• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سورہ النسا آیت 69 اور قادیانی دجل

ذوالفقار احمد

رکن ختم نبوت فورم
”وَمَن یُّطِع اللّٰہَ وَالرَّسُولَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِینَ اَنعَمَ اﷲُ عَلَیھِممِّنَ النَّبِیّنَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّھَدَآء وَالصّٰلِحِینَ ج وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیقاً“۔ ﴾ النسائ: 69 ﴿
ترجمہ :”اور جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیائ، صدیقین، شہداءاور صالحین ۔اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں.
قادیانی استدلال:
اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کی امت کوآپ کی اطاعت سے نبوت حاصل ہوتی ہے جس طرح آپکی اطاعت سے امت میں صالح شہید اور صدیق ہوتے ہیں اسی طرح آپ کی اطاعت سے نبی بھی ہوتے ہیں اوریہی ہمارا دعویٰ ہے کہ آپ کی اطاعت والی نبوت جاری ہے لہذا ہمارے دعویٰ کیلئے یہ صریح دلیل ہے کیونکہ بالاتفاق حضور ﷺ کی اطاعت سے تین درجے ہوتے ہیں۔ اس لئے آیت کا یوں معنی کرنا درست نہیں ہوگا کہ اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے ان چار قسم کے لوگوں کے ساتھ ہونگے اور انہیں ان کی رفاقت حاصل ہوگی بلکہ جب تین درجہ اطاعت سے حاصل ہوتے ہیں تو چوتھا درجہ بھی اطاعت سے حاصل ہوگا وہ نبوت کا درجہ ہے اور یہاں پر مع کا معنی وہی ہے جو ”تَوَفَّنَا مَعَ الاَبرَارِ“ میں ہے۔
جواب نمبر1:
کسی ایک مجدد یا مفسر سے اپنے معنی کی توثیق پیش کریں۔
جواب نمبر 2:
دلیل دعویٰ کے مطابق نہیں کیونکہ” اَلنَّبِیّنَ“کا لفظ نبیوں کی تمام اقسام کو شامل ہے اگر اطاعت سے نبوت حاصل ہورہی ہے تو وہ ہر قسم کی ہوگی اور یہ تمہارے اپنے عقیدے اور دعویٰ کے خلاف ہے۔
جواب نمبر3:
آیت کے شان نزول سے آیت کا مطلب بخوبی واضح ہو رہا ہے۔ شان نزول یہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے ایک غلام حضرت ثوبان رضی اﷲ عنہ نے عرض کی کہ یارسول اﷲ ﷺ جنت میں آپ بہت بلند مقام پر ہوں گے اور ہم خدا جانے کہاں ہونگے کیا ہماری آپ سے ملاقات ہوسکے گی اور ہم اپنی آنکھوں کو آپ کے دیدار سے ٹھنڈا کرسکیں گے دنیا میں تو جب تھوڑی دیر بھی ہم آپ سے جدا ہوتے ہیں تو آپ کی جدائی قابل برداشت نہیں ہوتی اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والوں کو ان نیک لوگوں کی رفاقت حاصل ہوگی اس سے معلوم ہوا کہ یہاں درجات کا ذکر نہیں ہے بلکہ محض رفاقت کا ذکر ہے ۔
(دیکھیے تفسیر البحر المحیط، جلد 3، ص408، تحت آیت مذکور،طبع مکتبہمعروفیہ کوئٹہ، التفسیرالمظہری جلد دوم، ص 161تحت آیت مذکور طبع دہلی)
جواب نمبر 4:
اسی آیت کی تفسیر میں مرزا کے نزدیک چھٹی صدی کے مجدّد، امام حافظ عماد الدین ابو الفداءاسماعیل ابنِ کثیر (المتوفٰی 774ھ)ایک حدیث لائے ہیں جسے امام ترمذی (ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی،المتوفٰی279ھ) نے روایت کیا ہے جو بعینہ اس آیت کی طرح ہے ،فرمایا:
”التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الاَمِینُ مَعَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّھَدَائِ وَالصَّالِحِینَ“۔
(تفسیرابن کثیر جلد 1ص 523،مطبوعہ بیروت،تحت آیت سورة النسائ:69،جامع ترمذی ص145حدیث نمبر1209)
تو کیا یہاں پر یہ مطلب ہوگا کہ سچا تاجر بھی نبی اور صدیق بن جائے گا یا یہ مطلب ہے کہ سچے تاجروں کو ان لوگوں کی رفاقت نصیب ہوگی؟؟؟
مرزائی اعتراض:
اگر آیت میں درجات کا ذکر نہیں اور محض رفاقت کا ذکر ہے تو آپ نے تین درجے صدیق ،شہید اور صالح نکا ل لیے کیونکہ بقول آپ کے اس آیت کا معنی یوں ہوگا کہ جو اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ نبیوں کے ساتھ ہوگا وہ خود نبی نہیں ہوگا اور اسی طرح وہ صدیقوں کے ساتھ ہوگاخود صدیق نہیں بنے گا حالانکہ اس طرح تمہارے نزدیک بھی نہیں ۔
