خود کفالت سے خودکشی تک
دنیا کے دس امیر ترین ارب پتیوں میں سے ۴ کا تعلق ہندوستان سے ہے ملک میں باہری سرمایہ کی باڑھ آئی ہوئی ہے؛ بیرونی زرمبادلہ میں اربوں ڈالر اکٹھا ہیں ہماری کمپنیاں اور سرمایہ دار بیرونی ممالک اور یوروپی کی صنعتیں خرید رہے ہیں ایک تصویر یہ ہے، اور یہ بھی ایسی تصویر کا حصہ ہے کہ یہاں کا 70% عوام شدید بیماری کی حالت میں زندگی گذار رہا ہے۔ تازہ ترین سروے میں کہ دیہات کے عوام ۸ سے ۱۲ روپے روزانہ پر زندگی گذار رہے ہیں اور اِن کی تعداد کم از کم کل آبادی کا ٪۲۵ ہے۔ یہاں مہنگائی لگاتار بڑھ رہی ہے، بجٹ کے بعد سے روزانہ ضرورت کی اہم ترین اشیاء میں 20% کی بڑھوتری ہوئی۔ آٹا، دال، چاول، کھانے کا تیل سب کا سب روزانہ کے حساب سے مہنگا ہوا ہے۔ مزید یہ کہ سرکار اور بین الاقوامی ادارہ حالات بگڑنے، اناج کی بین الاقوامی پیداوار کم ہونے، گیہوں چاول وغیرہ ضروری چیزوں کی کمیابی اور کمی پر متنبہ کررہے ہیں۔ بتایا جارہاہے کہ (۱) آبادی بڑھ رہی ہے (۲) ماحولیات کا بگڑنا اس کے لئے ذمہ دار ہے وغیرہ وغیرہ، مگر اصل حقائق پر پردہ ڈالا جارہا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ۱۷۷۰/ سے ۱۸۸۰/ تک جب آبادی آج کی آبادی کا صرف 10% تھی تب صرف بھارت میں ۲۷ بار اکال (قحط) پڑا ۱۸۵۰/ سے ۱۹۴۷/ تک بیس (۲۰) بار سوکھا پڑا اور بیس لاکھ لوگ بھکمری کا شکار ہوئے۔ اس بات کو بھی چھپایا جارہاہے کہ ۱۹۴۷/ میں ہمارے یہاں اناج کی پیداوار سالانہ ۵۰ لاکھ ٹن تھی ۱۹۹۸/ میں ۱۹۸ لاکھ ٹن ہوگئی۔ دنیا بھر میں گیہوں کا اسٹاک ۱۰۷ ملین میٹرک ٹن ہے جو ۲۰۰۱/ میں ۱۹۷ ملین میٹرک ٹن تھا۔ چاول آج ۷۱ ملین میٹرک ٹن ہے جبکہ ۲۰۰۱/ میں ۱۳۶ ملین میٹرک ٹن تھا۔ بہت بڑا سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ پیداوار کم کیوں ہورہی ہے؟ اس میں کون کون سے عوامل کارفرما ہیں؟ خوراک کی قلت مصنوعی ہے یا حقیقی؟ کیا یہ دنیا کی ضرورت کیلئے کافی نہیں ہے؟ کیا اس قلت پیداوار کے لئے:
(۱) حکومتوں کی زراعت پر کم ترجیح (۲) زراعت میں سرمایہ دارانہ استحصالی ذہنیت کی کارفرمائی (۳) افسروں کی چوریاں (۴) تاجروں کی منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی (۵) زراعت میں غیر ضروری طور پر مشینوں، مصنوعی کھاد اور کیڑے مار ادویات کا استعمال (۶) ٹھیکہ پر کاشت Contract forming (۷) کم خوشحال لوگوں کے ذریعہ زیادہ غریب لوگوں کے مقابلہ پانچ گنا زیادہ اناج کی کھپت (۸) روایتی اناج کی کھیتی کے بجائے نقد فصلوں کی طرف حکومتوں کی طرف سے پیدا کیاگیا رجحان (۹) ماحولیاتی آلودگی (۱۰) غذائی اجناس کا بطور ایندھن استعمال وغیرہ وغیرہ اہم عوامل ہیں جنھیں نظرانداز کرکے بلکہ جان بوجھ کر چھپاکر صرف آبادی کے سر ٹھیکرا پھوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ہمارا ملک ہی نہیں دنیا بھر کی آبادی کا 75% دیہاتوں میں رہتا ہے (عالمی بینک کے چیف اکنامسٹ فرینکوس) اور ان کی گذر بسر زراعت پر ہی ہے۔ مگر لگاتار اس آبادی کا حصہ مجموعی قومی پیداوار میں کم سے کم ہورہا ہے۔ ۸۳-۱۹۸۲/ میں 36.4% تھی اور ۰۷-۲۰۰۶/ میں لگ بھگ آدھی 18.5% رہ گئی ہے۔ جبکہ خدمات (سروس) اور صنعت کی حصہ داری 39% اور 19% ہوگئی ہے۔ (۱۹۹۱/) سرکاروں کی ترجیح میں زراعت بہت نیچے چلی گئی مجبور ہوکر اب عالمی بینک کو بھی کہنا پڑا کہ زراعت پر 4% کل بجٹ کے مقابلہ زیادہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی زرعی انڈسٹری پر ٹیکس کم کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ حکومتوں نے زرعی میدان میں ہرحصہ میں کم خرچ کیا ہاں مصنوعی کھاد وغیرہ پر سبسڈی دی کیونکہ اس میں بڑے سرمایہ داروں کا فائدہ ہوتا ہے۔ جبکہ اس کھاد کے استعمال نے اب اپنے برے نتائج دکھانے شروع کردئیے ہیں۔ فوڈ پالیسی کے صلاح کار دیویندر شرما کا کہنا ہے کہ آج کی پیداوار سے ہم ۱۲ سلین لوگوں کی ضرورت پوری کرسکتے ہیں، جبکہ آج آبادی ۶ سلین ہی ہے۔ مگر اس کے لئے ہمیں (۱) سیاسی بحرانوں سے نجات (۲) مشینی کرن اور کیمیاوی کھادوں کا استعمال کم کرنا ہوگا (۳) روایتی طریقہ کی کھیتی کو اپنانا ہوگا تو آج بھی ہم اس سطح سے تین گنا زیادہ پیداوار کرسکتے ہیں۔