• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

دیباچہ طبع ثالث

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
دیباچہ طبع ثالث

مسمٰی بسعادتِ الاقران بکشف بعض لطائف القرآن
بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ العلی الاکرام، الذی علم بالقلم، علم الانسان مالم یعلم و صلی اللہ علی رسولہ محمد سید العرب و العجم و علی الہ و اصھابہ و بارک و سلم۔

اما بعد ۔ صاحبان! شہادت القرآن کا پہلا حصہ جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رفع آسمانی نو آیاتِ قرآنیہ سے ثابت کی گئی، اول مرتبہ ماہِ رجب 1321ھ میں طبع ہوا۔ اس کے بعد اس کا دوسرا حصہ جس میں ان تیس دلائل کا جواب ہے جو مرزا غلام احمد نے صاحب مدعی مسیحیت و نبوت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات قبل النزول پر بزعم خود قرآن شریف سے پیش کئے تھے، مرزا صاحب کی زندگی ہی میں رمضان1323 میں طبع ہوا۔ مرزا صاحب 24 ماہ ربیع الآخر 1326ھ بمطابق 26؍مئی1908ء کو بروز منگل(سہ شنبہ) میلہ بھدر کالی کے دن بمقام لاہور فوت ہوئے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کو شہادت القرآن کا جواب لکھنے کے لئے کئی سال کی مہلت ملی، لیکن نہ تو جناب مرزا صاحب نے آنجہانی کو ہمت ہوئی اور نہ ان کی زندگی میں ان کی جماعت کے کسی عالم یا مدعی علم کو جرأت ہوئی۔

پھر دوسری مرتبہ پہلا حصہ صفر؍1330ھ میں مطابق فروری؍1912ء اور دوسرا حصہ اہتمام حضرت مولانا المکرّم جناب مولوی ثناء اللہ صاحب دامت برکاتہ، سردار اہلحدیث ذی الحج1340ھ مطابق اگست1922ء میں طبع ہوا۔

ارادہ تھا کہ دوسری طبع میں اس کی بعض مشکلات کی تسہیل اور مجملات کی توضیح و تفصیل کر دوں گا، لیکن میری قلت فرصت(جو ہمیشہ شامل حال رہتی ہے) اور طالبین کی شدتِ شوق و استعجال نے اس خواہش کو پورا نہ ہونے دیا۔

مَا كلُّ ما يَتَمَنّى المَرْءُ يُدْرِكُهُ
تجرِي الرّياحُ بمَا لا تَشتَهي السّفُنُ


اب تیسری طبع کی نوبت آ گئی ہے اور جس قدر شائقین کی طلب اور ”دفتر اہلحدیث“ کی فرمائش زیادہ ہو رہی ہے، اسی قدر میری فرصت کم سے کمتر ہو رہی ہے۔

ایسی قلت فرصت کی حالت میں کہ متعدد مشکل اور مطوّل تصانیف٭ کا سلسلہ جاری ہے، اس علاوہ٭٭ کو بھی ساتھ رکھ لیا۔ اب اللہ سے دعا ہے کہ ان سب کو پورا کرا دے۔ ھو خسبی و نعم الرفیق۔ خیال تھا کہ اس تیسرے ایڈیشن میں امکان خرق عادت کا مضمون مفصل لکھا جائے، چنانچہ وہ لکھ بھی ڈالا۔ لیکن وہ اتنا طویل ہو گیا کہ اگر اسے اس کتاب کا جزو بنایا جائے تو کتاب کا حجم بڑھ جائے۔ بنا بریں مناسب جانا کہ اسے الگ ایک رسالہ کی صورت میں طبع کرا دیا جائے۔

اہل علم نے اس کتاب ”شہادت القرآن“ کی جو قدر کی وہ ان کی زرہ نوازی اور علمی قدر دانی ہے۔ ورنہ میری نظر سے وہ اس قابل نہ تھی کہ اہل علم اسے اس طرح ہاتھوں ہاتھ لیتے اور قادیانی مناظرات میں زیرِ نظر رکھتے۔

