• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

روحانی سفر از ریاض احمد گوہر شاہی یونیکوڈ

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
روحانی سفر از ریاض احمد گوہر شاہی یونیکوڈ


روحانی سفر
صفحہ نمبر 2
بسم الله الرحمن الرحيم

حضرات محترم ! کائنات میں الله تبارک وتعالی نے وقتا فوقتا هدایت کے لئے پہلے تو میں پیچھے اور نبی الاخرز ماں احمد مصطفی میان این کی آمد کیساتھ ہی نبوت کے دروازے بند کر دیئے۔ اس کے بعد سرکاری ظاہری باطنی تعلیمات کی روشنی میں خلفائے راشدین، امام الو املین مقتدا کاملین کا دور شروع ہوتا ہے جو امت کی رہبری ف رماتے ہیں

اسکے بعد ولایت کا دور شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔

ہر دور میں امت کی رہبری و اصلاح کے لئے الله تعالی اپنے کچھ بندے مبعوث کرتا ہے۔ جو اپنے ظاہری و باسن تصرفات کے ذریع امت کے کچھ لوگوں کی اصلاح کرتے ہیں ۔ ابتداء میں تو اکثر بندے دنیا سے نام توڑ کر اپنے حقیقی رب سے نالے جوڑنے دنیا سے دور عبادات ،ریاضات مجاہدات کے لئے جنگلوں میں نکل جاتے ہیں تاکہ دنیا کا کوئی عمل ان کی راہ میں رکاوٹ نہ ان سے ان میں بعض تو اسی کے حصول میں اپنی زندگی جنگلوں کی نذر کر جاتے ہیں اور کچھ خاص بندوں کو الله تبارک وتعالی تکمیل کے بعد شہروں میں خلق خدا کو ظاہری و بانی فیض پہنچانے کے لئے تعینات فرمادیتا ہے تکمیل کے بعد جب بند کسی بندے پر کامل نگاه ڈالتا ہے تو اس کی تقدیر بدل ڈالتا ہے۔ انہی اللہ کے بندوں میں انجمن سرفروشان اسلام پاکستان کے سر پرست اعلی حضرت سیدنا ریاض احمد گوھر شاہی مدظلہ العالی بھی ہیں جنہوں نے اپنی عمرکا بہت بڑا حصہ روحانیت کے حصول اور میل کے لئے جنگوں میں گزارا اور جب خلق خدا کو فیض پہنچانے پر تعینات کئے گئے مختصر عرصے میں بیشمار خواتین و حضرات کی زندگی میں انقلاب ہی نہیں بلکہ مرد قلوب کو ایک ہی قند را کامل نگاہ کے ذریعے زندہ کر کے ذکرالہ میں جاری و ساری کرڈال رقص مختصر یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ حاضر نظرکتابچہ میں قید عالم حضرت سید ناریاض احمد گوھر شاہی مدظلہ العالی نے ہماری دی یہ خواہش اور بے حد اصرار پر اپنی روحانیت کے حصول پرمبنی اپنی یاد انہیں محفوظ کرائیں اور تا کہ لا بین وقت اور معتقد بین اسے پڑھ کر رہنمائی ہی نہیں بلکہ اس سے یہ معنوں میں مستفیض ہوسکیں ۔ دعا ہے الله تعالی حضرت سید ناریاض احمدگوھر شاہی مدظلہ العالی کو عمر دراز عطا فرمائے اور تادیر ان کا سایہ ہمارے سروں پر قائم و دائم فرمائے اور میں ان سے یح معنوں میں سفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین

صدر مرکزی ناظم اعلی عالمی روحانی تحر یک انجمن سرفروشان اسلام رجسٹرڈ پاکستان
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
بسم الله الرحمٰن الرحیم

جب سن بلوغت کو پہنچا تو فقیری کا شوق انتها و پانچ چکا تھا لیکن میرا کسی طریقہ سے ہورہی تھی ۔ دن رات بابا گوھرعلی شاہ کے مزار پر بیٹھا درودشریف پڑھتا رہتا۔ حتے نوافل پڑھے جاسکتے پڑھ لیتا ہودبھی پڑھتا لیکن جس راستے کی تلاش تھی اس کا نام ونشان نہ ملتا۔

