• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

ضرب اقبال اور قادیانی دجال

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
علامہ قبال ،ؒ اسلامی تاریخ کی ممتاز ،مایہ، ناز اور عبقری شخصیت ہیں ، آپؒ آفاقی مذہب ،اسلام کے پیروکار اور پاسدار ہونے کی وجہ سے اپنی سوچ وفکر بھی آفاقی رکھتے تھے، وہ اپنے وقت کے نہ صرف بہترین شاعر اور فلسفی تھے بلکہ اسلام کے پُرجوش مبلغ اور صاحب ِبصیرت داعی بھی تھے ،آفاق (دنیا بھر میں )میں پھیلے گمراہ خیالات اور باطل افکار ونظریات کی تردید اور تنقید کے لئے علامہ اقبالؒ نے نظم ونثر دونوں سے کام لیا ، ان گمراہ نظریات کا تعلق چاہے سیاست ومعیشت سے ہو یا مذہب اور معاشرہ سے ہو، سب کا آپؒ نے محاسبہ کیا اس محاسبہ نے لادینی نظام ملحٰدانہ خیالات اورگمراہ نظریات کے لئے ’’ضرب ِ کلیمی‘‘ کاکام کیا’’اقبالیات کے تنقیدی سرمایہ‘‘ پر خود آپؒ کا یہ شعر بہترطور پر صادق آتا ہے ؎
بے معجزہ ابھرتی نہیں قومیں جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہُنر کیا
علامہ اقبالؒ کے اشعار کا ایک مجموعہ’’ضرب کلیم‘‘ کے نام سے بھی ہے، اپنے اشعار میں غیر اسلامی افکار ونظریات پر تنقید کے دوران آپؒ نے قادیانی فتنہ ارتداد کا بھر پور محاسبہ کیا ، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ علامہ نے جس گہرائی اور گیرائی کے ساتھ قادیانیت کے افکار ونظریات پر تنقید کی ہے ، شاید ہی اپنے وقت کے کسی اور گمراہ کن خیالات پر آپؒ نے ایسی تنقید کی ہو۔
قادیانی فرقہ اپنی حقیقت اور اصلیت کے اعتبار سے کوئی مذہبی فرقہ نہیں ہے ،بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وقت کی ظالم وجابر سامراجی طاقتوں اور حکومتوں کا پیدا کردہ اور ان ہی کا پروردہ ٹولہ ہے، جب جب بھی اور جہاں جہاں بھی دشمنان ِاسلام کی سازشیں ہوئیں خود کو’’ احمدیہ جماعت‘‘ کہنے والا قادیانی فرقہ ان کے یا رو مددگاراورآلٰہ ِکار کی حیثیت سے سرگرم رہا، قادیانی فرقہ کی طرف سے اپنے کفریہ عقائداور ملحدانہ خیالات کو ’’ حقیقی اسلام‘‘ کا نام دے کر اسلام کی حقیقت کو مشکوک ومشتبہ کرنے اور اُس کی حقانیت کو مجروح کرنے کی مذموم کوششیں آج بھی پوری بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ جاری ہیں،علامہ اقبالؒ نے اپنے اشعارمیں فتنۂ قادیانیت سے متعلق مذکورہ بالا حقائق کو خوب اچھی طرح واضح فرمایا ہے ،اس حوالہ سے کچھ منتخب اشعار پیش خدمت ہیں:
