ختم نبوت اور بزرگان امت و دین
قارئین محترم! قادیانی گروہ ‘امت محمدیہؐ کے چند بزرگان دین کی چند عبارتوں کو غلط معانی پہناکر امت کے دلوں میں وسوسہ ڈالنے کی ناپاک ونامراد کوشش کرتے ہیں۔قادیانیوں کے اس دجل کو پارہ پارہ کرنے کے لئے ابتدائی چند اصولی باتیں زیر نظر رہنی چاہیں۔
نمبر۱… پہلے آپ پڑھ چکے ہیں کہ قرآن وسنت سے کس طرح کتربیونت اور تحریف کے ذریعہ غلط مطلب برآری کرتے ہیں۔ جو گروہ قرآن وسنت پر اپنے دجل کا’’ کلہاڑہ ‘‘چلانے سے باز نہیں آتا۔ اگر وہ بزرگان دین کی عبارتوں میں قطع وبرید کرکے یاسیاق وسباق سے ہٹاکر اپنے دجل وتلبیس کا مظاہرہ کرے تو یہ امر ان سے کوئی بعید نہیں ۔
نمبر۲… ہمارا دعویٰ ہے کہ رحمت دو عالم ﷺ کے زمانہ مبارک سے لے کر اس وقت تک امت محمدیہؐ میں ایک شخص بھی ایسا پیدا نہیں ہوا جس کا یہ عقیدہ ہو کہ حضور ﷺ کے بعد کوئی شخص نبی بن سکتا ہے یا یہ کہ آپ ﷺ کے بعد فلاں شخص نبی تھا۔ ہے ہمت تو قادیانی کسی ایک بزرگ کا نام پیش کریں قیامت کی صبح تک وہ ایسا نہیں کرسکتے۔
نمبر۳… اکابرین امت میں سے بعض حضرات نے ’’اگر ہوتے تو ایسے ہوتے‘‘ بعض روایات کی یہ توجیہ کی ہے ۔ اہل علم جانتے ہیں کہ یہ توجیہات واحتمالات جو فرض محال کے درجہ میں ہوں ۔ اگر ‘مگر ‘چونکہ‘ چنانچہ کی قیدیں جن کے ساتھ لگی ہوئی ہوں ان سے کوئی بدعقیدہ ہی بددیانتی سے عقیدہ کے باب میں استدلال کرے گا۔ ورنہ عقائد میں نص صحیح وصریح کے علاوہ کسی اور کو راہ گزر ہی نہیں ملتا۔چہ جائیکہ ان سے عقیدہ ثابت کیا جائے۔ پھر جن حضرات نے یہ توجیہ کی کہ’’ اگر ہوتے تو ایسے ہوتے‘‘ وہ سب اس بات کے قائل ہیں۱)… آپ ﷺ پر نبوت ختم ہے۔(۲)… آپ ﷺ کے بعد کوئی کسی قسم کا شخص نبی نہیں ہوسکتا۔(۳)… آپ ﷺ کے بعد آج تک کوئی شخص نبی نہیں بنا۔(۴)… جس شخ نے آپ ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا ان کو ان سب بزرگوں نے کافر گردانا(جیسا کہ وضاحت آگے آرہی ہے) جب وہ ختم نبوت کے قائل ہیں آپ ﷺ کے بعد مدعی نبوت کو کافر قرار دیتے ہیں تو ان کی ’’ اگر ہوتے تو ایسے ہوتے ‘‘ لوکان فیھما آلۃ الااﷲ لفسدتا کے قبیل سے ہے۔ تعلیق بالمحال محال ہوتا ہے‘ لیکن قادیانی دجل کو دیکھئے کہ وہ محال کو احتمال اور پھر احتمال کو استدلال سمجھ کر بے برکی اڑائے جاتے ہیں۔ ومایخدعون الاانفسھم