ہماری برادری کے ایک پولیس انسپکٹر جو پیر صاحب آن دیول شریف کے مرید تھے مجھے مشورہ دیا کہ یہ راستہ بغیر مرشد کے طے نہیں ہوسکتا، پلکسی کا دامن پکڑو اور میں پیر صاحب آیت دیول شریف سے بیعت ہو گی انہوں نے نماز پڑھنے کی تاکید کی اور ایک بین النحو پڑھنے کی بتائی اور جب بھی تنہائی ملتی النحو پڑھتا رہتا تقریبا ایک سال بعدنماز میں بھی ختم ہوئیں اور والی بھی ہے کیا رہ گیا، اپنے آپ کوکولہو کے بیل کی طرح پایاجو سارا دن پٹی باند سے سفر کرتا رہتا تھا بہت دوران گیا ہوں جب پگھلی تو میں موجود تھا، اب پیر صاحب سے بدگمانی ہونے لگی ۔ ان کے باقی مریدوں سے مل کوئی پانی کو ئی چھ سال سے ان کے مرید تھے طوطے کی طرح النحو پڑھتے رہے لیکن کسی کو فل حضوری نصیب نہ ہوئی اور نہی کوئی ذکر قلب تک پانيا البنت و نماز روزہ کے پابند ہو گئے تھے۔ پیر صاحب سے بیت توڑنے کو کہا۔ کہنے لگے بیت کیوں توڑتا

ہے۔ میں نے کہا میری پیاس نہیں تھی اور اب گولڑہ شریف میں قسمت آزمانا چاہتا ہوں ۔ انہوں نے کہا قادری مر ید پنی سلسلہ سے فیض حاصل نہیں کرسکتا۔ میں نے کہا میری قسمت اور بیت ٹوٹ گئی۔ اب گولڑہ شریف صاجزاد معین الدین صاحب سے بیت ہوا۔ انہوں نے نماز کے ساتھ ایک تسبیح درود شریف کی بتائی میں نے کہا کوئی ایسی عبادت بتائیں جو میں ہر وقت کرسکوں بقول اس آیت کے کہ جب نماز پڑھ لو میرے ذکر میں مشغول ہو جاؤ۔ اٹھتے بیٹھتے حتی کہ کروٹیں لیتے بھی انہوں نے کرتوکس زمانے میں ایسی بات کرتا ہے ایسے لطالب ختم ہو گئے۔ جانماز پڑھ گناہوں سے توبہ کرے ایک بیج روز ان درودشریف پڑھا کر، ماں باپ کی خدمت کر رزق حلال کھا اور ہمارے آستانے میں بھی حاضری دیا کر بس یہی کافی ہے میں نے کہا نماز بھی پڑھتا ہوں ۔ درودشریف کی بھی کئی بیماں پڑھتا ہوں لیکن پیاس نہیں بجھتی۔ انہوں نے کوئی جواب نہ دیا اور بے رخی سے دوسرے شخص کی طرف متوجہ ہو گئے اور پھر تھوڑی دیر بعد استاد سے اٹھ کر چلے گئے۔ میں نے یہی تھا کہ ان کے پاس بھی ظاہری الیادہ ہے ور طالب سے اس طرح کوئی بے نی نہیں کرتا اور بیٹھے ہی بیٹھے وہاں سے بھی بیت ٹوٹ گئی۔

اب میں ہر وقت پریشان رہتا کوئی ایسارہ مل جائے جس سے سکون قلب میسر ہو میرے ایک دوست جو تصوف سے کچھ واقفیت رکھتے تھے مجھے ایک دوست کے پاس لے گئے وہ درویش امبا چون پہنے ہوئے تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ان کے خلیفہ نے گرم گرم دودھ کے گلاس پیش کئے۔ کچھ امید قائم ہوئی تھوڑی دیرتک فقیری کی باتیں ہوتی رہیں منزل سامنے نظر آنے لگی اتنے میں ان کے خلیفہ نے حقہ آگے بڑھایا فقیر نے لمبے لمبے لگائے اور چیوں کی بوسارے کمرے میں پھیل گئی میں جلدی جلدی

کمرے سے باہرنکل گیا۔ وہ دوست بھی پیچھے ان کی اور کھانے کا کہ ان فقیروں کی اپنی اپنی رمز میں ہوتی ہیں ۔ یہ چڑوں ان کے لئے ح لال ہے بلکہ جس کو یہ پیار میں اس کا بھی بیڑا پار ہے۔ میں نے کہا نشه حرام ہے اور مجھے اس کی بو سے نفرت ہے ۔ جب خدا نمازوں ، روزوں اور بیوں سے نہ ملا تو چرس پینے سے کیا امید ہوتی ہے۔ ا س نے ایک شعر پڑھا

