وجناب مولوی قادر صاحب ونظائر ہم سے منصفانہ رائے چاہتے ہیں کہ کیا ان کی یہ تحریر واقعی جواب ہے یاجہل مرکب سومعلوم ہوکہ جس شق کو امروہی صاحب نے لےکر جواب دیا ہے۔ اس کا حاصل تو یہ تھا ،کہ اگر
لاالہ الا اللہ
" میں
الہ
سے مراد واجب الوجود لیا جاوے تو برہان استثنائے میں ترتب لفسدتا کا یعنی تعددووجبا پر صحیح نہیں ہوسکتا ۔ بلکہ بجائے
لفسدتا
کے
لما کانتا یا لما ؤجد
تاچاہیے تھا، کیونکہ قدم چونکہ وجوب کا لازم ہے تو وجبا پر تقدیر تعدد سب کے سب قدیم ہی ہوں گے، اور برتقدیم تخالف مرادان کی ایجاد عالم کا متصور ہی نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ ہر ایک واجب مانع ہے نفوذارادہ دوسری سے، جب عالم کا وجود ہی نہ ہواتوپھر فساد کہاں ۔اور نیز مزعوم مخاطبین یعنی مشرکین عرب کا شرک فی العبادت ہے نہ شرک فی الوجوب بدلیل قولہ تعالی:
والئن سالتھم من خلق السموات والارض لیقولن اللہ
(زمر 38)باقی شقوق اعتراض کےلیے چونکہ مجیب نے نہیں لیے ہم بھی ان کی تشریح نہیں کرتے ۔
امروہی صاحب کی عبارت متعلقہ جواب یہ ہے"واضح ولائح ہوکہ محاورہ قرآن مجید میں بلحاظ تخصیص عقلی اورشرعی کے لفظ الہ سے مرادوہ معبود حقیقی ہے جو واجب الوجود دلذاتہ ۔(صفحہ 23سطر10،9،8)اس کے بعد نفی تعداد اور انحصار واجب الوجود فی فرد واحد پر دلائل عقیلہ ونقلیہ لکھ کر فرماتے ہیں۔ پس معنی کلمہ توحید الاالہ الا اللہ "کے واضح اور صاف ہیں ،یعنی نہیں کوئی معبود حقیقی موجود سوا اللہ کے پس اس میں کذب کہاں ہے ، بلکہ معترض خود محض کاذب ہے اورآیت "لوکان فیھما الہ الااللہ لفسدتا"(انبیاء22)بھی تعدد الہ کے بطلان کےلیے برہان قطعی ہے جس کو دوسرے مقام پر خود جناب باری تعالیٰ نے مفصل طور پر بیان فرماتا ہے۔ کماقال اللہ تعالیٰ مااتخذاللہ من ولد وما کان معہ من الہ اذالذھب کل الہ بما خلق ولعلا بعضھم علی بعض ، سبحٰن اللہ عما یصفون، (مومنون،91)حاصل اس استدلال کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کےلیے ولد متصور نہیں ہوسکتا ، کیونکہ ولد کےلیے ضروری ہے کہ اپنے والد کے اخص اوصاف میں مثلا جیسا کہ یہاں پر واجب الوجود ہے۔ مشارک ہو ورنہ وہ ولد کیا ہوا لیکن ولد میں صفت وجوب الوجود ہرگز ممکن نہیں ہوسکتی ۔کیونکہ ولد تووالد سے مؤخر ہوتا ہے ۔فاین وجوب الوجود ، اورنہ کوئی دوسرا الہ وجوب الوجود میں اس کے ساتھ رکھتا ہے ۔ کیونکہ اس صورت میں ھم دریافت کرتے ہیں کہ ان دونوں الہ کا تمھارے نزدیک متخالف بالذات ہونا واجب ہے یا نہیں، بشق ثانی دونوں الہ بالضرور کسی ذاتی میں مشترک ہوں گے اور دوسری ذاتی میں متخالف ہوں گے پس ترکیب لازم آئی، اندریں صورت دونوں کی احتیاج اپنی اجزاء ذاتیہ کی طرف لازم آوے گی۔ "وھو مناف الوجوب الوجود" اور بشق اول متخالفان بالذات کے افعال کا متخالف ہونا بھی ضروری ہوگا، اور اس کا اقل درجہ یہ ہے کہ عالم کا فسادلازم آئے گا۔ اورنظام وارتباط باہمی عالم کا بالضرور بگڑ جائے گا، لیکن ہم دیکھتے ہیں اور عالمان علوم طبیعیات بخوبی جانتے ہیں کہ ہر ایک اشیاء عالم کا ارتباط دوسری اشیاء عالم کے ساتھ منضبط ہےاورتمام اشیاء عالم باہم منتظم و مرتبط ہیں۔ پس انتفاء تالی مستلزم ہے انتفاء مقدم کودہو المطلوب اوریہی حاصل مطلب ہے آیت وماکان معہ من الہ اذا لذھب کل الہ بما خلق ۔"کا (مومنون91)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناظرین کو معلوم ہوکہ یہ مضمون شمس الہدایت کے مصنف کی کتاب تحقیق الحق سے چرایا ہےجس مخلص کا ذکر امروہی صاحب نے دیباچہ کتاب میں لکھا ہے اسی مخلص نے وہ کتاب قادیان میں پہنچائی تھی باوجود اسکے پھر بھی جواب پر قدرت نہ پائی۔ ؎
حرف درویشاں بذرودمرد دون ۔۔۔۔۔تابخواند برسلیمے اوفنون 12۔محمد غازی
امروہی صاحب کی عبارت متعلقہ جواب یہ ہے"واضح ولائح ہوکہ محاورہ قرآن مجید میں بلحاظ تخصیص عقلی اورشرعی کے لفظ الہ سے مرادوہ معبود حقیقی ہے جو واجب الوجود دلذاتہ ۔(صفحہ 23سطر10،9،8)اس کے بعد نفی تعداد اور انحصار واجب الوجود فی فرد واحد پر دلائل عقیلہ ونقلیہ لکھ کر فرماتے ہیں۔ پس معنی کلمہ توحید الاالہ الا اللہ "کے واضح اور صاف ہیں ،یعنی نہیں کوئی معبود حقیقی موجود سوا اللہ کے پس اس میں کذب کہاں ہے ، بلکہ معترض خود محض کاذب ہے اورآیت "لوکان فیھما الہ الااللہ لفسدتا"(انبیاء22)بھی تعدد الہ کے بطلان کےلیے برہان قطعی ہے جس کو دوسرے مقام پر خود جناب باری تعالیٰ نے مفصل طور پر بیان فرماتا ہے۔ کماقال اللہ تعالیٰ مااتخذاللہ من ولد وما کان معہ من الہ اذالذھب کل الہ بما خلق ولعلا بعضھم علی بعض ، سبحٰن اللہ عما یصفون، (مومنون،91)حاصل اس استدلال کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کےلیے ولد متصور نہیں ہوسکتا ، کیونکہ ولد کےلیے ضروری ہے کہ اپنے والد کے اخص اوصاف میں مثلا جیسا کہ یہاں پر واجب الوجود ہے۔ مشارک ہو ورنہ وہ ولد کیا ہوا لیکن ولد میں صفت وجوب الوجود ہرگز ممکن نہیں ہوسکتی ۔کیونکہ ولد تووالد سے مؤخر ہوتا ہے ۔فاین وجوب الوجود ، اورنہ کوئی دوسرا الہ وجوب الوجود میں اس کے ساتھ رکھتا ہے ۔ کیونکہ اس صورت میں ھم دریافت کرتے ہیں کہ ان دونوں الہ کا تمھارے نزدیک متخالف بالذات ہونا واجب ہے یا نہیں، بشق ثانی دونوں الہ بالضرور کسی ذاتی میں مشترک ہوں گے اور دوسری ذاتی میں متخالف ہوں گے پس ترکیب لازم آئی، اندریں صورت دونوں کی احتیاج اپنی اجزاء ذاتیہ کی طرف لازم آوے گی۔ "وھو مناف الوجوب الوجود" اور بشق اول متخالفان بالذات کے افعال کا متخالف ہونا بھی ضروری ہوگا، اور اس کا اقل درجہ یہ ہے کہ عالم کا فسادلازم آئے گا۔ اورنظام وارتباط باہمی عالم کا بالضرور بگڑ جائے گا، لیکن ہم دیکھتے ہیں اور عالمان علوم طبیعیات بخوبی جانتے ہیں کہ ہر ایک اشیاء عالم کا ارتباط دوسری اشیاء عالم کے ساتھ منضبط ہےاورتمام اشیاء عالم باہم منتظم و مرتبط ہیں۔ پس انتفاء تالی مستلزم ہے انتفاء مقدم کودہو المطلوب اوریہی حاصل مطلب ہے آیت وماکان معہ من الہ اذا لذھب کل الہ بما خلق ۔"کا (مومنون91)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناظرین کو معلوم ہوکہ یہ مضمون شمس الہدایت کے مصنف کی کتاب تحقیق الحق سے چرایا ہےجس مخلص کا ذکر امروہی صاحب نے دیباچہ کتاب میں لکھا ہے اسی مخلص نے وہ کتاب قادیان میں پہنچائی تھی باوجود اسکے پھر بھی جواب پر قدرت نہ پائی۔ ؎
حرف درویشاں بذرودمرد دون ۔۔۔۔۔تابخواند برسلیمے اوفنون 12۔محمد غازی