• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سوال 10۔تحفظ ختم نبوت ﷺ کے متعلق ، اور مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف اکابرین علمائے دیوبند کی خدمات

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
تحفظ ختم نبوت ﷺ کے متعلق ، اور مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف اکابرین علمائے دیوبند کی خدمات

سوال… مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت کے بعد اکابر علمائے دیوبند نے جو گرانقدر خدمات اس محاذ کے مختلف میدانوں میں سرانجام دی ہیں۔ ان کا مختصرتذکرہ کریں؟
جواب … برصغیر میں جب انگریز نے اپنے استبدادی پنجے مضبوطی سے گاڑ لئے تو اس نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے ’’لڑائو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی اختیار کی۔ دیگر ضمیر ودین فروشوں اور فتویٰ بازوں کے علاوہ اسے ایک ایسے مدعی نبوت کی ضرورت پیش آئی جو اس کے ظالمانہ و کافرانہ نظام حکومت کو ’’سندالہام‘‘ مہیا کرسکے۔ اس کے لئے اس نے ہندوستان بھر کے ضمیر فروش طبقات سے اپنے مطلب کا آدمی تلاش کرنے کے لئے سروے شروع کیا۔ اﷲ رب العزت کی قدرت کے قربان جایئے کہ قادیانی فتنہ کے جنم لینے سے قبل دارالعلوم دیوبند کے مورث اعلیٰ حضرت حاجی امداداﷲ مہاجر مکیؒ پر بطور کشف کے اﷲ تعالیٰ نے منکشف فرمادیا تھا کہ ہندوستان میں ایک فتنہ برپا ہونے والا ہے۔ چنانچہ مکہ مکرمہ میں ایک دن ان کے ہاں مولانا پیرمہر علی شاہ گولڑویؒ تشریف لے گئے۔ تو آپ نے حضرت پیر صاحبؒ سے فرمایا:
’’ درہندوستان عنقریب یک فتنہ ظہور کند۔ شما ضرورد ر ملک خود واپس بروید و اگر بالفرض شمادر ہند خاموش نشستہ باشید تاہم آں فتنہ ترقی نہ کندودر ملک آرام ظاہر شودپس مادر یقین خویش وقوع کشف حاجی صاحب رابفتنہ مرزا قادیانی تعبیرمی کنم۔ ‘‘
ترجمہ: ’’ہندوستان میں عنقریب ایک فتنہ نمودار ہوگا۔ تم ضرور اپنے وطن میں واپس چلے جائو۔ اگر بالفرض تم ہندوستان میں خاموش بھی بیٹھے رہے۔ تو وہ فتنہ ترقی نہ کرے گا اور ملک میں سکون ہوگا۔ میرے (پیر صاحبؒ) نزدیک حاجی صاحبؒ کی فتنہ سے مراد فتنہ قادیانیت تھی۔‘‘
(ملفوظات طیبہ ص ۱۲۶، تاریخ مشائخ چشت ص ۷۱۳، ۷۱۴، بیس بڑے مسلمان ص ۹۸، مہر منیر ص ۱۲۹)
اس سے اتنی بات پایۂ ثبوت کو پہنچی ہے کہ مرزا قادیانی کے فتنہ انکار ختم نبوت سے قبل ہی حق تعالیٰ نے اپنے مقبول بندوں کو فتنہ قادیانیت کے خلاف کام کرنے کے لئے متوجہ فرمادیا۔ اس پر حق تعالیٰ شانہ کا جتنا شکریہ ادا کیا جائے کم ہے کہ سب سے پہلے فتنہ قادیانیت کی تردیدی وتکفیری مہم کے لئے حق تعالیٰ نے جس جماعت کا انتخاب کیا۔ وہ علمائے دیوبند کی جماعت تھی۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے انگریز کے منصوبہ کے مطابق مبلغ، مناظر، مجدد، مہدی، مسیح، ظلی و بروزی، تشریعی نبی اور پھر معاذاﷲ خدا ہونے کے دعوے کئے۔ اس کی سب سے پہلی کتاب جس وقت منظر عام پر آئی اور مرزا ابھی تعارف اور جماعت سازی کے ابتدائی مرحلے مکمل کرنے کے درپے تھا۔ اس وقت سب سے پہلے جس مردخدا ، عارف باﷲ نے پڑھنے پڑھانے سے نہیں۔ بلکہ حق تعالیٰ کی طرف سے باطن کی صفائی کی بنیاد پر مرزا کے کافر و مردود اور اسلام سے برگشتہ ہونے کا نعرئہ مستانہ بلند کیا۔ وہ خانوادئہ دیوبند کے سرخیل حضرت میاں شاہ عبدالرحیم سہارنپوریؒتھے۔ میاں شاہ عبدالرحیم سہارنپوریؒ کے پاس مرزا کی کتاب پر تبصرہ کرنے کے لئے قادیانی وفد حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ مجھ سے پوچھتے ہو تو سن لو۔ یہ شخص تھوڑے دنوں میں ایسے دعوے کرے گا۔ جو نہ رکھے جائیں گے، نہ اٹھائے جائیں گے۔ قادیانی وفد یہ سن کر جزبز ہونے لگا کہ دیکھو علماء تو علمائ۔ درویش کو بھی دوسرے لوگوں کا شہرت پانا گراں گزرتا ہے۔ میاں صاحبؒ نے فرمایا مجھ سے پوچھا ہے تو جو سمجھ میں آیا بتادیا۔ ہم تو اس وقت زندہ نہ ہوں گے۔ تم آگے دیکھ لینا۔