نمبر۴… اکابرین نے ختم نبوت کا یہی معنی سمجھاکہ اب آپﷺ کے بعد کسی شخص کو منصب نبوت پر سرفراز نہیں کیاجائے گا‘ کسی کو نبی نہیں بنایا جائے گا‘ اب کسی کو نبوت نہ ملے گی‘ یہ نہیں کہ پہلی سب رسالتیں ختم(مٹ) ہوگئیں ۔ ہاں اب ان رسالتوں میں سے کسی کا حکم جاری اور نافذ نہیں۔ مفہوم ختم نبوت کا تقاضا ہے کہ پہلے پیغمبروں میں سے کوئی تشریف لائیں (جیسے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام)تو وہ آپ ﷺ کی شریعت کے ماتحت ومطیع ہوکرآئیں گے کیونکہ یہ دور دورمحمدی ؐ ہے ۔آپ ﷺ کی شان خاتمیت کے پیش نظر دو باتیں ہیں۔ اول یہ کہ کسی قسم کا کوئی نیا نبی پیدا نہ ہو ۔ دوم یہ کہ پہلوئوں میں سے کوئی آجائے تو وہ آپ ﷺ کی شریعت کے احکامات کے تابع ہوکر قران وسنت کا مبلغ ہوکر رہے (جیسے معراج کی رات)خلاصہ یہ کہ آپ ﷺ کی نبوت جاری وساری ہے۔ قیامت کی صبح تک اس کی شاہی ہے۔ آپ ﷺ کے بعد کسی کو نبوت ملنا ممکن نہیں رہا بلکہ بندوبس ہوگیا ہے۔ نبوت کی رحمت جو پہلے تغیر پذیر تھی اب پوری آن وبان کمال وشان کے ساتھ نوع انسانی کے پاس آپ ﷺ کی شکل مبارک میں ہمیشہ کے لئے موجود رہے گی۔ ہم سے کوئی نعمت چھینی نہیں گئی بلکہ امت محمدیہ ؐ نبوت کی رحمت کے مسئلہ پر آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے ایسے مالا مال کردی گئی ہے کہ اب کسی اور نبوت کی ضرورت نہیں۔ جس طرح سورج نکلنے کے بعد کسی چراغ کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ آپ ﷺ کے آفتاب رسالت کے ہوتے ہوئے نوع انسانی کا کوئی فرد بشر کسی اور چراغ نبوت کا محتاج نہیں۔
نمبر۵…آنحضرتﷺ زمانہ کے اعتبار سے تمام انبیاء علیہم السلام کے آخر میں تشریف لائے اور اپنے مقام ومرتبہ ‘ منصب وشان کے اعتبار سے بھی آپ ﷺ پر مراتب ختم ہوگئے۔ آپ ﷺ پر تمام مراتب کی انتہافرمادی گئی۔ اس ختم نبوت مرتبی کو ختم نبوت زمانی لازم ہے۔ ان میں تباین وتناقض نہیں اور نہ ہی ختم نبوت مرتبی کے بیان سے ختم نبوت زمانی کی نفی لازم آتی ہے۔قادیانی وسوسہ اندازوں نے ایک کے اقرار کو محض اپنے دجل سے دوسرے کی نفی لازم قرار دے کر اپنی غلط برآری کے لئے چوردروازے کھول کر مرزا کو اندر داخل کرنے کے درپے ہوئے۔
بزرگان اسلام میں سے جن حضرات نے آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت مرتبی بیان کی قادیانی وسوسہ انداز فوراً کودپڑے کہ ہماری تائید ہوگی اور انہوں نے ان بزرگوں کی عبارات پر سرسری نظر بھی نہ کی جن میں حضور ﷺ کی ختم نبوت زمانی کا ذکر صریح طور پر موجود تھا۔
وہ تمام حضرات ختم نبوت مرتبی کی طرح ختم نبوت زمانی کے قائل تھے اور ان کے منکر کو کافر سمجھتے تھے۔بعض بزرگ ایسے تھے جنہوں نے حضرت عیسیٰ بن مریم کی آمد ثانی کے ذکر میںحضور ﷺ کے بعد ایک پرانے نبی کی آمد کا بیان کیاتھا۔ قادیانی وسوسہ انداز وں نے اسے امت میں ایک نئے نبی کی آمد کا جواز قرار دے کر مسیح بن مریم کی بجائے غلام احمد قادیانی بن چراغ بی بی کو باور کرلیا۔ یہ دو باتیں (الف) ختم نبوت مرتبی۔