1 – قادیانیت کی پیدائش اور پرورش انگریزوں کے ظالمانہ اور غاصبانہ دور ِاقتدار میں ہوئی، یہ دور مسلمانوں کی مظلومیت ،محکومیت اور مغلوبیت کا دور تھا، اس دور کو آسمانی نشان قراردینے اور’’وحی الٰہی‘‘ کی سند فراہم کرنے کے لئے مرزا غلام قادیانی نے ’’ملہم من اللّٰہ‘‘ ہونے کا دعویٰ کیا، پھر اپنے خود ساختہ الہامات کے ذریعہ مسلمانوں کے ’’زمانہ محکومیت‘‘ کو ’’سایہ رحمت‘‘ثابت کرنے کی پوری کوشش کی، مرزا غلام قادیانی کی ’’ خوئے غلامی‘‘ سے آراستہ اس ’’ الہام بازی‘‘ سے بچے رہنے کے لئے علامہ اقبالؒ یوں دعاء کرتے ہیں ؎
محکوم کے الہام سے اللہ بچائے غارت گر اقوام ہے وہ صورتِ چنگیز
2- قادیانی نبوت دراصل وقت کے ظالم وجابر حکمرانوں کی ’’خانہ ساز نبوت‘‘ ہے برٹش حکومت کا حرم سرا مرزا غلام قادیانی نے ہمیشہ غلامی کی زندگی گذارنے کی تلقین کی ہے، ظالموں سے پنجہ آزمائی کرنے کے بجائے اُن کے سامنے گداگری ،کاسۂ لیسی اور چاپلوسی کی تعلیم دی ہے ، اس کی تحریروں میں غیرت وحمیت، جواں مردی ،جانبازی ، جانثاری ،قوت وشوکت اور حشمت کا کوئی پیغام نہیں ملتا، اس کی مثال اگر دیکھنی ہو تو مرزا قادیانی کا تحریر کردہ رسالہ ’’تحفہ قیصریہ‘‘ اور ’’ستارہ قیصرہ‘‘ ہے جوملکۂ وکٹوریہ کی قدم بوسی کا بدترین نمونہ ہے ، علامہ اقبالؒ مرزا قادیانی کی ایسی ’’ خانہ ساز نبوت‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں:
میں نہ عارف نہ مجدد نہ محدث نہ فقیہ مجھ کو معلوم نہیں کیا ہے نبوت کا مقام
ہاں مگر عالم اسلام پہ رکھتا ہوں نظر فاش ہے مجھ پر ضمیر فلک نیلی فام
عصرِحاضر کی شبِ تارمیں دیکھی میں نے یہ حقیقت کہ ہے روش صفت ماہ تمام
وہ نبوت ہے مسلمان کے لئے برگ حشیش جس نبوت میں نہیں قوت وشوکت کا پیام
(حوالہ:نغمات ختم نبوت ص:۳۳از جناب طاہر رزاق صاحب)
3 – قادیانی افراد اپنے پیشوا مرزا قادیانی کو ’’امام زمانہ‘ ‘بھی مانتے ہیں لیکن امام زمانہ اپنے پیروکاروں کو ایک وحدہٗ لا شریک اورمعبود برحق پروردگار وپالنہار کا پرستار بنانے کے بجائے انھیںسلطنتِ انگریزی کا ’’پرستار‘‘ بننے کی تاکید کرتا ہے، علامہ اقبالؒ مسلمانوں کو ایسی باعث ذلت امامت سے آگاہ وہوشیار کرتے ہوئے کہتے ہیں ؎
فتنہ ملتِ بیضاء ہے امامت اس کی جو مسلمان کو سلاطین کا پرستار کرے
4- ہمارے بعض برادران وطن کوہندوستانی مسلمانوں سے یہ شکایت ہے وہ عبادت وبندگی اور روحانی شانتی وشکتی کے لئے ’’مادر وطن‘‘ کو چھوڑ کر عرب کو دیکھتے ہیں، اُسی کے گن گاتے ہیں، یہ برادران وطن اپنی دانست کے مطابق مسلمانوں میں ’’قوم پرستی ‘‘ کا جذبہ پیدا کرنے اور انھیں ہر پہلو سے ’’قومی دھارے ‘‘ میں شامل کرنے کی باتیں کرتے ہیں، لیکن جب بات نہیں بنتی تو ’’غداران وطن ‘‘ کا لقب دیتے ہیں، انگریز حکمراں اپنے اقتدار وحکومت کے زعم میں مسلمانوں کو محتاج اور گداگرسمجھتے ہیں یہ دونوں (برادران وطن اور انگریز)مسلمانوں کو کچھ بھی کہیں اور سمجھیں لیکن بہر حال انھیں’’مسلمان ‘‘ تو تسلیم کرتے ہیں مگر مسیلمہ پنجاب مرزا غلام قادیانی اور اُس کے پیروکاروں کو مسلمانوں کا اسلام بھی منظور نہیں، فرقہ پرستوں نے محمد عربی ا سے مسلمانوں کا تعلق ختم کرنا چاہا، انگریزوں نے مسلمانوں سے اقتدار اچھینا اور یہ قادیانی مسلمانوں کو دولت اسلام ونعمت ایمان ہی سے محروم کرنے کے درپہ ہیں، شاعر ِاسلام اس پس منظر میں فرماتے ہیں:
غدار وطن اس کو بتاتے ہیں برہمن انگریز سمجھتا ہے مسلمان کو گداگر
پنجاب کے ارباب نبوت کی شریعت کہتی ہے کہ یہ مومن پارینہ ہے کافر
مسکیں ولم ماندہ دریں کشمکش اندر
5- ایک جگہ شاعر ِاسلام نے جھوٹے مدعی نبوت مرزا غلام قادیانی کے ’’فضائل ومناقب اورکمالات وخصوصیات‘‘ کو ایک فارسی نظم میں یوں قلم بند فرمایا ہے:
عصر من پیغمبرے آفرید آںکہ در قرآں بجز خود را ندید
تن پرستادہ وجاہ مست وکم نگاہ اندرونش بے نصیب از لاالہ
در حرم زاد وکلیسا را مرید پردۂ ناموس مارا پردرید
دامن او گرفتن بلہی است سینۂ او از دلِ روشن تہی است
الحذر! از گرمئی گفتارِ او الحذر! از حرف پہلودار او
شیخ او لَرُد فرنگی را مرید گرچہ گوید از مقام بایزید
گفت دین را رونق از محکومی است زندگی از خودی محرومی است
دولت اغیار را رحمت شمرد رقص را گرد کلیسا کردومرد
ترجمہ:میرے زمانہ نے بھی ایک نبی پیدا کیا ، جس کو اپنے سوا قرآن میں کچھ نظر نہ آیا،خودپسند، جاہ طلب اور کوتاہ نظر ہے، اُس کا دل لاالہ سے خالی ہے، مسلمانوںکے گھر پیدا ہوا اور عیسائیوں کا غلام بنا،اُس نے ہماری ناموس کے پردہ کو چاک کرایا،اُس سے عقیدت رکھنا حماقت ہے ،اُس کا سینہ دل کی روشنی سے خالی ہے ، اس کی چرب زبانی سے بچواور اس کی چالبازی کے باتوں میں نہ آؤ،اُس کا پیر شیطان ہے اور وہ فرنگی (انگریزوں)کا غلام ہے ،پھر بھی وہ کہتا ہے میں بایزید کے مقام سے بول رہا ہوں،وہ کہتا ہے کہ غلامی میں ہی دین کی رونق ہے ، اورخودی (خودداری )سے محرومی کو زندگی بتاتا ہے ،غیروں کی حکومت کو اُس نے رحمت سمجھا ، اس لئے وہ کلیسا کے گرد طواف کرتا رہااور مرگیا(یعنی وہ زندگی بھر انگریزوں کے دربار کے چکر لگاتارہا) (حوالہ:نغمات ختم نبوت ص:۴۱تا۴۳از جناب طاہر رزاق)
6- ’’اجراء نبوت‘‘ قادیانی فرقہ کا ایک پُرفریب عقیدۂ ہے ،پُرفریب اس لئے کہ یہ لوگ کہتے تو ہیں کہ آں حضرت اکے بعد بھی انبیاء کرام کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، لیکن آپ ا کے بعد صرف مرزا غلام قادیانی کو ہی نبی مانتے ہیں ،حالاں کہ برساتی مینڈکوں کی طرح مرزا غلام قادیانی کے بشمول اور بھی بہت سارے جھوٹے نبی پیدا ہوئے ،اجرائے نبوت کے عقیدہ کی وجہ سے ان تمام جھوٹے مدعیان نبوت کونبی وپیغمبر ماننا چاہئے تھا لیکن قادیانی صرف اپنے پیشوا کی جھوٹی نبوت کو ماننے پر اکتفا کرتے ہیں،یعنی