(ماخوذ از ارشادات قطب الارشاد حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ ص۱۲۸)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
علمائے دیوبندکی جانب سے قادیانیوں کےخلاف کچھ فتویٰ جات
قادیانیوں کے خلاف پہلا فتویٰ:
مرزا غلام احمد قادیانی نے اب پرپرزے نکالے۔ جماعت سازی کے لئے۱۳۰۱ھ مطابق ۱۸۸۴ء میں لدھیانہ آیا تو مولانا محمد لدھیانویؒ، مولانا عبداﷲ لدھیانویؒ اور مولانا محمد اسمٰعیل لدھیانویؒ نے فتویٰ دیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی مجدّد نہیں بلکہ زندیق اور ملحد ہے۔
(فتاویٰ قادریہ ص۳)
اﷲ رب العزت کا کرم تو دیکھئے! سب سے پہلے دیوبند مکتبہ فکر کے علمائے کرام کی جماعت کو مرزا غلام احمد قادیانی پر کفر کا فتو یٰ دینے کی توفیق ہوئی۔ یہ مولانا محمد لدھیانویؒ معروف احرار رہنما مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کے دادا تھے۔ ان حضرات کا فتویٰ مرزا قادیانی کے کفر کو الم نشرح کرنے کے لئے کھڑے پانی میں پتھر پھینکنے کے مترادف ہوا۔ اس کی لہریں اٹھیں۔ حالات نے انگڑائی لی پھر:

لوگ ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا
یہ اس زمانہ کی بات ہے جب مولانا محمد حسین بٹالوی وغیرہ مرزا قادیانی کی کتب پر مثبت رائے کا اظہار کررہے تھے۔ ۱۸۹۰ء میں انہوں نے بھی مرزا قادیانی کے خلاف فتویٰ دیا۔ مرزا قادیانی نے انگریز کے ایما پر رسائل و کتب شائع کیں۔ ہندوستان کے علمائے کرام حسب ضرورت اس کی تردید میں کوشاں رہے۔ قارئین کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ باضابطہ فتویٰ مرتب کرکے متحدہ ہندوستان کے تمام سرکردہ جید علمائے کرام سے فتویٰ لینے کی سعادت بھی اﷲ تعالیٰ نے دیوبند کو نصیب فرمائی۔

دارالعلوم دیوبند کے مدرس مولانا محمد سہولؒ نے ۱۲؍ صفر ۱۳۳۱ھ کو فتویٰ مرتب کیا کہ:

۱… مرزا غلام احمد قادیانی مرتد، زندیق، ملحد اور کافر ہے۔
۲… یہ کہ اس کے ماننے والوں سے اسلامی معاملہ کرنا شرعاً ہرگز درست نہیں۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ مرزائیوں کو سلام نہ کریں۔ ان سے رشتہ ناتہ نہ کریں۔ ان کا ذبیحہ نہ کھائیں۔ جس طرح یہود، ہنود، نصاریٰ سے اہل اسلام مذہباً علیحدہ رہتے ہیں۔ اسی طرح مرزائیوں سے بھی علیحدہ رہیں۔ جس طرح بول و براز، سانپ اور بچھو سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ اس سے زیادہ مرزائیوں سے پرہیز کرنا شرعاً ضروری اور لازمی ہے۔
۳… مرزائیوں کے پیچھے نماز پڑھنا ایسے ہے۔ جیسے یہود و نصاریٰ اور ہندو کے پیچھے نماز پڑھنا۔
۴… مرزائی مسلمانوں کی مساجد میں نہیں آسکتے۔ مرزائیوں کو مسلمانوں کی مساجد میں عبادت کی اجازت دینا ایسے ہے۔ جیسے ہندوؤں کو مسجد میں پوجا پاٹ کی اجازت دینا۔
۵… مرزا غلام احمد قادیانی، قادیان (مشرقی پنجاب ہندوستان) کا رہائشی تھا۔ اس لئے اس کے پیروکاروں کو ’’قادیانی‘‘ یا ’’فرقہ غلامیہ‘‘ بلکہ جماعت شیطانیہ ابلیسیہ کہا جائے۔


