفع روحانی کے لئے آدمی کے اپنے اعمال ذمہ دار ہیں۔ دنیامیں کوئی مذہب اس بات کا قائل نہیں کہ بے گناہ مصلوب ومقتول لعنتی ہو جاتا ہے۔ ہاں قادیانی مذہب کا اصول ہو تو ممکن ہے۔ کیونکہ اس کی ہر بات اچنبی اور اچھوتی ہے۔
مطلب اس ساری بحث کا یہ ہے کہ جس طرح دیگر انبیاء علیہم السلام کا باوجود مقتول ومصلوب ہو جانے کے خدا کے نزدیک رفع روحانی ہو چکا تھا اور ان کی صفائی کی ضرورت ہی درپیش نہیں ہوئی۔ اس طرح اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی مقتول یا مصلوب ہو جاتے تو اس کی صفائی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ کیونکہ وہ تو مظلوم تھے۔ پس ثابت ہوا کہ یہاں رفع سے مراد رفع روحانی نہیں بلکہ رفع جسمانی ہی ہے۔
۹… قادیانی نبی اور اس کی جماعت نے ’’ بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘ میں رفع سے مراد عزت کی موت قرار دیا ہے۔ ہم چیلنج کرتے ہیں کہ تمام جہاں کے قادیانی قرآن یا حدیث یا کلام عرب سے رفع بمعنی عزت کی موت نہیں دکھا سکتے۔ اگر ایک ہی مثال ایسی دکھادیں تو علاوہ مقررہ انعام کے ہم دس ہزار روپے اور انعام دینے کا اعلان کرتے ہیں۔
اور اگر ایسی ایک بھی مثال پیش نہ کر سکیں اور یقینا قیامت تک بھی پیش نہ کر سکیں گے۔ پس کیوں وہ قیامت سے بے خوف ہوکر محض نفسانی اغراض کے لئے مخلوق خدا کو فریب اور دھوکا کا شکار کر رہے ہیں۔
۱۰… ’’ الی ‘‘ کے متعلق قادیانی اعتراض کیا کرتے ہیں کہ خدا کی طرف رفع سے مراد جسمانی رفع اس واسطے صحیح نہیں کہ خدا کچھ آسمان پر تھوڑا ہی بیٹھا ہوا ہے۔ وہ تو ہر جگہ موجود ہے۔ کیا خدا زمین پر موجود نہیں ہے۔ اس کا جواب ملاحظہ ہو۔

 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
آسمان پر اٹھانا

’’خدا بے شک ہر جگہ موجود ہے۔ لیکن چونکہ اوپر کی طرف میں ایک خاص عظمت ورعب پایا جاتا ہے۔ اس لئے کتب سماوی میں ’’ الیٰ اﷲ ‘‘ (خدا کی طرف) سے ہمیشہ آسمان کی طرف ہی مراد لی گئی ہے۔‘‘

دلائل ذیل ملاحظہ ہوں:
الف… قرآن کریم میں ارشاد باری ہے۔ ’’ أامنتم من فی السمائ ‘‘ کیا تم بے خوف ہوگئے۔ اس سے جو آسمانوں میں ہے۔ دیکھئے یہاں خدا کی طرف سے آسمان مراد لیاگیا ہے۔
ب… ’’ الیٰ ربک ‘‘ قرآن شریف میں وارد ہوا ہے۔ جس کے معنی ’’خدا کی طرف‘‘ ہیں۔ خود مرزاقادیانی نے اس کی تفسیر میں ’’ الیٰ السمائ ‘‘ یعنی آسمان کی طرف لکھا ہے۔

(تحفہ گولڑویہ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۱۰۸)
ج… قول مرزا’’خدا کی طرف وہ اونچی ہے جس کا مقام انتہائی عرش ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۱۰۸)
دمسیح کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی۔
(ازالہ اوہام ص۲۶۴، خزائن ج۳ ص۲۳۳)
ھ… الہام مرزا: ’’ ینصرک رجال نوحی الیہم من السمائ ‘‘ یعنی ایسے لوگ تیری مدد کریں گے جن پر ہم آسمان سے وحی نازل کریں گے۔
(تبلیغ رسالت ج۲ ص۱۰۸، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۳۲۸)

پس ثابت ہوا کہ رفع الیٰ اﷲ سے مراد رفع الیٰ السماء ہی ہوتی ہے۔
۱۱… ’’ وکان اﷲ عزیزاً حکیما ‘‘ کے الفاظ نے تو اسلامی تفسیر کی صحت پر مہر تصدیق ایسی ثبت کر دی ہے کہ قادیانی قیامت تک اس مہر کو توڑ نہیں سکتے۔
اس کی تفسیر ہم قادیانیوں کے مسلمہ امام اور مجدد صدی ششم امام فخرالدین رازیؒ کے الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
’’ والمراد من العزۃ کمال القدرۃ ومن الحکمۃ کمال العلم فنبہ بہذا علیٰ ان رفع عیسیٰ من الدنیا الیٰ السمٰوات وان کان کالمتعذر علی البشر لکنہ لا تعذر فیہ بالنسبۃ الیٰ قدرتی والیٰ حکمتی ‘‘

(تفسیر کبیر جز۱۱ ص۱۰۳)
’’اور مطلب عزیز کا قدرت میں کامل، مطلب حکیم کا علم میں کامل ہے۔ پس ان الفاظ میں خداتعالیٰ نے بتلادیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دنیا سے آسمان کی طرف اٹھانا۔ اگرچہ انسان کے لئے مشکل سا ہے۔ مگر میری قدرت اور حکمت کے لحاظ سے اس میں کوئی وجہ باعث اشکال نہیں اور کسی قسم کا اس میں تعذر نہیں ہوسکتا۔‘‘
نوٹ: ہماری اس تفسیر سے جو قادیانی انکار کرے اس کو (مرزا قادیانی کا اصول نمبر:۴) پڑھ کر سنا دیں۔ پھر بھی اصرار کرے تو اسے کہیں کہ جواب لکھ کر ہم سے انعام طلب کرے۔

چیلنج
اس آیت کی تفسیر کا ملخص یہ ہے کہ یہ آیت ببانگ دہل اعلان کر رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا نے زندہ اسی جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھا لیا تھا اور یہی تفسیر رسول کریمﷺ، آپﷺ کے صحابہ کرامؓ نے سمجھی اور آئمہ مجددین مسلمہ قادیانی بھی انہیں معنوں پر جمے رہے۔ (کوئی قادیانی اس کے خلاف ثابت نہیں کر سکتا) پھر قادیانی علوم عربیہ سے نابلد محض ہونے کے باوجود کیوں اپنی تفسیر مخترعہ پر ضد کر کے اپنی آخرت خراب کر رہے ہیں۔ انہیں خدا کے قہر سے بے خوف نہیں ہونا چاہئے۔ ’’ ان بطش ربک لشدید ‘‘ کا ورد ہر وقت ان کے لئے ضروری ہے۔
 
Top