عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے دورِ صدیقی سے دورِ حاضر تک کی خدمات کا مختصر اور جامع جائزہ
سوال۹… عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے دور صدیقیؓ سے دور حاضر تک جو خدمات سرانجام دی گئیں ہیں۔ ان کا تذکرہ مختصر مگر جامع انداز میں تحریرکریں؟
جواب … آپﷺ کی ختم نبوت میں امت مسلمہ کی وحدت کا راز مضمر ہے۔ اس لئے اس مسئلہ میں چودہ سو سال سے کبھی بھی امت دورائے کا شکار نہیں ہوئی۔ بلکہ جس وقت کسی شخص نے اس مسئلہ کے خلاف رائے دی امت نے اسے سرطان کی طرح اپنے جسم سے علیحدہ کردیا۔ ختم نبوت کا تحفظ یا باالفاظ دیگر منکرین ختم نبوت کا استیصال دین کا ہی ایک حصہ ہے۔ دین کی نعمت کا اتمام آنحضرتﷺ کی ذات اقدس پر ہوا۔ اس لئے دین کے اس شعبہ کو بھی اﷲ رب العزت نے خود آنحضرتﷺ سے وابستہ فرمادیا اور سب سے پہلے خود آنحضرتﷺ نے اپنے زمانہ میں پیدا ہونے والے جھوٹے مدعیان نبوت کا استیصال کرکے امت مسلمہ کو اپنے عمل مبارک سے کام کرنے کا عملی نمونہ پیش فرمادیا۔
تحفظ ختم نبوت آنحضرتﷺ کی سنت مبارکہ:
چنانچہ اسود عنسی کے استیصال کے لئے رحمت عالمﷺ نے حضرت فیروز دیلمیؓ کو اور طلیحہ اسدی کے مقابلہ میں جہاد کی غرض سے حضرت ضرار بن ازورؓ کو روانہ فرمایا۔ یہ امت کے لئے خود آنحضرتﷺ کا عملی سبق ہے۔ امت کے لئے خیروبرکت اور فلاح دارین اس سے وابستہ ہے کہ ختم نبوت کے عقیدئہ کا جان جوکھوں میں ڈال کر تحفظ کرے اور منکرین ختم نبوت کو ان کے انجام تک پہنچائے۔ امت نے آنحضرتﷺ کے اس مبارک عمل کو اپنے لئے ایسے طور پر مشعل راہ بنایا کہ خیرالقرون کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک ایک لمحہ کے لئے بھی امت اس سے غافل نہیں ہوئی۔ طلیحہ اسدی نے اپنے ایک قاصد عم زاد ’’حیال‘‘ کو حضورﷺ کے پاس بھیج کر اپنی نبوت منوانے کی دعوت دی۔ طلیحہ اسدی کے قاصد کی بات سن کر رحمت عالمﷺ کو بہت فکر دامن گیر ہوئی۔ چنانچہ آپﷺ نے تحفظ ختم نبوت کی پہلی جنگ کے پہلے سپہ سالار کے لئے اپنے صحابی حضرت ضرار بن ازورؓ کا انتخاب فرمایا اور ان قبائل و عمال کے پاس جہاد کی تحریک کے لئے روانہ فرمایا جو طلیحہ کے قریب میں واقع تھے۔ حضرت ضرارؓ نے علی بن اسد سنان بن ابوسنان اور قبیلہ قضا اور قبیلہ بنوورتا وغیرہ کے پاس پہنچ کر ان کو آنحضرتﷺ کا پیغام سنایا اور طلیحہ اسدی کے خلاف فوج کشی اور جہاد کی ترغیب دی۔ انہوں نے لبیک کہا اور حضرت ضرارؓ کی قیادت میں ایک لشکر تیار ہوکر واردات کے مقام پر پڑائو کیا۔ دشمن کو پتہ چلا۔انہوں نے حملہ کیا۔ جنگ شروع ہوئی۔ لشکر اسلام اور فوج محمدی نے ان کو ناکوں چنے چبوادیئے۔ مظفرو منصور واپس ہوئے۔ ابھی حضرت ضرارؓ مدینہ منورہ کے راستہ میں تھے کہ آنحضرتﷺ کا وصال مبارک ہوگیا۔
(تلخیص ائمہ تلبیس ص ۱۷ ج۱)
عہد صدیقیؓ میں تحفظ ختم نبوت کی پہلی جنگ:
حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ کے عہد خلافت میں ختم نبوت کے تحفظ کی پہلی جنگ یمامہ کے میدان میں مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی۔ اس جنگ میں سب سے پہلے حضرت عکرمہؓ پھر حضرت شرحبیلؓ بن حسنہ اور آخر میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے مسلمانوں کے لشکر کی کمان فرمائی۔ اس پہلے معرکہ ختم نبوت میں ۱۲ سو صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ شہید ہوئے۔ جن میں سات سو قرآن مجید کے حافظ و قاری تھے اور بہت سے صحابہؓ بدریین تھے ۔ سیدنا صدیق اکبرؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو لکھا کہ مسیلمہ کذاب کی پارٹی کے تمام بالغ افراد کو بجرم ارتداد قتل کردیا جائے۔ عورتیں اور کم سن لڑکے قیدی بنائے جائیں اور ایک روایت (البدایۃ والنہایۃ ج ۶ ص ۳۱۰ اور طبری تاریخ الامم والملوک کی جلد۲ص۴۸۲) کے مطابق مرتدین کے احراق کا بھی حضرت صدیق اکبرؓ نے حکم فرمایا۔ لیکن آپ کا فرمان پہنچنے سے قبل حضرت خالد بن ولیدؓ معاہدہ کرچکے تھے۔ معاہدہ اس طرح ہوا کہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے مسیلمہ کے ایک ساتھی مجاعہ کو گرفتار کرلیا تھا۔ جنگ کے اختتام پر اسے قید سے رہا کرکے فرمایا کہ اپنی قوم کو قلعہ کھولنے پر تیار کرو۔ مجاعہ نے جاکر عورتوں اور بچوں کو پگڑیاں بندھوا کر مسلح کرکے قلعہ کی فصیل پر کھڑا کردیا اور حضرت خالدؓ کو یہ تاثر دیا کہ بہت سا لشکر قلعہ میں جنگ کے لئے موجود ہے۔ حضرت خالدؓ اور مسلمان فوج ہتھیار اتار چکے تھے۔ نئی جنگ کے بجائے انہوں نے چوتھائی مال و اسباب پر مسیلمہ کی فوج سے صلح کرلی۔ جب قلعہ کھول دیا گیا تو وہاں عورتوں اور بچوں کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ حضرت خالدؓ نے مجاعہ سے کہا کہ تم نے دھوکہ دیا۔ اس نے کہا کہ اپنی قوم کو بچانے کی خاطر ایسا کیا۔ باوجودیکہ یہ معاہدہ دھوکہ سے ہوا۔ لیکن حضرت خالدؓ نے اس معاہدہ کو برقرار رکھا۔ مسیلمہ کذاب کو حضرت وحشیؓ نے قتل کیا تھا اور بدایہ کی روایت کے مطابق طلیحہ کے بعض ماننے والوں کی خاطر بزاخہ میں قیام کے دوران ایک ماہ تک ان کی تلاش میں پھرتے رہے۔ تاکہ آپ ان سے مسلمانوں کے قتل کا بدلہ لیں۔ جن کو انہوں نے اپنے ارتداد کے زمانہ میں اپنے درمیان رہتے ہوئے قتل کردیا تھا۔ ان میں سے بعض (طلیحی مرتدین) کو حضرت خالدؓ نے آگ میں جلادیا اور بعض کو پتھروں سے کچل دیا، اور بعض کو پہاڑوں کی چوٹیوں سے نیچے گرادیا۔ یہ سب کچھ آپ نے اس لئے کیا تاکہ مرتدین عرب کے حالات سننے والا ان سے عبرت حاصل کریں۔ (البدایہ ج۲ ص ۱۱۶۶ اردو ترجمہ مطبوعہ نفیس اکیڈیمی، کراچی)