عملی طور پر وہ بھی سلسلۂ نبوت ورسالت کو جاری نہیں مانتے، پس اصل مسئلہ مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان ’’اجرائے نبوت‘‘ کا نہیں’’ختم نبوت‘‘ کا ہے، مسلمان تو سرے سے اجرائے نبوت کو مانتے ہی نہیں اور قادیانیوں کے یہاں بھی اُس کا عملاً وجودنہیں، البتہ ختم نبوت کے معنی مسلمانوں کے نزدیک یہ ہے کہ رسول اللہا آخری نبی ہیں، آپ اکے بعد کسی کو نبوت نہیں ملے گی،اور قادیانیوں کے نزدیک ’’ختم نبوت‘‘ کا معنی یہ ہے کہ مرزا غلام قادیانی ’’آخری نبی ‘‘ ہے آں حضرت اکے بعد صرف اُسی کو ’’نبی‘‘ بنایا گیا اب اِس ملعون کے بعدکسی کو نبوت نہیں ملے گی، شاعرِاسلام علامہ اقبالؒ نے ایک جگہ اپنے فارسی اشعار میںقادیانیوں کے گمراہ نظریہ ’’اجرائے نبوت ‘‘ کی یوں تردیدفرمائی ہے ؎
پس خد برما شریعت ختم کرد بر رسولِ ما رسالت ختم کرد
رونق از ما محفل ایام را او مُرسل را ختم وما اقوام را
خدمت ساقی گرمی باما گزاشت داد مارا آخریں جامے کے داشت
لانبی بعدی زا احسان خدا است پردۂ ناموس دین مصطفی است
قوم را سرمایہ قوت ازد حفظ سروحدت ملت افرد
حق تعالیٰ نقش ہر دعوی شکست تاابد اسلام را شیرازہ بست
دل زغیر اللہ مسلمان برکند نعرہ لاقوم بعدی می زند
ترجمہ:خدا تعالیٰ نے ہم پر شریعت اورہمارے رسول اللہ ا پر رسالت ختم کردی، ہمارے رسول اللہاپر سلسلۂ انبیاء اور ہم پر سلسلہ اقوام تمام ہوچکا ، اب بزم جہاں کی رونق ہم سے ہے ، میخانہ شرائع کا جام ہمیں عطا فرمایا گیا ، قیامت تک ساقی گری کی خدمت اب ہم ہی انجام دیں گے ، رحمۃ اللعالمین ا کا یہ فرمان کہ ’’میرے بعدکوئی نبی نہیں‘‘احسانات ِخداوندی میں ایک بڑا احسان ہے، دین مصطفی ا کی عزت وناموس کا محافظ بھی یہی ہے، مسلمانوں کا سرمایۂ ایمان اور قوت یہی عقیدہ ختم نبوت ہے اور اسی میں وحدت ملت کے تحفظ کا راز پوشیدہ ہے، اللہ تعالیٰ نے (حضوراکے بعد)ہر دعویٰ نبوت کو باطل ٹہراکر اسلام کا شیرازہ ہمیشہ کے لئے قائم کردیا، اسی عقیدہ کے باعث مسلمان ایک اللہ کے سوا سب سے تعلق توڑلیتا ہے اور ’’امت مسلمہ کے بعد کوئی امت نہیں ‘‘ کا نعرہ بلند کرتا ہے‘‘
(حوالہ:رموز بے خودی بحوالہ:قادیانیت ہماری نظر میں ص:۲۱۲۔ ۲۱۳مصنف جناب متین خالد )
7- مرزا غلام قادیانی کے مختلف جھوٹے دعوؤں میں ایک دعوی’’ امام مہدی‘‘ ہونے کا بھی ہے، اسلام میں ’’امام مہدی‘‘ ایک ایسی ذات وشخصیت کا تصور ہے جن کا ظہور قیامت کے قریب زمانہ میں ہوگا اور وہ اپنے زمانہ میں دشمنان ِاسلام سے برسرپیکار ہوں گے،دجال اور اُس کی فوجوں سے مقابلہ کریں گے، گویا امام مہدی کے ظہور سے دنیا کے حالات میں زلزلہ پیدا ہوجائے گا، اس کے برخلاف قادیانی فرقہ کے یہاں’’ امام مہدی‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی خون وخرابہ نہ ہو، جنگ اور جہاد کے حالات نہ رہیں، وقت کے ظالم وجابر حکومتوں کی غلامی اور چاپلوسی قادیانی فرقہ کے خود ساختہ ’’امام مہدی‘‘ کی خوبی وخصوصیت رہی، علامہ ایسے’’ مہدی کذاب ‘‘ کے مقابلہ میں ’’مہدی برحق ‘‘ کی ضرورت یوں بیان کرتے ہیں:
دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت ہو جس کی نگہ زلزلہ عالمِ افکار
8- قادیانی فرقہ چوں کہ انگریزوں کا ’’خودکاشتہ پودا‘‘ تھا ،اس لئے غدارِوطن کا یہ ٹولہ شروع ہی سے انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کا مخالف تھا، مرزا غلام قادیانی کی تحریروں کا لب لباب برطانوی سامراج کی اطاعت اور جہاد کی ممانعت ہوا کرتا تھا،احادیث میں وطن کی حفاظت میں انتقال کرجانے کو شہید فرمایا گیا ، اس لئے مسلمان جنگ آزادی کو جذبۂ جہاد سے لڑرہے تھے ، یوں تو بعض دوسرے لوگ بھی جنگ آزادی کے مخالف تھے ، لیکن اس مخالفت کے پس پردہ ان کے ذاتی اور سیاسی مفادات تھے، جنگ آزادی کے ان دوسرے مخالفین میں اتنی تو مذہبی غیرت وحمیت تھی انھوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لئے مذہب کو آڑنہیں بنایا،اُس کو اپنی علاقائی وملکی سیاست تک محدود رکھا، لیکن مرزا غلام قادیانی وہ ننگ ِدین اور ننگِ وطن انسان ہے جس نے اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے مذہب کو استعمال کیا،اور مذہبی زبان واسلوب میں جہاد کے عنوان سے لڑی جانے والی جنگ آزادی کو حرام قراردیا ،چنانچہ ایک جگہ وہ اپنے اشعار میں کہتا ہے:
اب چھوڑدو جہاد کا ائے دوستو خیال دین کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
اب آگیا مسیح جودین کا امام ہے دین کے تمام جنگوں کا اب اختتام ہے
اب آسماں سے نورِخدا کا نزول ہے اب جنگ اورجہاد کا فتویٰ فضول ہے
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا یہ اعتقاد
(حوالہ:روحانی خزائن۱۷/۷۸،۷۷)
غرض یہ کہ اس طرح کی تحریروں سے مسلمانوں میں ’’عقابی روح پیدا کرنے‘‘ کے بجائے اُن میں ’’خوئے غلامی‘‘ پختۂ تراور شیوۂ بزدلی کو تیز تر کیا جانے لگا ، مرزا غلام قادیانی کی طرف سے جہاد کو حرام قراردینے کے فتویٰ پر علامہ اقبالؒ نے یوں طنز فرمایا:
فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر
تعلیم اُس کو چاہئے ترک جہاد کی دنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہو خطر
حرمتِ جہاد سے مرزا غلام قادیانی کا مقصد مسلمانوں کو نصیحت کرنا تھا وہ جنگ وجدال اور قتل وقتال سے دور رہیں ،اس لئے کہ یہ برائی ہے ، علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ اگریہ بُرائی ہے توانگریزوں کوبھی اس برائی روکا جائے وہ کیوں اپنے غاصبانہ اقتدار کی بقاء کے لئے جنگ کرتے ہیں اور مسلمانوں کا قتل وخون کرتے ہیں برائی کا پیمانہ ایک ہونا چاہئے ،علامہ اقبال ؒ مرزا قادیانی سے پوچھتے ہیں:
ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
حق سے اگر غرض ہے، زیبا ہے کیا یہ بات؟ اسلام کا محاسبہ ،یورپ سے درگذر
9- عقیدۂ ختم نبوت، وحدت امت کی بنیاد ہے ،قادیانی فرقہ نے اس عقیدہ کا انکارر کرکے اتحاد ِامت کی بنیاد کو متزلزل اورکھوکھلا کرنے کی پوری کوشش کی، ملی اتحاد ،علامہ اقبال کے اشعار کا جلی عنوان ہے ،آپؒ قادیانی فتنہ کو مسلمانوں کے اتحاد ویکجہتی کے لئے خطر ہ سمجھتے تھے، مرزا غلام قادیانی کے بعض مُرید علامہ اقبالؒ کے دوست اور ان کے ہم محلہ تھے،علامہ کی خوش اخلاقی اور کھ رکھاؤ سے انھیں دھوکہ ہوگیااور وہ علامہ اقبالؒپر قادیانیت قبول کرنے کے لئے ڈورے ڈالنے لگے ،ایک دوست نے توباضابطہ علامہ کو مرزاقادیانی سے بیعت ہونے کے لئے خط لکھ ڈالا، علامہ نے اس کے جواب میں ایک نظم لکھی، یہ نظم ’’خط منظوم پیغام بیعت کے جواب میں‘‘کے عنوان سے ماہنامہ مخزن بابت مئی۱۹۰۲ء میں شائع ہوئی ، اس نظم میںمسلمانوں کے ملی اتحادویکجہتی کو ختم کرنے اور مسلم گھرانوں وخاندانوں میں اختلاف وانتشار کو فروغ دینے کے سلسلہ میں علامہ اقبالؒ قادیانیت کے کردارکو یوں واضح کرتے ہیں:
پردۂ میم میں رہے کوئی اس بُھلاوے کو جانتاہوں میں
تنکے چن چن کے باغ الفت کے آشیانہ بنارہا ہوں میں
ایک ایک دانہ پہ ہے تیری نظر اور خرمن کو دیکھتا ہوں میں
تو جدائی پہ جان دیتا ہے وصل کی راہ سوچتاہوں میں
بھائیوں میں بگاڑہو جس سے ایسی عبادت کو کیا سراہوں میں
میرے رونے پہ ہنس رہا ہے تو تیرے ہنسنے کو رورہا ہوں میں
(حوالہ:قادیانیت ہماری نظر میں ص:۲۱ )
علامہ اقبالؒ کے ان اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فتنۂ قادیانیت کی تردید میں بہت حساس اوربیدار مغز تھے، قادیانیت کی فتنۂ سامانی کو نظر انداز کرنے کے لئے وہ ذرہ برابر روادار اور ایک لمحہ کے لئے بھی تیار نہیں تھے، مگر افسوس آج جو ’’شیدائیان ِاقبال‘‘کہلائے جاتے ہیں اور ’’ماہرین اقبالیات‘‘میں جن کا شمارہوتا ہے ، انھوں نے ختم نبوت اور قادیانیت کو موضوع ِسخن نہیں بنایا، شاید یہ موضوع ان کی نظر میں’’مذہبی جھگڑوں‘‘اور ’’مولویانہ بحثوں‘‘کی طرح ہے ،لیکن آج جب کہ قادیانی فرقہ کی سازشیں اور اُس کی ریشہ دوانیاں پہلے سے زیادہ بڑھ چکی ہیں تو ان حالات میں فتنۂ قادیانیت کے حوالہ سے ’’فکر اقبال‘‘ اور’’پیام اقبال‘‘ کوسمجھنے اور عام کرنے کی ضرورت ہے، ہے کوئی جو اقبال ’’بانگ درا‘‘ پر گوش بر آواز ہو!!
(بصیرت فیچرس)
از : مولانا محمد انصاراللہ قاسمی
آرگنائزر مجلس تحفظ ختم ِ نبوت تلنگانہ وآندھراپردیش
 
Top