جواب نمبر1:
اس آیت میں اس بات کا قطعاً ذکر نہیں ہے کہ کوئی شخص اطاعت کر کے نبی یا صدیق یا شہید ہوگا یا نہےں بلکہ یہاں مقصود صرف اطاعت کا نتیجہ بیان کرنا ہے کہ جو اطاعت کرے گا اس کو ان حضرات کے ساتھ رفاقت فی المکان حاصل ہوگی۔
جواب نمبر2:
ہم جو یہ سمجھتے ہےں کہ اطاعت کرنے سے نبی نہیں ہوگا یہ مقدمہ اس آیت سے نہیں بلکہ دوسری آیتوں کی بناء پر ہے جیسے خاتم النبیین والی آیت کیونکہ خاتم الصدیقین اور خاتم الشہداءاور خاتم الصالحین کی کوئی آیت نہیں ہے اگر اس طرح خاتم النبیین کی آیت بھی نہ ہوتی تو ہم نبوت بھی مان لیتے لیکن نبوت کا درجہ ماننے سے یہ آیت اور اس جیسی اور نصوص صریحہ اور احادیث صحیحہ مانع ہیں۔
جواب نمبر3:
اطاعت سے تین درجے جو ہم مانتے ہیں وہ اس آیت سے نہیں مانتے کیونکہ اس آیت میں درجات کا ذکر ہی نہیں وہ دوسری آیتوں سے مانتے ہیں جن میں درجات کا ذکر ہے اور جن آیات میں درجات بیان کئے گئے ہیں وہاں نبوت کا درجہ نہیں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:
” وَالَّذِینَ اٰمَنُوا بِاﷲِوَرُسُلِہٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصِّدِّیقُون وَالشُّھَدَآئُ عِندَ رَبِّھِم“۔ ﴾الحدید 19﴿
ترجمہ: ”اور جو لوگ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں، وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں۔
دیکھئے یہاں درجوں کا ذکر ہورہا ہے رفاقت اورمعیت کا ذکر نہیں ہے تو یہاں ”اُولٰئِکَ ھُمُ النَّبِیُّونَ“ نہیں فرمایا بلکہ ”صِدِّیقُونَ“ اور ”شُہَدَآءُ“ فرمایاہے۔
جواب نمبر4:
اگر بقول آپ کے اطاعت سے یہ درجات حاصل ہوتے ہیں توہم سوال کرتے ہیں کہ یہ درجات کیسے ہیں کیا حقیقی یا ظلی یا بروزی۔ اگر اطاعت سے نبی ظلی اور بروزی بنتے ہیں تو صدیق ،شہید اور صالح بھی ظلی اور بروزی ہونے چاہییں اور اگر وہ تین درجے حقیقی ہیں تو نبی بھی حقیقی ہونا چاہیے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جب اطاعت کرنے سے یہ چار درجے حاصل ہوتے ہیں ان میں سے تین تو حقیقی ہوں اور ایک ظلی بروزی ہو، یا چاروں حقیقی مانو یا چاروں ظلی بروزی اور اگر کہو کہ ظلی بروزی صدیق، شہید نہیں ہوتے۔ اول تو یہ مسلّم نہیں اگر مان بھی لیا جائے توہم کہتے ہیں کہ ظلی بروزی نبی بھی کوئی نہیں یہ بھی تمہاری جدید اصطلاح ہے اور اگر کہوکہ ظلی شہید ہوتے ہیں تو ہم پوچھتے ہیں کیا ظلی اور حقیقی شہید کا حکم ایک ہے؟ اور یہ ظاہر ہے کہ حکم ایک نہیں کیونکہ مبطون اور غریق وغیرہ شہداءکو غسل دیا جا تا ہے حالانکہ حقیقی شہید کو غسل نہیں دیا جاتا معلوم ہوا کہ حکم ایک نہیں اور تمہارے نزدیک ظلی نبی کے احکام وہی ہیں جو حقیقی نبی کے ہیں کیونکہ تمہارے نزدیک ظلی نبی کا منکر کافر ہے۔
(دیکھیے حقیقت الوحی ص163روحانی خزائن جلد22ص167 )

مرزائی اعتراض:
یہاں ”مَعَ“بہ معنی ”مِن“ ہے۔
جواب نمبر 1:
اوّل تو ہم یہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ ”مَعَ“ بمعنی ”مِن“ کے ہوتا ہے کیونکہ کلام عرب میں ”مَع َمِن“ کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا اگر یہ ”مِن“ کے معنی میں ہوتا تو ”مَعَ“ پر ”مِن“ داخل نہ ہوسکتا حالانکہ کلام عرب میں اس کا ثبوت ملتا ہے دیکھو لغت کی مشہور کتاب ”المِصبَاحُ المُنِیر“ میں ہے:وَدُخُولِ مِن عَلَیہِ نَحوُ جِئتُ (مِن مَعِہ)۔“ (المصباح المنیرص576بحث لفظ مع بطع ثانی دارالمعارف) یعنی عرب ”جِئتُ مِنمَّعَ القَومِ“ بولتے ہیں پس ”مَعَ“ پر ”مِن“ کا داخل ہونا اس بات کا مشعرہے کہ ”مَعَ“ کبھی ”مِن“ کے معنی میں نہیں آتا۔ باقی رہی وہ آیات جو قادیانیوں نے مغالطہ دیتے ہوئے پیش کی ہیں ان میں سے کسی ایک آیت میں بھی ”مَع مِن“ کے معنوں میں نہیں ہے۔ دیکھئے ”وَتَوَفَّنَا مَعَ الاَبرَار“ کی تفسیر میں مشہور مفسر امام فخرالدین رازی رحمة اللہ علیہ (543ھ606-ھ)کیا معنی کرتے ہیں جو کہ مرزا قادیانی کے نزدیک چھٹی کے مجدّد بھی ہیں:
”انَّ وَفَاتَھُم مَعَھُم ھِیَ ان یَّمُوتُوا عَلٰی مِثلِ اَعمَالِھِم حَتّٰی یَکُونُوا فِی دَرَجَاتِھِم یَومَ القِیَامَةِ قَد یَقُولُ الرَّجُلُ اَنَا مَعَ الشَّافِعِیِّ فِی ھٰذِہِ المَسئَلَةِ وَیُرِیدُ بِہ کَونَہ مَسَاوِیًا لَّہ فِی ذٰلِکَ الاِعتِقَاد“ ۔
﴾تفسیر کبیرجلد3ص127تحت آیت193سورہ آلِ عمران، طبع مصر1308ھ﴿
ترجمہ: ”ان کا ان (ابرار) کے ساتھ وفات پانا اس طرح ہو گا کہ وہ ان نیکوں جیسے اعمال کرتے ہوئے انتقال کریں تاکہ قیامت کے دن ان کا درجہ پالیں جیسے کبھی کوئی آدمی کہتا ہے کہ میں اس مسئلہ میں شافعیؒ کے ساتھ ہوں اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کا اعتقاد رکھنے میں وہ اور امام شافعیؒ برابر ہیں۔(نہ یہ کہ وہ درجہ امام شافعیؒ تک پہنچ گیا)۔“
جواب نمبر2:
بفرضِ محال اگر ہم تسلیم بھی کرلیں کہ ’ مَع مِن“کے معنی میں بھی کسی جگہ استعمال ہوتا ہے تو اس سے یہ کیسے لازم آگیا کہ اس آیت میں بھی ” مَعَ مِن“ کے معنی میں ہے یہاں پرکسی ایک مفسر نے بھی یہ معنی نہیں لئے۔
جواب نمبر 3:
جب کوئی لفظ دو معنوں میں مستعمل ہوتو دیکھا جاتا ہے کہ حقیقی معنی کون سا ہے اورمجازی معنی کون سا ہے؟جب تک حقیقت معنی ”مُتَعَذَّر“ نہ ہوتو مجاز ی معنی کی طرف رجوع نہیں کیا جاتا ”مَعَ “معیت اور رفاقت کے معنی میں حقیقت ہے اور یہاں حقیقت ”مُتَعَذَّر“ نہیں ہے بلکہ ”وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیقًا“کا جملہ صاف اور صریح دلالت کررہا ہے کہ یہاں ”مَعَ“معیت کے معنی میں ہے ورنہ یہ جملہ کلام الٰہی میں بالکل بے فائدہ اور زائد ہوگا کیونکہ جب اطاعت کرنے سے وہ لوگ خود نبی اورصدیق بن گئے تو پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت کہ ان لوگوں کی رفاقت اچھی ہوگی۔
جواب نمبر 4:
اگر ”مَعَ“ کامعنی ”مِن“ لیاجائے تو درج ذیل آیات کا کیا معنی ہوگا:
مُحَمَّد رَّسُولُ اﷲِ وَالَّذِینَ مَعَہ ....الخ اور اِنَّ اﷲَ مَعَ الصَّابِرِینَََََََ ........؟؟؟
جواب نمبر 5:
مشہور مفسر اما م فخرالدین رازی رحمة اللہ علیہ (543ھ606-ھ)جو مرزا کے نزدیک چھٹی صدی کے مجدد ہیں انہوں نے تمہارے معنی کی صریح اور واضح تردید کی ہے:
”وَمَعلُوم اَنَّہ لَیسَ المَرَادُ مِنکَونِ ھٰٓولَائِ مَعَھُم ھُوَ انَّھُم یَکُونُونَ فِی عَینِ تِلکَ الدَّرَجَاتِ لِاَنَّ ھٰذا مُمتَنِع“ ۔ (تفسیر کبیرجلد3 ص264طبع مصر1308ھ تحت آیت مذکور)
ترجمہ: ”یہ بات معلوم ہوکہ یہاں ان کے ساتھ ہونے سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ ان ہی کے درجہ میں ہوںگے کیونکہ یہ بات محال ہے۔“
امام رازی رحمة اللہ علیہ مرزا قادیانی کے نزدیک چھٹی صدی کے مجدد ہیں شاید انہیں بذریعہ کشف معلوم ہوگیا تھا کہ قادیانیوں نے اس آیت سے غلط استدلال کرنا ہے لہٰذا آٹھ سو سال قبل انہوں نے اس کی وضاحت کر کے قادیانیوں کے استدلال کی دھجیاں اُڑادیں۔
جواب نمبر 6:
مرزانے خود اقرار کیا کہ اطاعت کرنے سے اور” فَنَا فِی الرَّسُول“ ہوجانے سے نبوت نہیں ملتی بلکہ زیادہ سے زیادہ ”مُحَدَّثِیَّت “کا درجہ حاصل ہوسکتا ہے اس سے نہیں بڑھ سکتا۔
حوالہ نمبر 1:
”آنحضرت ﷺ کے ملفوظاتِ مبارکہ اشارت فرما رہے ہیں کہ محدَّث نبی بِالقُوَّہہوتا ہے اور اگر باب ِنبوت مسدودنہ ہوتا تو ہریک محدث اپنے وجود میں قوت اور استعداد نبی ہو جانے کی رکھتا تھا ور اسی قوت اور استعداد کے لحاظ سے محدث کا حمل نبی پر جائز ہے یعنی کہہ سکتے ہیں ”اَلمُحَدَّثُ نَبِیّ“ جیسا کہ کہہ سکتے ہیں اَلعِنَبُ خَمر“۔
(آئینہ کمالات اسلام ص238روحانی خزائن جلد5 ، ص237۔238)

لہٰذا یہ بات ثابت ہوگئی کہ اطاعت کرنے سے مرزا کے نزدیک جو نبوت حاصل ہوتی ہے وہ مُحَدَّثِیَّت ہی ہے جس کا انکار کفر نہیں اوررہا اطاعت سے اس مقام کا حاصل ہونا۔۔۔اس میں نزاع باقی ہے جس کا بارِ ثبوت قادیانی گروہ پر ہے۔
حوالہ نمبر2 :
”حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وجود ظلی طور پر گویا آنجناب ﷺ کا وجود ہی تھا۔“
(ایام الصلح ص35 روحانی خزائن جلد14ص265)

حوالہ نمبر 3:
”صدہا ایسے لوگ گذرے ہےں جن میں حقیقت ِمحمدیہ متحقق تھی اور عنداﷲ ظلی طور پر ان کا نام محمد یا احمد تھا۔“
(آئینہ کمالات اسلام ص346،روحانی خزائن جلد5ص346)

٭نتیجہ
مذکورہ بالا حوالوں سے بھی یہ بات واضح ہوگئی کہ اتباع اور اطاعت سے نبی نہیں ہوسکتے جبکہ بقول ان کے صدہا شخص ایسے گزر چکے ہیں جن کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد تھا اور حضرت عمر کا وجود بھی ظلی طور پر حضور کا ہی وجود تھا۔ تو کیا ان میں سے کسی ایک نے بھی نبوت کا دعویٰ کیااور کوئی اپنی علیحدہ جماعت یاامت بنائی یا اپنے منکرین کو کافر یا جہنمی کہا۔ فَعَلَیکُمُ البَیَانُ بِالبُرھَانِ۔ (یعنی،دلیل کے ساتھ وضاحت تمہارے ذمہ ہے)۔
جواب نمبر7:
امت میں سے سب سے اونچا مقام صدیقیت کا ہے، شہید اور صالح اس سے نیچے کے مقام پرہیں۔ اطاعت کرنے سے یہ امت والے ہی مراتب حاصل ہوسکتے ہیں نہ کہ وہ خودنبوت کے مدعی بن جائیں۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت جو حضور ﷺ کی پوری پوری متبع اور مطیع ہے جن کو دنیا ہی میں اﷲ تعالیٰ نے راضی ہوکر جنت کے سرٹیفکیٹ عطا فرمادےے اور ایسی اتباع کا نمونہ پیش کیا کہ قیامت تک اس کی نظیر نہیں پائی جاسکتی اور بقول مرزا ان میں حقیقت محمدیہ متحقق ہوچکی تھی اور حضورﷺ بھی ان کے متعلق ارشاد فرمارہے ہیں۔
” لَوکَانَ بَعدِی نَبِیّ لَکَانَ عُمَرُ“ (جامع الترمذی جلد2ص209مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب حدیث3686)
ترجمہ: ”اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ ) ہوتا۔“
اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں فرمایا:
” اَبُوبَکرٍ خَیرُ النَّاسِ اِلَّااَن یَکُونَ نَبِی “
(کنزالعمال، کتاب الفضائل ،فضائل الخلفاءالاربعة، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، حدیث نمبر 32545الجامع الصغیرللسیوطی جلد1حرف الھمزہ ص11دارالکتب الحکمیة بیروت لبنان)
یعنی ”ابوبکر رضی اللہ عنہ تمام لوگوں سے افضل ہیں،سوائے نبیوں کے“لیکن اس کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی بھی نبوت کے مقام پر فائز نہ ہوا اور کسی نے نبوت کا دعویٰ نہ کیا بلکہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کو صرف اور صرف ”صدیق“اور”خلیفة الرسول“ہی کہا ہے اور عمررضی اللہ عنہ(24ھ) صرف شہید مُحدَّث اور امیر المومنین ہی بنے لیکن نبی تو کوئی بھی نہ بن سکے۔ اب امت میں کون دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس نے ان حضرات سے بڑھ کر اتباع کی ہے اور نبوت کے مقام پر پہنچ گیاہے۔
جواب نمبر8:
اگر اطاعت سے نبوت ملتی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمرکوکیوں نہیں ملی۔
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے

مرزائی اعتراض:
ہم نے جو معنی کیاہے ،امام راغبؒ (المتوفیٰ 502ھ)ہمارے معنی کی تائیدکرتے ہےںکیونکہ وہ فرماتے ہےں :
”قَالَ الرَّاغِبُ مِمَّن اَنَعمَ عَلَیھِممِنَ الفِرَقِ الاَربَعِ فِی المَنزِلَةِ وَالثَّوَابِ اَلنَّبِیُّ بِالنَّبِیِّ وَالصِّدِّیقُ بِالصِّدِّیقِ وَالشَّھِِیدُ بِالشَّھِیدِ وَالصَّالِحُ بِالصَّالِحِ وَاَجَازَ الرَّاغِبُ اَن یَّتَعَلَّقَ مِنَ النَّبِیِّینَ لِقَولِہ وَمَن یُّطِعِ اﷲَ وَالرَّسُولَ اَی مِنَ النَّبِیِّینَ وَمِن م بَعدِھِم“۔
﴾البحرالمحیط جلد3ص 409تحت آیت مذکور،طبع مکتبہ معروفیہ کوئٹہ﴿
ترجمہ: ”امام راغب نے ان چاروں قسم کے لوگوں کے بارے میں کہا جن پر انعام کیا گیا ہے درجہ میں اور ثواب میں کہ نبی نبی کے ساتھ۔صدیق صدیق کے ساتھ اور شہید شہید کے ساتھ اور صالح صالح کے ساتھ اور امام راغب نے اس بات کو درست قرار دیا ہے کہ ”مِنَ النَّبِیِّینَ“ کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ارشاد ”وَ مَن یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُولَ“ ۔سے ہو یعنی جو بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے نبیوں میں سے یا ان کے بعد کے درجہ والوں میں سے ہو“۔
دیکھئے ا س عبارت سے صاف واضح ہورہا ہے کہ جب ”مِنَ النَّبِیِّینَ“ کو ”مَن یُّطِعِ اللّٰہَ “ کے متعلق کریں گے تو معنی یہ ہوگا کہ نبیوں میں سے جو اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ ایسا ہوگا۔ تو معلوم ہوا کہ اس امت میں بھی کچھ نبی ہونے چاہےےں جو رسول کی اطاعت کرنے والے ہوں اگر نبوت کادروازہ بند ہے تو اس آیت کے مطابق وہ کون سانبی ہوگا جو رسول اﷲ کی اطاعت کرے گا؟؟؟؟۔
جواب نمبر1:
یہ حوالہ قادیانیوں نے علامہ ابو حیان محمد بن یوسف اندلسیؒ ( 654ھ۔۔۔۔ 745ھ) کی تفسیر البحر المحیط سے پیش کیا ہے۔ اور اس حوالہ کے پیش کرنے میں بھی انہوں نے اپنے روایتی دجل و فریب سے کام لیا ہے اور پوری عبارت درج نہیں کی۔ حالانکہ علامہ اندلسیؒ نے یہ قول نقل کرکے اس کی سخت ترین الفاظ میں تردید فرمائی ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
”وَھٰذَا الوَجہُ الَّذِی ھُوَ عِندَہ ظَاھِر فَاسِد مِن جِھَةِ المَعنٰی وَ مِن جِھَةِ النَّحو“ ۔
﴾البحرالمحیط جلد3ص 410تحت آیت مذکور،طبع مکتبہ معروفیہ کوئٹہ﴿
یعنی نحوی غلطی یہ ہے کہ ”مِنَ النَّبِیِّینَ“ جزا کا جزء ہے اور یہاں اسے شرط کا جزء قرار دیا جارہا ہے اورمعنوی غلطی یہ ہے کہ یہ عبارت ختم نبوت کے خلاف ہے۔“ اب اسے علامہ راغبؒ کا سہواور سبقتِ قلم ہی کہا جاسکتا ہے،جس پر علامہ اندلسیؒ جیسے عظیم مفسر، محدث اور فقیہ نے کلام کیا ہے۔
جواب نمبر 2:
اگر اما م راغبؒ کے قول کوصحیح بھی تسلیم کرلیا جائے توبھی ہمارے خلاف نہیں ہے کیونکہ تمام انبیاءکرام علیہم السلام، حضورﷺ کے امتی اور متبع ہیں (جسے مرزا قادیانی بھی تسلیم کرتا ہے،حوالہ آخر میں موجود ہے) ؛دیکھئے شب معراج میں تمام انبیاءعلیہم السلام نے آپ کی اتباع اور اقتدا کی اور بیت المقدس میں آپ کی امامت میں نماز ادا کی، اس کے علاوہ انبیا ءسابقین اور بنی اسرائیل سلسلہ کے آخری نبی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام آیات قرآنی اور احادیث نبویہ کی رو سے قیامت سے قبل اس امت میں تشریف لائیں گے اور آپ ﷺ کی شریعت کی اتباع اور اطاعت کریں گے۔ لہذا انبیاءمیں سے ایک فرد کا مل ایسا مل گیا جو آپ کی اتباع اور اقتدا کرے گا۔ واضح رہے کہ مرزا قادیانی، (ضمیمہ براہینِ احمدیہ کے صفحہ 133)پر خود تسلیم کرتا ہے کہ ”یوں تو قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر ایک نبی آنحضرت کی امت میں داخل ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لَتُو مِنُنَّ بِہ وَلَتَنصُرُنَّہ۔پس اس طرح تمام انبیاءعلیہم السلام آنحضرت ﷺ کی امت ہوئے۔“ (روحانی خزائن جلد 21ص 300)
جواب نمبر3: امام راغب اصفہانیؒ کا قول کئی وجوہ سے ہمائے لئے حجت نہیں ہے۔ مثلاً امام راغبؒ کے حالاتِ زندگی واضح نہیں ہیں۔ کب پیدا ہوئے اور کہاں پیدا ہوئے؟ کہااور کس سے تعلیم حاصل کی؟ کچھ معلوم نہیں۔ چنانچہ” المفردات فی غریب ِ القرآن“ کے مقدمہ (صفحہ 7) پر درج ہے کہ:
”الامام ابو قاسم حسین بن محمد بن المفضّل المعروف بالراغب الاصفہانی غَیرَ مَعرُوفٍ مَتٰی وُلِدَ، وَلَا اَینَ تَلَقَّی العِلمَ “۔
اس سے واضح ہوا کہ اما م راغب کی پیدائش اور تحصیلِ علم کے متعلق کچھ پتا نہیں ہے۔علاوہ ازیںان کی شہرت لغت و ادب، شعر وحکمت اور تصوف وغیرہ میں ہے۔تفسیر، حدیث یا فقہ میں ان کی بات حجت نہیں۔اسی طرح ان کے مسلک کے بارے میں ابہام موجود ہے۔علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ ”بغیة الوعاة“ میں امام راغب کو ائمہ اہلِ سنت میں شمار کرتے ہیں۔ اور امام فخرالدین رازی”تَاسِیسُ التَّقدِیس“ میں انہیں اہلِ سنت قرار دیتے ہیں۔۔۔۔ صاحبِ ”اَعیَانُ الشِّیعَہ“ لکھتے ہیں کہ:
” اکثر علماءنے تصریح کی ہے کہ امام راغب معتزلی تھے۔ اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شیعہ بھی تھے، کیوںکہ معتزلہ اور شیعہ عموماً اصول میں متحد ہیں اور اصحابِ تراجم معتزلہ اور شیعہ کا تذکرہ ایک ساتھ کرتے ہیں“۔ اور صاحبِ ”روضات الجنات“ نے تصریح کی ہے کہ ”کسی شخص کے مسلکاً شیعہ ہونے کی علامت ہی یہی ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بجائے نام کے امیر المومنین کے لقب سے ذکر کرتے ہیں“۔ علامہ راغب بھی ایسا ہی کرتے رہے۔ (ملخصاً مفردات القرآن اردو۔ص21)
شیعہ مصنفین نے امام راغب کو اپنا مقتداء لکھا ہے چنانچہ الشیخ عباس القمی کی تصنیف ”اَلکُنٰی وَ الاَلقَابُ“ جلد 2، ص208، العلامہ الشیخ آقا بزرگ الطہرانی ”اَلذَّرِیعَة اِلٰی تَصَانِیفِ الشِّیعَة‘جلد 5ص45 اورعمادالدین حسن بن علی الطبرسی ”اَسرَارُالاِمَامَةِ“ صفحہ17اور514 پر لکھتے ہیں کہ ”اِنَّہ کَانَ مِن حُکَمَاءِ الشِیعَةِ الاِمَامِیَّةِ“ یعنی وہ شیعہ امامیہ کے حکماء میں سے تھے۔ ۔۔تفسیرِ راغب، جو نایاب اورنامکمل ہے(سورة النساءکی قریباً 111آیات تک دو جلدوں میں ہے)۔ اور اسے مختلف ناموں سے موسوم کیا گیا ہے۔۔۔ اِن اسباب کی موجودگی میں امام راغب ؒکے شخصی، تفسیری قول یا توجیہہ جو اسلام کے بنیادی اور اساسی عقیدہ ختمِ نبوت کے خلاف ہو ، کو کس طرح حجت قرار دیا جاسکتا ہے ؟؟؟۔۔۔اور اسے بطور دلیل پیش کرنا قادیانیوں کی دجالیت کا روشن پہلوہے۔
جواب نمبر4: امام راغب ؒکا اپنا عقیدہ کیا ہے؟ وہ خود ختم نبوت کے قائل ہیں اور آقا دوعالم ﷺ کے بعد کسی بھی قسم کی نبوت و رسالت اور دین وشریعت کی ضرورت کو مسترد کرتے ہیں۔۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں:
”کُنتُ قَد ذَکَرتُ فِی الرِّسَالَةِ المُنَبِّھَةِ عَلٰی فَوَائِدِ القُرآنِ اَنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ کَمَا جَعَلَ النُّبُوَّةَ بِنَبِیِّنَامُختَتَمَةً، وَجَعَلَ شَرَائِعَھُم بِشَرِیعَتِہ مِن وَجہٍ مُنتَسَخَةًوَمِنوَجہٍ مُکَمَّلَةًمَتَمَّمَةً کَمَا قَالَ تَعَالیٰ اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دِینَکُ وَ اتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الاِسلَامَ دِینًا)۔جَعَلَ کِتَابَہُ المُنَزَّلَ عَلَیہِ مُتَضَمِّنًا ثَمَرَةَ کُتُبِہِ الَّتِی اولَاھَااَوَائِلَ الاُمَمِ“۔
(المفردات فی غریبِ القرآن،ص9درمقدمة المولف،طبع قدیمی کتب خانہ کراچی)
ترجمہ: قبل ازیں ہم اپنی کتاب ”اَلرِّسَالَةُ المُنَبِّھَةُ عَلٰی فَوَائِدِ القُرآنِ“میں اس امر کی وضاحت کر چکے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر سلسلہ نبوت کو ختم کر دیا ہے اور دین اسلام کو تمام ادیان کا ناسخ اور اسے ہر پہلو سے جامع و مکمل بنایا ہے، چنانچہ فرمایا:”آج کے دن میں نے تمہارے لئے دین کوکامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور بحیثیت دین تمہارے لئے اسلام پسند کیا “۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر نازل کردہ کتاب یعنی قرآن پاک میں تمام سابقہ کتبِ سماویہ کے مطالب و مضامین کا نچوڑ اور خلاصہ جمع کر دیا ہے ۔ (مفردات القرآن اردو،جلد 1ص23)
امام راغبؒ کی مذکورہ بالا تحریر سے ہر قسم کی ظلی، بروزی، تشریعی، غیر تشریعی، کسبی اور غیر کسبی نبوت کا دروازہ مسدود ہو چکا ہے ۔ دین و شریعت کے تمام پہلو اسلام کی شکل میں مکمل ہو چکے ہیں اور قرآن مجید کے بعد احکامِ الٰہی پر مبنی وحی ربانی ، الہامِ قطعی اور صحفِ آسمانی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
جواب نمبر5:
جیسا کہ ابھی آپ نے پڑھا ہے کہ قادیانی یہ عبارت اما م راغب ؒکی کسی کتاب میں سے پیش نہیں کرتے بلکہ امام ابو حیان محمد بن یوسف الاندلسیؒ کی تفسیرالبحرالمحیط سے پیش کرتے ہیں۔ قادیانی تلبیسات کے بنیادی مآخذ ” احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک“ صفحہ 112 مؤلف قاضی نذیر احمد طبع دوم جون 2012ءاور مکمل تبلیغی پاکٹ بک، مؤلف ملک عبدالرحمن خادم، صفحہ 255، پر ان دونوں حضرات نے تفسیر البحرالمحیط کے حوالہ سے درج کی ہیں۔ کوئی قادیانی امام راغبؒ کی اصل کتاب سے عبارت پیش نہیں کرتا۔۔۔۔ کیوںکہ امام راغبؒ نے اس آیت کی تفسیر میں اپنے ذوقِ لغت کے مطابق پہلے مفردات کی صرفی، لغوی اور نحوی تحقیق کی ہے اورپھر آیت کا معنی متعین کرنے کے لئے اپنے مخصوص صوفیانہ مزاج کے موافق ممکنہ توجیہات لکھی ہیں، جہاں پر علامہ اندلسیؒ نے ان پر علمی گرفت کی ہے۔
اس مقام پر بھی علامہ راغبؒ اپنے صوفیانہ رنگ میں اللہ تعالیٰ اور رسول کریمﷺ کی اطاعت کرنے والے اعمالِ خیر کے حامل افراد کا جنت میں مقام و منزل، اجرو ثواب اور معیت و رفاقت کو ثابت کر رہے ہیںاور بحث کے آخر میں شانِ نزول رقم فرما کر آیت کا معنی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرنے والوں کے ”مقام ِمعیت اور منزلِ رفاقت“کو ہی ٹھہرایا ہے۔ محض صرفی و لغوی وغیرہ تحقیق سے آیتِ قرآن مجید کا معنی متعین نہیں ہوتا۔ یہاں علامہ راغبؒ نے کسی بھی قسم کی ظلی، بروزی، تشریعی، غیر تشریعی،کسبی اور غیر کسبی نبوت کے اجرائ، شریعتِ جدیدہ کے ظہور اور مصحفِ آسمانی کے نزول کا دُور دُور تک کہیں ذکر نہیں فرمایا۔۔۔ قادیانیو!اگر تم میں جرات ہے تو امام راغبؒ کی اصل کتاب سے پوری عبارت سیاق و سباق کے ساتھ پیش کرو۔
نوٹ: استادِ محترم حضرت سفیرِ ختم نبوت رحمہ اللہ دورانِ اسباق اِس بحث میں اکثر قاضی نذیر کے ساتھ اپنے ایک 1954ءکے مناظرے کا واقعہ بیان کرتے تھے۔جس میں آپ نے قاضی نذیر سے مطالبہ کیا کہ امام راغبؒ کی اصل کتاب سے عبارت پیش کریں مگر ُاس نے عبارت پیش نہ کی۔ اس پر آپ نے بطور الزام فرمایاکہ پھریہ عبارت امام راغبؒ کی کسی کتاب میں نہیں ہے۔ مرتبین اور دیگر کئی احباب نے اس واقعہ کو اپنے ذوق کے مطابق درج کیا یا درج کئے بغیر نتیجہ نکالا کہ یہ عبارت امام راغب کی کسی کتاب میں نہیں ہے جو درست نہیں ہے۔حضرت چنیوٹی ؒ کی قلمی کاپی میں اس قسم کی کوئی تحریر موجود نہیں ہے۔ الزامی جواب کی حد تک یہ درست ہے مگر تحقیقی جواب ہرگز نہیں۔۔۔۔ کیوں کہ صاحبُ البَحرِالمُحِیطِ، علامہ اندلسیؒ کا رقم کرنا ہی علامہ راغبؒ کی کسی کتاب میں موجودگی کاپتہ دینے کے لئے کافی ہے۔ فافھم ۔
﴾ہمارا سوال ﴿
کیا نبوت وہبی ہے یا کسبی ؟ اگر کہو کہ نبوت وہبی ہے تو تمہارا استدلال ختم، کیونکہ تم جس نبوت کے قائل ہووہ تو کسبی یعنی کہ وہ اطاعت سے حاصل ہوتی ہے اور اگر کہو کہ ہے تووہبی لیکن کسب کو دخل ہے جیسا کہ:
”یَھَبُ لِمَن یَّشاءُ اِنَاثًا۔“ (الشورٰی:49)
ترجمہ: ”جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا فرماتا ہے۔“
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل توجب اس میں کسب کا دخل ہے تو وہ کسبی بھی ہوگئی صرف وہبی نہیں اور کسبی نبوت غلط ہے جیسا کہ آئندہ واضح کیا جاتا ہے۔ باقی جو آیت آپ نے پیش کی ہے اول تو وہ قیاس قیاس مع الفارق ہے۔ کہاں اولاد کا پیدا ہونا اور کہاں نبوت کا عطا ہونا۔ دوسرے یہ بھی غلط ہے کہ یہاں کسب کو دخل ہے بلکہ ہم کہتے ہےں کہ یہاں کسب کو کوئی دخل نہےں ہے بلکہ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہےں کہ یہ محض ہبہ ہے کیونکہ اگر وہ نہ چاہتے تو زوجین ساری عمر کسب کرتے رہیں اوران کو کوئی چیز نہ دے اور اگر چاہے توجہاں مطلقاً کسب نہ ہووہاں دیدے جیسا کہ حوا علیہاالسلام اور عیسیٰ علیہ السلام۔