اس فتویٰ پر دستخط کرنے والوں میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، حضرت مولانا مفتی محمد حسنؒ، حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ، حضرت مولانا سید مرتضیٰ حسن چاند پوریؒ، مولانا عبدالسمیع، حضرت مفتی عزیزالرحمن دیوبندیؒ، حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاویؒ، حضرت مولانا اعزاز علی دیوبندیؒ، حضرت مولانا حبیب الرحمن ایسے دیگر اکابر علمائے کرام شامل تھے جن کا تعلق دیوبند، سہارنپور، دہلی، کلکتہ، ڈھاکہ، پشاور، رام پور، راولپنڈی، ہزارہ، مراد آباد، وزیر آباد، ملتان اور میانوالی وغیرہ سے تھا۔ آپ اس سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ کتنا وقیع اور جاندار فتویٰ تھا۔ آج سو سال کے بعد جبکہ قادیانیت کا کفر عیاں و عریاں ہے۔ بایں ہمہ اس فتویٰ میں ذرہ برابر زیادتی کرنا ممکن نہیں۔ ان اکابر نے سوچ سمجھ کر اتنا جاندار فتویٰ مرتب کیا۔ اس میں تمام جزئیات کو شامل کرکے اتنا جامع بنادیا کہ ایک صدی گزرنے کے باوجود اس کی آب و تاب و جامعیت جوں کی توں باقی ہے۔
اس کے بعد ۱۳۳۲ھ میں دارالعلوم دیوبند سے ایک فتویٰ جاری ہوا جس میں قادیانیوں سے رشتہ ناتہ کو حرام قرار دیا گیا تھا۔ یہ فتویٰ حضرت مولانا مفتی عزیزا لرحمن صاحب کا مرتب کردہ ہے۔ اس پر دیوبند سے حضرت مولانا سید اصغر حسینؒ، حضرت مولانا رسول خانؒ، حضرت مولانا محمد ادریس کاندہلویؒ، حضرت مولانا گل محمد خانؒ، سہارنپور سے مظاہرالعلوم کے مہتمم حضرت مولانا عنایت الٰہیؒ، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ، حضرت مولانا عبدالرحمن کامل پوریؒ، حضرت مولانا عبداللطیفؒ، حضرت مولانا بدر عالم میرٹھیؒ، تھانہ بھون سے حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ، رائے پور سے حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ، حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ، دہلی سے حضرت مولانا مفتی کفایت اﷲ دہلویؒ، غرض کلکتہ، بنارس، لکھنؤ، آگرہ، مرادآباد، لاہور، امرتسر، لدھیانہ، پشاور، راولپنڈی، ملتان، ہوشیارپور، گورداسپور، جہلم، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، حیدرآباد دکن، بھوپال، رام پور، وغیرہ سے سینکڑوں علمائے کرام کے دستخط ہیں۔ اس فتویٰ کا نام ’’فتویٰ تکفیر قادیان‘‘ ہے۔ یہ کتب خانہ اعزازیہ دیوبند سے شائع ہوا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانیوں کے خلاف مقدمات
حضرات علمائے دیوبند کی مساعی جمیلہ کے صدقے پوری امت کے تمام مکاتب فکر قادیانیوں کے خلاف صف آرا ہوگئے تو پورے متحدہ ہندوستان میں قادیانیوں کا کفر امت محمدیہؐ پر آشکارا ہوا۔ یوں تو ہندوستان کی مختلف عدالتوں نے قادیانیوں کے خلاف فیصلے دیئے۔ ماریشس تک کی عدالتوں کے فیصلہ جات قادیانیوں کے خلاف موجود ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ جس مقدمہ نے شہرت حاصل کی اور جو ہر عام و خاص کی توجہ کا مرکز بن گیا وہ ’’مقدمہ بہاولپور‘‘ ہے۔ علمائے بہاولپور کی دعوت پر حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ ، حضرت مولانا ابو الوفا شاہجہانپوریؒ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ، حضرت مولانا سید مرتضیٰ حسن چاند پوریؒ ایسے اکابر علمائے دیوبند نے بہاولپور ایسے دور افتادہ شہر آکر کیس کی وکالت کی۔ اس مقدمہ کی ۱۹۲۶ء سے لے کر ۱۹۳۵ء تک کارروائی چلتی رہی۔ اس مقدمہ میں جج نے قادیانیت کے کفر پر عدالتی مہر لگا کر قادیانیت کے وجود میں ایسی کیل ٹھونکی جس سے قادیانیت بلبلا اٹھی۔ سپریم کورٹ کے تمام فیصلوں کی بنیاد یہی فیصلہ ہے جس کی کامیابی میں فرزندان دیوبند سب سے نمایاں ہیں۔ فالحمد ﷲ اوّلاً و آخراً۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانیت کا جماعتی سطح پر احتساب
فرد کا مقابلہ فرد اور جماعت کا مقابلہ جماعت ہی کرسکتی ہے۔ چنانچہ مارچ ۱۹۳۰ء کو لاہور میں انجمن خدام الدین کے سالانہ اجتماع میں جو حضرت شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ کی دعوت پر منعقد ہوا تھا۔ ملک بھر سے پانچ سو علمائے کرام کے اجتماع میں امام العصر حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ نے حضرت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کو ’’امیر شریعت‘‘ کا خطاب دیا اور قادیانیت کے محاذ کی ان پر ذمہ داری ڈالی۔ اس وقت قادیانیت کے خلاف افراد اور اداروں کی محنت میں دارالعلوم دیوبند کا کردار قابل رشک تھا۔ ندوۃ العلماء لکھنؤ کے بانی حضرت مولانا سید محمد علی مونگیریؒ تو گویا تکوینی طور پر محاذ ختم نبوت کے انچارج تھے۔ قادیا نیوں کے خلاف ان کا اور مولانا مرتضیٰ حسن چاندپوریؒ کا وجود ہندوستان کی دھرتی پر درئہ عمرؓ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اب جماعتی سطح پر قادیانیوں کے احتساب کے لئے حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کی ڈیوٹی لگی۔ آپ نے مجلس احرار اسلام ہند میں مستقل شعبہ تبلیغ قائم کردیا۔ جمعیۃ علمائے ہند اور دارالعلوم دیوبند کی پوری قیادت کا ان پر اس سلسلہ میں بھرپور اعتماد تھا۔ حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ ایسے مقبولانِ بارگاہِ الٰہی نے سرپرستی سے سرفراز فرمایا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیان کانفرنس
اﷲ رب العزت کے فضل وکرم سے مجلس احرار اسلام ہند نے ۲۰،۲۱، ۲۲؍ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو قادیان میں کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس میں ان اکابرین ملت نے قادیانیت کا مقابلہ کیا۔ فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیاتؒ، حضرت مولانا عنایت علی چشتیؒ، ماسٹر تاج الدین انصاریؒ، حضرت مولانا رحمت اﷲ مہاجر مکیؒ وغیر ہ ان سب حضرات نے قادیان میں رہ کر قادیانیت کو ناکوں چنے چبوائے۔ اﷲ تعالیٰ کے کرم کے فیصلوں کو دیکھئے کہ یہ سب حضرات خانوادئہ دیوبند سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کانفرنس میں علمائے کرام نے ملک کے چپہ چپہ میں قادیانی عقائد و عزائم کی قلعی کھولنے کی ایک لہر پیدا کردی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیان سے ربوہ تک
مختصر یہ کہ ان اکابر کی قیادت میں امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ اور ’’مجلس احرار اسلام‘‘ کے سرفروشوں نے اپنی شعلہ بار خطابت کے ذریعے انگریز اور انگریز کی ساختہ پرداختہ قادیانی نبوت کے خرمن خبیثہ کو پھونک ڈالا۔ تاآنکہ ۱۹۴۷ء میں انگریزی اقتدار رخت سفر باندھ کر رخصت ہوا تو برصغیر کی تقسیم ہوئی اور پاکستان منصہ شہود پر جلوہ گر ہوا۔ اس تقسیم کے نتیجہ میں قادیانی نبوت کا منبع خشک ہوگیا اور قادیان کی منحوس بستی دارالکفر اور دارالحرب ہندوستان کے حصہ میں آئی۔ قادیانی خلیفہ اپنی ’’ارض حرم‘‘ اور ’’مکۃ المسیح‘‘ (قادیان) سے برقعہ پہن کر فرار ہوا اور پاکستان میںربوہ (اب چناب نگر) کے نام سے نیا دارالکفر تعمیر کرنے کے بعد شاہوار نبوت کی ترکتازیاں دکھانے اور پورے ملک کو مرتد کرنے کا اعلان کرنے لگا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قیام پاکستان کے بعد