(ب) حضرت عیسیٰ بن مریم کی آمد ثانی کوخواہ مخواہ حضور ﷺ کی ختم نبوت زمانی کے مقابل لاکھڑا ۔ اس سلسلہ میں قادیانی جو عبارات پیش کریں ان کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو قادیانی دجل نقش برآب یا تار عنکبوت سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ قادیانی اپنے الحادی عقیدہ کو کشید کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ ضروریات دین کو تاویل وتحریف کا آب ودانہ مہیا کرنا اھل حق کا شیوہ نہیں۔
نمبر۶… جن حضرات کی عبارتوں سے قادیانی اپنے الحادی عقیدہ کو کشید کرنے کے لئے سعی لاحاصل کرتے ہیں۔ان کے پیش نظرجو امور تھے ان کی تفصیل یہ ہے :
(الف)… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تشریف لانا بظاہر آیت ختم النبیین اور حدیث لانبی بعدی کے منافی معلوم ہوتا ہے اس کے متعلق حضرت شیخ محی الدین ابن عربی ؒ نے فرمایا کہ :
’’ وان عیسیٰ علیہ السلام اذا نزل مایحکم الا بشریعۃ محمد ﷺ فتوحات مکیہ ج۱ باب۱۴ ص ۱۵۰‘‘{حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب تشریف لائیں گے تو وہ صرف نبی کریم ﷺ کی شریعت پر عمل پیرا ہوں گے اس کے مطابق فیصلہ کریں گے یعنی اپنی نبوت ورسالت کی تبلیغ کے لئے نہیںآنحضرت ﷺ کی شریعت کے اجراء ونفاذ خدمت وتمکین کے لئے تشریف لائیں گے۔}
(ب)… حدیث لم یبق من النبوۃ الا المبشرات (نبوت سے مبشرات کے علاوہ کچھ باقی نہیں)میں نبوت کے ایک جز کو باقی کہا گیا ہے۔ یہ حدیث سطحی طور پر لانبی بعدی کے مخالف نظر آتی ہے۔حضرت محی الدین ابن عربی نے اس کے متعلق تحریر فرمایا:
’’ قالت عائشہ ؓ اول مابدیٔ بہ رسول اﷲﷺ من الوحی الرویا فکان لایری رویا الاخرجت مثل فلق الاصباح وھی التی ابقی اﷲ علی المسلمین وھی من اجزاء النبوۃ لما ارتفعت النبوۃ باالکلیۃ ولھذا قلنا انما ارتفعت نبوۃ التشریح فھذا معنی لانبی بعدہ۰ فتوحات مکیہ ج ۲ باب ۷۳ سوال ۲۵‘‘{حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کو وحی سے پہلے سچے خواب نظر آتے تھے۔ جو چیز آپ ﷺ رات کو خواب میں دیکھتے تھے وہ خارج میں صبح روشن کی طرح ظہور پذیر ہوجاتی اور یہ وہ چیز ہے جو اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں میں باقی رکھی اور یہ سچا خواب نبوت کے اجزاء میں سے ہے۔پس اس اعتبار سے نبوت کلی طور پر بند نہیں ہوئی اور اسی وجہ سے ہم نے کہا کہ لانبی بعدی کا معنی یہ ہے کہ حضور ﷺ کے بعد نبوت تشریعی باقی نہیں۔ (کیونکہ رویاء صالحہ مبشرات باقی ہیں ۔)}
اس عبارت سے روز روشن کی طرح واضح ہوا کہ :