اللہ اللہ کرنے سے اللہ نہیں ملتا اللہ والے ہیں جو اللہ سے ملا دیتے ہیں

بلکہ ایک ہی ش سے پہنچا دیتے ہیں میں نے کہا میرادل گواہی نہیں دیتا کہ یہ الله والا ہے۔ اس نے کہا پھر میری امت ہی خراب ہے۔
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
کچھ دنوں کے بعد نواب شاہ سے ایک رشتہ دار آگئے۔ ان سے تفصیلی بات ہوئی انہوں نے کہا کیا خبر تیری قسمت میں کامیابی ہے انہیں خوامخواہ اپنا وقت ضائع کر رہا ہے تو جام اتار کے دربار پر چلا جا۔ وہ زندہ پیر میں تھے اپنی مہم کا اشارہ ہو جائے گا۔ میں جام داتار کے در پار پر پہنچا جمعرات کا دن تھا۔ رقاصائیں سندھی زبان میں کچھ پڑھ کر ناچ رہی تھیں سب زائرین چے، جوان، بوڑھے ان ہی کی طرف متوجہ تھے میں نے عشاء کی نماز پڑھی چھ نوافل پڑھے اوتھکن کی وجہ سے جلدی نیند آگئی رات کا کوئی حصہ تھا اس نے مجھے جگ یا دیکھا تو ایک بزرگ سامنے کھڑے تھے ۔ ان کے قریب دو آدمی اور بھی تھے جو صرف ایک ایک دھوتی پہنے ہوئے تھے۔ بزرگ نے کہا ان کے ساتھ جاؤ اور مسواکیں کاٹ لاقے میں ان کے دو آدمیوں کے ساتھ قریبی جنگل میں چلا گیا اور جھال کی مسواکیں توڑنے لگا تھوڑی دیر میں سیر بواسیر کی کڑیاں بھی کرلیں ۔ دوسرے ساتھی مجھ سے زیادہ توڑ چکے تھے کہنے لگے انہیں اٹھاؤ اب واپس چلتے ہیں ، انہوں نے فورا اٹھائیں میں نے بڑی کوشش کی لیکن اٹھان سکا۔ حیران تھا کہ دون کی بوری اٹھالیا ہوں لیکن معمولی ساوزن کیوں نہیں اٹر ہا میری پریشانی پر لوگ ہنسے اور کہنے لگے مرشد تو ہے نہیں اورفقر کے لئے نکل پڑا یہ کہ کر وہ چلے گئے اور میں نے اپنی ناکامی کا اشارہ پا کر بھی واپس لوتانہ چاہا سوچا مرشدابو بکر سواری کا بھی نہیں تھا وہ کیسے کامیاب ہوئے جب گھر سے نکل پڑ ا تو پوری شمت آزما لے اور درودشریف پڑھتا ہوا آگے کی طرف جنگل ہی جنگل میں چل پڑ ان منزل کا پہ کہاں جانا ہے بس دل میں یہی بات ہے کہ جہاں بھی جائے گا میں اسی رب کی ہے جس کی تلاش میں نکلا سات آنے سوئی روٹیاں میرے پاس میں جوتے میں، بنیان اتار کر پھینک دیئے گھر میں ایک دھوتی ہے اور قرآن مجید کے میں کیا ہوا ہے کئی دن سے سفر جاری ہے کسی جگہ نماز پڑھی جارہی ہے کسی جگنوافل ادا ہورہے ہیں او سی جگہ تلاوت کی جارہی ہے۔ بھوک کا نام ونشان مٹ گیا۔ عادت دو چاروانے کی روٹی کے چھالیتا ہوں جب مستی ہے جھتا ہوں کرفقیر بن گیا۔ آزمائش کے لئے چوریوں کو حکم دیتا ہوں ۔ ادھر آو وہ ہیں میں کچھ کہتا ہوں اچھام باقر وہ نہیں مرتیں پھر مجھتا ہوں کہ ابھی فر ادھورا ہے۔