اسلام کی چودہ سو سال کی تاریخ گواہ ہے کہ باقی تمام فتنوں سے مباحثہ، مجادلہ، مناظرہ و مباہلہ وغیرہ ہوئے۔ لیکن جھوٹے نبیوں سے تو گفتگو کی بھی شریعت نے اجازت نہیں دی اور فصول عمادی میں کلمات کفر شمار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’وکذالو قال انا رسول اﷲ اوقال بالفارسیۃ من پیغامبرم یریدبہ پیغام می برم یکفر ولو انہ حین قال ھذہ المقالۃ طلب غیرہ منہ المعجزۃ قیل یکفر الطالب والمتأخرون من المشائخ قالوا ان کان غرض الطالب تعجیزہ وافتضاحہ لایکفر(فصول : ۱۳۰۰)‘‘
ترجمہ: ’’اور ایسے ہی اگر کہے کہ میں اﷲ کا رسول ہوں یا فارسی زبان میں کہے من پیغامبرم اور مراد یہ ہو کہ میں پیغام لے جاتا ہوں تو کافر ہوجائے گا اور جب اس نے یہ بات کہی اور کسی شخص نے اس سے معجزہ طلب کیا تو بعض کے نزدیک یہ طالب معجزہ بھی کافر ہوجائے گا۔ لیکن متأخرین نے فرمایا ہے کہ اگر طالب معجزہ کی نیت طلب معجزہ سے محض اس کی رسوائی اور اظہار عجز ہو تو کافر نہ ہوگا۔‘‘
اور خلاصۃ الفتاویٰ جلد ۴ صفحہ ۳۸۶ کتاب الفاظ الکفر فصل ثانی میں امام عبدالرشید بخاریؒ فرماتے ہیں کہ:
’’ ولوادعیٰ رجل النبوۃ و طلب رجل المعجزۃ قال بعضھم یکفر وقال بعضھم ان کان غرضہ اظہار عجزہ وافتضاحہ لایکفر ‘‘
ترجمہ: ’’اور اگر کسی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور دوسرے نے اس سے معجزہ طلب کیا تو بعض فقہاکے نزدیک یہ طالب معجزہ بھی مطلقاً کافرہوجائے گا اور بعض نے یہ تفصیل فرمائی ہے کہ اگر اس نے اظہار عجز و رسوائی کے لئے معجزہ طلب کیا تھا تو یہ کافر نہ ہوگا۔‘‘
چنانچہ امت کی چودہ سوسال کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی کسی اسلامی حکومت میں کسی شخص نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا تو امت نے اس سے دلائل و معجزات مانگنے کی بجائے اس کے وجود سے ہی اﷲ تعالیٰ کی دھرتی کو پاک کردیا۔ ہمارے برصغیر پاک و ہند میں انگریز نے مرزا غلام احمد قادیانی کی بطور ’’خودکاشتہ پودا‘‘ آبیاری کی۔ مسلمان قوم مظلوم، محکوم، غلام تھی۔ لاچار امت کو قادیانی گروہ سے مناظرہ کی راہ اختیار کرنی پڑی۔ اﷲ تعالیٰ نے دلائل و براہین، مقدمات ومناظروں، منبرومحراب، عدالتوں و اسمبلی، مکۃ المکرمہ وافریقہ تک جہاں بھی کسی فورم پر قادیانی کیس گیا۔ امت مسلمہ کو کامیابی نصیب ہوئی۔ یہ راستہ مجبوراً اختیار کرنا پڑا۔ ورنہ شرعاًجھوٹے مدعی نبوت اور پیروکاروں کا وہی علاج ہے جو صدیق اکبرؓ نے اپنے عہد زرین میں مسیلمہ کذاب کا یمامہ کے میدان میں کیا تھا، اور یقین فرمایئے کہ جب کبھی اس خطہ میں اسلام کی حکومت قائم ہوگی۔ سنت صدیقؓ دھرائی جائے گی۔ اﷲ تعالیٰ امت محمدیہﷺ کو توفیق نصیب فرمائے۔
نوٹ: آج تک جو جھوٹے مدعیان نبوت ہوئے۔ ان کی تفصیل ’’ائمہ تلبیس‘‘ (دوجلد) میں مولانا محمد رفیق دلاوریؒ نے قلمبند کی ہے۔ اس کی تلخیص ۲۲ جھوٹے مدعی نبوت کے نام سے نثار احمد خان فتحی نے کی ہے۔ ان کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