• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سابقہ قادیانی و نومسلم محمد نذیر احمد صاحب کا انٹرویو

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
میری داستان حیات

میری زندگی کی شروعات اور میرا پہلا سبق
میرا نام محمد نذیر ہے ۔ میں 1973ءمیں جھنگ کے ایک قادیانی گھرانے میں پیدا ہوا۔ میرے والد کا نام غلام حسین ہے ۔ میرے والد غلام حسین جماعت احمدیہ جھنگ کے سرکردہ ارکان میں سے تھے۔ انہوں نے پچاس کی دہائی میں اوائل میں قادیانی مذہب اختیار کیا۔ وہ بائیس سال تک جماعت احمدیہ جھنگ کے صدر رہے۔ والدہ 6 سال تک قادیانی خواتین کی تنظیم "لجنہ اماءاللہ" کی ضلعی صدررہیں۔بڑے بھائی محمدرفیع 6 سال تک انجمن خدام الاحمدیہ جھنگ کے صدر رہے۔ مشہور قادیانی ڈاکٹر عبدالسلام ہمارے قریبی عزیز تھے۔ میری شادی بھی انہی کی فیملی سےہوئی۔ میری سابقہ قادیانی بیوی ان کی بھانجی ہے۔ میرے والد نے میری پیدائش کے وقت ہی مجھے اس خدمت کے لیے وقت کرنے کا اعلان کر دیا۔ لہذا مجھے اب مربی (مبلغ) بننا تھا۔جب ہوش سنبھالا تو گورنمنٹ پرائمری سکول برانچ نمبر 2 جھنگ میں داخل کروادیا گیا۔ وہاں دو قادیانی اساتذہ ، ماسٹر دوست محمد اور ماسٹر ولی محمد تعینات تھے۔ وہ سکول میں داخل ہونے والے قادیانی بچوں پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ لہذا انہوں نے مجھے پڑھانے کے ساتھ ساتھ میری مذہبی تربیت بھی شروع کر دی ۔ ایک روز ایسا ہوا کہ سکول کے اوقات میں جب ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو اپنے کچھ ہم جماعت مسلمان دوستوں کی دیکھا دیکھی میں بھی نماز پڑھنے ان کے ساتھ مسجد چلا گیا۔ واپسی پر ان دونوں ٹیچرز نے مجھے زمین پر لٹاکر ڈنڈوں سے خوب مارا۔ مجھے اس پر سخت حیرت ہوئی کہ یہ لوگ نماز پڑھنے پر مجھے کیوں مار رہے ہیں۔ بعد میں ان دونوں نے مجھے تنہائی میں لے جا کر سمجھایا کہ جن لڑکوں کے ساتھ تم نماز پڑھنے گئے تھے ، وہ کافر ہیں اور ہم مسلما ہیں ۔ آئندہ ان کی مسجد میں بلکل نہیں جانا۔ یہ میری تربیت کا پہلا سبق تھا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
میری زندگی کا دوسرا سبق، اور جامعہ احمدیہ میں تعلیم
انہوں نے مجھے دوسرا سبق یہ دیا کہ مسلمان علماء کے قریب بھی نہیں پھٹکنا ۔ وہ علماء کو جادوگرکہتے ہیں اور ان سے میل جول اور بات چیت سے سختی سے منع کرتے تھے۔ 1992ء میں اسلامیہ ہائی سکول جھنگ سے میٹرک کرنے کے بعداپریل 1992ء میں مربی کے خصوصی کورس کے لیے میں جامعہ احمدیہ چناب نگر میں داخل ہوا۔ جامعہ احمدیہ میں احمدیت کے مذہبی سکالر تیار کرنے کے لیے دو کورس کرائے جاتے ہیں جن میں پانچ سالہ کورس مبشر اور سات سالہ کورس شاہد کہلاتا ہے ۔ ان میں فرق یہ ہے کہ شاہد کورس کرنے والا فن سپیشلسٹ ہوتا ہے۔ یہ کورس کرنے والوں کو تخصص کرایا جاتا ہے ۔ میرا داخلہ مبشر کورس کے لیے ہوا تھا۔ کورس کرنے والے طلبہ کے قیام و طعام کا انتظام جامعہ کے اندر ہی تھا۔ اس دور میں جامعہ کے ہر طالب علم ہو 1700 روپے ماہانہ وظیفہ ملتا تھا۔ ہر طالب علم کے تمام اخراجات جماعت برداشت کرتی تھی۔ میری معلومات کے مطابق جماعت احمدیہ میں مربی کا کورس کرنے والے ایک طالب علم پر 20،000 روپے ماہانہ خرچ ہوتے ہیں۔ اگر پانچ سال کا حساب کیا جائے تو ایک مربی تیار کرنے میں 12،00،000 بارہ لاکھ روپے خرچ کرتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہرطالب علم سے اس کو ملنے والے وظیفے میں سے 16 فیصد بطور چندہ ، جماعت ضرور وصول کرتی تھی۔ ہماری کلاس کا آغاز صبح 6 بجے ہوتا اور دوپہر 1 بجے چھٹی ہوتی تھی۔ پہلے سال نورانی قاعدہ یسرناالقرآن سے ہماری پڑھائی کا آغاز ہوا اور ساتھ ساتھ "سیرت مسیح موعود" بھی پڑھائی جانے لگی ۔ اس کے علاوہ دیگر عصری علوم بھی سبق میں شامل تھے۔ اگلے سال وفات مسیح کے متعلق قرآن مجید کی قریبا 30 آیات کا ترجمعہ اور قادیانی جماعت کی تفسیر کے علاوہ "تذکرہ" کو بھی سبق میں شامل کر دیا گیا۔ "تذکرہ" مرزا غلام احمد قادیانی کے الہامات اور "وحی" (نعوذُباللہ) پر مشتمل کتاب ہے۔ جو قادیانیوں کے نزدیک قرآن مجید کے برابر بلکہ اس سے بھی افضل کتاب خیال کی جاتی ہے۔ "تذکرہ" پڑھاتے ہوئے ہمارے استاد ہمیں یہ بتایا کرتے تھے کہ اگر قرآن مجید کے ایک حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں تو "تذکرہ" کے ایک حرف پر سو نیکیاں ملتی ہیں۔ تیسرے سال جماعت احمدیہ کی مخصوص کُتب پڑھانے کے علاوہ ہمیمں نمازوں کے اوقات میں چناب نگر کی قادیانی عبادت گاہوں میں نماز کی امامت کے لیے بھی بھیجا جانے لگا۔ جماعت نے اپنی مرضی کی کچھ احادیث کو توڑ موڑ کر "حدیقۃُ الصالحین" کے نام سے ایک مجموعہ احادیث بھی تیار کر رکھا ہے ۔ یہ کتاب اکثر قادیانیوں کے گھروں میں موجود ہوتی ہے۔ ہمارے نصاب میں بھی یہ کتاب شامل تھی۔ ابھی ہمیں جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے دو ماہ ہی گزرے تھے کہ وہاں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
تعلیم کے دوران پیش آنے والا ایک عجیب واقعہ

جامعہ احمدیہ کے پرنسپل کا ایک بچے کے ساتھ گندہ عمل
اسلام آباد کا رہائشی سعید نامی لڑکا میرا ہم جماعت تھا۔ سعید اور نفیس دونوں کزن تھے۔ اور وہاں پر مربی کا کورس کرنے آئے تھے۔ سعید بے حد خوبصورت ، گورا چٹا اور بھولا بھالا سا تھا۔ ایک روز کلاس ختم ہونے کے بعد جب ہم ہاسٹل واپس آئے تو سعید نے اپنا بستر اور دیگر سامان باندھنا شروع کر دیا۔ ہم نے وجہ پوچھی تو اس کی آنکھیں بھر آئیں لیکن وہ کچھ بتانے کو تیار نہ ہوا۔ بس خاموشی سے اپنا سامان سمیٹرا رہا۔ جب ہم نے اصرار کیا تو اس نے بتایا کہ جامعہ احمدیہ کے پرنسپل نے اس کے ساتھ بد فعلی کی ہے۔ لہذا اب وہ یہاں ایک پل کے لیے بھی رکنے کو تیار نہیں ۔ سعید کی اس بات پر ہمیں شدید غصہ آیا کیونکہ ہمارے پرنسپل تو "مرزا صاحب" (مرزا غلام قادیانی) کی فیملی کےقریبی عزیزوں میں سے تھے۔ ہمیں تو وہ چلتے پھرتے فرشتے دکھائی دیتے تھے ۔ ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ پرنسپل ایسی گھٹیا حرکت کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ہم کئی روز تک سعید کو گالیاں دیتے رہے۔ سعید کے والد غالبا فوجی افسر تھے ۔ جب یہ معاملہ جماعت کے مرکزی اداروں تک پہنچا تو انہوں نے سعید کے والد کو بلوالیا۔ سعید کے والد نے اسے جامعہ میں ہی رکنے پر زور دیا۔ لیکن اس نے اپنے والد سے کہا کہ وہ اسے گولی مار دیں یا پھر گھر سے نکال دیں ۔ لیکن اب وہ جامعہ میں نہ ہی پڑھے گا اور نہ ہی یہاں رہے گا۔ بالآخر وہ واپس اپنے گھر چلا گیا۔ جبکہ اس کے کزن نفیس نے کورس مکمل کر لیا۔ اور وہ اب بھی مربی کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مربی کی تربیت کے دوران چند باتوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے:
مربی کی تعلیم و تربیت کے دوران چند باتوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ہر مربی کے لیے انگریزی زبان پر مکمل عبور حاصل کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اسے کسی بھی وقت کسی بھی ملک میں قادیانیت کے پرچار کے لیے بھیجا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں آکسفورڈ کی کتابیں پڑھائی جاتیں ہیں جس کے لیے ماہر اساتذہ کا انتظام کیا گیا تھا۔ دوران تعلیم کھیلوں میں حصہ لینا لازمی تھا ۔ ہر مربی کےلیے ضروری ہے کہ وہ کسی نہ کسی کھیل کا بہترین کھلاڑی بھی ہو۔ جامعہ احمدیہ میں کرکٹ، فٹ بال، والی بال، بیڈ منٹن اور کبڈی کھیلنے کا مکمل انتظام موجود تھا۔ اور ہر طالب علم کو کسی نہ کسی کھیل میں حصہ لینا پڑتا۔ طالب علم کے دورانِ تعلیم ہی ڈرائیونگ سیکھنا بھی ضروری ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس پانچ سالہ کورس کے دوران ہر طالب علم کو ہومیو پیتھی لازمی پڑھائی جاتی ہے۔ اس کے لیے بھی ماہر اساتذہ کا انتظام جامعہ احمدیہ میں موجود ہے۔ ہر طالب علم کو مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک قابل ہومیوپیتھک ڈاکٹر بھی بنایا جاتا ہے ۔ کیونکہ عملی میدان میں قادیانیت کے پر چار کے لیے لوگوں سے راہ و رسم بڑھانے کا یہ بہترین ذریعہ بھی ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانی مربی کا پہلا ٹارگٹ ، مفلوک الحال مسلمان

لوگوں کو گمراہ کرنے پر مربی کوملنے والی مراعات
1996ء میں جامعہ احمدیہ سے فراغت کے بعد میری پہلی تعیناتی ضلع حافظ آبات کے موضع پیر کوٹ ثانی میں ہوئی ۔ اس گاؤں میں قادیانی اکثریت میں ہیں ۔ اور ہر لحاظ سے طاقتور بھی ہیں۔ قادیانیوں کے نزدیک ایک گاؤں کو بڑی مقدس حیثیت حاصل ہے ۔ کیونکہ یہاں مرزا غلام احمد قادیانی کے تین مصاحبین کی قبریں بھی ہیں ۔ اس گاؤں میں میری تعیناتی ایک طرح کی ہاؤس جاب تھی۔ یہاں سے ٹریننگ لینے کے بعد مجھے ضلع منڈی بہاؤالدین کے دیہات "رجوعہ" اور "مرالہ مکھناں والی" بھیج دیا گیا۔ چند ماہ وہاں گزرنے کے بعد میری پوسٹنگ ضلع گجرات کے علاقوں "ڈنگہ" اور "کنجاہ" میں ہو گئی ۔ میں ایک سال تک ان چار سٹیشنز پر کام کرتا رہا ۔ اور اس عرصے میں یہاں کے 16 مسلمانوں کو میں نے قادیانی بنایا۔ پہلے سال ہی اس حیران کن کارکردگی کی وجہ سے میں جماعت کی قیادت کی نظروں میں آگیا اور اس کے ساتھ ہی مجھے ملنے والی مراعات اور پروٹوکول میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ یہ جماعت کا اصول ہے کہ جو مربی جتنے زیادہ مسلمانوں کو قادیانی بنائے ، اسے اتنی ہی زیادہ ترقی دی جائی ہے ۔ ویسے عام طور پر بھی مربی کو ماہانہ تنخواہ کے علاوہ بھی کافی مراعات حاصل ہوتی ہیں ۔ میں جب 1996ء میں فیلڈ میں آیا۔ اس وقت ایک مربی کی ماہانہ تنخواہ دس ہزار روپے تھی۔ میڈیکل اور بچوں کی تعلیم فری تھی۔ اگر ملک میں علاج ممکن نہ ہوتا تو جماعت اپنے خرچے پر بیرون ملک علاج کے لیے بھجواتی۔ جس علاقے میں تعیناتی ہوتی ۔ وہاں ایک وی آئی پی گھر ملتا۔ موسم کی مناسبت سے ہر سال نیا بستر دیا جاتا۔ گرمیوں میں اور سردیوں میں قیمتی کپڑوں کے تین تین جوڑے دیئے جاتے۔ابتداء میں سائیکل دی جاتی ۔ جس کی دیکھ بھال کے لیے ماہانہ 200 روپے الگ ملتے تھے۔ بہترین کارکردگی دکھانے پر اگلے مرحلے میں نئی لینڈ کروزر دی جاتی۔ البتہ مربی کے لیے موٹرسائیکل چلانے پر سخت پابندی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع شروع میں مربی کو سائیکل کے بعد موٹرسائیکل ہی دی جاتی تھی۔ لیکن پھر مختلف علاقوں میں مربی موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ایکسیڈینٹ ہونے کی وجہ سے مارے گئے۔ ان حادثات کے بعد جماعت کیے مرکزی ذمہ داران سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ چونکہ جماعت کے پاس پہلے ہی قلیل مقدار میں مربی ہیں لہذا ان حادثاتی اموات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آئندہ کوئی مربی موٹرسائیکل نہیں چلائے گا۔ اس کے ساتھ ہی مربیوں کو موٹرسائیکلیں دینا بند کر دی گئیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مربی کا تعلق اور ٹارگٹ حاصل کرنے کے لیے طریقہ واردات

مربی کا براہ راست ناظر امور عامہ سے رابطہ ہوتا ہے ۔ جماعت احمدیہ کے دو طاقتور ذیلی انتظامی ادارے ناظر امور عامہ اور دفتری عمومی ہیں۔ دفتری عمومی صرف چناب نگر کے قادیانیوں کے معاملات کو ڈیل کرتا ہے اور ناظر امور عامہ پورے ملک کے قادیانیوں کو کنٹرول کرتا ہے ۔ مسلمانوں کو قادیانیت کی طرف مائل کرنے کے لیے ہر مربی دوطرح کے ہتھیاروں خوش اخلاقی اور چرب زبانی سے لیس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی دوران تعلیم مسلمانوں کو پھانسنے کی خصوصی تربیت دی جاتی ہے ۔ مربی کا پہلا ٹارگٹ انتہائی غریب مسلمان ہوتے ہیں۔ وہ ان کی کمزور مالی حالت اور معاشی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے قریب ہوتا ہے۔ مربی کی سفارش پر جماعت "ٹارگٹ" کی مالی معاونت کے لیے فنڈ جاری کرتیہے ۔ اس کے لیے کوئی لگی بندھی رقم نہیں ہوتی بلکہ لا محدود فنڈ ہوتا ہے۔ "ٹارگٹ" کی مالی حالت کے پیش نظر مربی جتنی رقم چاہے، جاری کرواسکتا ہے۔ مربی کی سفارش کو جماعت شاذونادرہی رد کرتی ہے۔ مالی معاونت کے ساتھ ساتھ وہ اپنے" ٹارگٹ" کی برین واشنگ بھی شروع کر دیتا ہے۔ جس کا نتیجہ اکثر کامیابی کی صورت میں نکلتا ہے۔ایک مربی کے لیے لازم ہوتا ہے کہ وہ ایک وقت میں کم از کم دس مسلمانوں کو قادیانیت کا پچار کے۔ مربی کا دوسرابڑا ٹارگٹ وہ کھاتے پیتے امیر مسلمان ہوتے ہیں جو دین سے دور ہوتے ہیں ۔ ان میں سے بھی خاص طور پر وہ لوگ مربی کے لیے انتہائی آسان ہدف ثابت ہوتے ہیں جو علماء سے بیزار رہتے ہیں اور ان سے میل جول اور ان کی مجالس میں بیٹھنا پسند نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں سے راہ رسم بڑھانے کے بعد مربی انہیں اپنی عبادتگاہ "بیت الذکر"آنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ والا "ٹارگٹ" جب قادیانی عبادتگاہ میں داخل ہوتا ہے تو مربی اس پر پہلا حملہ یہ کرتا ہے کہ اسے نماز پڑھ کر دکھاتا ہے اور نماز کے بعد دعا نہیں مانگتا۔ اس کے سات ہی یہ سوال اٹھا دیتا ہے کہ ہم نماز کے بعد دعا اس لیے نہیں مانگتے کہ نماز بذات خود ایک دعا ہے۔ بعد میں دعا مانگنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا۔ اپنے دعوے کے حق میں مربی چند آیات بھی پیش کرتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ بڑے غیر محسوس انداز میں اپنے ٹارگٹ کو یہ باور کرواتا ہے کہ جو لوگ (یعنی مسلمان) نماز کے بعد دعا مانگتے ہیں وہ غلط ہیں اور ہم صحیح ہیں۔ "ٹارگٹ" پر اگلا حملہ کرنے کے لیے مربی کسی بچے کو بلا کر اس سے پہلا کلمہ سنواتا ہے۔ جب ٹارگٹ یہ دیکھتا ہے کہ ایک قادیانی بچہ بھی وہی کلمہ پڑھ رہا ہے جو ایک مسلمان بچہ پڑھتا ہے تو وہ ایک تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور مولوی کو کوستے ہوئے اسے مسلمانوں کے فرقوں میں تقسیم کرنے کا الزام دینے لگتا ہے۔ اب مربی کا کام آسان ہو جاتا ہے۔ کیونکہ زمین ہموار ہو جاتی ہے۔ پھر وہ پہلے مرزا غلام احمد قادیانی کو ٹارگٹ کے سامنے ایک ولی ، بزرگ اور مجدد کے طور پر پیش کرتا ہے۔ پھر ظلی و بروزی نبی کے طور پر متعارف کرواتا ہے۔ اور آخر میں اپنے ٹارگٹ کو اس بات پر لے آتا ہے کہ آخری نبی تو بس مرزا صاحب ہی ہیں۔ (نعوذُبااللہ) یہ مربی کا مخصوص طریقہ واردات ہوتاہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
بارہ مسلمانوں کو قادیانی بنا ڈالا