آج عصر کی نماز کے بعد جب سفر شروع ہوا تو ایک گدھامیرے بائیں جانب میرے ساتھ ساتھ چلنے کا میں نے اسے نظرانداز کر دیا کرخود ہی تھک کر الگ ہو جائے گا لیکن جب سے وہ ساتھ کیا خیالات بدلنا شروع ہو گئے کہ رات آنے والی ہے جنگل میں پیتے ہیں کیسے کیسے درندے ہوں گے، ابھی تیرانم چوڑیاں بھی نہیں مانیں توان درندوں سے کیا نئے گا۔ وہ مجھے کھا جائیں گے اور تو دھوبی کے کتے کی طرح د ین کا ن دنیاکا اسی طرح مارا جائے گا۔ بڑی مشکل سے ان خیالات پر قابو پاتا ہوں، پھر ایک شعر کانوں میں گونجتا ہے۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ اطاعت کے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

اب اس شعر کے بارے میں بار بارسوچتا ہوں اتنے میں میری نظر گدھے پر جا پڑی وہ مجھے دیکھ کر بنتا ہے میں پریشان ہو گیا کہ یہ کیسا گدھا ہے جو رہا ہے۔ اب وہ بھی آنکھوں سے اشارہ کرتا ہے اور آواز می آتی ہے کہ میر ے

اوپر سوار ہو جاؤ میں بجتا ہوں اور پیتا ہوں پھر گدھے کے ہونٹ بہتے ہیں جیسے کچھ پڑ رہا ہو جوں جوں اس کے ہونٹ ہلتے گئے میں اس کی طرف کیتا گیا اور آخر و نخود اس کے اوپر سوار ہو گیا وہ گدھا تھوڑی دیر جھانکا اور پھر ہوا میں اڑنے لگے میں نے باقاعدہ راوی ، چناب

کے دریا عبور کرتے دیکھا، اپنے گاؤں کے اوپربھی پرواز کی یعنی اس گدھے نے پورے پاکستان کی سیر کر دی اور پھر مجھے وہیں اتارا جہاں سے اٹھایا تھا۔ اب فقیری کے سب نے ہرن ہو چکے تھے۔ اپنی حالت اور حماقت پر غصہ آرہا تھا۔ میں جلد اپنے ٹین بنا کر دنیا کے یش چکھنا چاہتا تھا۔ میں جلدی جلدی قدموں سے جام داستان کے در پارتی طرف رات دن سفر کر کے پہنچا میرے بہنوئی میری تلاش میں وہاں پہنچ چکے تھے۔ مجھے اس حالت میں دیکھا پوچھا کیا ارادہ ہے میں نے کہا بس منزل پالی ہے اب واپس چلتے ہیں۔
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
اس دن کے بعد یعنی میں سال کی عمر سے ہیں 32 سال کی عمرتک اسی گدھے کا اثر با نماز وغیرہ سب ختم ہوئی جمعہ کی نماز بھی ادا ہوسکتی ۔ پیروں فقیروں اور عالموں سے چور ہوگئی اور محفلوں میں ان پر طنز کرتے شادی کرلی تین بچھے ہو گئے اور کاروبار میں مصروف ہوگیا زندگی کامطلب ہیں مجھ کو تھوڑے

دن کی زندگی ہے عیش کر اور فالتو وقت سینما وں اور تھیٹروں میں گزارتا رو پیکٹھا کرنے کے لئے حلال و حرام کی تمیزبھی جاتی رہی ۔ کاروبار میں بے ایمانی فراڈ اور جھوٹ شعار بن گیا ہیں مجھئے کہ نفس امارہ کی قید میں زندگی کٹنے لگی۔ سوسائیوں کی وجہ سے مرزائیت اور کچھ وہابیت کا اثر ہوگی الحمد لله بی اثرات اب زائل ہو چکے ہیں۔