جواب نمبر4: نبوت کو کسبی ماننا کفر ہے۔
حوالہ نمبر1:
محدثِ جلیل قاضی عیاضؒ (ابوالفضل عیاض بن موسیٰ المالکی476ھ۔544ھ) شفا میں نبوت کو کسبی کہنے والے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
”وَ کَذٰلِکَ مَنِ ادَّعٰی نُبُوَّةَ اَحَدٍ مَّعَ نَبِیِّنَا ﷺ اَو بَعدَہ ....-اَومَنِ ادَّعَی النُّبُوَّةَ لِنَفسِہ اَو جَوَّزَ اکتِسَابَھَا وَِالبُلُوغَ بِصَفَاءِ القَلبِ اِلیٰ مَرتَبَتِھَا،کَالفَلَاسِفَةِوَغُلَاةِالمُتَصَوِّفَةِ وَکَذٰلِکَ مَنِ ادَّعٰی مِنھُم اَنَّہ یُوحٰی اِلَیہِ وَاِن لَم یَدَّعِ النُّبُوَّةَ ........-فَھٰٓوُلَاءِ کُلُّھُم کُفَّار مُکَذِّبُونَ لِلنَّبِیِّ ﷺ لِاَنَّہ اَخبَرَ ﷺ اَنَّہ خَاتَمُ النَّبِیِّینَ لَانَبِیَّ بَعدَہ۔“ ﴾ شفاءللقاضی عیاض ص271/270﴿
حاصلِ عبارت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نبی ﷺ کے ساتھ کسی اور نبی کی نبوت کا اقرار کرے خواہ وہ وقت سے متعلق ہو یعنی حضور ﷺ کی حیاتِ ظاہر ی میں یا حضور ﷺ کی حیات ِ ظاہری کے بعد ۔۔۔۔اگر کوئی شخص اپنی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے یا منصب نبوت کو وہبی نہیں بلکہ اکتسابی قرار دیتا ہے یا غالی صوفیوں اور فلاسفہ کی طرح یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ صفائے قلب سے نبوت کا منصب حاصل ہو جاتا ہے یا اپنے پاس وحی آنے کا مدعی ہو۔۔۔۔ اور اس کے کفر کی دلیل سید المرسلین کا وہ ارشاد ہے جس میں کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ آپ خاتم النبیین ہیں اور آپ کے بعد کسی کوبھی منصبِ نبوت و رسالت سے سرفراز نہیں کیا جائے گا۔
حوالہ نمبر 2:
علامہ شعرانیؒ(الشیخ عبدالوھاب بن احمد بن علی الشعرانیؒ898ھ۔973ھ) اس سوال کے جواب میں کہ نبوت وہبی ہے یا کسبی، لکھتے ہےں کہ:
”(فَاِنقُلتَ) فَھَلِ النُّبُوَّةُ مُکتَسَبَة اَو مَوھُوبَة( فَالجَوَابُ) لَیسَتِ النُّبُوَّةُ مُکتَسَبَةً حَتّٰی یَتَوَصَّلَ اِلَیھَا بِالنُّسُکِ وَالرِّیَاضَاتِ کَمَا ظَنَّہُ جَمَاعَة مِنَ الحَمقٰیِ (کالقادیانیة).... وَقَد اَفتَی المَا لِکِیَّةُ وَغَیرُھُم بِکُفرِ مَن قَالَ اِنَّ النُّبُوَّةَ مُکتَسَبَة۔“ ﴾ الیواقیت والجواہرجلد1 ص164 مطبوعہ مصر﴿
یعنی کہ کیا نبوت کسبی ہے یا وہبی؟تو اس کاجواب عرض خدمت ہے‘کہ نبوت کسبی نہیں ہے کہ محنت وکاوش سے اس تک پہنچا جائے جیسا کہ بعض احمقوں (مثلاً قادیانی فرقہ: اَزناقل) کا خیال ہے ....مالکیہ وغیرہ نے کسبی کہنے والوں پر کفر کا فتویٰ دیا ہے۔
جواب نمبر5:
اس آیت میں ہے ”مَن یُّطِعِ اﷲَ وَرَسُولَہ“ اور ”مَن“ عام ہے جو کہ مذکر مونث دونوں کو شامل ہے۔ اس آیت سے کوئی عورت بھی نبی ہونے پر استدلال کرسکتی ہے حالانکہ قادیانی بھی اس کے قائل نہیں۔ مَا ھُو جَوَابُکُم فَھُوَ جَوَابُنَا
نبوت کے کسبی نہ ہونے کے بارے میں مرزا کا اعتراف:
حوالہ نمبر۱: ”اور اس میں کوئی شک نہیں کہ محدثیت محض وہبی ہے، کسب سے حاصل نہیں ہوسکتی جیسا کہ نبوت کسب سے حاصل نہیں ہوسکتی۔“ (حمامة البشریٰ ص82روحانی خزائن جلد7ص301)
حوالہ نمبر2: ”صِرَاطَ الَّذِینَ اَنعَمتَ عَلَیھِم“ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص کو یہ مرتبہ ملا انعام کے طور پر ملا یعنی محض فضل سے نہ کسی عمل کاا جر۔“ (چشمہ مسیحی ص42روحانی خزائن جلد20ص365)
﴾فائدہ﴿
یہ آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت کا اعجاز ہے کہ مرزا اپنے ہی مسلمات کے خلاف لکھ گیا اسی لیے کہاگیا ہے کہ ”جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔“
 
Top