قادیانیوں کو یہ غلط فہمی تھی کہ پاکستان کے ارباب اقتدار پر ان کا تسلط ہے۔ ملک کے کلیدی مناصب ان کے قبضے میں ہیں۔ پاکستان کا وزیر خارجہ ظفر اﷲ خان خلیفہ قادیان (حال ربوہ) کا ادنیٰ مرید ہے۔ اس لئے پاکستان میں مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کا جعلی سکہ رائج کرنے میں انہیں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔ ان کی امید افزائی کا خاص پہلو یہ بھی تھا کہ ’’احرار اسلام‘‘ کا قافلہ تقسیم ملک کی وجہ سے بکھر چکا تھا۔ تنظیم اور تنظیمی وسائل کا فقدان تھا اور پھر ’’احراراسلام‘‘ ناخدایان پاکستان کے دربار میں معتوب تھے۔ اس لئے قادیانیوں کو غرہ تھا کہ اب حریم نبوت کی پاسبانی کے فرائض انجام دینے کی کسی کو ہمت نہیں ہوگی۔ لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ حفاظت دین اور ’’تحفظ ختم نبوت‘‘ کا کام انسان نہیں کرتے خدا کرتا ہے اور وہ اس کام کے لئے خود ہی رجال کار بھی پیدا فرمادیتا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مجلس تحفظ ختم نبوت
امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ اور ان کے رفقاء قادیانیوں کے عزائم سے بے خبرنہیں تھے۔ چنانچہ جدید حالات میں قادیانیت کے خلاف کام کرنے کا لائحہ عمل مرتب کرنے کے لئے ملتان کی ایک چھوٹی سی مسجد ’’مسجد سراجاں‘‘ (۱۹۴۹ئ) میں ایک مجلس مشاورت ہوئی۔ جس میں امیر شریعت ؒ کے علاوہ مجاہد ملت حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ‘ خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ‘ مولانا عبدالرحمن میانویؒ‘ مولانا تاج محمودؒ اور مولانا محمد شریف جالندھری ؒ شریک ہوئے۔ غوروفکر کے بعد ایک غیر سیاسی تبلیغی تنظیم ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘کی بنیاد رکھی گئی اور اس کا ابتدائی میزانیہ ایک روپیہ یومیہ تجویز کیا گیا۔ چنانچہ صدرالمبلغین کی حیثیت سے فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیات صاحبؒ کو‘ جو قادیان میں شعبہ تبلیغ احرار اسلام کے صدر تھے۔ ملتان طلب کیا گیا۔ ان دنوں مسجد سراجاں ملتان کا چھوٹا سا حجرہ مجلس تحفظ ختم نبوت کا مرکزی دفتر تھا۔ وہی دارالمبلغین تھا۔ وہی دارالاقامہ تھا۔وہی مشاورت گاہ تھی اور یہی چھوٹی سی مسجد اس عالمی تحریک ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کا ابتدائی کنٹرول آفس تھا۔ شہید اسلام حضرت زیدؓ کے بقول: ’’ وذلک فی ذات الالہ وان یشاء یبارک علی اوصال شلو ممزع ‘‘
حق تعالیٰ شانہ نے اپنی قدرت کاملہ سے اس نحیف و ضعیف تحریک میں ایسی برکت ڈالی کہ آج اس کی شاخیں اقطار عالم میں پھیل چکی ہیں اور اس کا مجموعی میزانیہ لاکھوں سے متجاوز ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قیادت باسعادت