نواب شاہ میں میری چھوٹی بہن ہی تھی۔ اس کی بڑی لا کی عمر پندرہ سولہ سال) و دورے پڑنے شروع ہو گئے ہاتھ پاؤں اکڑ جاتے اور زور سے چیخیں مارتی اور بھی دوران دور گھر والوں سے باتیں کرتی ۔ اپنانام اور مذہب کچھ اور بتائی گھر والے پہلے ڈاکٹروں کی طرف رجوع ہوئے، جب کوئی آرام نہ ہوا تو عاملوں کو بلایا۔ انہوں نے کہا زبردست قسم کی دیوی ہے جو ہمارے بس سے باہر ہے۔ ایک دن دورے کی حالت میں لڑکی نے کہا ملتان شاه مس کے دربار پراڑ کی حاضری دوتب چھوڑیں گے۔ اس کی والدہ لڑکی کو ملتان دربار پر لے گئی ۔ حاضری کے بعد بڑی بہن کے گھر چلی گئی جو ملتان کے قریب ایک گاؤں میں آباد تھے ۔ رات کولڑ کی کو وہاں دورہ پڑا اور اسی ط رح کا دورہ بڑی بہن کی لائی کو بھی پڑا وہ گھبرائیں اور دونوں نبیوں کو راولپنڈی لے آئیں ۔ میں نے ساری کیفیت پر بھی اور کہا ہمیں اچھے ڈاکٹر کو دکھاتے ہیں ۔ اثر وغیر سب بھی بنائی باتیں ہیں میرا خیال تھا کہ یہ مسٹر یا کامرش ہے جسے عامل حضرات جنات کا میں کہہ دیتے ہیں میں دونوں لڑکیوں کو ایک دوست ڈاکٹر کے پاس لے گیا اور اس نے بھی یہی کہا ہسٹریا ہے ان کی شادی کر دو۔ اس نے ا ن کا نا چا تو ایک لاکی کا رنگ لال ہوگیا۔ کہنے لگی ڈاکٹر تب مانوں ان کا اور باز و آگے کر دیا ڈاکٹر نے انتہائی کوشش کی لیکن سوئی گوشت میں نہ جاسکیں۔ ایسے لتا که باز و پتھر کے ہو گئے۔ ڈاکٹر نے گھبراتے ہوئے کہا کہ انہیں کسی پیر فقیر کے پاس لے جاؤ کوئی دوسری بات ہے میں نے پوچھا کہ کام بھی جنات جادو اور آسیب وغیرہ کے قائل ہو۔ اس نے کہا کہ جادو کے تعلق تو پہلے پارے میں تصدیتی ہے۔ جنات کاذکرسورہ جن میں ہے اور آسیب

کے متعلق ایک آیت سنائی جس کا ترجمہ ہے کہ شیطان انسان کو آسیب سے پاگل کر دیتا ہے۔ اس نے بتایا کہ لالہ زار میں سائیں اسلم ہے اس کو دکھادو بچیوں کو لے آیا اور سوچتارہا کہ انسان اشرف مخلوقات ہے۔ جنات اس کے جسم میں کس طرح داخل ہو سکتے ہیں ۔ یہ امکان ہے لیکن وہ پاک کی سوئی گوشت میں داخل کیوں نہ ہوئی۔

رات کو دونوں بیاں ہوئیں اور میں بیٹھ کر ان کی حفاظت کرنے کی کیونکر بھی ان کو دورہ پڑتا اور بھی چیختی چلاتی باہر کو دوڑ نہیں ۔ رات کا تقر یہ ایک بجا ہوگا میں نے دیکھا کہ ایک آگ کا شعہ آیا اور ایک بھابھی کے سینے میں داخل ہوگیا اور اس کو دورہ پڑ گیا بیج ہی می پیوں کو سائیں اسلام کے پاس لے گیا اس نے اپنی ھیلی پر پھونک ماری اور تھیلی میں دیکھ کر ان کے گھروں کے نئے اور جس طرح یہ بیمار ہوئیں اور جن جن درباروں پر حاضریاں دمیں سب کچھ بتا دیا تھا کہ اسنے میر ے

گاؤں والے مکان کا نقش بھی بتادیا لڑکیوں کو سامنے بٹھایا کچھ پڑھ کر پھونک ماری لڑکیوں کی آواز اور رنگ بدل گئے ۔ ان سے کہا تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو۔ ایک نے کہا میں دیوی ہوں اور دوسری میری بہن ہے ۔ سائیں اسلم نے نبیوں کو ڈنڈوں سے خوب مارا انہوں نے آیند نہ آنے کی قسم کھائی اورکلمہ پڑھ لیا۔ پانچ دن تک پھیاں ٹھیک ہیں اور پھر

