دوسرا اختلاف
تمام مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں یعنی آخری نبی ہیں جیسا کہ نص قرآنی ما کان محمد ابا احمد من رجا لکم ولٰکن رسول اللہ وخاتم النبین اور احادیث متواترہ اور اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین اور امت محمدیہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تیرہ سو برس کے تمام علماء متقدمین اور متاخرین کے اتفاق سے یہ مسلم ہے کہ نبوت و رسالت محمد رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ختم ہو چکی ہے ۔یہ اسلام کا اساسی، اصولی اور بنیادی عقیدہ ہے جس میں کسی اسلامی فرقہ کا اختلاف نہیں۔
مرزا غلام احمد کہتا ہے کہ نبوت حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر ختم نہیں ہوئی، آپ کے بعد بھی نبوت کا دروازہ کھلا ہوا ہے گویا کہ مرزا صاحب کے زعم میں حضور خاتم النبین نہیں ہے بلکہ فاتح النبین ہیں یعنی نبوت کا دروازہ کھولنے والے ہیں۔(روحانی خزائن جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 306)
امت محمدیہ میں سب سے پہلا اجماع
حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد امت محمدیہ میں جو سب سے پہلے اجماع ہوا وہ اسی مسئلہ پر ہوا کہ جو شخص محمد رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد دعویٰ نبوت کر ے اس کو قتل کیا جائے ۔
اسود عنسی نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ حیات میں دعویٰ نبوت کیا حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک صحابی کو اسکے قتل کیلئے روانہ فرمایا صحابی نے جا کر اسود عنسی کا سر قلم کیا۔
مسیلمہ کذاب نے بھی دعویٰ نبوت کیا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خلافت کے بعد سب سے پہلا کام جو کیا وہ یہ تھا کہ مسیلمہ کذاب کے قتل اور اسکی جماعت کے مقابلہ اور مقابلہ کیلئے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سیف اللہ کی سر کردگی میں صحابہ کرام کا ایک لشکر روانہ کیا۔ کسی صحابی نے مسیلمہ سے یہ سوال نہیں کیا کہ تو کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے ، مستقل نبوت کا مدعی ہے یا ظلی اور بروزی نبوت کا مدعی ہے اور نہ کسی نے مسیلمہ کذاب سے اس نبوت کے دلائل اور براہین پو چھے اور نہ کو ئی معجزہ دکھلانے کا سوال کیا ۔ صحابہ کرام کا لشکر میدان کار زار میں پہنچا، مسیلمہ کذاب کے ساتھ چالیس ہزار جوان تھے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سیف اللہ نے جب تلوار پکڑی تو مسیلمہ کے اٹھائیس ہزار جوان مارے گئے اور خود مسیلمہ بھی مارا گیا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مظفر و منصور مدینہ منورہ واپس آئے اور مال غنیمت مجاہدین پر تقسیم کیا گیا ۔ مسیلمہ کے بعد طلیحہ نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس کے قتل کیلئے بھی حضر ت خالد رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا ۔ (فتوح البلدان صفحہ 102)
اسکے بعد خلیفہ عبد الملک عہد میں حارث نامی ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا خلیفہ وقت نے علماء صحابہ و تابعین کے متفقہ فتوے سے اس کو قتل کر کے سولی پر چڑھایا اور کسی نے اس سے دریافت نہ کیا کہ تیری نبوت کی کیا دلیل ہے اور نہ کوئی بحث اور نہ کوئی مناظرہ کی نوبت اور نہ معجزات اور دلائل طلب کئے ۔
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ شفا ء میں اس واقعہ کو نقل کر کے لکھتے ہیں ۔
وفعل ذلک غیر واحذ من الخلفا والملوک
ترجمہ: بہت سے خلفا ء اور سلاطین نے مدعیان نبوت کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیا ہے۔
خلیفہ ہارون رشید کے زمانہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ، خلیفہ ہارون رشید نے علماء کے متفقہ فتوی سے اس کو قتل کیا ۔ خلاصہ یہ کہ
قرون اولیٰ سے لے کر اس وقت تک تمام اسلامی عدالتوں اور درباروں کا یہی فیصلہ رہا ہے کہ مدعی نبوت اور اسکے ماننے والے کافر اور مرتد اور واجب القتل ہیں اب بھی مسلمانان پاکستان کی وزرا ، حکومت سے استدعا ہے کہ خلفا ئے راشدین اور سلاطین اسلام کی سنت پر عمل کر کے دین اور دنیا کی عزت حاصل کریں۔
عزیز یکہ از در گہش سر بتافت
بہر در کہ شد ہیچ عزت نیافت
بہر در کہ شد ہیچ عزت نیافت
قتل مرتد کے متعلق مرزائی خلیفہ اول حکیم نور الدین کا فتوی
”مجھے (حکیم نور الدین صاحب کو)خدا نے خلیفہ بنایا ہے اور نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں اتنی طاقت ہے کہ وہ معزول کر دے اگر تم زیادہ زور دو گے تو یاد رکھو میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو تمہیں مرتدوں کی طرح سزا دیں گے“ (رسالہ تشحیذ الاذہان قادیان جلد 9 نمبر 11صفحہ؍ ۱۴ بابت ماہ نومبر 1914ء)
اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ نورا لدین صاحب کے نزدیک بھی مرتد کی سزا قتل ہے اس لئے مخالفین کو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی اتباع میں اس سنت کے جاری کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں ۔
قادیانیوں کو حج بیت اللہ کی ممانعت کی وجہ
مرزائیوں کے نزدیک قادیان کی حاضری بمنزلہ حج کے ہے اور مکہ مکرمہ جانا اس لئے نا جائز ہے کہ وہاں قادیانیوں کو قتل کر دینا جائز ہے۔
چنانچہ مرزا محمود صاحب خلیفہ ثانی ایک خطبہ جمعہ میں تقریر کرتے ہو ئے کہتے ہیں:
”آج جلسہ کا پہلا دن ہے اور ہمارا جلسہ بھی حج کی طرح ہے ۔ حج خدائے تعالیٰ نے مومنوں کی ترقی کے لئے مقرر کیا تھا آج احمدیوں کے لئے دینی لحاظ سے حج تو مفید ہے مگر اس سے جو اصل غرض یعنی قوم کی ترقی تھی وہ انہیں حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ حج کا مقام ایسے لوگوں کے قبضہ میں ہے جو احمدیوں کو قتل کر دینا بھی جائز سمجھتے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ نے قادیان کو اس کام کیلئے مقرر کیا ہے“(خطبات محمود: فرمودہ 25 دسمبر 1914ء صفحہ 254)
معلوم ہوا کہ علماء حرمین کے نزدیک قادیانی مرتد اور واجب القتل ہیں۔