نمبر۱… نبوت میں سے سوائے اچھے خوابوں کے کچھ باقی نہیں ۔ کیا ہر اچھا خواب دیکھنے والا نبی ہوتا ہے ۔ہر گزنہیں ۔ ناخن انسان کے جسم کا جز ہے ‘ اینٹ مکان کا جز ہے‘ مگر ناخن پر انسان کا اور اینٹ پر مکان کا اطلاق کوئی جاہل نہیں کرتا۔ اسی طرح اچھے خواب دیکھنے والے کو آج تک امت کے کسی فرد نے نبی قرار نہیں دیا۔
نمبر۲… نبی چاہے وہ صاحب کتاب وشریعت ہو یا صاحب کتاب وشریعت نہ ہو بلکہ کسی دوسرے نبی کی کتاب وشریعت کی تابعداری کا اسے حکم ہو۔ غرض کسی بھی نبی کو جو وحی ہوگی وہ امرونہی پر مبنی ہوگی۔جیسے حضرت ہارون علیہ السلام کو وحی ہو‘ کہ آپ موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی تابعداری کریں تو یہ امر ہے ۔ حضرت شیخ ابن عربی اور اس قبیل کے دوسرے صوفیاء کے نزدیک ہر نبی کو جو بھی وحی ہو تشریعی ہوتی ہے ۔اب وہ بھی باقی نہیں رہی ۔یعنی اب کسی شخص کو انبیاء والی وحی نہ ہوگی بلکہ غیر تشریعی جس میں بجائے امرونہی کے ایقان واطمینان کا الہام وبشارت ہو یہ اولیاء کو ہوگا ۔ ان اولیاء کو وہ غیر تشریعی قرار دیتے ہیں پھر کسی بھی ولی کو وہ غیر تشریعی نبی کا نام نہیں دیتے‘ نہ ہی ان کی اطاعت کو فرض قرار دیتے ہیں‘ نہ ہی ان اولیاء کے انکار کو کفر قرار دیتے ہیں ۔ خدا لگتی قادیانی بتائیں کہ اس غیر تشریعی نبی کے لفظ سے وہ نبوت ثابت کررہے ہیں یا صرف ولایت کو باقی تسلیم کررہے ہیں۔
نمبر۳… حضور ﷺ کے بعد تشریعی نبوت بند ہے۔ یہی معنی ہے لانبی بعدی کا غیر تشریعی یعنی اولیاء وہ ہو سکتے ہیں ۔ اولیاء کے نیک خوابوں کی بنیاد پر ان کو آج تک کسی نے نبی قراردیا؟۔ اس کو یوں فرض کریں کہ نبی خبر دینے والے کو کہتے ہیں اگر خبر وحی سے ہوتو وہ نبی ہوگا‘ واجب اطاعت ہوگا ‘ اس کی وحی خطاء سے پاک ہوگی ‘ شریعت ہوگی‘ اس کا منکر کافر ہوگا اور اگرخبر اس نے الہام وغیرہ سے دی تو وہ نبی نہ ہوگا ‘ واجب الاطاعت نہ ہوگا ‘ اس کی خبر (الہام) خطا سے پاک نہ ہوگی‘ شریعت نہ ہوگی ‘ اس کا منکر کافر نہ ہوگا‘ نہ اس پر نبی کے لفظ کا اطلاق کیا جائے ۔ یہ غیر تشریعی وحی (الہام ) والا صرف ولی ہوگا۔ فرمائیے یہ ختم نبوت کا اعلان ہے یا انکار۔
(ج)… بعض علماء وصوفیاء کو وحی والہام سے نوازا جاتا ہے ۔ اس سے بادی النظر میں ختم نبوت سے تعارض معلوم ہوتا ہے۔ اس کے متعلق شیخ ابن عربی تحریر کرتے ہیں:’’فلااولیاء والا نبیائ‘ الخبر خاصۃ ولانبیاء اشرائع والرسل والخبر والحکم ۰ فتوحات مکیہ ج ۲ باب ۱۵۸ ص ۲۵۷‘‘
انبیاء واولیاء کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے خبر خاصہ (وحی والہام) کے ذریعہ خصوصی خبر دی جاتی ہے اور انبیاء کے لئے تشریعی احکام ‘ شریعت ورسالت‘ خبر واحکام نازل ہوتے ہیں۔ شریعت ورسالت ‘ خبر واحکام گویا انبیاء کا خاصہ ہے اور پھر شیخ ابن عربی جس خبر (الہام ورہنمائی)کو اولیاء کے لئے جاری مانتے ہیں اس کو تو وہ حیوانات میں بھی جاری مانتے ہیں ۔ فرماتے ہیں :