وہی حالت ہوئی۔ ان مشاہدات سے میرا دھیان پلٹ چکا تھا۔ دو بار سائیں اسلم کے پاس لے گئے اس نے کہا کہ گھر کے اندر مائی صاحبہ کے پاس لے جاؤ مائی صاحبہ نے ایک سفید رنگ کا تکیہ سامنے رکھا۔ اس پر کچھ پڑھا تو ایک سفید ریش بزرگ کا ساینمودار ہوا۔ ہم سے پوچھا کسی کو کچھ نظر آتا ہے۔ میں اور میری ایک بھابھی نے سر بلایا۔ مائی نے کہا انہیں سلام کہ کراپنی کہانی سناؤ۔ یہ بری سرکار میں مجھے صرف دکھائی دیتے رہے اور یہی محسوس ہوتا یا کہ کچھ باتیں کر رہے ہیں اور ہاتھ اور بھی بات نظر آئے لیکن بھابھی سے تفصیل سے بات ہوئی۔ انہوں نے کہا ریاض کے کاروبار میں جو نقصان ہورہا ہے وہ بھی جادو ہی کی وجہ سے ہے اور کہا ملتان وانی کو جلد آرام آجائے گا لیکن تم کو بیماری کے لئے اور پیاس کو کاروبار کے لئے سات جمعرات تک ہمارے پاس دربار پر آنا پڑے گا اور اتنے ہی چکر مائی صاحبہ کے دربار پر جوروات کے پاس ہے لگانے پڑیں گئے۔ اسی دن کے بعد ملتان والی بھابھی ٹھیک ہو کرملتان چلاگی ہم ماموں بجھا بھی در پاروں کے علاقوں میں لگ گئے۔ جب ہم بری سرکار یا دوسرے بزرگ کے مزار پر جاتے دل ہی دل میں اسلام علیکم کہتے اور دل ہی دل میں ولیکم السلام، جواب مل جاتا اور بھی تربت کی چادر پر اور بھی دیوار پر مجھے بزرگ کا کسی کا نظر آتا مسکراتے اور
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
غائب ہو جاتے۔ اب مجھے دربار والوں سے محبت ہوئی تھی کام کاج میں بھی خیال ان ہی کی طرف رہتا۔ ہروقت و لیوں سے متعلق کمیٹیں ستارہتا اور جو جذب اور شوق بارہ سال پہلے تھاد و بارہ ابھر آیا۔

ایک رات دیکھا کہ ایک سفید رنگ کی روشنی کار کی بتیوں کی طرح تیز کمرے میں چلی جب کہ سردیوں کا موسم تھا اور کمرہ چاروں طرف سے مکمل بندتھا۔ میں اور میرا بھائی عمر تقریبا اسال اور میری بیوی کمرے میں سورہے تھے بجھائی ڈر کر پینے کا اور بیوی بھی گہرائی اور میں بھی حیران تھا کہ یہ روشنی کہاں سے آئی اور ایک لمحہ کے بعد کہاں

پانی میں ابھی سوچ رہا تھا کہ کمرہ چھ منور ہوا۔ روشنی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی منٹ آدھ منٹ کے بعدختم ہوئی اس روشنی کے بعد مجھے سخت بخار ہوگیا اور پار پائی بھی ساری رات لرزتی رہی ۔ دوسری رات تقریب اسی وقت روشنی میں ایک بزرگ نظر آئے مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہا بیٹا اب تمہارا وقت آچکا ہے ہوشیار ہو اور باقاعدہ نماز شروع

کرو گناہوں سے تائب ہو جاؤ روز ان بعد نماز مغرب کسی شہر میں چیز پر اولیاء انبیاء کی ارواح کے لئے فاتحہ پڑھا کرو تاکہ تمہارے گناہوں کا کفارہ ادا ہو اورفرش پر سویا کرو۔ میں نے ان یحتوں پر دل سے مل شروع کر دیا۔

