عمر دراز مانگ کے لایا تھا چار دن
کٹ گئے سبھی رجولیت کے اظہار میں
زندگی نشئہءِ مسلسل میں کاٹی اس نے
کچھ ٹانک وائن میں اور کچھ نسوار میں
یہ خلق یہ سچائی اسکے کسی کام کی نہیں
خباثت ہی خباثت جاہلوں کے سردار میں
مرزا تو ہے مرزا اس کا اعتبار کیا کیجیے
ہے پہلی پوزیشن اسکی کذابوں کی قطار میں
عاشق کوئی ٹھرکی اس سا ہو تو سامنے آئے
لٹکا رکھے تھے عورتوں کے دوپٹے دیوار میں
تھا نسوانی ملبوسات کا شوقین غضب کا
ناپید ہوگئے تھے غرارے بازار میں
قلم کے راستے اندرونی بہا گیا گند اپنا
غلاظت ہی غلاظت ہے اس کے اشعار میں
پیشگوئیوں کے انجام پر خوب خوار ہوکے
سعادت ڈھونڈتا تھا جوتوں کے ہار میں
ہیں آج تک پریشاں عرب و عجم کے حکیم
کہ کون سی بیماری نہ تھی اس بیمار میں
کیا حال تھا وقت آخر دیکھا لوگوں نے
ہاتھ ہلانے کی سکت نہ تھی اس غدار میں
جا نہ سکا پاخانے دستوں کی کثرت سے
کچھ بستر پہ نکل گئے کچھ شلوار میں
۔۔۔۔۔
بقلم ضیاء رسول
آخری تدوین
: