• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سیف چشتیائی صفحہ نمبر200

ام ضیغم شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
ناظم
مہمان
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اقول:۔1۔تفاسیر معتبرہ کے مطالبہ کے بعد اس آڑ میں پنا ہ لینی ،فرار اسی کا نام ہے۔
2۔ابن عباس کا مطلب یہ ہےکہ جھرۃ کا محل متصل فقالوا کے دووجہ سے ہے۔لفظی وجہ تویہ ہے کہ نظم قرآنی میں جس جگہ قول اومافی معناہ کا اجتماع جہرۃ کے ساتھ ایک کلام میں واقعہ ہوا ہے وہاں پر جہرسے قول جہری مراد ہے ۔دیکھو اددن الجھرمن القول اور ولاتجھر بصلاتک ولاتخافت بھا وابتغ بین ذلک سبیلا(بنی اسرائیل ۔119)اور والا تجھرولہ بالقول کجھربعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم وانتم لاتشعرون (حجرات 2)ونظائرہا۔اور وجہ معنوی یہ ہے کہ یہ حسب محاورہ مجرم کی صریح گستاخی پر بولا جاتا ہے کہ فلاں نے چلا کر اور منادی دے کر یہ کام کیا۔گویا وہ جرم ہوئے ایک تو معصیت کا ارتکاب اور دوسرا پر لے درجہ کی شوخی۔آیت کا معنی یہ ہواکہ انہوں نے چلا کر یہ سوال کیا تھا کہ اے موسیٰ ہم کو اپنا خدا دکھلادے۔اورچونکہ بحسب اقرار امروہی صاحب ان کو ردیت قلبی حاصل تھی۔لہذا معلوم ہوا کہ سوال ان کا رویت عینی ہی سے تھا ،الغرض آیت مذکورہ بنی اسرائیل کے جہری سوال سے حکایت ہے نہ سری سے یعنی یہ نہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہو کہ انہوں نے اپنے دلوں میں (ارنا اللہ ) کا خیال کیا تھا ،شعر بالمقابل شعر مذکور کےیوں لکھنا چاہیے ؎
منکوحہ آسمانی وآتھم کی موت میں
حق نے نہ کچھ کہا ہے صفائی یہی تو ہے
جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی توہے
قولہ:۔صفحہ 172کا حاصل :۔1۔مؤلف کا اقرار ہےکہ توفیٰ کو معنیٰ بجز موت اور نیند کے نہیں۔دیکھو شمس الہدایت کا صفحہ 53،پھر فلما توفیتنی کا تیسرا معنی رفعتنی کیسا پیدا ہوگیا ۔اور
2۔درمنثور سے جو عبارت ابوالشیخ کی نقل کی گئی ہے اس میں کہیں مذکور نہیں کہ توفیٰ بمعنی رفع کے ہیں۔
3۔تفسیر عباسی کا حاصل معلوم ہوچکا ہے کہ اس کی روایات کذابین سے مروی ہیں۔
اقول:۔1۔ہم کو اقرار ہے کہ توفیٰ کا معنی قبض واستیفاء یعنی پورا لینے کا ہے ۔جس کا افراد میں سے موت ،نیند اور قبض غیر الروح ہیں،ہم نے ان افراد میں سے کسی کو معنی موضوع لہ توفیٰ کا نہیں کہا ۔اور نہ قبض الروح مقید کو معنی توفیٰ کا ٹھہرایا ہے یہ صرف امروہی صاحب کے نافہمی ہے ۔دیکھو صفحہ 53بالاستیعاب۔اور فلما توفیتنی ک متعلق مفسرین نے جو لکھ اہے وہ اختصار ہے فلما توفیتنی ورفعتنی کا یعنی بحسب وعدہ متوفیک ورافعک کے ،مسیح آسمان پر اٹھائے جانے کے وقت مقبوض ہوکر مرفوع ہوا۔چنانچہ آیت میں اختصار ہے بدلیل بل رفعہ اللہ الیہ کے جس سے صرف رفع کا تحقق معلوم ہوتا ہے ۔ایسا ہی مفسرین وشراح کی کلام میں بھی اختصار ہے۔نہ یہ کہ توفیٰ کامعنی رفع ہے ۔ہاں اس وجہ سے کہ غالبا قبض کرنے سے مطلب اٹھانا ہوتاہے ،توفیٰ سے رفع لینا مستبعد نہیں۔پس اطلاق توفیٰ کا رفع پر مسامحۃ ہو انہ حقیقۃ ۔یہی مراد ہے کرمانی شرح صحیح بخاری کی جو فلما توفیتنی کے تحت میں فلما رفعتنی لکھتا ہے ۔اور یہی ہے مطلب عبارت ذیل شمس الہدایت کا جو صفحہ 56سطر14پر ہے اور توفیٰ سے معنی رفع اور قبض مراد لینا بشہادت قرآن کریم پہلے اسی رسالہ میں ثابت ہوچکا ہے یعنی قبض کا ارادہ حقیقی طور پر اور رفع مسامحۃ)
2۔ابو الشیخ کی عبارت جو درمنثور سے نقل کی گئی ہے اس عبارت میں ابن عباس کا مقولہ (ومدفی عمرہ)آپ نے لحاظ نہیں فرمایا ،جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس نے فلما توفیتنی سے رفعتنی مراد لیا ہے ۔کیونکہ درازی عمروحیات کی تقدیرپر جو مدلول ہے (ومدفی عمرہ)کو رفع متصور ہوسکتا ہے ۔بخلا ارادہ موت کے توفیتنی کے وہ ضد ہے حیات
 
Top