وہ بزرگ اکثر نظر آتے رہتے بھی بات کرتے اور بھی بغیر بات کے غائب ہو جاتے ایک دن میں بری سرکار کے مزار پر گیا وہی بزرگ ایک سائے کی شکل میں چادر پر ٹھے نظر آئے۔ ہر سوال کا جواب کلش دیا۔ اب مجھے یقین ہو چکا تھا کہ بزرگ بری امام کی روح مبارکہ ہے یہ باتیں میرے دوستوں اور رشتہ داروں کو ہی معلوم جو میں کوئی کہ میں ہوگا۔ ان افراد ہی مجھے میرے محلہ میں ایک نوجوان لڑکی چند ماہ سے پاگل ہوئی تھی ڈاکٹروں اور دری عاملوں کے تعویزات سے اثر ہوتا میر ے ماموں ش وپین میں تھے مجھے ان کے گھر لے گئے اور کہا اپنے بزرگ کو بلا و تا کیر کی ٹھیک ہو جائے۔ ان کا مطلب تھا کہ اس طرح حق و باطل کا پتہ چل جائے گا۔ وہی سایہ میرے سامنے آیا لڑکی پر دم کیا اور پانی بھی دم کر کے دیا اور لڑ کی ٹھیک ہوگئی ۔ اسکے بعد ایسے مریض آنا شروع ہو گئے جنہیں شفاء ہو جاتی اور میری انڈسٹری کا کاروبار بھی خوب چلنے کی تقریبا ایک سال کے بعد اس سایہ نے حکم دیا کہ اب تزکیہ نفس کے لئے تین دن کے اندر اندر دنیا چھوڑ دو حکم کو تیسرادن تھارات کے بارہ بج رہے تھے بیوی کو ایک نظر سر سے پاؤں تک دیکھا سب سے لاڈلے کو آخری بوسہ دیا اور آنکھوں میں آنسو لئے ہوئے دھیرے دھیرے قدموں سے نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوا ق دم لڑ کھڑارہے تھے اتنے میں ایک ٹیکسی قریب آ کر رکی پو چھا کہاں جانا ہے میں نے کہا جی ٹی ایس کے اڈے پرٹیکسی سڑک پر دوڑ رہی تھی اور میں اپنے آبائی شہروہ ہمیشہ ہمیشہ

کے لئے خیر آباد کہ رہا تھا۔ داتاصاحب اور پچھری سلطان باھو کے دربار پر گیا اور ان ہی کے حکم کے مطالعت نور الہدی خریدی اور پھر سہون شریف کے لئے روانہ ہو گیا اس کے طویل سفرمیں نور الہدی کو پڑھتا۔ اس کی ہر سطر میرے دل میں اثر کر رہی تھی ایک جگہ پرکھا تھا کہ جو اس کتاب کو پڑھ کربھی واعمل باند و کم بخت بر نعیب ہے اور میں اب دوبارہ اپنے نصیبوں کو آزمانے کے لئے ایک سہارے کے ساتھ جارہاتھاکی اسٹاپ پرس رکی میں پانی پینے کے لئے ایک ہوٹل میں گیا میں نے دیکھا میرا منہ بہت لمبا ہوگیا ہے اپنی ٹھوڑی اور ہونٹ دکھائی دینے لگے ۔ قدم ادھرڈ السادھر پڑتالوگ مجھے عجیب نظروں سے دیکھتے اور میں بھی مجھ چکا تھا کہ یہ کتاب پڑھ کر وانتی دیوان جسم ہو گیا ہوں ۔ میں نے سوچا اب تو دنیا میں رہنے کے قابل بھی نور ہے۔ ہرخص اس مجیب شکل اور جیب چال پر مذاق اڑائے گا۔ ایسے جانوروں کا ٹھکانہ جنگل ہی ہے سکھر تک بس کا سفر کیا اب ریل سے ہون شریف جانا تھا۔ ریلی میں اونگھ آگئی دیکھا سامنے لال شہباز قلندر کا روضہ ہے۔ میں وہاں کھڑا ہوں اور ایک پوری سر پر باندھی جارہی ہے اور جب سہون پہلی مرتہ میں پہنا تو بالکل وہی رویہ نظر آیا مغرب کا وقت ہے لوگ قص کر رہے ہیں اور اپنے مال سے بے خبرلوٹ پوٹ ہورہے ہیں۔ کان میں آواز آئی شہباز کے عاشقوں کایہ حال ہے اور تم اللہ کے عشق کا دعویدار ہے۔ ایشن کے سامنے والی پہاڑی پر چلا اور جو طریقہ اور الہدین میں لکھا ہے اسی طریقہ سے تصور سے اسم ذات کا ذکر کر میں اسی وقت پہاڑی کی طرف چلا گیا اور اسم ذات کے ذکر میں مشغول ہو گیا۔ دوران ذکر اونگھ آگئی دیکھا کفل لگی ہوئی ہے کئی بزرگ بیٹھے ہیں ایک بزرگ جن کا جسم موٹا دراز قد اور دراز مونچھوں والے میری طرف اشارہ کر کے پنجابی زبان میں کہتے ہیں۔

اسیں آ قلندر دیوانے بال دے
 
Top