میں نے پنجاب میں ڈیوٹی کے دوران حافظ آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، منڈی بہاؤالدین ، فیصل آباد اور بہاولنگر میں کام کیا۔ بہاولنگر کی تحصیل فورٹ عباس کے چک نمبر 223 نائن آر میں تعیناتی کے دوران مجھے صحیح اندازہ ہواکہ جامعہ احمدیہ میں دوران تعلیم کھیلوں میں حصہ لینا کیوں لازمی ہے ۔ اور اس کی کیا آفادیت ہے۔ میں دور طالب علمی میں بطور بلے باز کرکٹ کا ایک اچھا کھلاڑی رہا ہوں۔ بعد میں بھی پریکٹس جاری رکھی۔ اس گاؤں میں بھی قادیانی بہت طاقتور اور اکثریت میں تھے۔ میں بھی شام کے وقت مقامی لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتا ۔ اسی دوران ایک میچ میں ایک مسلمان بالر لڑکے کو میں نے چارگندوں پر لگاتار چار چھکے مارے۔ اس شاندار بیٹنگ نے مقامی مسلمان لڑکوں کو میرا گرویدہ بنا دیا۔ اب وہ میرے ساتھ کھل کر اٹھنے بیٹھنے لگے۔ جب تعلق بڑھا تو وہ مجھے اپنی ٹیم کی طرف سے دوسری ٹیموں کے ساتھ کھیلنے کی دعوت دینے لگے۔ وہ جب بھی کھیلنے کی دعوت دیتے میں جوابا ان کے سامنے کبھی بیت الذکر میں آنے ، کبھی میرے ساتھ مل کر نماز پڑھنے اور کبھی میرا خطبہ سننے کی شرط رکھ دیتا۔ بس اس کھیل ہی کھیل میں ، میں نے گیارہ ماہ میں اس گاؤں کے بارہ مسلمان لڑکے قادیانی بنا لیے
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
علماء سے بحث و مباحثہ و مناظرے

جماعت کی طرف سے مربی کو مسلمان علماء کے ساتھ بحث مباحثے اور مناظرے سے سختی سے منع کیا جاتا ہے۔ لیکن جہاں قادیانی اکثریت میں ہوں، وہاں وہ مسلمانوں کا ناطقہ بند کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے ۔ میں وزیر آباد کے قریب قاداینیوں کے اکثریتی گاؤں "کھیوے والی" میں تعینات تھا۔ وہاں میں نے ایک مسلمان کو قادیانیت کی دعوتی دی تو اس میں مجھے مناظرے کا چیلنج کر دیا۔ میں نے بھی جوش میں آکر چیلنج قبول کر لیا۔ ان لوگوں نے اگلے روز سرگودھا کے مشہور عالم مولانا اکرم طوفانی کو بلا لیا۔ جماعت کو خبر ہوئی تو مجھے مناظرہ کرنے سے سختی سے روک دیا گیا۔ مولانا اکرم طوفانی آئے انہوں نے ردِ قادیانیت پر بڑی سخت تقریر کی اور ساتھ ہی میرا نام لے کر مجھے بھی خوب لتاڑا۔ اتفاق کی بات تھی کہ گاؤں کے اردگرد ساری اراضی قادیانی زمینداروں کی ملکیت تھی۔ مسلمانوں کو اس میں سے گزر کر اپنے رقبے پر جانا پڑتا تھا۔ میں نے انہیں سبق سکھانے کے لیے قادیانی زمینداروں کی میٹنگ بلا لی۔ باہم مشورے سے حکمت عملی طے کی اور اگلے روز اس پر عملدرآمد شروع کر دیا۔ قادیانی لڑکے ڈنڈے لے کر اپنی زمینوں پر کھڑے ہو گئے۔ جو بھی مسلمان وہاں سے گزرتا ہے وہ اس کی پٹائی کرتے۔ مجبورا مسلمانوں کوقادیانیوں سے معافی مانگنی پڑی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
1998ء کی مردم شماری اور قادیانیوں کا دردِ سر اور قادیانی جماعت کو چیلنج