میں حضراتِ دیوبند کا خصوصیت سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنی علمی قدر شناسی اور فراخ دلی کا علمی ثبوت دیا۔ خصوصاً مولانا مولوی حبیب الرحمٰن صاحب کا کہ وہ برابر اپنے طلباء اور محصلین اور زیر اثر شائقین کو اس کتاب کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے۔ میں انسان ہو کر اس ناچیز خدمت کو بے عیب متاع کی طرح پیش نہیں کرنا چاہتا لیکن چونکہ ایمان و ایمانیات میں اذعان و وثوق ضروری ہے، اس لئے اپنے ایمان و اذعان کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس میں حق حق بیان کیا ہے اور اسے ایسے زبردست اور روشن دلائل سے ثابت کیا ہے کہ اس کے جواب میں مرزا صاحب اور ان کی جماعت کا قلم کیا، دم ٹوٹ گیا ہے۔ نہ تو جواب کہ ہمت پڑی اور نہ انشاء اللہ پڑے گی۔ کیونکہ میں نے اس میں خدا کے فضل و توفیق سے اصل دلیل کی بنا صرف قرآن کریم پر رکھی ہے اور اسے اِدھر اُدھر کی کھینچ تان اور ایچاپیچیوں سے سلامت رکھتے ہوئے بالکل منشائے الہٰی کے مطابق بیان کیا ہے اور باقی سب قسم کے دلائل کو اس کے ماتحت تائیدی شہادتیں اور تشریحیں بنایا ہے۔ ہاں اس امر کا لحاظ شدت سے رکھا ہے کہ کسی آیت کے مفہوم کو کلام الہٰی کے امین اور صحیح مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیانِ قولی یا فعلی اور فصیح زبان عرب کے محاورات اور علمی قواعد استدلال و استنباط کے خلاف بیان نہ کروں۔

اہل علم و فہم اصحاب کی خدمت میں ان کے مذاقِ علم کی ضیافت کے لئے چند سطور ذیل میں پیش کرتا ہوں، جس سے ان کی دور رس نظر اس امر کو بسہولت پالے گی کہ میں نے اس کتاب میں کیسی پختگی سے امورِ ضروریہ کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ اور مضمون کے مالہ و ما علیہ کو کس طرح نظر میں رکھ کر حق کا اثبات اور باطل لا ابطال کیا ہے اور مفہوم کلام کو خدائے حکیم کے منشا کے مطابق بیان کیا ہے اور مقام احتجاج و تحقیق میں دفع الوقتی اور تساہل اور مقام تردید و تنقید میں اوچھے ہتھیاروں سے ہرگز کام نہیں لیا۔ بلکہ خدا کے فضل و حسن توفیق سے شہادت القرآن کے ہر دو حصوں میں خالص حق بغیر کسی قسم کی ملاوٹ کے زبردست دلائل سے بیان کیا گیا ہے۔


پہلے حصے میں مقام استدلال و تعلیل میں کسی امر کو بھی بغیر دلیل نہیں چھوڑا کہ کوئی مانع طلب کر سکے اور ہر دلیل کو قواعد علمیہ سے ایسا محکم کیا ہے کہ مخالف کو نقض کی گنجائش نہیں۔ اور قواعد علمیہ کا اجراء اور استدلال کی بنا آیات قرآنیہ پر رکھی ہے اور یہ مسلم ہے کہ ان کا معارضہ ممکن نہیں۔ اور ہر نقل کو صحیح صحیح بغیر کسی کمی بیشی یا تغیر مفہوم کے لکھا ہے۔ پس صحت نقل کا مطالبہ عبث ہے۔ اور پھر مسلمات نقلیہ کو میزان عقل پر بھی پورا کر دکھایا ہے کہ ہر دو جہت سے برہان قوی ثابت ہو، پس عقل و نقل کا عذر بھی نہیں ہو سکتا۔