’’وھذہ النبوۃ جاریۃ ساریۃ فی الحیوان مثل قولہ تعالیٰ واوحی ربک الی النحل۰ فتوحات مکیہ ج ۲ باب ۱۵۵ ص ۲۵۴‘‘اور یہ نبوت حیوانات میں بھی جاری ہے جب کہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تیرے رب نے شہد کی مکھی کو وحی کی ۔
اب شیخ ابن عربی کی اس صراحت نے تو یہ بات واضح کردی کہ وہ جہاں پر نبوت کو اولیاء کے لئے جاری مانتے ہیں۔ ان کو وحی نبوت نہیں بلکہ خبر ولایت سمجھتے ہیں جو صرف رہنمائی تک محدود ہے۔ احکام واخبار امر ونہی شریعت ورسالت کا اس سے تعلق نہیں ہے یہ صرف رہنمائی ہے اس پر انہوں نے لفظ نبوت کا استعمال کیا اور گھوڑے‘ گدھے‘ بلی‘ چھپکلی‘ چمگادڑ ‘الو اور شہد کی مکھی تک میں اس کوجاری مانتے ہیں ۔ کیا یہ نبی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس سے وہ صرف رہنمائی مراد لے رہے ہیں کہ یہ رہنمائی وہدایت تو باری تعالیٰ ان جانوروں کو بھی کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ حقیقت صاف واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت شیخ اکبر ؒ تشریعی اور غیر تشریعی نبوت کا جو فرق بیان فرماتے ہیں ‘ ان کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضور ﷺ کے بعد کسی کو نبوت ورسالت مل سکتی ہے لیکن تشریعی نہیں ہوسکتی بلکہ وہ تو یہ فرماتے ہیں کہ جو وحی نبی ورسول پر نازل ہوتی ہے وہ تشریعی ہی ہوتی ہے اس میں اوامرو نواحی ہوتے ہیں۔ حضور نبی کریم ﷺ کے بعدکسی پر وحی تشریعی نازل نہ ہوگی۔ اس لئے حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ البتہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی اﷲ نازل ہوںگے اور وہ بھی شریعت محمدیہؐ پر عمل کریں گے ۔ نیز نبوت کا ایک جز مبشرات قیامت تک باقی ہے اور بعض خواص کو الہام اور وحی ولایت ہوسکتی ہے لیکن کسی پر نبی اور رسول کا لفظ ہرگز نہیں بولا جاسکتا ۔ فرماتے ہیں:’’ کذالک اسم النبی زال بعد رسول اﷲ ﷺ فانہ زال التشریح المنزل من عنداﷲ بالوحی بعدہﷺ۰ فتوحات مکیہ ج۲ ص۵۸ باب۷۳ سوال۲۵‘‘
اسی طرح سے آنحضرت ﷺ کے بعد نبی کا لفظ کسی پر نہیں بولا جاسکتا کیونکہ آپ ﷺ کے بعد وحی جو تشریعی صورت میں صرف نبی پر ہی آتی ہے ۔ ہمیشہ کے لئے ختم ہوچکی ہے۔
مطلب واضح ہے کہ نبی وہ ہوتا ہے کہ جو تشریعی احکام لاتا ہے۔ حضور ﷺ کے بعد احکام شریعہ (اوامرونواہی )کا نزول ممتنع اور محال ہے۔ اس لئے کسی پر لفظ نبی کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