اسی دوران 1998ء کی مردم شماری شروع ہو گئی۔ جماعت احمدیہ کے ذمہ دار سرجوڑ کر بیٹھ گئے کہ کس طرح قادیانیوں کی آبادی زیادہ شو کی جائے ۔ بالآخر باہمی مشورے سے ایک منصوبہ طے پایا اور مربیوں کے ذریعے اس پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا۔ اس سلسلے میں میری ڈیوٹی اندرون سندھ ضلع تھرپارکر میں لگائی گئی۔ میں نے وہاں مردم شماری ڈیوٹی کرنے والے مقامی ٹیچر سے رابطہ کیا۔ ان کے ساتھ معاملات طے ہوئے اور پھر میں نے انہیں کچی پنسلیں خرید کر دیں۔ وہ سارا دن ان پنسلوں سے مردم شماری فارم پُر کرتے۔ شام کو ساری فائلیں اٹھا کر میری قیام گاہ پر لے آتے اور میرے سامنے بیٹھ کر کچی پنسل سے لکھا ، مٹا کر پکی پنسل کے ساتھ مذہب کے خانے میں مسلمانوں کے ناموں کے آگے بھی احمدی لکھتے جاتے اور بدلے میں منہ مانگا معاوضہ وصول کرتے۔ اس "پروجیکٹ" پر کام کے دوران میں نے ان ٹیچرز پر جماعتی فنڈ میں سے سات لاکھ روپے صرف کیے۔ اسی لیے تو میں اب چیلنج سے کہتا ہوں کہ مرزا طاہر اپنے دور میں یہ جو دعوی کیا کرتے تھے کہ سندھ میں ان سے بیعت ہونے والوں کی تعداد تین کروڑ ہے، یہ دعوی بلکل جھوٹ پر مبنی ہے۔ سندھ میں قادیانیوں کی تعداد تیس ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔ اور وہ لوگ بھی پیسے کی آکسیجن زندہ ہیں۔ باقی جو کروڑوں کے دعوے ہیں ، وہ سب کاغذی کاروائی ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
میری بہترین کارکردگی پر جماعت میں میری ترقی

میری کارکردگی کو دیکھتے ہوئے 2001ء میں جماعت نے میری پوسٹنگ صوبائی نائب ناظم جماعت احمدیہ کے طور پر سندھ میں کر دی ۔ یہاں میں نےقادیانیت کے پرچار کے لیے ہومیوپیتھک ڈاکٹر کے روپ میں کام کا آغاز کیا اور میر پور خاص میں ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی سے چند روز تربیت لینے کے بعد مٹھی ، ننگرپارکراور دوہتٹر کے مقام پر تین کلینک قائم کیے۔ میں چیک اپ اور دوا کے صرف دس روپے لیتا تھا۔ میرے کلینکس پر صبح سے شام تک رش رہتا ۔ ان علاقوں میں غربت بہت ہے اور میں اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتا تھا۔ آنے والے مریضوں کو مفت دوا کے ساتھ ان کی کچھ مالی معاونت بھی کرتا تھا۔ کبھی کبھی ٹافیوں کے پیکٹ لے کر کسی گاؤں پہنچ جاتا اور بچوں اور بڑوں میں ٹافیاں تقسیم کر کے جماعت احمدیہ کے رکنیت فارم پر انگوٹھے لگوالیتا اور ان میں مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو بھی شامل ہوتے تھے۔ صرف اندرون تھرپارکر میں ہم نے 420 کلینکس کھول رکھے تھے۔ اور میں ان سب کا انچارج تھا۔ میں نے بطور مربی دس سال کے عرصے میں 1372 لوگوں کو قادیانی بنایا جن میں سے 300 کا تعلق پنجاب سے تھا۔ سندھ میں میرا رہن سہن بڑاشاہانہ تھا۔ جماعت نے نقل و حرکت کے لیے پہلے مجھے گھوڑا فراہم کیا جس کی دیکھ بھال کے لیے میں نے تین مقامی لڑکے ملازم رکھے ہوئے تھے جنہیں میں 200 روپے فی کس ماہانہ تنخواہ دیتا تھا۔ جلد ہی مجھے نئی لینڈ کروزر دے دی گئی۔ میری کارکردگی بھی بڑی زبردست تھی۔ اس سب کے باوجود میں نے جماعت سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا فیصلہ کیوں کیا اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔
 
Top