دوسرے حصے میں مرزا صاحب کے ”دلائل وفاتِ مسیح“ کو جواب ہے۔ اس میں ان کی ہر فرضی دلیل کے ہر مقدمہ پر علم لغت و نحو و اصول اور قرآن و حدیثِ صحیح سے نقض کیا ہے اور ہر نقض میں شاہد پیش کیا ہے۔ اور ان کے اپنے مسلّمات سے ان پر الزام قائم کئے ہیں۔ پس اپنی کم بضاعتی کا اعتراف کرتے ہوئے اور محض خدا کے فضل پر اعتماد رکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ شہادت القرآن کے حصہ دوم کے مطالعہ کے بعد مرزا صاحب کے صاحب علم ہونے کا خیال باقی نہیں رہ سکتا۔ اگر ان کے کسی حامی کے سر میں پھر بھی خیال سمائے کہ مرزا صاحب علم نحو و اصول میں مہارت رکھتے تھے تو اس کا فرض ہے کہ ان علوم کے رو سے اس کتاب کے حصہ دوم کا جواب لکھ کر اپنے خیالات کو مرزا صاحب کی تصریحات سے ثابت کرے، جو انشاء اللہ نہیں ہو سکے گا۔

مرزا صاحب کی زندگی میں نہ تو ان سے اور نہ ان کے کسی ذی علم مرید سے ہو سکا کہ شہادت القرآن کا جواب لکھیں۔ آخر ان کی وفات کے کئی ماہ بعد ان ایک حواری مولوی ظہور الدین صاحب اکمل نے اس کے پہلے باب کا جواب بنام شہادت الفرقان چھپوایا۔ لیکن حقیقت میں وہ شہادت القرآن کا جواب نہیں۔ اسی لئے خود ان کی جماعت میں بھی اس کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ اس کی وہ وجوہات ہیں، اول یہ کہ مولوی اکمل صاحب شہادت القرآن کے مطالب عالیہ اور لطائف علمیہ کو سمجھ نہیں سکے بلکہ جن امور کو بالتصریح بیان کیا گیا ہے ان کو بھی خیال میں نہیں رکھ سکے۔ بلکہ جو باتیں ان کی جماعت اور خود مرزا صاحب اس سے قبل مسئلہ حیات و مماتِ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بیان کیا کرتے تھے وہی دہرا دی ہیں۔ حالانکہ شہادت القرآن میں اسن عذرات کا تردید صراحتہً یا اشارۃً موجود ہے۔ اور خدا کے احسان سے خاکسار نے اس کتاب کو خاص اسی خیال سے ایسی مضبوطی اور خوبی کے ساتھ لکھا تھا کہ مرزا صاحب قادیانی اور ان کی جماعت کے علماء اس کو جواب سے عاجز رہیں۔ دیگر اس خیال سے کہ جو کچھ قادیانیوں کی طرف سے اس کے جواب میں نکلے اس کا جواب بھی خود شہادت القرآن ہی ہو اور مجھے نیا جواب لکھنے کی ضرورت نہ پڑے۔

قاصد کے آتے آتے میں خط اور لکھ رکھو
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں​

سو الحمد اللہ میرے دونوں خیال درست نکلے۔ نہ تو مرزا صاحب قادیانی اس کا جواب لکھ سکے اور نہ ان کے علماء اس کے دلائل کو توڑ سکے اور نہ مجھے جواب الجواب کے لئے شہادت القران سے باہر جانا پڑا۔ چنانچہ انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ یہ ہیچمدان موقع بہ موقع اکمل صاحب کا جواب خاص شہادت القرآن ہی کی تصریحات اور اشارات سے دے گا۔ وما توفیقی الا باللہ