’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کو یہ سعادت ہمیشہ حاصل رہی ہے کہ اکابر اولیاء اﷲ کی قیادت و سرپرستی اور دعائیں اسے حاصل رہی ہیں۔ حضرت اقدس رائے پوریؒ آخری دم تک اس تحریک کے قائد و سرپرست رہے۔ ان کے وصال کے بعد حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ‘ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ‘ حضرت مولانا عبداﷲ درخواستیؒ اور حضرت مولانا خان محمدصاحبؒ خانقاہ سراجیہ کندیاں۔ اس کے سرپرست ہیں ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے بانی اور امیر اول امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ تھے۔ امیر شریعتؒ کی وفات ۱۹۶۱ء میں ہوئی۔ خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ ان کے جانشین مقرر ہوئے۔ ان کے وصال کے بعد حضرت مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھریؒ کو امارت سپرد کی گئی۔ ان کے وصال کے بعد مناظر اسلام مولانا لال حسین اخترؒ امیر مجلس ہوئے۔ مولانا لال حسین اخترؒ کے بعد عارضی طور پر فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیات صاحبؒ کو مسند امارت تفویض ہوئی۔ مگر اپنے ضعف و عوارض کی بناء پر انہوں نے اس گراں باری سے معذرت کا اظہار فرمایا۔ یہ ایک ایسا بحران تھا کہ جس سے اس عظیم الشان تحریک کی پیش قدمی رک جانے کا اندیشہ لاحق ہوگیا تھا۔ لیکن حق تعالیٰ شانہ کا وعدہ حفاظت دین یکایک ایک ایسی ہستی کو اس منصب عالی کے لئے کھینچ لایا جو اپنے اسلاف کے علوم و روایات کی امین تھی اور جس پر ملت اسلامیہ کو بجاطور پر فخر حاصل تھا۔ میری مراد شیخ الاسلام حضرت العلامہ مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ سے ہے۔
تحفظ ختم نبوت اور رد قادیانیت‘ امام العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ کی وراثت وامانت تھی اور اس کا اہل علوم انوری کے وارث حضرت شیخ بنوری سے بہتر اور کون ہوسکتا تھا؟ چنانچہ حضرت امیر شریعت قدس سرہ کی امارت خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ کی خطابت‘ مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھری نوراﷲ مرقدہ کی ذہانت‘ مناظراسلام مولانا لال حسین اختر ؒ کی رفاقت‘ حضرت شیخ الاسلام مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کی بلندئ عزم نے نہ صرف مجلس تحفظ ختم نبوت کی عزت و شہرت کو چار چاند لگادیئے۔ بلکہ ان حضرات کی قیادت نے قصر قادیانی پر اتنی ضرب کاری لگائی کہ قادیانی تحریک کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت پر کذب وافتراء کی آئینی مہر لگ گئی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
غیر سیاسی جماعت
’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کا مقصد تاسیس‘ عقیدئہ ختم نبوت کی حفاظت اور امت مسلمہ کو قادیانی الحاد سے بچانا تھا۔ اس کے لئے ضرورت تھی کہ جماعت خارزار سیاست میں الجھ کر نہ رہ جائے۔ چنانچہ جماعت کے دستور میں تصریح کردی گئی کہ جماعت کے ذمہ دار ارکان سیاسی معرکوں میں حصہ نہیں لیں گے۔ کیونکہ سیاسی میدان میں کام کرنے کے لئے دوسرے حضرات موجود ہیں۔ اس لئے ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کا دائرہ عمل دعوت و ارشاد‘ اصلاح و تبلیغ اور رد قادیانیت تک محدود رہے گا۔ اس فیصلے سے دو فائدے مقصود تھے۔
ایک یہ کہ: ’’جماعت تحفظ ختم نبوت‘‘ کا پلیٹ فارم تمام مسلمانوں کا اجتماعی پلیٹ فارم رہے گا اور عقیدئہ ختم نبوت کا جذبہ اہل اسلام کے اتحاد و اتفاق اور ان کے باہمی ربط تعلق کا بہترین ذریعہ ثابت ہوگا۔‘‘
دوم یہ کہ: ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کا ارباب اقتدار سے یا کسی اور سیاسی جماعت سے تصادم نہیں ہوگا۔ اور امت مسلمہ کا اجتماعی عقیدئہ ختم نبوت اطفال سیاست کا کھلونا بننے سے محفوظ رہے گا۔‘‘
 
Top