• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سیف چشتیائی صفحہ نمبر118

ام ضیغم شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
ناظم
مہمان
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تسبیح ربھا ویصعد علواالیہ ویعصد الکلم الطیب وھوعین شکل الکلمۃ من حیث ماھی شکل مسبح للہ تعالیٰ۔
شاید آپ نے لفظ جسم کوخاص انسان ہی کے لیے سمجھ رکھا ہے ۔لہذا منہیہ میں لکھ دیا کہ (ان محاورات میں رفع جسمی نہیں،بلکہ رفع روھانی)رہا حدیث کا رفع الی عثمان یا الی النبی ﷺ ۔ سواس مقام پر مرفوع چونکہ حدیث ہے، اوراس کے لیے حسب بیان مذکور شیخ کے جسم بھی ہے لہذا رفع جسمانی متحقق ہے۔صرف رفع در صورت انتساب ہوگا۔الغرض بہر کیف رفع جسمانی ہی ہوا ۔ اور ایسا ہی اعمال کےلیے بھی جسم ، حسن یا قبیح مع الروح ہونا بحسب اختلاف النیہ والہمیہ ، جیسا کہ حضرت شیخ فتوحات میں لکھتے ہیں،ثابت ہے ۔اگر آپ سبقا ہی پڑھ لیتے تو اتنا تکلف ہم کو بھی ہر ہر فقرہ میں نہ اٹھانا پڑتا ۔
قولہ۔صفحہ 38۔کیونکہ ایسے معنی (رفع جسمی ) کرنے نہ اصل واقعہ کو خیال کیا گیا ہے اور نہ مانہ النزاع کالحاظ ہوا ہے اور نہ رفع الی اللہ کی طرف التفات کیا گیا ہے۔ اور نہ اس طول کلام کی طرف توجہ کی گئی ہے۔کہ یہ طوالت کیوں ہے جو ماقتلوہ وما صلبوہ سے شروع ہوکر ویکون علیھم شھیدا "پر بحث ختم ہوئی۔
اقول۔رفع جسمی کے معنی لینے میں سب امور مذکورہ ملحوظ ہیں۔سنئیے دونوں فریق یہودو نصاریٰ مسیح کے مقتول ہونے پر مفتق تھے گو ان کے اغراض مختلف تھے۔یہود کی غرض توبموجب تعلیم تورایت اثبات ملعونیت تھی اور عیسائیوں کی کفارہ گناہ ، اس کابیان ذکر نہیں ۔اصل واقعہ صلیبی اگرواقعی ہے تو یہ نتائج زعمی ہر ایک نکال سکتا ہے ۔ اور اگرسرے سے قتل صلیبی ہی متحقق نہیں ہوئی تو اس کی عدم وقوع کے بیان سے ان نتائج واغراض کا انتفاء اور اڑ جانا خود ہی ظاہر ہے۔ واضح ہوکہ اگر قتل صلیبی فی الواقع پایا جاتا تو قتل کی نفی ماقتلوہ سے ہرگز صحیح نہیں ہو سکتی ۔ کیونکہ کذب لازم آتا ہے ۔ بلکہ تردید میں اغراض کی طرف توجہ ضروری تھی ، ماکان المسیح ملعونہ او کفارۃ کما زعمواونحوہ کہنا چاہیے تھا، ایسا ہی اگر صلیب پر چڑھانا بغیر قتل کے واقعی ہوتا ، جیسا کہ مرزا صاحب خیال کرتے ہیں اورماصلبوہ کی تاویل اس طور پر لکھتے ہیں کہ چونکہ صلیب پر چڑھانے کی غرض یعنی قتل حاصل نہ ہوئی تو گویا صلیب پر چڑھانا ہی نہ ہوا، تو اس صورت میں صدر کلام یعنی (وقولھم )کے واخذھم ورفعھم المسیح علی الصلیب کہنا چاہیے تھا، اسلیے کہ بہ نسبت غلط بیانی کے، ایذارسانی خصوصا جو اپنی طرف سے گویا مارہی ڈالنا ہو۔ بڑا جرم سنگین اور مقتضائے مقام واجب الذکر ہے ۔ صدر کلام کو بھی رہنے دیجیے ۔یہ تاویل صریح آیت "واذکففت بنی اسرائیل عنک(مائدہ ،110)کے برخلاف ہے ۔ کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ من جملہ ان انعامات کے جو مسیح پر کیے گئے ہیں اور اس آیت کے ماقبل مذکور ہیں ایک یہ انعام بھی بیان فرماتا ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل کو تجھ سے روک رکھا ہے ۔اورتم کو ان کی ایذاء سے بچالیا ۔بموجب زعم مرزا صاحب کے انعام یہ ہوا کہ تم کو گلی کوچہ میں مخالفوں کے ہاتھ میں خوب پٹوا کر اور رسواکرکے صلیب پر چڑھا دیا ۔ واہ رے مرزا صاحب واہ!اگرمسیح قادیانی انہیں حقائق و اسرار قرآنی کو اپنے ساتھ لایا ہے تو اسی کو مبارک ہوں خدا کسی مسلمان کے نصیب نہ کرے ۔ہم پھر آیت کے ترجمہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ یہود ونصاریٰ کی غلط بیانی کی تردید میں فرماتا ہے "وماقتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لھم ،(نساء ،آیت157)حالانکہ نہ انہوں نے اس کو قتل کیا اور نہ سولی دیا۔لیکن وہ ان کے سامنے مشتبہ کیا گیا کہ وہ مقتول مسیح کا شبیہ سمجھا گیا ۔ چنانچہ ہر دومحاورہ قاموس میں موجود ہیں۔"وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ ، مالھم بہ من علم الا اتباع الظن ،(نساء ،157)جو لوگ اس امر میں قرآن
 
Top