دوسری وجہ یہ کہ خاکسار نے شہادت القرآن کا پہلا باب رجب 1321ھ میں چھپوایا۔ اور دوسرا باب دو سال بعد رمضان 1323ھ میں طبع کرایا۔ اس دو سال سے کچھ زائد عرصہ میں پہلے باب کا کوئی جواب نہیں لکھا گیا اور اس کے بعد بھی 1326ھ تک خاموشی رہی اور مرزا صاحب چل بسے۔ ساڑھے پانچ سال بعد صرف پہلے باب کا جواب طبع ہوا۔ اور دوسرے باب سے جس میں مرزا صاحب کے ان دلائل کو جو انہوں نے وفاتِ حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں لکھے ہیں لغت عرب اور قواعد علمیہ اور احادیث نبویہ اور علوم آلیہ اور اصول استدلال سے ایسا غلط ثابت کیا گیا ہے کہ اس کے مطالعہ کے بعد مرزا صاحب کی عیسویت کا رنگ تو کجا آپ کی علمیت کا بھی سارا بھرم کھل جاتا ہے اور قطارِ علماء میں شمار نہیں ہو سکتے۔ استغنا کیا جائے، ایں چہ بوالعجبی؟ لہٰذا خاکسار اکمل صاحب کے جواب کو شہادت القران کا جواب نہیں کہہ سکتا۔

بنابریں مجھے اکمل صاحب کی کتاب کا جواب دینے کی ضرورت نہ تھی لیکن چونکہ شہادت القرآن کی دوسری طبع نہایت عجلت و قلت فرصت اور کثرتِ سفر کی حالت میں ہوئی اور اس کے حاشیہ پر قادیانی کتاب کے متعلق ریمارک نہیں ہو سکے اور اب تیسری طبع پھر ہونے والی ہے اس لئے مناسب جانا کہ ان شبہات کو بھی اٹھا دوں جو اکمل صاحب کو شہادت القرآن کے نہ سمجھنے کے سبب پڑے ہیں۔ تاکہ شہادت القرآن کے لطائف اور زیادہ ظاہر ہوں اور پیر کہن سال مولوی محمد احسن صاحب امروہوی ڈسکوی مرحوم کو مرزا صاحب کی زندگی میں سیالکوٹ میں ان سے سوال کے جواب میں کہی تھی اگر شہادت القرآن کا جواب لکھا جائے تو اس کی حیثیت اور بڑھ جائے گی۔ سو میں اس جواب الجواب کا نام جو بیشتر حاشیہ پر ہو گا، سعادت الاقران بکشف بعض لطائف شہادت القرآن رکھتا ہوں اور ہر امر سہل و صعب میں خدائے کریم کی توفیق چاہتا ہوں۔

راقم:آپ کا صادق
ابو تمیم محمد ابراہیم میر سیالکوٹی


......................................................................................................................................................................................................................
٭مثلاً تاریخ اہلحدیث، خلافت راشدہ کے دو سلسلے(ایک اخبار اہلحدیث میں اور دوسرا اخبار زمیندار میں)، سیرۃ الرسول(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح قدسیہ)، تفسیر ثنائی کے ترجمہ القرآن پر نظر ثانی، حسب فرمائش جناب مولانا المکرّم اور اپنی تفسیر القرآن مسمی بہ توفیق الرحمٰن اور بلدیہ سیالکوٹ کے تعلقات اور لوگوں کے نج کت معاملات اور فصل خصومات اور ہندوستان بھر روزانہ خط و کتابت اور انشائے فتاویٰ کے اشغال تو گنتی میں نہیں۔ اللھم تمم کلھا بالخیر و تقبلھا منی انک انت السمیع العلیم ۔ مزید براں فروری1927ء کا سارا مہینہ سفر میں گذرا۔

٭٭ علاوہ(بالکسر) عربی میں اس چھوٹی سی گٹھڑی کو کہتے ہیں جو لادو جانوروں پر ان کے اصلی بوجھ سے زائد اوپر رکھ لیتے ہیں۔
 
Top